وانہ لفی ……اسرآئیل (197)
رسول اللہ ﷺ کی تعریف اور ذکر اور جو عقیدہ توحید اور نظریہ حیات آپ پیش فرماتے تھے۔ یہ دونوں امور کتاب سابقہ میں موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آخری رسالت کا انتظار علمائے بنی اسرائیل بڑی بےصبری سے کرتے تھے اور وہ ” اس رسول “ کا انتظار کرتے تھے۔ پھر ان میں سے اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ” اس رسول “ کا زمانہ آگیا ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس کے بارے میں بات کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت سلمان فارسی ، عبداللہ ابن سلام اور دوسرے علماء بنی اسرائیل کی زبانی یہ باتیں معلوم ہوگئی ہیں۔
یہ مشرکین مکہ تو محض ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے نہیں مانتے۔ یہ بات نہیں ہے کہ ان کے سامنے دلائل پیش کرنے میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ اگر کوئی عجمی یہ قرآن لے کر آتا اور ان پر عربی زبان میں پڑھتا تو بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے ۔ نہ تصدیق کرتے اور نہ یہ تسلیم کرتے کہ یہ قرآن ان کی طرف اتارا گیا ہے۔ اس قدر معجزانہ دلیل کو بھی وہ مان کر نہ دیتے۔
آیت 196 وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ ”اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس کا ذکر اور اس کے بارے میں پیشین گوئیاں سابقہ آسمانی کتب میں پائی جاتی ہیں اور یہ بھی کہ اس کے بنیادی مضامین پہلی کتب اور صحیفوں میں بھی موجود ہیں۔ ان صحیفوں اور تورات و انجیل کی بنیادی تعلیمات وہی تھیں جو قرآن کی تعلیمات ہیں۔ اگر کوئی فرق یا اختلاف تھا تو صرف مختلف شریعتوں کے جزئیاتی احکام میں تھا۔ اس لحاظ سے قرآن ان تمام صحائف و کتب کا مُتَمِّم یعنی تکمیلی ایڈیشن ہے۔
بشارت و تصدیق یافتہ کتاب فرماتا ہے کہ اللہ کی اگلی کتابوں میں بھی اس پاک اور اللہ کی آخری کلام کی پیشن گوئی اور اسکی تصدیق وصفت موجود ہے۔ اگلے نبیوں نے بھی اسکی بشارت دی یہاں تک کہ ان تمام نبیوں کے آخری نبی جن کے بعدحضور ﷺ تک اور کوئی نبی نہ تھا۔ یعنی حضرت عیسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو جمع کر کے جو خطبہ دیتے ہیں اس میں فرماتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری جانب اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو اگلی کتابوں کو سچانے کے ساتھ ہی آنے والے حضرت محمد ﷺ کی بشارت تمہیں سناتا ہوں۔ زبور حضرت داؤد ؑ کی کتاب کا نام ہے یہاں زبر کا لفظ کتابوں کے معنی میں ہے جیسے فرمان ہے۔ آیت (وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْهُ فِي الزُّبُرِ 52) 54۔ القمر :52) جو کچھ یہ کررہے ہیں سب کتابوں میں تحریر ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ سمجھیں اور ضد اور تعصب نہ کریں تو قرآن کی حقانیت پر یہی دلیل کیا کم ہے کہ خود بنی اسرائیل کے علماء اسے مانتے ہیں۔ ان میں سے جو حق گو اور بےتعصب ہیں وہ توراۃ کی ان آیتوں کا لوگوں پر کھلے عام ذکر کر رہے ہیں جن میں حضور ﷺ کی بعثت قرآن کا ذکر اور آپ کی حقانیت کی خبر ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ ، حضرت سلمان فارسی ؓ اور ان جیسے حق گو حضرات نے دنیا کے سامنے توراۃ و انجیل کی وہ آیتیں رکھ دیں جو حضور ﷺ کی شان والا شان کو ظاہر کرنے والی تھیں۔ اس کے بعد کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس فصیح وبلیغ جامع بالغ حق کلام کو ہم کسی عجمی پر نازل فرماتے پھر بھی کوئی شک ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ ہمارا کلام ہے۔ مگر مشرکین قریش اپنے کفر اور اپنی سرکشی میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس وقت بھی وہ ایمان نہ لاتے۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر آسمان کا دروازہ بھی ان کے لئے کھول دیا جاتا اور یہ خود چڑھ کر جاتے تب بھی یہی کہتے ہمیں نشہ پلادیا گیا ہے۔ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اور آیت میں ہے اگر ان کے پاس فرشتے آجاتے اور مردے بول اٹھتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا۔ ان پر عذاب کا کلمہ ثابت ہوچکا، عذاب ان کا مقدر ہوچکا اور ہدایت کی راہ مسدود کردی گئی۔