سورہ روم: آیت 28 - ضرب لكم مثلا من أنفسكم... - اردو

آیت 28 کی تفسیر, سورہ روم

ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُم مِّن شُرَكَآءَ فِى مَا رَزَقْنَٰكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَآءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

اردو ترجمہ

وہ تمہیں خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے کیا تمہارے اُن غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں اور تم اُن سے اُس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو؟ اس طرح ہم آیات کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Daraba lakum mathalan min anfusikum hal lakum mi mma malakat aymanukum min shurakaa fee ma razaqnakum faantum feehi sawaon takhafoonahum kakheefatikum anfusakum kathalika nufassilu alayati liqawmin yaAAqiloona

آیت 28 کی تفسیر

ضرب لکم مثلا ۔۔۔۔۔ لقوم یعقلون (28)

یہ مثال ان لوگوں کے لیے دی گئی ہے جو اللہ کی مخلوق میں سے کسی مخلوق کو اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ چاہے جن ہوں ، چاہے ملائکہ ہوں ، پتھر ہوں یا درخت ہوں ، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ وہ خود اپنے مالوں میں ، اپنے نوکروں اور غلاموں کو شریک نہیں کرتے ۔ اپنے غلام کو شریک کیا ، اپنے برابر انسان کا درجہ بھی نہیں دیتے۔ لہٰذا ان کا یہ رویہ بہت ہی عجیب ہے کہ وہ اللہ کا شریک ان لوگوں کو بتاتے ہیں جو اللہ کی مخلوق ہیں جبکہ اپنے زیردستوں کو اپنے مالوں میں شریک نہیں کرتے۔ یہ ان کا مال خود ان کا تخلیق کردہ بھی نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کا تخلیق کردہ ہے۔ لہٰذا ان کے موقف میں یہ واضح تضاد ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس تمثیل کو نہایت ہی تدریج کے ساتھ بیان فرماتے ہیں۔

ضرب لکم مثلا من انفسکم (30: 28) ” وہ تمہیں خود تمہاری اپنی ہی ذات سے مثال دیتا ہے “۔ یہ مثال تمہاری عملی زندگی سے دور نہیں ہے کہ تم اسے سمجھ نہ سکو۔ اس کے ملاحظے کے لیے کسی دور دراز علاقے کا سفر ضروی نہیں ہے۔

ھل لکم ما ۔۔۔۔۔ فیہ سوآء (30: 28) ” کیا تمہارے ان غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں ، کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دئیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں “۔ ظاہر ہے کہ مشرکین مکہ تو یہ بھی نہ چاہتے تھے کہ ان کے غلام ان کی دولت میں شریک ہوں چہ جائیکہ کہ ان کے حقوق ان کے ساتھ مساویانہ ہوں۔

تخافونھم کخیفتکم انفسکم (30: 28) ” اور تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے آپ سے ڈرتے ہو “۔ یعنی ان کو وہی مرتبہ ومقام دیتے ہو جو تم آپس میں اپنے آزاد شرکاء کو دیتے ہو۔ اور تم ڈرتے ہو کہ وہ تم پر ظلم کریں گے اور تم ان کے ساتھ ظلم کرنے سے احتیاط کرتے ہو کیونکہ ان کو تمہارے ساتھ برابر کا مقام و مرتبہ حاصل ہے کیا تمہارے ماحول میں اور خود تمہارے معاشرے میں ایسا ہوتا ہے ؟ اگر خود تم اپنے غلاموں کے ساتھ مساویانہ سلوک نہیں رتے ہو اور نہ اس پر راضی ہوتے ہو تو بتاؤ کہ ملاء اعلیٰ کے بارے میں کیونکر ایسی بات سوچتے ہو۔ یہ ایک واضح ، سادہ اور فیصلہ کن مثال ہے۔ اس کے بعد اس موضوع پر کوئی جدل وجدال نہیں رہتا۔ یہ مثال ایک نہایت ہی سادہ استدلال اور عقل سلیم پر مبنی ہے۔

کذلک نفصل الایت لقوم یعقلون (30: 28) ” اسی طرح ہم آیات کھول کر پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں “۔ ان کے عقائد کے اس پوچ تضاد کو یہاں تک کھول کر بیان کردینے کے بعد اب یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے عقائد کے اندر یہ تضاد پیدا کیوں ہوا۔ اس کا اصل سبب کیا ہے۔ صرف یہ کہ ان کا نفس یہی چاہتا ہے اور جب کوئی شخص خواہشات نفسانیہ کا غلام ہوجائے تو پھر عقل و بصیرت سے محروم ہوجاتا ہے۔

ہَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ ”ظاہر ہے کوئی آقا اپنے کسی غلام کو کبھی بھی اپنی ملکیت اور اپنی جائیداد میں اس طرح تصرف کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کا حق اور اختیار خود اس کے برابر ہوجائے۔ گویا یہ امر محال ہے۔تَخَافُوْنَہُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ ط ”یعنی کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جیسے خدشات اور اندیشے تم اپنی ذات اور اپنے مال و اسباب کے بارے میں رکھتے ہو ان لونڈی غلاموں کے بارے میں بھی تمہیں ایسے ہی اندیشے لاحق ہوئے ہوں ؟ تم لوگ اپنے آپ ‘ اپنی اولاد ‘ اپنی ملکیت کے بارے میں تو ہر وقت متفکرّ رہتے ہو کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے ‘ ویسا نہ ہوجائے ‘ مگر کبھی تمہیں اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بارے میں بھی ایسی ہی سوچوں نے پریشان کیا ہے ؟ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ”یعنی تم لوگ اگر کچھ بھی عقل رکھتے ہو تو تمہیں اس مثال سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ جب تم لوگ اپنے غلاموں کو اپنے برابر بٹھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تو پھر تم یہ کیسے سوچ لیتے ہو کہ اللہ اپنی مخلوق کو اپنے برابر کرلے گا ؟ تم لوگ خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ بڑا معبود اللہ ہی ہے اور تمہارے بنائے ہوئے شریک چھوٹے معبود ہیں تو تم چھوٹے معبودوں کے بارے میں کیسے گمان کرلیتے ہو کہ اللہ انہیں اپنے اختیارات کا مالک بنا دے گا اور ان کی سفارش اللہ کو مجبور کر دے گی ؟ تمہارے یہ من گھڑت معبود چاہے ملائکہ میں سے ہوں یا انبیاء اور اولیاء اللہ میں سے ‘ وہ سب کے سب اللہ کی مخلوق ہیں اور مخلوق میں سے یہ لوگ خالق کے برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟

اپنے دلوں میں جھانکو !مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک اللہ جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب اللہ کے غلام اور اس کے ماتحت ہیں۔ چناچہ وہ حج و عمرے کے موقعہ پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے کہ دعا (لبیک لاشریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک) یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے۔ یعنی ہمارے شریکوں کا اور ان کی ملکیت کا تو ہی اصلی مالک ہے۔ پس یہاں انہیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جارہا ہے جو خود یہ اپنے نفس ہی میں پائیں۔ اور بہت اچھی طرح غور وخوض کرسکیں۔ فرماتا ہے کہ کیا تم میں سے کوئی بھی اس امر پر رضامند ہوگا کہ اس کے کل مال وغیرہ میں اس کے غلام اس کے برابر کے شریک ہوں اور ہر وقت اسے یہ دھڑ کا رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کرکے میری جائیداد اور ملکیت آدھوں آدھ بانٹ نہ لے جائیں۔ پس جس طرح تم یہ بات اپنے لئے پسند نہیں کرتے اللہ کے لئے بھی نہ چاہو جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کرسکتا اسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں ہوسکتا۔ یہ عجب ناانصافی ہے کہ اپنے لئے جس بات سے چڑیں اور نفرت کریں اللہ کے لئے وہی بات ثابت کرنے بیٹھ جائیں۔ خود بیٹیوں سے جلتے تھے اتناسنتے ہی کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی ہے منہ کالے پڑجاتے تھے اور اللہ کے مقرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے۔ اسی طرح خود اس بات کے کبھی رودار نہیں ہونے کہ اپنے غلاموں کو اپنا برابر کا شریک وسہیم سمجھیں لیکن اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک سمجھ رہے ہیں کس قدر انصاف کا خونی ہے ؟ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ مشرک جو لبیک پکارتے تھے اور اس پر یہ آیت اتری۔ اور اس میں بیان ہے کہ جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر کا شریک ٹھہرانے سے عار رکھتے ہو تو اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہرا رہے ہو۔ یہ صاف بات بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ہم اسی طرح تفصیل وار دلائل غافلوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں پھر فرماتا ہے اور بتلاتا ہے کہ مشرکین کے شرک کی کوئی سند عقلی نقلی کوئی دلیل نہیں صرف کرشمہ جہالت اور پیروی خواہش ہے۔ جبکہ یہ راہ راست سے ہٹ گئے تو پھر انہیں اللہ کے سوا اور کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا۔ یہ گو دوسروں کا اپنا کارساز اور مددگار مانتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان اللہ کا دوست کوئی نہیں۔ کون ہے جو اس کی مرضی کے خلاف لب ہلا سکے۔ کون ہے جو اس پر مہربانی کرے جس پر اللہ نامہربان ہو ؟ جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے ہو نہیں سکتا۔

آیت 28 - سورہ روم: (ضرب لكم مثلا من أنفسكم ۖ هل لكم من ما ملكت أيمانكم من شركاء في ما رزقناكم فأنتم فيه سواء...) - اردو