سورہ نساء (4): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نساء کے بارے میں معلومات

Surah An-Nisaa
سُورَةُ النِّسَاءِ
صفحہ 94 (آیات 95 سے 101 تک)

لَّا يَسْتَوِى ٱلْقَٰعِدُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُو۟لِى ٱلضَّرَرِ وَٱلْمُجَٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلْمُجَٰهِدِينَ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى ٱلْقَٰعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلْمُجَٰهِدِينَ عَلَى ٱلْقَٰعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا دَرَجَٰتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا إِنَّ ٱلَّذِينَ تَوَفَّىٰهُمُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ ظَالِمِىٓ أَنفُسِهِمْ قَالُوا۟ فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا۟ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ قَالُوٓا۟ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ ٱللَّهِ وَٰسِعَةً فَتُهَاجِرُوا۟ فِيهَا ۚ فَأُو۟لَٰٓئِكَ مَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا إِلَّا ٱلْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلْوِلْدَٰنِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا فَأُو۟لَٰٓئِكَ عَسَى ٱللَّهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا ۞ وَمَن يُهَاجِرْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ يَجِدْ فِى ٱلْأَرْضِ مُرَٰغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِنۢ بَيْتِهِۦ مُهَاجِرًا إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ثُمَّ يُدْرِكْهُ ٱلْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُۥ عَلَى ٱللَّهِ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِى ٱلْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا۟ مِنَ ٱلصَّلَوٰةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ ۚ إِنَّ ٱلْكَٰفِرِينَ كَانُوا۟ لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا
94

سورہ نساء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نساء کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اُس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yastawee alqaAAidoona mina almumineena ghayru olee alddarari waalmujahidoona fee sabeeli Allahi biamwalihim waanfusihim faddala Allahu almujahideena biamwalihim waanfusihim AAala alqaAAideena darajatan wakullan waAAada Allahu alhusna wafaddala Allahu almujahideena AAala alqaAAideena ajran AAatheeman

آیت 95 لَایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ ط فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً ط دَرَجَۃً کی تنکیر تفخیم کے لیے ہے ‘ یعنی بہت بڑا درجہ۔ یہاں قتال فی سبیل اللہ کے لیے نکلنے کی بات ہو رہی ہے کہ جو کسی معقول عذر کے بغیر قتال کے لیے نہیں نکلتاوہ اس کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتا جو قتال کر رہا ہے۔ اگر کوئی اندھا ہے ‘ دیکھنے سے معذور ہے یا کوئی لنگڑا ہے ‘ چل نہیں سکتا ‘ ایسے معذور قسم کے لوگ اگر قتال کے لیے نہ نکلیں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن ایسے لوگ جن کو کوئی ایسا عذر نہیں ہے ‘ پھر بھی وہ بیٹھے رہیں ‘ یہاں انہی لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ درجے میں مجاہدین کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتے۔ اور یہ بھی نوٹ کرلیجئے کہ یہ ایسے قتال کی بات ہو رہی ہے جس کی حیثیت اختیاری optional ہو ‘ لازمی قرار نہ دیا گیا ہو۔ جب اسلامی ریاست کی طرف سے قتال کے لیے نفیر عام ہوجائے تو معذورین کے سوا سب کے لیے نکلنا لازم ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ قتال کے لیے پہلی دفعہ نفیر عام غزوۂ تبوک سن 9 ہجری میں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے قتال کے بارے میں صرف ترغیب persuasion تھی کہ نکلو اللہ کی راہ میں ‘ حکم نہیں تھا۔ لہٰذا کوئی جواب طلبی بھی نہیں تھی۔ کوئی چلا گیا ‘ کوئی نہیں گیا ‘ کوئی گرفت نہیں تھی۔ لیکن غزوہ ‘ تبوک کے لیے نفیر عام ہوئی تھی ‘ باقاعدہ ایک حکم تھا ‘ لہٰذا جو لوگ نہیں نکلے ان سے وضاحت طلب کی گئی ‘ ان کا مؤاخذہ کیا گیا اور ان کو سزائیں بھی دی گئیں۔ تو یہاں چونکہ اختیاری قتال کی بات ہو رہی ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا رہا کہ ان کو پکڑو اور سزا دو ‘ بلکہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ قتال کرنے والے مجاہدین اللہ کی نظر میں بہت افضل ہیں۔ اس سے پہلے ایسے قتال کے لیے اسی سورة آیت 84 میں وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ کا حکم ہے ‘ یعنی مومنین کو قتال پر اکسائیے ‘ ترغیب دیجئے ‘ آمادہ کیجئے۔ لیکن یہاں واضح انداز میں بتایا جا رہا ہے کہ قتال کرنے والے اور نہ کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ وَکُلاًّ وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ط۔چونکہ ابھی قتال فرض نہیں تھا ‘ نفیر عام نہیں تھی ‘ سب کا نکلنا لازم نہیں کیا گیا تھا ‘ اس لیے فرمایا گیا کہ تمام مؤمنین کو ان کے اعمال کے مطابق اچھا اجر دیا جائے گا۔ قتال کے لیے نہ نکلنے والوں نے اگر اتنی ہمت نہیں کی اور وہ کمتر مقام پر قانع ہوگئے ہیں تو ٹھیک ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلے میں ان پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔

اردو ترجمہ

اُن کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Darajatin minhu wamaghfiratan warahmatan wakana Allahu ghafooran raheeman

اردو ترجمہ

جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena tawaffahumu almalaikatu thalimee anfusihim qaloo feema kuntum qaloo kunna mustadAAafeena fee alardi qaloo alam takun ardu Allahi wasiAAatan fatuhajiroo feeha faolaika mawahum jahannamu wasaat maseeran

آیت 97 اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰٹہُمُ الْمَلآءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ یعنی انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی ‘ اس سلسلے میں رسول ﷺ کے حکم کی اطاعت نہیں کی تھی۔ آخر موت تو آنی ہے ‘ لہٰذا فرشتے جب ان کی روحیں قبض کریں گے تو ان کے ساتھ اس طرح مکالمہ کریں گے : قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ ط تم نے ایمان کا دعویٰ تو کیا تھا ‘ لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کا حکم دیا تو ہجرت کیوں نہیں کی ؟ تمہیں کیا ہوگیا تھا ؟

اردو ترجمہ

ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa almustadAAafeena mina alrrijali waalnnisai waalwildani la yastateeAAoona heelatan wala yahtadoona sabeelan

آیت 98 اِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآء والْوِلْدَانِِ جن لوگوں کو کمزور سمجھ کر دبالیا گیا ہو ‘ واقعتا زنجیروں میں جکڑ کر گھروں میں بند کردیا گیا ہو ‘ ان کا معاملہ اور ہے۔ یا پھر کوئی عورت ہے جس کے لیے تنہا سفر کرنا ممکن نہیں۔ ویسے تو ایسی عورتیں بھی تھیں جنہوں نے تنہا ہجرتیں کیں ‘ لیکن ہر ایک کے لیے تو ایسا ممکن نہیں تھا۔

اردو ترجمہ

بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faolaika AAasa Allahu an yaAAfuwa AAanhum wakana Allahu AAafuwwan ghafooran

آیت 99 فَاُولٰٓءِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ ط وَکَان اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا ایسے بےبس اور لاچار مردوں ‘ بچوں اور عورتوں کے لیے اسی سورة آیت 75 میں حکم ہوا تھا کہ ان کے لیے قتال فی سبیل اللہ کرو اور انہیں جا کر چھڑاؤ۔ لیکن جو لوگ ہجرت کے اس واضح حکم کے بعد بھی بغیر عذر کے بیٹھے رہے ہیں ان کے بارے میں مسلمانوں کو بتایا گیا کہ وہ منافق ہیں ‘ ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ‘ جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ بلکہ قتال کے معاملے میں وہ بالکل کفار کے برابر ہیں۔

اردو ترجمہ

جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اوربسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا، اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر راستہ ہی میں اُسے موت آ جائے اُس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہو گیا، اللہ بہت بخشش فرمانے والا اور رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman yuhajir fee sabeeli Allahi yajid fee alardi muraghaman katheeran wasaAAatan waman yakhruj min baytihi muhajiran ila Allahi warasoolihi thumma yudrikhu almawtu faqad waqaAAa ajruhu AAala Allahi wakana Allahu ghafooran raheeman

آیت 100 وَمَنْ یُّہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً ط جیسے سورة العنکبوت میں فرمایا : یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو ‘ میری زمین بہت کشادہ ہے ‘ پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو !“۔ اگر یہاں اپنے وطن میں اللہ کی بندگی نہیں کرسکتے ہو تو کہیں اور چلے جاؤ۔وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَیْتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ط یعنی جس کسی نے بھی ہجرت کی ‘ فی سبیل اللہ ‘ دولت کے لیے یا حصول دنیا کے لیے نہیں ‘ بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا جوئی کے لیے ‘ وہ اصل ہجرت ہے۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ملتی ہے : اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئ مَا نَوٰی ‘ فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ‘ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ لِدُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ 1اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہی ہے اور بلاشبہ ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔ پس جس نے ہجرت کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف تو واقعی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہے ‘ اور جس نے ہجرت کی دنیا کمانے کے لیے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف شمار ہوگی جس کا اس نے قصد کیا۔“چنانچہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی ‘ خلوصِ نیّت کے ساتھ گھر سے نکل کھڑا ہوا اور راستے ہی میں فوت ہوگیا ‘ مدینہ منورہ نہیں پہنچ سکا ‘ حضور ﷺ کے قدموں تک اس کی رسائی نہیں ہوسکی ‘ وہ اپنا مقصود حاصل نہیں کرسکا ‘ تو پھر بھی وہ کامیاب و کامران ہے۔ اللہ ‘ تعالیٰ اس کی نیت کے مطابق اسے ہجرت کا اجر ضرور عطا فرمائے گا۔

اردو ترجمہ

اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو (خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha darabtum fee alardi falaysa AAalaykum junahun an taqsuroo mina alssalati in khiftum an yaftinakumu allatheena kafaroo inna alkafireena kanoo lakum AAaduwwan mubeenan

اس رکوع میں پھر شریعت کے کچھ احکام اور عبادات کی کچھ تفاصیل ہیں۔ گویا خطاب کا رخ اب پھر اہل ایمان کی طرف ہے۔آیت 101 وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِق اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا یہ تو ہے حالت سفر میں قصر صلوٰۃکاحکم۔ لیکن جنگ کی حالت میں قصر یعنی صلوٰۃ الخوف کا طریقہ اگلی آیت میں مذکور ہے۔ حالت جنگ میں جب پورے لشکر کا ایک ساتھ نماز پڑھنا ممکن نہ رہے تو گروہوں کی شکل میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن ایسی صورت میں جب حضور ﷺ خود بھی لشکر میں موجود ہوتے تو کوئی ایک گروہ ہی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ سکتا تھا ‘ جبکہ دوسرے گروہ کے لوگوں کو لازماً محرومی کا احساس ہوتا۔ لہٰذا اس مسئلے کے حل کے لیے صلوٰۃ الخوف ادا کرنے کی بہت عمدہ تدبیر بتائی گئی۔

94