سورہ نور (24): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Noor کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النور کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نور کے بارے میں معلومات

Surah An-Noor
سُورَةُ النُّورِ
صفحہ 354 (آیات 32 سے 36 تک)

وَأَنكِحُوا۟ ٱلْأَيَٰمَىٰ مِنكُمْ وَٱلصَّٰلِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَآئِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا۟ فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌ وَلْيَسْتَعْفِفِ ٱلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ ۗ وَٱلَّذِينَ يَبْتَغُونَ ٱلْكِتَٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَءَاتُوهُم مِّن مَّالِ ٱللَّهِ ٱلَّذِىٓ ءَاتَىٰكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا۟ فَتَيَٰتِكُمْ عَلَى ٱلْبِغَآءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا۟ عَرَضَ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ ٱللَّهَ مِنۢ بَعْدِ إِكْرَٰهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكُمْ ءَايَٰتٍ مُّبَيِّنَٰتٍ وَمَثَلًا مِّنَ ٱلَّذِينَ خَلَوْا۟ مِن قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ۞ ٱللَّهُ نُورُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِۦ كَمِشْكَوٰةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ ٱلْمِصْبَاحُ فِى زُجَاجَةٍ ۖ ٱلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَٰرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِىٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِى ٱللَّهُ لِنُورِهِۦ مَن يَشَآءُ ۚ وَيَضْرِبُ ٱللَّهُ ٱلْأَمْثَٰلَ لِلنَّاسِ ۗ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ فِى بُيُوتٍ أَذِنَ ٱللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا ٱسْمُهُۥ يُسَبِّحُ لَهُۥ فِيهَا بِٱلْغُدُوِّ وَٱلْءَاصَالِ
354

سورہ نور کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نور کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waankihoo alayama minkum waalssaliheena min AAibadikum waimaikum in yakoonoo fuqaraa yughnihimu Allahu min fadlihi waAllahu wasiAAun AAaleemun

(وانکحوا الایامی۔۔۔۔۔۔۔۔ واسع علیم ولیستعفف الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفور رحیم ) ”

جنسی میلان کی تسکین کا بہترین طریقہ شادی ہے۔ اس گہری خواہش کے اندر فطرت اور قدرت کا یہی راز ہے کہ لوگ نسل انسانی کے تسلسل کے مشکل کام کو خوشی خوشی سرانجام دیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم شادی کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں دور کردیں تاکہ زندگی فطری انداز کے مطابق سادگی سے چلتی رہے۔ کسی خاندان کی تشکیل کے لیے پہلی رکاوٹ مالی رکاوٹ ہے اس طرح لوگ محفوظ اور قلعہ بند نہیں ہو سکتے۔ اسلام چونکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے اس لیے وہ عفت اور پاکیزگی کو تب ہی لازم کرتا ہے جب اس کے لیے اسباب بھی فراہم کر دے اور سوسائٹی کے تمام افراد کو فراہم کردے تاکہ جو لوگ معتدل اور فطری راستے سے انحراف کرتے ہیں وہ اس کے لیے مجبور نہ ہوں بلکہ ان کے سامنے جنسی تسکین کا صحیح راستہ موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام حکم دیتا ہے کہ ایسے نوجوانوں کے لیے شادی کی راہ ہموار کی جائے جو شادی شدہ نہ ہوں۔

(وانکحوا۔۔۔۔۔۔۔۔ واسع علیم) (24 : 32) ” تم میں سے جو لوگ مجروہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ‘ ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا ‘ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے “۔ اور ایامیٰ وہ لوگ ہیں جن کا جوڑ نہ ہو یعنی عورت کا خاوند نہ ہو اور مرد کی بیوی نہ ہوائو وہ مجروہوں۔ یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو آزاد ہیں۔ اس کے بعد غلاموں کا ذکر خصوصیت سے کردیا گیا ہے۔

(والصلحین۔۔۔۔۔۔ وامآ ئکم) (24 : 32) ” اور تمہارے لونڈی اور غلاموں میں سے جو صالح ہوں “۔ لیکن یہ لوگ ایسے ہیں جن کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی۔

ان یکونوا فقرآء یغنھم اللہ (24 : 32) ” یہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا “۔ یہ حکم اسلامی سوسائٹی کے لیے ہے کہ وہ شادی کا انتظام کردے اور جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ یہ مستحب امر ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ کے دور میں ایسے مجرد لوگ تھے جنہوں نے شادی نہ کی تھی۔ اگر یہ حکم فرض ہوتا تو حضور اکرم ﷺ ضرور ان کی شادی کا انتظام فرماتے۔

ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ حکم واجبی ہے ‘ اس معنی میں نہیں کہ کسی مجرد کو شادی پر مجبور کیا جائے بلکہ اس معنی میں کہ اسلامی سوسائٹی کے لیے واجب ہے کہ جو لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اس معاملے میں اعانت کی جائے تاکہ وہ شادی کے قلبعے میں محفوظ ہو سکیں۔ فحاشی اور بدکاری میں مبتلا ہونے سے یہ عملی بچائو ہے اور صرف اس صورت میں معاشرے کو بعدعملیوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ اگر معاشرے کو بد عملی سے بچانا فرض ہے تو اس فرض کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرنا بھی فرض ہوگا۔

اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اسلام چونکہ ایک مکمل اور مربوط نظام زندگی ہے اس لیے وہ ایک ایسا اقتصادی نظام زندگی وضع کرتا ہے کہ اس میں ہر شخص کے لیے معاشی جدوجہد کرنے کے مساوی مواقع موجود ہوں تاکہ کسی شخص کو اپنی ضرورت کے لیے بیت المال کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ بعض استثنائی حالات میں بیت المال کو بھی امداد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسلامی اقتصادی نظام میں بیناید اصول تو یہ ہے کہ ہر شخص اپنے کسب سے کھائے۔ سوسائٹی پر جو فریضہ عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ سب کے لیے کام کے مواقع فراہم کرے۔ رہی یہ بات کہ لوگوں کو بیت المال سے امدادی جائے تو یہ محض استثنائی صورتوں میں ہوتا ہے۔

اگر لوگ اسلامی نظام کے مطابق سعی کرتے ہیں اور زندگی گزارتے ہیں اور پھر بھی ایسے حالات آجائیں کہ اسلامی معاشرے میں محض معاشی مجبوری کی وجہ سے مجرد نوجوان ‘ مرد اور عورتیں پائی جاتی ہوں تو پھر اسلامی سوسائٹی اور اسلامی حکومت پر فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو مالی امداد دے۔ یہی حکم غلام مردوں اور لونڈیوں کا بھی ہے کہ ان کے مالکان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کی شادی کا انتظام کریں اگر وہ ایسا کرسکتے ہوں۔

اسلامی سوسائٹی کا یہ بھی فرض ہے کہ دیکھے کہ اگر لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں ‘ مرد ہوں یا عورتیں ہوں لیکن ان کی راہ میں غربت رکاوٹ بنی ہوئی ہے تو سوسائٹی ان رکاوٹوں کو دور کرے کیونکہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ ان کو غنی کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ مفت کا طریقہ اختیار کریں۔

(ان یکونوا۔۔۔۔۔۔ من فضلہ) (24 : 32) ” اگر وہ غریب ہیں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا “۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ پر ان کا حق ہے کہ اللہ ان کی مدد کرے۔ مجاہد فی سبیل اللہ کی اللہ مدد کرتا ہے۔ وہ غلام جو اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لیے مالی ادائیگی کا معاہدہ کرتا ہے اور وہ شادی کرنے والا جو اپنے آپ کو بری راہوں سے بچانے والا ہو “۔ (ترمذی و نسائی)

اور جب تک مجرد لوگوں کے حالات درست نہیں ہوتے اور اسلامی سوسائٹی ان کے لیے کوئی انتظام نہیں کرتی ‘ اللہ ان کو حکم دیتا ہے کہ وہ عفت اور پاکیزگی کا دامن تھامے رکھیں۔

(ولیستعفف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من فضلہ) (24 : 33) ” اور جو لوگ نکاح کا موقعہ نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے “۔ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص پر تنگی نہیں کرتا ‘ کیونکہ اللہ تو وسیع علم رکھتا ہے۔

واللہ واسع علیم ” اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے “۔ یوں اسلام اس مسئلے کا نہایت ہی عملی حل تلاش کرتا ہے۔ ہر شخص جو شادی کرسکتا ہے اس کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ شادی کرے۔ اگر چہ وہ مالی لحاظ سے کمزور ہو کیونکہ مالی مسئلہ حل کرنے والا اللہ ہے “۔

اس وقت اسلامی نظام میں مجبوراً غلامی کا ادارہ موجود تھا اور غلاموں کے اندر چونکہ اخلاقی قدریں کمزور ہوتی ہیں اس لیے اسلامی معاشرے کے اندر موجود غلام معاشرے کے اندر اعلیٰ اخلاقی معیار کے قیام میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ غلامی کا ادارہ اسلام نے ابتداء میں اس لیے قائم رکھا ہوا تھا کہ اہل کفر کے ہاں غلام موجود تھے اور جو مسلمان ان کے ہاتھ آجاتے تھے وہ بھی غلام بنا لیے جاتے تھے ۔ موجودہ پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے جنسی مسئلہ کو حل کرنے کی سعی کی یعنی یہ کہ غلاموں کی شادیاں کی جائیں۔ خود غلامی کو اپنے طور پر ختم کرنے کے لیے مکاتبت کا طریقہ نکالا یوں کہ اگر کوئی غلام مالی معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کرے تو مالک پر اسے قبول کرنا لازم ہے۔

(والذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیرا) (24 : 33) ” اور تمہارے مملوکوں میں سے ہر مکاتبت کی درخواست کریں ‘ ان سے مکاتبت کرلو ‘ اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے “۔ اس کے بارے میں فقہاء کی آزاء مختلف ہیں کہ آیا یہ واجب ہے یا نہیں۔ یعنی اگر غلام پیشکش کرے تو مکاتبت کرنا لازم ہے یا مالک کے اختیار میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ واجب ہے کیونکہ وجوب کا قول ہی اسلام کی مجموعی پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسلام انسان کو ایک مکرم مخلوق سمجھتا ہے اور غلام کا وجود شرافت انسانی کے خلاف ہے۔ معاہدہ کرنے کے بعد غلام جو کمائے گا وہ مالک کا ہوگا تاکہ معاوضہ معاہدہ کی رقم کی ادائیگی ہو سکے اور اسی طرح زکوۃ کی مد سے بھی ایسے غلام کی امداد ضروری ہوجاتی ہے تاکہ جلد از جلد یہ غلام آزادی حاصل کرسکے۔

(واتو۔۔۔۔۔ اتکم) (24 : 33) ” اور اس کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے “۔ اس شرط پر کہ مالک یہ سمجھے کہ اس میں بھلائی ہے۔ خیر سب سے پہلے اسلام ہے۔ اس کے بعد خیر یہ ہے کہ غلام کمان ی کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ نہ ہو کہ آزادی کے بعد وہ لوگوں سے بھیگ مانگتا پھرے۔ بعض اوقات وہ اخلاق سے گرے ہوئے ذرائع معیشت بھی اختیار کرسکتا ہے جن سے وہ صرف اس قدر کما سکتا ہو جس سے اس کی زندگی قائم رہ سکے۔ اسلام چونکہ ایک مکمل اور ہم آہنگ نظام ہے اس لیے وہ حقیقی صورت حال کو بھی پیش نظر رکھتا ہے اس کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ یہ شعور ہوجائے کہ ایک غلام آزاد ہوگیا۔ محض عنوان اور نام اسلام میں اہمیت نہیں رکھتا۔ اسلام حقیقت ۔۔۔۔۔۔ کو دیکھتا ہے کہ آیا فی الواقع یہ غلام آزادی کے بعد معاشرے کے اندر کوئی تعمیری کردار ادا کرسکے گا یا نہیں۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب یہ شخص کچھ کما سکے ۔ لوگوں پر بوجھ نہ بن جائے اور نہ گندے وسائل رزق اختیار کرے۔ وہ ایسی چیزیں فروخت کرنا شروع کردے جو آزادی سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ (مثلاً عصمت فروشی) جبکہ اسے آزاد اس لیے کیا جارہا ہے کہ اس سے معاشرہ پاک ہو نہ یہ کہ اس کے ذریعہ معاشرہ گندہ ہو اور اس کا یہ فعل معاشرے کے لیے زیادہ سخت مصیبت ہو۔ (دور جدید میں بین الاقوامی معاہدات کی وجہ سے چونکہ غلامی ختم ہوگئی ہے اس لیے اب عملاً اسلام میں بھی غلامی نہیں رہے گی) ۔

اسلامی معاشرے میں غلامی سے بھی خطرناک بیماری اس بات کو سمجھا جاتا ہے کہ غلاموں کو عصمت فروشی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اہل جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ جس کی کوئی لونڈی ہوتی وہ اسے یہ پیشہ کرنے دیتا اور اس پر ٹیکس عائد کردیتا اور یہ پیشہ آج تک دنیا میں ذرائع ہے۔ اسلام نے چونکہ اسلامی سوسائٹی کو ہر قسم کے زنا سے پاک کرنے کا حکم دیا ھتا اس لیے ‘ اس قسم کے زنا کا ذکر قرآن نے خصوصیت کے ساتھ کیا۔

(ولا تکرھوا۔۔۔۔۔۔۔ غفور رحیم) (24 : 33) ” اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں۔ اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لیے غفور و رحیم ہے “۔ اس آیت کے ذریعے ان لوگوں کو منع کردیا گیا جو اپنی لونڈیوں کو اس پیشہ پر مجبور کرتے تھے اور ان کو تنبیہ کردی گئی کہ وہ اس قسم کے خبیث ذریعوں سے دنیا کی دولت جمع نہ کریں۔ جن لونڈیوں کو اس طرح مجبور کردیا گیا ہو ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ ان کے گناہ بخش دیئے جائیں گے کیونکہ اس صورت میں وہ مجبور تھیں۔ سعدی کہتے ہیں کہ یہ آیت عبد اللہ ابن ابی ابن السلول کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ منافقین کا رئیس تھا۔ اس کی ایک لونڈی تھی جس کا نام ” معاذہ “ تھا۔ اس کا قاعدہ یہ تھا کہ اس کا کوئی مہمان آتا تو یہ اس لونڈی کو اس کے پاس بھیج دیتا ‘ جس میں اس کے دو مطلب ہوتے۔ ایک یہ کہ وہ شخص کوئی انعام دے اور دوسرا یہ کہ اس طرح وہ مہمان کا اکرام کرتا تھا۔ یہ لونڈی حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئی اور اس نے اس بات کی شکایت کی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اس لونڈی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اس پر عبد اللہ ابن ابی ابن السلول نے اپنی قوم کو پکارا کہ کون ہے جو ہمیں محمد ﷺ سے چھڑائے۔ اب اس نے ہماری مملوکات پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

یہ اقدام کہ لونڈیوں کو بدکاری کے لیے استعمال نہ کیا جائے اسلامی نظام کے ان اقدامات میں سے ایک ہے ‘ جن کے ذریعے اسلامی عاشرے کو بدکاری سے پاک کیا گیا تھا اور جنسی تسکین کے تمام غیر فطری اور گندے راستوں کو بند کردیا گیا تھا اس لیے کہ بدکاری کا پیشہ اگر موجود ہو تو کئی لوگ اس کی سوہلت کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوگا تو لوگ پھر شادی کر کے پاک زندگی گزارنا چاہیں گے۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس پیشے کی موجودگی شرفاء کے گھروں میں امن وامان کی ضمانت ہے۔ کیونکہ اگر نکاح مشکل ہوجائے تو پھر انسان اس گندے راہ ہی سے اپنی فطری ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ اگر یہ راستہ جائز نہ رکھا جائے تو پھر بھیڑیئے شریف لوگوں کی عزت سے کھیلنے لگیں گے۔

جو لوگ اس لائن پر سوچتے ہیں وہ دراصل سبب اور مسبب کے تعلق کو الٹ رہے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ لوگوں کے جنسی میلانات کو پاک رکھا جائے اور انہیں اس طرح منظم کیا جائے کہ وہ سلسلہ حیات کے تسلسل کا سبب بنیں۔ یہ فریضہ ہر سوسائٹی اکہو کہ وہ اپنے اندر ایسا معاشی نظام جاری کرے جس کے ذریعہ سے ہر شخص اس قابل ہو کہ وہ شادی کے بندھن میں باندھا جاسکے۔ اگر پھر بھی کسی کے لیے نکاح میں مشکلات ہوں تو ایسے واقعات کا خصوصی علاج کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کوئی بھی اس گندے پیشے پر مجبور نہ ہوگا اور صورت حال یہ نہ ہوگی کہ ہر جگہ گندگی پائی جائے ‘ گلی گندگی کا ایک ڈھیر ہو اور اس پر سے جو کوئی گزرے وہاں گندگی ڈال دے اور سوسائٹی اسے دیکھ رہی ہو۔

کسی ملک کا اقتصادی نظام ہی ایسی گندگیوں کو ختم کرسکتا ہے اس طرح کہ ایسی گندگی کسی جگہ جمع نہ وہ۔ یہ صورت نہ ہو کہ محض اقتصادی وجوہات سے اس گندگی کے لیے جواز فراہم ہو۔ انسانوں کے لیے غلاظت کے ڈھیر فراہم ہوں۔

یہ ہے وہ پالیسی جو اسلام معاشرے کی تطہیر کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی بھی معاشرے میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ زیمن آسمان میں بدل جاتی ہے اور تمام انسانوں کی نظر بلند مقاصد کے لیے بلند افق پر ہوتی ے۔ وہ اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں اور اس سے ان کے آفاق روشن ہوتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں ان سے مکاتبت کر لو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے، اور ان کو اُس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اور اپنی لونڈیوں کو ا پنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں، اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جبر کے بعد اللہ اُن کے لیے غفور و رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WalyastaAAfifi allatheena la yajidoona nikahan hatta yughniyahumu Allahu min fadlihi waallatheena yabtaghoona alkitaba mimma malakat aymanukum fakatiboohum in AAalimtum feehim khayran waatoohum min mali Allahi allathee atakum wala tukrihoo fatayatikum AAala albighai in aradna tahassunan litabtaghoo AAarada alhayati alddunya waman yukrihhunna fainna Allaha min baAAdi ikrahihinna ghafoorun raheemun

اردو ترجمہ

ہم نے صاف صاف ہدایت دینے والی آیات تمہارے پاس بھیج دی ہیں، اور ان قوموں کی عبر ت ناک مثالیں بھی ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں، اور وہ نصیحتیں ہم نے کر دی ہیں جو ڈرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad anzalna ilaykum ayatin mubayyinatin wamathalan mina allatheena khalaw min qablikum wamawAAithatan lilmuttaqeena

اس سبق پر اب یہ آخری تبصرہ آتا ہے جو اس کے موضوع کے ساتھ خوب متناسب ہے۔

(ولقد۔۔۔۔۔۔ للمتقین) (34)

یہ آیات ایسی ہیں جو بات کو کھول کھول کر بتاتی ہیں۔ ان کے اندر کوئی پیچیدگی اور مشکل نہیں ہے کہ ان کو سمجھا نہ جاسکے۔ یا ان کے اندر جو مستحکم نظام زندگی تجویز ہوا ہے وہ کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔ یہ نظام ایسا ہے کہ اس کی صحت پر گزری ہوئی اقوام کے تجربات بھی شہادت دیتے ہیں اور قرآن کریم نے ایسی اقوام کی تاریخ بیان بھی کی ہے۔ پھر دنیا میں ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ ایک اعلیٰ ترقی یافتہ اور پاک و صاف سوسائٹی قائم ہو جو خدا خوفی پر مبنی ہو۔ اسلام ایسا ہی نظام زندگی ہے۔

اس پورے سبق میں جو فیصلے اور جو احکام وارد ہوئے ہیں وہ اس لقیب اور تبصرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کے دلوں کے اندر خدا کا خوف اور خدا سے تعلق پیدا کیا جائے۔

اردو ترجمہ

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، (اِس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں) اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu nooru alssamawati waalardi mathalu noorihi kamishkatin feeha misbahun almisbahu fee zujajatin alzzujajatu kaannaha kawkabun durriyyun yooqadu min shajaratin mubarakatin zaytoonatin la sharqiyyatin wala gharbiyyatin yakadu zaytuha yudeeo walaw lam tamsashu narun noorun AAala noorin yahdee Allahu linoorihi man yashao wayadribu Allahu alamthala lilnnasi waAllahu bikulli shayin AAaleemun

درس نمبر 154 ایک نظر میں

اس سورة کے دونوں سابق اسباق میں انسان کی ان مادی خواہشات کا علاج کیا گیا تھا جو انسانی شخصیت کی طبیعی خواہشات ہیں اور انسانی شخصیت پر ان کی گہری گرفت ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ان خواہشات کو پاک و صاف کیا جائے اور ان کو نورانی افق تک بلند کیا جائے۔ گوشت و پوست کی شہوتوں ‘ آنکھوں اور شرمگاہوں کی خواہشتات۔ ان باتوں کی تشیر اور تنقید۔ اس سلسلے میں پیاد ہونے والے غضب ‘ اشتعال اور دشمنی کے مسائل کو حل کیا گیا تھا اور ہدایات دی گئی تھیں۔

یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسلامی معاشرے میں فحاشی کے پھیلانے سے اجتناب کیا جائے۔ عملی زندگی اور انسان کے اقوال میں فحاشی کی ممانعت کی گئی۔ ان امور کے انسداد کے سلسلے میں سزاد ہی میں بھی سخت تشدید کی گئی۔ حد زنا اور حد قزف کے سخت قوانین بنائے گئے۔ پھر بےخیر اور پاکدامن شادی شدہ عورتوں پر الزام اور بہتان کا نمونہ پیش کر کے سمجھا یا گیا۔ ان امور کے لیے انسدادی قوانین بھی بنائے گئے اور اخلاقی ہدایات بھی دی گیں۔ غض بصر اور استیذان کے قواعد نافذ کیے گئے۔ تمام ایسے امور سے منع کیا گیا جن سے فتنے میں پڑنے کے امکانات ہو سکتے تھے یا شہوت کے اندر ہیجان پیدا ہونے کا امکان تھا۔ پھر شادی کرنے کی ترغیب ‘ جسم فروشی کی ممانعت ‘ غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب یہ سب امور اس بات سے تعلق رکھتے ہیں کہ گوشت اور خون کے ہیجانات کو فرد کیا جائے اور لوگوں کے اندر پاکیزگی کا شعور ‘ ضبط نفس اور صفائی اور نورانیت اور روحانیت کی طرف بڑھنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔

افک کے واقعہ کے بعد سوسائٹی کے اندر غیظ و غضب ‘ دشمنی اور کدورت کے جو آثار رہ گئے تھے ان سب کو منانے کی کوشش کی گئی اور نفوس مومنین کے اندر جو قلق اور بےچینی پیدا ہوگئی تھی اور جس کی وجہ سے اعلیٰ انسانی پیمانے متزلزل ہوگئے تھے ان کا علاج کیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ کو پوری طرح اطمینان ہوگیا اور ان کی بےچینی دور ہوگئی۔ حضرت عائشہ ؓ نہ صرف راضی اور مطمئن ہوگئی بلکہ خوش ہوگئی۔ حضرت ابوبکر ؓ بھی مطمئن اور پر سکون ہوگئے۔ صفوان ابن معطل ایک عظیم بوجھ کے نیچے سے نکل آئے۔ تمام اہل اسلام کے شبہات دور ہوگئے اور جن لوگوں نے اس واقعہ میں غلط باتیں کی تھیں انہوں نے رجوع کر کے توبہ کرلی۔ سب لوگوں کے شبہات دور ہوگئے اور اللہ کے فضل و کرم اور ہدایت و رحمت کی بارش سب پر ہوگئی۔ اس تعلیم و تہذیب اور اس ہدایت و رہنمائی کے ذریعے نفس انسانی کو پاک و صاف کر کے منو کردیا گیا۔ اب اس کی نظریں اس نئی روشنی کی سمت میں بلند افق پر گئیں اور زمین و آسمان میں ہر سو اہل ایمان کو نور ربی نظر آنے لگا۔ اللہ نے اہل اسلام کو یہ استعداد دی کہ وہ آفاق کا ئنات میں سے اس نورانیت کو اخذ کرسکیں۔

درس نمبر 154 ایک نظر میں

اس سورة کے دونوں سابق اسباق میں انسان کی ان مادی خواہشات کا علاج کیا گیا تھا جو انسانی شخصیت کی طبیعی خواہشات ہیں اور انسانی شخصیت پر ان کی گہری گرفت ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ان خواہشات کو پاک و صاف کیا جائے اور ان کو نورانی افق تک بلند کیا جائے۔ گوشت و پوست کی شہوتوں ‘ آنکھوں اور شرمگاہوں کی خواہشتات۔ ان باتوں کی تشیر اور تنقید۔ اس سلسلے میں پیاد ہونے والے غضب ‘ اشتعال اور دشمنی کے مسائل کو حل کیا گیا تھا اور ہدایات دی گئی تھیں۔

یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسلامی معاشرے میں فحاشی کے پھیلانے سے اجتناب کیا جائے۔ عملی زندگی اور انسان کے اقوال میں فحاشی کی ممانعت کی گئی۔ ان امور کے انسداد کے سلسلے میں سزاد ہی میں بھی سخت تشدید کی گئی۔ حد زنا اور حد قزف کے سخت قوانین بنائے گئے۔ پھر بےخیر اور پاکدامن شادی شدہ عورتوں پر الزام اور بہتان کا نمونہ پیش کر کے سمجھا یا گیا۔ ان امور کے لیے انسدادی قوانین بھی بنائے گئے اور اخلاقی ہدایات بھی دی گیں۔ غض بصر اور استیذان کے قواعد نافذ کیے گئے۔ تمام ایسے امور سے منع کیا گیا جن سے فتنے میں پڑنے کے امکانات ہو سکتے تھے یا شہوت کے اندر ہیجان پیدا ہونے کا امکان تھا۔ پھر شادی کرنے کی ترغیب ‘ جسم فروشی کی ممانعت ‘ غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب یہ سب امور اس بات سے تعلق رکھتے ہیں کہ گوشت اور خون کے ہیجانات کو فرد کیا جائے اور لوگوں کے اندر پاکیزگی کا شعور ‘ ضبط نفس اور صفائی اور نورانیت اور روحانیت کی طرف بڑھنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔

افک کے واقعہ کے بعد سوسائٹی کے اندر غیظ و غضب ‘ دشمنی اور کدورت کے جو آثار رہ گئے تھے ان سب کو منانے کی کوشش کی گئی اور نفوس مومنین کے اندر جو قلق اور بےچینی پیدا ہوگئی تھی اور جس کی وجہ سے اعلیٰ انسانی پیمانے متزلزل ہوگئے تھے ان کا علاج کیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ کو پوری طرح اطمینان ہوگیا اور ان کی بےچینی دور ہوگئی۔ حضرت عائشہ ؓ نہ صرف راضی اور مطمئن ہوگئی بلکہ خوش ہوگئی۔ حضرت ابوبکر ؓ بھی مطمئن اور پر سکون ہوگئے۔ صفوان ابن معطل ایک عظیم بوجھ کے نیچے سے نکل آئے۔ تمام اہل اسلام کے شبہات دور ہوگئے اور جن لوگوں نے اس واقعہ میں غلط باتیں کی تھیں انہوں نے رجوع کر کے توبہ کرلی۔ سب لوگوں کے شبہات دور ہوگئے اور اللہ کے فضل و کرم اور ہدایت و رحمت کی بارش سب پر ہوگئی۔ اس تعلیم و تہذیب اور اس ہدایت و رہنمائی کے ذریعے نفس انسانی کو پاک و صاف کر کے منو کردیا گیا۔ اب اس کی نظریں اس نئی روشنی کی سمت میں بلند افق پر گئیں اور زمین و آسمان میں ہر سو اہل ایمان کو نور ربی نظر آنے لگا۔ اللہ نے اہل اسلام کو یہ استعداد دی کہ وہ آفاق کا ئنات میں سے اس نورانیت کو اخذ کرسکیں۔

درس نمبر 154 تشریح آیات

35۔۔۔۔۔ تا۔۔۔۔ 45

(اللہ نورالسموات والارض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نور علی نور) ” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو ‘ چراغ ایک فانوس میں ہو ‘ فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا ‘ اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی ‘ جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو۔ چاہے آگ ہیں کو نہ لگے ‘(اس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں) ۔

یہ ایک ایسی مثال ہے جو انسان کے محدود ادراک کے لیے ایک غیر محدود ذلت کے تصور کو قریب کرتی ہے اور ایک نہایت ہی چھوٹے نور کی مثال کو پیش کیا جاتا ہے جس کو انسانی تصور سمجھ سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اصل نور کا ادراک انسانی تصور کے لیے ممکن نہیں۔ نور کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کی جاتی ہے جبکہ انسانی ادراک نور کے ان آفاق کا احاطہ نہیں کرسکتا جو اس کی حدود سے وراء ہیں۔

اس پری کائنات کی وسعتوں سے ہم اب ایک طاق کی طرف آتے ہیں ‘ جو ایک دیوار میں ہے جہاں چراغ رکھا جاتا ہے ‘ اس طرح اس کی رشنی پورے کمرے کو روشن کرتی ہے۔ چراغ طاق میں ‘ چراغ ایک فانوس میں ‘ یہ شیشہ اس چراغ کو ہوا سے بچاتا ہے ‘ اس طرح اس کا نور صاف ہوجاتا ہے اور نورانیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ فانوس ایسا ہے جس طرح چمکتا ہوا تارہ ہوتا ہے۔ یہ فانوس بذات خود بھی صاف و شفاف و چمکدار پارے کی طرح ہے۔ یہاں مثال اور حقیقت کے درمیان ربط قائم ہوتا ہے۔ اصل اور نمونے کا فرق معلوم ہوجاتا ہے۔ تصور کو ایک چھوٹے سے فانوس سے ایک بڑے ستارے کی طرف لے جاتا ہے تاکہ انسانی سوچ کہیں اس چھوٹے سے نمونے تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ اس چھوٹے سے چراغ کی مثال تو اس حقیقت کی طرف اشارے کے لیے اختیار کی گئی ہے ‘ کوکب دری کی طرف اشارہ کر کے اب بیان پھر اسی چھوٹی سی مثال کی تشریح کی طرف آتا ہے۔

یوقد من شجرۃ مبرکۃ زیتونۃ (24 : 35) ” اور یہ چراغ زیتون کے ایک مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے “۔ اس دور تک زیتون کے تیل کی روشنی تمام روشنیوں سے صاف ترین روشن تھی۔ لیکن یہ مثال صرف اس لیے نہیں دی گئی کہ زیتون کے تیل کی روشنی سب سے زیادہ صاف ہوتی ہے۔ بلکہ زیتون کے درخت کو جو اپنا تقدس حاصل ہے اس کی طرف اشارہ مطلوب ہے کہ یہ درخت وادی مقدس طویٰ میں پیدا ہوتا ہے۔ عربوں کے اندر جو زیتون آتا تھا وہ طور کی وادی مقدس سے آتا تھا۔ قرآن مجید میں اس درخت کی طرف اشارہ موجود ہے۔

وشجرۃ تخرج من طور سینا تنبت بالدھن و صبغ للاکلین ” اور وہ درخت جو طور سینا پر پیدا ہوتا ہے ‘ جو تیل پیدا کرتا ہے جو کھانے والوں کے لیے اچھا سالن ہے “۔ یہ نہایت ہی طویل العمر درخت ہوتا ہے اور اس درخت کے تمام حصے انسانوں کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ اس کا تیل ‘ اس کی لکڑیاں ‘ اور اس کے پتے اور اس کے پھل سب کے سب مقید ہیں۔ اب بیان پھر اس چھوٹی سی مثال سے ذرا بلند ہوتا ہے اور اصل کی طرف ذہن کو موڑا جاتا ہے۔ یہ کوئی مخصوص درخت نہیں ہے۔ ” نہ شرقی ہے اور نہ غربی ہے “۔ اور نہ یہ محدود اور مشخص تیل ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا کوئی اور ہی تیل ہے۔

یکاد زیتھا یضی ولو لم تمسسہ نار (24 : 35) ” اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھتا ہے ‘ اگرچہ اس کو آگ نہ لگائی گئی ہو “۔ یعنی اس کے اندر نورانیت کوٹ کوٹ بھری ہوئی ہے۔ نور علی نور ہے۔ لفظ نور علی نور سے ہم ذات باری کے اعلیٰ نورانیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

یہ وہ خدائی نور ہے جس سے اس پوری کائنات کی ظلمتیں دور ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ نور ہے جس کی حقیقت تک انسانی دماغ نہیں پہنچ سکتا۔ بس یہ ایک کوشش ہے کہ دل اس کے ساتھ متعلق ہوں اور اس کے ادراک کے لیے سعی کریں اور اس کے دیکھنے کی امید رکھیں۔

(یھدی۔۔۔۔۔۔ علیم) (35) ” “۔

اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف راہنمائی فرماتا ہے لیکن صرف اس شخص کو جو اپنے دل و دماغ کو اس نور کو قبول کرنے کے لیے کھولتا ہے۔ یہ نور تو زمین و آسمان میں عام ہے۔ زیمن و آسمان میں اس کے فیوض و برکات موجود ہیں۔ اور ہر وقت موجودرہتے ہیں۔ یہ نور کبھی ختم نہیں ہوتا ‘ مدھم نہیں پڑتا اور بند نہیں ہوتا۔ انسان جب بھی اس کی طرف متوجہ ہو ‘ اسے دیکھتا ہے اور بےراہ شخص جب بھی اس کی طرف رخ کرے وہ اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ اور جب بھی کوئی اس نور سے رابطہ قائم کرے وہ اسے ہدایت دیتا ہے۔

اللہ کے نور کی اس آیت میں جو مثال دی گئی ہے یہ لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہے۔ ” وہ لوگوں کو مثالوں سے سمجھاتا ہے “۔ اس لیے کہ وہ علیم ہے اور انسانی قوت مدرکہ کی حدود کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ان مثالوں میں جو نور سمجھا یا گیا ہے وہ مطلق نور ہے۔ آسمانوں اور زمینوں میں عام ہے۔ آسمانوں اور زمین پر اس کا فیضان ہے اور یہ نور ان گھروں میں روشن اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے جن میں لوگوں کے دل اللہ کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ جن میں اللہ کا ذکر جاری رہتا ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور جن گھروں کے باشندے اللہ والے ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں دنیا کی ہر چیز سے اس نور سماوات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

(اُس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) اُن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fee buyootin athina Allahu an turfaAAa wayuthkara feeha ismuhu yusabbihu lahu feeha bialghuduwwi waalasali

(فی بیوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والاصال رجال ۔۔۔۔۔۔۔ والابصار لیجز یھم اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔ بغیر حساب ) (36 تا 83)

یہاں اللہ کے نور کی تمثیل اور ان گھروں کی تمثیل میں ایک خاص تعلق ہے اور یہ قرآن کریم کے انداز بیان کافی کمال ہے۔ طاق کے اندر چراغ روشن ہے اور گھروں کے اندر دل مومن روشن ہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان مشاکلت ہے۔

یہ گھر ایسے ہیں کہ اللہ نے حکم دینا ہے کہ ان کی دیواروں کو بلند کیا جائے اور ان کی تعمیر کی جائے۔ ان کو بلند کرنے کے اذن سے مراد ان کو تعمیر کرنے کا حکم دینا ہے کہ وہ اس حکم پر عمل کریں۔ چناچہ یہ گھر قائم کردیئے گئے ہیں ‘ بلند ہیں اور پاک اور ستھرے ہیں۔ ان کا منظر اس کائنات کے منظر لے مشابہ ہے جہاں نور ربی پھیلا ہوا ہے۔ ان گھروں کی بلندی اس لیے ہے کہ یہاں اللہ کا نام لیا جائے۔

ویذکر فیھا اسمہ (24 : 36) ” اس میں اللہ کا نام یاد کیا جائے “۔ اور یہ پاک دل اللہ کے ساتھ وابستہ ہوں ‘ اللہ کی تسبیح کرتے ہوں۔ اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔ نماز بھی پڑھنے والے ہوں۔ اللہ کی راہ میں دینے والے بھی ہوں۔

(رجال لا تلھیھم۔۔۔۔۔۔۔۔ وایتآء الزکوۃ) (24 : 37) ” ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت صلوۃ سے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کردیتی “۔ تجارت اور خریدو فروخت کمانے اور دولت جمع کرنے کے ذرائع ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کاموں میں مشغول رہنے کے باوجود اللہ کے حقوق یعنی نماز اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی یعنی زکوۃ سے غافل نہیں ہوتے۔

(یخافون۔۔۔۔۔ والابصار) (24 : 37) ” وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرانے کی نوبت آجائے گی “۔ دل الٹے ہوں گے یعنی ان کے اندر خوف و ہر اس کی وجہ سے کوئی قرار نہ ہوگا ‘ اور یہ دل چونکہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اس لیے تجارت اور خیرد و فروخت انہیں اللہ کے ذکر سے روک نہیں سکتے۔

لیکن اس خوف کے ساتھ امید بھی وابستہ ہے۔ وہ مایوس نہیں ہوتے۔ وہ اللہ سے امیدیں باندھے ہوئے ہوتے ہیں۔

(لیجز یھم اللہ۔۔۔۔ من فضلہ) (24 : 38) ” تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بہترین اعمال کی جزا ان کو دے اور مزید فضل سے نوازے “۔ ان کی امید ناکام بھی نہیں رہتی ۔ اس لیے کہ واللہ یرزق من یشآء بغیر حساب (24 : 38) ” اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب دیتا ہے “ کیونکہ اللہ کے فضل کے کوئی حدود وقیود نہیں ہیں۔

آسمانوں اور زمین کے اندر روشن ہونے والے اس نور کے بالمقابل ‘ اللہ کے ان گھروں میں پائے جانے والے اس نور کے بالمقابل اہل ایمان کے دلوں میں روشن نور کے بالمقابل ‘ یہاں قرآن مجید ظلمات اور تاریکیوں کے ایک جہان کو بھی پیش کرتا ہے۔ اس جہان میں کوئی روشنی نہیں ہے۔ اس جہان میں کوئی امن و سکون نہیں ہے۔ ہر طرف خوف کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ اس میں ہر طرف بر بادی ہی بربادی ہے۔ کوئی خیر نہیں ہے۔ یہ اہل کفر کا جہان ہے اور ایک کافر کی دنیا ہے۔ اس کے خدوخال اور نگ ڈھنگ کچھ یوں ہیں۔

(والذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ سریع الحساب اوکظلمت۔۔۔۔۔۔۔۔ من نور (39 : 40) ”(اس کے برعکس) جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بےآب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا ‘ مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا ‘ بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا ‘ جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا ‘ اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔ یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ‘ کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے ‘ اس پر ایک اور موج ‘ اور اس کے اوپر بادل ‘ تاریکی پر تاریکی مسلط ہے ‘ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں “۔

یہاں قرآن کریم نے اہل کفر کی زندگی اور ان کے نظریات اور سرگرمیوں کی تصویر کشی دو طرح کی ہے۔ یہ دو مشاہد ہیں جو بطور تمثیل دیئے گئے ہیں۔

پہلی تمثیل ہے ان کے اعمال کی۔ یہ اعمال ایسے نظر آتے ہیں جس طرح چٹیل وسعی ریگستان میں سراب نظر آتا ہے۔ یہ سراب ٹیلے پانی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ پیاسا اس کے پیچھے بھگتا ہے۔ وہ توقع تو یہ کرتا ہے کہ سراب تک پہنچ کر پانی پئے گا لیکن وہ اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ وہاں تک پہنچ کر وہ وہاں کیا پانے والاہوتا ہے۔ یہاں منظر میں اچانک تبدیلی آجاتی ہے۔ یہ شخص جو سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے پیاسا ہے ‘ پانی کی تلاش میں ہے۔ اور غافل ہے اس معاملے سے جو اسے پیش آنے والا ہے۔ یہ جب منزل تک پہنچتا ہے تو وہاں اسے پانی نہیں ملتا۔ وہاں اسے وہ چیز ملتی ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اب یہ اس نئی حقیقت سے دو چار ہو کر خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ امیدیں کٹ جاتی ہیں۔

وجد اللہ عندہ (24 : 39) ” وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا “۔ وہ اللہ موجود ہے جس کا وہ منکر تھا اور یہ شخص اللہ وحدہ کا دشمن تھا۔ اس سراب میں اس کا منتظر اللہ تھا۔ اگر اس سراب میں یہ شخص اپنے کسی دنیاوی دشمن کو پائے تو پھر یہ سخت خوفزدہ ہوجائے لیکن یہ وہاں خالق کائنات کو پارہا ہے جو جبار ہے۔ بڑی قوت والا ہے اور سخت انتقام لینے والا بھی ہے۔ وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ پانی کے بجائے اس کا وہاں حساب و کتاب شروع ہوجاتا ہے۔

فوقہ حسابہ واللہ سریع الحساب (24 : 39) ” جس نے اس کا پورا پورا حساب چکادیا اور اللہ کو حساب لینے میں دیر نہیں لگتی “۔ یہ منظر سرعت اور ستابی کے ساتھ اچانک سرپرائز کو پیش کرتا ہے اور سرعت اور سراب کے ساتھ ‘ جلدی سے حساب چکا نا اور اچانک خوف میں مبتلا ہونا ‘ فنی ہم آہنگی ہے۔

دوسرا منظر یہ ہے کہ اس میں جھوٹی روشنی کے بعد اندھیرے چھا جاتے ہیں ‘ یوں کہ ایک انسان سمندری جہاز میں ہے ‘ یہ جہاز سمندر کی ظالم لہروں میں گھرا ہوا ہے ‘ خوفناک موج کے اوپر موج اٹھ رہی ہے ‘ ان کے اوپر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایسا خوفناک اندھیرا ہوگیا ہے کہ کوئی شخص اگر اپنے ہاتھ کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ دیکھ نہیں سکتا ‘ شدت خوف اور شدت تاریکی کی وجہ سے ۔

کفر کیا ہے ‘ یہ دراصل امواج زندگی میں ایک گھمبیر اندھیرا ہے۔ یہ اندھیرا اللہ کے نور کو نظروں سے اوجھل کردیتا ہے۔ یہ اس قدر گہری گمراہی ہے کہ اس میں انسان کو ہاتھ کی طرح قریبی دلائل بھی نظر نہیں آتے۔ کفر اس قدر خوفناک صورت حال کا نام ہے کہ اس میں انسان کے لیے سکون وقرار نہیں ہوتا۔

ومن لم یجعل اللہ لہ نورا فما لہ من نور (24 : 40) ” جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے کوئی نور نہیں ہے “۔ اللہ کا نور کیا ہے ‘ وہ ہدایت جو اللہ دل مومن میں ڈال دیتا ہے وہ اللہ کا نور ہے۔ یہ ہدایت انسان کے دل کو کھول دیتی ہے اور انسان کی فطرت نو اس میں قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ یوں انسانی قلب میں موجود نور الہی اس کائنات میں موجود نور الہی کے ساتھ یکجا ہوجاتا ہے اور جس شخص کا اتصال اس نور کائنات سے نہ ہوسکا تو وہ اندھیروں میں ہے اسے کچھ نظر نہ آئے گا۔ یہ ہمیشہ خوفناک حالات میں ہوگا جن میں کوئی امن نہ ہوگا۔ یہ شخص ایسی گمراہی میں پڑجائے گا جس سے اس کا نکلنا مشکل ہوگا اور اس کے اعمال کا انجام سراب ہوگا اور سراب کے پیچھے بھاگنے والا ظاہر ہے کہ ہلاک ہوجائے گا۔ کیونکہ کفار کے اعمال کے پیچھے کوئی نظر یہ اور کوئی نور نہیں ہوتا۔ نور ایمان کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا اس لیے کوئی اصلاحی کام بغیر ایمان کے نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی ہدایت ہی نور ہے اور اللہ کا ڈر ہی نور ہے۔

یہ تھے مناظر کفر و ضلالت اور مناظر تاریکی۔ اس کے بعد پھر اس کائنات میں ایمان اور نور کے مناظر آتے ہیں۔ یہاں پوری کائنات میں نور ہی کا عالم ہے۔ تمام موجودات اس نور میں تسبیح پڑھ رہی ہیں اور عالم نماز میں ہیں۔ انس ہوں ‘ جن ہوں ‘ زمین ہو یا افلاک ہوں۔ زندہ ہوں یا جمادات ہوں ‘ تمام کائنات تسبیح پڑھ رہی ہے اور تمام موجودات اس زمرے میں ہمقدم ہیں ‘ یوں کہ ایک دانا کا وجدان اس سے ارتعاش میں آجاتا ہے اور دل معرفت سے بھر جاتا ہے۔

354