سورہ سجدہ: آیت 18 - أفمن كان مؤمنا كمن كان... - اردو

آیت 18 کی تفسیر, سورہ سجدہ

أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُۥنَ

اردو ترجمہ

بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اُس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaman kana muminan kaman kana fasiqan la yastawoona

آیت 18 کی تفسیر

افمن کان مؤمنا ۔۔۔۔۔۔ انا من المجرمین منتقمون (18 – 22) مومنین اور فاسقین ، مزاج ، شعور اور طرز عمل کسی چیز میں برابر نہیں ہوتے کہ وہ دنیا و آخرت کی جزاء میں برابر ہوجائیں۔ مومن کی فطرت سیدھی ، سلیم ہوتی ہے اور وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے سیدھے راستے اور سیدھے نظام کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اور فاسق منحرف ، بےراہ رو ، مفسد فی الارض ، اور اللہ کے سیدھے راستے پر چلنے والے نہیں ہوتے اور نہ اسلامی نظام قانون کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مومن اور فاسق ایک جیسی زندگی بسر نہ کریں اور ان کی زندگی کا انجام ایک نہ ہو ، دنیا اور آخرت میں۔ اور ان میں سے ہر ایک کو دنیا اور آخرت دونوں میں اپنے کیے کے مطابق جزاء و سزا ملے گی۔

وما الذین امنوا ۔۔۔۔۔ الماوی (32: 19) ” جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ، ان کے لیے تو جنتوں کی قیام گاہیں ہیں “۔ یہ ان قیام گاہوں میں فروکش ہوں گے اور یہ قیام گاہیں ان کو اپنے اندر لے لیں گی۔ یہ ان کے لیے اچھی منزلیں ہوں گی اور ان منازل میں وہ رہیں گے اور یہ بطور جزاء ہوں گے ان کے اعمال حسنہ پر۔

واما الذین فسقوا فماوھم النار (32: 20) ” اور جنہوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ وہ اس کی طرف لوٹیں گے اور وہ وہاں سر چھپائیں گے۔ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔

کلما ارادوآ ان یخرجوا منھا اعیدوا فیھا (32: 20) ” جب کبھی نکلنا چاہیں گے اس میں دھکیل دئیے جائیں “ یہ ایک ایسا منظر ہے جس میں بھرپور دوڑ دھوپ ہے لوگ بھاگ رہے ہیں اور انہیں پکڑ پکڑ کر دوبارہ دوزخ میں ڈالا جا رہا ہے

وقیل لھم ۔۔۔۔۔ تکذبون (32: 20) ” اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اسی آگ کے عذاب کا مزہ جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے “۔ یہ ان کی سرزنش ہے۔ ان کو زیادہ ذلیل کرنے اور زیادہ سزا دینے کے لیے۔

یہ ہے آخرت میں انجام فاسق لوگوں کا۔ لیکن ان کو قیامت کے عذاب کے آنے تک مہلت نہیں دے دی گئی۔ ان کو قیامت سے پہلے اس جہاں میں بھی عذاب کی دھمکی دی جاتی ہے۔

ولنذیقنھم من العذاب ۔۔۔۔۔ یرجعون (32: 21) ” اس بڑے عذاب سے پہلے ہم ایسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے ، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں۔

لیکن ان چھوٹے موٹے عذابوں کی تہہ میں بھی دراصل اللہ کی رحمت پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتے کہ اپنے بندوں کو بہرحال عذاب دیں۔ اگر وہ عذاب کے مستحق نہ ہوں۔ اگر وہ عذاب کے معصیات پر اصرار نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرا جھوٹا موٹا عذاب جو بندوں پر آتا رہتا ہے وہ بھی انہیں متنبہ کرنے کے لیے آتا ہے کہ شاید وہ لوٹ آئیں۔ ان کی فطرت جاگ اٹھے اور یہ عذاب انہیں راہ راست پر لے آئے۔ اور اگر وہ باز آجائیں تو وہ اس عذاب اکبر سے بچ جائیں جو ابھی ان کے سامنے گزشتہ منظر میں پیش کردیا گیا ہے۔ اگر ان کو رب تعالیٰ کی آیات کی یاد دہانی کی گئی اور انہوں نے ان سے اعراض کیا اور اس کی وجہ سے ان پر معمولی عذاب آگیا اور پھر انہوں نے عبرت حاصل نہ کی اور اپنی روش سے نہ لوٹے تو اب یہ ظالم ہیں۔

ومن اظلم ۔۔۔۔۔ اعرض عنھا (32: 22) ” اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے ہماری آیات سنائی گئیں اور پھر وہ اس دن ان سے منہ پھیرلے “۔ لہٰذا ایسے لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان سے انتقام لیا جائے۔

انا من المجرمین منتقمون (32: 22) ” ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے “۔ یہ ایک خوفناک تہدید ہے کہ اللہ جبار اور متکبر یہ دھمکی دے رہا ہے اور وہ اعلان کرتا ہے کہ ایسے مجرموں سے میں انتقام لوں گا۔ اللہ کے مقابلے میں یہ بیچارے ضعیف کر بھی کیا سکیں گے۔ واہ رے اللہ کا انتقام !۔ یہ سبق اب مجرمین اور صالحین ، مومنین اور فاسقین کے انجام پر ختم ہوتا ہے۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کا انجام مناظر قیامت کی شکل میں ہے۔ جس کے وقوع میں یہ لوگ شک کرتے تھے۔ اس کے بعد سیاق کلام میں ایک نظر حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کے حالات پر ڈالی جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ کو کتاب دی گئی تھی کہ بنی اسرائیل کے لیے کتاب ہدایت ہو جیسا کہ حضرت محمد ﷺ کو قرآن دیا گیا ہے کہ یہ مومنین کے لیے ہدایت ہو۔ صاحب قرآن اور صاحب تورات ایک ہی نظریہ حیات پر متفق ہیں اور جس طرح حضرت موسیٰ کے متبعین نے صبر و ثبات سے کام لیا اور ان کو ائمہ ہدایت بنایا گیا تھا اس طرح اگر حضرت محمد ﷺ کے ساتھی اگر صبر و ثبات سے کام لیں تو وہ بھی امامت کے مستحق ہوں گے امامت کی مستحق امت کی صفات کیا ہوتی ہیں۔

نیک وبد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے اللہ تعالیٰ کے عدل وکرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکاربرابر نہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ 21؀) 45۔ الجاثية :21) یعنی کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کررہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کردیں گے ؟ ان کی موت زیست برابر ہے۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں۔ اور آیت میں ہے (اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ 28؀) 38۔ ص :28) یعنی ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کردیں ؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کردیں ؟ اور آیت (لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ 20؀) 59۔ الحشر :20) دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہوسکتے۔ یہاں بھی فرمایا کہ مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ؓ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر ان دونوں قسموں کا تفصیلی بیان فرمایا کہ جس نے اپنے دل سے کلام اللہ کی تصدیق کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو انہیں وہ جنتیں ملیں گی جن میں مکانات ہیں بلند بالا خانے ہیں اور رہائش آرام کے تمام سامان ہیں۔ یہ ان کی نیک اعمالی کے بدلے میں مہمانداری ہوگی۔ اور جن لوگوں نے اطاعت چھوڑی ان کی جگہ جہنم میں ہوگی جس میں سے وہ نکل نہ سکیں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے (كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ 22؀) 22۔ الحج :22) یعنی جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے۔ حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے۔ عذاب ادنی سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں یہ اس لئے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہوجائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے۔ نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں۔ حضرت ابی فرماتے ہیں چاند کا شق ہوجانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے۔ کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکہ کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنادیا تھا۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ پھر فرماتا ہے جو اللہ کی آیتیں سن کر اس کی وضاحت کو پاکر ان سے منہ موڑلے بلکہ ان کا انکار کرجائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا ؟ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بےعزت بےوقعت اور بڑے گنہگار ہیں۔ یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے۔ جناب رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا۔ جس نے بےوجہ کوئی جھنڈا باندھا، جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی، جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ہم مجرموں سے باز پرس کریں گے اور ان سے پورا بدلا لیں گے۔ (ابن ابی حاتم)

آیت 18 - سورہ سجدہ: (أفمن كان مؤمنا كمن كان فاسقا ۚ لا يستوون...) - اردو