اس صفحہ میں سورہ At-Tahrim کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التحريم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 8{ یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاط } ”اے اہل ایمان ! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ۔“ یہ آیت اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے زیر مطالعہ سورتوں کے گروپ میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں پل صراط کے اس ماحول کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے جس کی تفصیل سورة الحدید میں آئی ہے۔ اس آیت کے ابتدائی حصے میں اہل ایمان کو توبہ سے متعلق جو حکم دیا گیا ہے اس حکم میں بہت جامعیت ہے۔ اس سے مراد صرف کسی ایک برے عمل کی توبہ نہیں کہ کوئی شخص شراب نوشی سے توبہ کرلے یا کوئی رشوت خوری سے باز آجائے ‘ بلکہ اس سے مراد غفلت کی زندگی اور معصیت کی روش سے توبہ ہے۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ زندگی کا رخ بدلنے کا حکم ہے ‘ کہ اے ایمان کے دعوے دارو ! ذرا اپنی زندگی کے شب و روز پر غور تو کرو کہ تمہارا رخ کس طرف ہے ؟ تمہاری زندگی کے سفر کی منزل کیا ہے ؟ تم محمد رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چل رہے ہو یا کسی اور کی پیروی کر رہے ہو ؟ { فَاَیْنَ تَذْھَبُوْنَ۔ } التکویر۔۔۔۔ - تو اے اللہ کے بندو ! اپنی زندگی کے شب و روز اور معمولات کا جائزہ لو ‘ اپنی دوڑ دھوپ اور اپنی ترجیحات پر غور کرو۔ پھر اگر تم محسوس کرو کہ تم غلط رخ پر جا رہے ہو تو اپنے بڑھتے ہوئے قدم فوراً روک لو { فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ } الذاریات : 50 اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے رب کی طرف پلٹ آئو ! تمہارے پلٹنے کے لیے اللہ کی رحمت کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک تمہاری موت کے آثار ظاہر نہیں ہوتے۔ چناچہ ابھی موقع ہے کہ اس کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرو ‘ زندگی کے جو ماہ و سال غفلت کی نذر ہوگئے ہیں ان پر اشک ندامت بہائو ‘ صدقِ دل اور اخلاصِ نیت سے معافی مانگو اور غلط روش کو ترک کرنے کے بعد زندگی کا سفر از سرنو شروع کرو۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ سفر زندگی کی سمت درست کرنے کے لیے فرائض دینی کا درست فہم اور ادراک بھی ضروری ہے۔ ظاہر ہے دین صرف نمازیں پڑھنے اور رمضان کے روزے رکھنے ہی کا نام نہیں ‘ بلکہ ایک بندئہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی معاشرت اور معیشت کو بھی ”مسلمان“ کرے۔ پھر یہ کہ جو ہدایت اسے نصیب ہوئی ہے اسے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کرے اور کسی جماعت میں شامل ہو کر دین کے سب سے اہم فرض کی ادائیگی یعنی باطل نظام کے خاتمے اور اللہ تعالیٰ کی حکومت کے قیام کی جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوجائے۔ اس کے لیے انقلابِ نبوی ﷺ کے منہج کو سمجھنا اور اس منہج کی پیروی کرنا بہت ضروری ہے۔ آج ہماری جدوجہد میں حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رض کی محنت اور کوشش کی سی کیفیت تو پیدا نہیں ہوسکتی کہ ع ”وہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا !“ لیکن ہمیں آپ ﷺ کے منہج پر چلنے کی کوشش تو کرنی چاہیے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں سہی آپ ﷺ کی تحریک کے ساتھ اپنی جدوجہد کی کچھ نہ کچھ مماثلت اور مشابہت تو پیدا کرنی چاہیے۔ چناچہ ایک ایک گھر اور ایک ایک فرد تک دعوت پہنچانے کا اہتمام ‘ دعوت پر لبیک کہنے والوں کی تنظیم و تربیت کا انتظام ‘ صبر و مصابرت کی حکمت عملی ‘ جیسے ضروری مراحل ہمیں اسی طریقے سے طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس طریقے سے خود حضور ﷺ نے یہ مراحل طے فرمائے تھے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے میری کتاب ”منہجِ انقلابِ نبوی ﷺ“ اور اسی عنوان سے تقاریر کی ریکارڈنگ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ { عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ } ”امید ہے تمہارا رب تم سے تمہاری برائیوں کو دور کردے گا“ تمہارے توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہارے نامہ اعمال سے تمام دھبے دھو ڈالے گا اور تمہارے دامن ِکردار کے تمام داغ صاف کر دے گا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَـہٗ 1 کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے وہ گناہ کبھی کیا ہی نہ ہو۔ { وَیُدْخِلَـکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُلا } ”اور تمہیں داخل کرے گا ایسے باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی“ { یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ } ”جس دن اللہ اپنے نبی ﷺ کو اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔“ { نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ } ”اُس دن ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے سامنے اور ان کے داہنی طرف“ یہ مضمون اس سے پہلے انہی الفاظ میں سورة الحدید کی آیت 12 میں بھی آچکا ہے۔ نورِ ایمان ان کے سامنے ہوگا جبکہ اعمالِ صالحہ کا نور داہنی طرف ہوگا۔ { یَـقُوْلُوْنَ رَبَّـنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا } ”وہ کہتے ہوں گے : اے ہمارے رب ! ہمارے لیے ہمارے نور کو کامل کر دے“ { وَاغْفِرْلَنَاج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔ } ”اور تو ہمیں بخش دے ‘ یقینا تو ہر شے پر قادر ہے۔“ ہر بندئہ مومن کا نور اس کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی مناسبت سے ہوگا۔ حضرت قتادہ رح سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”کسی کا نور اتنا تیز ہوگا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہوگا اور کسی کا نور مدینہ سے صنعاء تک ‘ اور کسی کا اس سے کم ‘ یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہوگا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا۔“ ابن جریر 1 حضور ﷺ کے اس فرمان کے مطابق تصور کریں حضرت ابوبکر صدیق رض اور دوسرے صحابہ کرام رض کے نور کا کیا عالم ہوگا۔ بہرحال ہم جیسے مسلمانوں کو اس دن اگر ٹارچ کی روشنی جیسا نور بھی مل جائے تو غنیمت ہے۔ لیکن ہمارے لیے یہاں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس دن کچھ لوگوں کا نور کم کیوں ہوگا۔ یقینا وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کے ایمان میں کسی پہلو سے کوئی کمزوری رہ گئی ہوگی اور اعمال میں کوتاہیاں سرزدہوئی ہوں گی۔ یقینا انہوں نے اپنی استعداد کو ‘ اپنے مال کو اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بچا بچا کر رکھا ہوگا اور اللہ کے راستے میں انہیں اس حد تک خرچ نہیں کیا ہوگا جس حد تک خرچ کرنے کے وہ مکلف تھے۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کی یہ نصیحت ہمیں حرزجاں بنا لینی چاہیے : ؎تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں !بہرحال پل صراط کے کٹھن اور نازک راستے پر جن اہل ایمان کا نور کم ہوگا وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ ! تو اپنے فضل اور اپنی شان غفاری سے ہماری کوتاہیوں کو ڈھانپ لے اور ہمارے نور کو بھی مکمل فرمادے۔
آیت 9{ یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ } ”اے نبی ﷺ ! جہاد کیجیے کافروں سے بھی اور منافقوں سے بھی اور ان پر سختی کیجیے۔“ یہ آیت جوں کی توں سورة التوبہ میں آیت 73 کے طور پر بھی آچکی ہے۔ منافقین چونکہ بظاہر کلمہ گو اور قانونی لحاظ سے مسلمان تھے ‘ اس لیے حضور ﷺ ان سے مسلمانوں جیسا سلوک روا رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ حضور ﷺ اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے ان کی بہت سی شرارتوں کو نظرانداز بھی فرماتے رہتے تھے۔ چناچہ اپنی مسلسل سازشوں پر جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے۔ یہاں تک کہ وہ حضور ﷺ کے بارے میں گستاخانہ جملے بھی کستے رہتے تھے۔ مثلاً کہتے : { ھُوَ اُذنٌ} التوبہ : 61 کہ آپ ﷺ تو نرے کان ہیں۔ ہر بات سن لیتے ہیں ‘ سمجھتے کچھ بھی نہیں معاذ اللہ ! ۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں حضور ﷺ کو ان لوگوں پر سختی کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ { وَمَاْوٰٹھُمْ جَھَنَّمُط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ } ”ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔“
ان آیات میں عورتوں کا معاملہ ایک اور پہلو سے زیربحث آ رہا ہے۔ واضح رہے کہ ان دونوں سورتوں الطلاق اور التحریم کی ایک مشترک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان دونوں میں عورتوں کے معاملات بیان ہوئے ہیں۔ چناچہ اب عورتوں پر واضح کیا جا رہا ہے کہ وہ خود کو اپنے شوہروں کے تابع سمجھتے ہوئے آخرت کے حساب سے نچنت نہ ہوجائیں۔ اسلام میں عورت اور مرد کا درجہ انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہے۔ لہٰذا عورتیں اپنے دین و ایمان اور اعمال و فرائض کی خود ذمہ دار ہیں۔ اگر ان کا ایمان درست ہوگا اور اعمال صالحہ کا پلڑا بھاری ہوگا تبھی نجات کی کوئی صورت بنے گی۔ ان کے شوہر خواہ اللہ کے کتنے ہی برگزیدہ بندے کیوں نہ ہوں اس معاملے میں وہ ان کے کچھ کام نہیں آسکیں گے۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ان آیات میں چار خواتین کی مثالیں دی گئی ہیں :آیت 10{ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ } ”اللہ نے مثال بیان کی ہے کافروں کے لیے نوح علیہ السلام کی بیوی اور لوط علیہ السلام کی بیوی کی۔“ { کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ } ”وہ دونوں ہمارے دو بہت صالح بندوں کے عقد میں تھیں“ { فَخَانَتٰــھُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْھُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا } ”تو انہوں نے ان سے خیانت کی ‘ تو وہ دونوں اللہ کے مقابل میں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے“ وہ جلیل القدر پیغمبر علیہ السلام اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے نہ تو دنیا میں بچاسکے اور نہ ہی آخرت میں بچا سکیں گے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی سیلاب میں غرق ہوگئی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ پتھرائو کے عذاب سے ہلاک ہوئی۔ واضح رہے کہ یہاں جس خیانت کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد کردار کی خیانت نہیں ہے ‘ اس لیے کہ کسی نبی علیہ السلام کی بیوی کبھی بدچلن اور بدکار نہیں رہی ہے۔ ان کی خیانت اور بےوفائی دراصل دین کے معاملے میں تھی کہ وہ دونوں اپنے شوہروں کی جاسوسی کرتی تھیں اور ان کے راز اپنی قوم کے لوگوں تک پہنچاتی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک شادی شدہ عورت کی عصمت اس کے شوہر کی عزت و ناموس ہے جس کی حفاظت کرنا شوہر کی طرف سے اس پر فرض ہے ‘ لیکن اس کے علاوہ ایک بیوی اپنے شوہر کے رازوں اور اس کے مال وغیرہ کی محافظ بھی ہوتی ہے۔ سورة النساء کی آیت 34 میں نیک اور مثالی بیویوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں ایک صفت حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بھی ہے۔ اس کا مفہوم یہی ہے کہ نیک بیویاں اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں ان کے گھر بار اور حقوق کی محافظ ہوتی ہیں۔ اب ظاہر ہے اس حفاظت میں شوہر کی عزت و ناموس کے ساتھ ساتھ اس کے مال اور اس کے رازوں وغیرہ کی حفاظت بھی شامل ہے۔ چناچہ یہاں خیانت سے صرف عزت و ناموس ہی کی خیانت مراد لینا درست نہیں۔ { وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ۔ } ”اور آخرت میں کہہ دیاجائے گا کہ تم دونوں داخل ہوجائو آگ میں دوسرے سب داخل ہونے والوں کے ساتھ۔“ ان دو عبرت انگیز مثالوں سے یہ حقیقت واضح ہوجانی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے وہ اولوا العزم پیغمبر علیہ السلام جنہوں نے ساڑھے نو سو سال اللہ تعالیٰ کے پیغام کی دعوت میں صرف کیے وہ اگر اپنی بیوی کو برے انجام سے نہیں بچا سکے تو اور کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے کسی عزیز رشتے دار کی سفارش کرسکے گا ؟ نبی اکرم ﷺ نے اپنی دعوت کے آغاز میں قبیلہ قریش بالخصوص اپنے قریبی عزیز و اقارب کو جمع کر کے فرمایا تھا : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ! اشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ اللّٰہِ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ‘ یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ! لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ! سَلِیْنِیْ بِمَا شِئْتِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا 1”اے قریش کے لوگو ! اپنے آپ کو اللہ کی گرفت سے بچانے کی کوشش کرو ‘ میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے بنی عبدالمطلب ! میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے صفیہ ‘ اللہ کے رسول کی پھوپھی ! میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے فاطمہ ‘ اللہ کے رسول ﷺ کی بیٹی ! تم مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہو طلب کرلو ‘ لیکن میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔“ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں : یَافَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ ﷺ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ ‘ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا 1”اے محمد ﷺ کی لخت جگر فاطمہ رض ! اپنے آپ کو آگ سے بچائو ‘ کیونکہ مجھے تمہارے بارے میں اللہ کے ہاں کوئی اختیار نہیں ہوگا۔“
آیت 1 1{ وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ 7 } ”اور اہل ِا یمان خواتین کے لیے اللہ نے مثال بیان کی ہے فرعون کی بیوی کی۔“ ان کا نام حضرت آسیہ رض بنت مزاحم بیان کیا جاتا ہے۔ دریائے نیل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صندوق ان ہی نے نکالا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کا اہتمام کیا تھا۔ بعد میں وہ مسلمان ہوگئی تھیں اور ہمیشہ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف داری کیا کرتی تھیں۔ جب فرعون کو پتا چل گیا کہ آسیہ اسے خدا نہیں مانتی اور موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لا چکی ہے تو اس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ { اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ } ”جب اس نے کہا : اے میرے پروردگار ! ُ تو میرے لیے بنا دے اپنے پاس ایک گھر جنت میں“ { وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ } ’ اور مجھے نجات دے دے فرعون سے بھی اور اس کے عمل سے بھی“ { وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔ } ”اور مجھے اس ظالم قوم سے جلد از جلد چھٹکارا دلا دے۔“ حضرت آسیہ رض کی اس دعا سے ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ ظاہر ہے وہ ایک عظیم الشان سلطنت کے مطلق العنان فرمانروا کی بیوی تھیں۔ اس حیثیت سے انہیں عزت ‘ دولت ‘ شہرت اور محلات میں ہر طرح کی آسائشیں حاصل تھیں۔ لیکن ان کے ایمان اور اللہ تعالیٰ سے ان کی محبت کی کیفیت یہ تھی کہ وہ اپنے شوہر اور اس کے کافرانہ اعمال سے بیزارہو کر موت کی آرزو مند تھیں۔ ان دو مثالوں میں دو انتہائوں کی تصویر دکھا دی گئی ہے۔ یعنی ایک طرف بہترین شوہروں کے ہاں بدترین انجام والی بیویاں ہیں اور دوسری طرف ایک بدترین مرد کے گھر میں بہترین سیرت و کردار کی حامل بیوی ہے۔ ظاہر ہے حضرت آسیہ رض قیامت کے دن حضرت مریم ‘ حضرت خدیجہ ‘ حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رض جیسی عظیم مراتب کی حامل خواتین میں شامل ہوں گی۔
آیت 12{ وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا } ”اور عمران کی بیٹی مریم علیہ السلام جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی“ یہ تیسری مثال ایسی خاتون کی ہے جو خود بھی نیک تھیں اور ان کی تربیت بھی انتہائی پاکیزہ ماحول میں ہوئی : { وَکَفَّلَھَا زَکَرِیَّا } آل عمران : 37۔ یعنی انہوں نے اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت زکریا علیہ السلام کی آغوش محبت میں پرورش پائی اور یوں ان کی سیرت نورٌ علیٰ نور کی مثال بن گئی۔ { فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا } ”تو ہم نے اس میں اپنی روح میں سے پھونکا“ { وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ } ”اور اس نے تصدیق کی اپنے رب کی تمام باتوں کی اور اس کی کتابوں کی“ حضرت مریم سلامٌ علیہا کو وحی کے ذریعے فرشتے جو کچھ بتاتے رہے انہوں نے وہ سب باتیں دل و جان سے تسلیم کیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ نے تمہیں دنیا بھر کی عورتوں میں سے ُ چن لیا ہے اور یہ کہ اللہ کے حکم سے تمہارے ہاں بیٹا ہوگا۔ اسی طرح حضرت مریم نے زبور ‘ تورات اور عہد نامہ قدیم سمیت تمام الہامی کتب اور صحائف کی تصدیق بھی کی۔ { وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۔ } ”اور وہ بہت ہی فرمانبرداروں میں سے تھیں۔“ ان تین مثالوں کے ذریعے خواتین کے حوالے سے تین ممکنہ صورتیں بیان کی گئی ہیں ‘ یعنی بہترین شوہر کے ہاں بدترین بیوی ‘ بدترین شوہر کے ہاں بہترین بیوی ‘ اور بہترین ماحول میں بہترین خاتون۔ چوتھی ممکنہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شوہر بھی بدطینت ہو اور اس کی بیوی بھی بدطینت ہو۔ یعنی میاں بیوی دونوں کا ظاہر و باطن { ظُلُمٰتٌم بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍط } النور : 40 کا نقشہ پیش کرتا ہو اور فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے کہ ان دونوں میں کون زیادہ بدطینت اور بدسرشت ہے۔ اس ممکنہ صورت کی مثال سورة اللہب میں ابولہب اور اس کی بیوی اُمّ جمیل کی بیان ہوئی ہے۔