سورہ روم: آیت 30 - فأقم وجهك للدين حنيفا ۚ... - اردو

آیت 30 کی تفسیر, سورہ روم

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

پس (اے نبیؐ، اور نبیؐ کے پیروؤں) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faaqim wajhaka lilddeeni haneefan fitrata Allahi allatee fatara alnnasa AAalayha la tabdeela likhalqi Allahi thalika alddeenu alqayyimu walakinna akthara alnnasi la yaAAlamoona

آیت 30 کی تفسیر

فاقم وجھک للدین ۔۔۔۔۔ کل حزب بما لدیھم فرحون (30 – 32)

” ۔ “۔ یہ ہدایت نہایت بروقت آتی ہے کہ اپنی توجہات اس دین کی طرف کر دو ۔ یہ ہدایت اس وقت آتی ہے جب قرآن نے انسانی فکر کو اس کائنات کی ماہیت ، اس کائنات کے مناظر ، نفس انسانی کی گہرائیوں اور اس کی فطرت کے نشیب و فراز میں خوب گھمایا اور دوڑایا۔ اس سیر اور مطالعہ کے بعد سلیم الفطرت ذہن تسلیم کرنے اور استقبال حق کے لیے تیار ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ ہدایت کہ تم لوگ اپنے چہرے کو دین ضعیف کی طرف پھیر دو ، بہت بروقت ہدایت ہے۔ اس کے مقابلے میں منحرفین اور مکذبین کی حالت یہ ہے کہ ان کے سامنے عقل و خرد اور دلیل وبرہان کے تمام ہتھیار کند ہوگئے اور انہوں نے مان کردینے سے صاف صاف انکار کردیا۔ باوجود اس کے کہ یہ ان کے پاس کوئی دلیل اور حجت نہیں ہے۔ یہ ہے وہ دلیل اور برہان اور لاجواب انداز گفتگو جس کے ذریعہ قرآن کریم حق کو پیش کرتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں کوئی عقل ٹھہر نہیں سکتی اور نہ فطرت سلیمہ انکار کرسکتی ہے۔

فاقم وجھک للذین حنیفا (30: 30) ” پس یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جمادو “۔ اور سیدھے سیدھے اس دین کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ کیونکہ یہی دین ایسا ہے جو انسان کو متفرق خواہشات سے بچا سکتا ہے ان خواہشات کی پشت پر حق بالعموم نہیں ہوتا۔ یہ علم اور تحقیق پر مبنی نہیں ہوتیں۔ یہ محض طبیعی شہوت اور مادی میلانات پر مبنی ہوتی ہیں اور ان کی پشت پر کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ لہٰذا تمام سمتوں کو چھوڑ کر دین اسلام کی سمت اختیار کرلو۔ سیدھے سیدھے۔ اس کے سوا تمام سمتوں کو پس پشت ڈال دو ۔

فطرت اللہ ۔۔۔۔۔ لخلق اللہ (30: 30) ” اس فطرت پر جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی “۔ یوں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ فطرت انسانی اور اس دین کے اندر گہرا ربط ہے۔ یعنی دونوں اللہ کی مصنوعات و تخلیقات ہیں۔ دونوں اس ناموس کے مطابق ہیں جو اس کائنات کی روح ہے اور دونوں ایک دوسرے کے موافق اور ہم رخ اور ہم سمت ہیں۔ جس خدا نے انسان کو پیدا کیا اسی نے یہ دین نازل کیا کہ یہ انسانوں کی زندگیوں میں نافذ ہو اور انسانوں کی پوری زندی اس کے مطابق چلے۔ یہ دین ہی فطرت انسانی کا علاج ہے ، اسے روحانی بیماریوں سے بچاتا ہے اور صحیح راہ سے منحرف ہونے نہیں دیتا۔ کیونکہ اللہ اپنی مخلوق کے بارے میں زیادہ جاننے والا ہے۔ وہ تو نہایت باریک بین اور بہت بڑا خبردار ہے۔ جس طرح فطرت ثابت ہے اسی طرح دین بھی ثابت اور مستحکم ہے۔

لا تبدیل لخلق اللہ (30: 30) ” اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدل نہیں سکتی “۔ جب نفس انسانی فطری راہ سے منحرف ہوجائے تو صرف یہی دین اسے فطرت کی راہ پر ڈال سکتا ہے کیونکہ فطرت کائنات ، فطرت انسانی اور فطرت دین ایک ہی ہیں۔

ذلک الدین ۔۔۔۔۔ لا یعلمون (30: 30) ” یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں “۔ چناچہ وہ بغیر علم کے اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ اور یوں راہ راست سے بھٹک کر بہت دور چلے جاتے ہیں “۔ یہ حکم کہ اپنے چہرے کو دین قیم کی طرف کو لو اگرچہ لفظا حضور اکرم ﷺ کو ہے لیکن اس کے اندر تمام اہل ایمان بھی آتے ہیں لہٰذا

آگے کی تفصیلات میں ان کو بھی شامل کردیا گیا۔

منیبین الیہ واتقوہ ۔۔۔۔۔ بما لدیھم فرحون (30: 31 – 32) ” اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے ، اور ڈرو اس سے ، اور نماز قائم کرو ، اور نہ ہوجاؤ ان مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے “۔ انابت سے مراد اللہ کی طرف رجوع ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں۔ جب انسان کے اندر اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے اور وہ حساس ہوجاتا ہے تو وہ خفیہ اور کھلے بندوں ہر معاملے میں اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ہر حرکت اور ہر سکون میں اسے خدا کا شعور ہوتا ہے۔ پھر وہ اس شعور اور حساسیت کے اعلیٰ مقام صلوٰۃ کی طرف دوڑتا ہے۔ اس شعور سے تمام ماسوا اللہ مٹ جاتا ہے لہٰذا وہ موحد ہوجاتا ہے اور مشرکین سے جدا ہوجاتا ہے اور مشرکین کون ہوتے ہیں۔

الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا (30: 32) ” جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا اور گروہوں میں بٹ گئے “۔ شرک کے بھی کئی رنگ اور اقسام ہیں۔ بعض لوگ جنوں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ بعض ملائکہ کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ بعض آباؤ اجداد کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ بعض ملوک و سلاطین کو ، بعض کاہنوں اور مولویوں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ بعض پتھروں اور درختوں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ بعض سیاروں اور ستاروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ بعض آگ کو شریک ٹھہراتے ہیں ، بعض رات اور دن کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ بعض جھوٹی اقدار کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ بعض آگ کو شریک ٹھہراتے ہیں ، بعض رات اور دن کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ بعض جھوٹی اقدار کو شریک ٹھہراتے ہیں اور بعض خواہشات اور اغراض کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ بعض پیروں اور فقیروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ غرض شرک کی بیشمار قسمیں ہیں اور

کل حزب بما لدیھم فرحون (30: 32) جبکہ دین قیم ایک ہے ، اس میں کوئی تغیر اور تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ دین حق کے پیروکار صرف ایک اللہ ، ایک قبلہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اس اللہ کی طرف جس نے ان آسمانوں کو تھام رکھا ہے۔ وہ آسمانوں کا بھی بادشاہ ہے اور زمین کا بھی اور سب اس کے مطیع فرمان ہیں۔

آیت 30 فَاَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًا ط ”تم اپنے کردار میں ایسی توحیدی شان پیدا کرو کہ تمہارا ایک ایک عمل گویا اس دعوے کی گواہی بن جائے : قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الانعام ”آپ ﷺ کہیے کہ میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے“۔ اور دنیا کے تمام جھمیلوں کو چھوڑ کر اپنی توجہ ذات باری تعالیٰ کی طرف اس انداز سے مرکوز کردو کہ تمہاری زندگی کے شب و روز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان الفاظ کا رنگ جھلکتا نظر آئے : اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ الانعام ”میں نے تو اپنا رخ کرلیا ہے یکسو ہو کر اس ہستی کی طرف جس نے آسمان و زمین کو بنایا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔“فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا ط ”یہی فطرت سلیمہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق کی ہے۔ نسل انسانی کا ہر بچہ اسی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کی اس فطرت پر کچھ اور رنگ چڑھا دیتے ہیں یا اس کے ماحول کی وجہ سے اس کا رخ کسی اور طرف مڑ جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ 1”ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے ‘ پھر اس کے والدین اسے یہودی ‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔“لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ”یعنی اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ یوں بھی کیا ہے : ”اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو تبدیل نہ کیا جائے“۔ یا ”اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے“۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے اس کو بگاڑنا اور مسخ کرنا جائز نہیں ہے۔

بچہ اور ماں باپ ملت ابراہیم حنیف پر جم جاؤ جس دین کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقرر کردیا ہے اور جسے اے نبی آپ کے ہاتھ پر اللہ نے کمال کو پہنچایا ہے رب کی فطرت سلیمہ پر وہی قائم ہے جو اس دین اسلام کا پابند ہے۔ اسی پر یعنی توحید پر رب نے تمام انسانوں کو بنایا ہے۔ روز اول میں اسی کا سب سے اقرار کرالیا گیا تھا کہ کیا میں سب کا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے اقرار کیا کہ بیشک تو ہی ہمارا رب ہے۔ وہ حدیثیں عنقریب انشاء اللہ بیان ہونگی جن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جملہ مخلوق کو اپنے سچے دین پر پیدا کیا ہے گو اس کے بعد لوگ یہودیت نصرانیت وغیرہ پر چلے گئے۔ لوگو اللہ کی اس فطرت کو نہ بدلو۔ لوگوں کو اس راہ راست سے نہ ہٹاؤ۔ تو یہ خبر معنی میں امر ہوگی جیسے آیت (وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا 97؀) 3۔ آل عمران :97) میں یہ معنی نہایت عمدہ اور صحیح ہیں۔ دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو فطرت سلیمہ پر یعنی دین اسلام پر پیدا کیا۔ رب کے اس دین میں کوئی تبدل تغیر نہیں۔ امام بخاری نے یہی معنی کئے ہیں کہ یہاں خلق اللہ سے مراد دین اور فطرت اسلام ہے بخاری شریف میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ فرمان رسول ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنادیتے ہیں۔ جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ ہوتا ہے جس کے کان لوگ کتر دیتے ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی (فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30؀ڎ) 30۔ الروم :30) مسند احمد میں ہے حضرت اسود بن سریع ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا آپ کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کیا وہاں ہم بفضل اللہ غالب آگئے اس دن لوگوں نے بہت سے کفار کو قتل کیا یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی قتل کرڈالا حضور کو پتہ چلا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے لوگ حد سے آگے نکل جاتے ہیں آج بچوں کو بھی قتل کردیا ہے۔ کسی نے کہا یارسول اللہ ﷺ آخر وہ بھی تو مشرکین کی ہی اولاد تھی آپ نے فرمایا نہیں نہیں۔ یاد رکھو تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کے بچے ہیں۔ خبردار بچوں کو کبھی قتل نہ کرنا نابالغوں کے قتل سے رک جانا۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنی زبان سے کچھ کہے پھر اسکے ماں باپ اسے یہود نصرانی بنالیتے ہیں۔ جابر بن عبداللہ کی روایت سے مسند شریف میں ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اسے زبان آجائے۔ اب یا تو شاکر بنتا ہے یا کافر۔ مسند میں بروایت حضرت ابن عباس مروی ہے کہحضور ﷺ سے مشرکوں کی اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا وہ خوب جانتا تھا کہ وہ کیا اعمال کرنے والے ہیں۔ آپ سے مروی ہے کہ ایک زمانہ میں میں کہتا تھا مسلمانوں کی اولاد مسلمانوں کیساتھ ہے اور مشرکوں کی اولاد مشرکوں کے ساتھ ہے یہاں تک کہ فلاں شخص نے فلاں سے روایت کرکے مجھے سنایا کہ جب آنحضرت ﷺ سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ خوب عالم ہے اس چیز سے جو وہ کرتے۔ اس حدیث کو سن کر میں نے اپنا فتویٰ چھوڑ دیا حضرت عیاض بن حمار ؓ سے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ مجھے جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ جو اس نے مجھے آج سکھایا ہے اور اس سے تم جاہل ہو وہ میں تمہیں سکھا دوں۔ فرمایا کہ جو میں نے اپنے بندوں کو دیا ہے میں نے ان کے لئے حلال کیا ہے میں نے اپنے سب بندوں کو یک طرفہ خالص دین والا بنایا ہے ان کے پاس شیطان پہنچتا ہے اور انہیں دین سے گمراہ کرتا ہے اور حلال کو ان پر حرام کرتا ہے اور انہیں میرے ساتھ شریک کرنے کو کہتا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف نگاہ ڈالی اور عرب وعجم سب کو ناپسند فرمایا سوائے چند اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں نے تجھے صرف آزمائش کے لئے بھیجا ہے تیری اپنی بھی آزمائش ہوگی اور تیری وجہ سے اور سب کی بھی میں تو تجھ پر وہ کتاب اتارونگا جسے پانی دھو نہ سکے تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا۔ پھر مجھ سے جناب باری عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ میں قریش کو ہوشیار کردوں میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں وہ میرا سر کچل کر روٹی جیسا نہ بنادیں ؟ تو فرمایا سن جیسے یہ تجھے نکالیں گے میں انہیں نکالونگا تو ان سے جہاد کر میں تیرا ساتھ دونگا تو خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ تو لشکر بھیج میں اس سے پانچ حصے زیادہ لشکر بھیجوں گا فرمانبرداروں کے لے اپنے نافرمانوں۔ اہل جنت تین قسم کے ہیں عادل بادشاہ توفیق خیر والا سخی۔ نرم دل ہر مسلمان کے ساتھ سلوک احسان کرنے والا پاک دامن سوال اور حرام سے بچنے والا عیالدار آدمی۔ اہل جہنم پانچ قسم کے لوگ ہیں وہ بےوقعت کمینے لوگ جو بےزر اور بےگھر ہیں جو تمہارے دامنوں میں لپٹے رہتے ہیں۔ وہ خائن جو حقیر چیزوں میں بھی خیانت کئے بغیر نہیں رہتا۔ وہ لوگ جو ہر وقت لوگوں کو ان کی جان مال اور اہل و عیال میں دھوکے میں رہتے ہیں صبح شام چالبازیوں اور مکروفریب میں لگے رہتے ہیں۔ پھر آپ نے بخیلی یا کذاب کا ذکر کیا اور فرمایا پانچوں قسم کے لوگ بد زبان بدگو ہیں (مسلم وغیرہ) یہی فطرت سلیمہ یہی شریعت کو مضبوطی سے تھامے رہنا ہی سچے اور سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں۔ اور اپنی اسی جہالت کی وجہ سے اللہ کے ایسے پاک دین سے دور بلکہ محروم رہ جاتے ہیں۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے گو تیری حرص ہو لیکن ان میں سے اکثر لوگ بےایمان ہی رہیں گے۔ ایک اور آیت میں ہے اگر تو اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے راہ اللہ سے بہکا دیں گے۔ تم سب اللہ کی طرف راغب رہو اسی کی جانب جھکے رہو اسی کا ڈر خوف رکھو اور اسی کا لحاظ رکھو۔ نمازوں کی پابندی کرو جو سب سے بڑی عبادت اور اطاعت ہے۔ تم مشرک نہ بنو بلکہ موحد اور خالص بن جاؤ اس کے سوا کسی اور سے کوئی مراد وابستہ نہ رکھو۔ حضرت معاذ سے حضرت عمر نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا یہ تین چیزیں ہیں اور یہی نجات کی جڑیں ہیں اول اخلاص جو فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے دوسرے نماز جو دراصل دین ہے تیسرے اطاعت جو عصمت اور بچاؤ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا آپ نے سچ کہا۔ تمہیں مشرکوں میں نہ ملنا چاہیے تمہیں ان کا ساتھ نہ دینا چاہیے اور نہ ان جیسے فعل کرنا چاہیے جنہوں نے دین اللہ کو بدل دیا بعض باتوں کو مان لیا اور بعض سے انکار کر گئے فرقوا کی دوسری قرأت فارقوا ہے یعنی انہوں نے اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ جیسے یہود، نصاری، مجوسی، بت پرست سے اور دوسرے باطل مذاہب والے۔ جیسے ارشاد ہے جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور گروہ بندی کرلی تو ان میں شامل ہی نہیں ان کا انجام سپرد اللہ ہے تم سے پہلے والی قومیں گروہ گروہ ہوگئیں تھی۔ اس امت میں بھی تفرقہ پڑا لیکن ان میں ایک حق پر ہے ہاں باقی سب گمراہی پر ہیں۔ یہ حق والی جماعت اہل سنت والجماعت ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مضبوط تھامنے والی ہے۔ جس پر سابقہ زمانے کے صحابہ تابعین اور ائمہ مسلمین تھے گذشتہ زمانے میں بھی اور اب بھی۔ جیسے مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ان سب میں نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا (من کان علی ما انا علیہ واصحابی) یعنی وہ لوگ جو اس پر ہوں جس پر آج میں اور میرے اصحاب ہیں (برادران غور فرمائیے کہ وہ چیز جس پر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب ؓ آپ کے زمانے میں تھے وہ وحی اللہ یعنی قرآن و حدیث ہی تھی یا کسی امام کی تقلید ؟)

آیت 30 - سورہ روم: (فأقم وجهك للدين حنيفا ۚ فطرت الله التي فطر الناس عليها ۚ لا تبديل لخلق الله ۚ ذلك الدين القيم...) - اردو