سورہ نور: آیت 35 - ۞ الله نور السماوات والأرض... - اردو

آیت 35 کی تفسیر, سورہ نور

۞ ٱللَّهُ نُورُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِۦ كَمِشْكَوٰةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ ٱلْمِصْبَاحُ فِى زُجَاجَةٍ ۖ ٱلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَٰرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِىٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِى ٱللَّهُ لِنُورِهِۦ مَن يَشَآءُ ۚ وَيَضْرِبُ ٱللَّهُ ٱلْأَمْثَٰلَ لِلنَّاسِ ۗ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ

اردو ترجمہ

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، (اِس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں) اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu nooru alssamawati waalardi mathalu noorihi kamishkatin feeha misbahun almisbahu fee zujajatin alzzujajatu kaannaha kawkabun durriyyun yooqadu min shajaratin mubarakatin zaytoonatin la sharqiyyatin wala gharbiyyatin yakadu zaytuha yudeeo walaw lam tamsashu narun noorun AAala noorin yahdee Allahu linoorihi man yashao wayadribu Allahu alamthala lilnnasi waAllahu bikulli shayin AAaleemun

آیت 35 کی تفسیر

درس نمبر 154 ایک نظر میں

اس سورة کے دونوں سابق اسباق میں انسان کی ان مادی خواہشات کا علاج کیا گیا تھا جو انسانی شخصیت کی طبیعی خواہشات ہیں اور انسانی شخصیت پر ان کی گہری گرفت ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ان خواہشات کو پاک و صاف کیا جائے اور ان کو نورانی افق تک بلند کیا جائے۔ گوشت و پوست کی شہوتوں ‘ آنکھوں اور شرمگاہوں کی خواہشتات۔ ان باتوں کی تشیر اور تنقید۔ اس سلسلے میں پیاد ہونے والے غضب ‘ اشتعال اور دشمنی کے مسائل کو حل کیا گیا تھا اور ہدایات دی گئی تھیں۔

یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسلامی معاشرے میں فحاشی کے پھیلانے سے اجتناب کیا جائے۔ عملی زندگی اور انسان کے اقوال میں فحاشی کی ممانعت کی گئی۔ ان امور کے انسداد کے سلسلے میں سزاد ہی میں بھی سخت تشدید کی گئی۔ حد زنا اور حد قزف کے سخت قوانین بنائے گئے۔ پھر بےخیر اور پاکدامن شادی شدہ عورتوں پر الزام اور بہتان کا نمونہ پیش کر کے سمجھا یا گیا۔ ان امور کے لیے انسدادی قوانین بھی بنائے گئے اور اخلاقی ہدایات بھی دی گیں۔ غض بصر اور استیذان کے قواعد نافذ کیے گئے۔ تمام ایسے امور سے منع کیا گیا جن سے فتنے میں پڑنے کے امکانات ہو سکتے تھے یا شہوت کے اندر ہیجان پیدا ہونے کا امکان تھا۔ پھر شادی کرنے کی ترغیب ‘ جسم فروشی کی ممانعت ‘ غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب یہ سب امور اس بات سے تعلق رکھتے ہیں کہ گوشت اور خون کے ہیجانات کو فرد کیا جائے اور لوگوں کے اندر پاکیزگی کا شعور ‘ ضبط نفس اور صفائی اور نورانیت اور روحانیت کی طرف بڑھنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔

افک کے واقعہ کے بعد سوسائٹی کے اندر غیظ و غضب ‘ دشمنی اور کدورت کے جو آثار رہ گئے تھے ان سب کو منانے کی کوشش کی گئی اور نفوس مومنین کے اندر جو قلق اور بےچینی پیدا ہوگئی تھی اور جس کی وجہ سے اعلیٰ انسانی پیمانے متزلزل ہوگئے تھے ان کا علاج کیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ کو پوری طرح اطمینان ہوگیا اور ان کی بےچینی دور ہوگئی۔ حضرت عائشہ ؓ نہ صرف راضی اور مطمئن ہوگئی بلکہ خوش ہوگئی۔ حضرت ابوبکر ؓ بھی مطمئن اور پر سکون ہوگئے۔ صفوان ابن معطل ایک عظیم بوجھ کے نیچے سے نکل آئے۔ تمام اہل اسلام کے شبہات دور ہوگئے اور جن لوگوں نے اس واقعہ میں غلط باتیں کی تھیں انہوں نے رجوع کر کے توبہ کرلی۔ سب لوگوں کے شبہات دور ہوگئے اور اللہ کے فضل و کرم اور ہدایت و رحمت کی بارش سب پر ہوگئی۔ اس تعلیم و تہذیب اور اس ہدایت و رہنمائی کے ذریعے نفس انسانی کو پاک و صاف کر کے منو کردیا گیا۔ اب اس کی نظریں اس نئی روشنی کی سمت میں بلند افق پر گئیں اور زمین و آسمان میں ہر سو اہل ایمان کو نور ربی نظر آنے لگا۔ اللہ نے اہل اسلام کو یہ استعداد دی کہ وہ آفاق کا ئنات میں سے اس نورانیت کو اخذ کرسکیں۔

درس نمبر 154 ایک نظر میں

اس سورة کے دونوں سابق اسباق میں انسان کی ان مادی خواہشات کا علاج کیا گیا تھا جو انسانی شخصیت کی طبیعی خواہشات ہیں اور انسانی شخصیت پر ان کی گہری گرفت ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ان خواہشات کو پاک و صاف کیا جائے اور ان کو نورانی افق تک بلند کیا جائے۔ گوشت و پوست کی شہوتوں ‘ آنکھوں اور شرمگاہوں کی خواہشتات۔ ان باتوں کی تشیر اور تنقید۔ اس سلسلے میں پیاد ہونے والے غضب ‘ اشتعال اور دشمنی کے مسائل کو حل کیا گیا تھا اور ہدایات دی گئی تھیں۔

یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسلامی معاشرے میں فحاشی کے پھیلانے سے اجتناب کیا جائے۔ عملی زندگی اور انسان کے اقوال میں فحاشی کی ممانعت کی گئی۔ ان امور کے انسداد کے سلسلے میں سزاد ہی میں بھی سخت تشدید کی گئی۔ حد زنا اور حد قزف کے سخت قوانین بنائے گئے۔ پھر بےخیر اور پاکدامن شادی شدہ عورتوں پر الزام اور بہتان کا نمونہ پیش کر کے سمجھا یا گیا۔ ان امور کے لیے انسدادی قوانین بھی بنائے گئے اور اخلاقی ہدایات بھی دی گیں۔ غض بصر اور استیذان کے قواعد نافذ کیے گئے۔ تمام ایسے امور سے منع کیا گیا جن سے فتنے میں پڑنے کے امکانات ہو سکتے تھے یا شہوت کے اندر ہیجان پیدا ہونے کا امکان تھا۔ پھر شادی کرنے کی ترغیب ‘ جسم فروشی کی ممانعت ‘ غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب یہ سب امور اس بات سے تعلق رکھتے ہیں کہ گوشت اور خون کے ہیجانات کو فرد کیا جائے اور لوگوں کے اندر پاکیزگی کا شعور ‘ ضبط نفس اور صفائی اور نورانیت اور روحانیت کی طرف بڑھنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔

افک کے واقعہ کے بعد سوسائٹی کے اندر غیظ و غضب ‘ دشمنی اور کدورت کے جو آثار رہ گئے تھے ان سب کو منانے کی کوشش کی گئی اور نفوس مومنین کے اندر جو قلق اور بےچینی پیدا ہوگئی تھی اور جس کی وجہ سے اعلیٰ انسانی پیمانے متزلزل ہوگئے تھے ان کا علاج کیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ کو پوری طرح اطمینان ہوگیا اور ان کی بےچینی دور ہوگئی۔ حضرت عائشہ ؓ نہ صرف راضی اور مطمئن ہوگئی بلکہ خوش ہوگئی۔ حضرت ابوبکر ؓ بھی مطمئن اور پر سکون ہوگئے۔ صفوان ابن معطل ایک عظیم بوجھ کے نیچے سے نکل آئے۔ تمام اہل اسلام کے شبہات دور ہوگئے اور جن لوگوں نے اس واقعہ میں غلط باتیں کی تھیں انہوں نے رجوع کر کے توبہ کرلی۔ سب لوگوں کے شبہات دور ہوگئے اور اللہ کے فضل و کرم اور ہدایت و رحمت کی بارش سب پر ہوگئی۔ اس تعلیم و تہذیب اور اس ہدایت و رہنمائی کے ذریعے نفس انسانی کو پاک و صاف کر کے منو کردیا گیا۔ اب اس کی نظریں اس نئی روشنی کی سمت میں بلند افق پر گئیں اور زمین و آسمان میں ہر سو اہل ایمان کو نور ربی نظر آنے لگا۔ اللہ نے اہل اسلام کو یہ استعداد دی کہ وہ آفاق کا ئنات میں سے اس نورانیت کو اخذ کرسکیں۔

درس نمبر 154 تشریح آیات

35۔۔۔۔۔ تا۔۔۔۔ 45

(اللہ نورالسموات والارض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نور علی نور) ” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو ‘ چراغ ایک فانوس میں ہو ‘ فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا ‘ اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی ‘ جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو۔ چاہے آگ ہیں کو نہ لگے ‘(اس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں) ۔

یہ ایک ایسی مثال ہے جو انسان کے محدود ادراک کے لیے ایک غیر محدود ذلت کے تصور کو قریب کرتی ہے اور ایک نہایت ہی چھوٹے نور کی مثال کو پیش کیا جاتا ہے جس کو انسانی تصور سمجھ سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اصل نور کا ادراک انسانی تصور کے لیے ممکن نہیں۔ نور کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کی جاتی ہے جبکہ انسانی ادراک نور کے ان آفاق کا احاطہ نہیں کرسکتا جو اس کی حدود سے وراء ہیں۔

اس پری کائنات کی وسعتوں سے ہم اب ایک طاق کی طرف آتے ہیں ‘ جو ایک دیوار میں ہے جہاں چراغ رکھا جاتا ہے ‘ اس طرح اس کی رشنی پورے کمرے کو روشن کرتی ہے۔ چراغ طاق میں ‘ چراغ ایک فانوس میں ‘ یہ شیشہ اس چراغ کو ہوا سے بچاتا ہے ‘ اس طرح اس کا نور صاف ہوجاتا ہے اور نورانیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ فانوس ایسا ہے جس طرح چمکتا ہوا تارہ ہوتا ہے۔ یہ فانوس بذات خود بھی صاف و شفاف و چمکدار پارے کی طرح ہے۔ یہاں مثال اور حقیقت کے درمیان ربط قائم ہوتا ہے۔ اصل اور نمونے کا فرق معلوم ہوجاتا ہے۔ تصور کو ایک چھوٹے سے فانوس سے ایک بڑے ستارے کی طرف لے جاتا ہے تاکہ انسانی سوچ کہیں اس چھوٹے سے نمونے تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ اس چھوٹے سے چراغ کی مثال تو اس حقیقت کی طرف اشارے کے لیے اختیار کی گئی ہے ‘ کوکب دری کی طرف اشارہ کر کے اب بیان پھر اسی چھوٹی سی مثال کی تشریح کی طرف آتا ہے۔

یوقد من شجرۃ مبرکۃ زیتونۃ (24 : 35) ” اور یہ چراغ زیتون کے ایک مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے “۔ اس دور تک زیتون کے تیل کی روشنی تمام روشنیوں سے صاف ترین روشن تھی۔ لیکن یہ مثال صرف اس لیے نہیں دی گئی کہ زیتون کے تیل کی روشنی سب سے زیادہ صاف ہوتی ہے۔ بلکہ زیتون کے درخت کو جو اپنا تقدس حاصل ہے اس کی طرف اشارہ مطلوب ہے کہ یہ درخت وادی مقدس طویٰ میں پیدا ہوتا ہے۔ عربوں کے اندر جو زیتون آتا تھا وہ طور کی وادی مقدس سے آتا تھا۔ قرآن مجید میں اس درخت کی طرف اشارہ موجود ہے۔

وشجرۃ تخرج من طور سینا تنبت بالدھن و صبغ للاکلین ” اور وہ درخت جو طور سینا پر پیدا ہوتا ہے ‘ جو تیل پیدا کرتا ہے جو کھانے والوں کے لیے اچھا سالن ہے “۔ یہ نہایت ہی طویل العمر درخت ہوتا ہے اور اس درخت کے تمام حصے انسانوں کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ اس کا تیل ‘ اس کی لکڑیاں ‘ اور اس کے پتے اور اس کے پھل سب کے سب مقید ہیں۔ اب بیان پھر اس چھوٹی سی مثال سے ذرا بلند ہوتا ہے اور اصل کی طرف ذہن کو موڑا جاتا ہے۔ یہ کوئی مخصوص درخت نہیں ہے۔ ” نہ شرقی ہے اور نہ غربی ہے “۔ اور نہ یہ محدود اور مشخص تیل ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا کوئی اور ہی تیل ہے۔

یکاد زیتھا یضی ولو لم تمسسہ نار (24 : 35) ” اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھتا ہے ‘ اگرچہ اس کو آگ نہ لگائی گئی ہو “۔ یعنی اس کے اندر نورانیت کوٹ کوٹ بھری ہوئی ہے۔ نور علی نور ہے۔ لفظ نور علی نور سے ہم ذات باری کے اعلیٰ نورانیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

یہ وہ خدائی نور ہے جس سے اس پوری کائنات کی ظلمتیں دور ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ نور ہے جس کی حقیقت تک انسانی دماغ نہیں پہنچ سکتا۔ بس یہ ایک کوشش ہے کہ دل اس کے ساتھ متعلق ہوں اور اس کے ادراک کے لیے سعی کریں اور اس کے دیکھنے کی امید رکھیں۔

(یھدی۔۔۔۔۔۔ علیم) (35) ” “۔

اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف راہنمائی فرماتا ہے لیکن صرف اس شخص کو جو اپنے دل و دماغ کو اس نور کو قبول کرنے کے لیے کھولتا ہے۔ یہ نور تو زمین و آسمان میں عام ہے۔ زیمن و آسمان میں اس کے فیوض و برکات موجود ہیں۔ اور ہر وقت موجودرہتے ہیں۔ یہ نور کبھی ختم نہیں ہوتا ‘ مدھم نہیں پڑتا اور بند نہیں ہوتا۔ انسان جب بھی اس کی طرف متوجہ ہو ‘ اسے دیکھتا ہے اور بےراہ شخص جب بھی اس کی طرف رخ کرے وہ اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ اور جب بھی کوئی اس نور سے رابطہ قائم کرے وہ اسے ہدایت دیتا ہے۔

اللہ کے نور کی اس آیت میں جو مثال دی گئی ہے یہ لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہے۔ ” وہ لوگوں کو مثالوں سے سمجھاتا ہے “۔ اس لیے کہ وہ علیم ہے اور انسانی قوت مدرکہ کی حدود کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ان مثالوں میں جو نور سمجھا یا گیا ہے وہ مطلق نور ہے۔ آسمانوں اور زمینوں میں عام ہے۔ آسمانوں اور زمین پر اس کا فیضان ہے اور یہ نور ان گھروں میں روشن اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے جن میں لوگوں کے دل اللہ کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ جن میں اللہ کا ذکر جاری رہتا ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور جن گھروں کے باشندے اللہ والے ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں دنیا کی ہر چیز سے اس نور سماوات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

یہ اس سورت کا پانچواں رکوع ہے جو اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے دوسرے حصے میں ایمان کی بحث کے ضمن میں ایک اہم درس درس 7 اس رکوع پر مشتمل ہے۔ اس رکوع کی پہلی آیت آیت 35 قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں سے ہے۔ سورة الاحزاب اور سورة النور کا آپس میں جوڑا ہونے کا تعلق ہے۔ ان دونوں سورتوں کے درمیان بہت سی دوسری مناسبتوں اور مشابہتوں کے علاوہ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سورة الاحزاب کی آیت 35 بھی اسی موضوع پر ہے ‘ یعنی ایمان اور اسلام کی کیفیات کے حوالے سے یہ دونوں آیات قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں سے ہیں۔اس رکوع میں ایمان کے حوالے سے انسانوں کی تین اقسام زیر بحث آئی ہیں۔ اس سے پہلے سورة البقرۃ کے آغاز میں بھی دعوت حق کے رد عمل کے حوالے سے تین قسم کے انسانوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ دراصل دین کی دعوت اور اسلامی تحریک کے جواب میں کسی بھی معاشرے کے اندر عام طور پر تین طرح کا رد عمل سامنے آتا ہے۔ کچھ لوگ تو نتائج و عواقب سے بےپروا ہو کر اس دعوت پر دل و جان سے لبیک کہتے ہیں اور پھر اپنے عمل سے اپنے ایمان اور دعویٰ کی سچائی ثابت بھی کردکھاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کچھ لوگ دوسری انتہا پر ہوتے ہیں۔ وہ تعصبّ ‘ حسد ‘ ضد اور تکبر کی وجہ سے انکار اور مخالفت پر کمر کس لیتے ہیں اور آخر دم تک اس پر ڈٹے رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ معاشرے میں ایک تیسری قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ پورے یقین اور خلوص کے ساتھ اس دعوت کو قبول بھی نہیں کرتے اور کچھ دنیوی مفادات اور متفرق وجوہات کے پیش نظر مکمل طور پر اسے رد بھی نہیں کرتے۔ جب حالات کچھ ساز گار ہوں تو اہل حق کا ساتھ دینے کے لیے تیار بھی ہوجاتے ہیں ‘ لیکن جونہی کوئی آزمائش آتی ہے یا قربانی کا تقاضا سامنے آتا ہے تو فوراً اپنی راہ الگ کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دلی کیفیات اور کردار کا نقشہ سورة الحج کی آیت 11 میں یوں کھینچا گیا ہے : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍج فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُ ناطْمَاَنَّ بِہٖج وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖج خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَط ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ”اور لوگوں میں سے کوئی وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے کنارے پر رہ کر ‘ تو اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو اس کے ساتھ مطمئن رہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آجائے تو منہ کے بل الٹا پھرجائے۔ یہ خسارہ ہے دنیا اور آخرت کا ‘ یہ بہت ہی بڑی تباہی ہے۔“زیر مطالعہ آیات میں ایک دوسرے زاویے سے معاشرے کے تین کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں پہلی قسم ایسے سلیم الفطرت انسانوں کی ہے جن کے دلوں میں اللہ کی معرفت فطری طور پر پائی جاتی ہے۔ پھر جب وحی کے پیغام تک ان کی رسائی ہوتی ہے تو وہ اس کے فیوض و برکات سے بھی بہترین انداز میں مستفیض ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا باطن ایمان حقیقی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اس کیفیت کو یہاں ”نورٌ علٰی نُور“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسری انتہا پر وہ لوگ ہیں جن کے دل نور ایمان سے محروم ہیں۔ وہ خالص دنیا پرست انسان ہیں جن کے دامن جھوٹ موٹ کی نیکیوں سے بھی خالی ہیں۔ ان کے دلوں میں زندگی بھر نفسانی خواہشات کے علاوہ کسی اور خیال اور جذبے کا گزر تک نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی اس کیفیت کا نقشہ ”ظُلُمٰتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ“ کے الفاظ میں کھینچا گیا ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک تیسرا کردار بھی ہے ‘ جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔ اس کردار کے حامل وہ لوگ ہیں جن کے دل اگرچہ حقیقی ایمان سے محروم ہیں ‘ لیکن وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے یا دنیوی اغراض و مقاصد کے لیے نیکی کے کام بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نیک اعمال کو یہاں سراب سے تشبیہہ دی گئی ہے۔مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ ”نور سے مراد یہاں نور ایمان ہے ‘ یعنی اللہ پر ایمان کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے :فِیْہَا مِصْبَاحٌط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ط ”وہ چراغ شیشے کے فانوس میں رکھا گیا ہے ‘ جیسے پچھلے زمانے میں شیشے کی چمنیوں میں چراغ رکھے جاتے تھے۔اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ ”اس مثال میں انسانی سینے کو طاق اور دل کو چراغ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ انسانی پسلیوں کا ڈھانچہ ‘ جسے ہم سینہ کہتے ہیں ‘ یہ نیچے سے چوڑا اور اوپر سے تنگ ہونے کی وجہ سے پرانے زمانے کے طاق سے مشابہت رکھتا ہے۔ ڈایا فرام diaphragm جو نچلے دھڑ کے اندرونی حصے abdominal cavity کو سینے کے اندرونی حصے chest cavity سے علیحدہ کرتا ہے اس طاق کا گویا فرش ہے جس کے اوپر یہ چراغ یعنی دل رکھا گیا ہے۔ یہ دل ایک بندۂ مؤمن کا دل ہے جو نور ایمان سے جگمگا رہا ہے۔ یہ نور ایمان مجموعہ ہے نور فطرت جو اس کی روح کے اندر پہلے سے موجود تھا اور نوروحی کا۔ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍلا ”کسی درخت پر جس سمت سے دھوپ پڑتی ہو ‘ اسی سمت کے حوالے سے وہ شرقی یا غربی کہلاتا ہے۔ اگر کوئی درخت کسی اوٹ میں ہو یا درختوں کے ُ جھنڈ کے اندر ہو تو اس پر صرف ایک سمت سے ہی دھوپ پڑ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے ایسا درخت یا شرقی ہوگا یا غربی۔ لیکن یہاں ایک مثالی درخت کی مثال دی جا رہی ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ وہ نہ تو کسی اوٹ میں ہے اور نہ ہی درختوں کے جھنڈ میں ‘ بلکہ وہ کھلے میدان میں بالکل یکہ و تنہا کھڑا ہے اور پورے دن کی دھوپ مسلسل اس پر پڑتی ہے۔ اس مضمون کی اہمیت یہ ہے کہ زیتون کا وہ درخت جس پر زیادہ سے زیادہ دھوپ پڑتی ہو اور مشرق و مغرب دونوں سمتوں سے پڑتی ہو ‘ اس کے پھلوں کا روغن بہت صاف ‘ شفاف اور اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِیٓئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ ط ”گویا وہ آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑک اٹھنے کے لیے تیار ہے۔نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ط ”یعنی جب اسے آگ دکھائی جائے تو وہ بھڑک اٹھتا ہے اور نورٌ علیٰ نور کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔یہ خوبصورت مثال ایمان کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں ہے اور میں نے مختلف مواقع پر اس مثال کی وضاحت بہت تفصیل سے کی ہے۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فطرت انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ کی معرفت یا اس پر ایمان کی کیفیت پیدائشی طور پر موجود ہے ‘ مگر دنیا میں رہتے ہوئے یہ معرفت ماحول اور حالات کے منفی اثرات کے باعث عام طور پر غفلت اور مادیت کے پردوں میں چھپ کر شعور سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگ اس حد تک سلیم الفطرت ہوتے ہیں کہ ان کے اندر معرفت خداوندی خارجی حالات کے تمام تر منفی اثرات کے باوجود بھی مسلسل اجاگر اور فعال رہتی ہے۔ فطری معرفت کی اس روشنی کے بعد انسانی ہدایت کا دوسرا بڑا ذریعہ یا منبع وحی الٰہی ہے۔ وحی کے ذریعہ حاصل ہونے والی ہدایت بنیادی طور پر انسانی فطرت کے اندر پہلے سے موجود غیر فعال اور خوابیدہ dormant ایمان اور معرفت خداوندی کو بیدار اور فعال activate کرنے میں مدد دیتی ہے۔ چناچہ جب وحی کا پیغام لوگوں تک پہنچتا ہے تو اس پر ہر انسان کا رد عمل اس کی فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان کی فطرت میں تکدر ہے تو وہ وحی کے اس پیغام کی طرف فوری طور پر متوجہ نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کی فطرت کی کثافت کو دور کرنے اور اس کے اندر فطری طور پر موجود معرفت خداوندی کو غفلت کے پردوں سے نکال کر شعور کی سطح پر لانے کے لیے وقت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک سلیم الفطرت انسان وحی کے پیغام کو پہچاننے میں ذرہ بھر تأمل و تاخیر نہیں کرتا۔ فطری معرفت اس کے اندر چونکہ پہلے سے شعوری سطح پر موجود ہوتی ہے اس لیے نور وحی جونہی اس کے سامنے آتا ہے اس کے دل کا آئینہ جگمگا اٹھتا ہے اور وہ فوراً اس پیغام کی تصدیق کردیتا ہے۔ ایسے لوگ پیغام وحی کی فوری تصدیق کی وجہ سے ِ ”صدیقین“ ّ کہلاتے ہیں۔ اس حوالے سے نبی مکرم ﷺ کا یہ فرمان بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ : ”میں نے جس کسی کو بھی ایمان کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ توقف یا تردّد ضرور کیا ‘ سوائے ابوبکر رض کے ‘ جنہوں نے ایک لمحے کا بھی توقف نہیں کیا“۔ سورة التوبہ کی آیت 100 میں جن خوش نصیب لوگوں کو : وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کا خطاب ملا ‘ یہ وہی لوگ تھے جن کی فطرت کے آئینے غیر معمولی طور پر شفاف تھے۔ دوسری طرف اسی ماحول میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کی فطرت کے تکدرّ کو دور کرنے کے لیے اضافی وقت اور محنت کی ضرورت پڑی۔ ایسے لوگ بعد میں اپنی اپنی طبیعت کی کیفیت اور استطاعت کے مطابق ”سابقون الاولون“ کی پیروی کرنے والوں کی صف میں شامل ہوتے رہے۔ ان لوگوں کا ذکر اسی آیت میں وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍا کے الفاظ میں ہوا ہے۔آیت زیر مطالعہ میں دی گئی مثال کو سمجھنے کے لیے تیل کی مختلف اقسام کے فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ پرانے زمانے میں تیل کے دیے جلائے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ان میں سرسوں کا تیل جلایا جاتا تھا جسے کڑوا تیل کہا جاتا تھا۔ یہ تیل زیادہ کثیف ہونے کی وجہ سے دیا سلائی دکھانے پر بھی آگ نہیں پکڑ سکتا۔ چناچہ اسے کپڑے یا روئی کے فتیلے بتی کی مدد سے جلایا جاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں پٹرول بھی ایک تیل ہے جو جلنے کے لیے ہر وقت بیتاب رہتا ہے اور چھوٹی سی چنگاری بھی اگر اس کے قریب آجائے تو بھڑک اٹھتا ہے۔ جلنے کے اعتبار سے جس طرح کڑوے تیل اور پٹرول میں فرق ہے اسی نوعیت کا فرق انسانی طبائع میں بھی پایا جاتا ہے۔ چناچہ مذکورہ مثال میں اعلیٰ قسم کے زیتون سے حاصل شدہ انتہائی شفاف تیل گویا ”صدیقین“ کی فطرت سلیم ہے جو وحی الٰہی کے نور سے مستفیض ہونے اور ”نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ“ کی کیفیت کو پانے کے لیے ہر وقت بےتاب و بےچین رہتی ہے۔ گویا انسانی روح ایک نورانی یا ملکوتی چیز ہے۔ اس ملکوتی روح سے جب وحی یا قرآن کے نور کا اتصال ہوتا ہے تو نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍکی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اسی کیفیت سے نور ایمان وجود میں آتا ہے ‘ جس سے بندۂ مؤمن کا دل منور ہوتا ہے۔ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَال للنَّاسِط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ”یہ مثال لوگوں کو سمجھانے کے لیے بیان کی گئی ہے ‘ کیونکہ انسانی ذہن ایسے لطیف حقائق کو براہ راست نہیں سمجھ سکتا۔۔ اب آئندہ آیات میں ان لوگوں کے کردار و عمل کی جھلک دکھائی جا رہی ہے جن کے دل نور ایمان سے منور ہوتے ہیں۔

مدبر کائنات نور ہی نور ہے ابن عباس ؓ فرماتے ہیں۔ اللہ ہادی ہے، آسمان والوں اور زمین والوں کا۔ وہی ان دونوں میں سورج چاند اور ستاروں کی تدبیر کرتا ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں اللہ کا نور ہدایت ہے۔ ابن جریر اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس کے نور کی مثال یعنی اس کا نور رکھنے والے مومن کی مثال جن کے سینے میں ایمان و قرآن ہے، اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اولا اپنے نور کا ذکر کیا پھر مومن کی نورانیت کا کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے کے نور کی مثال بلکہ حضرت ابی اس کو اس طرح پڑھتے تھے آیت (مثل نور من امن بہ) ابن عباس کا اس طرح پڑھنا بھی مروی ہے آیت (کذالک نور من امن باللہ) بعض کی قرأت میں اللہ نور ہے یعنی اس نے آسمان و زمین کو نورانی بنادیا ہے۔ سدی ؒ فرماتے ہیں اسی کے نور سے آسمان و زمین روشن ہیں۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ جس دن اہل طائف نے رسول اللہ ﷺ کو بہت ایذاء پہنچائی تھی آپ نے اپنی دعا میں فرمایا تھا دعا (اعوذ بنور وجہک الذی اشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ امر الدنیا والاخرۃ ان یحل بی غضبک او ینزل بی سخطک لک العتبی حتی ترضی ولا حول ولا قوۃ الا باللہ) اس دعا میں ہے کہ تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ میں آرہا ہوں جو اندھیروں کو روشن کردیتا ہے اور جس پر دنیا آخرت کی صلاحیت موقوف ہے الخ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے حضور ﷺ رات کو تہجد کے لئے اٹھتے تب یہ فرماتے کہ " اللہ تیرے ہی لئے ہے سب تعریف سزاوار ہے تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نور ہے " ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں تمہارے رب کے ہاں رات اور دن نہیں، اس کے چہرے کے نور کی وجہ سے اس کے عرش کا نور ہے۔ نورہ کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک تو لفظ اللہ ہی ہے یعنی اللہ کی ہدایت جو مومن کے دل میں ہے اس کی مثال یہ ہے اور بعض کے نزدیک مومن ہے جس پر سیاق کلام کی دلالت ہے یعنی مومن کے دل کے نور کی مثال مثل طاق کے ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ ایک شخص ہے جو اپنے رب کی دلیل اور ساتھ ہی شہادت لئے ہوئے ہے پس مومن کے دل کی صفائی کو بلور کے فانوس سے مشابہت دی اور پھر قرآن اور شریعت سے جو مدد اسے ملتی رہتی ہے اس کی زیتون کے اس تیل سے تشبیہ دی جو خود صاف شفاف چمکیلا اور روشن ہے۔ پس طاق اور طاق میں چراغ اور وہ بھی روشن چراغ۔ یہودیوں نے اعتراضا کہا تھا کہ اللہ کا نور آسمانوں کے پار کیسے ہوتا ہے ؟ تو مثال دے کر سمجھایا گیا کہ جیسے فانوس کے شیشے سے روشنی۔ پس فرمایا کہ اللہ آسمان زمین کا نور ہے۔ مشکۃ کے معنی گھر کے طاق کے ہیں یہ مثال اللہ نے اپنی فرمانبرداری کی دی ہے اور اپنی اطاعت کو نور فرمایا ہے پھر اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں۔ مجاہد ؒ فرماتے ہیں۔ حبشہ کی لغت میں اسے طاق کہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں ایسا طاق جس میں کوئی اور سوراخ وغیرہ نہ ہو۔ فرماتے ہیں اسی میں قندیل رکھی جاتی ہے۔ پہلا قول زیادہ قوی ہے یعنی قندیل رکھنے کی جگہ۔ چناچہ قرآن میں بھی ہے کہ اس میں چراغ ہے۔ پس مصباح سے مراد نور ہے یعنی قرآن اور ایمان جو مسلمان کے دل میں ہوتا ہے۔ سدی ؒ کہتے ہیں چراغ مراد ہے پھر فرمایا یہ روشنی جس میں بہت ہی خوبصورتی ہے، یہ صاف قندیل میں ہے، یہ مومن کے دل کی مثال ہے۔ پھر وہ قندیل ایسی ہے جیسے موتی جیسا چمکیلا روشن ستارہ۔ اس کی دوسری قرأت درءی اور دراءی بھی ہے۔ یہ ماخوذ ہے در سے جس کے معنی دفع کے ہیں۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ٹوٹتا ہے اس وقت وہ بہت روشن ہوتا ہے اور جو ستارے غیر معروف ہیں انہیں بھی عرب دراری کہتے ہیں۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ہے جو خوب ظاہر ہو اور بڑا ہو۔ پھر اس چراغ میں تیل بھی مبارک درخت زیتون کا ہو۔ زیتونتہ کا لفظ بدل ہے یا عطف بیان ہے۔ پھر وہ زیتون کا درخت بھی نہ مشرقی ہے کہ اول دن سے اس پر دھوپ آجائے۔ اور نہ مغربی ہے کہ غروب سورج سے پہلے اس پر سے سایہ ہٹ جائے بلکہ وسط جگہ میں ہے۔ صبح سے شام تک سورج کی صاف روشنی میں رہے۔ پس اس کا تیل بھی بہت صاف، چمکدار اور معتدل ہوتا ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ درخت میدان میں ہے کوئی درخت، پہاڑ، غار یا کوئی اور چیز اسے چھپائے ہوئے نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس درخت کا تیل بہت صاف ہوتا ہے۔ عکرمہ ؒ فرماتے ہیں کہ صبح سے شام تک کھلی ہوا اور صاف دھوپ اسے پہنچتی رہتی ہے کیونکہ وہ کھلے میدان میں درمیان کی جگہ ہے۔ اسی وجہ سے اس کا تیل بہت پاک صاف اور روشن چمک دار ہوتا ہے اور اسے نہ مشرقی کہہ سکتے ہیں نہ مغربی۔ ایسا درخت بہت سرسبز اور کھلا ہوتا ہے پس جیسے یہ درخت آفتوں سے بچا ہوا ہوتا ہے، اسی طرح مومن فتنوں سے محفوظ ہوتا ہے اگر کسی فتنے کی آزمائش میں پڑتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدم رکھتا ہے۔ پس اسے چار صفتیں قدرت دے دیتی ہے 001 بات میں سچ 002 حکم میں عدل 003 بلا پر صبر 004 نعمت پر شکر پھر وہ اور تمام انسانوں میں ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی زندہ جو مردوں میں ہو۔ حسن بصری ؒ فرماتے ہیں اگر یہ درخت دنیا میں زمین پر ہوتا تو ضرور تھا کہ مشرقی ہوتا یا مغربی لیکن یہ تو نور الہٰی کی مثال ہے۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے نیک مرد کی جو نہ یہودی ہے نہ نصرانی۔ ان سب اقول میں بہترین قول پہلا ہے کہ وہ درمیانہ زمین میں ہے کہ صبح سے شام تک بےروک ہوا اور دھوپ پہنچتی ہے کیونکہ چاروں طرف سے کوئی آڑ نہیں تو لامحالہ ایسے درخت کا تیل بہت زیادہ صاف ہوگا اور لطیف اور چمکدار ہوگا۔ اسی لئے فرمایا کہ خود وہ تیل اتنا لطیف ہے کہ گویا بغیر جلائے روشنی دے۔ نور پر نور ہے۔ یعنی ایمان کا نور پھر اس پر نیک اعمال کا نور۔ خود زیتون کا تیل روشن پھر وہ جل رہا ہے اور روشنی دے رہا ہے پس اسے پانچ نور حاصل ہوجاتے ہیں اس کا کلام نور ہے اس کا عمل نور ہے۔ اس کا آنا نور اس کا جانا نور ہے اور اس کا آخری ٹھکانا نور ہے یعنی جنت۔ کعب ؒ سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے رسول اللہ ﷺ کی کہ آپ کی نبوت اس قدر ظاہر ہے کہ گو آپ زبانی نہ بھی فرمائیں تاہم لوگوں پر ظاہر ہوجائے۔ جیسے یہ زیتون کہ بغیر روشن کئے روشن ہے۔ تو دونوں یہاں جمع ہیں ایک زیتون کا ایک آگ کا۔ ان کے مجموعے سے روشنی حاصل ہوتی ہوئی۔ اسی طرح نور قرآن نور ایمان جمع ہوجاتے ہیں اور مومن کا دل روشن ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے پسند فرمائے، اپنی ہدایت کی راہ لگا دیتا ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو ایک اندھیرے میں پیدا کیا پھر اس دن ان پر اپنا نور ڈالا جیسے وہ نور پہنچا اس نے راہ پائی اور جو محروم رہا وہ گمراہ ہوا۔ اس لئے کہتا ہوں کہ قلم اللہ کے علم کے مطابق چل کر خشک ہوگیا۔ (مسند وغیرہ) اللہ تعالیٰ نے مومن کے دل کی ہدایت کی مثال نور سے دے کر پھر فرمایا کہ اللہ یہ مثالیں لوگوں کے سمجھنے لگ لئے بیان فرما رہا ہے، اسکے علم میں بھی کوئی اس جیسا نہیں، وہ ہدایت و ضلالت کے ہر مستحق کو بخوبی جانتا ہے۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے دلوں کی چار قسمیں ہیں ایک تو صاف اور روشن، ایک غلاف دار اور بندھا ہوا، ایک یلٹا اور اور اوندھا، ایک پھرا ہوا الٹا سیدھا۔ پہلا دل تو مومن کا دل ہے جو نورانی ہوتا ہے۔ اور دوسرا دل کافر کا دل ہے اور تیسرا دل منافق کا دل ہے کہ اس نے جانا پھر انجان ہوگیا۔ پہچان لیا پھر منکر ہوگیا۔ چوتھا دل وہ دل ہے جس میں ایمان بھی ہے اور نفاق بھی ہے۔ ایمان کی مثال تو اس میں ترکاری کے درخت کی مانند ہے کہ اچھا پانی اسے بڑھا دیتا ہے اور اس میں نفاق کی مثال دمثل پھوڑے کے ہے کہ خون پیپ اسے ابھاردیتا ہے۔ اب ان میں سے جو غالب آگیا وہ اس دل پر چھا جاتا ہے۔

آیت 35 - سورہ نور: (۞ الله نور السماوات والأرض ۚ مثل نوره كمشكاة فيها مصباح ۖ المصباح في زجاجة ۖ الزجاجة كأنها كوكب دري...) - اردو