سورہ نساء (4): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نساء کے بارے میں معلومات

Surah An-Nisaa
سُورَةُ النِّسَاءِ
صفحہ 85 (آیات 38 سے 44 تک)

وَٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ رِئَآءَ ٱلنَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلَا بِٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۗ وَمَن يَكُنِ ٱلشَّيْطَٰنُ لَهُۥ قَرِينًا فَسَآءَ قَرِينًا وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ ءَامَنُوا۟ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَأَنفَقُوا۟ مِمَّا رَزَقَهُمُ ٱللَّهُ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ بِهِمْ عَلِيمًا إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَٰعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍۭ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰٓؤُلَآءِ شَهِيدًا يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَعَصَوُا۟ ٱلرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ ٱلْأَرْضُ وَلَا يَكْتُمُونَ ٱللَّهَ حَدِيثًا يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَقْرَبُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَأَنتُمْ سُكَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا۟ مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِى سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا۟ ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوا۟ مَآءً فَتَيَمَّمُوا۟ صَعِيدًا طَيِّبًا فَٱمْسَحُوا۟ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ نَصِيبًا مِّنَ ٱلْكِتَٰبِ يَشْتَرُونَ ٱلضَّلَٰلَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا۟ ٱلسَّبِيلَ
85

سورہ نساء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نساء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کیلیے خرچ کرتے ہیں اور در حقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخر پر سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اُسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena yunfiqoona amwalahum riaa alnnasi wala yuminoona biAllahi wala bialyawmi alakhiri waman yakuni alshshaytanu lahu qareenan fasaa qareenan

اردو ترجمہ

آخر اِن لوگوں پر کیا آفت آ جاتی اگر یہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے اور جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے اگر یہ ایسا کرتے تو اللہ سے ان کی نیکی کا حال چھپا نہ رہ جاتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamatha AAalayhim law amanoo biAllahi waalyawmi alakhiri waanfaqoo mimma razaqahumu Allahu wakana Allahu bihim AAaleeman

(آیت) ” وما ذا علیھم لو امنوا باللہ والیوم الاخر وانفقوا مما رزقھم اللہ وکان اللہ بھم علیما (39) ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ وان تک حسنۃ یضعفھا ویوت من لدنہ اجرا عظیما (40) (4 (39۔ 40)

” آخر ان لوگوں پر کیا آفت آجاتی اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے اور جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے اور اگر یہ ایسا کرتے تو اللہ سے ان کی نیکی کا حال چھپا نہ رہ جاتا ۔ اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ‘ اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اسے دوچند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے ۔

ہاں ‘ انہیں کیا ہوجاتا ۔ وہ کیا نقصان ہے ‘ جس کی بابت وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے سے ڈرتے ہیں ۔ جس کی بابت وہ انفاق کرنے سے ڈرتے ہیں ‘ یعنی اللہ کا دیا ہوا ‘ اللہ کے راستے میں ‘ اللہ تو اس چیز کو بھی جانتا ہے جو وہ خرچ کرتے ہیں اور ان اسباب اور دواعی سے بھی باخبر ہے جن کی وجہ سے وہ خرچ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو ذرہ برابر کسی پر ظلم نہیں کرتے ۔ اس لئے اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ اللہ کو ان کے ایمان اور ان کے انفاق کے بارے میں علم نہ ہو سکے گا ۔ اس لئے اللہ انہیں جو جزاء دے گا اس میں ظلم نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اس میں خاص اضافہ فرمائے گا ۔ نیکیاں زیادہ کردی جائیں گی اور اللہ اپنی جانب سے بلاحساب دے گا ۔

ایمان کا راستہ ہر صورت میں محفوظ اور مفید ہے ۔ یعنی مادی مفادات ونقصانات کے نقطہ نظر سے بھی ۔ اگر خالص مادی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو ایمان پھر بھی مفید اور محفوظ راستہ ہے ۔ اس لئے پوچھا جاتا ہے کہ انہیں کیا نقصان ہوگا اگر وہ اللہ پر ایمان لائیں اور یوم آخرت پر یقین رکھیں اور انہیں اللہ نے جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کریں ۔ اس لئے کہ وہ جو کچھ خرچ کر رہے ہیں ‘ اس میں سے کوئی چیز انکی پیدا کردہ نہیں ہے ۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ بطور برواحسان خرچ کرنے والوں کو کئی گنا اجر دیتا ہے اور اس پر اس کا فضل وکرم مستزاد ہوگا حالانکہ وہ جو کچھ خرچ کر رہے ہیں وہ اللہ کے دیئے ہوئے سے خرچ کر رہے ہیں ۔ کیا ہی عظیم ہے اللہ کا فضل وکرم ۔ کیا ہی بہترین سودا ہے یہ ۔ اس سے تو کوئی جاہل ہی باز رہ سکتا ہے ۔

آخر میں اوامر اونوہی اور ترغیب اور تحریک کا خاتمہ مشاہد قیامت میں سے ایک منظر پر ہوتا ہے ۔ یہاں ان کے موقف کو مجسم شکل میں اور حرکت کرتے ہوئے زندہ کرداروں میں پیش کیا جاتا ہے ‘ جس طرح قرآن کریم ہمیشہ مشاہدات قیامت کو زندہ اور متحرک شکل میں پیش کرتا ہے ۔

اردو ترجمہ

اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha la yathlimu mithqala tharratin wain taku hasanatan yudaAAifha wayuti min ladunhu ajran AAatheeman

اردو ترجمہ

پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد ﷺ کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fakayfa itha jina min kulli ommatin bishaheedin wajina bika AAala haolai shaheedan

(آیت) ” فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھولاء شھیدا (41) یومئذ یود الذین کفروا وعصوا الرسول لو تسوی بھم الارض ولا یکتمون اللہ حدیثا “۔ (42) (4 : 41۔ 42)

” پھر سوچو کہ اس وقت یہ لوگ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں (یعنی آپ کو اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے ۔ اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے رسول کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے ‘ تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں ۔ وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے ۔

پہلی آیت میں بطور تمہید کہا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ‘ اس لئے قیامت میں مکمل عدالت ہوگی اور اللہ کے ترازو میں بال برابر بھی کھوٹ نہ ہوگا ۔ اور یہ کہ اللہ حسنات کو کئی گنا کر دے گا اور اس پر مستزاد اللہ کی جانب سے اہل ایمان پر فضل وکرم ہوگا ۔ اللہ کی رحمت ہوگی مگر ان لوگوں پر جو رحمت کے مستحق ہوں گے اور وہاں اللہ کا فضل بھی ہوگا مگر صرف ان لوگوں پر ہوگا جو اپنے ایمان کے ذریعے اللہ کے فضل کے امیدوار ہوں گے ۔

مگر ان دوسرے لوگوں کا حال کیا ہوگا جنہوں نے ایمان کی پونجی پیش نہیں کی اور انہوں نے عمل کا سرمایہ جمع نہیں کیا ۔ انہوں کفر اور بداعمالیاں جمع کیں ۔ اس دن پھر ان کا حال کیا ہوگا ؟ اس وقت جب ہم ہر قوم سے اس قوم کے خلاف ایک گواہ لائیں گے اور اسے محمد ﷺ تمہیں امت مسلمہ پر گواہ لائیں گے ۔

یہاں آکر قیامت کا منظر صاف صاف آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔ یہ ایک وسیع میدان ہے ۔ تمام امتیں جگہ جگہ موجود ہیں اور ہر امت کے اعمال پر ایک گواہ پیش ہوگا ۔ یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ‘ فخر کیا ‘ غرور کیا ‘ بخل کیا ‘ بخل کے داعی رہے ۔ اللہ کے فضل کو چھپاتے رہے اور دکھاوا کرتے رہے اور کوئی کام رضائے الہی کے لئے نہ کرتے تھے ۔ یہ منظر کشی ایسی ہے کہ الفاظ کے اندر سے قریب سے قریب ہے کہ ہم انہیں دیکھ لیں ۔ وہ میدان میں کھڑے ہیں ‘ ہر امت کے رسول کو شہادت کے لئے بلایا جاتا ہے اور ہمارے رسول ﷺ کو بھی بلایا جاتا ہے اور یہ لوگ اپنے پورے کفر کے ساتھ ‘ اپنے تمام پوشیدہ اور ظاہری اعمال کے ساتھ ‘ اپنے پورے تکبر اور غرور کے ساتھ ‘ اپنی پوری کنجوسی اور دعوت بخل کے ساتھ اپنے خالق کی درگاہ میں کھڑے ہوں گے ۔ اس رازق کی عدالت میں ہوں گے جس کے فضل کو انہوں نے چھپایا اور اس کے دیئے ہوئے سے خرچ نہ کیا ۔ اب ان کے سامنے وہ دن (قیامت) ہے جس پر ان کا یقین نہ تھا ۔ پھر اسی رسول کی موجودگی میں انصاف ہوگا جس کا انہوں نے انکار کیا تھا ‘ پھر ان کا کیا حال ہوگا ؟

بیشک یہ لوگ عظیم شرمندگی اور ذلت سے دو چار ہوں گے ۔ شرمندگی اور ندامت سے انکے سرجھکے ہوں گے وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے کیونکہ انکار سے انہیں فائدہ ہی کیا ہوگا ۔

قرآن کریم کی عبارت ان مضامین کو محض ظاہری انداز میں بیان نہیں کرتی بلکہ اسے ایک نفسیاتی تصویر کشی کے انداز میں بیان کیا جاتا ہے اور ان لوگوں کے اوپر شرمندگی ‘ ذلت اور ندامت کے سائے صاف نظر آرہے ہیں ۔ ذرا الفاظ ملاحظہ کریں ۔

اردو ترجمہ

اُس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے رسولؐ کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawmaithin yawaddu allatheena kafaroo waAAasawoo alrrasoola law tusawwa bihimu alardu wala yaktumoona Allaha hadeethan

(آیت) ” یومئذ یود الذین کفروا وعصوا الرسول لو تسوی بھم الارض ولا یکتمون اللہ حدیثا (4 : 42) ” اس وقت جنہوں نے رسول کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے ‘ تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں ۔ وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے۔

اس زندہ اور متحرک انداز تعبیر کی جھلکیوں کے درمیان سے ہم ان تمام معانی کو پاتے ہیں اور یہ سب تاثرات کو چشم تصور سے دیکھ لیتے ہیں جو حشر میں کھڑے ان لوگوں کے چہروں سے عیاں ہوں گے ۔ یہ تاثرات ہم نہایت ہی گہرے ادراک کے ساتھ زندہ اور متحرک پاتے ہیں۔ دنیا کے تمام ادب پاروں کو کھنگال لیجئے ! آپ کو کسی بھی بیانیہ کلام یا تجزیہ نگاری میں یہ تاثر نہ ملے گا قیامت کے مناظر بیان کرتے ہوئے قرآن بطور خاص یہ انداز اختیار کرتا ہے اور قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی اس کے نمونے ملتے ہیں ۔

اس درس کا آغاز اس مضمون سے ہوا تھا کہ اللہ کی بندگی اور عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ کرو ‘ نماز چونکہ اللہ کی بندگی اور عبادت کی محسوس ترین شکل ہے ‘ اس لئے اگلی آیت میں نماز کے بعض احکام کو بیان کیا جاتا ہے ۔ نیز نماز کی تیاری کے لئے طہارت کے بعض احکام بھی بیان ہوتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے، جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la taqraboo alssalata waantum sukara hatta taAAlamoo ma taqooloona wala junuban illa AAabiree sabeelin hatta taghtasiloo wain kuntum marda aw AAala safarin aw jaa ahadun minkum mina alghaiti aw lamastumu alnnisaa falam tajidoo maan fatayammamoo saAAeedan tayyiban faimsahoo biwujoohikum waaydeekum inna Allaha kana AAafuwwan ghafooran

یہ بھی جماعت مسلمہ کی تربیت کی ایک اہل کڑی ہے جسے اسلامی نظام حیات نے جاہلیت کی پستیوں سے سربلند کیا ۔ شراب نوشی جاہلی معاشرے کی ایک عام اور بنیادی عادت تھی بلکہ قدیم اور جدید جاہلیتوں کی یہ امتیازی خصوصیت رہی ہے ۔ رومی معاشرہ جب اپنی ترقی کے انتہائی عروج پر تھا تو شراب نوشی اس کی ممتاز ترین خصوصیات میں سے ایک تھی ، اسی طرح فارس کے جاہلی معاشرے کی اہم خصوصیات میں سے شراب نوشی ایک اہم خصوصیت تھی ۔ آج امریکی اور یورپین تہذیب اور جاہلیت اپنے عروج پر ہیں اور شراب نوشی انکی ممتاز ترین صفت ہے ۔ افریقہ میں جو ترقی یافتہ معاشرے گزرے ہیں ان کی خصوصیات میں بھی یہ اہم خصوصیت رہی ہے ۔

سویڈن آج کے ترقی یافتہ جاہلی ممالک میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے گزشتہ صدی کے نصف آخر میں اس کا حال یہ تھا کہ اس کا ہر خاندان اپنے لئے مخصوص شراب استعمال کرتا تھا ۔ اور ان میں سے ہر فرد اوسطا بیس لیٹر شراب پیتا تھا ۔ حکومت سویڈن کو ان اعداد سے تشویش لاحق ہوئی کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ نشے کے خطرناک حد تک عادی بنتے جارہے تھے ۔ حکومت نے یہ پالیسی اختیار کی کہ شراب خرید کر اسے سٹور کیا جائے ۔ اور انفرادی استعمال کے اعداد و شمار کی حد کو کم کرنے کی سعی کی جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے عام مقامات پر شراب نوشی کی ممانعت کردی ۔ لیکن حکومت نے جلدی اپنے اقدامات سے رجوع کرلیا ہے اور عائد شدہ پابندیوں میں تخفیف کردی گئی ۔ ہوٹلوں میں شراب نوشی کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر کوئی کھانا کھائے تو شراب پی سکتا ہے ۔ اس کے بعد پبلک مقامات میں سے بعض مقامات پر اجازت دے دی گئی اور یہ اجازت بھی نصف رات تک دی گئی ۔ نصف رات کے بعد نبیذ اور بیر کے استعمال کی اجازت دی گئی لیکن نوجوانوں کے اندر شراب نوشی کی عادت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔

امریکہ میں ایک دفعہ حکومت نے اس بری عادت کو ختم کرنے کا ارادہ کیا ۔ 1919 ء میں اس نے قانون تحریم شراب نوشی پاس کیا ۔ اس قانون کو خشکی کا قانون کہا گیا ۔ اس لئے کہ اس نے شراب نوشی کے ذریعے آبپاشی کو منع کردیا ۔ یہ قانون صرف 14 سال تک چل سکا اور حکومت نے اسے 1923 ء میں منسوخ کردیا ۔ اس قانون کی حمایت میں حکومت امریکہ نے ریڈیو ‘ سینما ‘ تقاریر اور نشرواشاعت اور پروپیگنڈے کے جدید ترین وسائل استعمال کئے ۔ صرف شراب نوشی کے خلاف نشرواشاعت پر حکومت نے اس وقت 60 ملین ڈالر خرچ کئے اور جو کتابیں ‘ رسالے اور پمفلٹ شائع کئے گئے وہ دسیوں بلین صفحات پر مشتمل تھے ۔ اس قانون کے پاس کرنے کی وجہ سے حکومت کو 250 بلین پونڈ کے اخراجات بشکل تاوان دینے پڑے ۔ تین سو افراد لقمہ اجل بنے ۔ 335 ‘ 32 ‘ 5 افراد قید ہوئے ‘ 61 ملین پونڈ جرمانے ہوئے ‘ چار بلین اور 400 ملین پونڈ مالیت کی جائیدادیں ضبط ہوئیں ۔ لیکن ان اقدامات کے باوجود حکومت اس قانون کو منسوخ کرنے پر مجبور ہوئی اور اس نے پسپائی اختیار کی ۔

جاہلیت میں شراب نوشی ایک عادت تھی لیکن اسلام نے چند آیات نازل کر کے اس کا خاتمہ کردیا ۔ یہ ہے وہ فرق نفس انسانی اور انسانی معاشرے کے ساتھ اسلامی طرز عمل اور جاہلی طرز عمل اور طریقہ تربیت کا ۔ اور قدیم زمانے میں بھی یہ فرق تھا اور آج بھی یہ فرق اپنی جگہ قائم ہے ۔

سوال یہ ہے کہ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں شراب نوشی کا کیا حال تھا ؟ اس کی حقیقی صورت حال اس شخص کو معلوم ہوگا جو دور جاہلیت کے اشعار کا قدرے گہرا مطالعہ کرے گا ۔ ادبی موضوعات میں سے شراب اہم ترین موضوع رہا ہے جیسا کہ جاہلی زندگی میں یہ ایک اہم خصوصیت تھی ، شراب اس قدر فروخت ہوتی تھی کہ تجارت کا لفظ عام تجارت کے بجائے شراب کی فروخت کے ساتھ مخصوص ہوگیا ۔ مشہور شاعر ولید کہتا ہے۔

قد بت سامرھا وغایۃ تاجر

وافیت اذ رفعت رعز مدامھا :

(حیش و عشرت کی کئی ایسی راتیں میں نے قصہ گوئی میں بسر کیں اور ان میں شراب ایسے تاجروں کے پاس پہنچی جنہوں نے اپنی کالونی پر نئے نئے جھنڈے لگائے تھے اور پرانی شراب کے دام بہت ہی چڑھ گئے) عمرو ابن قمیہ کہتا ہے ۔

اذا اسحب الربط والمروط الی

ادنی تجاری وانفض اللمما :

ّ (اس جوانی کے وقت کو یاد کرو جب ریشم کے قیمتی کپڑے پہن کر اپنے قریب ترین شراب فروش کے پاس پہنچ جاتا تھا اور اپنے سر کے لمبے لمبے بالوں کو سر کی حرکت کی وجہ سے جھاڑتا تھا نشہ ‘ شراب اور غرور کی وجہ سے)

مجالس شراب نوشی کا بیان اور شراب نوشی پر فخر کے مضامین سے جاہلیت کے اشعار بھرین ہوئے اور یہ ان کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہے ۔ امراء القیس کہتے ہیں ۔

1۔ واصحبت ودعت الصباغیر اننی اراقب حلالت من العیش اربعا :

2۔ فمنھن قولی للندامی ترفقوا بداجون نشاجا من الخمر مترعا :

3۔ ومنھن رکض الخیل ترجم بالقنا یبادرون معربا امنا ان یفزعا :

(1) صبح ہوئی اور اس نے شراب کو الواداع کہہ دیا ‘ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو زندگی کی چار صفات کو بہت پسند کرتا ہوں ۔

(2) پہلی یہ کہ اپنے ہم پیالہ می خواروں کو یہ

(3) ان میں سے ایک یہ کہ میں گھوڑا ایڑھی لگاؤں اور تیر پھینکتے ہوئے نیل گایوں کے ایسے گلے پر جھپٹ کر خوفزدہ کر دون جو نہایت ہی امن و سکون سے چر رہا تھا ۔

اور طرفہ ابن العبد کہتے ہیں :

فلولا ثلاث ھن من عیسۃ الفتی

وجدک لم احفل متی قام عودی :

اگر تین چیزیں نہ ہوتیں جو ایک نوجوان کے لئے سامان عیش ہیں تو تیرے سر کی قسم میں اپنی پوری زندگی میں کسی محفل میں شریک نہ ہوتا ۔

فمنھن سبق العاذلات بشربۃ

کمیت متی ماتعل بالماتزبد :

ان میں سے ایک یہ ہے کہ شرمسار کنندہ عورتوں سے بھی آگے بڑھ کر کلیجی رنگ کا جام اٹھا لیتا ہوں جس میں اگر پانی ڈالا جائے تو کف آجائے ۔

وما زال تشرب الخمور ولذتی

وبذنی وانفاقی طریفی وتالدی :

میں ہمیشہ شراب نوشی اور لذت نوشی کا عادی ہو اور مسلسل اپنی جدت دولت اور تازہ جمع کردہ مال کو خرچ کرتا رہتا ہوں ۔

الی ان تحامثنی العشیرہ کلھا

یہاں تک کہ ہر قبیلہ میری دشمنی پر اتر آیا اور میں اس طرح اکیلا ہوگیا ہوں جس طرح خارش زدہ اونٹ علیحدہ کردیا جاتا ہے ۔

اور اغشی کہتے ہیں :

فقد شرب الراح تعلمین

یوم المقام دیوما لظعن :

(میں شراب پیتا ہوں اور تمہیں خوب خبر ہے قیام کے دن بھی اور سفر کے دن بھی ۔

واشرب بالریف حی یقا

لی قد طال بالریف ما قد دجن :

اور میں سرسبزی اور شادابی میں بہت پیتا ہوں یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ اب کے موسم بہار کی بارشوں میں بہت عوانت ہوگئی ہے ۔

مخسل لیثکری کہتے ہیں ۔

(1) لقد شربت من المدامۃ بالصغیر وبالکبیر :

(2) فاذا سکرت فانی رب الخورنق والسدیر :

(3) واذا اصحوت فاننی رب الشویۃ والبعیر :

(1) میں ہمیشہ شراب نوشی کرتا ہوں ‘ چھوٹوں کے ساتھ بھی اور بڑوں کے ساتھ بھی ۔ (یعنی ہر محفل میں)

(2) اگر میں بےہوش ہوجاؤں تو حورنق اور سدیر نامی قلعوں کا مالک ہوں ۔ (یعنی ان قلعوں میں دادعیش دیتا ہوں اور اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہوں)

(3) اور اگر میں ہوش میں ہوا تو پھر میں بکریوں اور اونٹوں کا مالک ہوں ۔ (یعنی بکریاں اور اونٹ ذبح کرتا ہوں اور چراتا ہوں) ۔

تحریم شراب کے مختلف مراحل میں جو واقعات پیش آئے اور ان واقعات کا تعلق جن لوگوں سے ہے ‘ مثلا حضرت عمر ؓ علی ؓ حمزہ ؓ عبدالرحمن ؓ ابن عوف اور ان جیسے دوسرے مشہور صحابہ ؓ اجمعین ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریم شراب سے قبل اس کا رواج کس قدر زیادہ تھا ‘ خصوصا دور جاہلیت میں بعض واقعات مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر کافی ہیں ۔

حضرت عمر ؓ اپنے قصہ اسلام میں بیان کرتے فرماتے ہیں : ” میں جاہلیت میں شراب نوشی کا عادی تھا میں نے سوچا کہ فلاں شراب فروش کے پاس جاؤں اور شراب پی لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “ اسلام میں بھی حضرت عمر ؓ شراب استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی :

(آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما “۔ (2 : 219) ” لوگ آپ سے جوئے اور شراب کے بارے میں سوال کرتے ہیں ؟ کہہ دیں ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں اور ان کا گناہ انکے نفع سے بڑا ہے ۔ “ تو حضرت عمر ؓ نے دعا کی : ” اے اللہ ہمارے لئے شراب کے بارے میں کافی وشافی بیان نازل فرما دے ۔ “ اور آپ نے شراب نوشی کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ شراب کی حرمت کا صریح حکم نازل ہوا :

(آیت) ” یایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (90) انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ فھل انتم منتھون “۔ (91) (5 : 90۔ 91) (شراب جوا اور آستانے اور پانسے شیطان کے ناپاک اعمال ہیں ‘ لہذا ان سے اجتناب کرو ‘ امید ہے کہ تم فلاح پالو گے ‘ بیشک شیطان صرف یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے بغض وعداوت پیدا کردے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ۔ کیا تم اس سے باز آؤگے ؟ ) اس پر حضرت عمر ؓ نے کہا ہاں ہم باز آگئے باز آگئے اور اس کے بعد شراب نوشی سے رک گئے اور آیت (یایھا الذین امنوا لا تقرابو الصلوۃ وانتم سکری “۔ (4 : 43) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اس وقت تک نماز کے قریب مت جاؤ جب تک تم نشے کی حالت میں ہو) کے بارے میں دو روایات وارد ہیں جن میں مہاجرین میں سے حضرت علی ؓ اور عبدالرحمن بن عوف اور انصار میں سے سعد بن معاذ شریک واقعہ ہیں ۔

ابن ابی حاتم ‘ یونس ابن حبیب ‘ ابو داؤد ‘ مصعب ابن سعد وہ اپنے والد سعد سے روایت کرتے ہیں کہ میرے بارے میں چار آیات نازل ہوئیں ۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک انصاری نے دعوت طعام تیار کی ۔ اس نے کچھ لوگ مہاجرین کے اور کچھ انصار کے بلائے ۔ ہم نے کھایا پیا یہاں تک کہ ہم مدہوش ہوگئے ‘ پھر اپنے اپنے بارے میں مفاخر بیان کرتے لگے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی لی اور سعد کی ناک پر دے ماری ۔ چناچہ سعد مغروزالانف تھے ۔ یہ واقعہ شراب نوشی کی حرمت سے پہلے کا ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری (4 : 43) یہ ایک طویل حدیث ہے جو امام مسلم نے شعبہ سے نقل کی ہے ۔

ابن ابی حاتم ‘ ابن عمار عبدالرحمن ابن عبداللہ دشت کی ابو جعفر ‘ عطاء ابو عبدالرحمن ؓ اجمعین کی سند سے حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ عبدالرحمن ابن عوف ؓ نے ہمارے لئے کھانا تیار کیا ۔ اس نے ہمیں دعوت دی اور شراب پلائی ‘ شراب نے ہمیں لے لیا ‘ اور نماز کا وقت ہوگیا ۔ لوگوں نے فلاں کو آگے کیا ۔ اس نے پڑھا ۔ (یایھا الکافرون ما اعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون) اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی ۔ (یایھا الذین امنوا لا تقرابو الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون “۔ (4 : 43) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اس وقت تک نماز کے قریب مت جاؤ جب تک تم نشے کی حالت میں ہو یہاں تک کہ تم جو کچھ پڑ تھے ہو اسے سمجھو “۔ ) میں سمجھتا ہوں کہ دور جاہلیت میں شراب نوشی کی کثرت اور وسیع استعمال کے ثبوت کے لئے اس سے زیادہ روایات کے بیان کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ روایات کافی ہیں ۔ شراب نوشی اور جوئے بازی کا رواج نہایت ہی وسیع تھا اور دور جاہلیت کی عادات وتقالید میں سے یہ دونوں عادتیں نہایت ہی ممتاز تھیں ۔

سوال یہ ہے کہ ربانی نظام حیات نے اس ممتاز اور نہایت ہی گہری صفت اور عادت کا علاج کس طرح کیا اور اس مصیبت کا دفعیہ کس طرح ہوگیا جس کے ہوتے ہوئے کوئی سنجیدہ استوار ‘ صالح اور دانشمند معاشرہ اٹھ ہی نہیں سکتا تھا ۔ اس قدیم اور بری لت کو اسلام نے کس طرح یکلخت ختم کردیا جس کے بعد پہلو قومی اجتماعی عادات سے وابستہ تھے اور حض پہلو قومی وذاتی اقتصادیات سے وابستہ تھے ۔

قرآن کریم نے اس بری عادت کو صرف چند آیات کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔ نہایت نرمی ‘ نہایت ہمدردی کے ساتھ اور نہایت ہی تدریج کے ساتھ ۔ بغیر اس کے کہ کوئی جنگ لڑی جائے ‘ بغیر اس کے کہ اس کے لئے کوئی معرکہ آرائی کرنا پڑے اور بغیر اس کے کہ اس کے لئے کوئی معرکہ آرائی کرنا پڑے اور بغیر اس کے کہ اس کے لئے کوئی بڑی قربانی دی جائے یا خونریزی کی جائے ۔ اس سلسلے میں اگر کوئی قربانی دی گئی تو صرف یہ تھی کہ شراب کے مٹکے اور جام وسبو ٹوٹ گئے یا شراب کے وہ گھونٹ جو پینے والوں کے منہ میں تھے اور انہوں نے تھوک دیئے تھے اور کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا ۔ یاد رہے کہ بعض لوگوں نے جب آیت تحریم شراب کے بارے میں سنا اور وہ شراب پی رہے تھے انہوں نے وہ گھونٹ بھی نہ پیا جو ان کے منہ میں تھا ۔ تفصیلات آگے آرہی ہیں ۔

مکہ جہاں اسلامی حکومت نہ تھی ‘ اور نہ مسلمانوں کو اقتدار حاصل تھا ‘ وہاں شراب کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کی طرف ایک سرسری اشارہ کیا گیا تھا ۔ یہ اشارہ سیاق کلام کے اندر ضمنی طور پر کیا گیا تھا لیکن صرف اشارہ ہی تھا مثلا سورت نحل میں آیا تھا ۔

(آیت) ” ومن ثمرت النخیل والاعناب تتخذون منہ سکرا ورزقا حسنا “۔ (16 : 76) ” اور پھلوں میں سے کھجوریں اور انگور جس سے تم شراب اور رزق حسن حاصل کرتے ہو ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شراب کو ‘ جو وہ کھجوروں اور انگوروں سے بناتے تھے ‘ رزق حسن کے بالمقابل بیان کیا ۔ گویا شراب رزق حسن نہ تھی ‘ یا رزق حسن سے کوئی علیحدہ شے تھی ۔ یہ دور سے ایک اشارہ تھا ۔ اور اس کے ذریعہ ایک بات ایک نوخیز مسلمان کے شعور کے اندر غیر محسوس طور پر بٹھا دی گئی ۔ لیکن شراب نوشی کی عادت ایک انفرادی بدعملی نہ تھی بلکہ یہ تو اس سے زیادہ برا اور گہرا معاشرتی جرم تھا اور عادت بد تھی جبکہ اس کا تعلق اقتصادی امور سے بھی تھا ۔ اس لئے اس کا قلع قمع ایسے بالواسطہ اشارات کے ذریعے نہ کیا جاسکتا تھا ۔

مدینہ طیبہ میں جہاں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگئی تھی اور اسلام کی پشت پر اقتدار بھی تھا تب بھی اسلام نے شراب کی حرمت کے احکام محض قانون کے ڈنڈے کے ذریعے بشکل فرمان حکومت نافذ نہیں کیے ۔ اس میں سب سے زیادہ کام قرآن کی قوت تاثیر نے کیا یہ کاروائی نہایت ہی نرمی اور محبت کے انداز میں شروع کی گئی اور انسانی نفسیات کے گہرے مطالعے کی اساس پر شروع کی گئی ۔ نیز اجتماعی امور کے بعد بصیرت افروز حقیقی تقاضوں کے مطابق کی گئی ۔ سب سے پہلے اس سلسلے میں سورة بقرہ کی یہ آیت آتی ہے :

(آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما “۔ (2 : 219) ” آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں ؟ کہہ دیں ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں لیکن ان کا گناہ انکے نفع سے بہت بڑا ہے) یہ ایک سوال کا جواب تھا جس کے ذریعے شراب اور جوئے کے خلاف مسلمانوں کے ضمیر اور شعور کو بیدار کرنا شروع کیا گیا ۔

یہ پہلی گھنٹی تھی جو اسلامی معاشرے میں شراب نوشی کے خلاف سنی گئی ۔ اسلامی احساس اور اسلامی شعور کے اندر ایک ارتعاش پیدا ہوا ۔ اور اسلامی فہم اور ادراک کو شراب نوشی اور جوئے کے خلاف بیدار کیا گیا ۔ یہ بتایا گیا کہ اسلام میں حلت اور حرمت کا مدار گناہ اور ثواب پر ہے ۔ اگر اس کے منافع کے مقابلے میں نقصان بہت زیادہ ہے اور گناہ بہت بڑا ہے تو اب راستہ یہی ہے کہ اسے حرام ہونا چاہئے ۔

لیکن یہ معاملہ نہایت ہی گہرا تھا ‘ حضرت عمر ؓ جیسے لوگ شراب کے عادی تھے ‘ اس آیت کے نزول پر آپ نے دعا کی : ” اے اللہ شراب کے بارے میں ہمیں کافی اور شافی بیان دے دے ۔ “ یہ دعا حضرت عمر ؓ کی طرف سے تھی اور اس سے اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ شراب نوشی عربوں کے رگ وپے میں کس قدر سرایت کرگئی تھی ۔ اس کے بعد وہ واقعات پیش آئے جن کا ذکر ہم نے اوپر کردیا ہے اور اس نے بعد میں یہ آیت آئی ۔

(یایھا الذین امنوا لا تقرابو الصلوۃ وانتم سکری “۔ (4 : 43) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اس وقت تک نماز کے قریب مت جاؤ جب تک تم نشے کی حالت میں ہو) اور یہ بصیرت افروز اور حکیمانہ نظام زندگی اپنا کام کرتا رہا ‘ نہایت ہی نرمی کے ساتھ ۔ یہ ایک درمیانی مرحلہ تھا ‘ پہلے تو اس فعل شنیع کے خلاف نفرت پیدا کی گئی کہ یہ ایک گناہ اور ناپاک عمل ہے ‘ لیکن اب ایک محدود پابندی عائد کردی گی اور نشے کے اوقات کے اندر تحدید کردی گئی ۔ اس لئے کہ نماز کے اوقات ایک دوسرے کے بہت ہی قریب ہوتے ہیں ۔ اور یہ پورے دن پر پھیلے ہوئے ہیں اور دو نمازوں کے درمیان اس قدر طویل وقفہ نہیں ہوتا کہ کوئی شراب پئے اور اس کا نشہ ٹوٹ جائے اور وہ نماز باجماعت پڑھ سکے اور اس حال میں واپس آجائے کہ وہ نماز میں جو کچھ پڑھے اسے اس کا اچھی طرح علم و شعور ہو ۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ شراب نوشی کے لئے خاص اوقات ہوتے ہیں یعنی صبح وشام ۔ صبح ہوتے ہی نماز کا وقت ہوتا ہے اور شام کے وقت بھی تین نمازوں کے اوقات جمع ہوتے ہیں ۔ اس لئے ایک مسلمان کے ضمیر کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ وہ شراب پئے یا نماز پڑھے ۔ اور نماز چونکہ ان کے نزدیک دین کا مرکزی ستون بن چکی تھی ‘ اس لئے وہ نماز کے حق میں ہی فیصلہ کرتے تھے لیکن اس کے باوجود حضرت عمر ؓ نے شافی و کافی بیان کی ضرورت محسوس کی ۔

وقت اسی طرح آگے بڑھتا رہا ۔ کچھ مزید واقعات در پیش ہوئے اور وقت آگیا کہ شراب نوشی کو قطعا حرام کردیا جائے ۔ یہ قرآنی نظام حیات کے عین مطابق کیا گیا اور نہایت ہی موزوں موقعہ پر شراب نوشی کی عادت پر یہ فیصلہ کن وار کیا گیا ۔

(آیت) ” یایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (90) انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ فھل انتم منتھون “۔ (91) (5 : 90۔ 91) (بےشک شراب اور جوا اور آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے اجتناب کرو ‘ امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی ‘ شیطان صرف تو چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ۔ کیا تم اس سے باز رہو گے ؟ )

(آیت) ” وعد اللہ الذین امنوا وعملوا الصلحت لھم مغفرۃ واجر عظیم “۔ (5 : 9) ” تمام مسلمان اس چیزوں سے باز آگئے ۔ شراب کے مشکزے انڈیل دیئے گئے اور ہر جگہ شراب کے خم توڑ دیئے گئے ۔ یہ کام صرف آیت سنتے ہی عمل میں لایا گیا اور جن لوگوں کے منہ میں شراب کے گھونٹ تھے وہ بھی انہوں نے تھوک دیئے ‘ عین اس وقت جب وہ شراب پی رہے تھے اور ان کے منہ کے ساتھ پیالہ تھا ۔ یہ تھی قرآن کریم کی فتح و کامرانی اور اسلامی نظام زندگی کی کامیابی ۔ نہ کوئی جبر ہوا اور نہ کوئی تشدد۔

لیکن یہ کام کیونکر ہوگیا ؟ یہ معجزہ کس طرح رونما ہوا ‘ جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ کے اندر نہیں ملتی ۔ قانون سازی ‘ ضابطہ بندی اور حکومت کے اقدامات کے اندر اس کی کوئی مثال نہیں ہے ۔ کسی زمانے میں بھی اور کسی دور میں بھی ۔ بہرحال یہ معجزہ رونما ہوا ‘ اس لئے کہ ربانی نظام حیات نے انسانی نفس کا علاج کیا ‘ اپنے مخصوص انداز میں ‘ نفس انسانی پر ربانی اقتدار نافذ کیا ۔ اس پر خدا ترسی کا نگران بٹھایا اور اللہ کا خوف ایک ایسا خوف ہوتا ہے کہ جس کے دل میں بیٹھ گیا وہ کسی وقت کسی جگہ ایک لمحے کے لئے بھی اس سے غافل نہیں ہوسکتا ۔ یہ ربانی نظام تربیت انسان کو بحیثیت مجموعی لیتا ہے اور اس کی تربیت نہایت ہی فطری انداز میں کرتا ہے ۔

شراب نوشی کی حرمت کی وجہ سے ان کی اجتماعی زندگی کے اندر جو خلا پیدا ہوگیا تھا ‘ اسلام نے اس خلا کو بعض اونچے مقاصد عطا کر کے پر کردیا اور ان کو اپنے خالی اوقات میں شراب کی مدہوشی اور جاہلانہ فخر ومباہات کے اظہار کے مواقع ہی نہ چھوڑے اور محافل میں کبر و غرور کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہنے دی ۔

وہ بلند مقاصد کیا تھے ؟ مثلا یہ کہ اسلام نے اس گم کردہ راہ اور دھتکاری ہوئی انسانیت کو جاہلیت کے بےآب وگیاہ صحراء اور اس کی تپتی ہوئی دوپہر اور اس کے تاریک ترین اندھیروں اور اس کی حقارت آمیز غلامی اور تنگ راہوں کی گھٹن سے نکالا اور اسے اسلام کے تروتازہ گلستان ‘ اس کی گھنی چھاؤں اس کے روشن دنوں ‘ اور اس کی عزت مآب آزادیوں اور دنیا اور آخرت کی وسعتوں کے اندر داخل کردیا ۔

اسلام نے عربوں کی زندگی کے اس خلاء کو تروتازہ ایمان سے بھر دیا ۔ عربوں کے دل میں ایک تازہ اور نوخیز شعور پیدا ہوا جو انکے لئے نہایت ہی پیارا تھا ۔ اس سے انہیں شراب نوشی کی آغوش میں پناہ لینے کی ضرورت ہی نہ رہی کہ وہ جھوٹے تخیلات میں گم ہو کر سکون پائیں ‘ ان کے قلوب مشعل ایمان کے ساتھ ملاء اعلی کی روشن دنیا کی طرف محو پرواز ہوں اور اللہ جل شانہ کے نور میں اور اللہ کے وصال اور اس کی معرفت میں زندگی بسر کر رہے ہوں ۔ وصال باری تعالیٰ سے لذت آشنا ہوں اور اس لذت کی وجہ سے وہ اپنے منہ کے اندر موجود جرعہ شراب کو بھی زمین پر پھینک رہے ہوں ۔ اور اس کے نشے اور مزے کو نظر انداز کر رہے ہوں ‘ اور آخر کار اس کے جوش اور اس کے سکون دونوں سے نفرت کر رہے ہوں۔

اسلام نے ایک مسلمان کی شخصیت کو جاہلیت کی دبیز تہوں سے نکال دیا ۔ اس کے لئے ایسی راہیں کھول دیں جو اسلام کی کنجی کے بغیر کھل ہی نہ سکتی تھیں ۔ وہ اس کے میلانات اور رجحانات کے ساتھ چلا اور اسلام کے طریقوں اور راہوں پر چل کر پسندیدہ روشن اختیار کی ۔ نور پھیلاتے ہوئے ‘ حیات نو عطا کرتے ہوئے ‘ نظافت اور پاکیزگی پھیلاتے ہوئے ‘ ہمت اور بیداری پیدا کرتے ہوئے ‘ بھلائی کے لئے آگے بڑھتے ہوئے اور اللہ کے ساتھ عہد اور شرائط ایمان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۔

شراب جوئے کی طرح ہے اور یہ دونوں لہو ولعب کے جدید مظاہر ومشاہد کی طرح ہیں ۔ مثلا جمناسٹک کے جنونی طور طریقے ‘ اور ان کے سٹیڈیم اور دوسرے اخراجات ‘ دوڑوں کے مقابلے ‘ سینما اور مرد وزن کے درمیان اختلاط ‘ بیلوں کے مقابلے اور لہو ولعب کے وہ تمام نئے انداز جو جدید جاہلیت کے لوازمات ہیں ۔ جسے صنعتی جاہلیت کہنا زیادہ مناسب ہے ۔

یہ تمام مظاہر دراصل روحانی خلا کے مظاہر ہیں ۔ یہ ایمان کی کمی کو پورا کرنے کی سعی لاحاصل ہے ۔ بلند مقاصد اور بلند نصب العین کو پیش نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ہے ۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ تہذیب جدید ایک مفلس اور تہی دامن تہذیب ہے اور اس جدید کلچر کے اندر انسان کی تمام ضروریات کا سازوسامان موجود نہیں ہے اور یہ روحانی خلا اور یہ بلند مقاصد کی تہی دامنی ہی ہے جس کی وجہ سے لوگ جوئے اور شراب کی گود میں پناہ لیتے ہیں ۔ اس خلا کو جوئے ‘ شراب اور دوسرے لہو ولعب سے بھرنے کی سعی کی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ مغربی کلچر اس خلا کو ہر قسم کے لہو ولعب اور غیر فطری سرگرمیوں سے بھر رہا ہے ۔ جیسا کہ اوپر ہم نے تفصیلا بتایا ۔ یہ دو امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے انسان بیشمار نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتا ہے اور اخلاقی بےراہ روی اختیار کرتا ہے ۔

یہ چند الفاظ تھے جن کے نتیجے میں شراب کے قلع قمع کرنے کا معجزہ صادر ہوا ۔ یہ تو ایک نظام حیات تھا ‘ یہ ایک منہاج تھا اور یہ منہاج ان کلمات کے اندر بیان ہوا تھا اور یہ منہاج اللہ رب العالمین کا بنایا ہوا تھا ۔ یہ انسانوں کا بنایا ہوا نہ تھا اور یہ وہ نکتہ امتیاز ہے ۔ ان نظامہائے زندگی کے درمیان جو لوگوں کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں اور اس نظام کے درمیان جو اللہ کا بنایا ہوا ہے ۔ ظاہر ہے کہ انسانی نظام کامیاب نہیں ہوتے ۔

یہ محض کلام اور طریقہ اظہار مقصد کا مسئلہ نہیں ہے ۔ اظہار مافی الضمیر کے لئے تو بیشمار اسلوب ہیں ۔ بعض فلاسفہ بہت ہی اچھا لکھتے ہیں ٗ شعرا میں سے فلاں بہت ہی اچھا شعر کہتا ہے یا مفکرین میں سے فلاں بہت ہی اعلی درجے کا قلمکار ہے ۔ یہ فلاں بادشاہ ادب ہے اور ایسا لکھتا ہے کہ وہ صاحب طرز ہے ‘ صاحب نظریات ہے اور فلسفے کی ایک نئی شاخ کا بانی ہے ۔ لیکن لوگوں کے ضمیر پر اس کے الفاظ کا اثر نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کلام پر اللہ کی جانب سے کوئی قوت القا نہیں ہوتی ۔ (آیت ) ” ما انزل اللہ بہ من سلطن “۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بات کے پیچھے ایک مقصد ہوتا ہے جو اسے قوت اور گرفت عطا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر انسانی منہاج حیات ضعیف ‘ جہالت پر مبنی ‘ نقائص سے بھرپور اور بنانے والے انسان کی ذاتی خواہشات پر مبنی ہوتا ہے ۔

معلوم نہیں کہ اس حقیقت کو وہ لوگ کب پاسکیں گے جو لوگوں کی زندگیوں کے لئے خود نظام تجویز کرتے ہیں جو اللہ علیم وخبیر کے نظام سے بالکل علیحدہ ہوتا ہے ۔ اور وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جو حکیم وخبیر نے نہیں بنائے اور وہ لوگوں کے لئے ایسے نشانات نصب کرتے ہیں جو خالق ارض وسما نے نصب نہیں کئے ۔

معلوم نہیں کب یہ لوگ عقل کے ناخن لیں گے ۔ وہ اپنے اس کبر و غرور سے کب باز آئیں گے ؟ اب ہم اس آیت کریمہ کے متن کی طرف آتے ہیں :

(آیت) ”۔ یایھا الذین امنوا لا تقرابو الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون ولا جنبا الا عابری حتی تغتسلوا “۔ (4 : 43)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ ۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہئے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو ‘ اور اسی طرح جنابت کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک غسل نہ کرلو ‘ الا یہ کہ راستے سے گزرتے ہو “۔

آیت میں اہل ایمان کو جس طرح شراب نوشی کی حالت میں نماز سے روکا گیا ہے ‘ اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز سے روکا گیا ہے الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو ۔ جنابت کی حالت میں غسل ضروری ہے ۔ لفظ (عابری سبیل) کے مفہوم میں مختلف اقوال ہیں ۔ اسی طرح نماز کے قریب مت جاؤ کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے ۔

ایک قول یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہیں جانا چاہئے نہ مسجد میں ٹھہرنا چاہئے یہاں تک کہ ایک شخص غسل کرے ۔ الا یہ کہ کوئی مسجد سے محض گزر رہا ہو ۔ بعض لوگوں کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے ‘ اور ان کے گھر کے آنے اور جانے کا راستہ مسجد ہی سے ہو کر گزرتا تھا ‘ ایسے لوگوں کو مسجد سے حالت جنابت میں صرف گزرنے کی اجازت دے دی گئی تھی مگر ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نماز تو بہرحال ممنوع تھی ‘ جب تک غسل نہ کرتے ۔

ایک قول کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ اس سے مراد نماز ہے ۔ یعنی یہ ممانعت کی گئی ہے کہ حالت جنابت میں نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک غسل نہ کرلو ‘ ہاں اگر تم مسافر ہو تو پھر بغیر غسل کے تم مسجد میں جا کر نماز ادا کرسکتے ہو مگر تیمم کے بعد ‘ جو غسل کے قائم مقام ہوگا جس طرح پانی نہ ہونے کی شکل میں وضو کی جگہ تیمم جائز ہوتا ہے ۔

پہلا قول زیادہ ظاہر اور قریب الفہم ہے۔ اس لئے کہ دوسرے قول کے مطابق جو تفسیر بیان ہوئی اس میں بیان شدہ صورت کو خود اگلی آیت میں واضح کیا گیا ہے ۔ اگر (عابری سبیل) کی تفسیر یہ کی جائے کہ اس سے مراد مسافر ہیں تو اس صورت میں تکرار لازم ہوگا اور ایک ہی آیت میں تکرار بلاضرورت ہوگا ۔

(آیت) ” وان کنتم مرضی او علی سفر او جآء احد منکم من الغائط اولمستم النسآء فلم تجدوا مآء فتیمموا صعیدا طیبا فامسحوا بوجوھکم وایدیکم ان اللہ کان عفوا غفورا (4 : 43)

” اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو ‘ یا سفر میں ہو ‘ یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کرکے آئے ‘ یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو ‘ اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو ‘ بیشک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے ۔ ‘

اس آیت میں مسافر کی حالت کے بارے میں احکام بیان ہوئے ہیں کہ جب کسی کو حاجت غسل لاحق ہوجائے ‘ یا وضو کی ضرورت لاحق ہوجائے ‘ اور وہ نماز ادا کرنا چاہتا ہو ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کوئی مریض ہو ‘ اور اسے وضو کی یا غسل کی ضرورت پیش آجائے یا کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو اور اسے وضو کی ضرورت ہو ‘ یا اس نے عورتوں سے لمس کیا ہو ۔۔۔۔۔ ان سب صورتوں میں اگر پانی نہ ملے تو وہ پاک مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھے ۔

الغائط کا مفہوم ہے ۔ ‘ نشیبی جگہ ۔ چونکہ دیہاتی لوگ قضائے حاجت کے لئے نشیبی جگہ کو جاتے ہیں ‘ اس لئے فعل قضائے حاجت کی تعبیر مکان فعل سے کردی گئی ۔ اور (آیت) ” لمستم النسآئ “۔ کی تفسیر میں بھی کئی اقوال ہیں : ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد مباشرت ہے ‘ جس کی وجہ سے غسل واجب ہوتا ہے ۔ دوسرا قولیہ ہے کہ اس سے حقیقی لمس مراد ہے یعنی چھونا ۔ یعنی مرد کے جسم کا کوئی حصہ عورت کے جسم سے مس کرے ۔ بعض فقہی مذاہب کے مطابق اس سے وضو لازم آتا ہے ۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ ناقض وضو نہیں ہے ‘ اس کی تفصیلات تو کتب فقہ میں پائی جاتی ہیں ۔ ہم یہاں اجمالا بعض نتائج کا ذکر کرتے ہیں ۔

(الف) لمس سے مطلقا وضو واجب ہے ۔

ّ (ب) لمس سے اس وقت وضو واجب ہوگا جس لامس کے جسم میں اشتہاء پیدا ہوجائے اور اس طرح یہ بھی شرط ہے کہ جس عورت کے ساتھ لمس ہو وہ بھی شہوت انگیزی کے قابل ہو۔

(ج) لمس سے وضو اس وقت واجب ہوگا جب لامس یہ محسوس کرے کہ اس لمس کی وجہ سے اس کا نفس متحرک ہوگیا ہے ۔

(د) لمس سے مطلقا وضو واجب نہیں ہے اور نہ ہی بیوی سے معانقہ کرنے یا بوسہ لینے سے وضو واجب ہوگا ۔

ان اقوال میں سے ہر قول کے قائلین نے نبی ﷺ کے اقوال اور افعال سے استدلال کیا ہے جس طرح فقہی مسائل کے استدلال میں بالعموم کیا جاتا ہے ۔ میرے خیال میں (آیت) ” لمستم النسآء “۔ سے بطور کنایہ وہ فعل مراد ہے جس سے غسل لازم آتا ہے اس لئے ان اختلاف کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں ہے جو وضو کے سلسلے میں کتب فقہ میں مذکور ہیں ۔

ان تمام حالات میں ‘ چاہے غسل واجب ہو یا وضو واجب ہو اور پانی دستیاب ہو یا پانی دستیاب نہ ہو لیکن اس کا استعمال موجب مضرت ہو اور انسان کے لئے اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو وضو کرنے یا غسل کرنے کے بجائے انسان کے لئے تیمم جائز ہے ۔ اور تیمم کا ذکر آیت کے الفاظ (آیت) ” فتیمموا صعیدا طیبا “۔ (4 : 43) (پس پاک مٹی سے تیمم کرو) میں آتا ہے ۔ تیمم کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں یعنی پاک مٹی کا ارادہ کرلو ۔ صعید ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو مٹی کی قسم سے ہو مثلا مٹی ، پتھر ‘ دیوار ‘ اگرچہ مٹی سواری کی پشت پر ہو ‘ یا فرش اور دوسری چیزوں پر جن پر غبار ہو اور جب ہاتھ مارا جائے تو غبار اڑ رہا ہو۔

تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھوں سے پاک مٹی کو تھپکی دے ‘ پھر ہاتھوں کو جھاڑ دے اور چہرے پر مل دے ۔ پھر دوسری تھپکی دے ‘ ہاتھوں کو جھاڑ دے اور ان کو دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک مسح کر دے ۔ اور یا صرف ایک ہی تھپکی سے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو مسح کر دے ۔ (مطابق اختلاف فقہائ) اس سے زیادہ مزید فقہی اختلافات کے لئے یہاں گنجائش نہیں ہے ۔ اس لئے کہ تیمم شروع ہی لوگوں کی آسانی کے لئے ہوا ہے اور یہ آسانی پیدا کرنے کی واضح مثال ہے ۔

(آیت) ” ان اللہ کان عفوا غفورا “۔ (4 : 43) (بےشک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور معاف کرنے والا ہے) اس اختتامیہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ نرمی کرنے والا ہے ۔ وہ ضعیف پر رحمدلی فرماتا ہے ‘ قصوروں کو معاف فرماتا ہے ‘ اور کوتاہیوں کو بخش دیتا ہے ۔

اس سے پہلے کہ ہم اس آیت پر کلام ختم کریں یہاں چند امور پر نظر دوڑانا ضروری ہے ۔ آیت نہایت ہی مختصر ہے لیکن اس پر غور ضروری ہے ۔ مثلا تیمم کی حکمت پر غور ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین میں کس قدر نرمی فرمائی ہے ۔

بعض لوگ اسلامی شریعت کی حکمت اور اسلامی عبادات کے اسرار پر جب کلام کرتے ہیں تو وہ اس قدر آگے چلے جاتے ہیں اور احکام کے علل اور حکم بیان کرتے وقت یہ تاثر دیتے ہی کہ گویا انہوں نے شریعت کے تمام رازوں کا استقصا کرلیا ہے اور اب ان احکام اور عبادات کے پیچھے مزید کسی حکمت کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے ۔ قرآنی آیات ‘ شرعی احکام اور اسلامی عبادات پر کلام کرنے کا یہ انداز نہایت ہی غیر صحت مندانہ ہے ۔ ہاں یہ اور بات کہ کسی شرعی حکم کی علت اور حکمت خود منصوص ہو اور اس کی صراحت خود شارع نے کردی ہو ۔ مناسب یہ ہے کہ ہم کہیں کہ یہ ہے وہ بات جسے ہم بطور حکمت حکم یا بطور علت حکم سمجھ سکے ہیں ۔ ایسے مزید اسرار بھی ہو سکتے ہیں کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہم پر ان کو منکشف نہ کیا ۔ صرف اسی طرح ہم عقل انسانی کو اپنے صحیح مقام تک محدود رکھ سکتے ہیں شرعی نصوص کے حوالے سے بغیر افراط اور تفریط کے اور اپنے دائرے اور حدود کے اندر رہتے ہوئے ۔

میں یہ کہوں گا کہ بعض اہل اسلام لوگوں کے سامنے آیات و احادیث پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کی متعین حکمت بھی بیان کرتے ہیں ‘ ان لوگوں میں بعض مخلصین بھی شامل ہیں یہ حکمت انسانی علم یا دور جدید کے سائنسی اکتشافات پر مبنی ہوتی ہے ۔ یہ بات بذات خود کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اس حکمت کو اپنے حدود کے اندر رہنا چاہئے ۔ وہ حدود یہ ہیں جس کی طرف گزشتہ سطور میں ہم نے اشارہ کیا ہے ۔

اکثر اوقات اس بات کا ذکر کیا جاتا ہے کہ نماز سے پہلے وضو اس لئے فرض کیا گیا ہے کہ یہ صفائی کا ایک ذریعہ ہے ۔ یہ مقصد بھی پیش نظر ہو سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ وضو سے مقصود صرف صفائی ہی ہے اور کچھ نہیں تو یہ نہج کلام غیر صحت مندانہ ہوگا اور ویسے بھی یہ کوئی صحیح طرز استدلال نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اب ایسا وقت بھی آگیا ہے کہ بعض نام نہاد دانشور یہ کہنے لگے ہیں کہ صفائی حاصل کرنے کا یہ نہایت ہی ابتدائی تصور اور طریقہ تھا ‘ اب اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آج کل صحت وصفائی کے دوسرے ذرائع بہت ہی عام ہیں ۔ آج لوگ صفائی وصحت کو اپنے روز مرہ کے پر ورگرام کا حصہ بنا رہے ہیں ۔ اگر وضو کا مقصد صرف حصول صفائی ہے تو اب وضو کی ضرورت کیا ہے بلکہ اب تو نماز کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔

اکثر لوگ نماز کی حکمت کے سلسلے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ ورزش کی حرکات ہیں جس سے پورا جسم حرکت کرتا ہے بعض لوگوں نے یہ لکھا ہے کہ نماز کی وجہ سے انسان کی زندگی منظم ہوجاتی ہے اور وہ ایک منظم زندگی گزارنے کا عادی ہوجاتا ہے کیوں کہ نماز مقررہ وقت پر ادا ہوتی ہے اور اس کے اندر مقررہ انداز میں رکوع اور سجود ہوتے ہیں ۔ اس میں صفیں اور امامت ہوتی ہے ۔ یہ حکمت بھی ہوتی ہے کہ نماز کے ذریعے انسان خدا تک پہنچتا ہے اور اللہ کے ساتھ راز ونیاز کی باتیں ہوتی ہیں ۔ یہ تمام حکمتیں مقصود ہو سکتی ہیں لیکن ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سے کونسی حکمت مراد ہے یا یہی حکمت مقصود ہے ؟ اگر ہم کوئی بات متعین کرکے کہیں تو یہ انداز غیر صحت مندانہ ہوگا اس لئے کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ نماز کی ورزشی حرکات کی اب کیا ضرورت ہے ۔ اب تو ورزش ایک فن بن چکی ہے اور ہر شخص اس پر عمل کرسکتا ہے ۔

اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اب محض زندگی کو منظم کرنے کے لئے ہمیں نماز کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ نماز سے بھی زیادہ فوجی نظام کے ذریعے زندگی کو منظم اور باقاعدہ بنایا جاسکتا ہے ۔

بعض لوگ تو ایسے پیدا ہوگئے جنہوں نے یہ قرار دیا ہے کہ تعلق باللہ کے لئے بھی نماز کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اتصال باللہ بذریعہ تنہائی اور مراقبہ بھی ممکن ہے اور اب نماز جیسی ورزشی حرکات کی ضرورت نہیں ہے ‘ اس لئے کہ جسمانی حرکات بعض اوقات روحانی تصور اور مراقبے کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ۔

ان خطوط پر اگر ہم ہر عبادت اور ہر حکم کے اسرار و رموز متعین کرتے جائیں اور ہر حکم کی علت اپنے فہم وادراک سے متعین کرنے لگیں یا جدید سائنسی اکتشافات کے اندر حکمتوں کی تلاش کریں اور پھر یہ اعلان کریں کہ یہی وہ حکمت ہے جو اس حکم کے اندر پنہاں ہے یا اس حکم کا یہی سبب اور علت ہے تو یقینا ہم صحت مند لائن سے ہٹ جائیں گے اور ان لوگوں کے لئے راہ کھول دیں گے جو نام نہاد دانشور ہیں ‘ اور پھر خود ہماری یہ قرار دادیں اور فیصلے ‘ ضروری نہیں ہے کہ درست ہوں ۔ ان میں غلطی بھی ممکن ہے خصوصا جب ہم ان حکمتوں کو سائنسی اکتشافات سے مربوط کردیں ‘ اس لئے کہ سائنسی علوم ونظریات آئے دن بدلتے رہتے ہیں اور ہر وقت یہ نظریات تصحیح اور تبدیلی کے قابل ہوتے ہیں اور ان میں ترمیم وتنسیخ کا یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے ۔

یہاں زیر بحث موضوع تیمم ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو اور غسل کی حکمت صرف نظافت ہی نہیں ہے ۔ اگر یہی بات ہوتی تو ان دونوں کی جگہ تیمم نہ لیتا ۔ کیونکہ اس سے کوئی صفائی حاصل نہیں ہوتی ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم نظافت کے علاوہ بھی وضو اور غسل کی کوئی حکمت تلاش کریں جو وضو اور غسل کی طرح تیمم میں بھی ہو۔

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہم خود اس غلطی کا ارتکاب کریں جس کی نشاندہی ہم خود کر رہے ہیں ۔ لیکن ہم یہ کہیں گے کہ ہو سکتا ہے کہ حکمت یہ ہو کہ انسان اپنے آپ کو نفسیاتی اعتبار سے نماز کے لئے تیار سمجھے ۔ اور یہ تیاری کسی سنگل پر مبنی ہو اور اس سگنل کے ذریعہ انسان اپنی روز مرہ کی حرکات و سکنات کو ترک کرکے اللہ کے دربار میں حاضری اور ملاقات کی فضا میں داخل ہوجائے اور وضو ‘ غسل اور تیمم اس داخلہ کے لئے سگنل ہوں اور اگر وضو اور غسل نہ ہو تو تیمم ہی سگنل ہوجائے ۔

اصل حقیقت تو اللہ تعالیٰ کے کامل اور ہر چیز پر حاوی علم ہی میں ہے ‘ جو انسان کی اندورنی پوشیدہ باتوں پر بھی محیط ہے ۔ انسان کے طور طریقوں اور خفیہ راہوں سے وہی باخبر ہے ‘ جو لطیف وخبیر ہے ۔ ہمارا فرض تو یہ ہے کہ ہم اللہ کے احکام کی اطاعت نہایت ہی ادب واحترام سے کریں جو نہایت ہی برتر اور بالا ہے اور عظیم اور بزرگ ہے ۔

یہاں ہمارے لئے دوسرا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اسلامی نظام میں نماز کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اسلام ہر قسم کے عذر اور رکاوٹ کو دور کرنے کی سعی کرتا ہے ۔ تیمم اس سلسلے کی ایک واضح مثال ہے کہ وضو اور غسل کی جگہ اس کی اجازت دی گئی جبکہ مشکلات ہوں ۔ یہ ایک واضح مثال ہے جس سے معلوم ہوتا کہ اسلام کہ ہر معاملے میں آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔ مثلا اگر پانی نہ ہو یا بیماری ہو یا پانی کم ہو اور پینے کی ضروریات سے زیادہ نہ ہو ۔ سفر میں بعض اقوال کے مطابق پانی موجود ہونے کے باوجود تیمم جائز ہے ۔

یہ باتیں ذہن میں رکھتے ہوئے اور اسی سورت میں صلوۃ الخوف کی کیفیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ‘ خصوصا میدان جنگ میں ‘ یہ بات بڑی سہولت سے معلوم ہوجاتی ہے کہ اسلامی نظام حیات نماز کو کس قدر اہمیت دیتا ہے ۔ مسلمان نماز سے کسی صورت میں بھی اور کسی وجہ سے بھی جدا نہیں ہو سکتا ۔ مرض میں بھی نماز کی ادائیگی کے لئے یہ سہولت پیدا کی گئی ہے کہ بیٹھ کر پڑھا جائے ۔ بصورت معذوری ایک پہلو پر لیٹ کر بھی پڑھی جاسکتی ہے اور اگر حرکت ممکن ہی نہ ہو تو آنکھوں کے اشارے سے بھی نماز ادا ہو سکتی ہے ۔

یہ خدا اور بندے کے درمیان ایک رابطہ ہے ۔ ایک ایسا رابطہ کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ کسی طرح بھی ایک مومن کا خدا کے ساتھ یہ رابطہ ٹوٹ جائے اس لئے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ خود بندے کو اس رابطے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تو دونوں جہانوں سے مستغنی ہے ۔ لوگوں کی نماز و عبادت سے اس کو کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ فائدہ اگر ہے تو بندے کا ہے کہ وہ نماز سے سلجھ جاتا ہے ۔ یہ بھی بندوں کا فائدہ ہے کہ وہ اللہ سے رابطہ قائم کرلیں اور اپنی مشکلات میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں ۔ ان کو دلی خوشی نصیب ہو ‘ ان کے جسم اور شخصیت میں نورانیت پیدا ہو ‘ ان کو یہ شعور اور احساس ہو کہ وہ اللہ کی حفاظت میں ہیں ‘ اس کے قریب ہیں ‘ اس کی نگہبانی میں ہیں اور وہ ایسی راہ پر ہیں جو ان کی فطرت کے عین مطابق ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی فطرت کا سبب سے زیادہ علم ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بھی علم ہے کہ ان کے لئے اور ان کی فطرت کے لئے کیا کیا مفید ہے اور کیا کیا غیر مفید ہے ؟ اس لئے کہ وہ خالق اور صانع ہے اور اپنی مصنوعات اور مخلوقات سے وہ اور لوگوں کے مقابلے میں زیادہ خبر دار ہے ۔ وہ نہایت ہی باریک بین اور بصیر ہے ۔

اس آیت کی بعض دیگر تعبیرات میں بھی ہمارے لئے ایک سبق ہے ۔ اگرچہ یہ نہایت ہی مختصر آیت ہے لیکن اس میں بہترین انداز تعبیر کے ساتھ معانی کا سیل رواں نظر آتا ہے قضائے حاجت کے عمل کے لئے (آیت) ” او جآء احدمنکم من الغائط “۔ (4 : 43) (تم میں سے کوئی نشیبی جگہ سے آیا ہو) کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ نہ کہا کہ تم نے یہ فعل کیا ہو ‘ صرف یہ کہا کہ تم نشیبی جگہ سے واپس آئے ہو ۔ اشارہ وکنایہ اس طرف ہے کہ تم قضائے حاجت سے آئے ہو ۔ اس میں بھی مخاطبوں سے نہیں کہا کہ تم آئے ہو بلکہ تم میں سے کوئی شخص آیا ہو (آیت) ” او جآء احدمنکم من الغائط “۔ (4 : 43) کہا ہے ۔ یہ نہیں کہا (جئتم من الغآئط) قرآن کے الفاظ زیادہ ادیبانہ اور مہذبانہ ہیں اور ان میں کنایہ لطیف ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو اپنے درمیان اسی طرح کی سلجھی ہوئی گفتگو کرنا چاہئے ۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

اردو ترجمہ

تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جنہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے؟ وہ خود ضلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ گم کر دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara ila allatheena ootoo naseeban mina alkitabi yashtaroona alddalalata wayureedoona an tadilloo alssabeela

درس نمبر 43 تشریح آیات :

44۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 57

مدینہ کی نوخیز تحریک اسلامی کا جو گھیراؤ مخالف اسلام کیمپوں نے کر رکھا تھا ‘ اس سبق کے ساتھ ان کیمپوں کے خلاف یہاں معرکہ آرائی شروع ہو رہی ہے ۔ اس سبق کے اندر اس بات پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے کہ مدینہ کے یہودی اس دین جدید اور جامعت مسلمہ کے خلاف کیا کیا اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں ۔ اس سے اگلے سبق میں بتایا گیا ہے کہ جماعت مسلمہ کے فرائض کیا ہیں اور یہ کہ اسلامی نظام کا مزاج کیا ہے ‘ اسلام کی تعریف کیا ہے اور ایمان کی شرائط کیا ہیں جس کی وجہ سے اسلامی زندگی اور اسلامی نظام حیات دوسرے لوگوں کی زندگی اور نظام سے متمیز ہوتا ہے ۔ اس سے پھر اگلے سبق میں جماعت مسلمہ کو خبردار کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ ‘ اپنی صورت حالات کی درستی اور اپنے وجود کو بچانے کے اقدامات کرے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس کے منافق دشمن اس کے خلاف خفیہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ جماعت مسلمہ کو بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے اندرونی اختلافات کی طرف بھی متوجہ ہو اور ان دفاعی اقدامات پر بھی غور کرے جو اسے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے دشمن کیمپوں کے مقابلے میں کرنے ہیں۔ اس میں قانون بین الاقوام کے سلسلے میں بعض ہدایات بھی ہیں ۔ اس کے اگلے سبق میں ایک یہودی کا معاملہ آتا ہے جس کے ساتھ اسلامی معاشرے میں تمام دشمنیوں سے بلند ہو کر معاملہ کی گیا ۔ اس سے اگلے سبق میں شرک اور مشرکین کے ساتھ دو دو ہاتھ کئے گئے ہیں اور ان بنیادوں کو حقارت آمیز انداز میں بیان کیا گیا ۔ جن کے اوپر مشرک معاشرہ قائم تھا ۔ اس معرکے کے درمیاں بعض ہدایات داخلی تنظیم کے بارے میں بھی دی گئی ہیں ۔ جن کا تعلق ‘ ابتدائے سورة کے مضامین بابت خاندانی نظام کے ساتھ ہے ۔ اب اس پارے کا آخری سبق آتا ہیں جو نفاق اور منافقین کے ساتھ خاص ہے ۔ یہ سبق فیصلہ کرتا ہے کہ منافقین آگ میں سب سے نیچے درجے میں ہوں گے ۔

ان سرسری اشارات سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ اس وقت تحریک اسلامی کو داخلی اور خارجی محاذوں پر کس قدر ہمہ جہت لڑائی کا سامنا تھا ۔ اور پہلی تحریک اسلامی کو کس طرح بیک وقت داخلی اور خارجی محاذوں پر کام کرنا پڑ رہا تھا ۔ اس لئے کہ داخلی محاذ اور خارجی محاذ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور پیوستہ تھے ۔ اور یہی معرکہ آج بھی عالمی تحریک اسلامی کو درپیش ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا ۔ اس لئے کہ اسلامی تحریک کی اساس اور حقیقت ایک ہے ۔

(آیت) ” نمبر 44 تا 46۔

(سمعنا وعصینا) اور (واسمع غیر مسمع) اور (راعنا) حالانکہ اگر وہ کہتے ۔ (سمعنا واطعنا) اور (واسمع وانظرنا) تو یہ انہی کے لئے بہتر تھا اور راست بازی کا طریقہ تھا ۔ مگر ان پر تو انکی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں “۔

اس سورة میں جن متعدد جگہ تعجب کا اظہار کیا گیا ان میں سے پہلی جائے تعجب تو یہ ہے کہ اس کا خطاب رسول اللہ ﷺ کو ہے اور اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں جبکہ مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو انوکھا اور تعجب خیز ہو ۔

(آیت) ” الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب یشترون الضللۃ ویریدون ان تضلوا السبیل “۔ (44) ” تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جنہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے ؟ وہ خود ضلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ گم کر دو ۔

چونکہ انکو کتاب دی گئی تھی اس لئے ان کے شایان شان تو یہ تھا کہ وہ فورا ہدایت قبول کرتے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے بڑے پیغمبر تھے اللہ نے انہیں تورات دی تھی ۔ تاکہ انہیں وہ ان کی ضلالت سے نکالے اور ان کے لئے نور اور ہدایت ہو ۔ لیکن وہ اپنی اس قسمت سے انکاری ہیں اور ہدایت چھوڑ کر ضلالت کے خریدار بن گئے ہیں ۔ خریداری سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے ضلالت لینے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے ‘ ان کی نیت ہی یہ ہے اسی لئے انہوں نے ہدایت کو ترک کرکے گمراہی کو پسند کیا ہے ۔ ہدایت ان کے ہاتھوں میں ہے لیکن وہ اسے چھوڑ کر گمراہی اخذ کررہے ہیں ۔ گویا وہ قصد و ارادہ سے یہ سودا کر رہے ہیں ‘ جہل اور خطا سے ایسا نہیں کررہے ۔ اس لئے ایک عقلمند آدمی سے ایسی حرکت تعجب خیز اور بالکل انوکھی ہے اور قابل استکراہ ہے ۔

لیکن اس قابل تعجب صورت حال میں ہوتے ہوئے بھی وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نگران بنے ہوئے ہیں ‘ حالانکہ الٹا وہ اس سعی میں لگے ہوئے ہیں کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہوجائیں ‘ اہل اسلام میں جو صحیح راہ پر ہیں ان کو وہ گمراہ کردیں ۔ وہ اسی مقصد کے لئے متعدد ذرائع اور وسائل اختیار کر رہے ہیں ‘ جن کی تفصیلات سورة بقرہ اور سورة آل عمران میں گزر چکی ہیں ۔ اور ان کے کچھ نمونے اس سورة میں بھی آگے آرہے ہیں۔ انہوں نے خود جو گمراہی خریدی ہوئی ہے وہ اس پر اکتفا نہیں کر رہے بلکہ ان کے اردگرد جو شمع ہدایت روشن ہوچکی ہے وہ اسے بھی بجھانا چاہتے ہیں اور اس کے آثار تک مٹانے کے درپے ہیں کہ نہ ہدایت رہے اور نہ ہدایت پانے والے ۔

اس پہلی اور دوسری جھلکی میں اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو متنبہ کیا ہے کہ یہودی تمہارے خلاف کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اسلام کے خلاف وہ کیا کیا تدابیر اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا ہی اچھی تدبیر ہے یہ کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے خلاف اہل ایمان کے دلوں میں نفرت بٹھانا چاہتے ہیں ‘ جو مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے ۔ اس وقت مسلمان اس ہدایت پر فخر کرتے تھے اور وہ ان لوگوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے جو ان کو اس قابل فخر وعزت پوزیشن سے لوٹا کر پھر جاہلیت کی طرف لے جانا چاہتے تھے ‘ جس کو وہ خوب جانتے تھے اور اسلام بھی اس جاہلیت سے اچھی طرح واقف تھا اور جو شخص بھی انہیں جاہلیت کی طرف لوٹا رہا تھا ‘ وہ اسے بہت ہی برا سمجھتے تھے ۔ اس دور میں قرآن ان لوگوں سے مخاطب تھا ‘ اللہ کے علم کے مطابق نازل ہو رہا تھا ۔ اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کی وقعت اور اہمیت تھی ۔

اس لئے اس کے بعد قرآن صراحتا بتاتا ہے کہ یہودیوں کی یہ سازش ہے اور تصریح کردی جاتی ہے کہ یہ یہودی مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اہل ایمان کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی اس مذموم کوشش کے مقابلے میں اللہ کی ہدایت اور نصرت پر ہی بھروسہ کریں ۔

(آیت) ” واللہ اعلم باعدآء کم وکفی باللہ ولیا وکفی باللہ نصیرا “۔ (45)

اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور تمہاری حمایت ومددگاری کے لئے اللہ ہی کافی ہے کہتے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ “

یوں صراحت کے ساتھ اعلان کردیا جاتا ہے کہ مدینہ میں جماعت مسلمہ اور یہودیوں کے درمیان دشمنی ہے ۔ اور ان کے درمیان متوازی خطوط متعین ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اگرچہ تعجب کا اظہار تمام اہل کتاب کے بارے میں ہیں لیکن اس آیت میں مدینہ کے یہودی ہی مراد ہیں ۔

کلام الہی نے فقط اشارہ پر اکتفا نہ کیا بلکہ یہودیون کا ذکر صراحت کے ساتھ کیا اور اس کے بعد ان کی سرگرمیوں اور سازشوں اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ان کی گستاخیوں کا تفصیلا ذکر کیا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات ہجرت کے ابتدائی دور کے تھے اور ابھی تک مدینہ طیبہ میں اسلام کو اس قدر شوکت اور غلبہ نصیب نہ ہوا تھا ۔

(آیت) ” من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ویقویون سمعنا وعصینا واسمع غیر مسمع وراعنا لیا بالسنتھم وطعنا فی الدین (4 : 46)

” جن لوگوں نے یہودیت کا طریقہ اختیار کیا ہے ان میں کچھ لوگ ہیں جو الفاظ کو ان کے محل سے پھیر دیتے ہیں اور دین حق کے خلاف نیش زنی کرکے اپنی زبانوں کو توڑ موڑ کر کہتے ہیں ۔ (سمعنا وعصینا) اور (واسمع غیر مسمع) اور (راعنا) کلام الہی کے اندر توڑ پھوڑ کرتے ہوئے وہ حد سے گزر گئے تھے ۔ وہ اللہ کی شان میں بھی گستاخی کرتے تھے اور اس طرح وہ کلامی الہی کا سیدھا مفہوم کچھ سے کچھ بنا دیتے تھے ۔ اس آیت کے مفہوم میں راجح بات یہ ہے کہ وہ تورات کی عبارتوں کو اس طرح بدلتے تھے کہ اس کے الفاظ کا مفہوم بدل جاتا ۔ اور اس تحریف کا بڑا مقصد یہ تھا کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی رسالت کے بارے میں تورات میں جو دلائل تھے ‘ ان کو تبدیل کردیں اور ان احکام اور قوانین کو بدل دیں جن کو اسلامی شریعت نے بحال رکھا اور جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ جس منبع سے تورات نازل ہوئی ہے ‘ اسی سے قرآن کریم نازل ہو رہا ہے اور نتیجتہ یہ بات ثابت ہو رہی تھی کہ نبی اکرم ﷺ کی رسالت برھق ہے ۔ اور وہ ان باتوں کو اپنے مدلول سے اس طرح بدل دیتے کہ ان کی خواہشات کے مطابق مفہوم بن جاتا اور یہ صفت ان تمام لوگوں میں پائی جاتی ہے جو اپنے دین سے منحرف ہوجاتے ہیں اور ایسی تحریفات کرتے ہیں کہ جس سے اقتدار پر قابض لوگوں کو خوش کریں ‘ یا ان عوام الناس کو خوش کریں جو دین سے اپنے آپ کو چھڑانا چاہتے ہیں ۔ یہودی ہمیشہ اس کام میں ماہر رہے ہیں اگرچہ ہمارے دور میں مسلمانوں کے اندر بھی بعض لوگوں نے یہ کام شروع کردیا ہے اور یہ لوگ اس خصلت میں یہودیوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔

پھر یہ لوگ رسول خدا ﷺ کی خدمت میں گستاخی کرتے ہوئے اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ وہ کہتے ” ہم نے سنا اور نافرمانی کی “ اس لئے ہم نہ ایمان لاتے ہیں اور نہ اتباع کرتے ہیں اور نہ اطاعت کرتے ہیں ۔ اس سے بھی اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ آیات مدینہ کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئیں جہاں یہودیوں کو حضور ﷺ کے مقابلے میں اس قدر بےباکانہ جرات ہو سکتی تھی ۔ اس ظاہری انکار کے بعد وہ نہایت ہی بےادبی ‘ نہایت ہی بداخلاقی پر اتر آئے اور حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے لگے ۔

بظاہر کہتے ہیں ۔ (اسمع) (سنئے) (غیر مسمع) آپ کوئی یہ حکم نہیں دے سکتا کہ آپ (سنئے) بظاہر تو یہ کلمہ تادیب تھا اور (راعنا) کا مفہوم یہ تھا کہ آپ ہماری رعایت کریں ‘ ہمارے حال کو مدنظر رکھیں ۔ یعنی یہ کہ وہ اہل کتاب ہیں اور انکو اسلام کی طرف اس طرح دعوت نہیں دی جانی چاہئے جس طرح عام مشرکین کو دی جاتی ہے ۔ ان اصل معنوں کو وہ زبان کے ہیر پھیر سے اس طرح بگاڑتے کہ (غیر مسمع) کا معنی یوں بن جاتا کہ آپ کی بات کوئی نہ سنے اور نہ آپ سن سکیں ۔ (اللہ انکو ذلیل کرے) اور (راعنا) کے لفظ کا اشقاق وہ رعونت سے کرتے ۔ یہ تھی انکی بےشرمی اور بےحیائی اور بےادبی اور ہیر پھیر اور مداہنت اور بات کا مفہوم بدلنا اور لفظ کا محل بدلنا وغیرہ ۔

قرآن کریم یہودیوں کی ان کمزوریوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ بتاتا ہے کہ یہودی چونکہ اہل کتاب اور اہل ثقافت ہیں اور ان کا فرض یہ تھا کہ ان کا رویہ شریفانہ ہوتا اور تہذیب کے دائرے کے اندر وہ بات کرتے اس لئے کہ جن لوگوں کو کتاب کا حصہ ملا ہے ‘ ان کو غیر اہل کتاب کے مقابلے میں نہایت ہی سلجھا ہوا ہونا چاہئے ۔ یہ کہنے کے بعد ان کو یہ امید دلائی جاتی ہے کہ وہ ہدایت پاکر کر اچھی جزاء ‘ اللہ کی جانب سے بھلائی اور فضل وکرم کے مستحق ہوں گے بشرطیکہ وہ سیدھے راستے پر آجائیں ۔ لیکن ان کا مزاج ہی ایسا نہیں رہا ہے اور ان پر اللہ کی لعنت ہوگئی ہے اور ان کی حالت یہ ہے ۔

(آیت) ” ولوانھم قالوا سمعنا واطعنا واسطمع وانظرنا لکان خیرالھم واقوم ولکن لعنھم اللہ بکفرھم فلا یمومنون الا قلیلا “۔ (4 : 46)

” حالانکہ اگر وہ کہتے ۔ (سمعنا واطعنا ) اور (واسمع) اور (وانظرنا) تو یہ انہی کے لئے بہتر تھا اور زیادہ راست بازی کا طریقہ تھا ۔ مگر ان پر تو ان کی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ “

لیکن وہ سچائی کے مقابلے میں صاف اور قطعی بات نہیں کرتے اور اگر وہ صفائی کے ساتھ اس سچائی کو قبول کرتے اور صاف صاف بات کرتے اور کہتے ” ہم نے سنا اور اطاعت کی “ یا کہتے ” سنئے اور ذرا ہمارا انتظار کیجئے “ تو انکے لئے یہ بہتر ہوتا اور ان کے مزاج اور ان کی نفسیات اور حالات کے زیادہ مطابق ہوتا ۔ لیکن وہ اپنے کفر کی وجہ سے ہدایت سے دور بھاگتے ہیں کم لوگ ان میں ایسے ہیں جو ایمان لاتے ہیں ۔

اللہ کی بات بہت ہی سچی ہے ۔ اسلامی نظام حیات کو یہودیوں میں سے بہت ہی کم لوگوں نے قبول کیا اور اسلام کی طویل تاریخ اس پر گواہ ہے اور یہ قیل تعداد بھی وہ تھی جس کی قسمت میں اللہ نے یہ بھلائی لکھ دی تھی ‘ اور یہ ارادہ کرلیا تھا کہ وہ راہ ہدایت پالیں ۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے سچائی تک پہنچنے کے لئے جدوجہد کی ۔ انہوں نے ہدایت پانے کے لئے سعی کی ۔ رہا یہودی فرقہ تو وہ چودہ سو سال سے اسلام کے خلاف برسرجنگ ہے ۔ جب سے مدینہ میں ‘ ان کے پڑوس میں اسلام نازل ہوا ہے ‘ اس وقت سے لے کر آج تک اسلام کے خلاف ان کی سازشیں غیر منقطع ہیں اور اسلام کے ساتھ انہیں جو بغض ہے وہ آج تک ختم نہیں ہوا ۔ ہاں اس کی شکل ‘ اس کا رنگ اور اس کا فنی انداز بدلتا رہا ہے ۔ اور آج تک اسلام کے خلاف جو سازشیں بھی کی گئیں جس میں صیلبی جنگیں اور جدید استعماریت بھی شامل ہے ‘ اس کے پیچھے یہودیوں ہی کا ہاتھ رہا ہے ‘ اور یہ سازشیں مختلف شکلوں میں رہی ہیں۔ اگر براہ راست نہیں تو اس میں یہودیوں کا حصہ اور ہاتھ ضرور رہا ہے ۔

اس کے بعد خطاب اہل کتاب یہودیوں سے ہے ۔ انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس کتاب کو قبول کرلیں جو اس کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے جو تمہارے ہاں موجود ہے ۔ انہیں سخت دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر بلاوجہ وہ قبول حق سے رودگردانی کریں گے تو ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ انہیں مسخ کر کے انکے چہرے پھیر دے گا اور ان پر اسی طرح لعنت ہوگی جس طرح سبت کی خلاف ورزی کرنے والوں پر ہوئی تھی ۔ ارتکاب شرک سے انہیں منع کیا جاتا ہے اور خالص توحید کو قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے جس کی اساس پر خود ان کا دین بھی استوار ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرماتے جبکہ اس کے علاوہ تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں ‘ شرک بہرحال گناہ عظیم ہے ۔

85