سورہ شعراء: آیت 32 - فألقى عصاه فإذا هي ثعبان... - اردو

آیت 32 کی تفسیر, سورہ شعراء

فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ

اردو ترجمہ

(اس کی زبان سے یہ بات نکلتے ہی) موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک صریح اژدھا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalqa AAasahu faitha hiya thuAAbanun mubeenun

آیت 32 کی تفسیر

فالقی عصاہ ……للنظرین (32)

انداز بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عصا فی الحقیقت سانپ بن گیا تھا۔ زندہ ہوگیا اور زمین پر رینگنے لگا اور جب انہوں نے اپنا ہاتھ بغل سے نکالا تو وہ فی الواقعہ سفید تھا اور یہ مفہوم (فاذا ھی ) کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ محض نظر بندی یا تخیل نہ تھا جس طرح جادو گر کرتے ہیں اور چیزیں اپنی حقیقت پر ہی رہتی ہیں۔ محض لوگوں کے جو اس کے اندر خلل آجاتا ہے۔ اشیاء کی حقیقت نہیں بدلتی۔

زندگی کا عظیم معجزہ ، جو اس کرہ ارض پر رواں ہے اور یہ معجزہ وقت ہوتا رہتا ہے۔ لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ وہ اس کے ساتھ مانوس ہوگ ئے ہیں اور یہ معجزہ بار بار اس زمین پر دہرایا جاتا ہے یا لوگ زندگی کے ذریعہ رونما ہونے والی اس تبدیلی کا مشاہدہ نہیں کرتے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے یہ دونوں معجزے رکھے تو یہ ایک ایسا امر تھا کہ پہلی نظر میں اس نے لوگوں کو ہلاک کر رکھ دیا۔

فرعون نے اب محسوس کیا کہ یہ معجزہ تو بہرحال بہت بڑا ہے اور اپنے اندر بڑی قوت رکھتا ہے۔ چناچہ اس نے فوراً اس معجزے کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ اپنے دل میں تو وہ خود جانتا تھا کہ اس کا موقف غلط ہے۔ یہ بھی ممکن تھا اس کے حاشیہ نشین چاپلوسی کرتے ہوئے حقیقی صورتحال نہ بتائیں۔ اس لئے یہ شخص حضرت موسیٰ اور قوم موسیٰ کی طرف سے سامنے آنے والے خطرے کو خود حاشیہ نشینوں کے سامنے رکھتا ہے تاکہ وہ ان معجزات کے اثرات کو کم کرسکے۔

آیت 32 فَاَلْقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ ”واضح رہے کہ سورة طٰہٰ کی آیت 20 میں عصا کی تبدیلۂ یئت کے لیے ”حَیَّۃٌ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ‘ جس کے معنی عام سانپ کے ہیں اور یہ اس وقت کا ذکر ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وادئ طویٰ میں پہلی بار اس کا تجربہ کرایا گیا تھا۔ جبکہ فرعون کے دربار میں وہ ”ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ“ یعنی واضح طور پر ایک بہت بڑا اژدھا بن گیا تھا۔

آیت 32 - سورہ شعراء: (فألقى عصاه فإذا هي ثعبان مبين...) - اردو