سورہ تحریم: آیت 8 - يا أيها الذين آمنوا توبوا... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورہ تحریم

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ تُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّـَٔاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ يَوْمَ لَا يُخْزِى ٱللَّهُ ٱلنَّبِىَّ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَٰنِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَٱغْفِرْ لَنَآ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی کو اور اُن لوگوں جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہ کرے گا اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo tooboo ila Allahi tawbatan nasoohan AAasa rabbukum an yukaffira AAankum sayyiatikum wayudkhilakum jannatin tajree min tahtiha alanharu yawma la yukhzee Allahu alnnabiyya waallatheena amanoo maAAahu nooruhum yasAAa bayna aydeehim wabiaymanihim yaqooloona rabbana atmim lana noorana waighfir lana innaka AAala kulli shayin qadeerun

آیت 8 کی تفسیر

سوال یہ ہے کہ مومنین اپنے نفس کو اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے کس طرح بچائیں۔ ان کو راستہ بتایا جاتا ہے اور امید دلائی جاتی ہے :

یایھا الذین ........................ شیء قدیر (66 : 8) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے توبہ کرو ، خالص توبہ ، بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ نے اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں ، رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑرہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے لئے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما ، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے “۔

یہ ہے طریقہ ، خالص توبہ کا۔ توبہ ، جو قلب کو پاک وصاف کردے ، اور اس کے بعد کوئی دھوکہ نہ ہو۔ گناہوں سے توبہ یوں ہوتا ہے کہ آدمی نے جو گناہ کیے ہیں ، ان پر نادم ہوجائے اور اس کے بعد ان کی جگہ ندامت لے لے۔ یہ توبہ قلب کو پاک کردیتی ہے اور اس پر معاصی کا جو رنگ ہوتا ہے یا میل ہوتی ہے ، وہ دور ہوجاتی ہے۔ اور اس کے بعد پھر یہ دل انسان کو عمل صالح پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ ہوتا ہے توبة النصوح۔ یعنی ایسی توبہ جو قلب کو یاد دہانی کراتی رہتی ہے اور دوبارہ اسے معاصی کا ارتکاب کرنے نہیں دیتی۔ (مسلسل نصیحت کرنے والی) ۔

اگر کوئی اس قسم کی توبہ کرلے تو اس کے بعد اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ اس توبہ کی وجہ سے سابقہ معاصی بھی معاف ہوجائیں گے ، اور توبہ کرنے والا جنتوں میں داخل ہوجائے گا۔ اس دن جب کہ کفار سخت شرمندہ ہوں گے اور اس دن نبی ﷺ اور اہل ایمان شرمندہ نہ ہوں گے۔

یہاں اللہ نے مومنین کو نبی ﷺ کے ساتھ ضم کیا ہے یہ اس لئے کہ ان کو توبہ پر آمادہ کیا جائے کہ ” دیکھو اس دن تمہارے لئے اس قدر حوصلہ افزائی ہوگی کہ تم حضرت نبی کریم ﷺ کی صف میں کھڑے ہوگے اور تمہاری عزت ہوگی اور تمہیں شرمندہ نہ کیا جائے گا۔ اور اس دن تمہارے آگے آگے ایک نور جارہا ہوگا “۔

نورھم ................ بایمانھم (66 : 8) ” ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑرہا ہوگا “۔ اس دن وہ اس نور کے ساتھ پہچانے جائیں گے یہ دن تو بہت ہی خوفناک ، طوفانی اور دل دہلا دینے والا ہوگا۔ جس میں ہر طرف اژدحام ہی اژدحام ہوگا اور ان کو یہ اعزاز ہوگا کہ جنت میں داخل کے وقت ان کے آگے آگے اور دائیں جانب ایک نور جارہا ہوگا۔ اس نور کے ساتھ وہ جنت میں جائیں گے ، جہاں نور علی نور ہوگا۔

اہل ایمان اگرچہ اس شدید اور خوفناک مقام میں ہوں گے ، لیکن ان کو وہاں یہ دعا اور عرضداشت اللہ کے سامنے پیش کرنے کی ہمت ہوگی۔

یقولون ................ شیء قدیر (66 : 8) ” اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے لئے مکمل کردے ، اور ہم سے درگزر فرما ، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے “۔ اس وقت جب زبانیں گنگ ہوں گی اور دل بیٹھ رہے ہوں گے ، اس خوفناک موقف میں ایسی دعا اہل ایمان کو سکھانا ہی اس بات کی علامت ہے کہ یہ منظور ہوگی۔ یہ تو سکھائی ہی اس لئے گئی کہ منظور ہو۔ کیونکہ یہ دعاء بھی اللہ ان کو بطور احسان سکھارہا ہے ، جس طرح نور اس کی عزت افزائی کے لئے دوڑ رہا ہوگا۔

وہ عذاب اور یہ ثواب دراصل ایک مومن کی ذمہ داری کا تعین کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو اور خاندان کو بچانے کے سلسلے میں مومن پر کس قدر عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خصوصاً جبکہ یہ ہدایات اس واقعہ کے ضمن میں دی جارہی ہیں جو نبی ﷺ کے گھر میں پیش آیا کہ ایک مومن اپنے خاندان کی ہدایت اور تربیت کا ذمہ دار ہے۔ جس طرح وہ اپنی اصلاح کا مکلف ہے اپنے اہل و عیال کی اصلاح کا بھی مکلف ہے۔

یاد رہے کہ اسلام ایک خاندانی نظام ہے ، جیسا کہ ہم نے سورة طلاق میں کہا : مومن پر اس کے گھرانے کی اصلاح کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ایک مومن گھرانہ اسلامی جماعت کا پہلا خلیہ ہے۔ اور اس خلے سے پھر اسلامی جماعت میں دوسرے زندہ خلے پیدا ہوتے ہیں۔ ہر ایک گھر اسلامی نظریہ حیات کا حلقہ یا مورچہ ہے۔ یہ حلقہ اپنی بناوٹ میں بہت ہی مضبوط ہونا چاہئے۔ اس حلقے کا ہر فرد سرحدوں پر دفاع میں مصروف ہونا چاہئے۔ اگر یہ مورچہ مضبوط نہ ہوگا تو دشمن اندر گھس آئے گا اور کوئی دفاع ممکن نہ ہوگا۔

مومن داعی کا فرض ہے کہ وہ اپنی دعوت پہلے اپنے گھر سے شروع کرے۔ اور اندر سے یہ قلعہ مضبوط ہو ، اور اس قلعے سے باہر نکلنے سے پہلے وہ گھر کے اندر کے قلعے کے تمام سوراخ بند کردے۔ ایک گھرانے کی حفاظت تب ہی ہوسکتی ہے جب کسی گھر میں ماں بھی مسلمہ ہو ، صرف باپ اس قلعے کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ ماں اور باپ دونوں مل کر لڑکے لڑکیوں کو درست کرسکتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ میں صرف مردوں سے اسلامی سوسائٹی تشکیل دینا چاہتا ہوں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب کے لئے مومن عورتوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ آنے والی نسل کی تربیت اسلامی خطوط پر کرسکیں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن جس رطح مردوں کے لئے نازل ہوا ، اسی طرح عورتوں کے لئے نازل ہوا۔ وہ مردوں کی تنظیم کے ساتھ گھرانوں کی تنظیم بھی کررہا تھا۔ گھرانوں کو اسلامی منہاج پر استوار کررہا تھا۔ اس لئے اس نے ایک مسلمان پر اس کی دینی ہدایت اور اہل و عیال کی ہدایت کی ذمہ داری عائد کی۔

یایھا الذین .................... نارا (66 : 6) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنے نفس اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاﺅ“۔

یہ وہ نکتہ ہے کہ اس کو وہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں جو لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اصلاح کے کام کا آغاز اپنی بیوی سے شروع کرنا چاہئے۔ ماں سے ، اس کے بعد اولاد کی طرف بڑھنا چاہئے اور پھر اپنے تمام رشتہ داروں تک۔ نہایت کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ایک مسلم خاتون پیدا کرلیں ، جس سے مسلمان پیدا ہوں ، جو شخص ایک مسلم گھرانا تعمیر کرنا چاہتا ہے ، اس کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے ایک مسلم خاتون تلاش کرے ، اگر ہم گھر کی مالکہ مسلم پیدا نہ کرسکے ، تو یاد رہے کہ اسلامی جماعت اور اسلامی سوسائٹی کی تشکیل میں بہت دیر لگے گی۔ اور ہماری جماعت کی اساسوں اور بنیادوں کے اندر کمزوریاں ہوں گی۔

پہلی جماعت اسلامی کے اندر تو یہ کام بہت ہی آسان تھا کیونکہ مدینہ میں ایک ایسا اسلامی معاشریہ وجود میں آگیا تھا ، سوسائٹی پر پاکیزہ خیالات غالب تھے۔ اسلامی شریعت کے ساتھ ساتھ نفاذ ہورہا تھا۔ اور مرد اور عورتیں سب کے سب اللہ اور رسول کی طرف اپنے مسائل لے کر رجوع کرتے تھے۔ اور اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر کان دھرتے تھے۔ اور جب کوئی حکم نازل ہوتا تھا تو وہ آخری فیصلہ ہوتا تھا۔ اس وقت اسلامی سوسائٹی موجود تھی پھر غالب تھی اور ان حالات میں عورت کے لئے بھی یہ بات آسان تھی کہ وہ اپنے آپ کو اسلامی خطوط پر ڈھال لے۔ خاوندوں کے لئے بھی آسان تھا کہ وہ ان کو نصیحت کریں اور بچوں کی تربیت کریں۔

لیکن ہم تو نہایت ہی بدلے ہوئے حالات میں ہیں۔ ہم ایک مکمل جاہلی معاشرے میں زندہ رہے ہیں۔ قانون جاہلی کا غالب ہے۔ اخلاق جاہلیت ، علم و ثقافت جاہلی ہیں۔ اور آج عورت بھی اس جاہلی معاشرے میں کام کررہی ہے۔ آج جب عورت اسلام کی دعوت پر لبیک کہنے کا ارادہ بھی کرلے تو وہ اس میں بہت بڑا بوجھ محسوس کرتی ہے ، چاہے وہ خود اسلام کی طرف بڑھنا چاہے یا اس کا خاوند اور باپ اسے اسلام کی طرف بڑھانے کی ہدایت کریں۔

قرن اول میں مرد عورت اور معاشرے ایک ہی تصور کے زیر نگیں تھے۔ ان پر اسلام کی حکمرانی تھی ، شکل ایک تھی اور اسلام عمل میں موجود اور نافذ تھا۔ آج مرد مومن کی حالت یہ ہے کہ وہ ایسے اشمانی تصور کی حکمرانی چاہتا ہے جو عملاً موجود نہیں ہے۔ اور معاشرہ عملاً جاہلیت کا معاشرہ ہے۔ اس معاشرے کا دباﺅ مرد کے مقابلے میں عورت پر زیادہ ہے۔ جدید معاشرہ عورت کو بڑی تیزی سے گمراہ کررہا ہے۔

اس نکتے پر آکر پھر مرد کی ذمہ داری بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس لئے اسے خود اپنے آپ کو بھی بچانا ہے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچانا ہے ، پھر ایسے حالات میں کہ بیوی اور بچے ایسے ماحول میں گھرے ہوئے ہیں کہ ان پر ہر طرف سے جاہلیت کا حملہ ہے۔

اس لئے آج کے مسلمان کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اس کو اصلاح کے لئے قرن اول کی جماعت مسلمہ کے مقابلے میں ہزار ہا گنا زیادہ جدوجہد کرنی ہوگی ، اس لئے جو شخص آج کے دور میں کوئی اسلامی قلعہ تعمیر کرنا چاہتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ ایک ایسا گھر تعمیر کرنے کے ارادے سے پہلے اپنے لئے اس قلعے کا ایسا چوکیدار تلاش کرے ، جس کے تصورات اور نظریات ویسے ہی ہوں جیسے اس کے اپنے تصورات ہوں۔ اس سلسلے میں ایک انقلابی خاوند کو پھر کچھ قربانیاں دینی ہوں گی۔ پہلی قربانی یہ ہوگی کہ وہ خوبصورت کی تلاش نہ کرے ، مالدار کی تلاش نہ کرے ، جھوٹی ملمع کاری پر خوش نہ ہو۔ اسے چاہئے کہ وہ دین دار عورت کی تلاش کرے جو اس کے ساتھ مل کر ، ایک مسلم گھرانے کی تشکیل کرے اور ایک مسلم قلعے کی تعمیر کرے۔ اور بچوں کے جو باپ ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ وہ جو قلعے بناتے ہیں وہ بھی اپنی اولاد اور اہل و عیال کی طرف متوجہ ہوں۔ کسی دوسرے کو دعوت دینے سے پہلے اپنے بچوں ، بیٹوں ، بیٹیوں اور پوتیوں کی طرف توجہ کریں۔ اور اللہ جو پکار کر کہہ رہا ہے ، اس پر عمل کریں۔

یایھا الذین ........................ نارا (66 : 6) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، اپنے نفس اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاﺅ“۔

ایک بار پھر میں اس بات کی طرف آتا ہوں کہ اسلام ایک ایسی سوسائٹی تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کے اوپر اسلام کی حکمرانی ہو ، جس کے اندر اسلام کا واقعی وجود ہو۔ اس کا طریق کار اسلام نے یہ اختیار کیا ہے کہ ایک ایسی جماعت ہو جس کا عقیدہ اسلام ہو ، جس کا نظام اسلام ہو ، جس کا قانون اسلامی ہو ، جس کا منہاج زندگی اسلامی ہو ، اور وہ اپنے تمام تصورات تعلیمات اسلام سے اخذ کرے۔

اسلامی تصور حیات کی کا خزانہ یہ جماعت ہوتی ہے۔ یہ اس کی محافظ ہوتی ہے اور یہ اسے دوسروں تک منتقل کرتی ہے۔ اور ہر قسم کے جاہلی دباﺅ کے مقابلے میں یہ اس کا دفاع کرتی ہے اور اس جماعت کو اس اذیت سے بچاتی ہے۔

لہٰذا ایک اسلامی جماعت یا اسلامی سوسائٹی کا قیام ضروری ہے ، جس کے اندر ایک مسلمہ زندہ رہے اور اس پر اس کے ماحول کی جاہلیت کا اثر نہ ہو ، دباﺅ نہ ہو ، اس طرح یہ عورت اسلامی تقاضوں اور جاہلیت کے مطالبات کی کشمکش سے باہر نکل آئے گی۔ ایسے حالات میں اگر ایک مسلم مرد نوجوان اور یہ مسلمہ مل کر ایک اسلامی قلعہ تعمیر کریں تو ایسے قلعوں سے اسلامی بلاک اور اسلامی محاذ تشکیل پاسکتا ہے۔

یہ ایک ضرورت ہے ، فرض ہے ، محض نفل نہیں ہے کہ ایک ایسی اسلامی سوسائٹی قائم ہو ، جو باہم ایک دوسرے کو حق اور اسلام کی نصیحت کرے ، اپنی فکر کو نشوونمادے ، اپنے اخلاق وآداب کو عملاً جاری کرے اور اس سوسائٹی کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ اسلامی رنگ میں زندہ رہیں۔ اسلام کے لئے زندہ ہوں ، اسلام کے محافظ ہوں ، اسلام کے داعی ہوں۔ اور اہل جاہلیت میں سے جن کو وہ اپنی سوسائٹی کی طرف بلائیں ان کو نظر آئے کہ ان لوگوں کی جماعت اور ان کی سوسائٹی کے اندر ایک زندہ اسلام ہے تاکہ وہ اندھیروں سے اللہ کے حکم سے نور کی طرف نکل آئیں اور یہ سوسائٹی اسی طرح بڑھتی رے کہ اللہ اسلامی انقلاب برپا کردے اور پھر آئندہ اسلامی انقلاب کے رنگ میں اس جماعت اور اس کے زیر تربیت آئندہ نسلیں تیار ہوں۔

آیت 8{ یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاط } ”اے اہل ایمان ! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ۔“ یہ آیت اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے زیر مطالعہ سورتوں کے گروپ میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں پل صراط کے اس ماحول کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے جس کی تفصیل سورة الحدید میں آئی ہے۔ اس آیت کے ابتدائی حصے میں اہل ایمان کو توبہ سے متعلق جو حکم دیا گیا ہے اس حکم میں بہت جامعیت ہے۔ اس سے مراد صرف کسی ایک برے عمل کی توبہ نہیں کہ کوئی شخص شراب نوشی سے توبہ کرلے یا کوئی رشوت خوری سے باز آجائے ‘ بلکہ اس سے مراد غفلت کی زندگی اور معصیت کی روش سے توبہ ہے۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ زندگی کا رخ بدلنے کا حکم ہے ‘ کہ اے ایمان کے دعوے دارو ! ذرا اپنی زندگی کے شب و روز پر غور تو کرو کہ تمہارا رخ کس طرف ہے ؟ تمہاری زندگی کے سفر کی منزل کیا ہے ؟ تم محمد رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چل رہے ہو یا کسی اور کی پیروی کر رہے ہو ؟ { فَاَیْنَ تَذْھَبُوْنَ۔ } التکویر۔۔۔۔ - تو اے اللہ کے بندو ! اپنی زندگی کے شب و روز اور معمولات کا جائزہ لو ‘ اپنی دوڑ دھوپ اور اپنی ترجیحات پر غور کرو۔ پھر اگر تم محسوس کرو کہ تم غلط رخ پر جا رہے ہو تو اپنے بڑھتے ہوئے قدم فوراً روک لو { فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ } الذاریات : 50 اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے رب کی طرف پلٹ آئو ! تمہارے پلٹنے کے لیے اللہ کی رحمت کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک تمہاری موت کے آثار ظاہر نہیں ہوتے۔ چناچہ ابھی موقع ہے کہ اس کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرو ‘ زندگی کے جو ماہ و سال غفلت کی نذر ہوگئے ہیں ان پر اشک ندامت بہائو ‘ صدقِ دل اور اخلاصِ نیت سے معافی مانگو اور غلط روش کو ترک کرنے کے بعد زندگی کا سفر از سرنو شروع کرو۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ سفر زندگی کی سمت درست کرنے کے لیے فرائض دینی کا درست فہم اور ادراک بھی ضروری ہے۔ ظاہر ہے دین صرف نمازیں پڑھنے اور رمضان کے روزے رکھنے ہی کا نام نہیں ‘ بلکہ ایک بندئہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی معاشرت اور معیشت کو بھی ”مسلمان“ کرے۔ پھر یہ کہ جو ہدایت اسے نصیب ہوئی ہے اسے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کرے اور کسی جماعت میں شامل ہو کر دین کے سب سے اہم فرض کی ادائیگی یعنی باطل نظام کے خاتمے اور اللہ تعالیٰ کی حکومت کے قیام کی جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوجائے۔ اس کے لیے انقلابِ نبوی ﷺ کے منہج کو سمجھنا اور اس منہج کی پیروی کرنا بہت ضروری ہے۔ آج ہماری جدوجہد میں حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رض کی محنت اور کوشش کی سی کیفیت تو پیدا نہیں ہوسکتی کہ ع ”وہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا !“ لیکن ہمیں آپ ﷺ کے منہج پر چلنے کی کوشش تو کرنی چاہیے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں سہی آپ ﷺ کی تحریک کے ساتھ اپنی جدوجہد کی کچھ نہ کچھ مماثلت اور مشابہت تو پیدا کرنی چاہیے۔ چناچہ ایک ایک گھر اور ایک ایک فرد تک دعوت پہنچانے کا اہتمام ‘ دعوت پر لبیک کہنے والوں کی تنظیم و تربیت کا انتظام ‘ صبر و مصابرت کی حکمت عملی ‘ جیسے ضروری مراحل ہمیں اسی طریقے سے طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس طریقے سے خود حضور ﷺ نے یہ مراحل طے فرمائے تھے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے میری کتاب ”منہجِ انقلابِ نبوی ﷺ“ اور اسی عنوان سے تقاریر کی ریکارڈنگ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ { عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ } ”امید ہے تمہارا رب تم سے تمہاری برائیوں کو دور کردے گا“ تمہارے توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہارے نامہ اعمال سے تمام دھبے دھو ڈالے گا اور تمہارے دامن ِکردار کے تمام داغ صاف کر دے گا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَـہٗ 1 کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے وہ گناہ کبھی کیا ہی نہ ہو۔ { وَیُدْخِلَـکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُلا } ”اور تمہیں داخل کرے گا ایسے باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی“ { یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ } ”جس دن اللہ اپنے نبی ﷺ کو اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔“ { نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ } ”اُس دن ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے سامنے اور ان کے داہنی طرف“ یہ مضمون اس سے پہلے انہی الفاظ میں سورة الحدید کی آیت 12 میں بھی آچکا ہے۔ نورِ ایمان ان کے سامنے ہوگا جبکہ اعمالِ صالحہ کا نور داہنی طرف ہوگا۔ { یَـقُوْلُوْنَ رَبَّـنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا } ”وہ کہتے ہوں گے : اے ہمارے رب ! ہمارے لیے ہمارے نور کو کامل کر دے“ { وَاغْفِرْلَنَاج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔ } ”اور تو ہمیں بخش دے ‘ یقینا تو ہر شے پر قادر ہے۔“ ہر بندئہ مومن کا نور اس کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی مناسبت سے ہوگا۔ حضرت قتادہ رح سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”کسی کا نور اتنا تیز ہوگا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہوگا اور کسی کا نور مدینہ سے صنعاء تک ‘ اور کسی کا اس سے کم ‘ یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہوگا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا۔“ ابن جریر 1 حضور ﷺ کے اس فرمان کے مطابق تصور کریں حضرت ابوبکر صدیق رض اور دوسرے صحابہ کرام رض کے نور کا کیا عالم ہوگا۔ بہرحال ہم جیسے مسلمانوں کو اس دن اگر ٹارچ کی روشنی جیسا نور بھی مل جائے تو غنیمت ہے۔ لیکن ہمارے لیے یہاں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس دن کچھ لوگوں کا نور کم کیوں ہوگا۔ یقینا وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کے ایمان میں کسی پہلو سے کوئی کمزوری رہ گئی ہوگی اور اعمال میں کوتاہیاں سرزدہوئی ہوں گی۔ یقینا انہوں نے اپنی استعداد کو ‘ اپنے مال کو اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بچا بچا کر رکھا ہوگا اور اللہ کے راستے میں انہیں اس حد تک خرچ نہیں کیا ہوگا جس حد تک خرچ کرنے کے وہ مکلف تھے۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کی یہ نصیحت ہمیں حرزجاں بنا لینی چاہیے : ؎تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں !بہرحال پل صراط کے کٹھن اور نازک راستے پر جن اہل ایمان کا نور کم ہوگا وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ ! تو اپنے فضل اور اپنی شان غفاری سے ہماری کوتاہیوں کو ڈھانپ لے اور ہمارے نور کو بھی مکمل فرمادے۔

آیت 8 - سورہ تحریم: (يا أيها الذين آمنوا توبوا إلى الله توبة نصوحا عسى ربكم أن يكفر عنكم سيئاتكم ويدخلكم جنات تجري من تحتها...) - اردو