درس نمبر 169 ایک نظر میں
یہاں آ کر قصص کا اتختام ہوگیا ۔ یہ تمام قصص رسولوں اور ان کی رسالت کی مختصر کہانی پر مشتمل تھے۔ قوموں کی طر سے رسولوں کی تکذیب ہوتی رہی ، اقوام منہ موڑتی رہیں۔ انہوں نے چیلنج کیا۔ معجزات بھی آئے اور جب تکذیب پر تل گئے تو پھر اللہ کا عذاب آگیا۔
اس سورت کا پہلا سبق ایک افتتاحیہ تھا ، اس میں مشرکین مکہ کے حوالے سے حضور اکرم کو کہا گیا تھا۔
لعلک باخع ……بہ یستھزء ون (6) (26 : 3-6) ” اے محمد شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کرسکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔ ان لوگوں کے پاس رحمٰن کی طرف سے جو نئی نصیحت آتی ہے۔ یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اب یہ جھٹلا چکے ہیں۔ عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ “ اس کے بعد قصص پیش کئے گئے اور یہ نمونہ تھے ان خبروں کے جن کے بارے میں مکذبین ہمیشہ مذاق کرتے چلے آئے تھے۔
جب قصص ختم ہوئے تو سیاق کلام پھر اپنے موضوع کی طرف آگیا۔ یعنی سورت کے محور کی طرف۔ یہ آخری سبق گویا پوری سو پر تبصرہ ہے اس میں تاکید کی جاتی ہے کہ یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے ہے۔ ان قصص پر تو مدتیں گزر گئیں لیکن قرآن کریم میں ان واقعات کو پیش کیا جا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے علماء رسول اللہ کو بھی جانتے ہیں اور رسول اللہ پر نازل ہونے والے قرآن کو بھی جانتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے کیونکہ یہ وہی واقعات اور وہی رسول ہے جس کا ذکر پہلے نبیوں کی کتابوں میں مذکور ہے۔ لیکن مشرکین مکہ واضح دلائل دیکھتے ہوئے بھی ازروائے عناد تسلیم نہیں کرتے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ سحر ہے یا شعر ہے۔ اگر یہ قرآن کسی عجمی پر نازل ہوتا اور وہ ان کے سامنے ان کی زبان میں اسے پیش کرتا تو پھر بھی یہ ایمان نہ لاتے کیونکہ یہ انکار اس لئے نہیں کرتے کہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے بلکہ محض عناد کی وجہ سے یہ ایمان سے محروم ہیں۔ حضرت محمد ﷺ پر نازل شدہ اخبار کا بنوں کی طرف شیطانی القاء کی طرح نہیں ہیں۔ نہ یہ قرآن شعر کی کوئی قسم ہے ، کیونکہ اشعار کا ایک منہاج ہے جسے شعراء اچھی طرح جانتے ہیں اور شعرا تو ایک ایسا طبقہ ہے جو ہر وادی میں گھومتا ہے۔ یہ کسی خیال ، کسی جذبے اور سی بھی میلان کو موزوں کردیتے ہیں۔ کبھی اچھا ، کبھی برا رہا یہ کلام تو یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ مشرکین عرب کی نصیحت کے لئے اور یاد دہانی کے لئے کہ سنبھل جائیں قبل اس کے کہ کوئی عذاب ان کو آ لے اور قبل اس کے کہ وہ باتیں حقیقت ہو کر ان کے سامنے آجائیں جن کا یہ مذاق اڑاتے ہیں۔
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون (26 : 228) ” اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوگا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ “
، صاف صاف عربی زبان میں۔ “
مبارک کتاب سورت کی ابتدا میں قرآن کریم کا ذکر آیا تھا وہی ذکر پھر تفصیلاً بیان ہو رہا ہے کہ یہ مبارک کتاب قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرمائی ہے۔ روح الامین سے مراد حضرت جبرائیل ؑ ہیں جن کے واسطے سے یہ وحی سرور رسل ؑ پر اتری ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت (قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ 97) 2۔ البقرة :97) یعنی اس قرآن کو بحکم الٰہی حضرت جبرائیل ؑ نے تیرے دل پر نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن اگلی تمام الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ یہ فرشتہ ہمارے ہاں ایسا مکرم ہے کہ اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں جس سے روح الامین بولے اسے زمین نہیں کھاتی۔ اس بزرگ بامرتبہ فرشتے نے جو فرشتوں کا سردار ہے تیرے دل پر اس پاک اور بہتر کلام اللہ کو نازل فرمایا ہے جو ہر طرح کے میل کچیل سے کمی زیادتی سے نقصان اور کجی سے پاک ہے۔ تاکہ تو اللہ کے مخالفین کو گہنگاروں کو اللہ کی سزا سے بچاؤ کرنے کی رہبری کرسکے۔ اور تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی مغفرت ورضوان کی خوشخبری پہنچاسکے۔ یہ کھلی فصیح عربی زبان میں ہے۔ تاکہ ہر شخص سمجھ سکے پڑھ سکے۔ کسی کا عذر باقی نہ رہے اور ہر ایک پر قرآن کریم اللہ کی حجت بن جائے ایک مرتبہ حضور ﷺ نے صحابہ ؓ کے سامنے نہایت فصاحت سے ابر کے اوصاف بیان کئے جسے سن کر صحابہ کہہ اٹھے یا رسول اللہ ﷺ آپ تو کمال درجے کے فصیح وبلیغ زبان بولتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بھلا میری زبان ایسی پاکیزہ کیوں نہ ہوگی، قرآن بھی تو میری زبان میں اترا ہے فرمان ہے آیت (بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ01905ۭ) 26۔ الشعراء :195) امام سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں وحی عربی میں اتری ہے یہ اور بات ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کے لئے ان کی زبان میں ترجمہ کردیا۔ قیامت کے دن سریانی زبان ہوگی ہاں جنتیوں کی زبان عربی ہوگی (ابن ابی حاتم)