سورہ روم (30): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ar-Room کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الروم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ روم کے بارے میں معلومات

Surah Ar-Room
سُورَةُ الرُّومِ
صفحہ 408 (آیات 33 سے 41 تک)

وَإِذَا مَسَّ ٱلنَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا۟ رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَآ أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ لِيَكْفُرُوا۟ بِمَآ ءَاتَيْنَٰهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا۟ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ أَمْ أَنزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا۟ بِهِۦ يُشْرِكُونَ وَإِذَآ أَذَقْنَا ٱلنَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا۟ بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ أَوَلَمْ يَرَوْا۟ أَنَّ ٱللَّهَ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ فَـَٔاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِ ۖ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِىٓ أَمْوَٰلِ ٱلنَّاسِ فَلَا يَرْبُوا۟ عِندَ ٱللَّهِ ۖ وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن زَكَوٰةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُضْعِفُونَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۖ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَٰلِكُم مِّن شَىْءٍ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ظَهَرَ ٱلْفَسَادُ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى ٱلنَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ ٱلَّذِى عَمِلُوا۟ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
408

سورہ روم کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ روم کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پکارتے ہیں، پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انہیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha massa alnnasa durrun daAAaw rabbahum muneebeena ilayhi thumma itha athaqahum minhu rahmatan itha fareequn minhum birabbihim yushrikoona

اردو ترجمہ

تاکہ ہمارے کیے ہوئے احسان کی ناشکری کریں اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liyakfuroo bima ataynahum fatamattaAAoo fasawfa taAAlamoona

آیت 34 لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰہُمْ ط ”یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں اور صلاحیتوں کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال کر کے عملی طور پر اس کی ناشکری کا ثبوت دیں۔فَتَمَتَّعُوْاوقفۃ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ”یہ وہی انداز ہے جو سورة التّکاثُر میں آیا ہے : کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ کہ تمہاری یہ زندگی چند روزہ ہے ‘ اس محدود مہلت میں تم اپنی من مانیوں کے مزے اڑالو۔ بالآخر تم نے ہمارے پاس ہی آنا ہے اور وہ وقت دور بھی نہیں۔ چناچہ بہت جلد اصل حقائق تم پر منکشف ہوجائیں گے۔

اردو ترجمہ

کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am anzalna AAalayhim sultanan fahuwa yatakallamu bima kanoo bihi yushrikoona

آیت 35 اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا فَہُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْا بِہٖ یُشْرِکُوْنَ ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے بارے میں کیا ان لوگوں کے پاس کسی آسمانی کتاب میں کوئی دلیل موجود ہے جو اس شرک کی صداقت پر شہادت دیتی ہو جو یہ کر رہے ہیں ؟ کیا ان پر ایسی کوئی ہدایت نازل ہوئی ہے کہ فلاں شخصیت بھی اللہ کے برابر ہوسکتی ہے اور فلاں ہستی بھی اس کے اختیارات میں حصہ دار بن سکتی ہے ؟ یہاں پر آسمانی سند یعنی الہامی کتاب کے بارے میں لفظ یَتَکَلَّم آیا ہے ‘ یعنی کیا اللہ کی نازل کردہ کتاب ان سے اس بارے میں گفتگو کرتی ہے ؟ علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں قرآن کے لیے جو لفظ ”گویا“ گفتگو کرنے والا استعمال کیا ہے شاید اس کا تصور انہوں نے یہیں سے لیا ہو : مثل حق پنہاں وہم پیدا ست ایں زندہ و پائندہ و گویا ست ایں !یعنی حق تعالیٰ کی مانند یہ کلام پوشیدہ بھی ہے ‘ ظاہر بھی ہے اور زندہ و پائندہ بھی۔ دوسری بہت سی صفات کے علاوہ اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ یہ کتاب اپنے پڑھنے والے کے ساتھ ہم کلام ہوتی ہے اور اس سے گفتگو کرتی ہے۔

اردو ترجمہ

جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں، اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha athaqna alnnasa rahmatan farihoo biha wain tusibhum sayyiatun bima qaddamat aydeehim itha hum yaqnatoona

وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّءَۃٌم بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ اِذَا ہُمْ یَقْنَطُوْنَ ”موافق حالات میں تو یہ لوگ اپنی کامیابیوں پر پھولے نہیں سماتے ‘ لیکن اگر ان کے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب کبھی ان پر برا وقت آجاتا ہے تو مایوسی سے گویا ان کی کمر ہی ٹوٹ جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے (جس کا چاہتا ہے) یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awalam yaraw anna Allaha yabsutu alrrizqa liman yashao wayaqdiru inna fee thalika laayatin liqawmin yuminoona

اردو ترجمہ

پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق) یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faati tha alqurba haqqahu waalmiskeena waibna alssabeeli thalika khayrun lillatheena yureedoona wajha Allahi waolaika humu almuflihoona

اردو ترجمہ

جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama ataytum min riban liyarbuwa fee amwali alnnasi fala yarboo AAinda Allahi wama ataytum min zakatin tureedoona wajha Allahi faolaika humu almudAAifoona

آیت 39 وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج ”اس آیت کا حوالہ سورة البقرۃ کی آیت 275 کی تشریح کے ضمن میں بھی دیا گیا ہے۔ دراصل اپنے مستقبل کے لیے بچت کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ پھر ہر شخص نہ صرف اپنی بچت کو سنبھال کر رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بچائی ہوئی رقم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی بھی رہے۔ قرآن اس بچت کو ”العَفْو“ یعنی قدر زائد surplus value قرار دے کر اسے انفاق فی سبیل اللہ کی مد میں اللہ کے بینک میں جمع کرانے کی ترغیب دیتا ہے : وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَط قُلِ الْعَفْوَ ط البقرۃ : 219 ”اور اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ آپ کہہ دیجیے کہ وہ سب خرچ کر دو جو ضرورت سے زائد ہے !“انفاق فی سبیل اللہ کی مد میں ایسے مال سے محتاجوں اور ناداروں کی مدد بھی کی جاسکتی ہے اور اسے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے بھی کام میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کا کم تر درجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرض حسنہ کی شکل میں وقتی طور پر کسی ضرورت مند کی مدد کردی جائے۔ بہر حال اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کے راستے میں خرچ کیا ہوا مال اس کے ہاں محفوظ بھی رہے گا اور بڑھتا بھی رہے گا۔ یعنی آخرت میں اس کا اجر کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا۔ وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ ”دنیا میں جو لوگ زکوٰۃ اور صدقات و خیرات کی صورت میں اللہ کے راستے میں خرچ کر رہے ہیں انہیں آخرت میں اس کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا کردیا جائے گا ‘ بلکہ اللہ اگر چاہے گا تو اپنے فضل سے اسے اور بھی زیادہ بڑھا دے گا۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں اجر موعود کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا بھی حاصل ہوگی۔ اس آیت میں انفاق فی سبیل اللہ اور سود کا تقابل کر کے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کسی شخص کی بچت کا بہترین مصرف ہے۔ اس میں منافع اجر وثواب بہت زیادہ بھی ہے اور دائمی بھی۔ دوسری طرف سود پر رقم دینا کسی بچت کا بد ترین مصرف ہے ‘ جس میں ایک شخص بغیر کوئی محنت کیے اور بغیر کوئی خطرہ مول لیے ایک طے شدہ رقم باقاعدگی سے حاصل کرتا رہتا ہے جبکہ اس کی اصل رقم بھی محفوظ رہتی ہے۔ اس کے بارے میں یہاں فرمایا گیا کہ سود کی شکل میں سرمائے میں بظاہر جو اضافہ ہوتا نظر آتا ہے اللہ کی نظر میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ صدقات اور سود کے تقابل کے حوالے سے دراصل یہاں دو متضاد ذہنیتوں کا تقابل بھی سامنے آتا ہے۔ ایک اس شخص کی ذہنیت ہے جو اپنے مال سے اللہ کی رضا کا متمنیّ ہے جبکہ دوسرا شخص اللہ کے احکام کی پروا کیے بغیر ہر قیمت پر اپنے سرمائے میں اضافہ چاہتا ہے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی سمجھ لیں کہ ایک ایسا شخص جس کے پاس سرمایہ ہے مگر وہ خود محنت یا تجارت وغیرہ نہیں کرسکتا اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے سرمائے میں اضافہ ہوتا رہے اس کے لیے شریعت اسلامی میں مضاربت کا طریقہ ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص اپنی رقم کسی دوسرے شخص کو کاروبار وغیرہ کے لیے دے اور اس سے منافع وغیرہ کی شرائط طے کرلے۔ اب اگر اس کاروبار میں منافع ہوگا تو سرمایہ فراہم کرنے والا شخص اس میں سے شرائط کے مطابق اپنے حصے کا حق دار ہوگا لیکن نقصان کی صورت میں تمام نقصان اسے خود ہی برداشت کرنا ہوگا۔ عامل محنت کرنے والا اس نقصان میں حصہ دار نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں مزید تفصیل کے لیے فقہ کی کتب سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟ پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu allathee khalaqakum thumma razaqakum thumma yumeetukum thumma yuhyeekum hal min shurakaikum man yafAAalu min thalikum min shayin subhanahu wataAAala AAamma yushrikoona

ہَلْ مِنْ شُرَکَآءِکُمْ مَّنْ یَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِکُمْ مِّنْ شَیْءٍ ط ”اے گروہ مشرکین ! کیا تمہارے لات ‘ منات اور عزیٰ میں سے کوئی ہے جو ان میں سے کوئی ایک کام بھی سر انجام دینے کی قدرت رکھتا ہو ؟ دراصل مشرکین مکہ خود ہی یہ تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اللہ ہے اور زندگی و موت کا اختیار بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ لات و منات وغیرہ کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ تھا : ہٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ط یونس : 18 کہ وہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں گے اور ان کی سفارش سے آخرت میں وہ چھوٹ جائیں گے۔

اردو ترجمہ

خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thahara alfasadu fee albarri waalbahri bima kasabat aydee alnnasi liyutheeqahum baAAda allathee AAamiloo laAAallahum yarjiAAoona

آیت 41 ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ ”یہ آیت جس شان سے آج دنیا کے افق پر نمایاں ہوئی ہے شاید اپنے نزول کے وقت اس کی یہ کیفیت نہیں تھی۔ آج سے پندرہ سو سال پہلے نہ تو دنیا کی وسعت کے بارے میں لوگوں کو صحیح اندازہ تھا اور نہ ہی ”فساد“ کی اقسام میں وہ تنوع سامنے آیا تھا جس کا نظارہ آج کی دنیا کر رہی ہے۔ آج پوری دنیا میں جس جس نوعیت کے فسادات رونما ہو رہے ہیں ان کی تفصیلات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ آج چونکہ پوری دنیا سمٹ کر ”گلوبل ویلج“ کی صورت اختیار کرچکی ہے اس لیے دنیا کے کسی بھی گوشے میں رونما ہونے والے ”فساد“ کے اثرات ہر انسان کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ چناچہ ان حالات میں آج اس آیت کا مفہوم واضح تر ہو کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا ”اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہے کہ وہ انسانوں کے سب اعمال کی سزا دنیا میں نہیں دیتا۔ اگر ایسا ہو تو روئے زمین پر کوئی انسان بھی زندہ نہ بچے : وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰکِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی ج فاطر : 45 ”اور اگر اللہ گرفت کرے لوگوں کی ان کے اعمال کے سبب تو اس زمین کی پشت پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے ‘ لیکن وہ ڈھیل دیتا رہتا ہے ان کو ایک مقررہ مدت تک“۔ اس اصول کے تحت اگرچہ اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی کی حد تک انسانوں کی زیادہ تر نافرمانیوں کو نظر انداز کرکے ان کی سزا کو مؤخر کرتا رہتا ہے لیکن بعض گناہوں یا جرائم کی گرفت وہ دنیا میں بھی کرتا ہے اور اس گرفت کا مقصد یہ ہوتا ہے :لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ”کہ شاید اس سے کچھ لوگوں کو ہوش آجائے اور وہ توبہ کر کے اپنی روش تبدیل کرلیں۔ آج دنیا بھر کے مسلمان جس ذلت و خواری کو اپنا مقدر سمجھے بیٹھے ہیں شاید ایسی کسی گرفت سے انہیں بھی غور کرنے کی توفیق مل جائے کہ : ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں ! غالبؔ شاید ایسی کسی ٹھوکر سے وہ جاگ جائیں اور انہیں اللہ کے اس وعدے پر غور و خوض کرنے کی فرصت میسر آجائے : وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ آل عمران ”اور تم لوگ ہی سر بلند ہو گے اگر تم حقیقی مؤمن ہو گے“۔ اور اس طرح وہ اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ ان کے تمام مسائل کا سبب ایمان حقیقی کا فقدان ہے۔ اور شاید اس طرح انہیں قرآن سے براہ راست ہم کلام ہونے کا بھی موقع مل جائے اور خود قرآن انہیں ان کی ذلت و خواری کی وجہ بتادے کہ تم اس حالت کو اس لیے پہنچے ہو کہ تم نے اپنے دین کے حصے بخرے کردیے ہیں ‘ تم دین کے صرف ان احکام پر عمل کرتے ہو جو تمہیں پسند ہیں اور جو احکام تمہاری نجی اور معاشرتی زندگی کے معمول سے مطابقت نہیں رکھتے انہیں نظر انداز کردیتے ہو : اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ الاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ الآی اَشَدِّ الْعَذَابِط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ البقرۃ ”تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور دوسرے کو نہیں مانتے ؟ تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو یہ حرکت کرے تم میں سے سوائے دنیا کی زندگی کی ذلت و رسوائی کے ‘ اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف ‘ اور اللہ غافل نہیں ہے اس سے جو تم کر رہے ہو“۔ چناچہ موجودہ حالات کے تناظر میں ہم میں سے ہر ایک کو اس معاملے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ایک بڑے عذاب سے پہلے جو مہلت ہمیں دستیاب ہے اس سے فائدہ اٹھا لیں اور توبہ کر کے اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں۔ یہاں پر زیر مطالعہ چار سورتوں العنکبوت ‘ الروم ‘ لقمان اور السجدۃ کے ذیلی گروپ کے بارے میں ایک اہم بات نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ مضامین کی خاص مشابہت کے اعتبار سے یہ سورتیں مزید دو جوڑوں پر مشتمل ہیں۔ چناچہ اس نقطہ نظر سے سورة العنکبوت کی مناسبت سورة لقمان کے ساتھ ہے جبکہ سورة الروم کے مضامین سورة السجدۃ کے مضامین سے مطابقت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر اس سورت کی یہ آیت آیت 41 اپنے مضمون کے اعتبار سے سورة السجدۃ کی آیت 21 کے ساتھ خصوصی مطابقت رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ سورة الروم کی 60 آیات ہیں جبکہ سورة السجدۃ کی 30 آیات ہیں۔ چناچہ آیات کی تعداد کے لحاظ سے جو جگہ سورة الروم کی ساٹھ آیات کے اندر اس کی آیت 41 کی ہے تقریباً وہی جگہ سورة السجدۃ کی تیس آیات کے اندر اس کی آیت 21 کو حاصل ہے۔ اس لحاظ سے ان دونوں آیات کی باہمی مطابقت و مشابہت معنی خیز ہے۔

408