سورہ توبہ: آیت 34 - ۞ يا أيها الذين آمنوا... - اردو

آیت 34 کی تفسیر, سورہ توبہ

۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلْأَحْبَارِ وَٱلرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَٰلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَٰطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ ۗ وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

اردو ترجمہ

اے ایمان لانے والو، اِن اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo inna katheeran mina alahbari waalrruhbani layakuloona amwala alnnasi bialbatili wayasuddoona AAan sabeeli Allahi waallatheena yaknizoona alththahaba waalfiddata wala yunfiqoonaha fee sabeeli Allahi fabashshirhum biAAathabin aleemin

آیت 34 کی تفسیر

اس سورة کے اس سبق کی آخری یونٹ پر ہم پہنچ چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اہل کتاب اللہ کے حرا کیے ہوئے کو کس طرح حرام نہیں کرتے۔ جبکہ اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ اپنے احبارو رہبان کو رب سمجھتے ہیں۔ اللہ کے سوا رب قرار دیتے ہیں اور جس کی تفسیر رسول اللہ نے یہ فرمائی تھی کہ یہ اہل کتاب احبارو رہبان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام سمجھتے ہیں۔ یہاں یہ بتایا گیا کہ یہ احبارو رہبان اللہ کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے۔ اللہ کے حلال کردہ کو حلال نہیں سمجھتے۔

۔۔۔

آیت میں احبارو رہبان کے کردار کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ عوام نے تو ان کو اللہ کے علاوہ رب بنا رکھا ہے۔ اور یہ لوگ نتیجتاً لوگوں کے لیے حلال و حرام کے قوانین بنانے ہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو لوگوں کے لیے بطور رب پیش کیا ہے اور لوگوں نے اسے قبول کیا ہے۔ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھاتے پیتے ہیں۔ اور لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں۔

لوگوں کے اموال کھانے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ جو ابھی تک رائج ہیں۔ ان میں سے ایک تو وہ فیس ہے جو حرام کو حلال قرار دینے یا حلال کو حرام قرار دینے کے عوض لی جاتی تھی اور اس قسم کے فیصلے بالعموم مالداروں کے حق میں ہوتے تھے یا بادشاہوں کے حق میں جاری ہوتے تھے۔ ان میں وہ فیس بھی شامل ہے جو مذہبی پیشوا ایک معترف گناہ سے لیتے تھے اور پھر اسے بخش دیتے تھے اور ان مذہبی پیشواؤں کے زعم میں وہ یہ اختیارات ازروئے شریعت رکھتے تھے اور اس میں مشہور مسئلہ رہا ہے کہ وہ اسے حلال قرار دیتے تھے۔

اس میں وہ اموال بھی شامل ہیں جو وہ لوگوں سے دین حق کے مقابلے کے لیے لیتے تھے۔ احبار اور رہبان اسقف اور دوسرے مذہبی پیشوا صلیبی جنگوں کے لیے لاکھوں روپے جمع کرتے رہے ہیں اور اب وہ مستشرقین اور مبشرین کے لیے اربوں روپے جمع کرکے عالم اسلام میں خرچ کرتے ہیں ، یوں وہ لوگوں کو گمراہ کرکے اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔

قرآن کریم کی درج ذیل آیت بڑے گہرے غور و فکر کی مستحق ہے۔ اس میں بات کس قدر عدل و انصاف کے ساتھ کی گئی ہے۔

اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ یعنی احبارو رھبان میں سے بیشتر لوگ۔ اس سے ان لوگوں کی وہ قلیل تعداد نکل جاتی ہے جو اس غلطی کا ارتکاب نہیں کرتی۔ اس لیے کہ دنیا کے مختلف فرقوں اور جماعتوں میں اچھے لوگوں کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ اور ذات باری تعالیٰ بہرحال ہر کسی کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔

اکثر احبارو رہبان لوگوں سے حاصل کردہ اموال کو جمع کرتے تھے۔ یہود و نصاری کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ لوگوں کے اموال کنیسوں میں جمع کرتے اور ان کے تکیوں پر بےحد شکرانے جمع ہوتے تھے۔ اور بعض اوقات مذہبی لیڈروں کے پاس بادشاہوں اور راجوں وہ مہاراجوں کے مقابلے میں بھی زیادہ دولت جمع ہوجاتی تھی۔

اس لیے یہاں سیاق کلام میں قیامت کے دن ان کی اس جمع کردہ دولت ہی کو ان کے لیے باعث عذاب بنایا ہے اور یہی سزا ان تمام لوگوں کو ملے گی جو دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اور اس بات کی تصویر کشی نہایت ہی خوفناک انداز میں کی گئی ہے :

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ (35) " دردناک سزا کی خوشخبری دو ۔ ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں۔ اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا ، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو "

تعذیب کے اس منظر کی یہاں بہت سی تفصیلات دے دی گئی ہیں اور تعذیب کے ابتدائی مراحل سے لیکر آخری مراحل کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے تاکہ حس و خیال میں یہ منظر اچھی طرح بیٹھ جائے لہذا تعذیب کی تفصیلات دینا با مقصد ہے۔

والذین یکنزون الذھب والفضۃ " دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرک رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے " اس کے بعد سیاق کلام پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے اور اجمال اور ابہام کے بعد تفصیلات دوسری آیت میں دی جاتی ہیں۔

آیت 34 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَال النَّاس بالْبَاطِلِ مختلف مسلمان امتوں میں مذہبی پیشواؤں کے لیے مختلف نام اور القاب رائج رہے ہیں۔ بنی اسرائیل کے ہاں انہیں احبار اور رہبان کہا جاتا تھا۔ آیت زیر نظر کے مطابق اس طبقے میں اکثریت ایسے لوگوں کی رہی ہے جو باطل اور ناجائز ذرائع سے مال و دولت جمع کرنے اور جائیداد بنانے کے مکروہ دھندے میں ملوث رہے ہیں۔ ایک عام دنیا دار آدمی جائز طریقے سے مال و دولت کماتا ہے یا جائیداد بناتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر ایک ایسا شخص جو دین کی خدمت میں مصروف ہے اور اسی حقیقت سے جانا پہچانا جاتا ہے ‘ اگر وہ بھی مال و دولت جمع کرنے اور جائیداد بنانے میں مشغول ہوجائے ‘ اور مزید یہ کہ دین کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنی دینی حیثیت کو نیلام کرتے ہوئے لوگوں کے مال ہڑپ کرنے لگے اور مال و دولت جمع کرنیہی کو اپنا مقصد زندگی بنا لے ‘ تو ایسا انسان آسمان کی چھت کے نیچے بد ترین انسان ہوگا۔ اپنی امت کے علماء کے بارے میں حضور ﷺ کی ایک بہت عبرت انگیز حدیث ہے : عَنْ عَلِیٍّ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : یُوْشِکُ اَنْ یَأْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَام الاَّ اسْمُہٗ ‘ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآن الاَّ رَسْمُہٗ ‘ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی ‘ عُلَمَاؤُھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاءِ ‘ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ 1حضرت علی رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا جب اسلام میں سے اس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا اور قرآن میں سے اس کے رسم الخط کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ان کی مسجدیں بہت آباد اور شاندار ہوں گی مگر وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے ‘ فتنہ انہی میں سے برآمد ہوگا اور ان ہی میں لوٹ جائے گا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط جب کوئی دینی تحریک اٹھتی ہے ‘ کوئی اللہ کا مخلص بندہ لوگوں کو دین کی طرف بلاتا ہے ‘ تو ان مذہبی پیشواؤں کو اپنی مسندیں خطرے میں نظر آتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے عقیدت مند انہیں چھوڑ کر کسی دوسری دعوت کی طرف متوجہ ہوں ‘ کیونکہ انہی عقیدت مندوں کے نذرانوں ہی سے تو ان کے دولت کے انباروں میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے اور ان کی جائیدادیں بن رہی ہوتی ہیں۔ وہ آخر کیونکر چاہیں گے کہ ان کے نام لیوا کسی دوسری دعوت پر لبیک کہیں۔وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِلا فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ اس آیت کے حوالے سے حضرت ابوذر غفاری رض کی ذاتی رائے یہ تھی کہ سونا اور چاندی اپنے پاس رکھنا مطلقاً حرام ہے۔ مگر دوسرے صحابہ کرام رض ‘ حضرت ابوذر غفاری رض کی اس رائے سے متفق نہیں تھے۔ چناچہ دین کا عام قانون اس سلسلے میں یہی ہے کہ اگر کسی نے کوئی مال جائز طریقے سے کمایا ہو اور وہ اس میں سے زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہو تو اس مال کو وہ اپنے پاس رکھا سکتا ہے ‘ چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ ہو اور چاہے وہ سونے یا چاندی ہی کی شکل میں ہو۔ ایسا مال ایک شخص کی موت کے بعد اس کے ورثاء کو جائز مال کے طور پر قانون وراثت کے مطابق منتقل بھی ہوگا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ قانون وراثت خود اس بات پر دلیل ہے کہ مال و دولت کو اپنی ملکیت میں رکھنا ناجائز نہیں ہے ‘ کیونکہ اگر مال جمع نہیں ہوگا تو وراثت کس چیز کی ہوگی اور قانون وراثت کا عملاً کیا مقصد رہ جائے گا ؟ اس لحاظ سے قرآن کے وہ احکام روحانی اور اخلاقی تعلیم کے زمرے میں آتے ہیں جن میں بار بار مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس سلسلے میں قُلِ الْعَفْوَ ط البقرۃ : 219 کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ یعنی جو بھی زائد از ضرورت ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے۔ چناچہ حضرت عثمان رض کے دورخلافت میں حضرت ابوذر غفاری رض کی مخالفت کے باوجود قانونی نقطہ نظر سے یہی فیصلہ ہوا تھا کہ سونا ‘ چاندی اپنے پاس رکھنا مطلقاً حرام نہیں ہے ‘ مگر حضرت ابوذر غفاری رض اپنی رائے میں کسی قسم کی لچک پیدا کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ چونکہ آپ رض کے اختلاف کی شدت کے باعث مدینہ کے ماحول میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہو رہی تھی ‘ اس لیے حضرت عثمان رض نے آپ رض کو حکم دیا کہ وہ مدینہ سے باہر چلے جائیں۔ اس پر آپ رض مدینہ سے نکل گئے اور صحرا میں ایک چھونپڑی بنا کر اس میں رہنے لگے۔میرے نزدیک اس آیت کا حکم احبار اور رہبان یعنی مذہبی پیشواؤں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جنہوں نے اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں دین کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہیں اور ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ ایسے مذہبی پیشواؤں کو لوگ ہدیے دیتے ہیں اور ان کی مالی معاونت کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرسکیں۔ جیسے حضور ﷺ خود بیت المال سے اپنی ضروریات پوری کرتے تھے ‘ ازواج مطہرات رض کو نان نفقہ بھی دیتے تھے اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتے تھے ‘ مگر بیت المال سے کچھ میسر نہ ہونے کی صورت میں فاقے بھی کرتے تھے۔ اسی طرح خلفائے راشدین رض کی مثال بھی ہے۔ چناچہ ایسے مذہبی پیشواؤں پر بھی لازم ہے کہ وہ دوسروں کے ہدیے اور وظائف صرف معروف انداز میں اپنی اور اپنے زیر کفالت افراد کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے استعمال میں لائیں۔ لیکن اگر یہ لوگ اپنی مذکورہ حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت اکٹھی کرنا اور جائیدادیں بنانا شروع کردیں ‘ اور پھر یہ جائیدادیں قانون وراثت کے تحت ان کے ورثاء کو منتقل ہوں تو ایسی صورت میں ان لوگوں پر اس آیت کے احکام کا حرف بہ حرف انطباق ہوگا۔ چناچہ آج بھی اگر آپ علمائے حق اور علمائے سو کے بارے میں معلوم کرنا چاہیں تو میرے نزدیک یہ آیت اس کے لیے ایک طرح کا لٹمس ٹیسٹ litmus test ہے۔ اگر کوئی مذہبی پیشوا یا عالم اپنے دینی کیرئیر کے نتیجے میں جائیدادبنا کر اور اپنے پیچھے دولت چھوڑ کرمرا ہو تو وہ بلاشک و شبہ علمائے سو میں سے ہے۔

یہودیوں کے علماء کو احبار اور نصاریٰ کے عابدوں کو رہبان کہتے ہیں۔ (لَوْلَا يَنْھٰىهُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ 63؀) 5۔ المآئدہ :63) میں یہود کے علماء کو احبار کہا گیا ہے۔ نصرانیوں کے عابدوں کو رہبان اور ان کے علماء کو قسیس۔ اس آیت میں کہا گیا (ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 82؀) 5۔ المآئدہ :82) آیت کا مقصود لوگوں کو بڑے علماء اور گمراہ صوفیوں اور عابدوں سے ہوشیار کرانا اور ڈرانا ہے۔ حضرت سفیان بن عینیہ ؒ فرماتے ہیں۔ ہمارے علماء میں سے وہی بگڑتے ہیں، جن میں کچھ نہ کچھ شائبہ یہودیت کا ہوتا ہے اور ہم مسلمانوں میں صوفیوں اور عابدوں میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں نصرانیت کا شائبہ ہوتا ہے۔ صحیح حدیث شریف میں ہے کہ تم یقیناً اپنے سے پہلوں کی روش پر چل پڑو گے۔ ایسی پوری مشابہت ہوگی کہ ذرا بھی فرق نہ رہے گا لوگوں نے پوچھا کیا یہود و نصاریٰ کی روش پر ؟ آپ نے فرمایا ہاں انہی کی روش پر اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کی روش پر ؟ آپ نے فرمایا اور کون لوگ ہیں ؟ پس ان کے اقوال افعال کی مشابہت سے ہر ممکن بچنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ اس وجاہت سے ریاست و منصب حاصل کرنا اور اس وجاہت سے لوگوں کا مال غصب کرنا چاہتے ہیں۔ احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا۔ ان کے تحفے، ہدیئے، خراج، چراغی مقرر تھی جو بغیر مانگے انہیں پہنچ جاتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انہیں قبول اسلام سے روکا۔ لیکن حق کے مقابلے کی وجہ سے اس طرف سے بھی کورے رہے اور آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ذلت و حقارت ان پر برس پڑی اور غضب الٰہی میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہوگئے۔ یہ حرام خور جماعت خود حق سے رک کر اوروں کے بھی درپے رہتی تھی حق کو باطل سے خلط ملط کر کے لوگوں کو بھی راہ حق سے روک دیتے تھے۔ جاہلوں میں بیٹھ کر گپ ہانکتے کہ ہم لوگوں کو راہ حق کی طرف بلاتے ہیں حالانکہ یہ صریح دھوکہ ہے وہ تو جہنم کی طرف بلانے والے ہیں قیامت کے دن یہ بےیارو مددگار چھوڑ دیئے جائیں گے۔ عالموں اور صوفیوں یعنی واعظوں اور عابدوں کا ذکر کرنے کے بعد اب امیروں دولت مندوں اور رئیسوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جس طرح یہ دونوں طبقے اپنے اندر بدترین لوگوں کو بھی رکھتے ہیں ایسے ہی اس تیسرے طبقے میں بھی شریر النفس لوگ ہوتے ہیں عموماً انہی تین طبقے کے لوگوں کا عوام پر اثر ہوتا ہے عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ بلکہ ان کے پیچھے ہوتی ہیں پس ان کا بگڑنا گویا مذہبی دنیا کا ستیاناس ہونا ہے جیسے کہ حضرت ابن المبارک ؒ کہتے ہیں۔ وھل افسدالدین الا الملوک واحبار سوء ورھبانھا یعنی دین واعظوں، عالموں، صوفیوں اور درویشوں کے ناپاک طبقے سے ہی بگڑتا ہے۔ کنز اصطلاح شرع میں اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہو۔ حضرت ابن عمر سے یہی مروی ہے بلکہ فرماتے ہیں جس مال کی زکوٰۃ دے دی جاتی ہو وہ اگر ساتویں زمین تلے بھی ہو تو وہ کنز نہیں اور جس کی زکوٰۃ نہ دی جاتی ہو وہ گو زمین پر ظاہر پھیلا پڑا ہو کنز ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ حضرت جابر ؓ حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی موقوفاً اور مرفوعاً یہی مروی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں بغیر زکوٰۃ کے مال سے اس مالدار کو داغا جائے گا۔ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ یہ زکوٰۃ کے اترنے سے پہلے تھا زکوٰۃ کا حکم نازل فرما کر اللہ نے اسے مال کی طہارت بنادیا۔ خلیفہ برحق حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ اور عراک بن مالک نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اسے قول ربانی (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ01003) 9۔ التوبہ :103) نے منسوخ کردیا ہے۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ تلواروں کا زیور بھی کنز یعنی خزانہ ہے۔ یاد رکھو میں تمہیں وہی سناتا ہوں جو میں نے جناب پیغمبر حق ﷺ سے سنا ہے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ چار ہزار اور اس سے کم تو نفقہ ہے اور اس سے زیاہ کنز ہے۔ لیکن یہ قول غریب ہے۔ مال کی کثرت کی مذمت اور کمی کی مدحت میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں بطور نمونے کے ہم بھی یہاں ان میں سے چند نقل کرتے ہیں۔ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سونے چاندی والوں کے لئے ہلاکت ہے تین مرتبہ آپ کا یہی فرمان سن کر صحابہ پر شاق گذرا اور انہوں نے سوال کیا کہ پھر ہم کس قسم کا مال رکھیں ؟ حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے یہ حالت بیان کر کے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ذکر کرنے والی زبان شکر کرنے والا دل اور دین کے کاموں میں مدد دینے والی بیوی۔ مسند احمد میں ہے کہ سونے چاندی کی مذمت کی یہ آیت جب اتری اور صحابہ نے آپس میں چرچا کیا تو حضرت عمر ؓ نے کہا لو میں حضور ﷺ سے دریافت کر آتا ہوں اپنی سواری تیز کر کے رسول ﷺ سے جا ملے اور روایت میں ہے کہ صحابہ ؓ نے کہا پھر ہم اپنی اولادوں کے لئے کیا چھوڑ جائیں ؟ اس میں ہے کہ حضرت عمر کے پیچھے ہی پیچھے حضرت ثوبان بھی تھے۔ آپ نے حضرت عمر ؓ کے سوال پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لئے مقرر فرمائی ہے کہ بعد کا مال پاک ہوجائے۔ میراث کے مقرر کرنے کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں حضرت عمر ؓ یہ سن کر مارے خوشی کے تکبیریں کہنے لگے۔ آپ نے فرمایا لو اور سنو میں تمہیں بہترین خزانہ بتاؤں نیک عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف نظر ڈالے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے فوراً بجا لائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کی ناموس کی حفاظت کرے۔ حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ حضرت شداد بن اوس ؓ ایک سفر میں تھے ایک منزل میں اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں مجھے برا معلوم ہو آپ نے افسوس ظاہر کیا اور فرمایا میں نے تو اسلام کے بعد سے اب تک ایسی بےاحتیاطی کی بات کبھی نہیں کی تھی اب تم اسے بھول جاؤ اور ایک حدیث بیان کرتا ہوں اسے یاد رکھو لو رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب لوگ سونا چاندی جمع کرنے لگیں تم ان کلمات کو بکثرت کہا کرو۔ اللھم انی اسئلک الثبات فی الامر والعزیمۃ علی الرشد واسئلک شکر نعمتک واسئلک حسن عبادتک واسئلک قلبا سلیما واسئلک لسانا صادقا واسئلک من خیر ماتعلم واعوذبک من شرماتعلم واستغفرک لما تعلم انک انت علام الغیوب (ترجمہ) یعنی یا اللہ میں تجھ سے کام کی ثابت قدمی اور بھلائیوں کی پختگی اور تیری نعمتوں کا شکر اور تیری عبادتوں کی اچھائی اور سلامتی والا دل اور سچی زبان اور تیرے علم میں جو بھلائی ہے وہ اور تیرے علم میں جو برائی ہے اس کی پناہ اور جن برائیوں کو تو جانتا ہے ان سے استغفار طلب کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ تو تمام غیب جاننے والا ہے۔ آیت میں بیان ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کو خرچ نہ کرنے والے اور اسے بچا بچا کر رکھنے والے درد ناک عذاب دیئے جائیں گے۔ قیامت کے دن اسی مال کو خوب تپا کر گرم آگ جیسا کر کے اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور کمر داغی جائے گی اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ان سے فرمایا جائے گا کہ لو اپنی جمع جتھا کا مزہ چکھو۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ گرم پانی کا تریڑ دوزخیوں کے سروں پر بہاؤ اور ان سے کہو کہ عذاب کا لطف اٹھاؤ تم بڑے ذی عزت اور بزرگ سمجھے جاتے رہے ہو بدلہ اس کا یہ ہے۔ ثابت ہوا کہ جو شخص جس چیز کو محبوب بنا کر اللہ کی اطاعت سے اسے مقدم رکھے گا اسی کے ساتھ اسے عذاب ہوگا۔ ان مالداروں نے مال کی محبت میں اللہ کے فرمان کو بھلا دیا تھا آج اسی مال سے انہیں سزا دی جا رہی ہے جیسے کہ ابو لہب کھلم کھلا حضور ﷺ کی دشمنی کرتا تھا اور اس کی بیوی اس کی مدد کرتی تھی قیامت کے دن آگ کے اور بھڑکانے کے لئے وہ اپنے گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں لا لا کر اسے سلگائے گی اور وہ اس میں جلتا رہے گا۔ یہ مال جو یہاں سے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں یہی مال قیامت کے دن سب سے زیادہ مضر ثابت ہوں گے۔ اسی کو گرم کر کے اس سے داغ دیئے جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں ایسے مالداروں کے جسم اتنے لمبے چوڑے کردیئے جائیں گے کہ ایک ایک دینار و درہم اس پر آجائے پھر کل مال آگ جیسا بنا کر علیحدہ علیحدہ کر کے سارے جسم پر پھیلا دیا جائے گا یہ نہیں ایک کے بعد ایک داغ لگے۔ بلکہ ایک ساتھ سب کے سب۔ مرفوعاً بھی یہ روایت آئی ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں۔ واللہ اعلم۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ اس کا مال ایک اژدھا بن کر اس کے پیچھے لگے جو عضو سامنے آجائے گا اسی کو چبا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو اپنے بعد خزانہ چھوڑا جائے اس کا وہ خزانہ قیامت کے دن زہریلا اژدھا بن کر جس کی آنکھوں پر نقطے ہوں گے اس کے پیچھے لگے گا یہ بھاگتا ہوا پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ وہ کہے گا تیرا جمع کردہ اور مرنے کے بعد چھوڑا ہوا خزانہ۔ آخر اسے پکڑ لے گا اور اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی۔ صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے اس کا مال قیامت کے دن آگ کی تختیوں جیسا بنادیا جائے گا اور اس سے اس کی پیشانی پہلو اور کمر داغی جائے گی۔ پچاس ہزار سال تک لوگوں کے فیصلے ہوجانے تک تو اس کا یہی حال رہے گا پھر اسے اس کی منزل کی راہ دکھا دی جائے گی جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ امام بخاری اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زید بن وہب حضرت ابوذر ؓ سے ربذہ میں ملے اور دریافت کیا کہ تم یہاں کیسے آگئے ہو ؟ آپ نے فرمایا ہم شام میں تھے وہاں میں نے (وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 34؀ۙ) 9۔ التوبہ :34) کی تلاوت کی تو حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ میں نے کہا ہماری اور ان کے سب کے حق میں ہے۔ اس میں میرا ان کا اختلاف ہوگیا انہوں نے میری شکایت کا خط دربار عثمانی میں لکھا خلافت کا فرمان میرے نام آیا کہ تم یہاں چلے آؤ جب مدینے پہنچا تو چاروں طرف سے مجھے لوگوں نے گھیر لیا۔ اس طرح بھیڑ لگ گئی کہ گویا انہوں نے اس سے پہلے مجھے دیکھا ہی نہ تھا۔ غرض میں مدینے میں ٹھہرا لیکن لوگوں کی آمد و رفت سے تنگ آگیا۔ آخر میں نے حضرت عثمان ؓ سے شکایت کی تو آپ نے مجھے فرمایا کہ تم مدینے کے قریب ہی کسی صحرا میں چلے جاؤ۔ میں نے اس حکم کی بھی تعمیل کی لیکن یہ کہہ دیا کہ واللہ جو میں کہتا تھا اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ بال بچوں کے کھلانے کے بعد جو بچے اسے جمع کر رکھنا مطلقاً حرام ہے۔ اسی کا آپ فتویٰ دیتے تھے اور اسی کو لوگوں میں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کرتے تھے۔ اسی کا حکم دیتے تھے اور اس کے مخالف لوگوں پر بڑا ہی تشدد کرتے تھے۔ حضرت معاویہ نے آپ کو روکنا چاہا کہ کہیں لوگوں میں عام ضرر نہ پھیل جائے یہ نہ مانے تو آپ نے خلافت سے شکایت کی امیر المومنین نے انہیں بلا کر ربذہ میں تنہا رہنے کا حکم دیا آپ وہیں حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں ہی رحلت فرما گئے۔ حضرت معاویہ ؓ نے بطور امتحان ایک مرتبہ ان کے پاس ایک ہزار اشرفیاں بھجوائیں آپ نے شام سے قبل سب ادھر ادھر راہ اللہ خرچ کر ڈالیں۔ شام کو وہی صاحب جو انہیں صبح کو ایک ہزار اشرفیاں دے گئے تھے وہ آئے اور کہا مجھ سے غلطی ہوگئی امیر معاویہ ؓ نے وہ اشرفیاں اور صاحب کے لئے بھجوائی تھیں میں نے غلطی سے آپ کو دے دیں وہ واپس کیجئے آپ نے فرمایا تم پر آفرین ہے میرے پاس تو اب ان میں سے ایک پائی بھی نہیں اچھا جب میرا مال آجائے گا تو میں آپ کو آپ کی اشرفیاں واپس کر دوں گا۔ ابن عباس بھی اس آیت کا حکم عام بتاتے ہیں۔ سدی فرماتے ہیں یہ آیت اہل قبلہ کے بارے میں ہے۔ احنف بن قیس فرماتے ہیں میں مدینے میں آیا دیکھا کہ قریشیوں کی ایک جماعت محفل لگائے بیٹھی ہے میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا کہ ایک صاحب تشریف لائے میلے کچیلے موٹے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے بہت خستہ حالت میں اور آتے ہی کھڑے ہو کر فرمانے لگے روپیہ پیسہ جمع کرنے والے اس سے خبردار رہیں کہ قیامت کے دن جہنم کے انگارے ان کی چھاتی کی بٹنی پر رکھے جائیں گے جو کھوے کی ہڈی کے پار ہوجائیں گے پھر پیچھے کی طرف سے آگے کو سوراخ کرتے اور جلاتے ہوئے نکل جائیں گے سب لوگ سر نیچا کئے بیٹھے رہے کوئی بھی کچھ نہ بولا وہ بھی مڑ کر چل دیئے اور ایک ستون سے لگ کر بیٹھ گئے میں ان کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میرے خیال میں تو ان لوگوں کو آپ کی بات بری لگی آپ نے فرمایا یہ کچھ نہیں جانتے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوذر ؓ سے فرمایا کہ میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوتی کہ تین دن گذرنے کے بعد میرے پاس اس میں سے کچھ بھی بچا ہوا رہے ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے لئے میں کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے۔ غالباً اسی حدیث کی وجہ سے حضرت ابوذر ؓ کا یہ مذہب تھا۔ جو آپ نے اوپر پڑھا واللہ اعلم۔ ایک مرتبہ حضرت ابوذر ؓ کو ان کا حصہ ملا آپ کی لونڈی نے اسی وقت ضروریات فراہم کرنا شروع کیا۔ سامان کی خرید کے بعد سات درہم بچ رہے حکم دیا کہ اس کے فلوس لے لو تو حضرت عبداللہ بن صامت ؓ نے فرمایا اسے آپ اپنے پاس رہنے دیجئے تاکہ بوقت ضرور کام نکل جائے یا کوئی مہمان آجائے تو کام نہ اٹکے آپ نے فرمایا نہیں مجھ سے میرے خلیل ﷺ نے عہد لیا ہے کہ جو سونا چاندی سربند کر کے رکھی جائے وہ رکھنے والے کے لئے آگ کا انگارا ہے جب تک کہ اسے راہ اللہ نہ دے دے۔ ابن عساکر میں ہے حضرت ابو سعید ؓ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ سے فقیر بن کر مل غنی بن کر نہ مل۔ انہوں نے پوچھا یہ کس طرح ؟ فرمایا سائل کو رد نہ کر جو ملے اسے چھپا نہ رکھ انہوں نے کہا یہ کیسے ہو سکے گا آپ نے فرمایا یہی ہے ورنہ آگ ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اہل صفہ میں ایک صاحب کا انتقال ہوگیا وہ دینار یا دو درہم پس انداز کئے ہوئے نکلے آپ نے فرمایا یہ آگ کے دو داغ ہیں تم لوگ اپنے ساتھی کے جنازے کی نماز پڑھ لو اور روایت میں ہے کہ ایک اہل صفہ کے انتقال کے بعد ان کی تہبند کی آنٹی میں سے ایک دینار نکلا آپ نے فرمایا ایک داغ آگ کا پھر دوسرے کا انتقال ہوا ان کے پاس سے دو دینار برآمد ہوئے۔ آپ نے فرمایا یہ دو داغ آگ کے ہیں فرماتے ہیں جو لوگ سرخ وسفید یعنی سونا چاندی چھوڑ کر مرے ایک ایک قیراط کے بدلے، ایک ایک تختی آگ کی بنائی جائے گی اور اس کے قدم سے لے کر ٹھوڑی تک اس کے جسم میں اس آگ سے داغ کئے جائیں گے۔ آپ کا فرمان ہے کہ جس نے دینار سے دینار اور درہم سے درہم ملا کر جمع کر کے رکھ چھوڑا اس کی کھال کشادہ کر کے پیشانی اور پہلو اور کمر پر اس سے داغ دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا یہ ہے جسے تم اپنی جانوں کے لئے خزانہ بناتے رہے اب اس کا بدلہ چکھو اس کا راوی ضعیف کذاب و متروک ہے۔

آیت 34 - سورہ توبہ: (۞ يا أيها الذين آمنوا إن كثيرا من الأحبار والرهبان ليأكلون أموال الناس بالباطل ويصدون عن سبيل الله ۗ والذين...) - اردو