سورہ روم: آیت 38 - فآت ذا القربى حقه والمسكين... - اردو

آیت 38 کی تفسیر, سورہ روم

فَـَٔاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِ ۖ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ

اردو ترجمہ

پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق) یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faati tha alqurba haqqahu waalmiskeena waibna alssabeeli thalika khayrun lillatheena yureedoona wajha Allahi waolaika humu almuflihoona

آیت 38 کی تفسیر

فات ذا القربی ۔۔۔۔۔ ھم المضعفون (38 – 39)

جب تصور یہ ہے کہ تمام دولت اللہ کی ہے اور اللہ نے اپنے بندوں میں سے بعض کو زیادہ اور بعض کو کم دے رکھی ہے۔ اس تصور کے مطابق اللہ تعالیٰ تمام اموال کا مالک اول ہے۔ تو وہ حکم دیتا ہے کہ جو لوگ نادار ہیں ان کی طرف دولت کو منتقل کیا جاتا رہنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اسے ناداروں کا حق کہا ہے۔ یہاں ان ناداروں میں بعض لوگوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

والمسکین وابن السبیل (30: 38) ” رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافر کو “۔ جس دور میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس میں زکوٰۃ کا تعین نہ ہوا تھا۔ نہ اس کے مستحقین کے مدات کا تعین ہوا تھا ۔ اصولاً یہ بات متعین کردی گئی تھی کہ تمام مال دراصل اللہ کی ملکیت میں ہے ، کیونکہ رازق اللہ ہے۔ محتاج لوگوں کا اس مال میں ایک حق متعین ہے اور یہ حق مال کے اصل مالک نے دیا ہے۔ یہ حق ان تک اس شخص کے واسطہ سے پہنچتا ہے جس کے ہاتھ میں مال جمع ہے۔ مال کے بارے میں اسلام کا یہ بنیادی نظریہ ہے۔ اسلام کے اقتصادی اور معاشی نظریات کی اساس یہی تصور ہے کہ اصل مالک اللہ ہے۔ جب مال اللہ کا ہے تو اللہ کی جانب سے عائد شدہ واجبات سب سے پہلے ادا ہوں گے۔ مال کے بارے میں اللہ کے احکام ملکیت ہوں۔ یا احکام ترقی اور تنبیہ ہوں یا احکام انفاق ہوں ، یہ سب لازمی احکام ہیں اور مال کا قابض آزاد نہیں ہے کہ اپنے مال میں جس طرح چاہے تصرف کرے۔

اب یہاں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جن کو اس نے بطور امانت یہ مال دیا ہے ، کہ تم لوگ کس طریق کار کے مطابق اس مال کو بڑھاؤ گے اور ترقی دو گے۔ بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے رشتہ داروں ، مسافروں اور مسکینوں پر خرچ کیا جائے۔ یہ سب اللہ کے راستے میں خرچ ہوگا۔

ذلک خیر للذین ۔۔۔۔۔ ہم المفلحون (30: 38) ” یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں “۔ بعض لوگ اپنا مال بطور ہدیہ مالدار لوگوں کو دیتے تھے تاکہ وہ ہدیہ کے جواب میں زیادہ لوٹا دیں۔ دوگنا ، تین گنا ، تو اللہ نے بتایا یہ مال بڑھانے کا طریقہ نہیں ہے۔

وما اتیتم من ۔۔۔۔۔ عند اللہ (30: 39) ” اور جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے تو اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا “۔ روایات میں اس آیت کا یہی مفہوم بتایا گیا ہے لیکن قرآن کی نص عام ہے اور وہ تمام سودی معاملات اس کی زد میں آتے ہیں جن کے ذریعے سے لوگ مال بڑھاتے ہیں چاہے اس کی شکل و صورت جو بھی ہو۔ رہا کے طریق

کے مطابق مال بڑھانے کے بجائے یہ بتایا گیا کہ حقیقی ترقی کی صورت کیا ہے۔

وما اتیتم من زکوۃ ۔۔۔۔ ھم المضعفون (30: 39) ” اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی کے لیے دیتے ہو ، اس کے دینے والے درحقیقت اپنا مال بڑھاتے ہیں “۔ یہ ہے وہ ذریعہ اور طریقہ جو مال کے بڑھانے کا یقینی طریقہ ہے۔ یعنی مال مفت عطا کرو ، کسی جوابی انعام کا انتظار نہ کرو ، کوئی معاوضہ نہ ہو۔ خالص فی سبیل اللہ اور لوجہ اللہ خرچ کرو اس لیے کہ وہی اللہ ہے جو رزق میں کشادگی عطا کرتا ہے اور وہی رزق کو تنگ کرنے والا بھی ہے۔ دینے والا اور روکنے والا وہی ہے۔ جو لوگ اللہ کے لیے خرچ کرتے ہیں وہ ان کو کئی گنا زیادہ دیتا ہے اور جو لوگ لوگوں کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتے ہیں ، ان کے اموال میں وہ کمی کرتا ہے۔ یہ سودی کاروبار دنیا کا انتظام ہے اور وہ حساب آخرت ہے اور اس میں کئی گنا مال ملتا ہے۔ یہی نفع بخش تجارت ہے ، یہاں بھی اور وہاں بھی۔ اب رزق اور کسب کے زاویہ سے شرک کے مسئلہ کو لیا جاتا ہے ۔ موجودہ لوگوں میں شرک کے آثار اور امم سابقہ میں شرک کے آثار بتائے جاتے ہیں۔

صلہ رحمی کی تاکید قرابتداروں کے ساتھ نیکی سلوک اور صلہ رحمی کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا کچھ ہو لیکن بقدر کفایت نہ ہو۔ اس کے ساتھ بھی سلوک واحسان کرنے کا حکم ہو رہا ہے مسافر جس کا خرچ کم پڑگیا ہو اور سفر خرچ پاس نہ رہا ہو اس کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کا ارشاد ہوتا ہے۔ یہ ان کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن دیدار اللہ کریں حقیقت میں انسان کے لئے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ دنیا اور آخرت میں نجات ایسے ہی لوگوں کو ملے گی۔ اس دوسری آیت کی تفسیر تو ابن عباس مجاہد ضحاک قتادۃ عکرمہ محمد بن کعب اور شعبی سے یہ مروی ہے کہ جو شخص کوئی عطیہ اس ارادے سے دے کہ لوگ اسے اس سے زیادہ دیں۔ تو گو اس ارادے سے ہدیہ دینا ہے تو مباح لیکن ثواب سے خالی ہے۔ اللہ کے ہاں اس کا بدلہ کچھ نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو اس سے بھی روک دیا اس معنی میں یہ حکم آپ کے لئے مخصوص ہوگا۔ اسی کی مشابہ آیت (وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ۽) 74۔ المدثر :6) ہے یعنی زیادتی معاوضہ کی نیت سے کسی کے ساتھ احسان نہ کیا کرو۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ سود یعنی نفع کی دو صورتیں ہیں ایک تو بیوپار تجارت میں سود یہ تو حرام محض ہے۔ دوسرا سود یعنی زیادتی جس میں کوئی حرج نہیں وہ کسی کو اس ارادہ سے ہدیہ تحفہ دینا ہے کہ یہ مجھے اس سے زیادہ دے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اللہ کے پاس ثواب تو زکوٰۃ کے ادا کرنے کا ہے۔ زکوٰۃ دینے والوں کو بہت برکتیں ہوتی ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ جو شخص ایک کجھور بھی صدقے میں دے لیکن حلال طور سے حاصل کی ہوئی ہو تو اسے اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسطرح پالتا اور بڑھاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کی پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہی ایک کھجور احد پہاڑ سے بھی بڑی ہوجاتی ہے۔ اللہ ہی خالق ورازق ہے۔ انسان اپنی ماں کے پیٹ سے ننگا بےعلم بےکان بےآنکھ بےطاقت نکلتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے سب چیزیں عطا فرماتا ہے۔ مال ملکیت کمائی تجارت غرض بیشمار نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ دو صحابیوں کا بیان ہے کہ ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کسی کام میں مشغول تھے ہم نے بھی آپ کا ہاتھ بٹایا۔ آپ نے فرمایا کہ دیکھو سرہلنے لگے تب تک بھی روزی سے کوئی محروم نہیں رہتا۔ انسان ننگا بھوکا دنیا میں آتا ہے ایک چھلکا بھی اس کے بدن پر نہیں ہوتا پھر رب ہی اسے روزیاں دیتا ہے۔ اس حیات کے بعد تمہیں مار ڈالے گا پھر قیامت کے دن زندہ کرے گا۔ اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کررہے ہو ان میں سے ایک بھی ان باتوں میں سے کسی ایک پر قابو نہیں رکھتا۔ ان کاموں میں سے ایک بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی تنہا خالق رازق اور موت زندگی کا مالک ہے وہی قیامت کے دن تمام مخلوق کو جلا دے گا۔ اس کی مقدس منزہ معظم اور عزت وجلال والی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو یا اس جیسا ہو یا اس کے برابر ہو یا اس کی اولاد ہو یا ماں باپ ہوں وہ احد ہے صمد ہے فرد ہے ماں باپ اولاد سے پاک ہے اس کا کف کوئی نہیں۔

آیت 38 - سورہ روم: (فآت ذا القربى حقه والمسكين وابن السبيل ۚ ذلك خير للذين يريدون وجه الله ۖ وأولئك هم المفلحون...) - اردو