اس صفحہ میں سورہ Ash-Shu'araa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الشعراء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
چونکہ فرعون نے اپنی رعیت کو بہکا رکھا تھا اور انیں یقین دلایا تھا کہ معبود اور رب صرف میں ہی ہوں میرے سوا کوئی نہیں اس لیے ان سب کا عقیدہ یہ تھا۔ جب حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ میں رب العالمین کا رسول ﷺ ہوں تو اس نے کہا کہ رب العالمین ہے کیا چیز ؟ مقصد یہی تھا کہ میرے سوا کوئی رب ہے ہی نہیں تو جو کہہ رہا ہے محض غلط ہے۔ چناچہ اور آیت میں ہے کہ اس نے پوچھا آیت (فمن ربکما یا موسیٰ) موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے ؟ اس کے جواب میں کلیم اللہ نے فرمایا جس نے ہر ایک کی پیدائش کی ہے اور جو سب کا ہادی ہے۔ یہاں پر یہ یاد رہے کہ بعض منطقیوں نے یہاں ٹھوکر کھائی ہے اور کہا ہے کہ فرعون کا سوال اللہ کی ماہیت سے تھا یہ محض غلط ہے اس لئے کہ ماہیت کو تو جب پوچھتا جب کہ پہلے وجود کا قائل ہوتا۔ وہ تو سرے سے اللہ کے وجود کا منکر تھا۔ اپنے اسی عقیدے کو ظاہر کرتا تھا اور ہر ایک ایک کو یہ عقیدہ گھونٹ گھونٹ کر پلا رہا تھا گو اس کے خلاف دلائل وبراہین اس کے سامنے کھل گئے تھیں۔ پس اس کے اس سوال پر کہ رب العالمین کون ہے ؟ حضرت کلیم اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ وہ جو سب کا خالق ہے، سب کا مالک ہے، سب پر قادر ہے یکتا ہے اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ عالم علوی آسمان اور اس کی مخلوق عالم سفلی زمین اور اسکی کائنات اب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے۔ ان کے درمیان کی چیزیں ہوا پرندہ وغیرہ سب اس کے سامنے ہیں اور اس کے عبادت گزار ہیں۔ اگر تمہارے دل یقین کی دولت سے محروم نہیں اگر تمہاری نگاہیں روشن ہیں تو رب العالمین کے یہ اوصاف اس کی ذات کے ماننے کے لئے کافی ہیں۔ یہ سن کر فرعون سے چونکہ کوئی جواب نہ بن سکا اس لئے بات کو مذاق میں ڈالنے کے لیے لوگوں کو اپنے سکھائے بتائے ہوئے عقیدے پر جمانے کے لیے انکی طرف دیکھ کر کہنے لگا لو اور سنو یہ میرے سوا کسی اور کو ہی اللہ مانتا ہے ؟ تعجب کی بات ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ اسکی اس بےالتفاتی سے گھبرائے نہیں اور وجود اللہ کے دلائل بیان کرنے شروع کردیئے کہ وہ تم سب کا اور تمہارے اگلوں کا مالک اور پروردگار ہے۔ آج اگر تم فرعون کو اللہ مانتے ہو تو ذرا اسے تو سوچو کہ فرعون سے پہلے جہان والوں کا اللہ کون تھا ؟ اس کے وجود سے پہلے آسمان و زمین کا وجود تھا تو ان کا موجد کون تھا ؟ بس وہی میرا رب ہے وہی تمام جہانوں کا رب ہے اسی کا بھیجا ہوا ہوں میں۔ فرعون دلائل کی تاب نہ لاسکا کوئی جواب بن نہ پڑا تو کہنے لگا اسے چھوڑو یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میرے سوا کسی اور کو رب کیوں مانتا۔ کلیم اللہ نے پھر بھی اپنی دلیلوں کو جاری رکھا۔ اس کے لغو کلام سے بےتعلق ہو کر فرمانے لگے کہ سنو میرا اللہ مشرق ومغرب کا مالک ہے اور وہی میرا رب ہے۔ وہ سورج چاند ستارے مشرق سے چڑھاتا ہے۔ مغرب کی طرف اتارتا ہے اگر فرعون اپنی الوہیت کے دعوے میں سچا ہے تو ذرا ایک دن اس کا خلاف کرکے دکھا دے یعنی انہیں مغرب سے نکالے اور مشرق کو لے جائے یہ بات خلیل ؑ نے اپنے زمانے کے بادشاہ سے بوقت مناظرہ کہی تھی پہلے تو اللہ کا وصف بیان کیا کہ وہ جلاتا مارتا ہے لیکن اس بیوقوف نے جب کہ اس وصف کا اللہ کیساتھ مختص ہونے سے انکار کردیا اور کہنے لگا یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں آپ نے باوجود اسی دلیل میں بہت سی گنجائش ہونے کے اس سے بھی واضح دلیل اس کے سامنے رکھی کہ اچھا میرا رب مشرق سے سورج نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال اب تو اسکے حواس گم ہوگئے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ ٰعلیہ السلام کی زبانی تابڑ توڑ ایسی واضح اور روشن دلیلیں سن کر فرعون کے اوسان خطا ہوگئے وہ سمجھ گیا کہ اگر ایک میں نے نہ مانا تو کیا ؟ یہ واضح دلیلیں ان سب لوگوں پر اثر کرجائیں گی اس لئے اب اپنی قوت کو کام میں لانے کا ارادہ کیا اور حضرت موسیٰ ؑ کو ڈرانے دھمکانے لگا جیسے آگے آرہا ہے۔
فرعون اور موسیٰ ؑ کا مباحثہ جب مباحثے میں فرعون ہارا دلیل وبیان میں غالب نہ آسکا تو قوت وطاقت کا مظاہرہ کرنے لگا اور سطوت وشوکت سے حق کو دبانے کا ارادہ کیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ ؑ میرے سوا کسی اور کو معبود بنائے گا تو جیل میں سڑا سڑا کر تیری جان لے لونگا۔ حضرت موسیٰ ؑ بھی چونکہ وعظ و نصیحت کر ہی چکے تھے آپ نے بھی ارادہ کیا کہ میں بھی اسے اور اس کی قوم کو دوسری طرح قائل کروں تو فرمانے لگے کیوں جی میں اگر اپنی سچائی پر کسی ایسے معجزے کا اظہار کروں کہ تمہیں بھی قائل ہونا پڑے تب ؟ فرعون سو اس کے کیا کرسکتا تھا کہ کہا اچھا اگر سچا ہے تو پیش کر۔ آپ نے سنتے ہی اپنی لکڑی جو آپ کے ہاتھ میں تھی ہی اسے زمین پر ڈال دیا۔ بس اس کا زمین پر گرنا تھا کہ وہ ایک اژد ہے کی شکل بن گئی۔ اور اژدہا بھی بہت بڑا تیز کچلیوں والا ہیبت ناک ڈراؤنی اور خوفناک شکل والا منہ پھاڑے ہوئے پھنکارتا ہوا۔ ساتھ ہی اپنے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہوا نکلا۔ فرعون کی قسمت چونکہ ایمان سے خالی تھی ایسے واضح معجزے دیکھ کر بھی اپنی بدبختی پر اڑا رہا اور تو کچھ بن نہ پڑا اپنے ساتھیوں اور درباریوں سے کہنے لگا کہ یہ تو جادو کے کرشمے ہیں۔ بیشک اتنا تو میں بھی مان گیا کہ یہ اپنے فن جادوگری میں استاد کامل ہے۔ پھر انہیں حضرت موسیٰ ؑ کی دشمنی پر آمادہ کرنے کے لئے ایک اور بات بنائی کہ یہ ایسے ہی شعبدے دکھا دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلے گا۔ اور جب کچھ لوگ اس کے ساتھی ہوجائیں گے تو یہ علم بغاوت بلند کردے گا پھر تمہیں مغلوب کرکے اس ملک میں قبضہ کرلے گا تو اس کے استحاصل کی کوشش ابھی سے کرنی چاہئے۔ بتلاؤ تمہاری رائے کیا ہے ؟ اللہ کی قدرت دیکھو کہ فرعونیوں سے اللہ نے وہ بات کہلوائی جس سے حضرت موسیٰ ؑ کو عام تبلیغ کا موقعہ ملے اور لوگوں پر حق واضح ہوجائے۔ یعنی جادوگروں کو مقابلہ کے لئے بلوانا۔
مناظرہ کے بعد مقابلہ مناظرہ زبانی ہوچکا۔ اب مناظرہ عملا ہو رہا ہے اس مناظرہ کا ذکر سورة اعراف سورة طہ اور اس سورت میں ہے۔ قبطیوں کا ارادہ اللہ کے نور کے بجھانے کا تھا اور اللہ کا ارادہ اس کی نورانیت کے پھیلانے کا تھا۔ پس اللہ کا ارادہ غالب رہا۔ ایمان و کفر کا مقابلہ جب کبھی ہوا ایمان کفر پر غالب رہا۔ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرتا ہے باطل کا سر پھٹ جاتا ہے اور لوگوں کے باطل ارادے ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ حق آجاتا ہے باطل بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہ ہوا ہر ایک شہر میں سپاہی بھیجے گئے۔ چاروں طرف سے بڑے بڑے نامی گرامی جادوگر جمع کئے گئے جو اپنے فن میں کامل اور استاد زمانہ تھے کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد بارہ یا پندرہ یا سترہ یا انیس یا کچھ اوپر تیس یا اسی ہزار کی یا اس سے کم وبیش تھی۔ صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ان تمام کے استاد اور سردار چار شخص تھے۔ سابور عاذور حطحط اور مصفی۔ چونکہ سارے ملک میں شور مچ چکا تھا چاروں طرف سے لوگوں کے غول کے غول وقت مقررہ سے پہلے مصر میں جمع ہوگئے۔ چونکہ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ رعیت اپنے بادشاہ کے مذہب پر ہوتی ہے۔ سب کی زبان سے یہی نکلتا تھا کہ جادوگروں کے غلبہ کے بعد ہم تو ان کی راہ لگ جائیں گے۔ یہ کسی زبان سے نہ نکلا کہ جس طرف حق ہوگا ہم اسی طرف ہوجائیں گے اب موقعہ پر فرعون مع اپنے جاہ چشم کے نکال تمام امراء ورؤسا ساتھ تھے لشکر فوج پلٹن ہمراہ تھی جادوگروں کو اپنے دربار میں اپنے سامنے بلوایا۔ جادوگروں نے بادشاہ سے عہد لینا چاہا اس لئے کہا کہ جب ہم غالب آجائیں تو بادشاہ ہمیں انعامات سے محروم نہیں رکھیں گے ؟ فرعون نے جواب دیا واہ یہ کیسے ہوسکتا ہے نہ صرف انعام بلکہ میں تو تمہیں اپنے خاص رؤسا میں شامل کرونگا اور تم ہمیشہ میرے پاس اور میرے ساتھ ہی رہا کروگے۔ تم میرے مقرب بن جاؤ گے میری تمام تر توجہ تمہاری ہی طرف ہوگی۔ وہ خوشی خوشی میدان کی طرف چل دیئے۔ وہاں جاکر موسیٰ ؑ سے کہنے لگے۔ بولو تم پہلے اپنی استادی دکھاتے ہو ؟ یا ہم دکھائیں ؟ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا نہیں تم ہی پہلے اپنی بھڑاس نکال لو تاکہ تمہارے دل میں کوئی ارمان نہ رہ جائے یہ جواب پاتے ہی انہوں نے اپنی چھڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں اور کہنے لگے فرعون کی عزت سے ہمارا غلبہ رہے گا۔ جیسے جاہل عوام جب کسی کام کو کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ فلاں کے ثواب سے۔ سورة اعراف میں ہے جادوگروں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔ انہیں ہیبت میں ڈال دیا اور بڑا بھاری جادو ظاہر کیا۔ سورة طہ میں ہے کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں ان کے جادو سے ہلتی جلتی معلوم ہونے لگیں۔ اب حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے ہاتھ میں جو لکڑی تھی اسے میدان میں ڈال دیا جس نے سارے میدان میں ان کی جو کچھ نظربندیوں کی چیزیں تھیں، سب کو ہضم کرلیا۔ پس حق ظاہر ہوگیا اور باطل دب گیا اور ان کا کیا کرایا سب غارت ہوگیا۔ یہ کوئی ہلکی سی بات اور تھوڑی سی دلیل نہ تھی جادوگر تو اسے دیکھتے ہی مسلمان ہوگئے کہ ایک شخص اپنے استاد فن کے مقابلے میں آتا ہے اس کا حال جادوگروں کا سا نہیں۔ وہ کوئی بات نہیں کرتا یقینا ہمارا جادو صرف نگاہوں کا فریب ہے اور اس کے پاس اللہ کا دیا ہوا معجزہ ہے وہ تو اسی وقت وہیں کے وہیں اللہ کے سامنے سجدے میں گرگئے۔ اور اسی مجمع میں سب کے سامنے اپنے ایمان لانے کا اعلان کیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لاچکے۔ پھر اپنا قول اور واضح کرنے کے لئے یہ بھی ساتھ ہی کہہ دیا کہ رب العالمین سے ہماری مراد وہ رب ہے جسے حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ اپنا رب کہتے ہیں۔ اتنا بڑا معجزہ اس قدر انقلاب فرعون نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن ملعون کی قسمت میں ایمان نہ تھا۔ پھر بھی آنکھیں نہ کھلی۔ اور دشمن جاں ہوگیا۔ اور اپنی طاقت سے حق کو کچلنے لگا۔ اور کہنے لگا کہ ہاں میں جان گیا موسیٰ تم سب کے استاد تھے اسے تم نے پہلے سے بھیج دیا پھر تم بظاہر مقابلہ کرنے کے لئے آئے اور باطنی مشورے کے مطابق میدان ہار گئے اور اس کی بات مان گئے پس تمہارا یہ مکر کھل گیا۔