سورہ روم: آیت 17 - فسبحان الله حين تمسون وحين... - اردو

آیت 17 کی تفسیر, سورہ روم

فَسُبْحَٰنَ ٱللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ

اردو ترجمہ

پس تسبیح کرو اللہ کی جبکہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasubhana Allahi heena tumsoona waheena tusbihoona

آیت 17 کی تفسیر

تسبیح کا یہ حکم اور حمد سابق فقرات و آیات میں بیان کردہ مشاہد قیامت کے بعد آتا ہے جس میں بتایا گیا کہ اہل ایمان جنت کے ایک مخصوص باغ میں خوش و خرم ہوں گے۔ اور کافر اور جھٹلانے والے ، عذاب اور سزا کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ تو یہ تسبیح دراصل بطور نتیجہ یہاں لائی گئی ہے اور سابقہ مناظر قیامت دراصل اس مطالعہ کائنات کے لئے تمہید تھے کہ یہ وسیع کائنات اور اس کے نشیب و فرار ، نفس انسانی اور اس کی نفسیات و عجائبات اور اللہ کی یہ تخلیق اور اس کے اسرار و رموز یہ سب لایعنی نہیں ہیں۔ ان پر قیامت کے نتائج مرتب ہوں گے۔ پس سابقہ مناظر قیامت اور موجودہ مطالعہ کائنات کے اندر مکمل ربط و مناسبت ہے

یہاں تسبیح اور حمد کے لیے کچھ اوقات بھی مقرر کیے گئے ہیں۔ شام کے اوقات میں اور صبح کے مناظر میں ، پچھلے پہر اور پہلی پہر میں۔ پھر اس حمد و تسبیح کو آفاق سماوات کے ساتھ بھی جوڑا گیا تاکہ زمان و مکان کے فاصلے مٹا کر اس حمد و تسبیح کو ہمہ گیر بنا دیا جائے اور انسان کا دل ہر وقت اور ہر جگہ اللہ کے ساتھ جڑا رہے۔ وہ اس کائنات کے ڈھانچے ، کر ات سماوی کی گردش اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مظاہر صبح و مساء کے مظاہر کو دیکھ کر انسان ہر لمحہ اللہ کو یاد کرے۔ اس کا دل کھلا رہے ، حساس رہے ، اور اپنے ماحول کے حوالے سے بیدار رہے۔ اپنے بدلتے ہوئے حالات میں ماحول کا مشاہدہ کرتا رہے اور اللہ کی حمد و تسبیح کے ساتھ یہ غور و فکر جاری رہے۔ اور ان تمام امور کو اللہ اور خالق کائنات کی آیات و معجزات سمجھے۔ یہ تمام حالات ، تمام مظاہر ، اور تمام اوقات دراصل ایک معجزہ پروردگار ہیں۔

خالق کل مقتدر کل ہے اس رب تعالیٰ کا کمال قدرت اور عظمت سلطنت پر دلالت اس کی تسبیح اور اس کی حمد سے ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہبری کرتا ہے اور اپنا پاک ہونا اور قابل حمد ہونا بھی بیان فرما رہا ہے۔ شام کے وقت جبکہ رات اپنے اندھیروں کو لے آتی ہے اور صبح کے وقت جبکہ دن اپنی روشنیوں کو لے آتا ہے۔ اتنا بیان فرما کر اس کے بعد کا جملہ بیان فرمانے سے پہلے ہی یہ بھی ظاہر کردیا کہ زمین و آسمان میں قابل حمد وثنا وہی ہے ان کی پیدائش خود اس کی بزرگی پر دلیل ہے۔ پھر صبح شام کے وقتوں کی تسبیح کا بیان جو پہلے گذرا تھا اس کے ساتھ عشاء اور ظہر کا وقت ملالیا۔ جو پوری اندھیرے اور کامل اجالے کا وقت ہوتا ہے۔ بیشک تمام پاکیزگی اسی کو سزاوار ہے جو رات کے اندھیروں کو اور دن کے اجالوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ صبح کا ظاہر کرنے والا رات کو سکون والی بنانے والا وہی ہے۔ اس جیسی آیتیں اور بھی بہت سی ہیں۔ آیت (وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا ۽) 91۔ الشمس :3) اور (وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى ۙ) 92۔ اللیل :1) ٰ (اور) (وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى ۙ) 93۔ الضحی:12) وغیرہ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا نام خلیل (وفادار) کیوں رکھا ؟ اس لئے کہ وہ صبح شام ان کلمات کو پڑھا کرتے تھے۔ پھر آپ نے آیت (فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ سے وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ 18؀) 30۔ الروم :18) تک کی دونوں آیتیں تلاوت فرمائیں۔ طبرانی کی حدیث میں ان دونوں آیتوں کی نسبت ہے کہ جس نے صبح وشام یہ پڑھ لیں اس نے دن رات میں جو چیز چھوٹ گئی اسے پالیا۔ پھر بیان فرمایا کہ موت وزیست کا خالق مردوں سے زندوں کو اور زندوں سے مردوں کو نکالنے والا وہی ہے۔ ہر شے پر اور اس کی ضد پر وہ قادر ہے دانے سے درخت درخت سے دانے مرغی سے انڈہ انڈے سے مرغی نطفے سے انسان انسان سے نطفہ مومن سے کافر کافر سے مومن غرض ہر چیز اور اسکے مقابلہ کی چیز پر اسے قدرت حاصل ہے۔ خشک زمین کو وہی تر کرتا ہے بنجر زمین سے وہی زراعت پیدا کرتا ہے جیسے سورة یاسین میں فرمایا کہ خشک زمین کا ترو تازہ ہو کر طرح طرح کے اناج وپھل پیدا کرنا بھی میری قدرت کا ایک کامل نشان ہے۔ ایک اور آیت میں ہے تمہارے دیکھتے ہوئے اس زمین کو جس میں سے دھواں اٹھتاہو دوبوند سے تر کرکے میں لہلہا دیتا ہوں اور ہر قسم کی پیداوار سے اسے سرسبز کردیتا ہوں۔ اور بھی بہت سی آیتوں میں اس مضمون کو کہیں مفصل کہیں مجمل بیان فرمایا۔ یہاں فرمایا اسی طرح تم سب بھی مرنے کے بعد قبروں میں سے زندہ کرکے کھڑے کردئیے جاؤ گے۔

آیت 17 - سورہ روم: (فسبحان الله حين تمسون وحين تصبحون...) - اردو