سورہ شعراء: آیت 3 - لعلك باخع نفسك ألا يكونوا... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورہ شعراء

لَعَلَّكَ بَٰخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا۟ مُؤْمِنِينَ

اردو ترجمہ

اے محمدؐ، شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

LaAAallaka bakhiAAun nafsaka alla yakoonoo mumineena

آیت 3 کی تفسیر

لعلک باخع ……خضعین (4)

انداز کلام ایسا ہے کہ گویا خود نبی ﷺ کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اپنی جان کو اس وجہ سے خطرے میں ڈال رہے ہیں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

لعلک باخع نفسک (26 : 3) ” اے نبی شاید آپ اس غم میں اپنی جان کھو دو گے۔ “ مع النفس کے معنی قتل النفس ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم کفار قریش کے عدم ایمان پر کس قدر دل گیر تھے۔ کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ اگر یہ ایمان نہ لائے تو دوسری اقوام کی طرح کہیں یہ بھی نیست و نابود نہ کردیئے جائیں۔ یوں آپ اپنے آپ کو اس غم میں گھول رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ آپ کے رشتہ دار ، اہل خاندان اور اہل قوم تھے۔ اس کی وجہ سے آپ زیادہ پریشان تھے۔ لیکن رب تعالیٰ کو سے زیادہ ہمدردی تھی۔ اللہ نے آپ کو اس تباہ کن دل کر فتگی سے منع کردیا۔ فرمایا کہ آپ ذرا آرام اور سکون سے کام جاری رکھیں۔ آپ کا یہ فریضہ نہیں ہے کہ لوگ ایمان لائیں ، اگر محض لوگوں کا ایمان ہی مطلوب ہوتا تو ہم ایک ہی حکم سے ان کی گردنیں جھکا سکتے تھے۔ آسمان سے ہم ایسا معجزہ نازل کرتے کہ یہ لوگ سرجھکا دیتے اور نہ ماننے کی کوئی صورت نہرہتی اور نہ یہ لوگ ایمان سے منہ نہ موڑ سکتے اور یکدم دبک کر رہ جاتے۔

فظلت اعنا قھم لھا خضعین (26 : 3) ” ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔ “ یہ لوگ گردنیں جھکا کر اس طرح کھڑے ہوجاتے کہ گویا باندھے ہوئے ہیں اور اپنی جگہ سے یہ حرکت ہی نہیں کرسکتے۔ دست بستہ کھڑے ہوجاتے۔

لیکن اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ اپنی اس آخری رسالت کو ان لوگوں سے زبردستی منوایا جائے۔ اس رسالت کو صرف ایک ہی معجزہ دیا گیا اور وہ معجزہ قرآن تھا۔ یہ قرآن زندگی کا ایک مکمل نظام دیتا ہے اور یہ ہر پہلو کے اعتبار سے معجزہ ہے۔ بس اس کو آگے بڑھ کر قبول کریں۔

یہ قرآن انداز تعبیر اور فنی نظم و نسق کے اعتبار سے بھی معجز ہے۔ پورے قرآن میں یہ کلام اپنے اعلیٰ معیار اور بلند سطح کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ فنی اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اس میں کوئی نشیب وقرار نہیں ہے۔ یعنی کسی جگہ کلام اپنے معیار سے گرا ہوا نہیں ہے۔ کسی جگہ اس نے اپنی خصوصیات کو نہیں چھوڑا۔ ایسا نہیں ہے جس طرح انسانی کلام ہوتا ہے۔ جس میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ کسی جگہ اونچا کسی جگہ درمیانہ اور کسی جگہ صاف ہی گرا ہوا۔ کسی جگہ پر شوکت اور کسی جگہ جھولدار۔ مثلاً ایک ہی مصنف ایک جگہ ایک طرح کی بات کرتا ہے اور دوسری جگہ انداز بدل جاتا ہے۔ لیکن قرآن ہے کہ آغاز سے انجام تک جوئے رواں ہے۔ ایک ہی سطح پر ایک ہی رفتار سے اور ایک معیار پر جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سرچشمہ بھی ایک ہے۔

پھر اپنے افکار و نظریات کے اعتبار سے بھی یہ معجزہ ہے۔ اس کے فکری اجزاء باہم مربوط ہیں۔ اس میں کوئی ایک بات نہیں ہے جو اس کے مجموعی فیصل ی سے لگا نہ کھاتی ہو۔ نہ کوئی اتفاقیبات ہے۔ تمام ہدایات ، اور تمام ضابطہ بندیاں ایک ہی ضابطے کے مطابق متکامل اور متناسق ہیں۔ یہ تعلیمات انسان کی پوری زندگی کو گھیرے ہوئے ہیں۔ زندگی کے مسائل کا پورا استیاب ہے اور پوری انسانی زندگی کے مسائل کا جواب شافی اسی میں موجود ہے۔ اس کا ایک جزئیہ بھی ایسا نہیں ہے جو قرآن کریم کے تمام دوسرے جزئیات کے مخلاف اور متضاد ہو۔ پھر یہ پورا فکری نظام ، نظام فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ تمام اجزاء فکر ایک ہی محور کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔ ایک ہی رسی میں سب کچھ بندھا ہا ہے۔ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ۔ انسان اپنی محدود مہارت کے ساتھ کوئی ایسامربوط نظام فکر و عمل پیش کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ماہر مطلق کا ارسال کرد نظام ہے اور یہ زمان و مکان کی حدود قیود سے ماوراء ہے۔ غرض قرآن کا یہ نظام اس قدر جامعیت لئے ہوئے ہے۔ اس کی فکری اور عملی تنظیم حیرت انگیز ہے۔

پھر اس کے اندر ایک اور اعجاز بھی ہے ، اس کی آواز سننے ہی دلوں میں اتر جاتی ہے ، یہ دلوں کی کنجیاں رکھتا ہے۔

اس کو سنتے ہی دل کھل جاتے ہیں اور انسان کے اندر تاثر قبول کرنے والی پنہاں قوتیں جاگ اٹھتی ہیں اور اس کی آواز پر لبیک کہتی ہیں۔ یہ الجھے ہوئے دینی مسائل کو اس قادر سادگی اور آسانی کے ساتھ حل کردیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بغیر کسی مشکل اور پیچیدگی اور زیادہ محنت کے۔ محض ایک نچ کے ساتھ دلوں کی دنیا کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا یوں ہوا کہ قرآن کریم کو اپنی اس آخری رسالت کے لئے ایک معجزہ قرار دے اور اللہ نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ کوئی مادی اور طبیعی معجزہ نازل کرے ، جس کو دیکھ کر لوگوں کی گردنیں جھک جائیں اور وہ بامر مجبوری اسے تسیم کرلیں۔ یہ اس لئے کہ یہ آخری نبوت تمام انسانوں کے لئے ایک عام اور کھلی رسالت تھی۔ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے قیامت تک یہی ہدایت تھی اور یہ کسی ایک قوم تک محدود اور کسی محدود وقت کے ساتھ مقید اور موقف رسالت نہ تھی ۔ اس لئے اللہ نے اس رسالت کو ایک ایسا معجزہ دیا جو اقوام قریب و بعید دونوں کے لئے عام ہو۔ ہر قوم اور ہر نسل کے لئے ہو۔ جہاں تک مادی معجزات کا تعلق ہے ان کے سامنے تو صرف وہ لوگجھکتے ہیں جو اسے دیکھتے ہیں۔ اور ان اقوام کے بعد تو وہ واقعات قصص و روایات بن جانے ہیں۔ وہ آنے والی نسلوں کے لئے مشاہد نہیں ہوتے۔

رہا قرآن مجید تو وہ چودہ سو سال سے ایک معجزہ ہے۔ یہ ایک کھلی کتاب ہے ، ایک زبردست نظام زندگی ہے۔ اگر اس کو کسی بھی زمانے کے لوگ اپنا راہنما اور امام بنا لیں۔ تو وہ اس سے فائد اٹھا سکتے ہیں اور وہ ان کی زندگی کے پورے مسائل حل کرسکتا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کر سکات ہے بلکہ وہ ان کو ایک نہایت ہی اعلیٰ افیق پر افضل زندگی اور بہترین نتائج تک پہنچا سکتا ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے کہ آجہم نے اپنے دور میں اس سے جو کچھ معلوم نہیں کیا ، آنے والے نسلیں اس سے معلوم کرلیں گی۔ یہ ہر سائل کو اس کے سوال کے مطابق دیتا ہے اور جھلوی بھر کے دیتا ہے اور اس کے خزانے ختم نہیں ہونے بلکہ از سر نو نئے نئے ذخیرے ملتے ہیں ۔ لیکن لوگ ہیں کہ اس قرآن کے عظیم خزانوں اور حکمتوں کو پا نہیں رہے اور اعراض کرتے ہیں۔ جوں جوں قرآن کی کوئی نئی آیت نازل ہوتی تو وہ کہتے :

آیت 3 - سورہ شعراء: (لعلك باخع نفسك ألا يكونوا مؤمنين...) - اردو