سورہ نور: آیت 36 - في بيوت أذن الله أن... - اردو

آیت 36 کی تفسیر, سورہ نور

فِى بُيُوتٍ أَذِنَ ٱللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا ٱسْمُهُۥ يُسَبِّحُ لَهُۥ فِيهَا بِٱلْغُدُوِّ وَٱلْءَاصَالِ

اردو ترجمہ

(اُس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) اُن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fee buyootin athina Allahu an turfaAAa wayuthkara feeha ismuhu yusabbihu lahu feeha bialghuduwwi waalasali

آیت 36 کی تفسیر

(فی بیوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والاصال رجال ۔۔۔۔۔۔۔ والابصار لیجز یھم اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔ بغیر حساب ) (36 تا 83)

یہاں اللہ کے نور کی تمثیل اور ان گھروں کی تمثیل میں ایک خاص تعلق ہے اور یہ قرآن کریم کے انداز بیان کافی کمال ہے۔ طاق کے اندر چراغ روشن ہے اور گھروں کے اندر دل مومن روشن ہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان مشاکلت ہے۔

یہ گھر ایسے ہیں کہ اللہ نے حکم دینا ہے کہ ان کی دیواروں کو بلند کیا جائے اور ان کی تعمیر کی جائے۔ ان کو بلند کرنے کے اذن سے مراد ان کو تعمیر کرنے کا حکم دینا ہے کہ وہ اس حکم پر عمل کریں۔ چناچہ یہ گھر قائم کردیئے گئے ہیں ‘ بلند ہیں اور پاک اور ستھرے ہیں۔ ان کا منظر اس کائنات کے منظر لے مشابہ ہے جہاں نور ربی پھیلا ہوا ہے۔ ان گھروں کی بلندی اس لیے ہے کہ یہاں اللہ کا نام لیا جائے۔

ویذکر فیھا اسمہ (24 : 36) ” اس میں اللہ کا نام یاد کیا جائے “۔ اور یہ پاک دل اللہ کے ساتھ وابستہ ہوں ‘ اللہ کی تسبیح کرتے ہوں۔ اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔ نماز بھی پڑھنے والے ہوں۔ اللہ کی راہ میں دینے والے بھی ہوں۔

(رجال لا تلھیھم۔۔۔۔۔۔۔۔ وایتآء الزکوۃ) (24 : 37) ” ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت صلوۃ سے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کردیتی “۔ تجارت اور خریدو فروخت کمانے اور دولت جمع کرنے کے ذرائع ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کاموں میں مشغول رہنے کے باوجود اللہ کے حقوق یعنی نماز اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی یعنی زکوۃ سے غافل نہیں ہوتے۔

(یخافون۔۔۔۔۔ والابصار) (24 : 37) ” وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرانے کی نوبت آجائے گی “۔ دل الٹے ہوں گے یعنی ان کے اندر خوف و ہر اس کی وجہ سے کوئی قرار نہ ہوگا ‘ اور یہ دل چونکہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اس لیے تجارت اور خیرد و فروخت انہیں اللہ کے ذکر سے روک نہیں سکتے۔

لیکن اس خوف کے ساتھ امید بھی وابستہ ہے۔ وہ مایوس نہیں ہوتے۔ وہ اللہ سے امیدیں باندھے ہوئے ہوتے ہیں۔

(لیجز یھم اللہ۔۔۔۔ من فضلہ) (24 : 38) ” تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بہترین اعمال کی جزا ان کو دے اور مزید فضل سے نوازے “۔ ان کی امید ناکام بھی نہیں رہتی ۔ اس لیے کہ واللہ یرزق من یشآء بغیر حساب (24 : 38) ” اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب دیتا ہے “ کیونکہ اللہ کے فضل کے کوئی حدود وقیود نہیں ہیں۔

آسمانوں اور زمین کے اندر روشن ہونے والے اس نور کے بالمقابل ‘ اللہ کے ان گھروں میں پائے جانے والے اس نور کے بالمقابل اہل ایمان کے دلوں میں روشن نور کے بالمقابل ‘ یہاں قرآن مجید ظلمات اور تاریکیوں کے ایک جہان کو بھی پیش کرتا ہے۔ اس جہان میں کوئی روشنی نہیں ہے۔ اس جہان میں کوئی امن و سکون نہیں ہے۔ ہر طرف خوف کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ اس میں ہر طرف بر بادی ہی بربادی ہے۔ کوئی خیر نہیں ہے۔ یہ اہل کفر کا جہان ہے اور ایک کافر کی دنیا ہے۔ اس کے خدوخال اور نگ ڈھنگ کچھ یوں ہیں۔

(والذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ سریع الحساب اوکظلمت۔۔۔۔۔۔۔۔ من نور (39 : 40) ”(اس کے برعکس) جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بےآب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا ‘ مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا ‘ بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا ‘ جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا ‘ اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔ یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ‘ کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے ‘ اس پر ایک اور موج ‘ اور اس کے اوپر بادل ‘ تاریکی پر تاریکی مسلط ہے ‘ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں “۔

یہاں قرآن کریم نے اہل کفر کی زندگی اور ان کے نظریات اور سرگرمیوں کی تصویر کشی دو طرح کی ہے۔ یہ دو مشاہد ہیں جو بطور تمثیل دیئے گئے ہیں۔

پہلی تمثیل ہے ان کے اعمال کی۔ یہ اعمال ایسے نظر آتے ہیں جس طرح چٹیل وسعی ریگستان میں سراب نظر آتا ہے۔ یہ سراب ٹیلے پانی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ پیاسا اس کے پیچھے بھگتا ہے۔ وہ توقع تو یہ کرتا ہے کہ سراب تک پہنچ کر پانی پئے گا لیکن وہ اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ وہاں تک پہنچ کر وہ وہاں کیا پانے والاہوتا ہے۔ یہاں منظر میں اچانک تبدیلی آجاتی ہے۔ یہ شخص جو سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے پیاسا ہے ‘ پانی کی تلاش میں ہے۔ اور غافل ہے اس معاملے سے جو اسے پیش آنے والا ہے۔ یہ جب منزل تک پہنچتا ہے تو وہاں اسے پانی نہیں ملتا۔ وہاں اسے وہ چیز ملتی ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اب یہ اس نئی حقیقت سے دو چار ہو کر خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ امیدیں کٹ جاتی ہیں۔

وجد اللہ عندہ (24 : 39) ” وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا “۔ وہ اللہ موجود ہے جس کا وہ منکر تھا اور یہ شخص اللہ وحدہ کا دشمن تھا۔ اس سراب میں اس کا منتظر اللہ تھا۔ اگر اس سراب میں یہ شخص اپنے کسی دنیاوی دشمن کو پائے تو پھر یہ سخت خوفزدہ ہوجائے لیکن یہ وہاں خالق کائنات کو پارہا ہے جو جبار ہے۔ بڑی قوت والا ہے اور سخت انتقام لینے والا بھی ہے۔ وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ پانی کے بجائے اس کا وہاں حساب و کتاب شروع ہوجاتا ہے۔

فوقہ حسابہ واللہ سریع الحساب (24 : 39) ” جس نے اس کا پورا پورا حساب چکادیا اور اللہ کو حساب لینے میں دیر نہیں لگتی “۔ یہ منظر سرعت اور ستابی کے ساتھ اچانک سرپرائز کو پیش کرتا ہے اور سرعت اور سراب کے ساتھ ‘ جلدی سے حساب چکا نا اور اچانک خوف میں مبتلا ہونا ‘ فنی ہم آہنگی ہے۔

دوسرا منظر یہ ہے کہ اس میں جھوٹی روشنی کے بعد اندھیرے چھا جاتے ہیں ‘ یوں کہ ایک انسان سمندری جہاز میں ہے ‘ یہ جہاز سمندر کی ظالم لہروں میں گھرا ہوا ہے ‘ خوفناک موج کے اوپر موج اٹھ رہی ہے ‘ ان کے اوپر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایسا خوفناک اندھیرا ہوگیا ہے کہ کوئی شخص اگر اپنے ہاتھ کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ دیکھ نہیں سکتا ‘ شدت خوف اور شدت تاریکی کی وجہ سے ۔

کفر کیا ہے ‘ یہ دراصل امواج زندگی میں ایک گھمبیر اندھیرا ہے۔ یہ اندھیرا اللہ کے نور کو نظروں سے اوجھل کردیتا ہے۔ یہ اس قدر گہری گمراہی ہے کہ اس میں انسان کو ہاتھ کی طرح قریبی دلائل بھی نظر نہیں آتے۔ کفر اس قدر خوفناک صورت حال کا نام ہے کہ اس میں انسان کے لیے سکون وقرار نہیں ہوتا۔

ومن لم یجعل اللہ لہ نورا فما لہ من نور (24 : 40) ” جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے کوئی نور نہیں ہے “۔ اللہ کا نور کیا ہے ‘ وہ ہدایت جو اللہ دل مومن میں ڈال دیتا ہے وہ اللہ کا نور ہے۔ یہ ہدایت انسان کے دل کو کھول دیتی ہے اور انسان کی فطرت نو اس میں قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ یوں انسانی قلب میں موجود نور الہی اس کائنات میں موجود نور الہی کے ساتھ یکجا ہوجاتا ہے اور جس شخص کا اتصال اس نور کائنات سے نہ ہوسکا تو وہ اندھیروں میں ہے اسے کچھ نظر نہ آئے گا۔ یہ ہمیشہ خوفناک حالات میں ہوگا جن میں کوئی امن نہ ہوگا۔ یہ شخص ایسی گمراہی میں پڑجائے گا جس سے اس کا نکلنا مشکل ہوگا اور اس کے اعمال کا انجام سراب ہوگا اور سراب کے پیچھے بھاگنے والا ظاہر ہے کہ ہلاک ہوجائے گا۔ کیونکہ کفار کے اعمال کے پیچھے کوئی نظر یہ اور کوئی نور نہیں ہوتا۔ نور ایمان کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا اس لیے کوئی اصلاحی کام بغیر ایمان کے نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی ہدایت ہی نور ہے اور اللہ کا ڈر ہی نور ہے۔

یہ تھے مناظر کفر و ضلالت اور مناظر تاریکی۔ اس کے بعد پھر اس کائنات میں ایمان اور نور کے مناظر آتے ہیں۔ یہاں پوری کائنات میں نور ہی کا عالم ہے۔ تمام موجودات اس نور میں تسبیح پڑھ رہی ہیں اور عالم نماز میں ہیں۔ انس ہوں ‘ جن ہوں ‘ زمین ہو یا افلاک ہوں۔ زندہ ہوں یا جمادات ہوں ‘ تمام کائنات تسبیح پڑھ رہی ہے اور تمام موجودات اس زمرے میں ہمقدم ہیں ‘ یوں کہ ایک دانا کا وجدان اس سے ارتعاش میں آجاتا ہے اور دل معرفت سے بھر جاتا ہے۔

آیت 36 فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗلا ”ان گھروں سے مراد مساجد ہیں اور انہیں بلند کرنے کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ مساجد کی تعمیر اس انداز اور ایسی جگہوں پر کی جائے کہ وہ پوری آبادی میں بہت نمایاں اور مرکزی حیثیت کی حامل ہوں اور دوسرے یہ کہ ان کے معنوی ترفعّ کو یقینی بنایا جائے اور ہر قسم کی معنوی نجاست سے انہیں پاک رکھا جائے۔یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ”یہ صاحب ایمان لوگ جن کے دلوں میں نور ایمان کی قندیلیں روشن ہیں وہ اللہ کے ان گھروں میں صبح و شام اس کا ذکر اور اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔

مومن کے دل سے مماثلت مومن کے دل کی اور اس میں جو ہدایت وعلم ہے اس کی مثال اوپر والی آیت میں اس روشن چراغ سے دی تھی جو شیشہ کی ہانڈی میں ہو اور صاف زیتون کے روشن تیل سے جل رہا ہے۔ اس لیئے یہاں اس کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کی توحید بیان کی جاتی ہے۔ جن کی نگہبانی اور پاک صاف رکھنے کا اور بیہودہ اقوال و افعال سے بچانے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ ابن عباس ؓ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ان ترفع کے معنی اس میں بیہودگی نہ کرنے کے ہیں۔ قتادہ ؒ فرماتے ہیں مراد اس سے یہی مسجدیں ہیں جن کی تعمیر، آبادی، ادب اور پاکیزگی کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ کعب ؒ کہا کرتے تھے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ زمین پر مسجدیں میرا گھر ہیں، جو بھی باوضو میرے گھر پر میری ملاقات کے لئے آئے گا، میں اس کی عزت کرونگا ہر اس شخص پر جس سے ملنے کے لئے کوئی اس کے گھر آئے حق ہے کہ وہ اس کی تکریم کرے (تفسیر ابن ابی حاتم) مسجدوں کے بنانے اور ان کا ادب احترام کرنے انہیں خوشبودار اور پاک صاف رکھنے کے بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جنہیں بحمد اللہ میں نے ایک مستقل کتاب میں لکھا ہے یہاں بھی ان میں سے تھوڑی بہت وارد کرتا ہوں، اللہ مدد کرے اسی پر بھروسہ اور توکل ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسی جیسا گھر جنت میں بناتا ہے (بخاری ومسلم) فرماتے ہیں نام اللہ کے ذکر کئے جانے کے لئے جو شخص مسجد بنائے اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔ (ابن ماجہ) حضور ﷺ نے حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور پاک صاف اور خوشبودار رکھی جائیں (ترمذی شریف) حضرت عمر ؓ کا فرمان ہے لوگوں کے لئے مسجدیں بناؤ جہاں انہیں جگہ ملے لیکن سرخ یا زردرنگ سے بچو تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں۔ (بخاری شریف) ایک ضعیف سند سے مروی ہے کہ جب تک کسی قوم نے اپنی مسجدوں کو ٹیپ ٹاپ والا، نقش ونگار اور رنگ روغن والا نہ بنایا ان کے اعلام برے نہیں ہوئے (ابن ماجہ) اس کی سند ضعیف ہے۔ آپ فرماتے ہیں مجھے مسجدوں کو بلند وبالا اور پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ابن عباس راوی حدیث فرماتے ہیں کہ تم یقینا مسجدوں کو مزین، منقش اور رنگ دار کروگے جیسے کہ یہود و نصاری نے کیا (ابو داؤد) فرماتے ہیں قیامت قارئم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر فخروغرور نہ کرنے لگیں (ابوداؤد وغیرہ)ایک شخص مسجد میں اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا آیا اور کہنے لگا ہے کوئی جو مجھے میرے سرخ رنگ کے اونٹ کا پتہ دے۔ آپ نے بددعا کی کہ اللہ کرے تجھے نہ ملے۔ مسجدیں تو جس مطلب کے لئے بنائی گئی ہیں، اسی کام کے لئے ہیں (مسلم) حضور ﷺ نے مسجدوں میں خریدوفروخت، تجارت کرنے سے اور وہاں اشعار کے گائے جانے سے منع فرمادیا ہے (احمد وغیرہ) فرمان ہے کہ جسے مسجد میں خریدو فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو گم شدہ جانور مسجد میں تلاش کرتا ہوا پاؤ تو کہو کہ اللہ کرے نہ ملے۔ (ترمذی) بہت سی باتیں مسجد کے لائق نہیں، مسجد کو راستہ نہ بنایا جائے، نہ تیر پھیلائے جائیں نہ کچا گوشت لایا جائے، نہ یہاں حد ماری جائے، نہ یہاں باتیں اور قصے کہے جائیں نہ اسے بازار بنایا جائے (ابن ماجہ) فرمان ہے کہ ہماری مسجدوں سے اپنے بچوں کو، دیوانوں کو، خیریدوفروخت کو، لڑائی جھگڑے کو اور بلند آواز سے بولنے کو اور حد جاری کرنے کو اور تلواروں کے ننگی کرنے کو روکو۔ ان کے دروازوں پر وضو وغیرہ کی جگہ بناؤ اور جمعہ کے دن انہیں خوشبو سے مہکا دو (ابن ماجہ) اس کی سند ضعیف ہے۔ بعض علماء نے بلا ضرورت کے مسجدوں کو گزر گاہ بنانا مکروہ کہا ہے۔ ایک اثر میں ہے کہ جو شخص بغیر نماز پڑھے مسجد سے گزر جائے، فرشتے اس پر تعجب کرتے ہیں۔ ہتھیاروں اور تیروں سے جو منع فرمایا یہ اس لئے کہ مسلمان وہاں بکثرت جمع ہوتے ہیں ایسان نہ ہو کہ کسی کے لگ جائے۔ اسی لئے حضور ﷺ کا حکم ہے کہ تیر یا نیزہ لے کر گزرے تو اسے چاہئے کہ اس کا پھل اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ کسی کو ایذاء نہ پہنچے۔ کچا گوشت لانا اس لئے منع ہے کہ خوف ہے اس میں سے خون نہ ٹپکے جیسے کہ حائضہ عورت کو بھی اسی وجہ سے مسجد میں آنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔ مسجد میں حد لگانا اور قصاص لینا اس لئے منع کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شخص مسجد کو نجس نہ کردے۔ بازار بنانا اس لئے منع ہے کہ وہ خریدوفروخت کی جگہ ہے اور مسجد میں یہ دونوں باتیں منع ہیں۔ کیونکہ مسجدیں ذکر اللہ اور نماز کی جگہ ہیں۔ جیسے کہ حضور ﷺ نے اس اعرابی سے فرمایا تھا، جس نے مسجد کے گوشے میں پیشاب کردیا تھا کہ مسجدیں اس لئے نہیں بنیں، بلکہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز کی جگہ ہے۔ پھر اس کے پیشاب پر ایک بڑا ڈول پانی کا بہانے کا حکم دیا۔ دوسری حدیث میں ہے اپنے بچوں کو اپنی مسجدوں سے روکو اس لئے کہ کھیل کود ہی ان کا کام ہے اور مسجد میں یہ مناسب نہیں۔ چناچہ فاروق اعظم ؓ جب کسی بچے کو مسجد میں کھیلتا ہوا دیکھ لیتے تو اسے کوڑے سے پیٹتے اور عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں کسی کو نہ رہنے دیتے۔ دیوانوں کو بھی مسجدوں سے روکا گیا کیونکہ وہ بےعقل ہوتے ہیں اور لوگوں کے مذاق کا ذریعہ ہوتے ہیں اور مسجد اس تماشے کے لائق نہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ ان کی نجاست وغیرہ کا خوف ہے۔ بیع وشرا سے روکا گیا کیونکہ وہ ذکر اللہ سے مانع ہے۔ جھگڑوں کی مصالحتی مجلس منعقد کرنے سے اس لئے منع کردیا گیا کہ اس میں آوازیں بلند ہوتی ہیں ایسے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں جو آداب مسجد کے خلاف ہیں۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ فیصلے مسجد میں نہ کئے جائیں اسی لئے اس جملے کے بعد بلند آواز سے منع فرمایا۔ سائب بن یزید کندی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں " میں مسجد میں کھڑا تھا کہ اچانک مجھ پر کسی نے کنکر پھینکا، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ تھے مجھ سے فرمانے لگے، جاؤ ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لاؤ، جب میں آپ کے پاس انہیں لایا تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا۔ تم کون ہو ؟ یا پوچھا کہ " تم کہاں کے ہو "؟ انہوں نے کہ " ہم طائف کے رہنے والے ہیں "۔ آپ نے فرمایا " اگر تم یہاں رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا تم مسجد نبوی میں اونچی اونچی آوازوں سے بول رہے ہو " ؟ (بخاری) ایک شخص کی اونچی آواز سن کر جناب فاروق اعظم ؓ نے فرمایا تھا۔ " جانتا بھی ہے تو کہاں ہے "۔ (نسائی) اور مسجد کے دروازوں پر وضو کرنے والے اور پاکیزگی حاصل کرنے کی جگہ بنانے کا حکم دیا۔ مسجد نبوی کے قریب ہی کنویں تھے جن میں سے پانی کھینچ کر پیتے تھے اور وضو اور پاکیزگی حصل کرتے تھے۔ اور جمعہ کے دن اسے خوشبودار کرنے کا حکم ہوا ہے کیونکہ اس دن لوگ بکثر جمع ہوتے ہیں۔ چناچہ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ہر جمعہ کے دن مسجد نبوی کو مہکایا کرتے تھے۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جماعت کی نماز انسان کی اکیلی نماز پر جو گھر میں یا دکان پر پڑھی جائے، پچیس درجے زیادہ ثواب رکھتی ہے، یہ اس لئے کہ جب وہ اچھی طرح سے وضو کرکے صرف نماز کے ارادے سے چلتا ہے تو ہر ایک قدم کے اٹھانے پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور جب نماز پڑھ چکتا ہے پھر جت تک وہ اپنی نماز کی جگہ رہے، فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرما اور اس پر رحم کر۔ اور جب تک جماعت کے انتظار میں رہے نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے "۔ دار قطنی میں ہے مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے سوا نہیں ہوتی۔ سنن میں ہے اندھیروں میں مسجد جانے والوں کو خوشخبری سنادو کہ انہیں قیامت کے دن پورا پورا نور ملے گا۔ یہ بھی مستحب ہے کہ مسجد میں جانے والا پہلے اپنا داہنا قدم رکھے اور یہ دعا پڑھے۔ بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ جب مسجد میں آتے یہ کہتے دعا (اعوذ باللہ العظیم وبوجہہ الکریم و سلطانہ القدیم من الشیطان الرجیم) فرمان ہے کہ جب کوئی شخص یہ پڑھتا ہے شیطان کہتا ہے میرے شر سے یہ تمام دن محفوظ ہوگیا۔ مسلم میں حضور ﷺ کا فرمان مروی ہے کہ تم میں سے کوئی مسجد میں جانا چاہے یہ دعا پڑھے (اللہم افتح لی ابو ابک رحمتک) اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو اللہ کے نبی ﷺ پر سلام بھیجے پھر دعا (اللہم افتح لی ابو اب رحمتک) پڑھے اور جب مسجد سے نکلے تو نبی ﷺ پر سلام بھیج کر دعا (اللم اعصمنی من الشیطان الرجیم) پڑھے۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ جب آپ مسجد میں آتے تو درود پڑھ کر دعا (اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب رحمتک) پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود کے بعد دعا (اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب فضلک) پڑھتے۔ اس حدیث کی سند متصل نہیں۔ الغرض یہ اور ان جیسی اور بہت سی حدیثیں اس آیت کے متعلق ہیں جو مسجد اور احکام مسجد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اور آیت میں ہے تم ہر مسجد میں اپنا منہ سیدھا رکھو۔ اور خلوص کے ساتھ صرف اللہ کو پکارو۔ ایک اور آیت میں ہے کہ مسجدیں اللہ ہی کی ہیں۔ اس کا نام ان میں لیا جائے یعنی کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے۔ صبح شام وہاں اس اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں آصال جمع ہے اصیل کی، شام کے وقت کو اصیل کہتے ہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں جہاں کہیں قرآن میں تسبیح کا لفظ ہے وہاں مراد نماز ہے۔ پس یہاں مراد صبح کی اور عصر کی نماز ہے۔ پہلے پہلے یہی دو نمازیں فرض ہوئی تھیں پس وہی یاد دلائی گئیں۔ ایک قرأت میں یسبح ہے اور اس قرأت پر آصال پر پورا وقف ہے اور رجال سے پھر دوسری بات شروع ہے گویا کہ وہ مفسر ہے فاعل محذوف کے لئے۔ تو گویا کہا گیا کہ وہاں تسبیح کون کرتے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ ایسے لوگ اور یسبح کی قرأت پر رجال فاعل ہے تو وقف فاعل کے بیان کے بعد چاہئے۔ کہتے ہیں رجال اشارہ ہے ان کے بہترین مقاصد اور ان کی پاک نیتوں اور اعلی کاموں کی طرف یہ اللہ کے گھروں کے آباد رکھنے والے ہیں۔ اس کی عبادت کی جگہیں ان سے زینت پاتی ہیں، توحید اور شکر گزری کرنے والے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ 23؀ۙ) 33۔ الأحزاب :23) ، یعنی مومنوں میں ایسے بھی مرد ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کئے تھے انہیں پورے کر دکھایا۔ ہاں عورتوں کی بہترین مسجد گھر کے اندر کا کونا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کی بیوی صاحبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا حضور ﷺ میں آپ کے ساتھ نماز ادا کرنا بہت پسند کرتی ہوں۔ آپ نے فرمایا یہ مجھے بھی معلوم ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تیری اپنے گھر کی نماز صحن کی نماز سے اور حجرے کی نماز گھر کی نماز سے اور گھر کی کوٹھڑی کی نماز حجرے کی نماز سے افضل ہے۔ اور محلے کی مسجد سے افضل گھر کی نماز ہے اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے افضل ہے۔ یہ سن کر مائی صاحبہ نے اپنے گھر کے بالکل انتہائی حصے میں ایک جگہ کو بطور مسجد کے مقرر کرلیا اور آخری گھڑی تک وہیں نماز پڑھتی رہیں۔ ؓ۔ ہاں البتہ عورتوں کے لئے بھی مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ضرور ہے۔ بشرطیکہ مردوں پر اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیں اور نہ خوشبو لگا کر نکلیں۔ صحیح حدیث میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو (بخاری مسلم وغیرہ) ابو داؤد میں ہے کہ عورتوں کے لئے ان کے گھر افضل ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ وہ خوشبو استعمال کر کے نہ نکلیں۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ آپ نے عورتوں سے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد آنا چاہے تو خوشبو کو ہاتھ بھی نہ لگائے "۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ مسلمان عورتیں صبح کی نماز میں آتی تھیں پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی چلی جاتی تھیں اور بوجہ رات کے اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ عورتوں نے یہ جو نئی نئی باتیں نکالیں ہیں اگر رسول اللہ ﷺ ان باتوں کو پالیتے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جیسے کہ بنو اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں۔ (بخاری مسلم)ایسے لوگ جنہیں خریدو فروخت یاد الہٰی سے نہیں روکتی۔ جیسے ارشاد ہے ایمان والو، مال واولاد تمہیں ذکر اللہ سے غافل نہ کر دے۔ سورة جمعہ میں ہے کہ جمعہ کی اذان سن کر ذکر اللہ کی طرف چل پڑو اور تجارت چھوڑ دو۔ مطلب یہ ہے کہ ان نیک لوگوں کو دنیا اور متاع آخرت اور ذکر اللہ سے غافل نہ کرسکتی، انہیں آخرت اور آخرت کی نعمتوں پر یقین کامل ہے اور انہیں ہمیشہ رہنے والا سمجھتے ہیں اور یہاں کی چیزوں کو فانی جانتے ہیں اس لئے انہیں چھوڑ کر اس طرف توجہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو، اس کی محبت کو، اس کے احکام کو مقدم کرتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے ایک مرتبہ تجارت پیشہ حضرات کو اذان سن کر اپنے کام کاج چھوڑ کر مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا یہ لوگ انہی میں سے ہیں۔ ابن عمر ؓ سے بھی یہی مروی ہے۔ ابو درداء ؓ فرماتے ہیں کہ میں سوداگری یا تجارت کروں اگرچہ اس میں مجھے ہر دن تین سو اشرفیاں ملتی ہوں لیکن میں نمازوں کے وقت یہ سب چھوڑ کر ضرور چلا جاؤں گا۔ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تجارت کرنا حرام ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم میں یہ وصف ہونا چاہئے، جو اس آیت میں بیان ہو رہا ہے۔ سالم بن عبداللہ نماز کے لئے جا رہے تھے۔ دیکھا کہ مدینہ شریف کے سوداگر اپنی اپنی دکانوں پر کپڑے ڈھک کر نماز کے لئے گئے ہوئے ہیں اور کوئی بھی دکان پر موجود نہیں تو یہی آیت پڑھی اور فرمایا یہ انہی میں سے ہیں جن کی تعریف جناب باری نے فرمائی ہے۔ اس بات کا سلف میں یہاں تک خیال تھا کہ ترازو اٹھائے تول رہے ہیں اور اذان کان میں پڑی تو ترازو رکھ دی اور مسجد کی طرف چل دئے فرض نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنے کا انہیں عشق تھا۔ وہ نماز کے اوقات کی ارکان اور آداب کی حفاظت کے ساتھ نمازوں کے پابند تھے۔ یہ اس لئے کہ دلوں میں خوف الہٰی تھا قیامت کا آنا برحق جانتے تھے اس دن کی خوفناکی سے واقف تھے کہ سخت تر گھبراہٹ اور کامل پریشانی اور بیحد الجھن کی وجہ سے آنکھیں پتھرا جائیں گی، دل اڑ جائیں گے، کلیجے دہل جائیں گے۔ جیسے فرمان ہے کہ میرے نیک بندے میری محبت کی بنا پر مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں محض اللہ کی رضاجوئی کے لئے کھلا رہے ہیں، ہمارا مقصد تم سے شکریہ طلب کرنے یا بدلہ لینے کا نہیں۔ ہمیں تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جب کہ لوگ مارے رنج وغم کے منہ بسورے ہوئے اور تیوریاں بدلے ہوئے ہوں گے۔ پس اللہ ہی انہیں اس دن کی مصیبتوں سے نجات دے گا اور انہیں تروتازگی بشاشت، ہنسی خوشی اور راحت وآرام سے ملا دے گا۔ اور ان کے صبر کے بدلے انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کی نیکیاں مقبول ہیں، برائیاں معاف ہیں ان کے ایک ایک عمل کا بہترین بدلہ مع زیادتی اور اللہ کے فضل کے انہیں ضرور ملنا ہے۔ جیسے فرمان ہے اللہ تعالیٰ بقدر ایک ذرے کے بھی ظلم نہیں کرتا۔ اور آیت میں ہے نیکی دس گناہ کردی جاتی ہے۔ اور آیت میں ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے گا، اسے اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر زیادہ سے زیادہ کر کے دے گا۔ فرمان ہے آیت (يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ02601) 2۔ البقرة :261) وہ بڑھا دیتا ہے جس کے لئے چاہے۔ یہاں فرمان ہے وہ جسے چاہے بےحساب دیتا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس ایک مرتبہ دودھ لایا گیا، آپ نے اپنی مجلس کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو پلانا چاہا مگر سب روزے سے تھے۔ اس لئے آپ ہی کے پاس پھر برتن آیا۔ آپ نے یہی آیت یخافون سے پڑھی اور پی لیا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہونگے، اللہ تعالیٰ ایک منادی کو حکم دے گا جو باآواز بلند ندا کرے گا جسے تمام اہل محشر سنیں گے کہ آج سب کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ پھر فرمائے گا وہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے جنہیں لین دین اور تجارت ذکر اللہ سے روکتا نہ تھا پس وہ کھڑے ہوجائیں گے اور وہ بہت ہی کم ہوں گے سب سے پہلے انہیں حساب سے فارغ کیا جائے گا۔ آپ فرماتے ہیں ان کی نیکیوں کا اجر یعنی جنت بھی انہیں ملے گی اور مزید فضل الہٰی یہ ہوگا کہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ احسان کئے ہوں گے اور وہ مستحق شفاعت ہونگے ان سب کی شفاعت کا منصب انہیں حاصل ہوجائے گا۔

آیت 36 - سورہ نور: (في بيوت أذن الله أن ترفع ويذكر فيها اسمه يسبح له فيها بالغدو والآصال...) - اردو