سورہ توبہ (9): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Tawba کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التوبة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ توبہ کے بارے میں معلومات

Surah At-Tawba
سُورَةُ التَّوۡبَةِ
صفحہ 192 (آیات 32 سے 36 تک)

يُرِيدُونَ أَن يُطْفِـُٔوا۟ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَٰهِهِمْ وَيَأْبَى ٱللَّهُ إِلَّآ أَن يُتِمَّ نُورَهُۥ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَٰفِرُونَ هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ ۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلْأَحْبَارِ وَٱلرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَٰلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَٰطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ ۗ وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِى نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا۟ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ عِندَ ٱللَّهِ ٱثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِى كِتَٰبِ ٱللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ مِنْهَآ أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا۟ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَٰتِلُوا۟ ٱلْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَٰتِلُونَكُمْ كَآفَّةً ۚ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ
192

سورہ توبہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ توبہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yureedoona an yutfioo noora Allahi biafwahihim wayaba Allahu illa an yutimma noorahu walaw kariha alkafiroona

اس کے بعد سیاق کلام یوں بڑھتا ہے :

" یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو "

یعنی اہل کتاب کا قصور صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے حقیقی دین سے منحرف ہوگئے ہیں جو سچا دین تھا اور ان کا جرم صرف یہ نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ کے سوا اور شخصیات کو رب بنا رکھا تھا اور آخرت پر ایمان نہ لاتے تھے جیسا کہ آخرت کے صحیح مفہوم کے تقاضے ہیں بلکہ اس کے علاوہ ان کا ایک اور ناقابل معافی جرم بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ انہوں نے دین حق کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اور حضرت محمد ﷺ دین حق کی شکل میں جو نئی روشنی پھیلا رہے ہیں وہ اپنی آنکھوں سے اس چراغ کو بجھانا بھی چاہتے اور اس دعوت کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ اور اس نظام زندگی کو برباد کرنا چاہتے ہیں جو اس جدید دعوت کے مطابق تشکیل پایا ہے۔

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ " یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں "

لہذا یہ لوگ اللہ کے نور کے دشمن ہیں۔ وہ اپنے جھوٹ ، سازش اور فتنہ پردازی کی وجہ سے اس نور کو بجھانا چاہتے ہیں یا وہ اپنے متبعین اور اپنی جماعتوں اور اہالی و موالی کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اس دین کے خلاف جنگ کریں اور اس کی راہ روکین۔ جس وقت یہ آیات نازل ہو رہی تھیں اس وقت یہی صورت حال تھی اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔

ان آیات سے اس وقت غرض وغایت یہ تھی کہ مسلمان اپنے دفاع کی تیاری جوش و خروش سے کریں لیکن اس وقت کے حالات کے بعد آج تک اسلام کے بارے میں اہل کتاب کا موقف یہی ہے۔ وہ اسلام کی روشنی کو ہر وقت بجھانے کی سعی کرتے ہیں لیکن اللہ کا موقف یہ ہے :

وَيَأْبَى اللَّهُ إِلا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ " مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو "

یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور یہ وعدہ اللہ کی ناقابل تغیر سنت پر مبنی ہے کہ اگرچہ کافر اس بات کو ناپسند کریں گے لیکن اللہ اپنی روشنی کو پوری طرح چمکائے گا۔

یہ وعدہ ایمانداروں اور اسلامی انقلاب کے کارکنوں کے لیے باعث اطمینان ہے۔ انہیں اپنی پسندیدہ راہ پر مزید آگے بڑھنا چاہیے اور قدم بڑھاتے چلے جانا چاہیے اور مشکلات راہ کو انگیز کرنا چاہیے اور دشمن کی سازشوں اور دشمن کی مسلسل جنگ کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ابتدا میں مراد تو اہل کتاب تھے لیکن مراد عام دشمن ہیں جو اسلام کی راہ روکنا چاہتے ہیں۔ چاہے جس عنوان سے روکیں اور چاہے جس کی امان میں روکیں۔

اب اگلی آیت میں اس مضمون کی مزید تاکید کی جاتی ہے

اردو ترجمہ

وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee arsala rasoolahu bialhuda wadeeni alhaqqi liyuthhirahu AAala alddeeni kullihi walaw kariha almushrikoona

اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دین حق سے مراد وہ دین ہے جو آیت قتال میں دین مراد ہے :

قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (29) جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ اور یہ دین حق وہی ہے جو حضرت محمد ﷺ کو دیا گیا ہے۔ جو لوگ اس دین حق کو قبول نہیں کرتے ان کے ساتھ قتال لازم ہے۔

اس آیت کی جو تاویل بھی ہم کریں یہ بات درست ہے۔ کیونکہ دین کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اللہ کی مکمل اطاعت کرے اور وہ مراسم عبادت اور قانون بھی اللہ کا تسلیم کرے۔ پورے دین میں شمولیت کا یہی اصول ہے۔ اور اس دین حق کی آخری صورت وہ ہے جو حضرت محمد ﷺ نے پیش کی ہے۔ لہذا جو شخص بھی اللہ کے دین ، اس کے مراسم عبودیت اور اس کی شریعت کو قبول نہیں کرتا ، اس پر اس بات کا اطلاق ہوگا کہ وہ دین کو قبول نہیں کرتا۔ اور اس پر آیت قتال مذکورہ کا اطلاق ہوگا لیکن آیت قتال کے انطباق کے وقت اسلام کے تحریکی اور تدریجی مراحل کو ضرور مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ اسلام میں ہر اقدام کے لیے وقت مقرر ہے جس کی تشریح ہم نے بار بار کی ہے۔

یہ آیت ہے یعنی هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي۔ آیت سابقہ کے مضمون کی تاکید ہے جس میں کہا گیا تھا وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۔ مطلب یہ تھا کہ جس نور کو اللہ تعالیٰ مکمل کرنا چاہتے ہیں وہ اسلامی نظام حیات کا قیام اور غلبہ ہے بلکہ قیام کے بعد عالم میں قائم تمام نظاموں پر اس کے غلبے کی صورت میں یہ روشنی مکمل ہوگی۔ اب دین حق کیا ہے ؟ جیسا کہ اس سے قبل ہم بار بار کہہ چکے ، دین حق ہے اللہ وحدہ پر اعتقاد رکھنا ، اللہ وحدہ کی بندگی اور پرستش کرنا ، اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کی اطاعت کرنا اور اسے نافذ کرنا۔ اور یہ اجزا ان تمام ادیان کا حصہ تھے جو رسولان برحق نے انسانوں کے سامنے کبھی پیش کیے۔ لہذا دین حق میں وہ بت پرستانہ منحرف ادیان شامل نہیں ہیں جن کا اصلا گرچہ درست عناصر ان کی موجودہ شکل مسخ شدہ شکل ہے۔ اور وہ درحقیقت بت پرستانہ ادیان ہیں مثلاً عالمی یہودیت اور عیسائیت۔

نیز دین حق میں وہ ادیان و مذاہب بھی شامل ہیں جنہوں نے دین کی تختی تو لگا رکھی ہے لیکن در اصل ان نظاموں میں اربابا من دون اللہ کی پرستش ہوتی ہے۔ یوں کہ ان میں انسان انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور جن قوانین کو اللہ نے نازل نہیں فرمایا۔

جبکہ اللہ کا صریح حکم یہ ہے کہ اس نے اپنے رسول کو دین حق اور ہدایت دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اس دین حق کو تمام ادیان پر غالب کردے لہذا ہمارا فرض ہے کہ ہم دین کو اس کے وسیع مفہوم میں لیں تاکہ اللہ کے عہد کی وسعت ہمیں معلوم ہو۔

دین در اصل ایک نظام زندگی ہے۔ لہذا لوگ جس کسی نظام کو تسلیم کرتے ہوں ، اس کی اطاعت کرتے ہوں ، جن کے تصورات کو صحیح سمجھتے ہیں۔ اور جس کی اتباع کرکے اس کی وفاداری کا دم بھرتے ہوں وہی ان کا دین ہے۔

پھر اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں بھی دین کا یہی وسیع مفہوم مراد ہے یعنی نظام زندگی۔ نظام زندگی صرف اللہ کا نظام زندگی ہے۔ اور تمام لوگوں نے اس کی اطاعت کرنی ہے۔ اور غالب بھی صرف اسی نظام کو کرنا مطلوب ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ تو یہ کام کرکے دکھایا۔ آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین نے غلبہ دین کو قائم رکھا۔ ان ادوار میں دین حق غالب اور ممتاز رہا۔ اور تمام وہ ادیان جن میں اطاعت خالصتاً اللہ کے لیے نہ تھی ، وہ اس کے مقابلے میں لرزہ براندام تھے۔ اس کے بعد دین حق کے حاملین نے خود ہی اس دین کو چھوڑ دیا۔ آہستہ آہستہ وہ دین سے دور ہوتے گئے اور اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے خلاف صلیبی اور بت پرستانہ ادیانی کی مسلسل ریشہ دوانیوں اور کفار اور اہل کتاب کی مشترکہ کارروائیوں کے نتیجے میں اس نظام کو ختم کیا گیا۔

لیکن معرکہ سٹاپ نہیں ہوگیا۔ اللہ کا وعدہ اپنی جگہ قائم ہے۔ اللہ مومنین کو دیکھ رہا ہے۔ انتظار میں ہے۔ وہ مومنین جنہوں نے اللہ کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں۔ انہوں نے اپنے کام کا آغاز نکتہ آغاز سے کیا ہے۔ جہاں سے حضور اکرم نے کام آغاز کیا تاھ اور دین حق کے احیاء کی یہ تحریک اب نور ربانی کی روشنی میں جادہ پیما ہے۔

اردو ترجمہ

اے ایمان لانے والو، اِن اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo inna katheeran mina alahbari waalrruhbani layakuloona amwala alnnasi bialbatili wayasuddoona AAan sabeeli Allahi waallatheena yaknizoona alththahaba waalfiddata wala yunfiqoonaha fee sabeeli Allahi fabashshirhum biAAathabin aleemin

اس سورة کے اس سبق کی آخری یونٹ پر ہم پہنچ چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اہل کتاب اللہ کے حرا کیے ہوئے کو کس طرح حرام نہیں کرتے۔ جبکہ اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ اپنے احبارو رہبان کو رب سمجھتے ہیں۔ اللہ کے سوا رب قرار دیتے ہیں اور جس کی تفسیر رسول اللہ نے یہ فرمائی تھی کہ یہ اہل کتاب احبارو رہبان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام سمجھتے ہیں۔ یہاں یہ بتایا گیا کہ یہ احبارو رہبان اللہ کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے۔ اللہ کے حلال کردہ کو حلال نہیں سمجھتے۔

۔۔۔

آیت میں احبارو رہبان کے کردار کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ عوام نے تو ان کو اللہ کے علاوہ رب بنا رکھا ہے۔ اور یہ لوگ نتیجتاً لوگوں کے لیے حلال و حرام کے قوانین بنانے ہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو لوگوں کے لیے بطور رب پیش کیا ہے اور لوگوں نے اسے قبول کیا ہے۔ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھاتے پیتے ہیں۔ اور لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں۔

لوگوں کے اموال کھانے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ جو ابھی تک رائج ہیں۔ ان میں سے ایک تو وہ فیس ہے جو حرام کو حلال قرار دینے یا حلال کو حرام قرار دینے کے عوض لی جاتی تھی اور اس قسم کے فیصلے بالعموم مالداروں کے حق میں ہوتے تھے یا بادشاہوں کے حق میں جاری ہوتے تھے۔ ان میں وہ فیس بھی شامل ہے جو مذہبی پیشوا ایک معترف گناہ سے لیتے تھے اور پھر اسے بخش دیتے تھے اور ان مذہبی پیشواؤں کے زعم میں وہ یہ اختیارات ازروئے شریعت رکھتے تھے اور اس میں مشہور مسئلہ رہا ہے کہ وہ اسے حلال قرار دیتے تھے۔

اس میں وہ اموال بھی شامل ہیں جو وہ لوگوں سے دین حق کے مقابلے کے لیے لیتے تھے۔ احبار اور رہبان اسقف اور دوسرے مذہبی پیشوا صلیبی جنگوں کے لیے لاکھوں روپے جمع کرتے رہے ہیں اور اب وہ مستشرقین اور مبشرین کے لیے اربوں روپے جمع کرکے عالم اسلام میں خرچ کرتے ہیں ، یوں وہ لوگوں کو گمراہ کرکے اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔

قرآن کریم کی درج ذیل آیت بڑے گہرے غور و فکر کی مستحق ہے۔ اس میں بات کس قدر عدل و انصاف کے ساتھ کی گئی ہے۔

اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ یعنی احبارو رھبان میں سے بیشتر لوگ۔ اس سے ان لوگوں کی وہ قلیل تعداد نکل جاتی ہے جو اس غلطی کا ارتکاب نہیں کرتی۔ اس لیے کہ دنیا کے مختلف فرقوں اور جماعتوں میں اچھے لوگوں کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ اور ذات باری تعالیٰ بہرحال ہر کسی کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔

اکثر احبارو رہبان لوگوں سے حاصل کردہ اموال کو جمع کرتے تھے۔ یہود و نصاری کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ لوگوں کے اموال کنیسوں میں جمع کرتے اور ان کے تکیوں پر بےحد شکرانے جمع ہوتے تھے۔ اور بعض اوقات مذہبی لیڈروں کے پاس بادشاہوں اور راجوں وہ مہاراجوں کے مقابلے میں بھی زیادہ دولت جمع ہوجاتی تھی۔

اس لیے یہاں سیاق کلام میں قیامت کے دن ان کی اس جمع کردہ دولت ہی کو ان کے لیے باعث عذاب بنایا ہے اور یہی سزا ان تمام لوگوں کو ملے گی جو دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اور اس بات کی تصویر کشی نہایت ہی خوفناک انداز میں کی گئی ہے :

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ (35) " دردناک سزا کی خوشخبری دو ۔ ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں۔ اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا ، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو "

تعذیب کے اس منظر کی یہاں بہت سی تفصیلات دے دی گئی ہیں اور تعذیب کے ابتدائی مراحل سے لیکر آخری مراحل کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے تاکہ حس و خیال میں یہ منظر اچھی طرح بیٹھ جائے لہذا تعذیب کی تفصیلات دینا با مقصد ہے۔

والذین یکنزون الذھب والفضۃ " دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرک رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے " اس کے بعد سیاق کلام پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے اور اجمال اور ابہام کے بعد تفصیلات دوسری آیت میں دی جاتی ہیں۔

اردو ترجمہ

ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma yuhma AAalayha fee nari jahannama fatukwa biha jibahuhum wajunoobuhum wathuhooruhum hatha ma kanaztum lianfusikum fathooqoo ma kuntum taknizoona

يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ " ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی "۔۔ اب اس کے بعدسامع دیکھتا ہے کہ ان دھاتوں کو کس طرح گرم کیا جاتا ہے۔ اب اگلے منظر میں ہاتھوں میں گرم سلاخیں لیے ہوئے کارندے نظر آتے ہیں۔ سلاخیں تیار ہیں اور دردناک عذاب کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اب ان مجرموں کے ہاتھوں اور چہروں کو داغا جاتا ہے اور جب ان کے چہروں کو اچھی طرح داغ دیا جاتا ہے تو اب ان کے پہلوؤں پر داغ لگائے جاتے ہیں اور جب ان کے پہلو داغ دیے جاتے ہیں تو ان کی پیٹھوں پر داغ دہی کا عمل شروع ہوتا ہے اور جب یہ جسمانی عذاب ختم ہوتا ہے تو اب ان کو سرزنش کی جاتی ہے تاکہ ان کی روحانی تذلیل ہو۔

هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأنْفُسِكُمْ " یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا " یہ تو تم نے لذت کے لیے جمع کیا تھا لیکن یہ اب تمہارے لیے عذاب الیم کا آلہ بن گیا ہے۔

فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ " اب اپنی اس سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو " بذاتہ وہی دولت ہے۔ اب دیکھو کہ تمہارے چہروں ، تمہارے پہلوؤں اور تمہاری پیٹھوں کے ساتھ اس کا صرف مس ہی موجب اذیت ہے۔

غرض یہ ایک نہایت خوفناک منظر ہے اور اس میں ہر ہر حرکت کی تفصیلات دی گئی ہیں اور ان تفصیلات سے دوچار ہوں گے احبارو رہبان کی اکثریت۔ پھر وہ لوگ جو بلا ضرور مال و دولت جمع کرتے اور اسے اللہ کی راہ میں کرچ نہیں کرتے۔ یہ بات یہاں پیش نظر رہے کہ یہ آیات غزوہ تبوک کے موقع پر نازل ہوئیں جسے غزوۃ العسرۃ بھی کہا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔

میں سمجھتا ہوں یہاں ہمیں قدرے رکنا چاہیے اور اس پوری بحث کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے اور ذہن میں اس پوزیشن کو مستحضر کرلینا چاہئے جو ان ربانی ہدایات کے مطابق اہل کتاب کی فی الحقیقت ہے کہ ان کے عقائد کیا ہیں ؟ ان کے اخلاف کیا ہیں ان کا طرز عمل کیا ہے ؟ خصوصاً ان اشارات کی روشنی میں جو ہم نے ان آیات کی تشریح کے دوران دیے۔

اہل کتاب کے بارے میں اس شبیہ کو صاف کردینا کہ آیا وہ دین حق پر ہیں ، نہایت ہی ضروری تھا۔ صریحا مشرک لوگ تو بہرحال مشرک ہوتے ہیں اور سب کو نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے عقائد ، اعمال اور مراسم عبودیت کے اعتبار سے نظر آتے ہیں کہ وہ مشرک ہیں لیکن اہل کتاب کے نام سے شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید وہ دیندار ہیں۔ یہ شبہات دور کرنا اس لیے ضروری تھا کہ مسلمان اس جاہلیت کے مقابلے کے لیے اچھی طرح تیار ہوجائیں جہاں تک مشرکین کا تعلق ہے تو ہی بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ وہ جاہلیت کے پیرو کار ہیں لیکن اہل کتاب کے بارے میں پوزیشن واضح نہ تھی کیونکہ اہل کتاب کا دعوی یہ تھا کہ وہ پہلے سے مسلمانوں کی طرح ایک دین سماوی کے پیرو ہیں۔ جس طرح آج کے نام نہاد مسلمانوں کی اکثریت دیہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔

اس سورت کے آغآز ہی سے مشرکین سے مکمل بائکاٹ اور ان کے مکمل مقابلے کی بات تفصیلاً اس سورت کا موضوع رہی ہے اور ان حالات کا بھی تقاضا تھا جس کی تشریح ہم نے اس سورت کے مقدمے میں کردی ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا :

كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (7) كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلا وَلا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ (8) اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (9) لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلا وَلا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (10)

ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے ؟ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے . مگر ان کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا ؟ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی۔ پھر اللہ کے راستے میں سد راہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔ کسی مومن کے معاملہ نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا۔ اور زیادہ ہمیشہ انہی کی طرف سے ہوئی ہے۔

أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (13) قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (14) وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (15): ے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے ؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس سے زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو ، اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا

اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا اور جسے چاہے گا ، توبہ کی توفیق بھی گا۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہے۔

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں در آں حالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضاعئ ہوگئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے

یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الإيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ، : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ ناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں۔ مشرکین کے خلاف جہاد کے لیے اٹھنے کا یہ لازمی تقاضا تھا کہ ان پر تنقید کی جائے اور ان کا کیس بھی سادہ تھا۔ کیونکہ اس وقت اسلامی جماعت کو جس قسم کے حالات درپیش تھے اس میں اسلامی معاشرے کے مد مقابل مشرکین تھے لیکن اہل کتاب کے خلاف جہاد کرنے کے لیے مشرکین سے بھی زیادہ شاید تنقیدی حملے کی ضرورت تھی اور اس بات کی ضرورت تھی کہ اہل کتاب پر اہل کتاب اور اہل دین ہونے کا جو بورڈ لگا ہوا تھا انہیں اس سے محروم کردیا جائے اور ان کی اصل حققت کو ظاہر کیا جائے کہ وہ مشرکین کی طرح مشرکین ہیں اور ان میں اور دوسرے مشرکین میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دوسرے کفار کی طرح وہ بھی کفار ہیں اور کفار و مشرکین دونوں کی طرح یہ بھی دین اسلام کے خلاف شب و روز جنگ میں مصروف ہیں۔ یہ گمراہ ہیں اور لوگوں کے اموال نہایت نہایت ہی باطل طریقوں سے کھاتے ہیں۔ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ چناچہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک موقف نازل فرمایا۔

قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (29) وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (30) اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (31) يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (32) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (33) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الأحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ " جنگ کرو ، اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچ اللہ اور اس کے سول نے حرام کیا ہے ، اسے حرام نہیں کرتے۔ اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بےحقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبان سے نکالتے ہیں۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تے خدا کی مار ان پر ، یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی مستحق نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے۔ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے ، تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو ، اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ ان اہل کتاب کے اکثر علماء درویشوں کا یہ حال ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں "

دوسری مکی اور مدنی سورتوں میں ان اہل کتاب کے بارے میں جو دو ٹوک فیصلے کیے گئے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ تمام مکی اور مدنی سورتوں میں ان کے بارے میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ یہ لوگ مکمل طور پر کفر اور شرک میں داخل ہوگئے ہیں ہیں اور پوری طرح دین حق سے نکل چکے ہیں۔ انہوں نے اس دین کو پوری طرح چھوڑ دیا ہے جو ان کے نبی ان کے پاس لائے تھے۔ نیز انہوں نے نہ صرف یہ کہ موجودہ دین حق کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ اس کی راہ روکنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ لہذا دین جدید کے حوالے سے اپنے موقف کی بنا پر بھی یہ مکمل طور پر کافر اور مشرک ہیں۔

اس سے پہلے آیات گزر چکی ہیں جن میں اہل کتاب کو یہ خطاب کیا گیا تھا کہ وہ دین سماوی اور دین الہی سے مکمل طور پر نکل چکے ہیں۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالإنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا فَلا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (68): " صاف صاف کہہ دو کہ " اے اہل کتاب ، تم ہر گز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں " ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے۔ مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو "

لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ھو المسیح ابن مریم " یقینا تقریبا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ میسح ابن مریم ہے

لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلثۃ " یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے "

لم یکن اذین کفروا من اھل الکتب والمشرکین منفکین حتی تاتیہم البینۃ " اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے وہ اپنے کفر سے باز آجانے والے نہ تھے ، جب تک کہ ان کے پاس دلیل روشن نہ آجائے "

یہ اور اس قسم کی دوسری کثیر آیات جن کو ہم نے اس سے پہلے نقل کیا۔ یہ آیات مکی قرآن میں بھی ہیں اور مدنی میں بھی ہیں اور کافی تعداد میں ہیں۔

صورت حال یہ تھی کہ قرآن کریم نے اہل کتاب کو بعض معاملات میں امتیازی پوزیشن دی تھی۔ مثلاً مسلمانوں پر ان کا کھانا حلال کیا تھا۔ اور ان کی پاک دامن عورتوں کے ساتھ نکاح کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ لیکن یہ امتیازی پوزیشن ان کو اس لیے نہ دی گئی تھی کہ وہ دین حق کے کسی حصے پر عمل پیرا تھے۔ بلکہ یہ مراعات ان کو اس لیے دی گئی تھیں کہ اصلاً وہ دین حق کے حامل تھے اور تاریخ طور پر وہ تحریک اسلامی کا حصہ تھے۔ اگرچہ حالا وہ خود اپنے دین پر بھی قائم نہ تھے۔ اس طرح ان کے ساتھ مکالمے میں یہ بات ممکن تھی کہ ہمارا اور تمہارا اصل دین تو ایک ہے۔ لہذا قرآن نے ان کو بت پرستوں اور مشرکوں کے مقابلے میں یہ امتیازی پوزیشن دے دی جبکہ بت پرستوں کے ہاں کوئی ایسا اصول نہ تھا جس کو ہاتھ میں لے کر اسلام ان کے ساتھ کوئی مکالمہ کرسکے۔ رہی یہ بات کہ خود اہل کتاب کی لیڈری کی حقیقت کیا ہے ؟ ان کے عقائد کیا ہیں ؟ ان کی دینی حیثیت کیا ہے ؟ تو اس معاملے میں قرآن کریم نے کوئی اجمال نہیں چھوڑا ، بابل دو ٹؤک بات کی ہے کہ وہ دین سے خارج ہیں۔ انہوں نے اپنے اصل دین عقائد و اعمال کو چھوڑ دیا ہے اور اب ان کے عقائد و اعمال وہ ہیں جو ان کے لیے ان کے احبار اور رہان نے تصنیف کیے ہیں اور ان کو باقاعدہ مجالس عقائد و قانون میں طے کیا گیا ہے اس موضوع پر کلام الہی فیصلہ کن اور واضح ہے۔

اس مقام پر اہمبات یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس دو ٹوک فیصلے کے نتائج سے بحث کریں کہ اہل کتاب کے موجودہ نظریات اور دینی حالت کے ہوتے ہوئے ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی ؟

یہ عنوان اور بورڈ جو ان پر لگا ہوا ہے ، غلط فہمی کا باعث ہے۔ اس بورڈ کے پیچے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس بورڈ کی وجہ سے ان لوگوں کی جاہلیت کے مقابلے میں اسلامی تحریک سامنے نہیں آتی۔ لہذا اس بات کی اشد ضرور ہے کہ اس بورڈ کو اتار پھینکا جائے اور اس خطاب سے جو غلط فہمی ہوئی اسے اچھی طرح دور کردیا جائے اور ان لوگوں کی اصل حقیقت اور ان کے اصل چہرے سے لوگوں کو شناسا کیا جائے۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی طرف اشارہ کر آئے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں اس وقت ایسے حالات پائے جاتے تھے کہ اسلامی معاشرے کے بعض عناصر ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے خصوصاً غزوہ تبوک کے وقت بعض مخصوص حالات بھی تے۔ نیز اس وقت عربوں کے دلوں پر روما کا رعب بھی چھایا ہوا تھا ، لیکن جیسا کہ اس سے قبل ہم تفصیلات دے آئے اصل بات یہ تھی کہ بعض مسلمان رومیوں کے ساتھ ایسی ہمہ گیر جنگ کو محض اس لیے سمجھ نہ پائے تھے کہ رومی بہرحال اہل کتاب تھے۔

آج دین کے دشمن جو اس وقت احیاء اسلام کے لیے چلنے والی تحریکات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ، یہ لوگ ان تحریکات کا مطالعہ نہایت ہی مہارت سے کرتے ہیں ، یہ لوگ ماہر نفسیات ہوتے ہیں ، ان کا اسلامی تحریکات کے بارے میں وسیع مطالعہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ اسلام کے خلاف بھی اگر کوئی اسکیم تیار کرتے ہیں تو اس پر بھی اسلامی بورڈ لگا دیتے ہیں ، یہ لوگ جدید حالات ، نئی تحریکات ، نئے رجحانات اور افکار و تصورات پر اسلامی لیبیل لگاتے ہیں اور اس اسلامی لیبل کے ساتھ وہ عالم اسلام میں حققی اسلامی تحریکات کے خلاف کام کرتے ہیں۔ یہ کاروبار انہوں نے پورے عالم اسلام کے خلاف کام کیا اور اپنے سیاہ چہرے کو کھول کر اسلام پر حملہ آور ہوئے یہ ماضی قریب میں مصطفیٰ کمال کی تحریک تھی جو ترکی میں کھلی بےدینی اور جاہلیت کی شکل میں نمودار ہوئی۔ اس معاملے میں وہ مجبوریوں ہوئے کہ ان کے لیے اسلام اجماعیت کی آخری نشانی یعنی خلافت اسلامیہ رکیہ کو مٹآنا ضروری ہوگیا تھا۔ یہ نظام خلافت بھی در اصل حققی خلافت نہ تھا۔ ایک قسم کا صرف نام اور عنوان ہی تھا۔ لیکن یہ اسلام اجتماعیت کی آخری رسی اور راطہ تھا اور ان کے لیے اس کا توڑنا لازم تھا۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے۔ اسلام ایک ایک تار ہو کر ٹوٹ جائے گا۔ اس کا پہلا تار اس کا نظام حکم ہے اور آخری تار صلوۃ ہے۔

یہ عیار دشمنان اسلام جو اہل کتاب میں سے بھی ہیں اور ملحدین اور کافرین کی صورت میں بھی ہیں اور یہ آپس میں بھی کبھی اکٹھے نہیں ہوتے ، یہ آپس میں تب ہی اکٹھے ہوتے ہیں جب ان کو اسلام کے ساتھ کوئی معرکہ درپیش ہوتا ہے دورانیوں کو چھپا کر سر انجام دیتے ہیں۔ اتا ترک کی تحریک کے سوا ان کی تمام تحریکات دوبارہ اسلامی ٹبل اور اسلامی بورڈ کے تحت ہی چل رہی ہیں۔ یہ خفیہ ریشہ دوانیاں در اصل مصطفیٰ کمال کی علانیہ تحریک لادینی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہیں۔ ان کے ذریعے وہ ایسے حالات کو پیدا کرنا اور قائم رکھنا چاہتے ہیں اور ان اجتماعی حالات کو قائم رکھنے کے لیے وہ اقتصادی اور سیاسی امداد بھی دیتے ہیں۔ ان کے فیہ ادارے اپنے تجربات ، خفیہ رپورٹوں اور پروپیگنڈے کے ذریعے ایسے اجتماعی حالات کے ممد و معاون ہوتے ہیں۔ اس کام میں وہ تمام وسائل اور تمام مہارتیں صرف کرتے ہیں۔ عالم اسلام میں ایسے حالات قائم رکھنے کے لی ملحد اور اہل کتاب دست بدست ہمقدم ہو کر چلتے ہیں اور ہم سفر ہیں۔ حقیقت ہے کہ اسلام کے خلاف قدیم صلیبی جنگوں کو یہ لوگ نئی شکل اور عنوان کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ جنگ قدیم جنگ سے اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ صلیبی جنگ بہرحال علانیہ تھی اور یہ خفیہ ہے۔

ان سادہ لوح جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں وہ اس عنوان اور لیبل سے خوب دھوکہ کھائے جا رہے ہیں۔ حتی کہ بعض داعیان اسلام بھی اس لیبل سے دھوکہ کھائے ہیں۔ یہ داعی بھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ اس ننگی جاہلیت کے چہرے پر سے یہ پردہ اتار پھینکیں۔ بعض داعیان اسلام جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں وہ بھی یہ جرات نہیں کرتے کہ ان نام نہاد اسلامی عنوانات کے تحت کام کرنے والوں کی حقیقت کو اجاگر کریں۔ حالانکہ اسلامی لیبل کے تحت یہ لوگ کفر اور شرک کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ داعی لوگوں کو صورت حالات کی صیح تصویر نہیں دکھاتے حالانکہ عام لوگ دھوکہ کھا کر ان حالات پر راضی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ دور جدید میں عوام الناس اسلام کی جانب آگے اس لیے نہیں بڑھ رہے کیونکہ وہ موجودہ حالات ہی کو اور موجودہ جاہلیت ہی کو اسلام سمجھتے ہیں۔ اور اس کے باقی رہنے میں کوئی شرعی حرج محسوس نہیں کرتے۔ نہ وہ موجودہ حالات میں زندگی بسر کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں حالانکہ در حققت ہم سب کافرانہ اور مشرکانہ زندگی کے تحت چل رہے ہیں۔

غرض یہ لیبل اسلامی تحریکات کے احساس کی شدت کو کم کردیتا ہے اور ان کے احساسات کو سلا دیتا ہے۔ اسلام کی حققی سمجھ لوگوں میں پھیلنے نہیں دیتا۔ اور اس جاہلیت کے مقابلے میں مسلمانوں کے اٹھنے کی راہ میں بھی حائل ہے حالانکہ جاہلیت اس بات پر تلی ہوئی ہے ہے کہ اسلام کے باقی آثار کو بھی مٹا کر رکھ دے اور اس کی جڑیں بھی اکھاڑ پھینکے جو ابھی تک بچی ہوئی ہیں۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے کتاب جاہلیۃ القرن العشرین ، محمد قطب)

اس قسم کے سادہ لوح داعیان اسلام ، میرے خیال میں اسلام کے کھلے دشمنوں کے مقابلے میں ، اسلام کے لیے زیادہ مضر ہیں ، جو ان حالات ، ان تحریکات ، ان رجحانات ان افکار اور ان اقدار پر اسلامی لیبل لگاتے ہیں ، جن کو دشمنان اسلام ، اسلام کی بخ کنی کے لیے رائج کر رہے ہیں۔

جب بھی مسلمان اس دین کی حقیقت اور اس کے بالمقابل جاہلیت کی حقیقت کو سمجھ جاتے ہیں ، اسلام دنیا میں غالب ہوجاتا ہے۔ جب اور جہاں بھی یہ صورت پیدا ہوجائے۔ اسلام کے لیے کبھی یہ امر خطرناک نہیں بنا کہ اس کے دشمن طاقتور ہیں اور تجربہ کار ہیں ، البتہ اسلام کے لی زیادہ خطرہ ، ان نادان دوتوں سے ہوتا ہے جو سادہ اور فریب کھانے والے ہوتے ہیں وہ غیر مضر چیزوں سے تو سختی سے بچتے ہیں لیکن اسلام کے لیبل میں ان کے سامنے جو زہر پیش کیا جاتا ہے اسے آسانی سے نگل جاتے ہیں۔ اور پھر اس لیبل کے تحت وہ اسلام کے خلاف برسر پیکار ہوتے ہیں اور انہیں خبر نہیں ہوتی۔ اس لیے احیائے اسلام کے لیے کام کرنے والوں کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اقدار جاہلیت کی بوتلوں سے اسلامی لیبل اتار پھینکیں جبکہ یہ اقدار اسلامی لیل اتار پھینکیں جبکہ یہ اقدار اسلامی لیبل کے تحت اسلام کی بیخ کنی کے لیے رائج کی جا رہی ہیں اور یہ عمل پوری دنیا میں رائج ہے۔ کسی اسلامی تحریک کا پہلا اقدام یہ ہونا چاہی کہ وہ جاہلیت کے چہرے سے اس جھوٹے لیبل کو اتار پھینکے۔ اور اس کی اصل حقیقت لوگوں پر کھول دے کہ یہ شرک ہے اور کفر ہے۔ اور واقعات کی ایسی تعبیر کرے جو حقیقت حال سے مطابق ہو۔ وہ اپنا جائزہ بھی اسی طرح لے جس طرح اس کا حال ہے جس طرح قرآن ے اہل کتاب کی حقیقت کو کھول کر بیان کردیا کہ اگرچہ وہ اہل کتاب تھے مگر اب وہ کافر اور مشرک ہیں۔ حالات کی اس حققت کو اسلامی تحریکات اگر اچھی طرح سمجھ لیں تو شاید وہ اپنے آپ کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ کس حد تک اسلامی تحریکات ہیں تاکہ وہ اپنی موجودہ بدحالی ، تکلیفات اور اس عذاب الیم سے نجات پا لیں جس میں وہ خود مبتلا ہیں۔

کسی بھی اسلامی تحریک کے آغاز کے لی دو امور رکاوٹ بنا کرتے ہیں ، ایک یہ کہ تحریک اپنے موقف میں غیر ضروری سختی کرے دوسرے یہ کہ وہ ظاہر صورت حال سے دھوکہ کھا جائے اور معاملہ کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہ کرے۔ ان دو غلطیوں کی وجہ سے دشمن کے منصوبے کامیاب ہوتے ہیں ، ان کی سازشوں کو تقویت ملتی ہے۔ کیونکہ دشمن نے اپنا کام جعلی اسلامی لیبل کے تحت شروع کیا ہے ۔ جب سے اسے معلوم ہوا ہے کہ اسلام کی تاریخ جدید میں اتا ترک کا تجربہ بری طرح فیل ہوچکا ہے۔ اس نے اب اسلامی لیبل سے کام شروع کیا ہے۔ ترکی میں اسلام کی نظریاتی علامت نظام خلافت کو ختم کرنے کے بعد لادینیت کے لیبل کے تحت اس کے لی کام کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ زمانہ حال کے ایک مکار صلیبی مصنف ولفرڈ سمتھ اپنی کتاب " اسلام تاریخ جدید مٰں " یہ کوشش کرتے ہیں کہ اتا ترک کی تحریک کو ایک بار پھر اسلام رنگ میں پیش کریں۔ اور اس میں سے علانیہ الحاد کے عناصر کی نفی کردیں۔ اور یہ باور کرائیں کہ اسلام کے احیائے جدد کے باب میں یہ نہایت ہی موزوں اور اچھی تحریک تھی۔ بہت خوب ! ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ دشمنان اسلاب کس انداز اور کس لباس میں آتے ہیں ؟

۔۔۔

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna AAiddata alshshuhoori AAinda Allahi ithna AAashara shahran fee kitabi Allahi yawma khalaqa alssamawati waalarda minha arbaAAatun hurumun thalika alddeenu alqayyimu fala tathlimoo feehinna anfusakum waqatiloo almushrikeena kaffatan kama yuqatiloonakum kaffatan waiAAlamoo anna Allaha maAAa almuttaqeena

درس نمبر 89 ایک نظر میں

سیاق کلام اپنے منطقی انداز میں ، رومیوں اور شمالی عرب میں ان کے حلیف نصرانی قبائل کے خلاف جنگ کی تیاریوں کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ تیاریاں اور لشکر کشی بظاہر رجب کے مہینے میں ہو رہی تھی۔ لیکن در اصل یوں نہ تھا۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ اس سال ماہ رجب اپنی حقیقی جگہ پر نہ تھا۔ اور یہ اس لیے کہ انہوں نے حساب و کتاب کے لیے النسی کا جو نظام رجاری کر رکھا تھا (تفصیلات آگے آرہی ہیں) تو اس کے مطابق ماہ ذوالحجہ اپنی جگہ پر نہ تھا۔ یہ ذوالقعدہ کی جگہ تھا اور رجب جمادی الاخری کی جگہ آ رہا تھا اور اس اضطراب کا اصل راز یہ تھا کہ جاہلیت کا نظام خود اپنے اصول و قواعد کی پابندی بھی نہ کرتا تھا۔ وہ قانون اور اصولوں کا احترام محض ظاہر داری کے طور پر کرتا تھا۔ ہر جاہلی نظام میں چونکہ حلال و حرام کے حدود وقیود خود انسان ہی مقرر کرتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے بنائے ہوئے حدود میں تاویلات کرکے خود حدود شکنی کا فریضۃ بھی سر انجام دیتے ہیں۔

اس کی کہانی یوں ہے کہ اللہ نے تو چار مہینوں کو حرام قرار دیا تھا۔ ان میں تین ملے ہوئے تھے یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا منفرد تھا یعنی رجب۔ یہ تحریم حج کے مشہور مہینوں میں تھی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے تھی۔ اگرچہ عربوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں بےحد تحریف کردی تھی اور جو دین صیح بھی تھا ، اس سے انہوں نے انحراف کرلیا تھا لیکن حرام چار مہینوں کی حرمت کو وہ بہرحال حضور کے دور تک ملحوظ رکھتے تھے۔ اس لیے کہ ان کا تعلق موسم حج سے تھا اور ججازیوں کی معاشی زندگی کا تو دار و مدار ہی ان مہینوں پر تھا۔ خصوصا اہل مکہ کے سکان کا۔ کیونکہ موسم حج میں تجارت کی کامیاب کا دارومدار ہی اس پر تھا کہ لوگوں کی نقل و حرکت آزادانہ طور پر جاری رہے اور تجارت ہوتی رہے۔

اس کے بعد یوں ہوا کہ بعض عربی قبائل کی ذاتی ضروریات کا ٹکراؤ اس تحریم سے ہوا ، اور ان کی خواہشات نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے ان لوگوں کو باور کرایا کہ حرام مہینوں کے اندر اپنی خواہشات کے مطابق تقدیم و تاخیر کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کہ کسی مہینے کو کسی سال میں مقدم کردیا جائے اور کسی سال میں موخر کردیاجائے۔ مہینوں کی تعداد و چار ہی رہے لیکن ان مہینوں کے نام بدل دیے جائیں۔ اس طرح وہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کردیں اور اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کو حلال بھی کردیں۔ لہذا جب 9 ہجری کا سال آیا تو اس میں ماہ رجب حقیقی رجب نہ تھا۔ سی طرح ماہ ذوالحجہ بھی حققی ذوالحجہ نہ تھا۔ رجب در اصل جمادی الاخری تھا اور ذوالحجہ در اصل ذیقعدہ تھا اور فی الحقیقت یہ لشکر کشی در حقیقت تو جمادی الاخری میں تھی لیکن نام کے اعتبار سے یہ رجب میں تھی اور یہ ان لوگوں کے نسیئ کے تصرفات کی وجہ سے ایسا تھا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان احکامات کی وجہ سے عمل نسیئ کو آئندہ کے لیے موقوف قرار دے دیا۔ اور اس بات کی وضاحت کی اس عمل نسیئ کے ذریعے یہ لوگ چونکہ خود مہینوں کو حال قرار دتے ہی یا حرام قرار دیتے ہیں یا حرام قرار دیتے ہیں اور یہ عمل چونکہ اصول دین کے خلاف ہے۔ کیونکہ دین کا یہ اصل الاصول ہے کہ حلال و حرام کے حدود کا عین صرف اللہ تعالیٰ کرسکتا ہے۔ یہ اللہ کا مخصوص حق ہے۔ اور اس حق اور اختیار کو اللہ کے اذن کے بغیر استعمال کرنا کفر اور شرک ہے۔ بلکہ یہ عمل کفر کے میدان میں آخری حدود تک بڑھ جانے کے مترادف ہے۔ اس طرح ان آیات کے ذریعے لوگوں کے دلوں سے خلجان کو دور کردیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اصول بھی واضح کردیا گیا کہ اسلام نظام زندگی میں حرام و حلال کے تعین کا اختیار صرف اور صرف اللہ کو ہے۔ اور اس عقیدے کا تعلق اس عظیم حقیقت سے ہے جو اس پوری کائنات کے ناموس کے اندر پوشیدہ حقیقت سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر ودیعت کی ہے اور تخلیق کے پہلے دن سے۔ اس طرح اللہ کی جانب سے لوگوں کے لیے قانون سازی در اصل اس اصول پر مبنی ہے جو اللہ نے اس کائنات کے لیے ودیعت کیا ہے اس لیے لوگوں کے لیے کسی شخص کی جانب سے قانون سازی کا کام کرنا گویا کفر میں اغے بڑھنا ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنا ہے۔

آیات کے اس حصے میں اس حقیقت کو بھی دوبارہ ذہن نشین کرانا مطلوب ہے۔ جو ان آیات سے متصلا پہلے بھی بیان کی گئی ہیں۔ وہ یہ کہ اہل کتاب بھی مشرکین ہیں اور دشمنی اور جہاد کے زاویہ سے وہ مشرکین کے محاذ میں شامل ہیں اور حکم یہ ہے کہ ان سب کے ساتھ جنگ کی جائے یعنی مشرکین اور اہل کتاب دونوں کے ساتھ۔ اس لیے کہ یہ سب کے سب اہل اسلام کے خلاف جہاد اور جنگ کرتے ہیں اور پوری اسلامی تاریخ سے ان کا یہ طرز عمل پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے اور قرآن کے الفاظ تو اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ اہل کتاب اور مشرکین دونوں کا مشترکہ ہدف یہی ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر وقت برسر پیکار رہتے ہیں۔ اور جب بھی ان کا سامنا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ اپنے درمیان کی عداوتوں کو بھول جاتے ہی ، چاہے یہ اختلافات باہم عداوتوں کے حوالے سے ہوں یا عقائد و نظریات کے حوالے سے ہوں چناچہ اسلام کی راہ روکنے کے لیے پھر ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور وہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے متحد اور متفق ہوجاتے ہیں۔

یہ حقیقت کہ اہل کتاب دوسرے مشرکوں کی طرح مشرک ہیں اور یہ کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی طرح لڑتے ہیں۔ اس بات کی متقاضی ہے کہ مسلمان بھی ان تمام مشرکوں کے خلاف لڑیں چاہے ان کا تعلق مشرکین اہل کتاب سے ہو یا مشرکین عرب سے ہو۔ اور دوسری یہ کہ نسیئ کا عمل کفر کی ایڈوانس شکل ہے کیونکہ ایک غلط کام ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اللہ کے اختیار قانون سازی پر دست درازی بھی ہے اس لیے یہ سادہ کفر سے زیادہ کفر ہے۔ یہی وہ مناسبت ہے جس کی وجہ سے سابقہ مضمون کے ساتھ ان آیات کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ سابقہ آیات میں ان رکاوٹوں کا ذ کر تھا جو جہاد کے لیے نکلنے میں حائل ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاد اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے خلاف تھا۔

درس نمبر 89 تشریح آیات

36 ۔۔۔ تا۔۔۔ 37

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ : " حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ "

یہ آیت زمانے کو اس معیار اور قانون کی طرف لوٹا دتی ہے اور زمانے کا دوران اس نظام کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق کی ہے یعنی زمانے کا تعین تخلیق کائنات کے مطابق ہوگا۔ اس آیت میں اسی طرح بھی بھی اشارہ ہے کہ اس کائنات میں زمانے کا ایک نہایت ہی مستحکم دور کام کرتا ہے اور اس دوران میں سال کو بارہ مہینوں کے اندر تقسیم کیا گیا ہے۔ اس مستحکم دوران میں کمی و بیشی نہیں پیدا کی جاسکتی۔ اور یہ دوران زمان اور حولان حول میں نہایت ہی منضبط ہے اور یہ اس قانون قدرت کے مطابق ہے جس کے تحت اس کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ یہ نظام اور ضابطہ یا ناموس یا قدر اس دقیق اور مستحکم ہے کہ اس میں کوئی کمی و بیشی نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ زمانے کا دوران نہایت ہی دقیق معیار کے مطابق سر انجام پاتا ہے۔ اور آغاز تخلیق کائنات سے اس ضابطے کو جاری وساری کیا گیا ہے اور یہ کبھی موقوف نہیں ہوا ہے۔

زمان و مکان کے قانون حرکت کے اس استحکام کو یہاں اس لیے لایا گیا ہے کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ حرام و حلال کے حدود وقیوم کا تعین کائنات کے اس مستحکم اصول پر مبنی ہے ۔ لہذا حلال و حرام کا تعین محض وقتی خواہشات اور میلانات کی اساس پر نہیں ہوسکتا۔ نہ اس کی حرکت میں تقدیم و تاخیر کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ نہایت ہی غیر معمولی امر ہے۔

ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ " یہی ٹھیک ضابطہ ہے " پس یہ دین اس کائنات کے مضبوط ضابطے کے مطابق ہے اور کائنات کا مضبوط ضابطہ وہ ہے جس کے مطابق یہ کائنا روز اول سے چل رہی ہے جب سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔

یہ ایک مختصر آیت ہے لیکن اس میں معانی و مدلولات کا ایک لامتناہی سلسلہ رکھ دیا گیا ہے۔ یہ معانی پے در پے چلے آ رہے ہیں۔ بعض ، بعض کے لیے شریح اور توسیع کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ بعض کی وجہ سے دوسرے مطالب قوی ہوتے ہیں۔ وہ تمام علمی اور سائنسی اکتشافات اس کے مفہوم میں داخل ہیں جو جدید انسان اس دنیا میں سائنس کے ذریعے سامنے لاتا ہے اور مسلسل تجربات کرکے مزید حقائق کو سامنے لا رہا ہے۔ اس طرح اصول دین اور اصول کائنات کے درمیان مسلسل تطابق کا اظہار ہوتا ہے اور دینی اصودل دور جدید میں اچھی طرح ذہنوں میں بیٹھ رہے ہیں اور اس کے اصول اور اس کی بنیادیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ یہ تمام مدلولات صرف 12 الفاط کے ذریعے منضبط کیے گئے ہیں اور یہ الفاظ بھی بظآہر نہایت ہی معمولی اور سادہ ہیں اور عام فہم اور سادہ ہیں۔

فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ " ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو " ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو "

ان چار مہینوں میں ایک دوسرے کے اوپر ظلم نہ کرو کیونکہ یہ اصول اس اصول سے مربوط ہے جس کے اوپر کائنات کو منظم کیا گیا ہے اور یہ اصول اس اصول سے مربوط ہے جس کے اوپر کائنات کو منظم کیا گیا ہے اور یہ اصول اعظم یہ ہے کہ جس طرح اس کائنات کا قانون ساز اللہ ہے ، اسی طرح لوگوں کے لی بھی ضابطہ بندی کرنے والا اللہ ہے۔ لہذا ان ضوابط کی خلاف ورزی ظلم ہوگا لہذا تم ان حرام مہینوں کو اپنے لیے حلال کرکے امن و سلامتی کے خلاف اقدام مت کرو۔ یہ اللہ کے ارادے اور مشیئت کی خلاف ورزی ہوگی اور یہ خلاف ورزی ظلم ہے اور یہ ظلم کرکے اپنے آپ کو دنیا و آخرت کے عذاب کے لیے مستحق نہ ٹھہراؤ اور اپنے معاشرے کے اندر قلق و اضطراب نہ پیدا کرو اور اس دنیا کو اس جنگ کا شکار نہ بناؤ جس کا کوئی مقصد نہیں جو امن و سلامتی سے متضاد ہے۔

وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : " اور مشرکوں سے سب سے مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے "

یعنی حرام مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں الا یہ کہ مشرکین حرام مہینوں میں تم پر حملہ کردیں۔ اگر وہ حرام مہینوں میں تم پر دست درازی کریں تو تم ان مہینوں میں اپنا دفاع کرسکتے ہو کیونکہ اگر یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیا جائے و اس طرح اچھے اخلاف کی حامل قوتیں کمزور پوزیشن میں چلی جائیں گی اور انسانی اخلاق کی حامل قوتیں اشرار کا مقابلہ نہ کرسکیں گی اور دنیا میں شر و فساد کا دور دورہ ہوجائے گا اور دنیا پر طوائف الملوکی کا غلبہ ہوجائے گا۔ لہذا حرام مہینوں میں جارحیت کا مقابلہ کرنا بھی در اصل ان مہینوں کی حرمت کو بچانا ہے تاکہ آئندہ ان کا احترام کیا جائے اور کوئی کسی کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہ کرے۔

وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً : " اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں " یعنی تم سب ان کے ساتھ لڑو ، بلا استثناء سب کے سب ، اس حکم سے کوئی جماعت بھی مستثنی نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ سب تم سے لڑتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مستثنی نہیں ہے۔ اور وہ بھی تم میں سے کسی مستثنی نہیں کرتے۔ لہذا معرکہ جہاد درحقیقت شرک اور توحید کے نظریات کے درمیان معرکہ ہے۔ یہ ایمان اور کفر اور ہدایت و ضلالت کے درمیان معرکہ آرائی ہے۔ یہ ایسے دو بلاکوں کے درمیان محاذ آرائی ہے جن کے درمیان کسی بھی وقت امن قائم نہیں ہوسکتا ، نہ ان کے درمیان کوئی مکمل اتفاق ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اختلاف کوئی عارضی اور جزوی اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ دائمی اور بنیادی اختلاف ہے۔ یہ ایسے مصالح اور مفادات کا اختلاف نہیں ہے جن کے درمیان یگانگت پیدا کی جاسکتی ہو۔ نہ زمین کے کسی رقبے پر اختلاف ہے جسے تقسیم کرکے اس کی حد بندی کی جاسکتی ہو ، اگر امتت مسلمہ یہ سمجھے کہ اس کے اور کفار اہل کتاب اور بت پرستوں کے درمیان برپا جنگ اقتصادیات کی جنگ ہے یا کوئی قومی جنگ ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہوگی یا اگر اسے کوئی یہ بات سمجھاتا ہے تو وہ اسے دھوکہ دیتا ہے۔ یہ معرکہ محض وطنی یا پالیسی کا معرکہ نہیں ہے ، یہ تو ایک ہمہ گیر نظریاتی معرکہ ہے۔ اور یہ اس نظام اور دین اسلام اور کفر کے درمیان معرکہ ہے۔ اس ہمہ گیر معرکے کا فیصلہ انصاف اور کچھ لے اور کچھ دے کے اصول پر نہیں ہوسکتا ، نہ مذاکرات کے ذریعے اسے حل کیا جاسکتا ہے۔ اس کا حل تو صرف عمل جہاد میں مضمر ہے۔ مسلسل جدوجہد اور پیہم عمل میں اس کا حل مضمر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ سنت ہے جو کسی طرح بھی نہیں ٹل سکتی۔ یہ وہ نظام اور قانون ہے جس کے اوپر نظام کائنات کھڑآ ہے۔ آسمان و زمین اسی ناموس اکبر کے مطابق قائم اور رواں دواں ہیں۔ دنیا کے ادیان اور نظریات بھی اس ناموس کے مطابق چل رہے ہیں۔ دل اور دماگ کا نظام بھی یہی تکوینی نظام ہے اور یہ اسی روز سے قائم ہے جس روز سے اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق کی ہے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ " اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے " لہذا کامیابی ان متقین کے لیے لکھ دی گئی ہے جو اللہ کی حدود کا احترام کرتے ہیں ، اللہ جسے حرام قرار دے اسے حرام قرار دیتے ہیں اور اللہ کے قوانین سے انحراف نہیں کرتے۔ لہذا قانون قدرت یہ ہے کہ مسلمان مشرکین خلاف عمل جہاد کو لمحہ بھر کے لیے بھی موقوف نہ کریں ، اس سے انحراف نہ کریں اور اس مسلسل جہاد میں وہ حدود اللہ کو پامال نہ کریں اور حدود اللہ کا احترام کریں اور عمل جہاد کو اس کے پورے قوانین اور آداب کے مطابق جاری رکھیں اور اس جہاد میں ان کے پیش نظر صف رضائے الہی ہو ، دل میں بھی اور علانیہ طور پر بھی۔ اگر وہ ان اصولوں کے مطابق جہاد میں داخل ہوں تو فتح ان کے قدم چومے گی کیونکہ اس صورت میں اللہ ان کے ساتھ ہوگا اور جس کا ساتھی اللہ ہو ، اس کی کامیابی میں کوئی شک نہیں رہتا۔

192