اتاتون الذکران ……قوم عدون (160)
قوم لوط وادی اردن کی کئی بستیوں میں آباد تھی۔ یہ لوگ جس جرم کے عادی تھے وہ عمل قوم لوط کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی مردوں کی ہم جنس پرستی اور عورتوں سے جنسی تعلق کو ترک کرنا۔ یہ نہایت ہی مکروہ فطری بےراہ روی تھی کیونکہ مرد اور عورتوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور ہر ایک کے اندر ایک دوسرے کے لئے جابیت رکھی ہے۔ یہ اللہ کا ایک تخلیقی راز ہے۔ اس طرح اللہ نے انسانی زندگی کے تسلسل کا انتظام کیا۔ نسل کشی کا یہ انتظام اللہ نے مرد اور عورت کے درمیان ملاپ کے ذریعہ سے جاری کیا۔ یہ نظام بھی اللہ کے اس نظام کا ایک حصہ ہے جو اس نے اس پوری کائنات میں جاری فرمایا ہے۔ جس نے اس کائنات کے ہر شخص اور ہر چیز کو باہم مربوط کردیا ہے اور اس طرح اس کائنات میں جاری فرمایا ہے ۔ جس نے اس کائنات کے ہر شخص اور ہر چیز کو باہم مربوط کردیا ہے اور اس طرح اس کائنات کا ہر شخص اور ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ حالت تعاون میں ہے۔ رہی یہ حرکت کہ مرد ، مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کریں تو یہ تعلق بےتعلق بےمقصد اور غیر پیداواری ہوگا اور اس سے کوء قمصد پورا نہ ہوگا اور یہ عمل فطرت کے قانون اور فطرت کے نظام دونوں کے خلاف ہوگا جن کے مطابق یہ کائنات چل رہی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ بعض بےذوق لوگوں کو اس عمل میں لذت ملتی ہے حالانکہ حقیقی لذت وہ ہوتی ہے جس میں مرد اور عورت کا القاء ہو اور اس کے نتیجے میں مقاصد فطرت بھی پورے ہوں۔ لہٰذا عمل قوم لوط فطرت سے کھلا انحراف ہے۔ لہٰذا اس قوم کی سزا یہی تھی کہ یا تو دوبارہ آجائیں یا ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ کیونکہ ایسے لوگ قافلہ انسانیت اور گروہ انسانیت سے نکل گئے ہیں اور اب انہوں نے وہ مقصد پورا کرنا چھوڑ دیا ہے جس کے لئے اللہ نے ان کو پیدا کیا تھا۔ یہ کہ سابقہ لوگوں کے فطری عمل سے یہ پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنے فطری عمل سے آنے والی اقوام کو پیدا کرنا تھا۔
جب حضرت لوط نے ان کو دعوت دی کہ وہ اس غیر فطری بےراہ روی کو ترک کردیں اور اس بات پر انہوں نے ان کی سرزنش کی کہ انہوں نے اس کو راہ کو ترک کردیا جو رب نے ان کے لئے پیدا کیا ہے۔ انہوں نے فطرت کے خلاف بغاوت کردی ہے اور اللہ کی تخلیق فطرت کو رد کردیا ہے اور یہ معلوم ہوا کہ وہ اپنی اس روش کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اللہ کی سنت اور فطرت کی طرف لوٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
آیت 165 اَتَاْتُوْنَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ ”دنیا جہان میں ایک تم ہی ایسے لوگ ہو جو شہوت رانی کی غرض سے َ مردوں کے پاس جاتے ہو۔ ورنہ انسانوں میں کوئی دوسری قوم یہ حرکت نہیں کرتی ‘ بلکہ یہ کام تو جانور بھی نہیں کرتے۔
ہم جنسی پرستی کا شکار لوط نبی ؑ نے اپنی قوم کو انکی خاص بدکاری سے روکا کہ تم مردوں کے پاس شہوت سے نہ آؤ۔ ہاں اپنی حلال بیویوں سے اپنی خواہش پوری کر جنہیں اللہ نے تمہارے لئے جوڑا بنادیا ہے۔ رب کی مقرر حدوں کا ادب و احترام کرو۔ اس کا جواب ان کے پاس یہی تھا کہ اے لوط ؑ اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے جلا وطن کردیں گے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان پاکبازوں لوگوں کو تو الگ کردو۔ یہ دیکھ کر آپ نے ان سے بیزاری اور دست برداری کا اعلان کردیا۔ اور فرمایا کہ میں تمہارے اس برے کام سے ناراض ہوں میں اسے پسند نہیں کرتا میں اللہ کے سامنے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں۔ پھر اللہ سے ان کی لئے بددعا کی اور اپنی اور اپنے گھرانے کی نجات طلب کی۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو نجات دی مگر آپ کی بیوی نے اپنی قوم کا ساتھ دیا اور انہی کے ساتھ تباہ ہوئی جیسے کہ سورة اعراف، سورة ہود اور سورة حجر میں بالتفصیل بیان گزر چکا ہے۔ آپ اپنے والوں کو لے کر اللہ کے فرمان کے مطابق اس بستی سے چل کھڑے ہوئے حکم تھا کہ آپ کے نکلتے ہی ان پر عذاب آئے گا اس وقت پلٹ کر ان کی طرف دیکھنا بھی نہیں۔ پھر ان سب پر عذاب برسا اور سب برباد کردئیے گئے۔ ان پر آسمان سے سنگ باری ہوئی۔ اور انکا انجام بد ہوا۔ یہ بھی عبرتناک واقعہ ہے ان میں سے بھی اکثر بےایمان تھے۔ رب کے غلبے میں اس کے رحم میں کوئی شک نہیں۔