سورہ تحریم: آیت 9 - يا أيها النبي جاهد الكفار... - اردو

آیت 9 کی تفسیر, سورہ تحریم

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnabiyyu jahidi alkuffara waalmunafiqeena waoghluth AAalayhim wamawahum jahannamu wabisa almaseeru

آیت 9 کی تفسیر

مدینہ میں مسلمانوں نے ایسی ہی جماعت بنائی تھی ، اور ایسا ہی انقلاب برپا کردیا تھا ، اس لئے یہاں اس کے بچانے کی ہدایت کی جاتی ہے ، کیونکہ کفار اور منافقین اس کو ختم کرنا چاہتے تھے۔

یایھا النبی .................... المصیر (66 : 9) ” اے نبی کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آﺅ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے “۔ پہلے یہ حکم دیا گیا کہ مسلمان اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچائیں ، خالص توبہ کریں جس کی وجہ سے ان کے گناہ معاف ہوں گے۔ اور وہ جنتوں میں داخل ہوں گے ، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ اب حکم یہ ہے کہ کفار ومنافقین کے ساتھ جنگ کرو ، اس لئے کہ وہ اس قسم کی اسلامی سوسائٹی کے قیام سے خائف ہیں ، جس میں اسلام کے شیدائی تیار ہوں۔ وہ اس قسم کی سوسائٹی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مدینہ میں بھی کفار اور منافقین کا یہی ہدف تھا اور آج بھی یہی ہے اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔

یہاں کفار اور منافقین دونوں کے ساتھ جہاد اور سختی کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ دونوں اسلامی سوسائٹی کے انہدام کے لئے ایک ہی جیسے مقاصد رکھتے ہیں۔ لہٰذا دونوں پر سختی کی ضرورت ہے۔

وماوھم ................ المصیر (66 : 9) ” ان کا ٹھانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے “۔ یوں ان دونوں باتوں کے درمیان ربط ہوجاتا ہے۔

آیت 9{ یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ } ”اے نبی ﷺ ! جہاد کیجیے کافروں سے بھی اور منافقوں سے بھی اور ان پر سختی کیجیے۔“ یہ آیت جوں کی توں سورة التوبہ میں آیت 73 کے طور پر بھی آچکی ہے۔ منافقین چونکہ بظاہر کلمہ گو اور قانونی لحاظ سے مسلمان تھے ‘ اس لیے حضور ﷺ ان سے مسلمانوں جیسا سلوک روا رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ حضور ﷺ اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے ان کی بہت سی شرارتوں کو نظرانداز بھی فرماتے رہتے تھے۔ چناچہ اپنی مسلسل سازشوں پر جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے۔ یہاں تک کہ وہ حضور ﷺ کے بارے میں گستاخانہ جملے بھی کستے رہتے تھے۔ مثلاً کہتے : { ھُوَ اُذنٌ} التوبہ : 61 کہ آپ ﷺ تو نرے کان ہیں۔ ہر بات سن لیتے ہیں ‘ سمجھتے کچھ بھی نہیں معاذ اللہ ! ۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں حضور ﷺ کو ان لوگوں پر سختی کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ { وَمَاْوٰٹھُمْ جَھَنَّمُط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ } ”ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔“

تحفظ قانون کے لئے حکم جہاد اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ کافروں سے جہاد کر ہتھیاروں کے ساتھ اور منافقوں سے جہاد کر حدود اللہ جاری کرنے کے ساتھ، ان پر دنیا میں سختی کرو، آخرت میں بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بدترین باز گشت ہے، پھر مثال دے کر سمجھایا کہ کافروں کا مسلمانوں سے ملنا جلنا خلط ملط رہنا انہیں ان کے کفر کے باوجود اللہ کے ہاں کچھ نفع نہیں دے سکتا، دیکھو دو پیغمبروں کی عورتیں حضرت نوح ؑ کی اور حضرت لوط ؑ کی جو ہر وقت ان نبیوں کی صحبت میں رہنے والی اور دن رات ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی اور ساتھ ہی کھانے پینے بلکہ سونے جاگنے والی تھیں، لیکن چونکہ ایمان میں ان کی ساتھی نہ تھیں اور اپنے کفر پر قائم تھیں، پس پیغمبروں کی آٹھ پہر کی صحبت انہیں کچھ کام نہ آئی، انبیاء اللہ انہیں آخروی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ آخروی نقصان سے بچا سکے، بلکہ ان عورتوں کو بھی دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کو کہہ دیا گیا۔ یہ یاد رہے کہ خیانت کرنے سے مراد بدکاری نہیں، انبیاء (علیہم السلام) کی حرمت و عصمت اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ ان کی گھر والیاں فاحشہ ہوں، ہم اس کا پورا بیان سورة نور کی تفسیر میں کرچکے ہیں، بلکہ یہاں داد خیانت فی الدین یعنی دین میں اپنے خاوندوں کی خیانت کی ان کا ساتھ نہ دیا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ان کی خیانت زنا کاری نہتھی بلک ہیہ تھی کہ حضرت نوح ؑ کی بیوی تو لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ یہ مجنوں ہیں اور لوط ؑ کی بیوی جو مہمان حضرت لوط کے ہاں آتے تو کافروں کو خبر کردیتی تھیں، یہ دونوں بد دین تھیں نوح ؑ کی راز داری اور پوشیدہ طور پر ایمان لانے والوں کے نام کافروں پر ظاہر کردیا کرتی تھیں، اسی طرح حضرت لوط ؑ کی بیوی بھی اپنے خاوند اللہ کے رسول ؑ کی مخالف تھیں اور جو لوگ آپ کے ہاں مہمان بن کر ٹھہرتے یہ جا کر اپنی کافر قوم کو خبر کردیتی جنہیں بد عمل کی عادت تھی، بلکہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ کسی پیغمبر کی کسی عورت نے کبھی بدکاری نہیں کی، اسی طرح حضرت عکرمہ حضرت سعید بن جیر حضرت ضحاک وغیرہ سے بھی مروی ہے، اس سے استدلال کر کے بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ جو عام لوگوں میں مشہور ہے کہ حدیث میں ہے جو شخص کسی ایسے کے ساتھ کھائے جو بخشا ہوا ہو اسے بھی بخش دیا جاتا ہے، یہ حدیث بالکل ضعیف ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ حدیث محض بےاصل ہے، ہاں ایک بزرگ سے مروی ہے کہ انہوں نے خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت کی اور پوچھا کہ کیا حضور ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن اب میں کہتا ہوں۔

آیت 9 - سورہ تحریم: (يا أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم ۚ ومأواهم جهنم ۖ وبئس المصير...) - اردو