سورہ سجدہ: آیت 12 - ولو ترى إذ المجرمون ناكسو... - اردو

آیت 12 کی تفسیر, سورہ سجدہ

وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلْمُجْرِمُونَ نَاكِسُوا۟ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَٱرْجِعْنَا نَعْمَلْ صَٰلِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ

اردو ترجمہ

کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) "اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw tara ithi almujrimoona nakisoo ruoosihim AAinda rabbihim rabbana absarna wasamiAAna faarjiAAna naAAmal salihan inna mooqinoona

آیت 12 کی تفسیر

ولو تری اذ المجرمون ۔۔۔۔۔۔ بما کنتم تعلمون (12 – 14)

یہ ایک ایسا منظر ہے جس میں منکرین قیامت نہایت ہی شرمندگی کے ساتھ اعتراف کر رہے ہیں۔ اب وہ اس سچائی کو مان رہے ہیں جس کا وہ انکار کرتے تھے۔ وہ یہ درخواست کریں گے کہ ہمیں ایک بار پھر زمین پر لوٹا دیا جائے اور وہ اب کی بار اس کمی کو پورا کردیں گے جو پہلی بار ہوگئی۔ یہاں شرمندگی کی وجہ سے وہ سرنگوں کھڑے ہوں گے۔ اب یہ لوگ اپنے اس رب کے پاس (عند ربھم) ہوں گے جس کے پاس حاضر ہونے کا وہ انکار کرتے تھے۔ لیکن ان کی یہ سب باتیں بعد از وقت ہوں گی اور اب اعتراف اور اعلان ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا۔ قبل اس کے کہ ان کی اس شرمندگی پر کوئی تبصرہ کیا جائے ، یہ بتا دیا جاتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں فیصلہ کن قوت کون سی ہے اور وہ کون سی قوت ہے جو لوگوں کے آخری انجام کا فیصلہ کرنے والی ہے۔

ولو شئنا لاتینا ۔۔۔۔۔ والناس اجمعین (32: 13) ” اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا “۔ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی راہ پر ڈال دیتا۔ اور یہ تھا طریقہ ہدایت ، جس طرح اس مخلوقات کا طریقہ ایک ہے جو الہام فطرت کے مطابق زندگی بسر کرتی ہے اور وہ پوری زندگی ایک ہی طرح سے گزارتی ہے جیسے حشرات الارض پرندے اور زمین پر چلنے والے جانور یا وہ مخلوق جو اطاعت شعار ہے مثلاً فرشتے ، لیکن اللہ کی مشیت کا تقاضا یوں ہوا کہ انسانوں کا ایک خاص مزاج اور ماہیت ہو۔ اس کے اختیار میں ہو کہ وہ ہدایت اختیار کرے یا ضلالت اختیار کرے اور وہ اپنی اس مخصوص طبیعت کے ساتھ اس جہاں میں ایک مخصوص کردار ادا کرے جس کے لئے اللہ نے اسے اس کرہ ارض پر بھیجا ہے اور ایک منصوبے کے مطابق بھیجا ہے۔ چناچہ اس منصوبے کے تقاضے کے طور پر اللہ نے لکھ دیا کہ جنوں اور انسانوں سے وہ جہنم کو بھر دے گا ان لوگوں سے جو جنوں اور انسانوں میں سے ضلالت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ جس راہ کا انجام جہنم ہے۔ یہ لوگ جو اللہ کے سامنے قیامت کے دن پیش کیے گئے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اختیار اور خوشی سے جہنم کی راہ اختیار کی۔ اب وہ اللہ کے سامنے سرجھکائے شرمندہ کھڑے ہیں۔ چناچہ کہا جاتا ہے :

فذوقوا بما نسیتم لقآء یومکم ھذا (32: 14) ” اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا “۔ یہ ہے تمہارا دن جو حاضر کیونکہ اس منظر میں ہم اسے حاضر دیکھ رہے ہیں۔ تم نے چونکہ اس دن کو بھلا دیا تھا۔ اب اس کا مزہ چکھو۔ تمہارے پاس کافی وقت تھا مگر تم نے اس کے لئے تیاری نہ کی۔

ان نسینکم (32: 14) ” ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا ہے “۔ اللہ تو کسی کو نہیں بھلاتا۔ لیکن ان کے ساتھ معاملہ اس طرح کرتا ہے کہ گویا وہ نسیا منسیا کر دئیے گئے ہیں۔ یہ ایسا سلوک ہے جس میں انہیں توہین آمیز انداز میں نظر انداز کردیا گیا ہے۔

وذوقوا عذاب الخلد بما کنتم تعملون (32: 14) ” چکھو ، اب ہمیشگی کے عذاب کا مزہ اپنے کرتوتوں کی پاداش میں “۔ اب اس منظر پر پردہ گر جاتا ہے۔ فیصلہ کن بات کردی جاتی ہے اور مجرموں کو ان کے برے انجام میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ منظر قرآن کے پڑھنے والے کے پردہ فکر پر یوں نقش ہوتا ہے کہ گویا اب یہ لوگ وہاں اسی حال میں چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ تو وہ وہاں ہی کھڑے ہیں جہاں چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ یہ ہے قرآن کی اندر کی تصویر کشی۔

اب اس مشاہدہ و منظر پر پردہ گرتا ہے اور ایک دوسرا منظر سامنے آتا ہے ، اس دوسرے منظر کا ماحول اور فضا مختلف ہے۔ یہ ایک دوسری ہی عطر آمیز اور فرحت بخش فضا ہے جس میں دل اڑا جا رہا ہے ، یہ مومنین کا منظر ہے۔ وہ لوگ جو اللہ سے ڈرتے ہیں ، نہایت یکسوئی سے اس کی عبادت کرتے ہیں ، وہ اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اس حال میں کہ ان کے دل کے اندر خدا کا خوف بیٹھا ہے۔ ان کے دل کانپ رہے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے فضل و کرم کی امیدیں لیے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے رب ذوالجلال نے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جس کا کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔

آیت 12 وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُ وْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا اب ہم نے روزمحشر کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ اب حقیقت ہم پر منکشف ہوگئی ہے۔فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ نوٹ کیجیے یہاں پر کفار کے حوالے سے ایمان کا نہیں بلکہ یقین کا ذکر ہوا ہے جو ایمان سے آگے کا درجہ ہے۔ ان کے دلوں میں یقین کی یہ کیفیت آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کے بعد پیدا ہوگی۔

ناعاقبت اندیشو اب خمیازہ بھگتو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ گنہگار اپنا دوبارہ جینا خود اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور نہایت ذلت و حقارت کے ساتھ نادم ہو کر گردنیں جھکائے سر ڈالے اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے۔ اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہماری آنکھیں روشن ہوگئیں کان کھل گئے۔ اب ہم تیرے احکام کی بجا آوری کے لئے ہر طرح تیار ہیں اس دن خوب سوچ سمجھ والے دانا بینا ہوجائیں گے۔ سب اندھا و بہرا پن جاتا رہے گا خود اپنے تئیں ملامت کرنے لگیں گے اور جہنم میں جاتے ہوئے کہیں گے ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو ہم نیک اعمال کر آئیں ہمیں اب یقین ہوگیا ہے کہ تیری ملاقات سچ ہے تیرا کلام حق ہے۔ لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اگر دوبارہ بھی بھیجے جائیں تو یہی حرکت کریں گے۔ پھر سے اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے دوبارہ نبیوں کو ستائیں گے۔ جیسے کہ خود قرآن کریم کی آیت (وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27؀) 6۔ الانعام :27) میں ہے۔ اسی لئے یہاں فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے جیسے فرمان ہے۔ اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کا ایک ایک رہنے والا مومن بن جاتا۔ لیکن اللہ کا یہ فیصلہ صادر ہوچکا ہے کہ انسان اور جنات سے جہنم پر ہونا ہے۔ اللہ کی ذات اور اس کے پورپورے کلمات کا یہ اٹل امر ہے۔ ہم اس کے تمام عذابوں سے پناہ چاہتے ہیں۔ دوزخیوں سے بطور سرزنش کے کہا جائے گا کہ اس دن کی ملاقات کی فراموشی کا مزہ چکھو۔ اور اس کے جھٹلانے کا خمیازہ بھگتو۔ اسے محال سمجھ کر تم نے وہ معاملہ کیا کہ جو ہر ایک بھولنے والا کیا کرتا ہے۔ اب ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔ اللہ کی ذات حقیقی نسیان اور بھول سے پاک ہے۔ یہ تو صرف بدلے کے طور پر فرمایا گیا ہے۔ چناچہ اور روایت میں بھی ہے آیت (وَقِيْلَ الْيَوْمَ نَنْسٰـىكُمْ كَمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا وَمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 34؀) 45۔ الجاثية :34) آج ہم تمہیں بھول جاتے جیسے اور آیت میں ہے (لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا 24؀ۙ) 78۔ النبأ :24) وہاں ٹھنڈک اور پانی نہ رہے گا سوائے گرم پانی اور لہو پیپ کے اور کچھ نہ ہوگا۔

آیت 12 - سورہ سجدہ: (ولو ترى إذ المجرمون ناكسو رءوسهم عند ربهم ربنا أبصرنا وسمعنا فارجعنا نعمل صالحا إنا موقنون...) - اردو