اس صفحہ میں سورہ Ash-Shu'araa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الشعراء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
درس نمبر 167 تشریح آیات
160…………تا ……………175
کذبت قوم ……رب العلمین (140)
قصہ عوط یہاں لایا گیا ہے حالانکہ تاریخی اعتبار سے اس کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا زمانہ ہے۔ لیکن اس سورت میں قصص کی تاریخی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ یہاں اصل بات یہ دکھائی مطلب ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت ایک ہی رہی ہے۔ طریقہ کار بھی سب کا ایک ہی رہا ہے اور جھٹلانے والوں کا انجام بھی ایک ہی رہا ہے۔ یعنی مکذبین کو ہلاک کیا گیا اور مومنین کو عذاب سے بچایا گیا۔
حضرت لوط (علیہ السلام) بھی دعوت کا آغاز اسی طرح کرتے ہیں جس طرح حضرت نوح ، حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کرتے ہیں۔ قوم کی سرکشی اور عیاشی پر گرفت کرتے ہیں۔ ان کو خدا خوفی ایمان اور اطاعت رسول کی طرف بلاتے ہیں اور یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ اس ہدایت اور راہنمائی پر وہ ان سے کوئی مالی معاوضہ نہیں مانگتے۔
اس کے بعد حضرت ان کو نسبہ کرتے ہیں کہ تم جس بدی میں مبتلا ہو ، اس کا ارتکاب انسانی تاریخ میں نہیں کیا گیا۔
اتاتون الذکران ……قوم عدون (160)
قوم لوط وادی اردن کی کئی بستیوں میں آباد تھی۔ یہ لوگ جس جرم کے عادی تھے وہ عمل قوم لوط کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی مردوں کی ہم جنس پرستی اور عورتوں سے جنسی تعلق کو ترک کرنا۔ یہ نہایت ہی مکروہ فطری بےراہ روی تھی کیونکہ مرد اور عورتوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور ہر ایک کے اندر ایک دوسرے کے لئے جابیت رکھی ہے۔ یہ اللہ کا ایک تخلیقی راز ہے۔ اس طرح اللہ نے انسانی زندگی کے تسلسل کا انتظام کیا۔ نسل کشی کا یہ انتظام اللہ نے مرد اور عورت کے درمیان ملاپ کے ذریعہ سے جاری کیا۔ یہ نظام بھی اللہ کے اس نظام کا ایک حصہ ہے جو اس نے اس پوری کائنات میں جاری فرمایا ہے۔ جس نے اس کائنات کے ہر شخص اور ہر چیز کو باہم مربوط کردیا ہے اور اس طرح اس کائنات میں جاری فرمایا ہے ۔ جس نے اس کائنات کے ہر شخص اور ہر چیز کو باہم مربوط کردیا ہے اور اس طرح اس کائنات کا ہر شخص اور ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ حالت تعاون میں ہے۔ رہی یہ حرکت کہ مرد ، مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کریں تو یہ تعلق بےتعلق بےمقصد اور غیر پیداواری ہوگا اور اس سے کوء قمصد پورا نہ ہوگا اور یہ عمل فطرت کے قانون اور فطرت کے نظام دونوں کے خلاف ہوگا جن کے مطابق یہ کائنات چل رہی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ بعض بےذوق لوگوں کو اس عمل میں لذت ملتی ہے حالانکہ حقیقی لذت وہ ہوتی ہے جس میں مرد اور عورت کا القاء ہو اور اس کے نتیجے میں مقاصد فطرت بھی پورے ہوں۔ لہٰذا عمل قوم لوط فطرت سے کھلا انحراف ہے۔ لہٰذا اس قوم کی سزا یہی تھی کہ یا تو دوبارہ آجائیں یا ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ کیونکہ ایسے لوگ قافلہ انسانیت اور گروہ انسانیت سے نکل گئے ہیں اور اب انہوں نے وہ مقصد پورا کرنا چھوڑ دیا ہے جس کے لئے اللہ نے ان کو پیدا کیا تھا۔ یہ کہ سابقہ لوگوں کے فطری عمل سے یہ پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنے فطری عمل سے آنے والی اقوام کو پیدا کرنا تھا۔
جب حضرت لوط نے ان کو دعوت دی کہ وہ اس غیر فطری بےراہ روی کو ترک کردیں اور اس بات پر انہوں نے ان کی سرزنش کی کہ انہوں نے اس کو راہ کو ترک کردیا جو رب نے ان کے لئے پیدا کیا ہے۔ انہوں نے فطرت کے خلاف بغاوت کردی ہے اور اللہ کی تخلیق فطرت کو رد کردیا ہے اور یہ معلوم ہوا کہ وہ اپنی اس روش کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اللہ کی سنت اور فطرت کی طرف لوٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
قالوا لئن ……المخرجین (167)
حضرت لوط ان لوگوں میں باہر سے آ کر بس گئے تھے۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ عراق سے آئے تھے۔ جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور اپنے ملک کو بھی چھوڑ دیا اور دریائے اردن عبور کر کے اس کے اس پار آباد ہوگئے تھے۔ حضرت لوط ان لوگوں میں آ کر آباد ہوگئے تھے اور بعد میں اللہ نے حضرت لوط کو انہی کی طرف نبی بنا کر بھیج دیا تھا تاکہ قوم لوط کے اندر جو برے کام راہ پا گئے تھے ، اس کی اصلاح فرما میں اب جبکہ وہ حضرت کی بات نہیں مانتے تو یہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر وہ باز نہ آئے تو اسے ملک سے نکال دیں گے یعنی وہ تو اس فعل سے باز نہیں آسکتے۔ لوط ہی دعوت کا کام بند کردیں۔
چناچہ حضرت لوط ان کی دھمکی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ وہ تمہارے عمل کو نہایت ہی مکروہ عمل سمجھتے ہیں۔ یہ بہت بڑی گندگی اور گراوٹ ہے۔
قال انی لعملکم من القالین (168)
۔ “ الفلی کے معنی ہوتے ہیں شدید نفرت ، حضرت لوط (علیہ السلام) یوں اظہار نفرت کر کے ان کے منہ پر تھوکتے ہیں اور اس کے بعد رب تعالیٰ کی طرف دست بدعا ہوتے ہیں کہ اے اللہ مجھے ان لوگوں سے نجات دے۔
رب نجی و اھلی مما یعملون (169)
حضرت جس قسم کے معاشرے میں فرائض سر انجام دے رہے تھے وہ ان کے لئے عذاب تھا ، وہ ان لوگوں کے ساتھ نہ چل سکتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان لوگوں کا عمل فطرتاً بھی مردود ہے۔ لیکن ادائیگی فرض کے لئے ان میں رہ رہے تھے۔ چناچہ انہوں نے دعا کی کہ انہیں اس معاشرے سے نجات مل جائے ۔
رب تعالیٰ نے دعا قبول کرلی۔
فنجینہ واھلہ اجمعین الا عجوزاً فی الغبرین (171)
یہ بوڑھی عورت کون تھی۔ یہ ان کی بیوی تھی۔ دوسری سورتوں میں تصریح آئی ہے۔ یہ بھی بڑی مگر وہ عورت تھی کہ یہ ان لوگوں کی حمایت میں تھی جو یہ مکروہ فعل کرتے تھے اور ان کی مددگار تھی۔
ثم دمرنا……المنذرین (173)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے گائوں دھنس گئے اور پانی کے نیچے آگئے۔ ان گائوں میں سے ایک گائوں ” سدوم “ بھی تھا۔ آثا رقدیر کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ گائوں بحر مروار کے پانی کے نیچے موجود ہے۔
بعض علمائے طبقات الارض کا یہ نظریہ ہے کہ سحر مردار کے نیچے ایسے گائوں کے کھنڈرات ہیں جو کسی وقت آبادی سے بھرے ہوئے تھے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس دریا کے پاس ایک قلعے کے آثار دریافت کئے ہیں اور اس قلعے کے قریب ہی ایک مذبح ہے جس کے اوپر قربانیاں دی جاتی تھیں۔
بہرحال قرآن کریم نے حضرت لوط کے گائوں کی کہانی اسی رطح پیش فرمائی ہے اور سابقہ اقوام کی خبروں کے سلسلے میں قرآن کریم ہی حقیقی اور سچا ماخذ ہے۔ کیونکہ اللہ کی کتابوں میں سے یہی محفوظ ہے۔
آخر میں وہی تبصرہ انہی الفاظ میں جو ہر قصے کے بعد آیا ہے۔
درس نمبر 168 تشریح آیات
176……تا……191
کذب اصحب……رب العلمین (180)
یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قصہ ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کا واقعہ ہے۔ یہاں یہ قصہ بھی دوسرے قصص کی طرح محض عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے آیا ہے۔ اصحاب ایک غالباً اہل مدین ہی کا نام ہے ایک ایک گہرے سائے والے ایسے درخت کو کہتے ہیں جو دہرا ہوگیا ہو اور مدین کے گائوں کو شاید ایسے بڑے بڑے درختوں نے گھیرا ہوا تھا۔ مدین حجاز اور فلسطین کے درمیان خلیج عقبہ کے کنارے تھا۔
ان کے سامنے حضرت شعیب نے وہی نظریہ حیات پیش کیا جو ہر رسول پیش کرتا چلا آ رہا ہے کہ اللہ کو ایک سمجھو ، میری دعوت قبول کرو ، میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ اس اصل دعوت کے پیش کرنے کے بعد پھر اہل مدین کے لئے دعوت کا مخصوص حصہ پیش کیا جاتا ہے۔
او فوا الکیل ……منسدین (182)
جس طرح سورت اعراف اور ہود میں تفصیلات دی گئی ہیں کہ یہ لوگ ناپ اور تول میں مطلف تھے۔ یہ لوگ لیتے وقت جبراً لوگوں سے زیادہ لیتے تھے اور دیتے وقت یہ جبریا انکل سے کم دیتے تھے۔ لیتے وقت کم قیمت دیتے تھے اور دیتے وقت بہت مہنگے داموں فروخت کرتے تھ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بستی کسی ایسے تجارتی شاہراہ پر تھی۔ جہا سے قافلے گزرتے تھے۔ یہ لوگ ان تجارتی قافلوں پر اپنی مرضی نافذ کرتے تھے۔ ان کے رسول ان کو یہ تعیم دیتے تھے کہ عدل اور انصاف کے ساتھ معاملہ کرو ، کیونکہ صاف اور سھترے عقیدے کا لازمی تقاضا ہے کہ معاملات میں بھی اچھائی اختیار کرو۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اچھا عقیدہ اچھا عمل اختیار کرنے کا حکم نہ دے اور حق انصاف اور عدل کے بارے میں نظریہ خاموش ہوجائے ۔
اب حضرت شعیہ (علیہ السلام) ان کے دلوں میں تقویٰ اور خدا خوفی کا جوش پیدا کرتے ہیں۔ وہ ان کو یاد دلاتے ہیں کہ ایک ذات ایسی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ یہ ذات تمام نسلوں کی پیدا کرنے والی ہے۔