سورہ طارق: آیت 4 - إن كل نفس لما عليها... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ طارق

إِن كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ

اردو ترجمہ

کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان نہ ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In kullu nafsin lamma AAalayha hafithun

آیت 4 کی تفسیر

ان کل .................. حافظ (4:86) ” کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان نہ ہو “۔ جن الفاظ اور جس ترکیب میں یہ بات کہی گئی ہے وہ سخت تاکیدی اسلوب ہے۔ نفی و اثبات کہ کوئی نفس نہیں ہے مگر اس پر نگراں مقرر ہے۔ جو اس کی نگرانی بھی کرتا ہے اور اس کے اعمال کو بھی لکھتا ہے۔ اور یہ نگران اس کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اس کی تقرری اللہ کے حکم سے ہے۔ ان تمام باتوں کو نفس کی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ تمام انسانی راز تمام انسانی افکار ، انسانی نفس کے اندر ہوتے ہیں اور یہ نفس ہی سزا وجزا کا ذمہ دار ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کو یونہی نہیں چھوڑ دیا گیا کہ شتر بےمہار کی طرح جہاں چاہیں گھومیں پھریں اور ان کا کوئی محافظ اور چرواہا نہ ہو ، اور ان کو زمین کی وادیوں میں بغیر نگراں کے چھوڑ دیا گیا ہو ، کہ جہاں چاہیں گھومیں اور جہاں چاہیں چریں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو ، بلکہ انسانوں کے اعمال کو بڑی دقت کے ساتھ ریکارڈ کیا جارہا ہے اور یہ ریکارڈ ہر شخص کا براہ راست تیار ہورہا ہے اور نہایت صفائی کے ساتھ ہورہا ہے۔

یہ آیت اس بات اور خوفناک حقیقت کو سامنے لاتی ہے کہ انسان چاہے بظاہر اکیلا ہو ، اکیلا کسی وقت نہیں ہوتا ، جب دنیا میں کوئی بھی دیکھنے والا نہ ہو تو اللہ اور اللہ کا نمائندہ دیکھ رہا ہے اور ریکارڈ کررہا ہے ، اگر کوئی دنیاوی آنکھ اسے نہیں بھی دیکھ رہی اور کسی ستارے کی چمک بھی اس تک نہیں پہنچ رہی تو اللہ کی نظریں اس پر ہیں اور اللہ کا مقرر کردہ نگران ساتھ لگا ہوا ہے۔ اس طرح جس طرح نجم ثاقب کی روشنی تاریکیوں کو پھاڑ پہنچ جاتی ہے ۔ اسی طرح اللہ کی نگرانی میں بھی کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ اور اللہ کا مقرر کردہ نگران ساتھ لگا ہوا ہے۔ اس طرح جس طرح نجم ثاقب کی روشنی تاریکیوں کو پھاڑ پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ کی نگرانی میں بھی کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ اور اللہ کے کمالات یکساں ہیں ، وہ جس طرح آفاق میں کام کرتے ہیں اسی طرح انفس میں بھی کرتے ہیں۔

یہ چٹکی کے ذریعہ نفس انسانی کے احساس کو بیدار کرکے اسے کائنات سے جوڑ دیا گیا ، اب ایک دوسری چٹکی کے ذریعہ اللہ کی گہری تدبیر اور اٹل تقدیر کے بارے میں اس کے احساس کو بیدار کیا جاتا ہے۔ آسمانوں اور ستاروں کی قسم اٹھا کر اس گہری تدبیر کی طرف اشارہ تھا۔ اب بتایا جاتا ہے کہ انسان اور زمین اور ستاروں کی بات تو دور کی بات ہے یہ تمہارا نفس بھی کرشمہ قدرت ہے۔ خود انسان کی تخلیق ہی بتاتی ہے کہ یہ انسان شتر بےمہار نہیں ہے اور نہ خود رو ہے۔ اور نہ بےمقصد سلسلہ وجود وعدم ہے۔

آیت 4{ اِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْہَا حَافِظٌ۔ } ”کوئی جان ایسی نہیں جس پر کوئی نگہبان نہ ہو۔“ سورة الانفطار کی ان آیات میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ آیا ہے : { وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ - کِرَامًا کَاتِبِیْنَ - یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۔ } ”جبکہ ہم نے تمہارے اوپر محافظ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ بڑے باعزت لکھنے والے۔ وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کر رہے ہو“۔ انسان کے محافظ فرشتوں کا ذکر سورة الانعام کی اس آیت میں بھی ہے : { وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃًط } آیت 61 ”اور وہ اپنے بندوں پر پوری طرح غالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا رہتا ہے“۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ متعدد فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ اس کے اعمال کا ریکارڈ مرتب کرنے میں مصروف ہیں جبکہ کچھ کو اس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

آیت 4 - سورہ طارق: (إن كل نفس لما عليها حافظ...) - اردو