سورہ صف (61): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ As-Saff کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الصف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ صف کے بارے میں معلومات

Surah As-Saff
سُورَةُ الصَّفِّ
صفحہ 552 (آیات 6 سے 14 تک)

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ يَٰبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ ٱلتَّوْرَىٰةِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُولٍ يَأْتِى مِنۢ بَعْدِى ٱسْمُهُۥٓ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَآءَهُم بِٱلْبَيِّنَٰتِ قَالُوا۟ هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰٓ إِلَى ٱلْإِسْلَٰمِ ۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ يُرِيدُونَ لِيُطْفِـُٔوا۟ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَٰهِهِمْ وَٱللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَٰفِرُونَ هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَٰرَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتُجَٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمْوَٰلِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ وَمَسَٰكِنَ طَيِّبَةً فِى جَنَّٰتِ عَدْنٍ ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ وَأُخْرَىٰ تُحِبُّونَهَا ۖ نَصْرٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُونُوٓا۟ أَنصَارَ ٱللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّۦنَ مَنْ أَنصَارِىٓ إِلَى ٱللَّهِ ۖ قَالَ ٱلْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ ٱللَّهِ ۖ فَـَٔامَنَت طَّآئِفَةٌ مِّنۢ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ وَكَفَرَت طَّآئِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا۟ ظَٰهِرِينَ
552

سورہ صف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ صف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور یاد کرو عیسیٰؑ ابن مریمؑ کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ "اے بنی اسرائیل، میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اُس توراۃ کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا مگر جب وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ تو صریح دھوکا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala AAeesa ibnu maryama ya banee israeela innee rasoolu Allahi ilaykum musaddiqan lima bayna yadayya mina alttawrati wamubashshiran birasoolin yatee min baAAdee ismuhu ahmadu falamma jaahum bialbayyinati qaloo hatha sihrun mubeenun

اس کے بعد عیسیٰ ابن مریم تشریف لائے اور انہوں نے بنی اسرائیل سے کہا :

یبنی اسراء یل .................... الیکم (16 : 6) ” اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں “۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں اللہ ہوں ، اور نہ یہ کہا میں اللہ کا بیٹا ہوں ، نہ یہ کہا کہ وہ اللہ کے اقانیم میں سے ایک اقنوم ہیں۔

مصدقالما .................... احمد (16 : 6) ” تصدیق کرنے والا اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے ، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا “۔ یوں صریح الفاظ میں رسالت کی تصویر پیش کی جاتی ہے کہ سلسلہ رسالت ایک ہی ہے اور ہر رسول کے بعد جو دوسرا رسول آتا ہے وہ سابقہ رسول کی رسالت کی تصدیق کرتا ہے۔ یوں میں ایک ہی رسالت کے حلقے زمین و آسمان کے درمیان اور زمین کی طویل تاریخ کے اوپر پھیلے ہوئے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یہی تصویر اللہ کے منہاج حق کے لائق ہے۔ یہ ایک ہی دین اور ایک ہی منہاج ہے۔ اور اس شکل و صورت مختلف لوگوں کے لئے مختلف رہی ہے کیونکہ انسان مختلف ادوار میں علم ، تجربات اور استعداد کے لحاظ سے مختلف رہا ، اس لئے شریعت کی شکل بھی مختلف رہی ہے ، لیکن نبی آخرالزمان ﷺ کو عقلی اعتبار سے ایک بالغ ہمت دی گئی ، اس لئے آپ کو ایک آخری اور مکمل شریعت دی گئی۔ ایک پختہ عقل امت کو مکمل شریعت دی گئی۔ اس دین نے انسانی عقل سے اپیل کی۔ اور عقل کے کام کے لئے ایک وسیع دائرہ عمل چھوڑ دیا تاکہ اس کے اندر وہ کام کرے ، لیکن پوری انسانیت کے لئے ایک دائرہ کار بہرحال متعین کردیا گیا تاکہ اس کے اندر وہ کام کرے اور اس دائرے کا تعین انسان کی قوت اور استعداد کو دیکھتے ہوئے خالق کائنات نے خود کیا۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے انجیل میں احمد کی پیشن گوئی موجود تھی۔ آج جو اناجیل رائج ہیں ان میں ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہوگی ہے کہ موجودہ اناجیل ، بعد کے ادوار میں لکھی گئی ہیں ، اور جن حالات میں لکھی گئی ہیں وہ بھی معلوم ہیں۔

قرآن کریم جب جزیرة العرب میں نازل ہوا اور یہودو نصاریٰ نے بھی پڑھا۔ جس میں تھا۔

النبی الامی ........................ وانانجیل ” نبی امی جسے وہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں “۔ تو ان میں سے بعض مخلص علماء نے اس کا اقرار بھی کیا جیسا کہ عبداللہ ابن سلام نے۔ اس لئے کہ یہ لوگ اس آیت کے چھپانے کا سخت اہتمام کرتے تھے۔

پھر تاریخی روایات متواتر ہیں کہ یہودی اس نبی آخرالزمان ﷺ کا انتظار کرتے تھے اور وہ یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ اس کا زمانہ قریب آگیا ہے ۔ اسی طرح نصاریٰ میں سے بعض اہل توحید جو جزیرة العرب میں ادھر ادھر بکھرے ہوئے موجود تھے ، انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ لیکن یہودی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ یہ نبی آخرالزمان ان میں سے ہوگا جب اللہ نے اسے حضرت ابراہیم کی اولاد کی دوسری شاخ بنی اسماعیل سے بھیج دیا ، انہوں نے اس کو بہت ناپسند کیا۔ اور اس کے ساتھ جنگ شروع کردی۔

بہرحال نص قرآنی بذات خود اس معاملے میں قطعی ہے۔ اور قرآن ہی ایک معتمد علیہ ذریعہ ہے ، جس کے اندر کوئی تحریف نہیں ہوتی ، جبکہ تورات اور انجیل کا حال تو سب کو معلوم ہے۔

چناچہ اکثر تفسیری اقوال کے مطابق درج ذیل آیات اس بارے میں ہیں کہ یہود ونصاریٰ نے اس پیغمبر کا استقبال کس طرح کیا جس کی بشارت سے خود ان کی کتابوں میں دی گئی تھی۔ ان آیات میں ان کے رویے کی سخت مذمت کی گئی ، کہ انہوں نے اس دین کا استقبال کرنے کے بجائے ، اس کے خلاف سازشیں شروع کردیں حالانکہ اللہ کا فیصلہ یہی ہے کہ یہ دین تمام ادیان پر غالب ہوگا اور یہی آخری دین ہے۔

فلما جاء ھم ........................ المشرکون (9) (16 : 6 تا 9) ” مگر جب وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ تو صریح دھوکا ہے۔ اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے ، حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سراطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جارہی ہو ؟ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں ، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو “۔

بنی اسرائیل اس دین جدید کے مقابلے میں صف آرا ہوگئے۔ دشمنی ، سازشیں اور گمراہ کن پروپیگنڈا شروع کردیا اور ہر قسم کے اوچھے ہتھیار اس کے مقابلے میں لے کر آگئے اور اس دین کے خلاف انہوں نے جو جنگ شروع کی وہ آج تک ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے سب سے پہلے اس پر یہ الزام لگایا۔

فلما جاء ھم ................ مبین (16 : 6) ” جب وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ تو صریح جادو ہے۔ “ جس طرح ان لوگوں نے کہا جو کتابوں کو نہ جانتے تھے ، نہ بشارتوں کو جانتے تھے۔ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کا رویہ ایک ہی جیسا رہا۔ بلکہ اہل کتاب اسلامی محاذ کے اندر بھی سازشیں شروع کردیں۔ مہاجرین اور انصار کو لڑانے کی کوشش کی۔ اور انصار کے دو قبائل اوس اور خزرج کو لڑانے کی کوشش کی۔ کبھی انہوں نے مشرکین مکہ سے ایکا کرکے اس نئے دین کے خلاف جنگ کی اور کبھی انہوں نے منافقین مدینہ کے ساتھ اتحاد کے اس کے خلاف لڑنے کی سعی کی۔ اور انہوں نے مدینہ اور عالم اسلام پر ہر حملہ آور کی مدد کی۔ مثلاً غزوہ احزاب میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے جھوٹے الزامات لگا کر بھی اس میں حصہ لیا۔ جبکہ افک کے واقعہ کو انہوں نے عبداللہ ابن ابی ابن سلول کے ذریعہ خوب اچھالا اور فتنہ عثمان میں بھی انہوں نے عبداللہ ابن سبا کے ذریعہ کام کیا۔ پھر سیرت کی کتابوں میں انہوں نے منظم سازش کے ذریعہ اسرائیلیات کو داخل کیا۔ جب وہ قرآن کے اندر جعلی آیات داخل ہونے سے عاجز ہوگئے تو انہوں نے تفسیر ، سیرت اور احادیث کے اندر وضعی احادیث داخل کرنے کی سعی تھی۔

یہ جنگ اسلام کے خلاف ، آج تک ختم نہیں ہوئی۔ آج تک عالمی یہودیت ، عالمی عیسائیت اور صیہونیت اسلام کے خلاف رات دن سازشوں میں مصروف ہے۔ یہ ہر طرف سے اسلام پر حملہ آور ہورہے ہیں اور لوگوں کو بھی اسلام کے خلاف جنگ پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس جنگ میں چودہ سو سال سے نہ جنگ بندی ہوئی ، نہ صلح ہوئی ہے ، کسی دور میں بھی نہیں۔ مشرق میں جاکر انہوں نے صلیبی جنگیں لڑیں۔ مغرب میں اندلس میں انہوں نے مسلمانوں کا نام ونشان مٹا دیا۔ اور شرق اوسط میں انہوں نے ہمیشہ اسلامی خلافت کے خلاف جنگ کی۔ یہاں تک کہ ترکی کی خلافت کو انہوں نے تباہ کیا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد بھی ان کی یہ جنگ ختم نہ ہوئی اور انہوں نے جعلی ” ہیرو “ اسلام اور عالم اسلام کے لئے پیدا کیے اور ان کے ذریعہ انہوں نے اسلام کے خلاف اپنی انتقامی پیاس کو بجھایا۔ جب انہوں نے اسلام کی آخری نشانی خلافت اسلامیہ ترکیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہا تو انہوں نے ترکی میں ایک عظیم ہیرو پیدا کیا اور اس کے اندر اس قدر ہوا بھری کہ وہ بہت بڑا زھیم بن گیا۔ اس کے بعد اس کے مقابلے میں اتحادیوں کی فوجوں نے پسپائی اختیار کی ، جنہوں نے آستانہ کو فتح کرلیا تھا تاکہ اس شخص کو بہت بڑا فاتح بنا کر پیش کیا جاسکے۔ ایک ایسا فاتح جو خلافت اسلامیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرسکے۔ اس نے ترکی کو عالم اسلام سے جدا کیا۔ اس نے اعلان کیا کہ ترکی لادینی ریاست ہے۔ اس کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب بھی یہودی اسلام پر ضرب لگانا چاہیں وہ عالم اسلام کے لئے اس قسم کے لیڈر پیدا کرتے ہیں۔ جب بھی وہ صحیح اسلامی تحریکات پر ضرب لگاتے ہیں ، وہ مسلمان ممالک میں اس قسم کے لیڈر پیدا کرتے ہیں ان کے ذریعہ یہ ان ممالک میں اسلامی حمیت اور اسلامی عصبیت کے علاوہ ہر عصبیت پیدا کرتے ہیں ، اسلامی جھنڈوں کے علاوہ ہر جھنڈا بلند کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اب بھلا اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جا رہی ہو؟ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman athlamu mimmani iftara AAala Allahi alkathiba wahuwa yudAAa ila alislami waAllahu la yahdee alqawma alththalimeena

اردو ترجمہ

یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yureedoona liyutfioo noora Allahi biafwahihim waAllahu mutimmu noorihi walaw kariha alkafiroona

یریدون ................ الکفرون (16 : 8) ” یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں ، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو “۔ قرآن کی یہ آیت اس عظیم حقیقت کا اظہار کررہی ہے۔ اور اس حقیقت کو ایک ایسی تصویر انداز میں پیش کیا گیا جس سے انسانکو ان لوگوں کی حالت پر بےاختیار ہنسی آتی ہے وہ اپنے منہ سے یہ الزام لگاتے تھے کہ یہ کھلاجادو ہے ، اور اس کے خلاف یہ سازشیں کرتے تھے اور خفیہ منصوبے بنا کر اسے ختم کرنا چاہتے تھے اور اس جدید دین کا قصہ ہی تمام کرنا چاہتے تھے ، اس لئے اللہ نے ان کے منصوبوں کے مقابلے میں ان کی یہ مایوس کن تصویر کھینچی کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں۔ اللہ کا نور اور یہ ضعیف اور حقیر ! !

واللہ .................... الکفرون (16 : 8) ؟ ؟ اور اللہ اپنے نور کو پوری طرح پھیلا کررہے گا ، اگر یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے “۔ اللہ کا وعدہ سچا ہوا۔ اللہ نے نبی ﷺ کی زندگی میں اپنے نور کو پوری طرح پھیلادیا۔ اس نے ایک اسلامی جماعت ، نہایت ہی زندہ وتابندہ اسلامی جماعت کھڑی کردی۔ اور اسے اسلامی نظام زندگی نہایت ہی واضح نشانات کے ساتھ دیا۔ اور اس کے حدود اور قیود متعین کیے۔ نسلوں تک یہ نظریہ لوگوں کی عملی زندگی میں زندہ اور متحرک رہا ، صرف کتابوں میں نہیں ، اللہ نے اسے عالم واقعہ میں غالب کیا۔ اللہ پاک نے اس نور کو مکمل کیا ، مسلمانوں کا دین مکمل ہوا ، مسلمانوں پر اپنی نعمتوں کو تمام کیا۔ اور ان کے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔ ان کے لئے اس دین کو محبوب بنادیا ، وہ اس کے لئے لڑتے رہے ، حالت یوں ہوگئی کہ اگر کسی مسلمان کو آگ میں ڈال دیاجائے تو وہ اسے پسند کرے گا مگر کفر کی طرف لوٹنا پسند نہ کرتا تھا۔ چناچہ دین کی صورت لوگوں کے دلوں میں مکمل ہوگئی۔ اور آپ کے بعد بھی یہ صورت حال کبھی کبھی پیدا ہوتی رہی ہے اور قائم رہی ہے۔ باوجود کہ اس کے کہ ہر طرف سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں ، حملے اور پکڑ دھکڑ شروع ہے۔ باوجود ہر طرف کے حملوں کے اسلام ہر کربلا کے بعد زندہ ہوتا ہے اس لئے کہ اسلام اللہ کا نور ہے اور اللہ کے نور کو انسانی کوششیں ختم نہیں کرسکتیں۔ نہ آگ اور لوہا اس کو ختم کرسکتا ہے۔ اگرچہ عالم اسلام کے مصنوعی لیڈر جو یہودیہوں اور نصرانیوں کے خود ساختہ لیڈر ہیں۔ بعض اوقات یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسلام کو ختم کردیا ہے اور اس کا نور بجھا دیا ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ نور خدا پھیل جائے اور دین غالب ہو۔

اردو ترجمہ

وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee arsala rasoolahu bialhuda wadeeni alhaqqi liyuthhirahu AAala alddeeni kullihi walaw kariha almushrikoona

ھوالذی .................... المشرکون (16 : 9) ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کہ پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو “۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ اسلامی نظام زندگی ہدایت ہے اور دین حق ہے۔ یہ ایک فیصلہ کن بات ہے اور اس پر کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا۔ اللہ کا ارادہ پورا ہوگیا اور یہ دین تمام ادیان پر غالب ہوگیا ہے۔ یہ دین اپنی ذات اور اپنی تشکیل کے لحاظ سے واحد دین ہے ، اس کے مقابل کا کوئی دین نہیں ہے۔ مثلاً دنیا کے بت پرستانہ ادیان کے اندر تو مقابلے کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ رہے کتابی دین تو یہ اسی سلسلے کا آخری اور مکمل دین ہے ، اور اللہ کے نظام کا یہ آخری ایڈیشن ہے۔ یہ اپنی مکمل اور اعلیٰ صورت میں ہے۔

سابقہ کتب سماوی کے اندر بیشمار تحریفات کردی گئی ہیں ، ان کی شکل بدل گئی ہے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ہیں اور ان میں وہ اضافے ہوگئے ہیں جو ان میں نہ تھے۔ ان کے اندر کانٹ چھانٹ کردی گئی ہے۔ پھر وہ اس حالت تک پہنچ گئی ہیں کہ وہ آج جدید دور کی زندگی کی کوئی رہنمائی نہیں کرسکتیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان کے اندر تحریف نہیں ہوئی تو بھی وہ سابقہ ایڈیشن ہیں جبکہ دین اسلام اللہ کے نظام کا آخری اور تازہ ترین نسخہ ہے جس کے اندر جدید ترقی یافتہ زندگی کے تمام مسائل حل کردیئے گئے ہیں۔ سابقہ ادیان اللہ کی اسکیم کے مطابق ایک محدود وقت کے لئے آئے تھے۔

اللہ کا یہ وعدہ نفس دین اور اس کی نوعیت اور اس کے احکام ومواد کے اعتبار سے تو پورا ہوا کہ دین اسلام کے مقابلے کا کوئی دین نہیں ہے لیکن یہ نظام عملی زندگی میں بھی ایک غالب نظام رہا ہے۔ ایک بار تو یہ دین غالب ہوکر رہا ہے۔ یہ اس کرہ ارض پر اس قدر غالب ہوا کہ تمام ادیان ، تمام اقوام تقریباً ایک سو سال تک اس کے زیر نگیں رہے۔ اس کے بعد بھی یہ دین وسط ایشیا اور وسط افریقہ میں سیلاب کی طرح پھیل گیا ۔ یہاں تک کہ ابتدائی جہادی جدوجہد کے ذریعہ اس کے اندر جس قدر لوگ داخل ہوئے اس کے بعد محض تبلیغی جدوجہد کے ذریعہ اپنی ذاتی قوت سے یہ دین پانچ گنا علاقے اور آبادی میں پھیل گیا۔ آج بھی یہ دین بغیر حکومتی قوتوں کے پھیل رہا ہے۔ حالانعہ یہودی اور صیہونی سازش نے اہل دین کے سیاسی نظام ، نظام خلافت کو ختم کردیا ہے۔ یہ نظام ان لوگوں نے ترکی میں اس ہیرو کے ہاتھوں ختم کرایا جسے اس مقصد کے لئے انہوں نے خودگھڑا تھا۔ اور باوجود اس کے کہ پورے عالم اسلام میں اس دین کے خلاف رات دن سازشیں ہورہی ہیں اور پورے عالم اسلام میں یہودیوں کے ہاتھوں ھنصب کردہ ” ہیرو “ عالم اسلام میں اٹھنے والی اسلامی تحریکات کچل رہے ہیں لیکن یہ اللہ کا چراغ ہے اور پھونکوں سے اسے بجھایا نہیں جاسکتا۔

غرض باوجود اپنوں اور غیروں کی سازشوں کے یہ دین انسانی ، تاریخ میں اب بھی اہم کردار سرانجام دے رہا ہے اور پہلے بھی اس نے ادا کیا ہے ۔ اور انسانی سازشیں اس کی راہ نہیں روک سکتیں۔ کیونکہ اللہ کے مقابلے میں انسان کی قوت کوئی قوت نہیں ہے۔ اگرچہ وہ بہت گہری چال چلیں کیونکہ اللہ بھی گہری چال چلتا ہے۔

یہ آیات اس وقت اہل ایمان کے حوصلے بڑھارہی تھیں جب قرآن کی ابتدائی سامعین یہود ونصاریٰ کی کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم غلبہ دین کی جدوجہد کررہے تھے اس وقت بھی دین کو اللہ غالب کررہا تھا ، مسلمان تو دست قدرت کے لئے ایک پردہ اور بہانہ تھے۔ اور آج بھی یہ آیات ان لوگوں کے لئے ایک حوصلہ پیدا کررہی ہیں جو غلبہ دین کا کام کررہے ہیں اور آئندہ بھی غلبہ دین کے لئے اٹھنے والی تحریکات کے لئے یہ آیات مشعل راہ ہوں گی اور وہ دن دور نہیں ہے کہ ایک بار پھر یہ دین غالب ہوکر رہے گا۔

اسلامی نظریہ حیات کے تسلسل کے بیان کے بعد ، اور اس وعدے کے بعد کہ اس دین کو غالب ہوکر رہنا ہے۔ اگرچہ کافر اس کے خلاف سازشیں کریں ، اب روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے۔ اس وقت کے مسلمانوں کو بھی خطاب ہے۔ اور اس کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی یہ خطاب ہے کہ مسلمانو ، اس دین کی رو سے ایک بہترین تجارت تمہیں بتائی جارہی ہے ، یہ تجارت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo hal adullukum AAala tijaratin tunjeekum min AAathabin aleemin

یا یھا الذین ................................ المﺅمنین (31) (61 : 01 تا 31)

” اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، میں بتاﺅں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچادے ؟ ایمان لاﺅ اللہ اور اس کے رسول پر ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا ، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو ، وہ بھی تمہیں دے گا ، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبی اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو “۔

ذرا انداز تعبیر پر غور فرمائیں۔ بعض چیزوں کو باہم ملایا گیا ، بعض کو اپنی جگہ سے دور رکھا گیا ہے ۔ استفہام اور جواب استفہام کے درمیان ایک فاصلہ رکھا گیا ہے۔ بعض چیزوں کو مقدم کیا گیا ہے اور بعض کو موخر کردیا گیا ہے ، ان سب امور کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ پکار اور یہ آواز اچھی طرح لوگوں کے دلوں کے اندر اتر جائے اور اسالیب تعبیر کے تمام ذرائع استعمال کرکے بات کو دلوں تک بلکہ دلوں کی تہوں تک اتارا جائے۔

دیکھئے پکار کا آغاز۔

یایھا الذین امنوا (16 : 01) سے ہے ، اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اور اس کے بعد اللہ ان سے پوچھتا ہے کہبتاﺅں تمہیں ایسی تجارت ؟ اس سے سامعین کے دلوں میں بھر پور شوق پیدا کیا جاتا ہے۔

ھل ادلکم ........................ عذاب الیم (16 : 01) ” میں بتاﺅں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچادے ؟ “

اب کون ہے جو اس قسم کی تجارت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے بےتاب نہ ہوگا۔ لیکن یہاں آیت ختم ہوجاتی ہے اور درمیان میں فصل آجاتی ہے۔ استفہام اور جواب استفہام کے درمیان آیت ختم ہوکر وقف آجاتا ہے اور سامع کے دل میں اگلی آیت سننے کے لئے بےتابی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد جواب آتا ہے جبکہ سامعین بےتاب تھے۔

اردو ترجمہ

ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tuminoona biAllahi warasoolihi watujahidoona fee sabeeli Allahi biamwalikum waanfusikum thalikum khayrun lakum in kuntum taAAlamoona

تومنون ................ ورسولہ (16 : 11) ” ایمان لاﺅ اللہ اور اس کے رسول پر “۔ وہ تو اللہ اور رسول پر ایمان لاچکے تھے۔ اور وہ جب جواب سنتے ہیں تو ان کے دل روشن ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ جواب شرط تو پہلے سے ان کے اندر موجود ہے۔

وتجاھدون ........................ وانفسکم (16 : 11) ” اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے “۔ اور یہی اس صورت کا مضمون اور محور ہے۔ اس انداز میں یہ آتارہا ہے ، بار بار تکرار کے ساتھ ، اس طرح اسے مضمون کے اندر بار بار دہرایا جاتا ہے۔ یہ اس لئے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ انسان کو تربیت دینے کے لئے بار بار کی یاددہانی کی ضرورت ہے۔ مختلف انواع و دلائل اور مختلف قسم کی تائید وتاکید کے ساتھ تاکہ اس قدر پر مشقت فرائض کی ادائیگی کے لئے نفس انسانی تیار ہوجائے۔ کیونکہ اس قسم کے پر مشقت فرائض کی ادائیگی کے بغیر نہ اسلامی منہاج یہاں زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اس کو بچایا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد اس تجارت پر مزید تبصرہ کیا جاتا ہے اور اس تجارت کی تعریف وتحسین کی جاتی ہے۔

ذلکم .................... تعلمون (16 : 11) ” یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو “۔ اس لئے کہ انسان کسی بھلائی کی طرف تب ہی لپکتا ہے جب اسے علم ہو کہ بھلائی یہ ہے۔ اس کے بعد اگلی آیات میں اس بھلائی اور تجارت کی مزید تفصیلات دی جاتی ہیں۔ کیونکہ اجمال کے بعد تفصیلات کا اثر بہت ہوتا ہے۔ اس طرح بات احساس میں مسقلا بیٹھ جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا یہ ہے بڑی کامیابی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaghfir lakum thunoobakum wayudkhilkum jannatin tajree min tahtiha alanharu wamasakina tayyibatan fee jannati AAadnin thalika alfawzu alAAatheemu

یغفرلکم ذونوبکم (16 : 21) ” اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا “۔ اس تجارت اور بھلائی کی یہ ایک بات ہی کافی ہے۔ اگر اس کے بعد کوئی اور کیا چاہے گا کہ اس کے گناہ معاف ہوجائیں یا اپنے لئے اور کیا ذخیرہ کرے گا۔ لیکن اللہ کے فضل وکرم کی حدود نہیں ہوتیں اس لئے۔

ویدخلکم فی جنت ” اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا “۔ اس سے بڑی تجارت اور کیا ہے کہ ایک مجاہد اپنی اس مختصر زندگی میں جہاد کرے ، وہ اپنی جان دے دے اور اس کے عوض اسے یہ باغات اور ابدی زندگی ملے اور بہترین مکانات اور نعیم مقیم میں رہے۔ اور یہ عظیم حقیقت ہے کہ یہی بڑی کامیابی ہے۔

ذلک الفوز العظیم (16 : 21) ” یہ ہے عظیم کامرانی “ یہاں آکر اس نہایت ہی نفع بخش تجارت کا سودا ختم ہوگیا۔ فی الواقعہ یہ تو بہت بڑا نفع ہے۔ کہ ایک مومن مختصر دنیا دے کر ابدی آخرت لے لے۔ اگر کوئی ایک روپے کی تجارت کرکے دس کمالے تو بازار میں اس کا چرچا ہوجاتا ہے ، لیکن اس شخص کا حال کیا ہوگا کہ وہ اس دنیا کی محدود زندگی میں جہاد کرے اور دنیا کا محدود متاع دے دے اور آخرت کا لامحدود زمانہ مزے کرے اور آخرت کا متاع وعیش حاصل کرے ، جو لا محدود اور لا مقلوع ہے۔

یہ سودا حضرت محمد ﷺ اور حضرت عبداللہ ابن رواحہ ؓ کے درمیان ہوا تھا۔ یہ عقبہ کی رات کو ہوا تھا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ آپ ﷺ اپنے لئے جو چاہیں ، شرائط رکھ لیں۔ تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ رب کے لئے میں یہ شرائط عائد کرتا ہوں کہ تم اس کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور اپنے لئے میں یہ شرط عائد کرتا ہوں کہ تم میرا دفاع اس طرح کرو گے جس طرح تم اپنے مال اور جان کا دفاع کرتے ہو “۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہمیں کیا ملے گا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :

(الجنة) تو انہوں نے کہا اس سودے میں بہت بڑا فائدہ ہوگیا ہمیں ، نہ ہم اس سودے کو منسوخ کرتے ہیں اور نہ فریق دوئم کی درخواست اس سلسلے میں مانتے ہیں۔

لیکن اللہ کا فضل تو بہت عظیم ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ انسانی نفوس اس جہاں میں بھی کچھ چاہتے ہیں۔ انسان کی محدود ساخت چاہتی ہے کہ اس جہاں میں بھی کچھ مزا ملے تو اللہ عتالیٰ ان کو خوشخبری دیتا ہے کہ اس جہاں میں بھی تمہیں فتح مبین اور غلبہ دین حاصل ہوگا۔ اور اسلامی نظام زندگی قائم ہوکر رہے گا۔ اور تمہاری نسل کے اندر ہوکر رہے گا۔

اردو ترجمہ

اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح اے نبیؐ، اہل ایمان کو اِس کی بشارت دے دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waokhra tuhibboonaha nasrun mina Allahi wafathun qarreebun wabashshiri almumineena

واخری ........................ المومنین (16 : 31) ” اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو ، وہ بھی تمہیں دے گا ، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبی اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو “۔

یہ سواد یہاں شرح منافع کی انتہاﺅں کو چھو لیتا ہے۔ اور یہ منافع اللہ ہی دے سکتا ہے۔ وہ اللہ جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے ، وہ اللہ جس کی رحمت کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ رحمتیں کیا ہیں ، مغفرت گناہ ، باغات ، بہترین مکانات ، جن کے اندر نہ ختم ہونے والی نعمتیں ہوں گی اور اس سودے کا منافع صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ ان کی ایک قسط یہاں دنیا میں بھی دے جائے گی۔ اللہ کی نصرت اور غلبہ دین اور فتح مبین۔ کون ہے جو ایسی تجارت نہ کرے گا یا اس میں تامل کرے گا۔ یا اس سے پہلو تہی کرے گا۔

اس ترغیب اور تلقین کے بعد نفس انسانی کے تصور کا منظر آتا ہے۔ یہ تصور انسان کے لئے بہت اہم ہے۔ جو شخص اس کائنات اور اس کے اندر اس زندگی کا ایمانی تصور رکھتا ہو ، اور وہ اپنے دل میں یہ تصور رکھتے ہوئے زندگی بسر کررہا وہ ، اس تصور کے وسیع آفاق اور حدود بھی رکھتا ہو ، اس کے بعد یہ شخص اگر ایسی زندگی کے بارے میں سوچے جو ایمان سے خالی ہے۔ جو نہایت ہی محدود تنگ اور چھوٹی زندگی ہے ، جس کی سطح بہت گری ہوئی ہے۔ جس کی اہم ترین باتیں نہایت ہی حقیر ہیں۔ تو اس قسم کا دل جس نے ایمانی کی یہ وسعتیں دیکھی ہوئی ہیں وہ اس قدر محدود اور حقیر زندگی میں ایک منٹ کے لئے بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک منٹ بھی اس جہاد اور جدوجہد میں شرکت سے تاخیر نہ کرے گا ، جس کا مقصد اس طرح کی وسعت والی زندگی کو اس کرہ ارض پر قائم کرنا ہے ، تاکہ اس میں وہ بھی زندہ رہے ، اور لوگ بھی زندہ رہیں۔ اور پھر صورت یہ ہے کہ وہ اس جہاد اور جدوجہد پر کئی اجر بھی طلب نہ کرتا ہو۔ کیونکہ یہ زندگی اور یہ نظام بذات خود ہی ایک مقصد اور اجر ہے۔ یہ نظر یہ جہاد جو دل کو خوشی اور فرحت سے بھر دیتا ہے ، اسے کون ترک کرسکتا ہے اور اس کے سوا کون زندہ رہ سکتا ہے۔ ایسا شخص دوڑ کر اس جہاد میں کود پڑتا ہے۔ آتش نمرود ہو تو بھی کود پڑتا ہے ، جو بھی نتیجہ ہو ، کود پڑتا ہے۔

لیکن دیکھئے اللہ کو معلوم ہے کہ نفس انسانی بہت ضعیف ہے ، کسی وقت بھی اس کے جوش و خروش میں کمی آسکتی ہے۔ اور یہ کہ جہاد میں تیزی کسی بھی وقت کند ہوسکتی ہے اور امن کو شی اور سلاست پسندی انسان کو کبھی گری ہوئی زندگی گزارنے پر آمادہ کرسکتی ہے۔ اس لئے قرآن کریم ایک ہی اسلوب پر بات کرکے ختم نہیں کردیتا۔ وہ نفس انسانی کو تیار کرنے کے لئے ہر پہلو سے سعی کرتا ہے۔ ہر قسم کے موثرات ، دلائل ، شواہد اور مثالیں دیتا ہے۔ بار بار پکارتا ہے اور انسان کو صرف ایمان اور افراد کے حوالے نہیں کردیتا ، نہ ہی صرف ایک بار حکم دے دیتا ہے جس طرح ایک سرکاری افسر سرکلرجاری کردیتا ہے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریمؑ نے حواریوں کو خطاب کر کے کہا تھا: "کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار؟" اور حواریوں نے جواب دیا تھا: "ہم ہیں اللہ کے مددگار" اُس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo koonoo ansara Allahi kama qala AAeesa ibnu maryama lilhawariyyeena man ansaree ila Allahi qala alhawariyyoona nahnu ansaru Allahi faamanat taifatun min banee israeela wakafarat taifatun faayyadna allatheena amanoo AAala AAaduwwihim faasbahoo thahireena

چناچہ سورت کا خاتمہ ایک نئی پکار سے ہوتا ہے ۔ اس پکار کا نیارنگ ہے ۔ ایک جدید دلیل ، ایک موثر مثال اور ایک نئے پہلو سے آمادگی اور اکسانا۔

یایھا الذین ................................ ظھرین (16 : 41) ” لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ کی مددگار بنو ، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا :” کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار ؟ “ اور حواریوں نے جواب دیا تھا : ” ہم ہیں اللہ کے مددگار “۔ اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہوکر رہے “۔

حواری کون تھے ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے شاگرد۔ یہ تعداد میں 21 تھے۔ یہ ہر وقت آپ کے ساتھ ہوتے تھے اور آپ سے تعلیمات لیتے تھے۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے آپ کے اٹھائے جانے کے بعد آپ کی وصیتوں اور آپ کی تعلیمات کو پھیلایا۔

آیت کا مقصد ان کے حالات زندگی بیان کرنا نہیں ہے بلکہ انہوں نے دعوت کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا ، اسے پیش کرنا ہے ، لہٰذا ہم بھی یہاں اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔

یایھا الذین ........................ انصار اللہ (15 : 41) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ کی مددگار بنو “۔ کس قدر بلند مقام تک اللہ نے اپنے مجاہد بندوں کو لے جاتا ہے۔ انسان کے لئے اس سے بڑا مقام اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ کا معاون ہوجائے۔ اس صفت میں اتنی بڑی عزت افزائی ہے جو جنت اور اس کی نعمتوں سے بھی بڑی ہے۔ اللہ کے انصار بن جاﺅ!

کما قال ............................ انصار اللہ (16 : 41) ” جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا :” کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار ؟ “ اور حواریوں نے جوا دیا تھا :” ہم ہیں اللہ کے مددگار “۔ تو انہوں نے جواب آپ کو اس کام کے لئے وقف کردیا اور یہ مقام عزت پایا۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے فرائض منصبی میں یہ بات شامل تھی کہ آپ نبی آخرالزماں ﷺ کے بارے میں بشارت دیں اور دین آخیر کے بارے میں خوشخبری دیں۔ لہٰذا حضرت محمد ﷺ کے متبعین اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اس کام کے لئے آگے بڑھیں۔ جس طرح حواریوں نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ یہی اس حوالے میں آمادہ کرنے اور اکسانے والی بات ہے۔ اور پھر کیا ہوا انجام ؟

فامنت طائفة ........................ ظھرین (16 : 41) ” اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہوکر رہے “۔ اس آیت کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ حضرت مسیح کی نفس رسالت پر ایمان لائے تھے۔ یعنی مسیحی چاہے ان کے عقائد درست ہوں یا بعد میں مشرک ہوگئے ہوں اور ان کے عقائد میں شدید انحرافات آگئے ہوں ، ان کو اللہ نے ان لوگوں پر غالب کردیا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی راسلت ہی کو نہ مانتے تھے۔ یعنی یہودیوں پر جس طرح تاریخ شاہد ہے اور دوسرے معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ وہ لوگ جو ان کی رسالت پر ایمان لائے اور عقیدہ توحید اور بشریت رسول پر بھی قائم رہے تو اللہ نے ان اہل توحید کی حجت اور برہان کے لحاظ سے تائید کی بمقابلہ ان لوگوں کے جو مشرک ہوگئے اور جنہوں نے حضرت مسیح کہ الٰہ مانا ، ان کی والدہ کو الٰہیہ مانا یا روح القدس کو الٰہ مانا ، اور پھر ان اہل توحید کی تائید دین اسلام کے عقیدہ توحید سے بھی ہوئی اور دین مسیح ، دین اسلام کی شکل میں غالب ہوگیا ، تو یہ دوسری تفسیر زیادہ مناسب ہے۔

اس اشارہ اور اس واقعہ سے مراد عبرت یہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی۔ یہ کہ مومنین کو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار کرنا جو اس سورت کا محور ہے۔ کیونکہ مومنین ہی اللہ کے دین کے قیام کے ذمہ دار ہیں۔ یہی وارث ہیں رسالت آخرہ کے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اس عظیم مقصد کے لئے نکالا گیا ہے۔ ان کو چاہئے کہ وہ انہیں اور اپنا فریضہ حیات پورا کریں۔” جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے خطاسب کرتے ہوئے کہا تھا : کون ہے اللہ کی طرف بلانے میں میرا مددگار۔ اور حواریوں نے جواب دیا تھا : ” ہم ہیں اللہ کے مددگار “۔ اور آخرت کی نصرت اور فتح انہی لوگوں کی ہوتی ہے جو اللہ کے مددگار اور اس کے دین کے خادم ہوتے ہیں۔

یہ اس سورت کی آخری پکار ہے۔ آخری چٹکی اور آخری اکساہٹ ہے۔ اس کا اپنا رنگ اور الگ ذائقہ ہے۔ اور یہ مثال اس سورت کے مضمون کے ساتھ نہایت ہی مناسب ہے۔ ایک تاریخی مثال اور تاریخی رنگ۔

552