سورۃ الشرح: آیت 6 - إن مع العسر يسرا... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورۃ الشرح

إِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا

اردو ترجمہ

بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna maAAa alAAusri yusran

آیت 6 کی تفسیر

آیت 6{ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ } ”یقینا مشکل ہی کے ساتھ آسانی ہے۔“ یہ سورت دراصل مشکلات القرآن میں سے ہے۔ آیت 2 میں جس بوجھ کا ذکر ہوا ہے اس کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا گیا ہے کہ اس میں حضور ﷺ کی دعوت و تبلیغ کی مشقتوں اور لوگوں کی طرف سے پہنچائی جانے والی اذیتوں کی طرف اشارہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رائے صرف جزوی طور پر درست ہے اس لیے کہ یہ سورت بالکل ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ اس زمانے میں حضور ﷺ کی مشکلات کا ابھی آغاز ہو رہا تھا اور بعد کے زمانے میں آپ ﷺ کو نسبتاً بہت زیادہ مشکل مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ مثلاً شعب ابی طالب میں تین سال کی قید کا واقعہ اس سورت کے نزول کے بعد پیش آیا اور اس کے بعد ہی آپ ﷺ کو یوم طائف اور یوم احد جیسے گھمبیر حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ دعوت و تبلیغ اور آپ ﷺ کے فریضہ رسالت سے متعلقہ مشکلات بھی اس سورت کے نزول کے بعد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں ‘ بلکہ بڑھتی ہی چلی گئیں۔ اس لیے یہ حقیقت تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہاں جس بوجھ کے اتار دینے کا ذکر ہوا ہے وہ اصل میں کوئی اور بوجھ تھا۔ اس بوجھ کی کیفیت کے بارے میں جاننے کے لیے پہلے اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ پیغمبروں کو اپنے قرب خاص کی نعمت سے نوازتا ہے۔ چناچہ قرب خاص کی لذت سے آشنا ہوجانے کے بعد انبیاء و رسل - کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت اسی کیفیت میں گزاریں۔ لیکن وہاں سے حکم ملتا ہے کہ جائو خلق خدا تک میرا پیغام پہنچائو اور انہیں ہدایت کا راستہ دکھائو ! مثلاً اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کو ہِ طور پر اپنے قرب خاص سے نوازا اور آپ علیہ السلام سے کلام فرمایا تو اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش تو یہی ہوگی کہ وہ سدا اسی کیفیت میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مکالمے اور مخاطبے کی لذت سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ لیکن اس کے فوراً بعد آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا : { اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی۔ } طٰہٰ ”اب جائو فرعون کی طرف ‘ وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے !“ ظاہر ہے فریضہ رسالت کی ادائیگی کوئی آسان کام تو نہیں۔ اس بارے میں اصل حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پیغمبروں کی دعوت کے جواب میں لوگوں کی طرف سے بےاعتنائی برتی جاتی تھی اور طنز و تمسخر کے تیر برسائے جاتے تھے ‘ حتیٰ کہ جسمانی اذیت پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا تھا۔ الغرض اس راستے میں تو ہر قدم پر مخالفت اور ہر موڑ پر تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چناچہ ایسی صورت حال میں پیغمبروں کو دوہری مشکل کا سامنا رہا ہے یعنی ایک طرف قرب و حضوری کی خصوصی کیفیت سے باہر آنے کا ملال اور دوسری طرف لوگوں کے رویے کے باعث دل پر تکدر کا بوجھ۔ کہاں وہ قرب ِخاص کا کیف و سرور اور کہاں یہ مشقت بھری مصروفیات۔ روح اور طبیعت کا میلان تو ظاہر ہے اسی طرف ہوگا کہ وہی خلوت ہو ‘ وہی حضوری ہو اور وہی کیف و سرور ہو۔ غالبؔ نے اپنی زبان اور اپنے انداز میں محبوب کی قربت کے حوالے سے انسان کی اس کیفیت اور خواہش کی ترجمانی یوں کی ہے : ؎دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت ‘ کہ رات دن بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے ! اس صورت حال یا کیفیت کو علامہ اقبال کے بیان کردہ اس واقعہ کے حوالہ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال اپنے خطبات چوتھے لیکچر میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالقدوس گنگوہی - دنیا ومافیہا سے بیخبر مراقبے کی کیفیت میں بیٹھے تھے۔ اسی اثنا میں انہیں اقامت کی آواز سنائی دی۔ آپ رح فوراً نماز کے لیے کھڑے تو ہوگئے مگر جھنجھلا کر کہا : ”حضوری سے نکال کر دربانی میں کھڑا کردیا !“ اب ظاہر ہے حضوری کی کیفیت میں تو اور ہی لذت تھی جبکہ نماز میں جماعت کا نظم ملحوظ رکھنے کی پابندی ہے اور ہر صورت میں امام کی اقتداضروری ہے۔ فرض کریں مقتدی کو تلاوت سننے میں لذت محسوس ہو رہی ہے اور وہ مزید سننا چاہتا ہے لیکن یہاں وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے جب امام قراءت ختم کر کے رکوع میں جائے گا تو اسے اس کی اقتدا کرنا ہوگی۔ اگر وہ دیر تک سجدہ میں ہی پڑے رہنا چاہتا ہے تو بھی اسے اپنا سجدہ مختصر کر کے امام کی اقتدا میں سر اٹھانا ہوگا۔ اس تمہیدی وضاحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اب آپ حضور ﷺ کی اس کیفیت کا تصور کیجیے جب حضور ﷺ رات کی تنہائی میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ اس وقت آپ ﷺ کی روح کیسی کیسی قربتوں اور رفعتوں سے آشنا ہوتی ہوگی اور آپ ﷺ کے قلب مبارک پر کیسے کیسے انوار و تجلیات کی بارش ہوتی ہوگی۔ پھر صبح کو جب آپ ﷺ اہل مکہ کے درمیان جا کر ان سے شاعر ‘ مجنون ‘ کذاب نعوذ باللہ جیسے القابات سنتے ہوں گے اور ان کے تمسخر بھرے جملوں کا سامنا کرتے ہوں گے تو آپ ﷺ اپنی طبیعت میں کیسا تکدر اور کیسی کو فت محسوس کرتے ہوں گے۔ چناچہ حضور ﷺ کے لیے اصل معاملہ یہ تھا کہ ”عروج“ قربِ خاص کی لذت کے بعد ”نزول“ کا مرحلہ آپ ﷺ پر بہت شاق گزرتا تھا۔ اور یہی وہ ”بوجھ“ تھا جو آپ ﷺ کی کمر کو دہرا کیے دے رہا تھا۔ البتہ رفتہ رفتہ آپ ﷺ کا مزاج جب اس معمول کا خوگر ہوگیا تو اس بوجھ کے احساس میں کمی واقع ہوتی گئی۔ پھر جب روز بروز اہل ایمان کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی تو دعوت و تحریک کی مصروفیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے تسکین کا سامان پیدا فرما دیا۔ بہرحال یہاں پر یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ فریضہ رسالت کی انجام دہی کے لیے عروج اور نزول ان کیفیات کے لیے صوفیاء کے ہاں ”سیر الی اللہ“ اور ”سیر عن اللہ“ کی اصطلاحات بھی معروف ہیں کی دونوں کیفیات کا بیک وقت باہم متوازی چلنا ضروری ہے۔ اس نکتہ لطیف کو مولانا روم نے بارش کی مثال سے بہت موثر انداز میں سمجھایا ہے۔ مولانا کی بیان کردہ اس حکایت کا خلاصہ یہ ہے کہ سمندر سے بخارات کی شکل میں بالکل صاف اور پاکیزہ پانی فضا میں پہنچتا ہے۔ بارش برستی ہے تو یہ صاف پانی فضا کی کدورتوں کو بھی صاف کرتا ہے ‘ زمین کی گندگیوں کو بھی اپنے ساتھ بہا کر سمندر میں ڈال دیتا ہے اور اس کے بعد سمندر سے پھر بخارات بن کر صاف اور پاکیزہ حالت میں بارش کے لیے فضا میں پہنچ جاتا ہے۔ اس مثال کو حضور ﷺ کی ذات پر منطبق کرتے ہوئے یوں سمجھیں کہ حضور ﷺ کو ”سیر الی اللہ“ قیام اللیل اور خلوت کی مناجات وغیرہ کے ذریعے روحانی ترفع حاصل ہوتا۔ پھر جب آپ ﷺ ”سیر عن اللہ“ کی صورت میں معاشرے کی طرف رجوع فرماتے تو آپ ﷺ کی رحمت اور روحانیت لوگوں پر بارش کی طرح برستی اور راستے میں آنے والی تمام ظاہری و باطنی آلائشوں اور کدورتوں کو دھو ڈالتی۔ اسی دوران لوگوں کی مخالفت اور گھٹیا حرکات کے باعث آپ ﷺ کی ”روحانیت“ میں کچھ تکدر بھی پیدا ہوتا ‘ جسے ”سیر الی اللہ“ کے اگلے مرحلے میں صاف کردیا جاتا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا۔ یہاں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ نتائج کے اعتبار سے تو دعوت و تبلیغ کی مصروفیات بھی ”سیر الی اللہ“ ہی کے زمرے میں آتی ہیں لیکن عملی طور پر اس کی کیفیت بظاہر ”سیر عن اللہ“ جیسی ہے۔ جیسے نماز کی حالت میں انسان کا رخ اللہ کی طرف ہوتا ہے لیکن ایک داعی جب نماز سے فارغ ہو کر تبلیغ کے لیے نکلتا ہے تو بظاہر اس کی پشت اللہ کی طرف ہوتی ہے اور رُخ لوگوں کی طرف ہوتا ہے۔

آیت 6 - سورۃ الشرح: (إن مع العسر يسرا...) - اردو