سورہ روم: آیت 27 - وهو الذي يبدأ الخلق ثم... - اردو

آیت 27 کی تفسیر, سورہ روم

وَهُوَ ٱلَّذِى يَبْدَؤُا۟ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ وَلَهُ ٱلْمَثَلُ ٱلْأَعْلَىٰ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ

اردو ترجمہ

وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے برتر ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa allathee yabdao alkhalqa thumma yuAAeeduhu wahuwa ahwanu AAalayhi walahu almathalu alaAAla fee alssamawati waalardi wahuwa alAAazeezu alhakeemu

آیت 27 کی تفسیر

وھو الذی یبدء وا ۔۔۔۔۔ وھو العزیز الحکیم (30: 27) ” “۔ اس سورة میں آغاز تخلیق اور اعادہ تخلیق کا ذکر پہلے بھی ہوا ہے۔ اس طویل سفر اور کائنات کی سیر کے بعد ازسر نو اس کا ذکر اس اضافے سے کیا جاتا ہے۔

وھو اھون علیہ (30: 27) ” اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے “۔ حالانکہ اللہ کے لیے کوئی چیز نہ آسان ہے اور نہ مشکل ہے اس کا معاملہ تو یہ ہے۔ انما امرہ ۔۔۔۔۔ کن فیکون ” اس کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہوجا ، پس وہ ہوجاتی ہے “۔ لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس انداز میں سمجھاتے ہیں جس طرح ، اللہ جانتا ہے کہ وہ سمجھ سکتے ہیں۔ لوگوں کے ہاں پہلی تخلیق سے اعادہ آسان ہوتا ہے لیکن وہ خود اپنے تجربات کے خلاف جاتے ہیں کہ ابتدائی تخلیق سے اعادہ مشکل ہے۔ حالانکہ اعادہ آسان ہونا چاہئے۔

ولہ المثل ۔۔۔۔ والارض (30: 27) ” آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے برتر ہے “۔ وہ آسمانوں اور زمین میں منفرد ہے۔ اس کی ذات وصفات میں کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ وہ اکیلا اور حمید ہے۔

وھو العزیز الحکیم (30: 27) ” وہ زبردست اور حکیم ہے “۔ زبردست ہے اور قاہر ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے اور حکیم ہے جو بھی کرتا ہے حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس کا کیا نہایت ہی پختہ اور پورا پورا ہوتا ہے۔ کامل مکمل۔ اس عظیم مطالعاتی سفر کے اختتام پر ، جس میں ہم نے اس کائنات کے آفاق ، طول و عرض ، اس کے ظاہری احوال اور اس کی گہرائیوں کا سفر کیا ، جس میں ہم نے مناظر بھی دیکھے اور حقائق بھی اخذ کیے ، اب سیاق کلام میں عقل و خرد کی تاروں پر آخری ضرب لگائی جاتی ہے

آیت 27 وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ ط ”یہ بعث بعد الموت کے بارے میں عقلی دلیل ہے جو قرآن میں متعدد بار دہرائی گئی ہے۔ معمولی سمجھ بوجھ کا انسان بھی اس دلیل کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کسی بھی کام کا پہلی دفعہ کرنا دوسری دفعہ کرنے کے مقابلے میں نسبتاً مشکل ہوتا ہے ‘ اور جب کسی کام کو ایک دفعہ سر انجام دے دیا جائے اور اس سے متعلق تمام مشکلات کا حل ڈھونڈ لیا جائے تو اسی کام کو دوسری مرتبہ کرنا نسبتاً بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اہل عرب جو قرآن کے مخاطب اول تھے ‘ وہ اللہ کے منکر نہیں تھے۔ وہ تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اور اس پوری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے۔ ان کے اس عقیدے کا ذکر قرآن میں بہت تکرار سے ملتا ہے۔ مثلاً : وَلَءِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط لقمٰن : 25 ”اور اگر آپ ﷺ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے !“ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں ان لوگوں کو خالص منطقی اور عقلی سطح پر یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ جس اللہ کے بارے میں تم مانتے ہو کہ وہ زمین و آسمان کا خالق ہے اور خود تمہارا بھی خالق ہے اس کے بارے میں تمہارے لیے یہ ماننا کیوں مشکل ہو رہا ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ بھی پیدا کرے گا ؟ جس اللہ نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہ آخر دوسری مرتبہ ایسا کیوں نہیں کرسکے گا ؟ جبکہ کسی بھی چیز کو دوسری مرتبہ بنانا پہلے کی نسبت کہیں آسان ہوتا ہے۔وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ”یہاں پر اللہ تعالیٰ کے لیے ”مثل“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لیکن مثل یا مثال کا جو مفہوم ہمارے ذہنوں میں ہے اس کا اللہ کے بارے میں تصور کرنا مناسب اور موزوں نہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ”مثل“ کا ترجمہ ”شان“ یا ”صفت“ سے کیا جائے کہ اس کی شان بہت اعلیٰ اور بلند ہے یا اس کی صفت سب سے برتر ہے۔

آیت 27 - سورہ روم: (وهو الذي يبدأ الخلق ثم يعيده وهو أهون عليه ۚ وله المثل الأعلى في السماوات والأرض ۚ وهو العزيز الحكيم...) - اردو