سورہ توبہ: آیت 36 - إن عدة الشهور عند الله... - اردو

آیت 36 کی تفسیر, سورہ توبہ

إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ عِندَ ٱللَّهِ ٱثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِى كِتَٰبِ ٱللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ مِنْهَآ أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا۟ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَٰتِلُوا۟ ٱلْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَٰتِلُونَكُمْ كَآفَّةً ۚ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna AAiddata alshshuhoori AAinda Allahi ithna AAashara shahran fee kitabi Allahi yawma khalaqa alssamawati waalarda minha arbaAAatun hurumun thalika alddeenu alqayyimu fala tathlimoo feehinna anfusakum waqatiloo almushrikeena kaffatan kama yuqatiloonakum kaffatan waiAAlamoo anna Allaha maAAa almuttaqeena

آیت 36 کی تفسیر

درس نمبر 89 ایک نظر میں

سیاق کلام اپنے منطقی انداز میں ، رومیوں اور شمالی عرب میں ان کے حلیف نصرانی قبائل کے خلاف جنگ کی تیاریوں کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ تیاریاں اور لشکر کشی بظاہر رجب کے مہینے میں ہو رہی تھی۔ لیکن در اصل یوں نہ تھا۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ اس سال ماہ رجب اپنی حقیقی جگہ پر نہ تھا۔ اور یہ اس لیے کہ انہوں نے حساب و کتاب کے لیے النسی کا جو نظام رجاری کر رکھا تھا (تفصیلات آگے آرہی ہیں) تو اس کے مطابق ماہ ذوالحجہ اپنی جگہ پر نہ تھا۔ یہ ذوالقعدہ کی جگہ تھا اور رجب جمادی الاخری کی جگہ آ رہا تھا اور اس اضطراب کا اصل راز یہ تھا کہ جاہلیت کا نظام خود اپنے اصول و قواعد کی پابندی بھی نہ کرتا تھا۔ وہ قانون اور اصولوں کا احترام محض ظاہر داری کے طور پر کرتا تھا۔ ہر جاہلی نظام میں چونکہ حلال و حرام کے حدود وقیود خود انسان ہی مقرر کرتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے بنائے ہوئے حدود میں تاویلات کرکے خود حدود شکنی کا فریضۃ بھی سر انجام دیتے ہیں۔

اس کی کہانی یوں ہے کہ اللہ نے تو چار مہینوں کو حرام قرار دیا تھا۔ ان میں تین ملے ہوئے تھے یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا منفرد تھا یعنی رجب۔ یہ تحریم حج کے مشہور مہینوں میں تھی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے تھی۔ اگرچہ عربوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں بےحد تحریف کردی تھی اور جو دین صیح بھی تھا ، اس سے انہوں نے انحراف کرلیا تھا لیکن حرام چار مہینوں کی حرمت کو وہ بہرحال حضور کے دور تک ملحوظ رکھتے تھے۔ اس لیے کہ ان کا تعلق موسم حج سے تھا اور ججازیوں کی معاشی زندگی کا تو دار و مدار ہی ان مہینوں پر تھا۔ خصوصا اہل مکہ کے سکان کا۔ کیونکہ موسم حج میں تجارت کی کامیاب کا دارومدار ہی اس پر تھا کہ لوگوں کی نقل و حرکت آزادانہ طور پر جاری رہے اور تجارت ہوتی رہے۔

اس کے بعد یوں ہوا کہ بعض عربی قبائل کی ذاتی ضروریات کا ٹکراؤ اس تحریم سے ہوا ، اور ان کی خواہشات نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے ان لوگوں کو باور کرایا کہ حرام مہینوں کے اندر اپنی خواہشات کے مطابق تقدیم و تاخیر کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کہ کسی مہینے کو کسی سال میں مقدم کردیا جائے اور کسی سال میں موخر کردیاجائے۔ مہینوں کی تعداد و چار ہی رہے لیکن ان مہینوں کے نام بدل دیے جائیں۔ اس طرح وہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کردیں اور اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کو حلال بھی کردیں۔ لہذا جب 9 ہجری کا سال آیا تو اس میں ماہ رجب حقیقی رجب نہ تھا۔ سی طرح ماہ ذوالحجہ بھی حققی ذوالحجہ نہ تھا۔ رجب در اصل جمادی الاخری تھا اور ذوالحجہ در اصل ذیقعدہ تھا اور فی الحقیقت یہ لشکر کشی در حقیقت تو جمادی الاخری میں تھی لیکن نام کے اعتبار سے یہ رجب میں تھی اور یہ ان لوگوں کے نسیئ کے تصرفات کی وجہ سے ایسا تھا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان احکامات کی وجہ سے عمل نسیئ کو آئندہ کے لیے موقوف قرار دے دیا۔ اور اس بات کی وضاحت کی اس عمل نسیئ کے ذریعے یہ لوگ چونکہ خود مہینوں کو حال قرار دتے ہی یا حرام قرار دیتے ہیں یا حرام قرار دیتے ہیں اور یہ عمل چونکہ اصول دین کے خلاف ہے۔ کیونکہ دین کا یہ اصل الاصول ہے کہ حلال و حرام کے حدود کا عین صرف اللہ تعالیٰ کرسکتا ہے۔ یہ اللہ کا مخصوص حق ہے۔ اور اس حق اور اختیار کو اللہ کے اذن کے بغیر استعمال کرنا کفر اور شرک ہے۔ بلکہ یہ عمل کفر کے میدان میں آخری حدود تک بڑھ جانے کے مترادف ہے۔ اس طرح ان آیات کے ذریعے لوگوں کے دلوں سے خلجان کو دور کردیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اصول بھی واضح کردیا گیا کہ اسلام نظام زندگی میں حرام و حلال کے تعین کا اختیار صرف اور صرف اللہ کو ہے۔ اور اس عقیدے کا تعلق اس عظیم حقیقت سے ہے جو اس پوری کائنات کے ناموس کے اندر پوشیدہ حقیقت سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر ودیعت کی ہے اور تخلیق کے پہلے دن سے۔ اس طرح اللہ کی جانب سے لوگوں کے لیے قانون سازی در اصل اس اصول پر مبنی ہے جو اللہ نے اس کائنات کے لیے ودیعت کیا ہے اس لیے لوگوں کے لیے کسی شخص کی جانب سے قانون سازی کا کام کرنا گویا کفر میں اغے بڑھنا ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنا ہے۔

آیات کے اس حصے میں اس حقیقت کو بھی دوبارہ ذہن نشین کرانا مطلوب ہے۔ جو ان آیات سے متصلا پہلے بھی بیان کی گئی ہیں۔ وہ یہ کہ اہل کتاب بھی مشرکین ہیں اور دشمنی اور جہاد کے زاویہ سے وہ مشرکین کے محاذ میں شامل ہیں اور حکم یہ ہے کہ ان سب کے ساتھ جنگ کی جائے یعنی مشرکین اور اہل کتاب دونوں کے ساتھ۔ اس لیے کہ یہ سب کے سب اہل اسلام کے خلاف جہاد اور جنگ کرتے ہیں اور پوری اسلامی تاریخ سے ان کا یہ طرز عمل پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے اور قرآن کے الفاظ تو اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ اہل کتاب اور مشرکین دونوں کا مشترکہ ہدف یہی ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر وقت برسر پیکار رہتے ہیں۔ اور جب بھی ان کا سامنا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ اپنے درمیان کی عداوتوں کو بھول جاتے ہی ، چاہے یہ اختلافات باہم عداوتوں کے حوالے سے ہوں یا عقائد و نظریات کے حوالے سے ہوں چناچہ اسلام کی راہ روکنے کے لیے پھر ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور وہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے متحد اور متفق ہوجاتے ہیں۔

یہ حقیقت کہ اہل کتاب دوسرے مشرکوں کی طرح مشرک ہیں اور یہ کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی طرح لڑتے ہیں۔ اس بات کی متقاضی ہے کہ مسلمان بھی ان تمام مشرکوں کے خلاف لڑیں چاہے ان کا تعلق مشرکین اہل کتاب سے ہو یا مشرکین عرب سے ہو۔ اور دوسری یہ کہ نسیئ کا عمل کفر کی ایڈوانس شکل ہے کیونکہ ایک غلط کام ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اللہ کے اختیار قانون سازی پر دست درازی بھی ہے اس لیے یہ سادہ کفر سے زیادہ کفر ہے۔ یہی وہ مناسبت ہے جس کی وجہ سے سابقہ مضمون کے ساتھ ان آیات کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ سابقہ آیات میں ان رکاوٹوں کا ذ کر تھا جو جہاد کے لیے نکلنے میں حائل ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاد اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے خلاف تھا۔

درس نمبر 89 تشریح آیات

36 ۔۔۔ تا۔۔۔ 37

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ : " حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ "

یہ آیت زمانے کو اس معیار اور قانون کی طرف لوٹا دتی ہے اور زمانے کا دوران اس نظام کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق کی ہے یعنی زمانے کا تعین تخلیق کائنات کے مطابق ہوگا۔ اس آیت میں اسی طرح بھی بھی اشارہ ہے کہ اس کائنات میں زمانے کا ایک نہایت ہی مستحکم دور کام کرتا ہے اور اس دوران میں سال کو بارہ مہینوں کے اندر تقسیم کیا گیا ہے۔ اس مستحکم دوران میں کمی و بیشی نہیں پیدا کی جاسکتی۔ اور یہ دوران زمان اور حولان حول میں نہایت ہی منضبط ہے اور یہ اس قانون قدرت کے مطابق ہے جس کے تحت اس کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ یہ نظام اور ضابطہ یا ناموس یا قدر اس دقیق اور مستحکم ہے کہ اس میں کوئی کمی و بیشی نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ زمانے کا دوران نہایت ہی دقیق معیار کے مطابق سر انجام پاتا ہے۔ اور آغاز تخلیق کائنات سے اس ضابطے کو جاری وساری کیا گیا ہے اور یہ کبھی موقوف نہیں ہوا ہے۔

زمان و مکان کے قانون حرکت کے اس استحکام کو یہاں اس لیے لایا گیا ہے کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ حرام و حلال کے حدود وقیوم کا تعین کائنات کے اس مستحکم اصول پر مبنی ہے ۔ لہذا حلال و حرام کا تعین محض وقتی خواہشات اور میلانات کی اساس پر نہیں ہوسکتا۔ نہ اس کی حرکت میں تقدیم و تاخیر کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ نہایت ہی غیر معمولی امر ہے۔

ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ " یہی ٹھیک ضابطہ ہے " پس یہ دین اس کائنات کے مضبوط ضابطے کے مطابق ہے اور کائنات کا مضبوط ضابطہ وہ ہے جس کے مطابق یہ کائنا روز اول سے چل رہی ہے جب سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔

یہ ایک مختصر آیت ہے لیکن اس میں معانی و مدلولات کا ایک لامتناہی سلسلہ رکھ دیا گیا ہے۔ یہ معانی پے در پے چلے آ رہے ہیں۔ بعض ، بعض کے لیے شریح اور توسیع کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ بعض کی وجہ سے دوسرے مطالب قوی ہوتے ہیں۔ وہ تمام علمی اور سائنسی اکتشافات اس کے مفہوم میں داخل ہیں جو جدید انسان اس دنیا میں سائنس کے ذریعے سامنے لاتا ہے اور مسلسل تجربات کرکے مزید حقائق کو سامنے لا رہا ہے۔ اس طرح اصول دین اور اصول کائنات کے درمیان مسلسل تطابق کا اظہار ہوتا ہے اور دینی اصودل دور جدید میں اچھی طرح ذہنوں میں بیٹھ رہے ہیں اور اس کے اصول اور اس کی بنیادیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ یہ تمام مدلولات صرف 12 الفاط کے ذریعے منضبط کیے گئے ہیں اور یہ الفاظ بھی بظآہر نہایت ہی معمولی اور سادہ ہیں اور عام فہم اور سادہ ہیں۔

فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ " ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو " ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو "

ان چار مہینوں میں ایک دوسرے کے اوپر ظلم نہ کرو کیونکہ یہ اصول اس اصول سے مربوط ہے جس کے اوپر کائنات کو منظم کیا گیا ہے اور یہ اصول اس اصول سے مربوط ہے جس کے اوپر کائنات کو منظم کیا گیا ہے اور یہ اصول اعظم یہ ہے کہ جس طرح اس کائنات کا قانون ساز اللہ ہے ، اسی طرح لوگوں کے لی بھی ضابطہ بندی کرنے والا اللہ ہے۔ لہذا ان ضوابط کی خلاف ورزی ظلم ہوگا لہذا تم ان حرام مہینوں کو اپنے لیے حلال کرکے امن و سلامتی کے خلاف اقدام مت کرو۔ یہ اللہ کے ارادے اور مشیئت کی خلاف ورزی ہوگی اور یہ خلاف ورزی ظلم ہے اور یہ ظلم کرکے اپنے آپ کو دنیا و آخرت کے عذاب کے لیے مستحق نہ ٹھہراؤ اور اپنے معاشرے کے اندر قلق و اضطراب نہ پیدا کرو اور اس دنیا کو اس جنگ کا شکار نہ بناؤ جس کا کوئی مقصد نہیں جو امن و سلامتی سے متضاد ہے۔

وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : " اور مشرکوں سے سب سے مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے "

یعنی حرام مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں الا یہ کہ مشرکین حرام مہینوں میں تم پر حملہ کردیں۔ اگر وہ حرام مہینوں میں تم پر دست درازی کریں تو تم ان مہینوں میں اپنا دفاع کرسکتے ہو کیونکہ اگر یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیا جائے و اس طرح اچھے اخلاف کی حامل قوتیں کمزور پوزیشن میں چلی جائیں گی اور انسانی اخلاق کی حامل قوتیں اشرار کا مقابلہ نہ کرسکیں گی اور دنیا میں شر و فساد کا دور دورہ ہوجائے گا اور دنیا پر طوائف الملوکی کا غلبہ ہوجائے گا۔ لہذا حرام مہینوں میں جارحیت کا مقابلہ کرنا بھی در اصل ان مہینوں کی حرمت کو بچانا ہے تاکہ آئندہ ان کا احترام کیا جائے اور کوئی کسی کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہ کرے۔

وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً : " اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں " یعنی تم سب ان کے ساتھ لڑو ، بلا استثناء سب کے سب ، اس حکم سے کوئی جماعت بھی مستثنی نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ سب تم سے لڑتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مستثنی نہیں ہے۔ اور وہ بھی تم میں سے کسی مستثنی نہیں کرتے۔ لہذا معرکہ جہاد درحقیقت شرک اور توحید کے نظریات کے درمیان معرکہ ہے۔ یہ ایمان اور کفر اور ہدایت و ضلالت کے درمیان معرکہ آرائی ہے۔ یہ ایسے دو بلاکوں کے درمیان محاذ آرائی ہے جن کے درمیان کسی بھی وقت امن قائم نہیں ہوسکتا ، نہ ان کے درمیان کوئی مکمل اتفاق ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اختلاف کوئی عارضی اور جزوی اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ دائمی اور بنیادی اختلاف ہے۔ یہ ایسے مصالح اور مفادات کا اختلاف نہیں ہے جن کے درمیان یگانگت پیدا کی جاسکتی ہو۔ نہ زمین کے کسی رقبے پر اختلاف ہے جسے تقسیم کرکے اس کی حد بندی کی جاسکتی ہو ، اگر امتت مسلمہ یہ سمجھے کہ اس کے اور کفار اہل کتاب اور بت پرستوں کے درمیان برپا جنگ اقتصادیات کی جنگ ہے یا کوئی قومی جنگ ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہوگی یا اگر اسے کوئی یہ بات سمجھاتا ہے تو وہ اسے دھوکہ دیتا ہے۔ یہ معرکہ محض وطنی یا پالیسی کا معرکہ نہیں ہے ، یہ تو ایک ہمہ گیر نظریاتی معرکہ ہے۔ اور یہ اس نظام اور دین اسلام اور کفر کے درمیان معرکہ ہے۔ اس ہمہ گیر معرکے کا فیصلہ انصاف اور کچھ لے اور کچھ دے کے اصول پر نہیں ہوسکتا ، نہ مذاکرات کے ذریعے اسے حل کیا جاسکتا ہے۔ اس کا حل تو صرف عمل جہاد میں مضمر ہے۔ مسلسل جدوجہد اور پیہم عمل میں اس کا حل مضمر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ سنت ہے جو کسی طرح بھی نہیں ٹل سکتی۔ یہ وہ نظام اور قانون ہے جس کے اوپر نظام کائنات کھڑآ ہے۔ آسمان و زمین اسی ناموس اکبر کے مطابق قائم اور رواں دواں ہیں۔ دنیا کے ادیان اور نظریات بھی اس ناموس کے مطابق چل رہے ہیں۔ دل اور دماگ کا نظام بھی یہی تکوینی نظام ہے اور یہ اسی روز سے قائم ہے جس روز سے اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق کی ہے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ " اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے " لہذا کامیابی ان متقین کے لیے لکھ دی گئی ہے جو اللہ کی حدود کا احترام کرتے ہیں ، اللہ جسے حرام قرار دے اسے حرام قرار دیتے ہیں اور اللہ کے قوانین سے انحراف نہیں کرتے۔ لہذا قانون قدرت یہ ہے کہ مسلمان مشرکین خلاف عمل جہاد کو لمحہ بھر کے لیے بھی موقوف نہ کریں ، اس سے انحراف نہ کریں اور اس مسلسل جہاد میں وہ حدود اللہ کو پامال نہ کریں اور حدود اللہ کا احترام کریں اور عمل جہاد کو اس کے پورے قوانین اور آداب کے مطابق جاری رکھیں اور اس جہاد میں ان کے پیش نظر صف رضائے الہی ہو ، دل میں بھی اور علانیہ طور پر بھی۔ اگر وہ ان اصولوں کے مطابق جہاد میں داخل ہوں تو فتح ان کے قدم چومے گی کیونکہ اس صورت میں اللہ ان کے ساتھ ہوگا اور جس کا ساتھی اللہ ہو ، اس کی کامیابی میں کوئی شک نہیں رہتا۔

آیت 36 اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اللہ کے قائم کردہ تکوینی نظام اور تشریعی قانون کے تحت مہینوں کی تعداد بارہ مقرر کی گئی ہے۔مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط ان چار مہینوں ذو القعدہ ‘ ذو الحجہ ‘ محرم اور رجب کو اشہر حرم کہتے ہیں اور ان میں جنگ وغیرہ جائز نہیں۔ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُج فَلاَ تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ اَنْفُسَکُمْ قانون خداوندی کے مطابق یہ چار مہینے شروع سے محترم ہیں ‘ لہٰذا تم لوگ ان مہینوں کے بارے میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ اس میں قریش کے اس رواج کی طرف اشارہ ہے جس کے تحت وہ محترم مہینوں کو اپنی مرضی سے بدلتے رہتے تھے۔ کسی مہم یا لڑائی کے دوران میں اگر کوئی ماہ حرام آجاتا تو اس مہینے کے احترام میں جنگ وجدال بند کرنے کے بجائے وہ اعلان کردیتے کہ اس سال اس مہینے کے بجائے فلاں مہینہ ماہ حرام کے طور پر منایا جائے گا۔ اس طرح انہوں نے پورا کیلنڈر گڈ مڈ کر رکھا تھا۔ لیکن مہینوں کے ادل بدل اور الٹ پھیر سے گزرتے ہوئے قدرت خداوندی سے 10 ہجری میں کیلنڈر واپس اپنی اصلی حالت پر پہنچ گیا تھا۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا : اِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ کَھَیْءَتِہٖ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔۔ 1 یعنی زمانے کی یہ تقویم کیلنڈر پورا چکر لگا کر ساری غلطیوں اور ترامیم میں سے گزرتے ہوئے اب ٹھیک اسی جگہ پر پہنچ گئی ہے جس پر اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔

احترام آدمیت کا منشور مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صادق و مصدوق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے حج کے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں۔ تین پے درپے ذوالقعدہ ذوالحجہ، محرم اور چوتھا رجب جو مضر کے ہاں ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے پھر پوچھا یہ کون سا دن ہے ؟ ہم نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے۔ آپ نے سکوت فرمایا ہم سمجھے کہ شاید آپ اس دن کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے پھر پوچھا کیا یہ یوم النحر یعنی قربانی کا دن نہیں ؟ ہم نے کہا ہاں پھر پوچھا یہ کونسا مہینہ ہے ؟ ہم نے کہا اللہ جانے اور اس کا رسول آپ نے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاہد آپ اس مہینے کا نام کوئی اور رکھیں گے آپ نے فرمایا کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے ؟ ہم نے کہا ہاں۔ پھر آپ نے پوچھا یہ کونسا شہر ہے ؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول ﷺ خوب جاننے والے ہیں ؟ آپ پھر خاموش ہو رہے اور ہمیں پھر خیال آنے لگا کہ شاید آپ کو اس کا کوئی اور ہی نام رکھنا ہے پھر فرمایا یہ بلدہ (مکہ) نہیں ہے ؟ ہم نے کہا بیشک۔ آپ نے فرمایا یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم میں آپس میں ایسی ہی حرمت والی ہیں جیسی حرمت و عزت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں، تم ابھی ابھی اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا سنو میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگو بتاؤ کیا میں نے تبلیغ کردی ؟ سنو تم میں سے جو موجود ہیں انہیں چاہئے کہ جو موجود نہیں ان تک پہنچا دیں۔ بہت ممکن ہے کہ جسے وہ پہنچائے وہ ان بعض سے بھی زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہو اور روایت میں ہے کہ وسط ایام تشریق میں منیٰ میں حجتہ الوداع کے خطبے کے موقعہ کا یہ ذکر ہے۔ ابو حرہ رقاشی کے چچا جو صحابی ہیں کہتے ہیں کہ اس خطبے کے وقت حضور ﷺ کی ناقہ کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور لوگوں کی بھیڑ کو روکے ہوئے تھا۔ آپ کے پہلے جملے کا یہ مطلب ہے کہ جو کمی بیشی تقدیم تاخیر مہینوں کی جاہلیت کے زمانے کے مشرک کرتے تھے وہ الٹ پلٹ کر اس وقت ٹھیک ہوگئی ہے جو مہینہ آج ہے وہی درحقیقت بھی ہے۔ جیسے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ یہ شہر ابتداء مخلوق سے باحرمت و باعزت ہے وہ آج بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک حرمت والا ہی رہے گا پس عربوں میں جو رواج پڑگیا تھا کہ ان کے اکثر حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہیں ہوتے تھے اب کی مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے حج کے موقعہ پر یہ بات نہ تھی بلکہ حج اپنے ٹھیک مہینے پر تھا۔ بعض لوگ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدیق اکبر ؓ کا حج ذوالقعدہ میں ہوا لیکن یہ غور طلب قول ہے جیسے کہ ہم مع ثبوت بیان کریں گے (اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّيُوَاطِــــُٔــوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَيُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰهُ ۭ زُيِّنَ لَهُمْ سُوْۗءُ اَعْمَالِهِمْ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 37؀) 9۔ التوبہ :37) کی تقسیر میں اس قول سے بھی زیادہ غرابت والا ایک قول بعض سلف کا یہ بھی ہے کہ اس سال یہود و نصاریٰ مسلمان سب کے حج کا دن اتفاق سے ایک ہی تھا یعنی عید الاضحیٰ کا دن۔ ٭ فصل ٭ شیخ علم الدین سخاوی نے اپنی کتاب المشہور فی اسماء الایام و المشہور میں لکھا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ سے اس کی حرمت کی تاکید ہے اس لئے کہ عرب جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے کبھی حلال کر ڈالتے کبھی حرام کر ڈالتے۔ اس کی جمع محرمات حارم محاریم۔ صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً ان کے گھر خالی رہتے تھے کیونکہ یہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے۔ جب مکان خالی ہوجائے تو عرب کہتے ہیں صفر المکان اس کی جمع اصفار ہے جیسے جمل کی جمع اجمال ہے۔ ربیع الاول کے نام کا سبب یہ ہے کہ اس مہینہ میں ان کی اقامت ہوجاتی ہے ارتباع کہتے ہیں اقامت کو اس کی جمع اربعا ہے جیسے نصیب کی جمع انصبا اور جمع اس کی اربعہ ہے جیسے رغیف کی جمع ارغفہ ہے۔ ربیع الاخر کے مہینے کا نام رکھنا بھی اسی وجہ سے ہے۔ گویا یہ اقامت کا دوسرا مہینہ ہے۔ جمادی الاولی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جمع جاتا تھا ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے یعنی ٹھیک ہر موسم پر ہی ہر مہینہ آتا تھا لیکن یہ بات کچھ جچتی نہیں اسلئے کہ جب ان مہینوں کا حساب چاند پر ہے تو ظاہر ہے کہ موسمی حالت ہر ماہ میں ہر سال یکساں نہیں رہے گی ہاں یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کا نام جس سال رکھا گیا ہو اس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیا ہو اور پانی میں جمود ہوگیا ہو۔ چناچہ ایک شاعر نے یہی کہا ہے کہ جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتا بھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ ہی بھونک لیتا ہے اس کی جمع جمادیات ہے۔ جیسے حباری حباریات۔ یہ مذکر مونث دونوں طرح مستعمل ہے۔ جمادی الاول اور جمادی الاخر بھی کہا جاتا ہے۔ جمادی الاخری کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے گویا یہ پانی کے جم جانے کا دوسرا مہینہ ہے۔ رجب یہ ماخوذ ہے ترجیب سے، ترجیب کہتے ہیں تعظیم کو چونکہ یہ مہینہ عظمت و عزت والا ہے اس لئے اسے رجب کہتے ہیں اس کی جمع ارجاب رجاب اور رجبات ہے۔ شعبان کا نام شعبان اس لئے ہے کہ اس میں عرب لوگ لوٹ مار کے لئے ادھر ادھر متفرق ہوجاتے تھے۔ شعب کے معنی ہیں جدا جدا ہونا پس اس مہینے کا بھی یہی نام رکھ دیا گیا اس کی جمع شعابین شعبانات آتی ہے۔ رمضان کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اونٹینوں کے پاؤں بوجہ شدت گرما کے جلنے لگتے ہیں رمضت الفصال اس وقت کہتے ہیں جب اونٹنیوں کے بچے سخت پیاسے ہوں اس کی جمع رمضانات اور رماضین اور رامضہ آتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے یہ محض غلط اور ناقابل التفات قول ہے۔ میں کہتا ہوں اس بارے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے لیکن وہ ضعیف ہے۔ میں نے کتاب الصیام کے شروع میں اس کا بیان کردیا ہے۔ شوال ماخوذ ہے شالت الابل سے یہ مہینہ اونٹوں کے مستیوں کا مہینہ تھا یہ دمیں اٹھا دیا کرتے تھے اس لئے اس مہینہ کا یہی نام ہوگیا اس کی جمع شواویل شواول شوالات آتی ہے۔ ذوالقعدہ یا ذوالقعدہ کا نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں عرب لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے نہ لڑائی کے لئے نکلتے نہ کسی اور سفر کے لئے۔ اس کی جمع ذوات القعدہ ہے۔ ذوالحجہ کو ذوالحجہ بھی کہہ سکتے ہیں چونکہ اسی ماہ میں حج ہوتا تھا اس لئے اس کا یہ نام مقرر ہوگیا ہے۔ اس کی جمع ذوات الحجہ آتی ہے۔ یہ تو ان مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ تھی۔ اب ہفتے کے سات دنوں کے نام اور ان ناموں کی جمع سنئے۔ اتوار کے دن کو یوم الاحد کہتے ہیں اس کی جمع احاد اوحاد اور وحود آتی ہے۔ پیر کے دن کو اثنین کہتے ہیں اس کی جمع اثانین آتی ہے۔ منگل کو ثلاثا کہتے ہیں یہ مذکر بھی بولا جاتا ہے اور مونث بھی اس کی جمع ثلاثات اور اثالث آتی ہے۔ بدھ کے دن کو اربعاء کہتے ہیں جمع اربعاوات اور ارابیع آتی ہے۔ جمعرات کو خمیس کہتے ہیں جمع اخمسہ اخامس آتی ہے۔ جمعہ کو جمعہ اور جمعہ اور جمعہ کہتے ہیں اس کی جمع جمع اور جماعات آتی ہے۔ سنیچر یعنی ہفتے کے دن کو سبت کہتے ہیں سبت کے معنی ہیں قطع کے چونکہ ہفتے کی دنوں کی گنتی یہیں پر ختم ہوجاتی ہے اس لئے اسے سبت کہتے ہیں۔ قدیم عربوں میں ہفتے کے دن کے نام یہ تھے اول، رھون، جبار، دبار، مونت، عروبہ، شبار۔ قدیم خالص عربوں کے اشعار کے عربوں میں دنوں کے نام پائے جاتے ہیں قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان بارہ ماہ میں چار حرمت والے ہیں۔ جاہلیت کے عرب بھی انہیں حرمت والے مانتے تھے لیکن بسل نامی ایک گروہ اپنے تشدد کی بنا پر آٹھ مہینوں کو حرمت والا خیال کرتے تھے۔ حضور ﷺ کے فرمان میں رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اضافت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے کو وہ رجب مہینہ شمار کرتے تھے دراصل وہی رجب کا مہینہ عند اللہ بھی تھا۔ جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ قبیلہ ربیعہ کے نزدیک رجب شعبان اور شوال کے درمیان کے مہینے کا یعنی رمضان کا نام تھا پس حضور ﷺ نے کھول دیا کہ حرمت والا رجب مضر کا ہے نہ کہ ربیعہ کا۔ ان چار ذی حرمت مہینوں میں سے تین پے درپے اس مصلحت سے ہیں کہ حاجی ذوالقعدہ کے مہینے میں نکلے تو اس وقت لڑائیاں مار پیٹ جنگ وجدال قتل و قتال بند ہو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں پھر ذی الحجہ میں احکام حج کی ادائیگی امن وامان عمدگی اور شان سے ہوجائے پھر وہ ماہ محرم کی حرمت میں واپس گھر پہنچ جائے درمیانہ سال میں رجب کو حرمت والا بنانے کی غرض یہ ہے کہ زائرین اپنے طواف بیت اللہ کے شوق کو عمرے کی صورت میں ادا کرلیں گو دور دراز علاقوں والے ہوں وہ بھی مہینہ بھر میں آ مد و رفت کریں یہی اللہ کا سیدھا اور سچا دین ہے۔ پس اللہ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کی حرمت کرو۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو۔ اس لئے کہا اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ جو حرم میں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے درد ناک عذاب دیں گے اسی طرح سے ان محترم مہینوں میں کیا ہوا گناہ اور دنوں میں کئے ہوئے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے۔ اسی لئے حضرت امام شافعی اور علماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ان مہینوں کے قتل کی دیت بھی سخت ہے اسی طرح حرم کے اندر قتل کی اور ذی محرم رشتے دار کے قتل کی بھی دیت سخت ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں فیھن سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں۔ پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں ان کی بڑی عزت ہے ان میں گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجر وثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں۔ حضرت قتادہ ؓ کا قول ہے کہ ان حرمت والے مہینوں کی سزا اور بوجھ بڑھ جاتا ہے گو ظلم ہر حال میں بری چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس امر کو چاہے بڑھا دے دیکھئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بھی پسند فرما لیا فرشتوں میں انسانوں میں اپنے رسول چن لئے اسیطرح کلام میں سے اپنے ذکر کو پسند فرما لیا اور زمین میں سے مسجدوں کو پسند فرما لیا اور مہینوں میں سے رمضان شریف کو اور ان چاروں مہینوں کو پسند فرما لیا اور دنوں میں سے جمعہ کے دن اور راتوں میں لیلتہ القدر کو پس تمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہئے جنہیں اللہ نے عظمت دی ہے۔ امور کی تعظیم عقل مند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی ان کی تعظیم اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بتائی ہے۔ ان کی حرمت کا ادب نہ کرنا حرام ہے ان میں جو کام حرام ہیں انہیں حلال نہ کرلو جو حلال ہیں انہیں حرام نہ بنا لو جیسے کہ اہل شرک کرتے تھے یہ ان کے کفر میں زیادتی کی بات تھی۔ پھر فرمایا کہ تم سب کے سب کافروں سے جہاد کرتے رہو جیسے کہ وہ سب کے سب تم میں سے برسر جنگ ہیں۔ حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا منسوخ یا محکم ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں پہلا تو یہ کہ یہ منسوخ ہے یہ قول زیادہ مشہور ہے اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے کہ پہلے تو فرمان ہوا کہ ان مہینوں میں ظلم نہ کرو پھر مشرکوں سے جنگ کرنے کا ذکر فرمایا۔ ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے حرمت کے مہینے بھی اس میں آگئے اگر یہ مہینے اس سے الگ ہوتے تو ان کے گذر جانے کی قید ساتھ ہی بیان ہوتی رسول اللہ ﷺ نے طائف کا محاصرہ ماہ ذوالقعدہ میں کیا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ ہوازن قبیلے کی طرف ماہ شوال میں چلے جب ان کو ہزیمت ہوئی اور ان میں سے بچے ہوئے افراد بھاگ کر طائف میں پناہ گزین ہوئے تو آپ وہاں گئے اور چالیس دن تک محاصرہ رکھا پھر بغیر فتح کئے ہوئے وہاں سے واپس لوٹ آئے پس ثابت ہے کہ آپ نے حرمت والے مہینے میں محاصرہ کیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا حرام ہے اور ان مہینوں کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شعائر الہیہ کو اور حرمت والے مہینوں کو حلال نہ کیا کرو اور فرمان ہے حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں قصاص ہیں پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی ان سے ویسی ہی زیادتی کا بدلہ لو اور فرمان ہے (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 9۔ التوبہ :5) حرمت والے مہینوں کے گذر جانے کے بعد مشرکوں سے جہاد کرو۔ یہ پہلے بیان گذر چکا ہے کہ یہ ہر سال میں چار مہینے ہیں۔ نہ کہ تیسرے مہینے جو کہ دو قولوں میں سے ایک قول ہے۔ پھر فرمایا کہ تم سب مسلمان ان سے اسی طرح لڑو جیسے کہ وہ تم سے سب کے سب لڑتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اپنے پہلے سے جداگانہ ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ حکم بالکل نیا اور الگ ہو مسلمانوں کو رغبت دلانے اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے تو فرماتا ہے کہ جیسے تم سے جنگ کرنے کے لئے وہ مڈ بھیڑ آپس میں مل کر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں تم بھی اپنے سب کلمہ گو اشخاص کو لے کر ان سے مقابلہ کرو یہ بھی ممکن ہے کہ اس جملے میں مسلمانوں کو حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کی رخصت دی ہو جبکہ حملہ ان کی طرف سے ہو۔ جیسے (اَلشَّهْرُ الْحَرَام بالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ01904) 2۔ البقرة :194) میں ہے اور جیسے) وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ۭكَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ01901) 2۔ البقرة :191) میں بیان ہے کہ ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہاں لڑائی نہ کریں ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو۔ یہی جواب حرمت والے مہینے میں حضور ﷺ کے طائف کے محاصرے کا ہے کہ دراصل ہوازن اور ثقیف کے ساتھ جنگ کا یہ لڑائی تتمہ تھی انہوں نے ہی جنگ کی ابتداء کی تھی ادھر ادھر سے آپ کے مخالفین کو جمع کر کے لڑائی کی دعوت دی تھی پس حضور ﷺ نے ان کی طرف پیش قدمی کی یہ پیش قدمی بھی حرمت والے مہینے میں نہ تھی یہاں شکست کھا کر یہ لوگ طائف میں جا چھپے اور وہاں قلعہ بند ہوگئے آپ اس مرکز کو خالی کرانے کے لئے اور آگے بڑھے انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا یا مسلمانوں کی ایک جماعت کو قتل کر ڈالا ادھر محاصرہ جاری رہا منجنیق وغیرہ سے چالیس دن تک ان کو گھیرے رہے الغرض اس جنگ کی ابتداء حرمت والے مہینے میں نہیں ہوئی تھی لیکن جنگ نے طول کھینچا حرمت والا مہینہ بھی آگیا جب چند دن گذر گئے آپ نے محاصرہ ہٹا لیا پس جنگ کا جاری رکھنا اور چیز ہے اور جنگ کی ابتدء اور چیز ہے اس کی بہت سی نظیریں ہیں واللہ اعلم۔ اب اس میں جو حدیثیں ہیں ہم انہیں وارد کرتے ہیں ہم انہیں سیرت میں بھی بیان کرچکے ہیں۔ واللہ اعلم۔

آیت 36 - سورہ توبہ: (إن عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهرا في كتاب الله يوم خلق السماوات والأرض منها أربعة حرم ۚ ذلك...) - اردو