(آیت) ” یومئذ یود الذین کفروا وعصوا الرسول لو تسوی بھم الارض ولا یکتمون اللہ حدیثا (4 : 42) ” اس وقت جنہوں نے رسول کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے ‘ تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں ۔ وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے۔
اس زندہ اور متحرک انداز تعبیر کی جھلکیوں کے درمیان سے ہم ان تمام معانی کو پاتے ہیں اور یہ سب تاثرات کو چشم تصور سے دیکھ لیتے ہیں جو حشر میں کھڑے ان لوگوں کے چہروں سے عیاں ہوں گے ۔ یہ تاثرات ہم نہایت ہی گہرے ادراک کے ساتھ زندہ اور متحرک پاتے ہیں۔ دنیا کے تمام ادب پاروں کو کھنگال لیجئے ! آپ کو کسی بھی بیانیہ کلام یا تجزیہ نگاری میں یہ تاثر نہ ملے گا قیامت کے مناظر بیان کرتے ہوئے قرآن بطور خاص یہ انداز اختیار کرتا ہے اور قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی اس کے نمونے ملتے ہیں ۔
اس درس کا آغاز اس مضمون سے ہوا تھا کہ اللہ کی بندگی اور عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ کرو ‘ نماز چونکہ اللہ کی بندگی اور عبادت کی محسوس ترین شکل ہے ‘ اس لئے اگلی آیت میں نماز کے بعض احکام کو بیان کیا جاتا ہے ۔ نیز نماز کی تیاری کے لئے طہارت کے بعض احکام بھی بیان ہوتے ہیں۔
آیت 42 یَوْمَءِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُ ط۔یعنی کسی طرح زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں دفن ہوجائیں ‘ ہمیں نسیاً منسیّا کردیا جائے۔