سورہ صف: آیت 9 - هو الذي أرسل رسوله بالهدى... - اردو

آیت 9 کی تفسیر, سورہ صف

هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ

اردو ترجمہ

وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee arsala rasoolahu bialhuda wadeeni alhaqqi liyuthhirahu AAala alddeeni kullihi walaw kariha almushrikoona

آیت 9 کی تفسیر

ھوالذی .................... المشرکون (16 : 9) ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کہ پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو “۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ اسلامی نظام زندگی ہدایت ہے اور دین حق ہے۔ یہ ایک فیصلہ کن بات ہے اور اس پر کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا۔ اللہ کا ارادہ پورا ہوگیا اور یہ دین تمام ادیان پر غالب ہوگیا ہے۔ یہ دین اپنی ذات اور اپنی تشکیل کے لحاظ سے واحد دین ہے ، اس کے مقابل کا کوئی دین نہیں ہے۔ مثلاً دنیا کے بت پرستانہ ادیان کے اندر تو مقابلے کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ رہے کتابی دین تو یہ اسی سلسلے کا آخری اور مکمل دین ہے ، اور اللہ کے نظام کا یہ آخری ایڈیشن ہے۔ یہ اپنی مکمل اور اعلیٰ صورت میں ہے۔

سابقہ کتب سماوی کے اندر بیشمار تحریفات کردی گئی ہیں ، ان کی شکل بدل گئی ہے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ہیں اور ان میں وہ اضافے ہوگئے ہیں جو ان میں نہ تھے۔ ان کے اندر کانٹ چھانٹ کردی گئی ہے۔ پھر وہ اس حالت تک پہنچ گئی ہیں کہ وہ آج جدید دور کی زندگی کی کوئی رہنمائی نہیں کرسکتیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان کے اندر تحریف نہیں ہوئی تو بھی وہ سابقہ ایڈیشن ہیں جبکہ دین اسلام اللہ کے نظام کا آخری اور تازہ ترین نسخہ ہے جس کے اندر جدید ترقی یافتہ زندگی کے تمام مسائل حل کردیئے گئے ہیں۔ سابقہ ادیان اللہ کی اسکیم کے مطابق ایک محدود وقت کے لئے آئے تھے۔

اللہ کا یہ وعدہ نفس دین اور اس کی نوعیت اور اس کے احکام ومواد کے اعتبار سے تو پورا ہوا کہ دین اسلام کے مقابلے کا کوئی دین نہیں ہے لیکن یہ نظام عملی زندگی میں بھی ایک غالب نظام رہا ہے۔ ایک بار تو یہ دین غالب ہوکر رہا ہے۔ یہ اس کرہ ارض پر اس قدر غالب ہوا کہ تمام ادیان ، تمام اقوام تقریباً ایک سو سال تک اس کے زیر نگیں رہے۔ اس کے بعد بھی یہ دین وسط ایشیا اور وسط افریقہ میں سیلاب کی طرح پھیل گیا ۔ یہاں تک کہ ابتدائی جہادی جدوجہد کے ذریعہ اس کے اندر جس قدر لوگ داخل ہوئے اس کے بعد محض تبلیغی جدوجہد کے ذریعہ اپنی ذاتی قوت سے یہ دین پانچ گنا علاقے اور آبادی میں پھیل گیا۔ آج بھی یہ دین بغیر حکومتی قوتوں کے پھیل رہا ہے۔ حالانعہ یہودی اور صیہونی سازش نے اہل دین کے سیاسی نظام ، نظام خلافت کو ختم کردیا ہے۔ یہ نظام ان لوگوں نے ترکی میں اس ہیرو کے ہاتھوں ختم کرایا جسے اس مقصد کے لئے انہوں نے خودگھڑا تھا۔ اور باوجود اس کے کہ پورے عالم اسلام میں اس دین کے خلاف رات دن سازشیں ہورہی ہیں اور پورے عالم اسلام میں یہودیوں کے ہاتھوں ھنصب کردہ ” ہیرو “ عالم اسلام میں اٹھنے والی اسلامی تحریکات کچل رہے ہیں لیکن یہ اللہ کا چراغ ہے اور پھونکوں سے اسے بجھایا نہیں جاسکتا۔

غرض باوجود اپنوں اور غیروں کی سازشوں کے یہ دین انسانی ، تاریخ میں اب بھی اہم کردار سرانجام دے رہا ہے اور پہلے بھی اس نے ادا کیا ہے ۔ اور انسانی سازشیں اس کی راہ نہیں روک سکتیں۔ کیونکہ اللہ کے مقابلے میں انسان کی قوت کوئی قوت نہیں ہے۔ اگرچہ وہ بہت گہری چال چلیں کیونکہ اللہ بھی گہری چال چلتا ہے۔

یہ آیات اس وقت اہل ایمان کے حوصلے بڑھارہی تھیں جب قرآن کی ابتدائی سامعین یہود ونصاریٰ کی کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم غلبہ دین کی جدوجہد کررہے تھے اس وقت بھی دین کو اللہ غالب کررہا تھا ، مسلمان تو دست قدرت کے لئے ایک پردہ اور بہانہ تھے۔ اور آج بھی یہ آیات ان لوگوں کے لئے ایک حوصلہ پیدا کررہی ہیں جو غلبہ دین کا کام کررہے ہیں اور آئندہ بھی غلبہ دین کے لئے اٹھنے والی تحریکات کے لئے یہ آیات مشعل راہ ہوں گی اور وہ دن دور نہیں ہے کہ ایک بار پھر یہ دین غالب ہوکر رہے گا۔

اسلامی نظریہ حیات کے تسلسل کے بیان کے بعد ، اور اس وعدے کے بعد کہ اس دین کو غالب ہوکر رہنا ہے۔ اگرچہ کافر اس کے خلاف سازشیں کریں ، اب روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے۔ اس وقت کے مسلمانوں کو بھی خطاب ہے۔ اور اس کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی یہ خطاب ہے کہ مسلمانو ، اس دین کی رو سے ایک بہترین تجارت تمہیں بتائی جارہی ہے ، یہ تجارت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

یہاں سے اس سورت کے تیسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ آیت 9 میں حضور ﷺ کی بعثت کا ذکر ہوا ہے :آیت 9 { ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } ”وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول ﷺ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظام زندگی پر“ حضور ﷺ کے مقصد بعثت کے حوالے سے یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے اور اسی اہمیت کے باعث قرآن مجید میں اسے تین بار اس مقام کے علاوہ سورة التوبہ ‘ آیت 33 اور سورة الفتح ‘ آیت 28 کے طور پر دہرایا گیا ہے۔ تمام انبیاء و رسل - کے لیے قرآن مجید میں بشیر ‘ نذیر ‘ مذکر ‘ شاہد ‘ معلم وغیرہ الفاظ مشترک استعمال ہوئے ہیں ‘ لیکن اس آیت کا مضمون اور اسلوب صرف محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص ہے۔ الہدیٰ سے مراد یہاں وہ ہدایت نامہ قرآن ہے جو آپ ﷺ پر کامل ہوگیا ‘ جبکہ آپ سے پہلے تمام انبیاء کو اپنے اپنے دور میں جو میزان شریعت عطا ہوتی رہی تھی حضور ﷺ کی بعثت میں وہ کامل ہو کر ”دین الحق“ یعنی سچے اور عادلانہ نظام زندگی کی شکل اختیار کرگئی۔ چناچہ آپ ﷺ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے نظام عدل و قسط کو دنیا کے تمام نظاموں پر غالب کردیا جائے۔ یہ تھا حضور ﷺ کی بعثت کا مشن جسے تکمیل کے لیے آپ ﷺ ہمارے سپرد فرما گئے تھے۔ لیکن ہم نے تو اس مشن کو کبھی اپنایا ہی نہیں۔ ہمارا مشن تو یہ ہے کہ حلال و حرام طریقے سے جیسے بھی ہو ‘ دولت اکٹھی کرو ‘ پھر اسی دولت سے صدقہ و قربانی دو ‘ حج کرو اور رمضان میں ہر سال عمرے کے لیے چلے جایا کرو۔ ہمارا سارا زور rituals پر ہے اور دین اگر دنیا میں پامال ہے تو ہوتا رہے ‘ ہماری بلا سے ! تصور کریں ‘ اگر آج صرف ایک سال میں حج پر اکٹھے ہونے والے افراد ہی سروں پر کفن باندھ کر غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے میدان میں کود پڑیں تو دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ مگر افسوس ‘ صد افسوس ! ؎رہ گئی رسم اذاں روح بلالی رض نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی ! { وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔ } ”اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو !“ ظاہر ہے مشرکین کب چاہیں گے کہ دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو ‘ نظام توحید کا نفاذ ہو اور اللہ کی حکومت بالفعل قائم ہوجائے۔ یہاں پر مُشْرِکُوْنَ کا لفظ خاص طور پر لائق توجہ ہے۔ اس سے مراد صرف وہ مشرکین ہی نہیں ہیں جو بتوں اور دیوی دیوتائوں کو پوجتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور ان کی سفارش کردیں گے ‘ بلکہ سب سے بڑے مشرک تو وہ ہیں جو دنیا میں خدائی کے دعوے دار بنے بیٹھے ہیں ‘ جو نمرود اور فرعون کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور جن کا دعویٰ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ sovereignty کے مالک ہم ہیں۔ فرعون بھی تو یہی کہتا تھا : { اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہِ الْاَنْھٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْج } الزخرف : 51 کہ دیکھو ! کیا یہ مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ اور کیا یہ پورا نہری نظام میرے تابع نہیں ہے ؟ تو فرعون کے اس دعوے اور ”عوام کی حاکمیت“ کے نعرے میں کیا فرق رہ گیا ؟ صرف یہی نا کہ وہاں اقتدار کا دعویٰ کرنے والا ایک فرد تھا اور یہاں پوری قوم حاکمیت کی دعوے دار ہے۔ اب ظاہر ہے اگر اس ماحول میں آپ اللہ کی حاکمیت کا نعرہ لگائیں گے اور اللہ کے نظام عدل و قسط کے قیام کے مشن کو لے کر آگے بڑھنا چاہیں گے تو ”اپنی حاکمیت“ کے یہ دعوے دار خم ٹھونک کر آپ کے مقابلے میں آ کھڑے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اپنے موقف پر قائم رہیں گے تو ان سے آپ کا تصادم ناگزیر ہوجائے گا اور آپ کو مال و جان کی قربانی کی صورت میں اپنے اس موقف کی قیمت چکانا پڑے گی۔ چناچہ اب اگلی آیات میں اسی صورت ِحال کا ذکر کیا جا رہا ہے :

آیت 9 - سورہ صف: (هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون...) - اردو