سورہ نساء: آیت 97 - إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي... - اردو

آیت 97 کی تفسیر, سورہ نساء

إِنَّ ٱلَّذِينَ تَوَفَّىٰهُمُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ ظَالِمِىٓ أَنفُسِهِمْ قَالُوا۟ فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا۟ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ قَالُوٓا۟ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ ٱللَّهِ وَٰسِعَةً فَتُهَاجِرُوا۟ فِيهَا ۚ فَأُو۟لَٰٓئِكَ مَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا

اردو ترجمہ

جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena tawaffahumu almalaikatu thalimee anfusihim qaloo feema kuntum qaloo kunna mustadAAafeena fee alardi qaloo alam takun ardu Allahi wasiAAatan fatuhajiroo feeha faolaika mawahum jahannamu wasaat maseeran

آیت 97 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 97۔ 99۔

یہ آیت جزیرۃ العرب میں بطور واقعہ موجود صورت حال سے بحث کرتی ہے اور یہ صورت حال مکہ وغیرہ میں حضور اکرم ﷺ کی ہجرت کے بعد عملا موجود تھی ‘ جبکہ مدینہ میں اسلامی مملکت قائم ہوگئی تھی ۔ ابھی تک مکہ میں ایسے مسلمان موجود تھے جنہوں نے ہجرت نہ کی تھی ۔ یہ لوگ وہاں اپنی کچھ مصلحتوں اور اپنی جائیداد کی وجہ سے رہ گئے تھے ۔ حالات ایسے تھے کہ مشرکین مکہ کسی ایسے شخص کو جو ہجرت کر رہا ہوتا ‘ اپنے ساتھ کچھ لے جانے نہیں دیتے تھے ‘ یا یہ لوگ ہجرت کی تکالیف کی وجہ سے بیٹھے ہوئے تھے ‘ اس لئے کہ جو بھی ہجرت کرتا تھا اہل مکہ اس کی راہ روکتے اور اسے منع کرتے ۔ بعض لوگ ایسے بھی تھے جو حقیقتا ہجرت کرنے پر قادر ہی نہ تھے ۔ بعض بوڑھے تھے بعض عورتیں تھیں اور بعض بچے تھے ۔ ان لوگوں کے لئے ہجرت کرنے اور بھاگنے کی کوئی راہ سرے سے نہ تھی ۔

مسلمانوں میں جو لوگ مکہ میں رہ گئے تھے ان پر مکہ والوں نے بڑی سختیاں شروع کردی تھیں کیونکہ وہ لوگ حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوگئے تھے ۔ حضور اکرم ﷺ نے مدینہ میں حکومت قائم کرکے قریش کے قافلوں کو تنگ کرنا شروع کردیا تھا اور پھر جنگ بدر میں مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھا رہے تھے ‘ ان کو مختلف قسم کی اذیتوں میں مبتلا کر رہے تھے ‘ اور سخت بوکھلاہٹ میں ظلم کررہے تھے ۔

بعض لوگوں کو انہوں نے عملا تشدد کرکے دین اسلام سے پھیر دیا تھا۔ بعض لوگ تقیہ کر کے کفر کا اظہار کر رہے تھے اور مشرکین کے ساتھ شرکیہ عبادات میں بظاہر شریک ہوتے تھے ، یہ تقیہ اس وقت ان کے لئے جائز تھا جب اسلامی حکومت نہ تھی اور ہجرت کرنے کے مواقع نہ تھے ۔ لیکن جب اسلامی مملکت کا قیام مدینہ طیبہ میں ہوگیا تو پھر انکا اس طرح فتنوں کے اندر قیام کرنا یا اپنے آپ کو تقیہ پر مجبور کرنا جائز اور معقول نہ تھا جبکہ وہ ہجرت بھی کرسکتے تھے اور دارالاسلام میں امن کی زندگی بھی بسر کرسکتے تھے ۔

ان حالات میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔ یہ لوگ محض دولت اور مصلحت کی وجہ سے ہجرت نہ کر رہے تھے ‘ یا وہ ہجرت کی تکالیف ومشکلات کی وجہ سے مکہ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایسے حالات میں اگر انکی موت واقعہ ہوگئی تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ظالم کا نام دیتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے اس لئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو دارالاسلام کی آزادانہ زندگی سے محروم رکھا ‘ جہاں وہ پاک وصاف اور شریفانہ اور اپنی مرضی کی زندگی بسر کرسکتے تھے ۔ جبکہ دارالکفر میں وہ ذلیل و خوار ‘ کمزور اور مظلوم ہو کر زندگی بسر کر رہے تھے ۔ اور ان پر مظالم ہو رہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جہنم میں رہیں گے جو بہت برا ٹھکانا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کے لئے وعید ہے جنہوں نے فی الواقعہ ڈر کر کفر اختیار کرلیا تھا ۔

لیکن ایسے لوگوں کی تعبیر قرآن مجید نہایت ہی زندہ اور متحرک انداز میں کرتا ہے ۔ ان کے اور فرشتوں کے درمیان مکالمہ ہو رہا ہے اور یہ مکالمہ گویا زندہ افراد کے درمیان ایک اسٹیج پر ہو رہا ہے ۔

(آیت) ” (ان الذین توفھم الملئکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروا فیھا (4 : 97)

ٍ (جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور ومجبور تھے ۔ فرشتوں نے کہا ‘ کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ؟ )

قرآن انسانوں کی تربیت کر رہا تھا ‘ اس لئے اس کے پیش نظریہ ہدف تھا کہ وہ ان کے بھلائی اور عزت وشرف کے جذبے کو جوش میں لائے اور ان کے اندر ضعف ‘ بخل ‘ حرص اور سستی کے پائے جانے والے اوصاف کو ختم کرنے کی سعی کرے ۔ چناچہ اس منظر کی تصویر کشی میں قرآن کریم نے نہایت ہی حقیقی صورت حال کو پیش کیا ہے ۔ لیکن قرآن کریم اس تصویر کشی کو لوگوں کی اصلاح کے لئے استعمال کرتا ہے اور اس کے ذریعے نفوس انسانی کی اصلاح کی جاتی ہے ۔

موت کا وقت ہر انسان کے لئے خوفناک ہوتا ہے ۔ حالت نزع میں جو کچھ پیش آتا ہے انسان کے ذہن میں وہ تمام حالات بہت ہی تیزی کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اس منظر میں فرشتوں کا اسٹیج پر آنا مزید خوفناک صورت حال پیدا کردیتا ہے اور انسان کے حواس بڑی تیزی سے کام کرتے ہیں ۔

یہ لوگ مکہ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور نظر آتا ہے کہ یہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں اور ایسے ہی حالات میں فرشتے آ پہنچتے ہیں اور ان کی روح قبض کرنے لگتے ہیں ۔ چونکہ یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں ‘ اس صورت حال سے ہر زندہ شخص متاثر ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ ایسے مظلومانہ حالات میں بیٹھے ہوئے ہیں اور فرشتے ان کی روح قبض کر رہے ہیں ۔ اب ان کے لئے کوئی موقعہ نہیں رہا ہے کہ وہ اپنے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ہجرت کرلیں کیونکہ زندگی کا موقعہ تو ایک ہی بار آتا ہے ۔

اور یہ فرشتے ان کی روح کو خاموشی کے ساتھ قبض نہیں کرتے بلکہ وہ ان کے ماضی کو بھی سامنے لاتے ہیں اور نہایت ہی ناپسندیدہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ تم نے اپنی زندگی کے قیمتی ایام کن کاموں میں ضائع کئے ؟ دنیا میں ان کا شغل کیا تھا ‘ وہ کیا بلند مقاصد تھے جن کے لئے وہ دوڑ دھوپ کر رہے تھے ؟ (آیت) ” (قالوا فیم کنتم (4 : 97) (تم کن حالات میں رہے)

کیونکہ یہ لوگ جن حالات میں رہے تھے ایسا تو نقصان ہی نقصان تھا۔ یعنی ان کے لئے وقت ضائع کرنے کے سوا کوئی اور مشغلہ ہی نہ تھا اور یہ لوگ جن پر حالت نزع طاری تھی حالت نزع میں جواب دیتے ہیں اور نہایت ہی ناپسندیدہ صورت حالات میں نہایت ہی ذلت کے ساتھ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ ان کے لئے معذرت ہو حالانکہ وہ ذلت ہے ۔ (آیت) ” (قالوا کنا مستضعفین فی الارض (4 : 97) (ہم تو زمین میں کمزور لوگ تھے)

ہم کمزور تھے ‘ طاقتور لوگوں نے ہمیں دبا رکھا تھا ۔ ہم ذلیل و خوار تھے ۔ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہ تھا ۔ ہر شخص اس بات سے نفرت کرے گا کہ حالت نزع میں اس کے ساتھ یہ مکالمہ پیش آئے اس لئے کہ اس سے ان لوگوں کی انتہائی بےبسی کا اظہار ہوتا ہے اور یہ کہ وہ پوری زندگی اس طرح بےبس ہو کر گزار گئے اور پھر بھی ملائکہ نے انہیں نہ چھوڑا جب وہ حالت نزع سے دوچار ہوئے تو ان کو یہ کہا گیا کہ تم نے موقعہ سے فائدہ نہیں اٹھایا۔

(آیت) ” (الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروا فیھا “۔ (4 : 97) (کیا اللہ کی زمین بہت وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے) حقیقت یہ ہے کہ اس ذلت ‘ مسکنت ‘ فتنے اور کمزوری میں اپنے آپ کو وہ اس لئے مبتلا نہ کر رہے تھے کہ وہ فی الواقعہ ایسے حالات میں تھے اور لاچار تھے بلکہ کچھ اور اسباب تھے جن کی وجہ سے انہوں نے اس ذلت کو قبول کر رکھا تھا ۔ وہ لالچی تھے ۔ اور دنیاوی مصلحتوں کی وجہ سے وہ ہجرت نہ کر رہے تھے اور اسی وجہ سے وہ دارالکفر میں جمے ہوئے تھے جبکہ دارالاسلام موجود تھے ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو تنگی میں رکھ رہے تھے حالانکہ اللہ کی سرزمین وسیع تھی ۔ ہجرت وہ کرسکتے تھے اور مشکلات کو وہ برداشت کرسکتے تھے ۔

(آیت) ” فاولئک فاوھم جھنم وسآءت مصیرا “۔ (4 : 97) (یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے)

اس کے بعد مذکورہ بالانجام سے ان لوگوں کو مستثنی کیا جاتا ہے جو فی الواقعہ مجبور ہیں اور ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ اس صورت حال سے نکل آئیں اور دارالاسلام تک پہنچ جائیں ۔ یہ لوگ بچوں ‘ ضعیف بوڑھوں اور عورتوں پر مشتمل ہیں ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے کیسوں پر غور کیا جاسکتا ہے شاید یہ معاف ہوجائیں کیونکہ بظاہر ان کا عذر معقول ہے اور وہ مکہ سے مدینہ منتقل نہیں ہو سکتے ۔

(آیت) ” الا المستضعفین من الرجال والنساء والولدان لا یستطیعون حیلۃ ولا یھتدون سبیلا (98) فاولئک عسی اللہ ان یعفو عنھم وکان اللہ عفوا غفورا “۔ (99) (4 : 98۔ 99) (ہاں جو مرد ‘ عورتیں اور بچے واقعی بےبس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے ‘ بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے ۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے)

یہ حکم ابدالاباد تک رہے گا ۔ یہ احکام ان حالات تک ہی محدود نہیں ہیں جو اس وقت ایک متعین سوسائٹی میں مکہ مکرمہ میں پائے جاتے تھے بلکہ یہ عام احکام ہیں ۔ جس ملک میں بھی کوئی مسلمان اپنے دین کے معاملے میں مشکلات میں مبتلا ہو اور محض اپنی دولت اور جائیداد کی وجہ سے یا رشتہ داروں اور دوستوں کی وجہ سے وہ رہ رہا ہو اور محض اس ڈر سے رہ رہا ہو کہ اگر وہ اس ملک سے نقل مکانی کرے گا تو اسے مشکلات پیش آئیں گی بشرطیکہ دنیا کے کسی حصے میں دارالاسلام قائم ہو۔ اس میں لوگ امن سے رہ رہے ہوں اور اس ملک میں ایسا شخص اپنے عقیدے کا اظہار کھلے بندوں کرسکتا ہو ‘ وہاں وہ اللہ کے احکام اچھی طرح بجا لا سکتا ہو اور اسلامی شریعت کے مطابق پاک زندگی بسر کرسکتا ہو اور شریفانہ اور معزز زندگی گزار سکتا ہو ورنہ وہ مجبور تصور ہوگا۔

سیاق کلام انسانی نفوس کی تربیت کرتے ہوئے مزید آگے بڑھتا ہے ۔ وہ لوگ جو ہجرت کی مشکلات سے ڈرتے ہیں اور اس وجہ سے ہجرت کی ہمت نہیں کرتے ایسے لوگوں کے بارے میں آیات سابقہ میں تو ایک نہایت ہی موثر اور خوفناک منظر پیش کیا گیا تھا اور مسلمانوں کو اس صورت حال سے متنفر کیا گیا تھا ۔ اگلی آیات میں امید کی کرن دکھائی جاتی ہے ۔ کوئی ہجرت کرے چاہے دارالاسلام تک پہنچے یا راستے میں مر جائے اور حالت ہجرت میں اس کی موت واقعہ ہوجائے تو فرماتے ہیں کہ گھر سے نکلتے ہی ‘ اس کا اجر اس کا حق بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اسے بڑی وسعت نصیب ہوگی وہ آزادی سے زندگی بسر کرے گا اور اسے تنگی اور ترشی سے نجات ملے گی ۔

آیت 97 اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰٹہُمُ الْمَلآءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ یعنی انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی ‘ اس سلسلے میں رسول ﷺ کے حکم کی اطاعت نہیں کی تھی۔ آخر موت تو آنی ہے ‘ لہٰذا فرشتے جب ان کی روحیں قبض کریں گے تو ان کے ساتھ اس طرح مکالمہ کریں گے : قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ ط تم نے ایمان کا دعویٰ تو کیا تھا ‘ لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کا حکم دیا تو ہجرت کیوں نہیں کی ؟ تمہیں کیا ہوگیا تھا ؟

بےمعنی عذر مسترد ہوں گے ہجرت اور نیت محمد بن عبدالرحمن ابو الا سود فرماتے ہیں اہل مدینہ سے جنگ کرنے کے لئے جو لشکر تیار کیا گیا اس میں میرا نام بھی تھا۔ میں حضرت ابن عباس کے مولیٰ حضرت عکرمہ سے ملا اور اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے اس میں شمولیت کرنے سے بہت سختی سے روکا۔ اور کہا سنو حضرت ابن عباس سے میں نے سنا ہے کہ بعض مسلمان لوگ جو حضور ﷺ کے زمانے میں مشرکوں کے ساتھ تھے اور ان کی تعداد بڑھاتے تھے بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ ان میں سے کوئی تیر سے ہلاک کردیا جاتا یا مسلمانوں کی تلواروں سے قتل کردیا جاتا، انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یعنی موت کے وقت ان کا اپنی بےطاقتی کا حیلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتا اور روایت میں ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے ایمان کو مخفی رکھتے تھے جب وہ بدر کی لڑائی میں کافروں کے ساتھ آگئے تو مسلمانوں کے ہاتھوں ان میں سے بھی بعض مارے گئے جس پر مسلمان غمگین ہوئے کہ افسوس یہ تو ہمارے ہی بھائی تھے، اور ہمارے ہی ہاتھوں مارے گئے ان کے لئے استغفار کرنے لگے اس پر یہ آیت اتری۔ پس باقی ماندہ مسلمانوں کی طرف یہ آیت لکھی کہ ان کا کوئی عذر نہ تھا کہا یہ نکلے اور ان سے مشرکین ملے اور انہوں نے تقیہ کیا پس یہ آیت اتری (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ) 2۔ البقرۃ :8) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو اسلام کا کلمہ پڑھتے تھے اور تھے مکہ میں ہی ان میں علی ابن امیہ بن خلف اور ابو قیس بن ولید بن مغیرہ اور ابو منصور بن حجاج اور حارث بن زمعہ تھے ضحاک کہتے ہیں یہ ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے بعد مکہ میں رہ گئے پھر بدر کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ آئے ان میں سے بعض میدان جنگ میں کام بھی آگئے۔ مقصد یہ ہے کہ آیت کا حکم عام ہے ہر اس شخص کا جو ہجرت پر قادر ہو پھر بھی مشرکوں میں پڑا رہے اور دین پر مضبوط نہ رہے اوہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہے اور اس آیت کی رو سے اور مسلمانوں کے اجماع سے وہ حرام کام کا مرتکب ہے اس آیت میں ہجرت سے گریز کرنے کو ظلم کہا گیا ہے، ایسے لوگوں سے ان کے نزع کے عالم میں فرشتے کہتے ہیں کہ تم یہاں کیوں ٹھہرے رہے ؟ کیوں ہجرت نہ کی ؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنے شہر سے دوسرے شہر کہیں نہیں جاسکتے تھے، جس کے جواب میں فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین میں کشادگی نہ تھی ؟ ابو داؤد میں ہے جو شخص مشرکین میں ملا جلا رہے انہی کے ساتھ رہے سہے وہ بھی انہی جیسا ہے۔ سدی فرماتے ہیں جبکہ حضرت عباس عقیل اور نوفل گرفتار کئے گئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا عباس تم اپنا فدیہ بھی دو اور اپنے بھتیجے کا بھی، حضرت عباس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم آپ کے قبلے کی طرف نمازیں نہیں پڑھتے تھے ؟ کیا ہم کلمہ شہادت ادا نہیں کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا عباس تم نے بحث تو چھیڑی لیکن اس میں تم ہار جاؤ گے سنو اللہ جل شانہ فرماتا ہے پھر آپ نے یہی تلاوت فرمائی یعنی تم نے ہجرت کیوں نہ کی ؟ پھر جن لوگوں کو ہجرت کے چھوڑ دینے پر ملامت نہ ہوگی ان کا ذکر فرماتا ہے کہ جو لوگ مشرکین کے ہاتھوں سے نہ چھوٹ سکیں اور اگر کبھی چھوٹ بھی جائیں تو راستے کا علم انہیں نہیں ان سے اللہ تعالیٰ درگذر فرمائے گا، " عسی " کلمہ اللہ کے کلام میں وجوب اور یقین کے لئے ہوتا ہے۔ اللہ درگذر کرنے والا اور بہت ہی معافی دینے والا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء کی نماز میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد سجدے میں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی اے اللہ عیاش ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو ولید بن ولید کو اور تمام بےبس ناطاقت مسلمانوں کو کفار کے پنجے سے رہائی دے اے اللہ اپنا سخت عذاب قبیلہ مضر پر ڈال اے اللہ ان پر ایسی قحط سالی نازل فرما جیسی حضرت یوسف کے زمانے میں آئی تھی۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اے اللہ ولید بن ولید کو عیاش بن ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو اور تمام ناتواں بےطاقت مسلمانوں کو اور جو بےحیلے کی طاقت رکھتے ہیں نہ راہ پانے کی کافروں کے ہاتھوں سے نجات دے۔ ابن جریر میں ہے حضور ﷺ ظہر کی نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اس حدیث کے شواہد صحیح میں بھی اس سند کے سوا اور سندوں میں بھی ہیں کہ جیسے کہ پہلے گذرا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں اور میری والدہ ان ضعیف عورتوں اور بچوں میں تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ ہمیں اللہ نے معذور رکھا۔ ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے اور مشرکوں سے الگ ہونے کی ہدایات کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والا ہراساں نہ ہو وہ جہاں جائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسباب پناہ تیار کر دے گا اور وہ بہ آرام وہاں اقامت کرسکے گا مراغم کے ایک معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے بھی ہیں، مجاہد فرماتے ہیں وہ اپنے دکھ سے بچاؤ کی بہت سی صورتیں پالے گا، امن کے بہت سے اسباب اسے مل جائیں گے، دشمنوں کے شر سے بچ جائے گا اور وہ روزی بھی پائے گا گمراہی کی جگہ ہدایت اسے ملے گی اس کی فقیری تونگری سے بدل جائے ارشاد ہوتا ہے جو شخص بہ نیت ہجرت اپنے گھر سے نکلا پھر ہجرت گاہ پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اسے موت آگئی اسے بھی ہجرت کا کامل ثواب مل گیا حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہ ہے جو اس نے نیت کی پس جس کی ہجرت اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ کی رضامندی اور رسول کی خوشنودی کا باعث ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اسے اصل ہجرت کا ثواب نہ ملے گا بلکہ اس کی ہجرت اس کے بارے میں ہے جس نے ننانوے قتل کئے تھے پھر ایک عابد کو قتل کرکے سو پورے کئے پھر ایک عالم سے پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ اس نے کہا تیری توبہ کے اور تیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تو اپنی بستی سے ہجرت کرکے فلاں شہر چلا جا جہاں اللہ کے عابد بندے رہتے ہیں چناچہ یہ ہجرت کرکے اس طرف چلا راستہ میں ہی تھا جو موت آگئی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اس کے بارے میں اختلاف ہوا بحث یہ تھی کہ یہ شخص توبہ کرکے ہجرت کرکے مگر چلا تو سہی یہ وہاں پہنچا تو نہیں پھر انہیں حکم کیا گیا کہ وہ اس طرف کی اور اس طرف کی زمین ناپیں جس بستی سے یہ شخص قریب ہو اس کے رہنے والوں میں اسے ملا دیا جائے پھر زمین کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بری بستی کی جانب سے دور ہوجا اور نیک بستی والوں کی طرف قریب ہوجا، جب زمین ناپی گئی تو توحید والوں کی بستی سے ایک بالشت برابر قریب نکلی اور اسے رحمت کے فرشتے لے گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ موت کے وقت یہ اپنے سینے کے بل نیک لوگوں کی بستی کی طرف گھسیٹتا ہوا گیا۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص اپنے گھر سے اللہ کی راہ میں ہجرت کی نیت سے نکلا پھر آپ نے اپنی تینوں انگلیوں یعنی کلمہ کی انگلی بیچ کی انگلی اور انگھوٹھے کو ملا کر کہا۔ پھر فرمایا کہاں ہیں مجاہد ؟ پھر وہ اپنی سواری پر سے گرپڑا یا اسے کسی جانور نے کاٹ لیا یا اپنی موت مرگیا تو اس کا ہجرت کا ثواب اللہ کے ذمے ثابت ہوگیا (راوی کہتے ہیں اپنی موت مرنے کے لئے جو کلمہ حضور ﷺ نے استعمال کیا) واللہ میں نے اس کلمہ کو آپ سے پہلے کسی عربی کی زبانی نہیں سنا اور جو شخص غضب کی حالت میں قتل کیا گیا وہ جگہ کا مستحق ہوگیا، حضرت خالد بن خرام ہجرت کرکے حبشہ کی طرف چلے لیکن راہ میں ہی انہیں ایک سانب نے ڈس لیا اور اسی میں ان کی روح قبض ہوگئی ان کے بارے میں یہ آیت اتری۔ حضرت زبیر فرماتے ہیں میں چونکہ ہجرت کرکے حبشہ پہنچ گیا اور مجھے ان کی خبر مل گئی تھی کہ یہ بھی ہجرت کرکے آرہے ہیں اور میں جانتا تھا کہ قبیلہ بنو اسد سے ان کے سوا اور کوئی ہجرت کرکے آنے کا نہیں اور کم وبیش جتنے مہاجر تھے ان کے ساتھ رشتے کنبے کے لوگ تھے لیکن میرے ساتھ کوئی نہ تھا میں ان کا یعنی حضرت خالد کا بےچینی سے انتظار کر رہا تھا جو مجھے ان کی اس طرح کی اچانک شہادت کی خبر ملی تو مجھے بہت ہی رنج ہوا۔ یہ اثر بہت ہی غریب ہے، یہ بھی وجہ ہے کہ یہ قصہ مکہ کا ہے اور آیت مدینے میں اتری ہے۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ راوی کا مقصود یہ ہو کہ آیت کا حکم عام ہے گوشان نزول یہ نہ ہو واللہ اعلم۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت صمرہ بن جندب ہجرت کرکے رسول اللہ ﷺ کی طرف چلے لیکن آپ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں انتقال کر گئے ان کے بارے میں یہ آیت شریفہ نازل ہوئی اور روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی ضمرہ جن کو آنکھوں سے دکھائی نہ دیتا تھا جب وہ (اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَةً وَّلَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا) 4۔ النسآء :98) سنتے ہیں تو کہتے ہیں میں مالدار ہوں اور چارہ کار بھی رکھتا ہوں مجھے ہجرت کرنی چاہئے چناچہ سامان سفر تیار کرلیا اور حضور ﷺ کی طرف چل کھڑے ہوئے لیکن ابھی تنعیم میں ہی تھے جو موت آگئی ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخض میری راہ میں غزوہ کرنے کے لئے نکلا صرف میرے وعدوں کو سچا جان کر اور میرے رسولوں پر ایمان رکھ کر بس وہ اللہ کی ضمانت میں ہے یا تو وہ لشکر کے ساتھ فوت ہو کر جنت میں پہنچے گا یا اللہ کی ضمانت میں واپس لوٹے گا اجر و غنیمت اور فضل رب لے کر۔ اگر وہ اپنی موت مرجائے یا مار ڈالا جائے یا گھوڑے سے گرجائے یا اونٹ پر سے گرپڑے یا کوئی زہریلا جانور کاٹ لے یا اپنے بستر پر کسی طرح فوت ہوجائے وہ شہید ہے۔ ابو داؤد میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ وہ جتنی ہے بعض الفاظ ابو داؤد میں نہیں ہیں۔ ابو یعلیٰ میں ہے جو شخص حج کے لئے نکلا پھر مرگیا قیامت تک اس کے لئے حج کا ثواب لکھا جاتا ہے، جو عمرے کے لئے نکلا اور راستے میں فوت ہوگیا اس کے لئے قیامت تک عمرے کا اجر لکھا جاتا ہے۔ جو جہاد کے لئے نکلا اور فوت ہوگیا اس کے لئے قیامت تک کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ یہ حدیث بھی غریب ہے۔

آیت 97 - سورہ نساء: (إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم قالوا فيم كنتم ۖ قالوا كنا مستضعفين في الأرض ۚ قالوا ألم تكن أرض...) - اردو