سورہ سجدہ (32): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ As-Sajda کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ السجدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ سجدہ کے بارے میں معلومات

Surah As-Sajda
سُورَةُ السَّجۡدَةِ
صفحہ 416 (آیات 12 سے 20 تک)

وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلْمُجْرِمُونَ نَاكِسُوا۟ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَٱرْجِعْنَا نَعْمَلْ صَٰلِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ وَلَوْ شِئْنَا لَءَاتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَىٰهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ ٱلْقَوْلُ مِنِّى لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ فَذُوقُوا۟ بِمَا نَسِيتُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَآ إِنَّا نَسِينَٰكُمْ ۖ وَذُوقُوا۟ عَذَابَ ٱلْخُلْدِ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِـَٔايَٰتِنَا ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا۟ بِهَا خَرُّوا۟ سُجَّدًا وَسَبَّحُوا۟ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۩ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ ٱلْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ يُنفِقُونَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُۥنَ أَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ فَلَهُمْ جَنَّٰتُ ٱلْمَأْوَىٰ نُزُلًۢا بِمَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ فَسَقُوا۟ فَمَأْوَىٰهُمُ ٱلنَّارُ ۖ كُلَّمَآ أَرَادُوٓا۟ أَن يَخْرُجُوا۟ مِنْهَآ أُعِيدُوا۟ فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا۟ عَذَابَ ٱلنَّارِ ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ
416

سورہ سجدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ سجدہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) "اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw tara ithi almujrimoona nakisoo ruoosihim AAinda rabbihim rabbana absarna wasamiAAna faarjiAAna naAAmal salihan inna mooqinoona

ولو تری اذ المجرمون ۔۔۔۔۔۔ بما کنتم تعلمون (12 – 14)

یہ ایک ایسا منظر ہے جس میں منکرین قیامت نہایت ہی شرمندگی کے ساتھ اعتراف کر رہے ہیں۔ اب وہ اس سچائی کو مان رہے ہیں جس کا وہ انکار کرتے تھے۔ وہ یہ درخواست کریں گے کہ ہمیں ایک بار پھر زمین پر لوٹا دیا جائے اور وہ اب کی بار اس کمی کو پورا کردیں گے جو پہلی بار ہوگئی۔ یہاں شرمندگی کی وجہ سے وہ سرنگوں کھڑے ہوں گے۔ اب یہ لوگ اپنے اس رب کے پاس (عند ربھم) ہوں گے جس کے پاس حاضر ہونے کا وہ انکار کرتے تھے۔ لیکن ان کی یہ سب باتیں بعد از وقت ہوں گی اور اب اعتراف اور اعلان ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا۔ قبل اس کے کہ ان کی اس شرمندگی پر کوئی تبصرہ کیا جائے ، یہ بتا دیا جاتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں فیصلہ کن قوت کون سی ہے اور وہ کون سی قوت ہے جو لوگوں کے آخری انجام کا فیصلہ کرنے والی ہے۔

ولو شئنا لاتینا ۔۔۔۔۔ والناس اجمعین (32: 13) ” اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا “۔ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی راہ پر ڈال دیتا۔ اور یہ تھا طریقہ ہدایت ، جس طرح اس مخلوقات کا طریقہ ایک ہے جو الہام فطرت کے مطابق زندگی بسر کرتی ہے اور وہ پوری زندگی ایک ہی طرح سے گزارتی ہے جیسے حشرات الارض پرندے اور زمین پر چلنے والے جانور یا وہ مخلوق جو اطاعت شعار ہے مثلاً فرشتے ، لیکن اللہ کی مشیت کا تقاضا یوں ہوا کہ انسانوں کا ایک خاص مزاج اور ماہیت ہو۔ اس کے اختیار میں ہو کہ وہ ہدایت اختیار کرے یا ضلالت اختیار کرے اور وہ اپنی اس مخصوص طبیعت کے ساتھ اس جہاں میں ایک مخصوص کردار ادا کرے جس کے لئے اللہ نے اسے اس کرہ ارض پر بھیجا ہے اور ایک منصوبے کے مطابق بھیجا ہے۔ چناچہ اس منصوبے کے تقاضے کے طور پر اللہ نے لکھ دیا کہ جنوں اور انسانوں سے وہ جہنم کو بھر دے گا ان لوگوں سے جو جنوں اور انسانوں میں سے ضلالت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ جس راہ کا انجام جہنم ہے۔ یہ لوگ جو اللہ کے سامنے قیامت کے دن پیش کیے گئے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اختیار اور خوشی سے جہنم کی راہ اختیار کی۔ اب وہ اللہ کے سامنے سرجھکائے شرمندہ کھڑے ہیں۔ چناچہ کہا جاتا ہے :

فذوقوا بما نسیتم لقآء یومکم ھذا (32: 14) ” اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا “۔ یہ ہے تمہارا دن جو حاضر کیونکہ اس منظر میں ہم اسے حاضر دیکھ رہے ہیں۔ تم نے چونکہ اس دن کو بھلا دیا تھا۔ اب اس کا مزہ چکھو۔ تمہارے پاس کافی وقت تھا مگر تم نے اس کے لئے تیاری نہ کی۔

ان نسینکم (32: 14) ” ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا ہے “۔ اللہ تو کسی کو نہیں بھلاتا۔ لیکن ان کے ساتھ معاملہ اس طرح کرتا ہے کہ گویا وہ نسیا منسیا کر دئیے گئے ہیں۔ یہ ایسا سلوک ہے جس میں انہیں توہین آمیز انداز میں نظر انداز کردیا گیا ہے۔

وذوقوا عذاب الخلد بما کنتم تعملون (32: 14) ” چکھو ، اب ہمیشگی کے عذاب کا مزہ اپنے کرتوتوں کی پاداش میں “۔ اب اس منظر پر پردہ گر جاتا ہے۔ فیصلہ کن بات کردی جاتی ہے اور مجرموں کو ان کے برے انجام میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ منظر قرآن کے پڑھنے والے کے پردہ فکر پر یوں نقش ہوتا ہے کہ گویا اب یہ لوگ وہاں اسی حال میں چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ تو وہ وہاں ہی کھڑے ہیں جہاں چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ یہ ہے قرآن کی اندر کی تصویر کشی۔

اب اس مشاہدہ و منظر پر پردہ گرتا ہے اور ایک دوسرا منظر سامنے آتا ہے ، اس دوسرے منظر کا ماحول اور فضا مختلف ہے۔ یہ ایک دوسری ہی عطر آمیز اور فرحت بخش فضا ہے جس میں دل اڑا جا رہا ہے ، یہ مومنین کا منظر ہے۔ وہ لوگ جو اللہ سے ڈرتے ہیں ، نہایت یکسوئی سے اس کی عبادت کرتے ہیں ، وہ اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اس حال میں کہ ان کے دل کے اندر خدا کا خوف بیٹھا ہے۔ ان کے دل کانپ رہے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے فضل و کرم کی امیدیں لیے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے رب ذوالجلال نے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جس کا کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔

اردو ترجمہ

(جواب میں ارشاد ہو گا) "اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پُوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw shina laatayna kulla nafsin hudaha walakin haqqa alqawlu minnee laamlaanna jahannama mina aljinnati waalnnasi ajmaAAeena

اردو ترجمہ

پس اب چکھو مزا اپنی اِس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا، ہم نے بھی اب تمہیں فراموش کر دیا ہے چکھو ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fathooqoo bima naseetum liqaa yawmikum hatha inna naseenakum wathooqoo AAathaba alkhuldi bima kuntum taAAmaloona

اردو ترجمہ

ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama yuminu biayatina allatheena itha thukkiroo biha kharroo sujjadan wasabbahoo bihamdi rabbihim wahum la yastakbiroona

انما یؤمن بایتنا ۔۔۔۔۔ جزاء بما کانوا یعملون (15 – 17)

پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے “۔

یہ اہل ایمان کی نہایت ہی خوبصورت اور روشن تصویر ہے۔ یہ نہایت ہی لطیف اور شفاف اور حساس لوگ ہیں۔ ان کے دل خوف خدا سے کانپتے ہیں اور وہ نہایت ہی پر امید انداز سے اس کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی بندگی کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ نہ وہ اللہ کے مقابلے میں بڑائی اور تکبر کرتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ ہی دراصل اللہ کی آیات پر ایمان لانے والے ہیں۔ یہ لوگ کی آیات کو تیز احساس ، بیدار دل اور روشن ضمیر کے ساتھ لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو اللہ کی آیات یاد دلائی جاتی ہیں تو یہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔

اذا ذکروا بھا خروا سجدا (32: 15) اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات سے بہت ہی متاثر ہوجاتے ہیں۔ وہ اللہ کی باتیں سن کر اللہ اور اس کی آیات کی تعظیم کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں یہ احساس کرتے ہوئے کہ اللہ اور اس کی آیات کی عظمت کا اظہار صرف سجدہ ریز ہوکر ہی کیا جاسکتا ہے اور اپنی پیشانی کو خاک آلود کرنے ہی سے اس کا اظہار ہو سکتا ہے۔

وسبحوا بحمد ربھم (32: 15) ” اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں “۔ یعنی جسمانی اعتبار سے وہ سجدہ کرتے ہیں اور زبان کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں۔

وھم لا یستکبرون (32: 15) ” اور وہ تکبر نہیں کرتے “۔ کیونکہ وہ مطیع فرمان ہوکر ، اللہ کی طرف رجوع کرکے ، اللہ کی کبریائی کا شعور رکھتے ہوئے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اب ذرا ان کی جسمانی شکل و ہیئت کی تصویر دیکھئے ، انداز تعبیر اس طرح ہے کہ ان کی قلبی ، روحانی اور ذہنی کیفیت مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے۔

تتجافی جنوبھم عن المضاجع یدعون ربھم خوفا وطمعا (32: 16) ” ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں۔ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں “۔ یہ لوگ رات کو نماز کے لیے اٹھتے ہیں یعنی عشاء کی آخری نماز کے لیے۔ وتروں کے لیے ، تہجد کے لیے اور رات کو دعاؤں کے لیے۔ لیکن قرآن نے ان امور کو اس انداز سے بیان کیا : ان کی پیٹھیں ان کے بستروں سے الگ رہتی ہیں۔ رات کے وقت بستروں کی تصویر کشی یوں کی جاتی ہے کہ انسان اس راحت ، آرام ، نیند اور دوسری لذتوں کو بڑی مشکل سے چھوڑتا ہے۔ لیکن ان کی پیٹھیں ، نرم بستروں ، آرام اور نیند اور عیش کے مقابلے میں دوسرا کام رکھتی ہیں۔ ان کا اپنے رب کے ساتھ کام ہوتا ہے۔ ان کو خیال ہوتا ہے کہ ان کو ایک دن رب کے ہاں حاضر ہونا ہے اور وہ خوف ورجاء کے درمیان اللہ کی طرف متوجہ ہیں۔ خوف ان کو اللہ کے عذاب کا ہوتا ہے اور امید اللہ کی رحمت کی ہوتی ہے۔ خوف اللہ کے غضب کا ہوتا ہے اور امید اللہ کی رضا مندی کی ہوتی ہے۔ خوف اللہ کی معصیت کا ہوتا ہے اور امید اس کی توفیق اطاعت کی ہوتی ہے۔ ان تمام امور کو قرآن کریم نے نہایت ہی مختصر الفاظ میں بیان کردیا ہے۔ نہایت ہی مجسم انداز میں۔

یدعون ربھم خوفا وطمعا (32: 16) ” اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں “۔ اس حساسیت اور کپکپی ، خضوع و خشوع کے ساتھ نماز اور گڑگڑا کر دعا کرنے کے علاوہ اپنی سوسائٹی کی بھلائی کے لیے بھی فکر مند ہوتے ہیں اور اللہ کو راضی کرتے ہوئے وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔

ومما رزقنھم ینفقون (32: 16) ” اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں “۔ ان بلند ، روشن ، حساس اور مشفق صورتوں کے ساتھ اللہ کا معاملہ بھی بہت مشفقانہ ہے اور نہایت ہی منفرد قسم کی جزاء ان کے لیے تیار ہے۔ وہ جزاء جس کے اندر ان کے لیے خاص مہربانی جھلکتی ہے۔ ان کے لیے ایک خاص اعزاز کا اعلان ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف سے ان پر کرم

ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے بلند نفوس کے لئے خصوصی اور مخفی مہربانیاں اور تعلقات رکھتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tatajafa junoobuhum AAani almadajiAAi yadAAoona rabbahum khawfan watamaAAan wamimma razaqnahum yunfiqoona

اردو ترجمہ

پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fala taAAlamu nafsun ma okhfiya lahum min qurrati aAAyunin jazaan bima kanoo yaAAmaloona

فلما تعلم نفس ۔۔۔۔۔ کانوا یعملون (32: 17) ” “۔ یہ ایک عجیب انداز تعبیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ خفیہ تعلق ہوتا ہے اور اللہ نے بذات خود اپنے دوستوں کے لیے تحفے تیار کر رکھے ہیں ، ان کو خفیہ رکھا ہے اور اللہ نے ان کے بارے میں کسی کو کوئی اطلاع بھی نہیں دی تاکہ ان کو قیامت کے دن اچانک ظاہر کیا جائے۔ اب یہ ہونے والی ملاقات کس قدر باعث احترام ہے ، کس قدر اس کا انتظار ہے اور کس قدر شاندار ہے کہ اس میں اللہ اپنے دوستوں میں نادیدہ تحفے تقسیم کریں گے جو تیار ہوچکے ہیں اور اللہ اپنی موجودگی میں یہ تحفے تقسیم کریں گے۔

سبحان اللہ ! اپنے بندوں پر اللہ کے کیا کرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کس طرح ان کو اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔ ان کا عمل جو بھی ہو ، ان کی عبادت جو بھی ہو ، اور ان کی اطاعت جس قدر بھی ہو ، بہرحال اللہ تعالیٰ نے خود ان کے لیے بعض تحفے تیار کر رکھے ہیں۔ نہایت اہتمام ، رعایت ، کرم اور شفقت کے ساتھ۔ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے اور وہ بہت ہی فضل و کرم کرنے والا ہے۔

پھر دوبارہ اس اجمال کی تفصیل دی جاتی ہے۔ ذلیل شدہ مجرمین کے انجام کے مقابلے میں مومنین کا بہترین انجام ذرا مفصلاً بیان ہوتا ہے کہ اللہ مومنین کو کس قدر منصفانہ جزاء ان کے اعمال کی دے گا۔ وہ مومنین اور مجرمین کے انجام میں دنیا اور آخرت دونوں میں فرق کرے گا یعنی خفیہ تحفوں کے علاوہ ان کے اعمال کا بھی پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

اردو ترجمہ

بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اُس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaman kana muminan kaman kana fasiqan la yastawoona

افمن کان مؤمنا ۔۔۔۔۔۔ انا من المجرمین منتقمون (18 – 22) مومنین اور فاسقین ، مزاج ، شعور اور طرز عمل کسی چیز میں برابر نہیں ہوتے کہ وہ دنیا و آخرت کی جزاء میں برابر ہوجائیں۔ مومن کی فطرت سیدھی ، سلیم ہوتی ہے اور وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے سیدھے راستے اور سیدھے نظام کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اور فاسق منحرف ، بےراہ رو ، مفسد فی الارض ، اور اللہ کے سیدھے راستے پر چلنے والے نہیں ہوتے اور نہ اسلامی نظام قانون کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مومن اور فاسق ایک جیسی زندگی بسر نہ کریں اور ان کی زندگی کا انجام ایک نہ ہو ، دنیا اور آخرت میں۔ اور ان میں سے ہر ایک کو دنیا اور آخرت دونوں میں اپنے کیے کے مطابق جزاء و سزا ملے گی۔

وما الذین امنوا ۔۔۔۔۔ الماوی (32: 19) ” جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ، ان کے لیے تو جنتوں کی قیام گاہیں ہیں “۔ یہ ان قیام گاہوں میں فروکش ہوں گے اور یہ قیام گاہیں ان کو اپنے اندر لے لیں گی۔ یہ ان کے لیے اچھی منزلیں ہوں گی اور ان منازل میں وہ رہیں گے اور یہ بطور جزاء ہوں گے ان کے اعمال حسنہ پر۔

واما الذین فسقوا فماوھم النار (32: 20) ” اور جنہوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ وہ اس کی طرف لوٹیں گے اور وہ وہاں سر چھپائیں گے۔ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔

کلما ارادوآ ان یخرجوا منھا اعیدوا فیھا (32: 20) ” جب کبھی نکلنا چاہیں گے اس میں دھکیل دئیے جائیں “ یہ ایک ایسا منظر ہے جس میں بھرپور دوڑ دھوپ ہے لوگ بھاگ رہے ہیں اور انہیں پکڑ پکڑ کر دوبارہ دوزخ میں ڈالا جا رہا ہے

وقیل لھم ۔۔۔۔۔ تکذبون (32: 20) ” اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اسی آگ کے عذاب کا مزہ جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے “۔ یہ ان کی سرزنش ہے۔ ان کو زیادہ ذلیل کرنے اور زیادہ سزا دینے کے لیے۔

یہ ہے آخرت میں انجام فاسق لوگوں کا۔ لیکن ان کو قیامت کے عذاب کے آنے تک مہلت نہیں دے دی گئی۔ ان کو قیامت سے پہلے اس جہاں میں بھی عذاب کی دھمکی دی جاتی ہے۔

ولنذیقنھم من العذاب ۔۔۔۔۔ یرجعون (32: 21) ” اس بڑے عذاب سے پہلے ہم ایسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے ، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں۔

لیکن ان چھوٹے موٹے عذابوں کی تہہ میں بھی دراصل اللہ کی رحمت پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتے کہ اپنے بندوں کو بہرحال عذاب دیں۔ اگر وہ عذاب کے مستحق نہ ہوں۔ اگر وہ عذاب کے معصیات پر اصرار نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرا جھوٹا موٹا عذاب جو بندوں پر آتا رہتا ہے وہ بھی انہیں متنبہ کرنے کے لیے آتا ہے کہ شاید وہ لوٹ آئیں۔ ان کی فطرت جاگ اٹھے اور یہ عذاب انہیں راہ راست پر لے آئے۔ اور اگر وہ باز آجائیں تو وہ اس عذاب اکبر سے بچ جائیں جو ابھی ان کے سامنے گزشتہ منظر میں پیش کردیا گیا ہے۔ اگر ان کو رب تعالیٰ کی آیات کی یاد دہانی کی گئی اور انہوں نے ان سے اعراض کیا اور اس کی وجہ سے ان پر معمولی عذاب آگیا اور پھر انہوں نے عبرت حاصل نہ کی اور اپنی روش سے نہ لوٹے تو اب یہ ظالم ہیں۔

ومن اظلم ۔۔۔۔۔ اعرض عنھا (32: 22) ” اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے ہماری آیات سنائی گئیں اور پھر وہ اس دن ان سے منہ پھیرلے “۔ لہٰذا ایسے لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان سے انتقام لیا جائے۔

انا من المجرمین منتقمون (32: 22) ” ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے “۔ یہ ایک خوفناک تہدید ہے کہ اللہ جبار اور متکبر یہ دھمکی دے رہا ہے اور وہ اعلان کرتا ہے کہ ایسے مجرموں سے میں انتقام لوں گا۔ اللہ کے مقابلے میں یہ بیچارے ضعیف کر بھی کیا سکیں گے۔ واہ رے اللہ کا انتقام !۔ یہ سبق اب مجرمین اور صالحین ، مومنین اور فاسقین کے انجام پر ختم ہوتا ہے۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کا انجام مناظر قیامت کی شکل میں ہے۔ جس کے وقوع میں یہ لوگ شک کرتے تھے۔ اس کے بعد سیاق کلام میں ایک نظر حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کے حالات پر ڈالی جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ کو کتاب دی گئی تھی کہ بنی اسرائیل کے لیے کتاب ہدایت ہو جیسا کہ حضرت محمد ﷺ کو قرآن دیا گیا ہے کہ یہ مومنین کے لیے ہدایت ہو۔ صاحب قرآن اور صاحب تورات ایک ہی نظریہ حیات پر متفق ہیں اور جس طرح حضرت موسیٰ کے متبعین نے صبر و ثبات سے کام لیا اور ان کو ائمہ ہدایت بنایا گیا تھا اس طرح اگر حضرت محمد ﷺ کے ساتھی اگر صبر و ثبات سے کام لیں تو وہ بھی امامت کے مستحق ہوں گے امامت کی مستحق امت کی صفات کیا ہوتی ہیں۔

اردو ترجمہ

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اُن کے لیے تو جنتوں کی قیام گاہیں ہیں، ضیافت کے طور پر اُن کے اعمال کے بدلے میں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amma allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati falahum jannatu almawa nuzulan bima kanoo yaAAmaloona

اردو ترجمہ

اور جنہوں نے فسق اختیار کیا ہے اُن کا ٹھکانا دوزخ ہے جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اُسی آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma allatheena fasaqoo famawahumu alnnaru kullama aradoo an yakhrujoo minha oAAeedoo feeha waqeela lahum thooqoo AAathaba alnnari allathee kuntum bihi tukaththiboona
416