سورہ توبہ: آیت 13 - ألا تقاتلون قوما نكثوا أيمانهم... - اردو

آیت 13 کی تفسیر, سورہ توبہ

أَلَا تُقَٰتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوٓا۟ أَيْمَٰنَهُمْ وَهَمُّوا۟ بِإِخْرَاجِ ٱلرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَٱللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

اردو ترجمہ

کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اِس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ala tuqatiloona qawman nakathoo aymanahum wahammoo biikhraji alrrasooli wahum badaookum awwala marratin atakhshawnahum faAllahu ahaqqu an takhshawhu in kuntum mumineena

آیت 13 کی تفسیر

تفسیر آیات 13 تا 16:۔

تو یہ پیرا گراف اس لیے آیا ہے کہ اس وقت اسلامی سوسائٹی میں مختلف سطح لوگ تھے اور بعض لوگوں کے دلوں میں یہ کھٹک تھی کہ وہ اس قدر فیصلہ کن اور سخت اقدام کیوں کریں۔ اس نکتے کے بارے میں ہم اس سے قبل تفصیل سے بحث کر آئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں یہ خواہش تھی اور وہ یہ امید بھی رکھتے تھے کہ شاید بقیہ مشرکین بھی اسلام قبول کرلیں گے اور شاید یہ قتال اور سختی ضروری نہ ہو۔ اس کے علاوہ دوسری مصلحتیں بھی ان کے پیش نظر ہوں گی اور وہ یہ ہی سمجھتے ہیں کہ آسان راستہ کیوں اختیار نہ کیا جائے۔

ان آیات میں انہی تصورات ، اندیشوں اور وجوہات کو دفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور ماضی قریب و بعید کے واقعات سامنے کر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے اور مسلمانوں کے دلوں کو صاف کیا گیا ہے اور سمجھایا گیا ہے کہ جب مشرکین کے ساتھ معاہدے کیے گئے تو ان کا حشر کیا ہوا۔ جو قسمیں وہ کھاتے تھے وہ کس قدر سچی تھیں پھر رسول اللہ کو انہوں نے کس بےدردی کے ساتھ ملک بدر کیا۔ مکہ سے آپ کو مجبوراً نکلنا پڑا۔ پھر مدینہ پر پہلے انہوں ہی نے چڑھائی کی۔ اس کے بعد ان کو شرم دلائی گئی ہے اور ان کی خودی کو جگایا گیا اور پوچھا گیا کہ تم ان لوگوں سے ڈرتے ہو۔ اگر تم مومن ہو تو صرف اللہ سے ڈرو۔ اس کے بعد ان کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ جنگ کرو شاید اللہ کو منظور یہ ہے کہ وہ تمہارے ہاتھوں ان کو عذاب دینا چاہتا ہے۔ یوں تمہیں ست قدر کا آلہ بننے کا اعزاز حاصل ہوگا۔ اور تمہارے ذریعے اللہ اپنے دشمنوں کو ذلیل کرے گا۔ اور وہ ذلت اور اللہ کے قہر کے مستحق بنیں گے۔ اور ان مومنین کے دل خوش ہوں گے جن کو اللہ کے راستے میں اذیت دی گئی۔ اس کے بعد ان لوگوں کی تمناؤں کو غلط بتایا جاتا ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ شاید بغیر قتال کے یہ لوگ دین اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ اور بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی پالیسی یہ ہے کہ وہ انہیں شکست دلا کر اور ذلیل کرکے اسلام میں داخل کرائے۔ شکست کی صورت میں جس کے مقدر میں لکھا ہوا ہو وہ توبہ کرلے گا اور غالب اسلام کے سامنے سرنگوں ہوگا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ اپنی اس سنت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی نیک جماعتوں کو ایسی آزمائشوں میں ڈالتا رہتا ہے اور سنت الہیہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔

اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : کیا تم نہ لڑوگے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے ؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس سے زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔

مسلمانوں اور مشرکین کے تعلقات کی تاریخ میں دو الفاظ کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، ایمان سے روگردانی اور معاہدوں کی خلاف ورزی اور زیر بحث آیات کے وقت قریب ترین مثال صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی تھی۔ نبی ﷺ نے نے الہام ربانی اور ہدایت ربانی کے تحت اس صلح کو مشرکین کے شرائط کے مطابق تسلیم کیا تھا۔ اور جسے بعض مقتدر اصحاب رسول اللہ نے نہایت ہی ذلت آمیز شرائط قرار دیا تھا۔ اور اس میں مشرکین نے جو سخت شرائط عائد کی تھیں حضور ﷺ نے ان کی سختی سے پابندی کی اور نہایت ہی شریفانہ طرز عمل اختیار کیا تھا۔ لیکن خود انہوں نے اس صلح کی مخالفت کی۔ اور صرف دو سال کے بعد ہی اس کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ پھر یہ مشرکین ہی تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے شہر سے نکالا اور ہجرت سے پہلے مکہ میں انہوں نے آپ کے قتل کا فیصلہ کرلیا اور یہ فیصلہ انہوں نے بیت الحرام میں کیا جہاں قاتل کو بھی پناہ ملتی تھی۔ اور جہاں قاتل کا خون اور مال بھی محفوظ ہوتے تھے اور یہ قانون اس قدر محترم تھا کہ ایک شخص بیت الحرام میں اپنے باپ اور بھائی کے قاتل کو پاتا لیکن وہ اسے وہاں کوئی گزند نہ پہنچاتا۔ رسول اللہ کا جرم کیا تھا۔ آپ تو لوگوں کو دعوت ایمان دیتے تھے کہ اللہ وحدہ گی بندگی کرو لیکن انہوں نے بیت اللہ کا بھی کوئی احترام نہ کیا۔ انہوں نے رسول اللہ کو وہاں سے نکالنے کی سعی کی۔ پھر آپ کے قتل کی سازش کی اور یہ حرکت انہوں نے بےدھڑک اور بغیر کسی جھجک کے کی۔ پھر انہوں نے مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے۔ انہوں نے ابوجہل کی سرکردگی میں یہ فیصلہ کیا کہ رسول اللہ سے جنگ ضروری کریں گے چاہے ہمارا قافلہ بچ کر نکل گیا ہے۔ پھر جنگ احد اور جنگ خندق میں تو واضح طور پر جارح تھے پھر حنین میں بھی وہ پوری طرح جنگ کے لیے تیار ہوگئے تھے اور نزول آیات کے وقت یہ سب تازہ واقعات تھے جو ان کی ایدوں کا حصہ تھے اور ان سب واقعات میں اس رویہ کی تصدیق تھی جو قرآن نے بیان کیا۔ ولایزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا۔ اور وہ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر وہ ایسا کرسکیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو محاذ صرف اللہ وحدہ کی غلامی رکتا ہے اور جو اللہ کے سو ان کئی اور الہوں کی بندگی اور شرک کرتا ہے ان دونوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہمیشہ کیا رہی ہے۔ ؟

واقعات اور تلخ یادوں کی اس فہسرت کو نہایت ہی اختصار اور سرعت اور نہایت ہی موثر انداز کے ساتھ پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ آخر میں ان سے یوں مخاطب ہوتے ہیں اتخشونہم کیا تم ان سے ڈرتے ہو۔ ظاہر ہے کہ تم مشرکین کے خلاف جنگ اور جہاد نہیں شروع کرتے تو تمہارا یہ بیٹھا رہنا بغیر خوف اور کسی وجہ سے تو ہو نہیں سکتا۔ اور اس کے بعد اس سوالیہ فقرے کا جواب خود ہی دے دیا جاتا ہے۔ جو مسلمانوں کے لیے نہایت ہی حوصلہ افزا ہے۔ فاللہ احق ان تخشوہ ان کنتم مومنین : " حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ مسحتق ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مومن ہو " مومن ہوتا وہی ہے جو بندوں سے نہیں ڈرتا لہذا مومن وہی ہوتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ تو یہ لوگ اگر مشرکین سے ڈرتے ہیں تو اللہ سے انہیں بہت زیادہ ڈرنا چاہیے۔ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ لوگ اس سے ڈریں اور اللہ کے سوا کسی اور کا کوئی ڈر کم از کم مومنین کے دل میں نہیں ہونا چاہیے۔

غرض مسلمانوں کے اسلام شعور کو جگایا جاتا ہے اور ان واقعات اور ان کی یادوں کو تازہ کرکے ان کے اندر جوش پیدا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ یہ مشرکین وہی ہیں جنہوں نے ذات نبی کے خلاف سازش کی۔ پھر انہوں نے نبی ﷺ کے ساتھ جو معاہدے بھی کیے انہیں توڑا اور جب بھی مسلمانوں کو غافل پایا یا ان کی صفوں کے اندر کوئی سوراخ دیکھا۔ انہوں نے وار کرنے کی کوشش کی۔ پھر انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے اور جارحیت کرنے میں پہل کی اور چناچہ ان وجوہات اور اسباب کی بنا پر مسلمانوں کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ ان کے خلاف جنگی کارروائی کریں۔

قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ ۔

ان لڑو ، اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ ۔ ان سے لڑو ، اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا۔

تم ان کے ساتھ جنگ کرو ، تم دست قدرت کے لیے پردہ بنوگے اور اللہ کی مشیئت کی صورت بنوگے۔ اس طرح تمہارے ہاتھوں اللہ ان پر عذاب نازل کرے گا۔ ان کو ہزیمت دے کر ذلیل کرے گا جبکہ وہ اپنے آپ کو نہایت ہی قوی سمجھتے ہوں گے لیکن اللہ ان کے مقابلے میں تمہاری نصرت کرے گا ، تمہارے دلوں کو شفا دے گا کیونکہ اہل ایمان کو انہوں نے بہت ہی اذیتیں دی تھیں اور مسلمانوں کے دلوں میں وہ غیظ و غضب ابھی تک موجود تھا۔ اس طرح کفار و مشرکین کی شکست سے ان کے دل ہلکے ہوجائیں گے کیونکہ مشرکین نے ان کو اذیت دی گھروں سے نکالا۔ صرف یہی نہیں ، بلکہ اس سے بڑا انعام ان کے انتظار میں ہے۔

وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ ۭ وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۔ اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا اور جسے چاہے گا ، توبہ کی توفیق بھی گا۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہے۔ مسلمانوں کی فتح کے نتیجے میں کئی لووں کے دل اسلام کی طرف مائل ہوسکتے ہیں اور ان کی بصیرت انہیں اس طرف لا سکتی ہے کہ مستقبل اسلام کا ہے کیونکہ مسلمانوں کو فتح نصیب ہو رہی ہے اور ظہار ہے کہ انسانوں کی قوت سے اوپر کوئی اور قوت ہے جو مسلمانوں کی تائید میں ہے اور عملاً ایسا بھی ہوا کہ بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے اور اسی طرح مجاہدین کو دو اجر ملے۔ ایک اجر ان کے جہاد فی سبیل اللہ کا اور دوسرا اجر ان گمراہ لوگوں کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا اور گمراہوں کو ہدایت دینے کا جو جہاد کی وجہ سے ہوا اور ان لوگوں سے اسلام کی افرادی اور جنگی قوت میں اضافہ ہوا۔

کہا گیا کہ اللہ علیم و حکیم ہے۔ وہ ان اقدامات کے اچھے نتائج کو اچھی طرح جانتا ہے اور وہ حکیم ہے وہ جن اقدامات کا حکم دیتا ہے وہ گہری حکمت پر مبنی ہوتے۔

اسلام جب زوردار شکل میں سامنے آتا ہے تو وہ زیادہ پرکشش ہوتا ہے ، اس اسلام کے مقابلے میں جس کی قوت لوگوں کو معلوم نہ ہو یا وہ ضعیف و ناتواں نظر آئے لیکن اسلامی جماعت جب قوت اور زور سے سامنے آئے اور وہ اپنے نظریہ و عمل پر سختی سے جمی ہو تو تحریک اسلامی کا نصف راستہ خود بخعد طے ہوجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ جو مکہ مکرمہ میں اسلامی جماعت کی تربیت اور نگرانی کر رہا تھا ، وہاں اس نے جماعہ مسلمہ کے ساتھ صرف جنت کا وعدہ کیا تھا ، جبکہ مکہ میں جماعت قلیل تھی اور اس میں ضعیف لوگ تھے اور یہاں مسلمانوں کے لیے صرف ایک ہی ہدایت تھی وہ یہ کہ صرف کا دامن مضبوطی سے پکڑو اور جب جماعت نے کما حقہ صبر کیا اور صرف جنت کی طلبگار بن گئی تو اللہ نے اسے نصرت عطا کی اور وہ فاتح ہوگئی تو اللہ نے اسے سیاسی غلبے اور جہاد کے لیے ابھارا ، اس لیے کہ یہ سیاسی غلبہ اس جماعت کا غلبہ نہ تھا بلکہ اللہ کے دین کا غلبہ تھا اور اس کی وجہ سے اللہ کا کلمہ بلند ہو رہا تھا۔

اس وقت صورت حال بھی ایسی تھی کہ اس میں مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ تمام مشرکین کے خلاف جنگ کریں اور مشرکین کے تمام معاہدوں کو منسوخ کردیں اور ان کے مقابلے میں صف و احد بن کر کھڑے ہوجائیں اور یہ اس لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے خفیہ پیکٹ ختم ہوجائیں اور جن لوگوں کی نیت میں فور تھا وہ کھل کر سامنے آجائیں اور وہ پردے دور کردیے جائیں جن کے پیچھے منافق لوگ کھڑے ہوکر اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے تھے اور ان تعلقات کو بھی ختم کردیا جوائے جو رشتہ داری اور قرابت داری کے عنوان سے بعض لوگوں کے ساتھ قائم رکھے ہوئے تھے۔ ان پردوں کو گرانا ضروری تھا اور ان عذرات کو یکسر کتم کردینا ضروری تھا۔ اس لیے اس قسم کے تمام لوگوں کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ان لوگوں کا انکشاف ہوجائے جن کے دلوں میں کوئی خباثت خفیہ تھی اور جو اللہ اور رسول اللہ کے سوا اور لوگوں کو بھی دوست بنا رہے تھے اور ان عذرات کے نتیجے میں وہ مخالف اسلام کیمپ کے لوگوں کے ساتھ روابط رکھے ہوئے تھے اور ان روابط کی نوعیت واضح نہ تھی ، بلکہ مشکوک تھی اس لیے یہ حکم دیا گیا۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : کیا تم لوگوں نے یہ سمئجھ رکھا ہے کہ یونی چھوڑ دیے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے (اس کی راہ میں) جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو جگر دوست نہ بنایا ، جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اس سے باخبر ہے۔

جیسا کہ بالعموم ہوا کرتا ہے ، اسلامی معاشرے میں بھی ایسے لوگ تھے جو چلتے پھرتے تھے ، جو حدود سے آگے نکلتے تھے اور ان کے پاس بہت زیادہ عذرات ہوتے تھے ، وہ جماعت کے علم و مشورہ کے بغیر اس کے دشمنوں سے بھی ملتے تھے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتے تھے اگرچہ اس میں اسلامی تحریک کا نقصان ہو۔ اور یہ لوگ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان پائے جانے والے تعلقات سے فائدہ اٹھاتے تھے کیونکہ ابھی تک مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان مکمل قطع تعلق نہ ہوا تھا لیکن جب واضح طور پر اعلان کردیا گیا کہ اب مشرکین عرب کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہوگا اور اب رابطے کٹ گئے ہیں ، اب ایسے لوگوں کے لیے کوئی بہانہ نہ رہا اور ان کی خفیہ ریشہ دوانیاں سامنے آگئیں۔

اسلامی جماعت اور اسلامی نظریہ حیات کے مفاد میں یہ بات ہے کہ پردے اٹھ جائیں اور تعلقات بالکل علی الاعلان اور چور دروازے ختم کردئیے جائیں تاکہ مخلص جدوجہد کرنے والوں اور ہر طرف پھرنے پھرانے والوں کے درمیان اچھی طرح امتیاز ہوجائے اور دونوں کیمپوں کے لوگ اچھی طرح معلوم اور معروف ہوجائیں اور ان کی حقیقت اچھی طرح معلوم ہوجائے اگرچہ اللہ تو علیم وخبیر ہے۔ اسے تو پہلے سے معلوم ہے کہ کون کیا ہے ، لیکن اللہ لوگوں کو تب پکڑتا ہے جب ان کی حقیقت تمام دیکھنے والوں پر واضح ہوجائے۔ یہی ہے سنت الہیہ کہ اللہ تعالیٰ کھرے اور کھوٹے کو جدا کرنے کے لیے دونوں کے درمیان اچھی طرح امتیاز کردیتا ہے اور کھرے اور کھوٹے کا امتیاز اس طرح ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو مصائب و شدائد میں مبتلا کردیتا ہے۔

آیت 13 اَلاَ تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّکَثُوْٓا اَیْمَانَہُمْ وَہَمُّوْا بِاِخْرَاج الرَّسُوْلِ اے مسلمانو ! مشرکین مکہ نے صلح حدیبیہ کو خود توڑا ہے ‘ جبکہ تمہاری طرف سے اس معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی ‘ اور یہ وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو مکہ سے جلاوطنی پر مجبور کیا تھا۔ تو آخر کیا وجہ ہے کہ اب جب ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ تذ بذب کا شکار ہو رہے ہیں۔وَہُمْ بَدَءُ وْکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ط یعنی مکہ کے اندر مسلمانوں کو ستانے اور تکلیفیں پہنچانے کی کار ستانیاں ہوں یا غزوۂ بدر میں جنگ چھیڑنے کا معاملہ ہو یا صلح حدیبیہ کے توڑنے کا واقعہ ‘ تمہارے ساتھ ہر زیادتی اور بےاصولی کی پہل ہمیشہ ان لوگوں ہی کی طرف سے ہوتی رہی ہے۔اَتَخْشَوْنَہُمْ ج یہ متجسسانہ سوال searching question کا انداز ہے کہ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکو ‘ اپنے دلوں کو ٹٹولو ‘ کیا واقعی تم ان سے ڈر رہے ہو ؟ کیا تم پر کوئی بزدلی طاری ہوگئی ہے ؟ آخر تم قریش کے خلاف اقدام سے کیوں گھبرا رہے ہو ؟فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ اب اس کے بعد اقدام کرنے کا آخری حکم قطعی انداز میں دیا جا رہا ہے۔

ظالموں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچاؤ مسلمانوں کو پوری طرح جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ وعدہ شکن قسمیں توڑنے والے کفار وہی ہیں جنہوں نے رسول ﷺ کو جلا وطن کرنے کی پوری ٹھان لی تھی چاہتے تھے کہ قید کرلیں یا قتل کر ڈالیں یا دیس نکالا دے دیں ان کے مکر سے اللہ کا مکر کہیں بہتر تھا۔ صرف ایمان کی بناء پر دشمنی کر کے پیغمبر ﷺ کو اور مومنوں کو وطن سے خارج کرتے رھے بھڑ بھڑا کر اٹھ کھڑے ہوتے تھے تاکہ تجھے مکہ شریف سے نکال دیں۔ برائی کی ابتداء بھی انہیں کی طرف سے ہے بدر کے دن لشکر لے کر نکلے حالانکہ معلوم ہوچکا تھا کہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے لیکن تاہم غرور و فخر سے اللہ کے لشکر کو شکست دینے کے ارادے سے مسلمانوں سے صف آراء ہوگئے جیسے کہ پورا واقع اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے۔ انہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ کے حلیفوں سے جنگ کی۔ بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعدہ کی وجہ سے حضور ﷺ نے ان پر لشکر کشی کی ان کی خوب سرکوبی کی اور مکہ فتح کرلیا فالحمدللہ۔ فرماتا ہے کہ تم ان نجس لوگوں سے خوف کھاتے ہو ؟ اگر تم مومن ہو تو تمہارے دل میں بجز اللہ کے کسی کا خوف نہ ہونا چاہیئے وہی اس لائق ہے کہ اس سے ایماندار ڈرتے رہیں دوسری آیت میں ہے ان سے نہ ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہو میرا غلبہ، میری سلطنت میری سزاء، میری قدرت، میری ملکیت، بیشک اس قابل ہے کہ ہر وقت ہر دل میری ہیبت سے لزرتا رہے تمام کام میرے ہاتھ میں ہیں جو چاہوں کرسکتا ہوں اور کر گذرتا ہوں۔ میری منشا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا راز بیان ہو رہا ہے کہ اللہ قادر تھا جو عذاب چاہتا ان پر بھیج دیتا لیکن اس کی منشاء یہ ہے کہ تمہارے ہاتھوں انہیں سزا دے ان کی بربادی تم خود کرو تمہارے دل کی خود بھڑاس نکل جائے اور تمہیں راحت و آرام شادمانی و کامرانی حاصل ہو۔ یہ بات کچھ انہیں کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام مومنوں کے لیے بھی ہے۔ خصوصاً خزاعہ کا قبیلہ جن پر خلاف عہد قریش اپنے حلیفوں میں مل کر چڑھ دوڑے ان کے دل اسی وقت ٹھنڈے ہوں گے ان کے غبار اسی وقت بیٹھیں گے جب مسلمانوں کے ہاتھوں کفار نیچے ہوں ابن عساکر میں ہے کہ جب حضرت عائشہ ؓ غضبناک ہوتیں تو آپ ان کی ناک پکڑ لیتے اور فرماتے اے عویش یہ دعا کرو اللھم رب النبی محمد اغفر ذنبی اذھب غیظ قلبی واجرنی من مضلات الفتن اے اللہ محمد ﷺ کے پروردگار میرے گناہ بخش اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے توبہ قبول فرما لے۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے۔ اپنے تمام کاموں میں اپنے شرعی احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر بھلائی برائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ دنیا اور آخرت میں دیتا ہے۔

آیت 13 - سورہ توبہ: (ألا تقاتلون قوما نكثوا أيمانهم وهموا بإخراج الرسول وهم بدءوكم أول مرة ۚ أتخشونهم ۚ فالله أحق أن تخشوه إن...) - اردو