سورہ نساء: آیت 34 - الرجال قوامون على النساء بما... - اردو

آیت 34 کی تفسیر, سورہ نساء

ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَآ أَنفَقُوا۟ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ ۚ فَٱلصَّٰلِحَٰتُ قَٰنِتَٰتٌ حَٰفِظَٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَّهُ ۚ وَٱلَّٰتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهْجُرُوهُنَّ فِى ٱلْمَضَاجِعِ وَٱضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا۟ عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا

اردو ترجمہ

مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر تم وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالا تر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alrrijalu qawwamoona AAala alnnisai bima faddala Allahu baAAdahum AAala baAAdin wabima anfaqoo min amwalihim faalssalihatu qanitatun hafithatun lilghaybi bima hafitha Allahu waallatee takhafoona nushoozahunna faAAithoohunna waohjuroohunna fee almadajiAAi waidriboohunna fain ataAAnakum fala tabghoo AAalayhinna sabeelan inna Allaha kana AAaliyyan kabeeran

آیت 34 کی تفسیر

ان قرآنی نصوص کی تفسیر اور تشریح شروع کرنے پہلے اور ان کی نفسیاتی اور اجتماعی اغراض کے بیان سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ خاندان کے بارے میں اسلام کا اجمالی نقطہ نظر بیان کردیا جائے اور یہ بتا دیا جائے کہ اسلام خاندان کی تعمیر کس منہاج پر کرتا ہے اور پھر اس کے بچاؤ کے لئے کیا تدابیر اختیار کرتا ہے ۔ اور پھر یہ کہ اس انتظام سے اسلام کے پیش نظر کیا اہداف اور مقاصد ہیں ۔ یہ بیان ہم حتی الوسع اجمالی طور پر کریں گے ‘ اس لئے کہ اس موضوع پر مفصل بحث کے لئے زیادہ صفحات درکار ہوں گے ۔

جس ذات نے انسان کو پیدا کیا اس نے اس کے اندر وہی ازدواجی فطرت ودیعت کی جو اس نے تمام چیزون کے اندر رکھی ہے جو اس نے پیدا کیں۔

(آیت) ” ومن کل شیء خلقلنا زوجین لعلکم تذکرون) (اور جو چیزیں ہم نے پیدا کیں ان کے ہم نے جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت پکڑو) انسان کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے جوڑا پیدا کیا لیکن اس جوڑے کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ۔

(آیت) ” یایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا “۔ (4 : 1) ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا “۔ اس جوڑے کے ملاب کے اندر اللہ تعالیٰ نے زندگی کے تمام راز رکھ دیئے ہیں ۔ اس ملاپ کے اندر نفسیاتی سکون ‘ اعصابی ٹھہراؤ ‘ روحانی اطمینان اور جسمانی راحت اور آرام کا انتظام کیا ۔ پھر اس ملاپ کے اندر دونوں کا پردہ ‘ عفت مابی اور گناہوں سے بچاؤ کا سامان رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ ملاپ نسل کے لئے کھیت کا کام بھی دیتا ہے ۔ اور اس کے ذریعے زندگی کے اندر تسلسل قائم ہوتا ہے اور اس کے بعد طریقہ ہائے زندگی کی ترقی کا راز بھی اسی میں ہے لیکن اسلام نے اس پورے نظام کو ایک تربیت گاہ ایک نرسری ‘ ایک باپردہ اور پرسکوں خاندان کی شکل میں بنایا جس کی ابتداء زوجین سے ہوتی ہے ۔

(آیت) ” ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ وراحمۃ ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون “۔ (30 : 31)

” اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تمہارے جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کی ۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور وفکر کرتے ہیں) (آیت) ” ھن لباس لکم وانتم لباس لھن “ (وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو)

(آیت) ” نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم وقدموا لانفسکم واتقوا اللہ) ” تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو ‘ جاؤ اور اپنے مستقبل کا بھی سروسامان کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو)

(آیت) ” یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ) ” اے لوگو ‘ جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ “

(آیت) ” والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم وما التنھم من عملھم من شیئ) (اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کرتی رہی ان کی اس اولاد کو بھی ہم ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ہم ان کے اعمال کے صلے میں سے کچھ کم نہ کریں گے)

نفس انسانی کے دونوں اطراف مرد وزن کا مقام اللہ کے ہاں کیا ہے ؟ انسانیت میں وہ دونوں برابر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نفس انسان کو مکرم بنایا جس میں عورت میں شامل ہے اور مرد بھی اللہ تعالیٰ مرد و عورت دونوں کا اپنے اپنے اعمال پر پوری جزاء دے گا ۔ اللہ کے قانون میں جس طرح مرد ملکیت رکھ سکتا ہے ‘ اسی طرح عورت بھی ملکیت رکھ سکتی ہے ۔

مرد حق میراث رکھتا ہے تو عورت بھی حق میراث رکھتی ہے ۔ مرد ایک قانونی شخصیت ہے تو عورت علیحدہ قانونی شخصیت ہے اور ان تمام نکات پر بحث ہم اس سبق میں اس سے پہلے کر آئے ہیں ۔

چونکہ ادارہ خاندان کو وجود میں لانے کے لئے نفس انسانی کے دونوں اجزاء کا باہم ملاپ ضروری تھا اور اس کے نتیجے میں فرائض اور واجبات پیدا ہوتے تھے ‘ اس لئے شریعت نے اس ادارے کے معاملات کے ہر جزء کے بارے میں تفصیلی ہدایات دیں ۔ مقصد یہ تھا کہ مرد وزن کو سکون ’ اطمینان ‘ پردہ پوشی اور برائی اور فحاشی سے بچنے کے لئے مواقع حاصل ہوں۔ دوسرے یہ کہ اس خاندانی نظام کے ذریعے زندگی کو تسلسل حاصل ہو اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو ۔ اس سورة کے بڑے حصے میں خاندان کی شیرازہ بندی کی گئی ہے جس کا ایک حصہ ہم نے اس پارے کی ابتداء میں دیا تھا اور پارہ چہارم میں بھی اس کے تکمیلی احکام دیئے گئے تھے ۔ اسی طرح سورة بقرہ میں بھی یہ احکام بیان ہوئے تھے جس کی تشریح ہم نے دوسرے پارے میں پیش کی تھی ۔ قرآن کریم کی کئی دوسری سورتوں میں بھی خاندانی نظام کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں ۔ مثلا اٹھارہویں پارے میں سورة نور اور سورة احزاب (پارہ 21۔ 22) سورة طلاق ‘ سورة تحریم (پارہ 28) اور بعض دوسری سورتوں کے متفرق مقامات پر ۔ ان تمام مقامات پر جو مباحث کئے گئے ہیں ان میں اسلام کے خاندانی نظام کا ایک مکمل دستور موجود ہے۔ اس طویل و عریض مباحث اور متنوع اور مفصل احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام انسانی زندگی کی تعمیر ایک خاندانی نظام کے مطابق کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے ان سورتوں میں خاندانی زندگی کے ایک ایک گوشے کو لیا گیا ہے ۔

A ہمیں امید ہے کہ اس صفحے کے پڑھنے والے ان تمام تفصیلات کو ذہن میں رکھیں گے جو ہم نے اس سلسلے میں پیش کی ہیں ۔ مثلا انسان کے بچوں کا طویل بچپن ‘ اس کے دوران بچوں کی طویل پرورش اور نگہداشت کی ضرورت ‘ اور پھر ان بچوں کے لئے ایک خاندان کی ضرورت تاکہ بچہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر ‘ زندگی کی معاشی جدوجہد میں داخل ہو سکے اس معاشی جدوجہد سے بھی زیادہ اہم بچے کی وہ تربیت ہے جو اسے اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے تیار کرتی ہے اور معاشرے کا ایک اچھا فرد بننے کے اہل بناتی ہے تاکہ وہ انسانی ترقی کی رفتار میں اپنے فرائض سرانجام دے سکے ۔ اور جب وہ اس معاشرے کو چھوڑے تو اس حالت سے بہتر کر کے چھوڑے جس میں اس نے اسے پایا تھا ۔ غرض خاندانی نظام کے صحیح فہم کے لئے مذکورہ بالانکات پر غور کرنا نہایت ہی ضروری ہے ۔ نیز خاندان کے مقاصد ‘ خاندان کے فرائض ‘ خاندان کے بچاؤ اور تباہی اور بربادی کے ہر اثر سے اسے محفوظ اور مامون رکھنے نیز خاندان کی نشوونما کے سلسلے میں اسلامی نظام زندگی کے موقف اور پالیسی کو سمجھنے کے لئے یہ امور نہایت ہی اہم ہیں ۔

اسلام کی نظر میں خاندان کی جو اہمیت ہے اور جس کے بارے میں ہم نے اوپر تفصیلی اشارات دیئے ہیں ان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک خاندانی نظام کے قیام ‘ اس کے استحکام اور اس کے اندر سکون اور ٹھہراؤ پیدا کرنیکے لئے اسلام نے جتنا زور دیا ہے اس کا تصور بھی دوسرے نظاموں میں نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ اسلام نے عورت کو بھی پہلی مرتبہ ایک باعزت مقام اور باعزت شخصیت عطا کی ۔ عورت کو جو حقوق اسلام نے دنیا میں پہلی بار عطا کئے ‘ یہ وہ حقوق نہیں جن کے ذریعے وہ صرف محبت اور لذت حاصل کرے بلکہ وہ حقوق ہیں جن کے ذریعے عورت حیات انسانی کے حوالے سے اپنے بلند ترین فرائض سرانجام دے ۔

ان تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اب اس سبق کی آخری آیت پر کلام کرتے ہیں جو اس سلسلے کی بہت سی اہم آیت ہے اور اسی وجہ سے اس کی تشریح سے پہلے ہم نے درج بالا تمہیدی اشارات دیئے ہیں ۔

یہ آیت زوجین کے درمیان قائم ادارے کی تنظیم اور اس ادارے کے افراد کے درمیان اختیارات کی وضاحت کرتی ہے اور افراد خاندان کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کو دور کرنے کی خاطر ان کو ہدایات دیتی ہے کہ تمام مسلمان خواہشات نفسانیہ اور ذاتی تاثرات ومیلانات کے تابع ہونے کے بجائے اللہ جل شانہ کے احکام کی اطاعت کریں اور اللہ کا حکم یہ ہے کہ خاندان کے اندر قوام اور سربراہ مرد ہوگا اور یہ کہ مرد کو سربراہ بنانے کے اسباب یہ ہیں کہ ایک تو مرد کو اللہ نے فضیلت دی ہے اور اس کے اندر وہ تنظیمی صلاحیتیں زیادہ رکھی گئی ہیں ‘ جن صلاحیتوں پر خاندانی نظام کا چلنا موقوف ہے ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد پر یہ ڈیوٹی عائد کی ہے کہ وہ خاندان کی معاشی ضروریات کا کفیل ہوگا ۔ چونکہ خاندان کا قیم مرد کو بنایا گیا ہے ‘ اس لئے مرد کو وہ خصوصی اختیارات بھی دیئے گئے ہیں جن سے وہ اس ادارے کو بچا سکے اور محض عارضی جذبات اور شہوات نفسانیہ اسے تباہ نہ کرسکیں اور یہ بھی بتایا گیا کہ ان وقتی شہوات سے بچاؤ کی تدابیر کیا ہوتی ہیں ۔ علاج کی حدود بھی متعین کردی گئی ہیں اور اگر داخلی علاج نہ ہو سکے تو پھر خارجی علاج بھی بتایا گیا ہے خصوصا ان حالات میں جبکہ اس ادارے کو شدید خطرات لاحق ہوں اور نہ صرف یہ خطرہ ہو کہ اس کے دو اہم اطراف اور فریق ایک دوسرے سے جدا ہورہے ہیں بلکہ ان کی جدائی کے نتیجے میں معصوم بچوں اور نوخیز نسل کی تربیت کو بھی خطرات درپیش ہوں بلکہ ان کے وجود تک کو خطرہ لاحق ہوگیا ہو۔ ذرا غور سے دیکھئے کہ ہر اقدام اور تدبیر کی پشت پر کس قدر گہری حکمت ہے ۔ اور اس کی کس قدر ضرورت ہے ۔

(آیت) ” الرجال قومون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض وبما انفقوا من اموالھم “۔ (4 : 34) (مرد عورتوں پر قوام ہیں ‘ اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک دو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں)

جیسا کہ ہم نے کہا خاندان انسانی زندگی کا ابتدائی ادارہ اس طرح کہ یہ ایک نکتہ آغاز ہے جو انسانی کی پوری زندگی پر اثرا نداز ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے بھی یہ نکتہ آغاز ہے کہ خاندان ہی سے آئندہ زندگی کے عناصر پیدا ہوتے ہیں اور اسلامی نقطہ نظر سے انسان اس کائنات کا اہم ترین عنصر ہے ۔

دنیا میں خاندان کے ادارے کے مقابلے میں کم اہم اداروں کی ادارت اور انتظام (MAnAgement) اہل ترین افراد کے سپرد کیا جاتا ہے مثلا مالی ادارے بینک وغیرہ ‘ صنعتی ادارے اور کارخانے اور دوسرے تجارتی ادارے اور کمپنیاں ۔ ان اداروں کا انتظام وانصرام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دیا جاتا ہے جو اپنے شعبے میں اچھی مہارت رکھتے ہوں اور انہوں نے اس شعبے میں وافر معلومات حاصل کر رکھی ہوں اور ان کے اندر تجربہ اور صلاحیت موجود ہو۔

یہ تو ہے رواج ان اداروں کے انتظام کا جن کا مقام و مرتبہ اور اہمیت انسانی ادارے سے بہت ہی کم تر ہے ۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ خاندان کا انتظام اور انصرام سپرد کرنے میں بھی اسی اصول کو مد نظر رکھا جائے اس لئے کہ خاندان کا ادارہ اس کائنات کی اہم ترین پیداوار یعنی نسل انسانی کی افزائش کا ذمہ دار ہے ۔ ظاہر ہے کہ انسان کے نقطہ نظر سے انسان اہم ترین پیداوار ہے ۔

اسلامی نظام حیات اس اصول کو مدنظر رکھتا ہے ۔ وہ انسان کی فطرت کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور پھر خاندان کے اجزاء یعنی مرد وزن دونوں کی صلاحیتوں کو بھی مدنظر رکھتا ہے ۔ وہ ان فرائض وواجبات پر بھی نظر رکھتا ہے جو مرد اور عورت پر از روئے فطرت عائد کئے گئے ہیں ۔ اسلامی نظام نے مرد وزن دونوں پر فرائض عائد کرتے وقت دونوں کے ساتھ عدل و انصاف کو بھی ملحوظ رکھا ہے اور یہ عدل یعنی تقسیم وظائف ‘ مرد وزن کی فطرت کو دیکھ کر کی گئی ہے ۔ یہ بات تو ناقابل انکار ہے کہ مرد اور عورت دونوں ہی اللہ کی مخلوق ہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ جبکہ وہ ہر ایک کو اس کی مخصوص فطری ڈیوٹی کے لئے تیار کرتا ہے اور اسے اس کی ڈیوٹی کے لائق استعداد بھی عطا کرتا ہے ۔ یہ امور نہایت ہی بدیہی اور مسلم ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا اور پھر ان کا جوڑا بنایا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کو جوڑے جوڑے بنایا ہے ۔ یعنی اس کائنات کے اندر جمادات تک میں جوڑے ہیں ۔ اب عورت کا فطری فریضہ یہ ہے کہ وہ حاملہ بنے ‘ پھر وضع حمل ہو ‘ پھر وہ بچے کو دودھ پلائے اور مرد اور عورت کے ملاپ کا جو ثمرہ نکلے اس کی پوری طرح وہ ذمہ دار ہو ۔ اس فطری نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو عورت پر یہ ایک عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ایک نہایت ہی اہم ذمہ داری ہے ۔ یہ کوئی معمولی اور آسان ذمہ داری نہیں ہے ۔ اور یہ ذمہ داری بغیر جسمانی ‘ نفسیاتی ‘ اور گہری عقلی تیاری اور استعداد کے ادا بھی نہیں کی جاسکتی ۔ یہ سب خوبیاں عورت کی ذات کے اندر پائی جانی ضروری ہیں۔ اس لئے یہ بات عین ترین انصاف تھی کہ اس شراکت کے دوسرے ساتھی کے ذمہ بھی ایک اہم ڈیوٹی لگائی جائے اور وہ یہ کہ خاندان کی تمام ضروریات کا کفیل وہی ہو اور اس طرح وہ والدہ اور بچے دونوں کی حمایت اور بچاؤ کا بھی ذمہ دار ہو تاکہ عورت اپنی نہایت ہی اہم اور قیمتی ڈیوٹی کے لئے من کل الوجوہ فارغ ہو ۔ اس پر یہ زیادتی نہ ہو کہ وہ حمل بھی برداشت کرے ‘ وضع حمل کی تکلیفات بھی برداشت کرے ‘ اور بچے کی رضاعت اور کفالت بھی کرے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مزدوری اور محنت بھی کرے اور اپنے بچے کے لئے اور اپنی ذاتی ضروریات کیلئے جاگتی بھی رہے ۔ بیک وقت دونوں ڈیوٹیاں اس پر عائد کردی جائیں ۔ اس لئے یہ نہایت ہی منصفانہ تقسیم کار تھی کہ عورت کے لئے اس کی جسمانی اور فطری صلاحیتوں کے مطابق میدان کار وضع کیا جائے اور مرد کے لئے اس کے جسمانی ‘ نفسیاتی اور فطری صلاحیتوں کے مطابق میدان کار تجویز کیا جائے اور اسلام نے عملا یہی کچھ کیا ، اس لئے کہ اسلام کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ رب ذوالجلال کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرتا ۔

یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو صلاحیتیں دی ہیں ان میں نرمی ‘ مہربانی ‘ جلدی متاثر ہوجانا ‘ جلدی جواب دینا ‘ اور بچوں کی فوری ضروریات کے لئے تمام ضروری صفات فطرت نے ماں میں ودیعت کردیں اور یہ ایسی صفات ہیں جو عورت کے اندر تعلیم وتربیت کے ذریعے پیدا نہیں کی گئیں بلکہ ان افعال کا ارتکاب عورت بےسوچے سمجھے کرتی ہے ۔ اس لئے کہ انسان کی اہم ضروریات یہاں تک کہ ایک فرد واحد کی اہم ضروریات کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس بات پر موقوف نہیں رکھا کہ کوئی سوچے ‘ غور کرے اور وقت گزارنے کے بعد فطری ضروریات کو پورا کرے ۔ جبکہ فطری ضروریات کا مطالبہ بھی غیر ارادی ہوتا ہے اور انہیں پورا بھی غیر ارادی طور پر کیا جاتا ہے تاکہ مطالبہ ہوتے ہی ان ضروریات کو پورا کر دیاجائے بلکہ بعض حالات میں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان فطری مطالبات کے پورا کرنے کا نظام کوئی جبری نظام ہے ۔ ہاں اگر اس میں جبر کا کوئی عنصر ہے تو وہ داخلی عنصر ہے ‘ خارج سے کوئی جبر نہیں ہے ۔ بعض اوقات تو یہ مطالبہ مستحب اور لذیذ ہوتا ہے تاکہ انسان جلدی اس مطالبہ فطرت کے پورا کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے ۔ وہ انسان کے لئے فرحت بخش ہو ‘ اگرچہ اس میں طویل مشقت اور بےبہا قربانی ہو ۔ یہ اللہ کی ساخت ہے جس نے ہر چیز کو بہت ہی اچھا کر کے بنایا ہے ۔

فطرت انسانی کے اندر ان خصوصیات کا پایا جانا کوئی سطحی چیز نہیں ہے ۔ فطرت کے یہ دواعی عورت کے عضویاتی ‘ اعصابی ‘ شعوری اور نفسیاتی ساخت کے اندر نہایت ہی عمق کے ساتھ ودیعت کیے گئے ہیں ۔ اس بارے میں ماہرین فن کا یہ کہنا ہے کہ یہ اوصاف اس خلیے کے اندر موجود ہوتے ہیں جن سے انسان پیدا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے خلیے کی گہرائیوں کے اندر ان خصوصیات کو پیدا کردیا تھا اور اس خلیے کی تقسیم اور بڑھوتری سے پھر بچہ نشوونما پاتا ہے اور اس کے اندر وہ تمام اساسی خصائص موجود ہوتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں مرد کو جو خصوصیات دی گئیں ان میں سے اہم ترین خصوصیت مرد کی سخت جاتی اور مضبوطی ہے ۔ مرد جلدی متاثر نہیں ہوتا اور کسی بھی صورت حال کو جلد قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ وہ ہر کام سوچ سمجھ کر کرتا ہے اور کوئی اقدام کرنے سے پہلے اس کے نتائج پر بھی غور کرتا ہے ۔ کیونکہ آغاز حیات میں اس کی زندگی کا فریضہ یہ تھا کہ وہ شکار کرکے لائے اور اپنے بچوں اور بیوی کے بچاؤ کے لئے مرنے مارنے پر اتر آئے بیوی بچوں کی معیشت کا انتظام کرے اور زندگی کے تمام فرائض سرانجام دے ۔ اس کے تمام فرائض اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہر اقدام سے پہلے اچھی طرح سوچا جائے ۔ غور وفکر سے کام لیاجائے اور اگر کوئی کسی بات کی دعوت دے تو اسے بہت سوچ سمجھ کر قبول کیا جائے ۔ یہ سب خصوصیات مرد کی شخصیت کی ساخت کے اندر پائی جاتی ہیں جس طرح عورت کی خصوصیات اس کی شخصیت کی ساخت کے اندر موجود ہوتی ہیں ۔

مرد کی یہ فطری خصوصیات اسے اس بات کا مستحق بنا دیتی ہیں کہ وہ گھرانے کا نگراں ہو اور مرتبے کے اعتبار سے خاندان میں سینئر ہو ۔ مزید یہ کہ چونکہ پورے خاندان کے اخراجات کا ذمہ دار بھی مرد ہی ہوتا ہے اس لئے اس کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ وہی ہے جو پورے خاندانی ادارے کی معاشی ضروریات کا کفیل ہے ۔ چونکہ وہی خرچ کرنے والا ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہی مدیرہو ۔ یہی دو خصوصیات ہیں جن کو قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے اور انہی کی بنا پر اسلامی معاشرے میں مرد کو قوام بنایا گیا ہے ۔

مرد کی نگرانی کے بعض اسباب تکوینی اسباب ہیں یعنی صلاحیت کے اعتبار سے اور بعض اسباب ذمہ داریوں کے حوالے سے ہیں ۔ نیز ذمہ داریوں کی تقسیم میں انصاف اور عدل کے حوالے سے بھی مرد نگران بن جاتا ہے اور پھر شریعت نے مرد اور عورت پر ذمہ داریاں ڈالتے وقت اس امر کو بھی ملحوظ رکھا ہے کہ کس کے لئے کیا ذمہ داری باعث سہولت ہے اور کس کی فطرت کیا ذمہ داری چاہتی ہے اور کس ذمہ داری کے لئے معاون ہے ۔

عورت کے مقابلے میں نگرانی کیلئے مرد کی افضلیت کے اپنے اسباب ہیں ‘ جو صلاحیت اور تجربے کے حوالے سے ہیں اور نگرانی کے ان تمام اسباب کو لے کر ذمہ داریاں ادا ہوں گی ۔ اس لئے کہ کوئی ادارہ بھی منیجر اور نگران کے بغیر نہیں چل سکتا یعنی وہ تمام ادارے جو خاندان کے ادارے کے مقابلے میں بہت کم اہم اور بہت کم قدر و قیمت کے حامل ہیں پھر مزید یہ کہ انسانیت کا ایک حصہ بعض خاص ڈیوٹیوں کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔ از روئے فطرت ان ڈیوٹیوں کی ادائیگی اس کے لئے سہل ہے اسی لئے یہ ڈیوٹیاں اس پر عائد کی گئی ہیں۔ اور انسانیت کا دوسرا حصہ از روئے فطرت ان کے لئے تیار نہیں کیا گیا ۔ ان ڈیوٹیوں کی ادائیگی اس کے لئے سہل نہیں ہے اور اگر اس پر وہ ڈیوٹیاں عائد کردی جائیں تو یہ اس پر صریح ظلم ہوگا ۔ لیکن اگر اسے ان فرائض کی ادائیگی کے لئے تیار بھی کیا جائے اسے ان کی ٹریننگ بھی دی جائے ‘ علمی اور عملی تربیت بھی دی جائے پھر وہ انہیں سرانجام بھی دے پائے تو اس سے اس کی وہ صلاحیت بری طرح متاثر ہوگی جسکے لئے اسے پیدا اور تیار کیا گیا ہے ۔ مثلا عورت کے حوالے اس کے مادرانہ ذمہ داریاں ۔ یعنی اگر عورت پر دوسری تمدنی ذمہ داریاں عائد کردی جائیں تو وہ مادرانہ فرائض کی ادائیگی کے قابل نہ رہے گی جو اس کی فطرت کا تقاضا ہیں اور جس کی اصل استعداد ہے سرعت انفعال اور سرعت قبولیت ۔ یہ عورت کی فطرت کے اندر مرکوز ہیں ۔ اس پر مزید یہ کہ عورت کی عضویاتی اور اعصابی ساخت کے اندر مادرانہ صلاحیتیں رکھی گئی ہیں اور ان کے اثرات عورت کے طرز عمل اور اس کی طرف سے بچے کی ضروریات کے لئے تڑپ رکھنے کا جذبہ وغیرہ ۔

یہ نہایت ہی اہم مسائل ہیں اس قدر اہم کہ ان کے بارے میں ٹھوس فیصلہ صرف انسانی خواہشات کے زوایے سے نہیں کیا جاسکتا اور یہ اس قدر خطرناک ہیں کہ ان کے جوابات محض تیر تکے چلانے سے نہیں دیئے جاسکتے ۔ جب قدیم اور جدید جاہلیتوں نے ان اہم مسائل کے فیصلے انسان کی گھٹیا خواہشات کے زاویے سے کئے تو انہوں نے انسان کے وجود تک کو خطرے میں ڈال دیا ۔ انسان کے اندر انسانی خصائص کا باقی رہنا مشکل ہوگیا ‘ جن انسانی خصائص پر انسان کی زندگی قائم ہے اور جن سے اسے امتیازی شان ملی ہے ۔

اس پر ایک دلیل تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ لوگ اس حقیقت کا انکار کردیں اسے ترک کردیں اور اسے بالکل انوکھا سمجھنے لگیں ‘ انسان کے وجود کے اندر ان قوانین فطرت کو مکمل کنڑول حاصل ہے اور انسانی فطرت اس کی طرف واضح اشارات کرتی ہے ۔

پھر یہ بھی ایک دلیل ہے کہ جب بھی انسانیت نے اس اصول کی خلاف ورزی کی ہے ‘ اس کی وجہ سے انسانی زندگی کے اندر بےچینی ‘ فساد اور اخلاقی گراوٹ پیدا ہوئی ہے اور انسانی زندگی سخت خلفشار سے دو چار ہوئی ہے ۔ خاندان کے اندر نظم ونسق تباہ ہوا ہے ۔ انسانی زندگی کے نشانات اور امتیازات ختم ہوگئے ہیں اور وہ اپنے فطری اور اصلی مقام سے ہٹ گئی ہے ۔

اس پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خود عورت کی یہ نفسیاتی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اوپر کوئی مرد قوام اور حکمران ہو اس لئے کہ خاندان کے اندر مرد کی حاکمیت اور برتری ایک فطری امر ہے ۔ اگر عورت کو مرد کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو محروم ‘ ناقص اور بدحال سمجھتی ہے ۔ یہ صورت حال اس وقت مشاہدے میں آتی ہے جب وہ کسی ایسے مرد کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہو جس کے اندر سرپرستی اور قوام ہونے کی صلاحیت نہ ہو اور وہ یہ حیثیت عورت کے سپرد کر دے ۔ دور جدید کی گم کردہ راہ اور بےراہ رو عورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ عورت کی فطرت میں ہے کہ اس کا کوئی سرپرست اور حاکم ہو ۔

مزید یہ دلیل بھی ہے کہ ایسا خاندانی ادارہ جس میں باپ کی قوامیت نہ ہو ‘ اس خاندان کے اندر بچوں کی پرورش صحیح نہیں ہوتی ۔ مثلا اس صورت میں کہ مرد کی شخصیت کمزور ہو اور بچوں پر والدہ کی شخصیت چھا جائے ۔ یا ایسی صورتوں میں جہاں باپ موجود ہی نہ ہو ‘ فوت ہوچکا ہو یا ایسے خاندان جن میں اولاد کا کوئی قانونی سرپرست اور باپ ہوتا ہی نہیں ۔ ایسے خاندانوں میں بچے بداخلاق اور ناقص شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ انحراف اور بےراہ روی سے بچ نکلیں ۔ نیز ایسے بچے اعصابی اور نفسیاتی اعتبار سے اور اخلاقی اور عملی اعتبار سے کامل شخصیت کے مالک ہر گز نہیں ہوتے ۔

مرد کی نگرانی اور سرپرستی کے جواز پر یہ بعض اہم دلائل ہیں جن کی طرف خود انسانی فطرت ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ مرد کی فطرت کے اندر یہ سرپرستی موجود ہوتی ہے اور انسان کے اندر اس کے اصول وقواعد پوری قوت کے ساتھ جاری ہیں ۔ اگرچہ لوگ انکار کریں ‘ اسے ترک کردیں اور اسے انوکھا سمجھیں ۔

اس سے زیادہ مرد کی قوامیت پر یہاں بحث ممکن نہیں ہے ۔ یہاں مرد کی سرپرستی ‘ نگرانی اس کے جواز اور اس کی معاشرتی ضرورت اور فطری تقاضوں پر اتنی ہی بحث کافی ہے ۔ لیکن یہاں ہمارے لئے اس قدر کہنا مناسب ہے کہ مرد کی اس قوامیت اور نگرانی کا معنی یہ نہیں ہیں کہ کسی خاندان یا معاشرے کے اندر عورت کی شخصیت کی نفی کردی جائے ۔ نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی شہری حیثیت کو ختم کیا جا رہا ہے جیسا کہ اس سے قبل ہم کہہ آئے ہیں بلکہ مرد کی یہ نگرانی خاندانی نظام کے اندر اس کی ایک ذمہ داری ہے ‘ جو اس اہم ادارے کے چلانے اس کی حفاظت اور اس کے بچاؤ کے لئے اس پر عائد کی گئی ہے ۔ یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ کسی ادارے کا نگران مقرر کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ اس ادارے کے وجود کو ختم نہ کرے گا ۔ اس کے کسی رکن کی شخصیت کو ختم نہ کرے گا ‘ نہ اس ادارے کے شرکاء کے حقوق تلف کرے گا اور نہ اس ادارے میں کام کرنے والوں کے فرائض کو ختم کرے گا ۔ دوسرے مقامات پر اسلام نے مرد کی نگرانی کی حدودوقیود کو اچھی طرح بیان کیا ہے ۔ اس پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ نہایت ہی نرمی اور نہایت ہی شفقت اور رحمت کے ساتھ اس فرض کر ادا کرے گا ۔ نیز دوسرے مقامات پر مرد کے مالی اور جانی فرائض بھی بیان کئے گئے ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بیوی اور بچوں کے ساتھ مرد کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے ؟ (اس موضوع پر مزید وضاحت کے لئے درج ذیل مراجع زیر نظر رہیں ۔ نحو مجتمع اسلامی کی فصل معاشرہ اور خاندان ۔۔۔۔۔ فصل ” عورت اور زوجین کے باہم تعلقات “ از کتاب اسلام اور مشکلات تہذیب ‘ کتاب پردہ از مولانا مودودی (رح) کتاب ” خاندان اور معاشرہ “ اور کتاب حق الانسان از عبد الواحد وافی ۔ انسان ‘ مادیت اور اسلام کے درمیان ۔ مصنفہ محمد قطب وغیرہ)

مرد کے حقوق اور فرائض کے بیان کے بعد اور اس عام نگرانی کے حوالے سے اس پر عائد شدہ پابندیوں اور اس کے فرائض کے بیان کے بعد ‘ اب صالح اور مومن عورت کی صفات کا بیان ہوتا ہے اور خاندان کے دائرے کے اندر اس کے طرز عمل خصوصا اس کے ایمانی طرز عمل کا بیان شروع ہوتا ہے ۔

(آیت) ” فالصلحت قنتت حفظت للغیب بما حفظ اللہ (4 : 34) (پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں ‘ ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں)

مومنہ اور صالحہ عورت کا فطری مزاج اور اس کی لازمی خصلت یہ ہونی چاہیے کہ وہ اطاعت شعار ہو ‘ مطیع فرمان ہو اور یہ اس کے صاحب ایمان اور اس کے صالح ہونے کا عین تقاضا ہوتا ہے ۔ القنوت کے معنی ہوتے ہیں توجہ ‘ ارادہ ‘ رغبت اور دلی چاہت سے اطاعت کرنا ، جس میں کوئی جبر نہ ہو ‘ کوئی دباؤ نہ ہو ‘ اور جس میں کمزوری اور سستی نہ ہو ۔ اس لئے قرآن کریم نے قانتات کہا اور طائعات نہیں کہا ۔ اس لئے کہ پہلے لفظ کا مفہوم نفسیاتی ہے اور اس کے اوپر نرمی اور تازگی کا پر تو موجود ہے ۔ یہ لفظ میاں بیوی کے محبت بھرے پرائیویٹ اور پرسکون تعلق کے عین مناسب ہے ۔ ایک ایسے گہوارے کیلئے جس میں بچوں نے پرورش پانی ہے اور جس کی فضا جس کے سائے ‘ جس کے سانس اور جس کی تمام حرکات بچے کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔

ایک صالح اور مومن عورت کا یہ بھی مزاج ہوتا ہے اور یہ بھی اس کی لازمی صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کی عزت اور اس کے حقوق کی محافظ ہوتی ہے ۔ خاوند کی عدم موجودگی میں اس کے مقدس گھرانے کی حفاظت کرتی ہے اور یہ صفات بھی اس کے ایمان اور اس کی ذاتی اصلاح کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ جب ایک مومنہ عورت صالحہ مرد کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی محافظ ہوتی ہے تو اس کی موجودگی میں وہ بطریق اولی اس کی عزت کی محافظ ہوگی ۔ اس طرح وہ اپنی ذات کو کسی کی نظروں کا شکار ہونے بھی نہیں دیتی اور نہ ہی وہ اپنی عصمت اور عزت کو مٹاتی ہے ‘ جو کچھ بھی شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے جائز نہ ہو اس لئے کہ مرد و عورت دونوں ہی ایک ذات ہیں اور ایک ہی نفس سے دونوں کو پیدا کیا گیا ہے ۔

اور جو چیزیں شوہر کے سوا دوسروں کے لئے حرام ہیں ‘ اس کا فیصلہ نہ عورت کرسکتی ہے اور نہ مرد کرسکتا ہے ‘ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ۔ (آیت) ” بما حفظ اللہ “ (4 : 34) (اس چیز کی جس کی اللہ نے حفاظت کی ہے) یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے کہ مرد عورت کو اس کی ذات کے بارے میں کسی فعل کے ارتکاب کی اجازت دیتا ہے یا نہیں اس کی موجودگی میں یا اس کی پس پشت ۔ ایسے افعال جس پر مرد برا نہیں مناتا یا کوئی معاشرہ ایسے افعال کے ارتکاب کے لئے اس مرد یا اس عورت کو آمادہ کرتا ہے ۔ ایسے حالات میں جب معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو اور اسلامی نظام سے دور ہوچکا ہو۔

اس حفظ کے میدان میں ایک ہی حکم ہے ‘ وہ یہ کہ عورت پر فرض ہے کہ وہ اللہ کے حفظ کی حدود میں اپنی حفاظت کرے ۔ یہاں عورت کے حفظ ذات کے لئے قرآن کریم نے امر کا صیغہ استعمال نہیں کیا بلکہ ایسا انداز بیان اختیار کیا ہے جو صیغہ امر سے بھی زیادہ موکد ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حفاظت ان ذرائع کے ساتھ ہے جنکے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور یہ انداز حفاظت صالحات کے مزاج اور صلاح وتقوی کا عین تقاضا ہے ۔

یہاں آکر ذہنی طور پر شکست خوردہ مسلمان مردوں اور خواتین کے تمام حیلے اور بہانے کافور ہوجاتے ہیں ‘ جنہوں نے جدید بےراہ معاشرے کے دباؤ کے مقابلے میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے ۔ اور معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صالحات کے لئے حفظ ذات کی کیا حدود وقیود مقرر کی ہیں یعنی یہ کہ وہ نہایت ہی اطاعت شعاری اور دلی آمادگی سے مطیع فرماں ہوتی ہیں ۔

رہیں وہ عورتیں جو صالحات نہیں ہیں تو وہ سرکش ہیں ۔ (ناشزات کے معنی یہ ہیں کہ کوئی ” نشز “ پر کھڑا ہو ‘ یعنی اونچے مقام پر جو ہر طرف سے نظر آتا ہو) اس لفظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے نفسیاتی صورت حال کی حسی تعبیر کی ہے ۔ ناشز دراصل اپنی نافرمانی کو جائز سمجھتا ہے ‘ علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے ‘ اور سرکشی اختیار کرتا ہے ۔

اسلامی نظام زندگی اس وقت تک انتظار نہیں کرتا کہ عملا سرکشی کا ارتکاب ہوجائے ‘ نافرمانی اور بغاوت کے علم بلند ہوجائیں ‘ مرد کی نگرانی کا رعب اور ڈر ختم ہوجائے اور خاندان دو کیمپوں میں تقسیم ہوجائے ‘ اس لئے کہ اگر حالات اس مقام تک آپہنچیں تو پھر علاج کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا ۔ لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ سرکشی کا خطرہ محسوس ہوتے ہی اور اس کے خطرناک حد تک بڑھ جانے سے پہلے ہی اس کا تدارک کیا جائے ‘ کیونکہ سرکشی کے انجام میں اس اہم ادارے کی ٹوٹ وپھوٹ ہوتی ہے جس کے بعد معاشرے کا امن اور سکون تباہ ہوتا ہے پھر اس ادارے کے ختم ہونے کے ساتھ ہی نئی نسل کی تربیت اور تیاری کا کام بھی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ خاندان ہی نئی نسل کے لئے ایک بہترین گہوارہ ہوتا ہے ۔ اس ادارے کے باہر اگر کسی نسل کی تربیت ہوگی تو وہ نسل نفسیاتی امراض ‘ اعصابی امراض اور دوسرے جسمانی امراض کا شکار ہوگی اور نتیجتا ایک اخلاق باختہ نسل تیار ہوگی ۔

چناچہ خاندان کے بچاؤ کا معاملہ چونکہ بہت ہی اہم معاملہ ہے ‘ لہذا اس سلسلے میں جلد از جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ سرکشی کے آثار نمودار ہوتے ہی ان پر حملہ کیا جائے اسی لئے اس ادارے کو شر و فساد سے بچانے کی خاطر یا اسے بالکل تباہ ہونے سے بچانے کی خاطر اس ادارے کے ڈائریکٹر کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ بعض تادیبی اقدامات کرسکے جو اکثر اوقات نہایت ہی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ یہ اقدامات محض انتقام ‘ توہین یا جسمانی اذیت کے لئے نہیں روا رکھے گئے بلکہ یہ اصلاح اقدامات ہیں اور ابتدائی مراحل میں اصلاح کے لئے اور سرکشی کو ختم کرنے کے لئے ہیں۔

(آیت) ” والتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلا ان اللہ کان علیا کبیرا “۔ (4 : 34)

” اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو ‘ پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لئے بہانے تلاش نہ کرو ‘ یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے ۔

جیسا کہ اس سے قبل ہم کہہ آئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم بنایا ہے اور اس میں مرد وزن دونوں شامل ہیں عورت کو وہی انسان حقوق دیئے جو اس کی صفت انسانیت کے حوالے سے تھے اور ایک مسلمان عورت کو وہ تمام شہری اور قانون حقوق دیئے جو مرد کو دیئے گئے تھے ۔ نیز اگرچہ مرد کو اس کا نگران بنایا گیا ہے لیکن مرد کی نگرانی عورت کو اپنے شوہر کے انتخاب کے حق سے محروم نہیں کرتی ۔ اس سلسلے میں وہ مکمل طور پر خود مختار ہے ۔ نیز وہ اپنے مال اور دولت میں بھی ہر قسم کا تصرف کرسکتی ہے ۔ وہ تمام دوسرے اختیارات جو اسلامی نظام زندگی میں بنیادی عناصر ہیں اور بنیادی حقوق ہیں ‘ اسے حاصل ہیں۔

اگر یہ سب امور ہمارے ذہن نشنین رہیں اور پھر وہ بحث بھی ذہن میں مستحضر رہے جو ہم نے ادارہ خاندان کی اہمیت کے سلسلے میں سابقہ صفحات میں کی ہے ‘ تو ہمارے لئے یہ سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ شریعت نے عورت کی تادیب اور خاندان کے بچاؤ کے لئے یہ اقدامات کیوں جائز رکھے ہیں اور وہ طریق کار کیوں تجویز کیا ہے جس کے مطابق یہ تادیب کی جائے گی ‘ بشرطیکہ ہمارے دل خواہشات نفسانیہ کی پیروی میں فاسد نہ ہوگئے ہوں اور ہمارے دماغ کبر و غرور سے پھر نہ گئے ہوں ۔

یہ حقیقت ہے کہ شریعت اسلامی نے یہ اقدامات محض انسدادی تدابیر کے طور پر کئے ہیں ۔ یہ اقدامات اس لئے گئے جاتے ہیں کہ اداراہ خاندان کے اندر انتظامیہ کو امن وامان کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے اور انتظامیہ پہلے ہی نفوس کی اصلاح کر کے حالات کو درست کردیتی ہے تاکہ دلوں کا یہ فساد خطرناک صورت اختیار نہ کرلے اور میاں بیوی کے درمیان بغض اور نفرت زیادہ نہ ہوجائے اور دل ہی دل میں میاں بیوی کا تعلق ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم نہ ہوجائے ۔

خاندان کے اندر صرف مرد اور عورت کے درمیان معرکہ ہی نہیں ہوتا اور ان اقدامات سے یہ مقصود نہیں ہے کہ مرد اٹھے اور عورت کو کچل کر رکھ دے ‘ جب بھی وہ عورت کی جانب سے نافرمانی کا خطرہ محسوس کرے اسے خوب پیٹے اور اسے بھی واپس لاکر ایک کتے کی طرح زنجیر سے جکڑ دے ۔

اسلام میں ایسے طرز عمل کی اجازت ہر گز نہیں دی گئی ۔ اگرچہ انسانوں میں بعض خاندانوں کے اندر ایسی عادات پائی جاتی ہیں لیکن مرد و زن کے مابین ایسا سلوک اور ایسا تعلق محض اس لئے پیدا ہوا کہ پوری انسانیت نے اپنے اصل مقام کو چھوڑ دیا ۔ یہ اس لئے نہ تھا کہ مرد زن میں سے کوئی ایک غلطی پر تھا ۔ لیکن جب اسلامی معاشرہ صحیح طرح قائم ہوگا تو اس میں صورت حال بالکل مختلف ہوگی اور اس میں تادیب کے اغراض ومقاصد بھی مختلف ہوں گے ۔

(آیت) ” والتی تخافون نشوزھن) (4 : 34) ” اور عورتیں جن سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ “ اسلام میں یہ پہلا اقدام ہے کہ ایسی عورت کو سمجھانے کی کوشش کی جائے گی ۔ کسی خاندان کے سربراہ اور ڈائریکٹر کا یہ پہلا فریضہ ہے کہ وہ سمجھائے ۔ ہر حالت میں اس سے توقع یہ ہے کہ وہ نہایت ہی مہذب انداز میں بیوی کو سمجھائے گا ۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

(آیت) ” یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ “ ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ “

اپنے بچوں اور اہل و عیال کو بچانا تو ہر حال میں مطلوب ہے لیکن ایسے حالات میں جہاں نشوز کا خطرہ ہو وہاں اہل و عیال کو ایک متعین بیماری یعنی سرکشی سے بچانا مطلوب ہوتا ہے ‘ قبل اس کے کہ وہ حد سے تجاوز کرجائے ۔

لیکن بعض اوقات صرف وعظ بھی مفید نہیں ہوتا کبھی عورت پر ہوائے نفس غالب ہوتی ہے اور وہ خود سرتاثرات کی زد میں ہوتی ہے کبھی یوں ہوتا ہے کہ اسے اپنی خوبصورتی پر نازل ہوتا ہے کبھی اپنی دولتمندی کا گھمنڈ ہوتا ہے کبھی اپنے خاندانی مرتبہ کی وجہ سے وہ خاوند کو خاطر میں نہیں لاتی یا بعض دوسری اقدار واوصاف کی وجہ سے وہ تعلی کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور وہ اس بات کو بھول جاتی ہے کہ وہ ایک ادارے میں مرد کے ساتھ برابر کی ذمہ دار ہے ۔ وہ مرد کے مقابلے میں اس کے مقابل قوت آزمائی کے لئے نہیں آئی ہے اور نہ یہاں کوئی موقعہ افتخار اور تعلی کا ہے اس لئے یہاں اس کے خلاف ایک دوسرا اقدام تجویز ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ مرد عورت کی جاذبیت ‘ اس کی خوبصورتی اور تمام دوسری چیزوں کو جن پر وہ تعلی کرتی ہے ‘ روندتا چلا جائے اور نفسیاتی طور پر ثابت کر دے کہ وہ اس عورت سے برتر ہے ۔ اور یہ کہ وہ اس ادارے کا مدیر اور ڈائریکٹر ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ (آیت) ” واھجروھن فی المضاجع “۔ (4 : 34) (خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو) خواب گاہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں عورت اپنی فطری کشش کی وجہ سے مرد کو دھوکہ دیتی ہے ‘ جہاں عورت انتہائی علو شان کے ساتھ اپنا حکم منواتی ہے ۔ جب ایک مرد اپنی خواہشات پر قابو پا کر عورت کی اس فطری کشش کا مقابلہ کرلے تو وہ عورت کے موثر ترین ہتھیار کو کند کردیتا ہے جو ہتھیار وہ مرد کے خلاف استعمال کرتی ہے ۔ جب مرد اپنے اس موقف میں ڈٹ جاتا ہے اور اپنی شخصیت کی قوت کا اظہار کرتا ہے تو اکثر اوقات عورت ہتھیار ڈال دیتی ہے ‘ البتہ عورتوں کو خواب گاہ سے علیحدہ کرنے کے اپنے مخصوص قواعد اور آداب ہیں ۔ وہ یہ کہ خوابگاہ کے علاوہ عورت کے ساتھ دوسرے تعلقات بحال رہیں ۔ مرد صرف خوابگاہ میں اس سے علیحدہ رہے ۔ نیز بچوں پر میاں بیوی کے درمیان ہونے والی یہ کشیدگی ظاہر نہ ہو تاکہ ان پر نفسیاتی طور پر برے اثرات نہ پڑیں ۔ نیز غیر لوگوں کے سامنے کوئی جدائی یا کشیدگی نہ ہو ‘ جس کے نتیجے میں عورت کی تذلیل ہو یا اس کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ زیادہ سرکشی اختیار کرے کیونکہ مقصد تو یہ ہے کہ وہ سرکشی سے باز آجائے ۔ اصل مقصد عورت کی تذلیل نہیں ہے اور نہ بچوں کو خلجان کا شکار کر کے انہیں خراب کرنا مطلوب ہے ۔ اس دوسرے اقدام میں ان دونوں امور کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔

لیکن بعض اوقات یہ دوسرا اقدام بھی کامیاب نہیں رہتا ۔ تو پھر کی اب ادارہ خاندان کی تحلیل کردی جائے ۔ نہیں ایک کوشش مزید بھی ہے ۔ اگرچہ یہ آخری تدبیر قدرے سخت ہے لیکن ایک خاندان کی تحلیل اور بربادی کے مقابلے میں وہ بہت ہی آسان اور معمولی ہے ۔

(آیت) ” واضربوھن “ ” اور انہیں مارو “ اس سے پہلے ہم نے جو مطالب بیان کئے ہیں اور ان اقدامات کے جو اہداف سامنے رکھے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مار سے مقصود عورت کو سزا دینا نہیں ہے اور نہ اس سے انتقام لینا مطلوب ہے ‘ نہ محض غصے کو ٹھنڈا کرنا مطلوب ہے ‘ اور نہ اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ یہ مار محض تذلیل ‘ توہین اور تحقیر کیلئے ہو ۔ اور نہ اس سے مقصود یہ ہے کہ عورت کو ایک ایسے خاندان میں زندہ رہنے پر مجبور کیا جائے جس پر وہ کسی صورت میں بھی راضی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ مار محض اصلاح کی خاطر ہو اور اس مار کے اندر بھی مرد کی جانب سے ہمدردی اور محبت ہو ۔ مثلا جس طرح باپ اپنی اولاد کو مارتا ہے ‘ یا جس طرح استاد اپنے شاگردوں کو سزا دیتا ہے ۔

اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اگر ادارہ خاندان کے دونوں فریقوں کے درمیان مکمل یک جہتی ہو تو پھر اس مار کی ضرورت ہی کیا ہو سکتی ہے ۔ البتہ ان اقدامات کی ضرورت اس وقت لاحق ہو سکتی ہے جب خاندان کے اندر فساد اور توڑ پھوڑ کا خطرہ ہو اور یہ تب ہی ہوتا ہے جب کسی نہ کسی خرابی کا آغاز ہوگیا ہو اور اسے ان اقدامات کے ذریعے دور کرنا مطلوب ہو ۔

جب وعظ ونصیحت بھی کام نہ دے اور خواب گاہوں کے اندر تفریق بھی مفید نہ رہے تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ انحراف اور فساد خطرناک نوعیت اختیار کر گیا ہے اور خطرناک سطح تک پہنچ گیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں وسیلہ ضرب تادیبی کامیاب ہوجائے ۔

بعض عملی واقعات اور بعض نفسیاتی کیسوں سے معلوم ہوتا ہے اور ماہرین نفسیات اس بات کو مانتے ہیں کہ بعض اوقات عورت کی سرکشی کے لئے اسے تادیبی مار دینا ہی اس کے لئے مفید ہوتا ہے ۔ اس سے عورت کا نفسیاتی علاج ہوتا ہے اور وہ فورا راہ راست پر آجاتی ہے ۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت کو سرکشی کی ایک نفسیاتی بیماری لاحق ہوتی ہے اور علمائے نفسیات اسے ایک نام بھی دیتے ہیں ۔ لیکن علم النفس نے جو نتائج اب تک پیش کئے ہیں وہ علمی اور سائنسی نتائج نہیں ہیں کہ انہیں علمی لحاظ سے ثابت شدہ حتمی نتائج کہا جاسکے ‘ جیسا کہ ڈاکٹر الیکنیس کہتے ہیں ۔ البتہ اکثر اوقات ایسا ضرور ہوتا ہے کہ بعض عورتیں مرد کی قوت کی محسوس نہیں کرتیں جبکہ ان کا نفس یہ چاہتا ہے کہ جو مردان کا نگران اور خاوند ہو وہ قوی تر ہو اور وہ اسے تب تسلیم کرتی ہیں جب مرد جسمانی طور پر ایسی عورت کو قابو میں رکھے ۔ لیکن ہر عورت کا نہ یہ مزاج ہوتا ہے اور نہ ہی نفسیاتی خواہش ہوتی ہے ۔ البتہ عورتوں میں سے بعض ایسی ضرور ہوتی ہیں جو خاوند کی طرف سے جبر اور قہر کی طالب ہوتی ہیں اور یہ ضرب کا اقدام ایسے ہی کیسوں کے لئے تجویز کیا گیا ہے تاکہ خاندان جیسا اہم ادارہ صحیح طرح استواری کے ساتھ کام کرسکے ‘ امن و سکون کے ساتھ ۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

آیت 34 اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ یہ ترجمہ میں زور دے کر کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ یہاں قامَ ‘ ’ عَلٰی ‘ کے صلہ کے ساتھ آ رہا ہے۔ قَامَ ’ بِ ‘ کے ساتھ آئے گا تو معنی ہوں گے کسی شے کو قائم کرنا“۔ اسی سورة مبارکہ میں آگے چل کر یہ الفاظ آئیں گے : کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ عدل کو قائم کرنے والے بن کر کھڑے ہوجاؤ ! جبکہ قام عَلٰی کا مفہوم ہے کسی کے اوپر مسلط ہونا۔ّیعنی حاکم اور منتظم ہونا۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ سے یہ واضح ہدایت ملتی ہے کہ گھر کے ادارے میں حاکم ہونے کی حیثیت مرد کو حاصل ہے ‘ سربراہ خاندان مرد ہے ‘ عورت نہیں ہے۔ عورت کو بہرحال اس کے ساتھ ایک وزیر کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ یوں تو ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میری بات مانی جائے۔ گھر کے اندر مرد بھی یہ چاہتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن آخر کار کس کی بات چلے گی ؟ یا تو دونوں باہمی رضامندی سے کسی مسئلے میں متفق ہوجائیں ‘ بیوی اپنے شوہر کو دلیل سے ‘ اپیل سے ‘ جس طرح ہو سکے قائل کرلے تو معاملہ ٹھیک ہوگیا۔ لیکن اگر معاملہ طے نہیں ہو رہا تو اب کس کی رائے فیصلہ کن ہوگی ؟ مرد کی ! عورت کی رائے جب مسترد ہوگی تو اسے اس سے ایک صدمہ تو پہنچے گا۔ اسی صدمے کا اثر کم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورت میں نسیان کا مادہ زیادہ رکھ دیا ہے ‘ جو ایک safety valve کا کام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون شہادت میں ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کا نصاب رکھا گیا ہے تاکہ ان میں سے کوئی ایک بھول جائے تو دوسری یاد کرا دے“۔ اس پر ہم سورة البقرۃ آیت 282 میں بھی گفتگو کرچکے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے گھر کے ادارے کا سربراہ مرد کو بنایا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ مرد اگر اپنی اس حیثیت کا غلط استعمال کرتا ہے ‘ عورت پر ظلم کرتا ہے اور اس کے حقوق ادا نہیں کرتاتو اللہ کے ہاں بڑی سخت پکڑ ہوگی۔ آپ کو ایک اختیار دیا گیا ہے اور آپ اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں ‘ اس کو ظلم کا ذریعہ بنا رہے ہیں تو اس کی سزا اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کو مل جائے گی۔بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوّق حاصل ہے ‘ جن کی بنا پر قوّ امیت کی ذمہ داری اس پر ڈالی گئی ‘ ہے۔ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ط۔اسلام کے معاشرتی نظام میں کفالتی ذمہ داری تمام تر مرد کے اوپر ہے۔ شادی کے آغاز ہی سے مرد اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ شادی اگرچہ مرد کی بھی ضرورت ہے اور عورت کی بھی ‘ لیکن مرد مہر دیتا ہے ‘ عورت مہر وصول کرتی ہے۔ پھر گھر میں عورت کا نان نفقہ مرد کے ذمے ہے۔ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ مرد کو قوامیت کے منصب پر فائز کرنے کے بعد اب نیک بیویوں کا رویہ بتایاجا رہا ہے۔ یوں سمجھئے کہ قرآن کے نزدیک ایک خاتون خانہ کی جو بہترین روش ہونی چاہیے وہ یہاں تین الفاظ میں بیان کردی گئی ہے : فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ ۔حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ rَوہ مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے اموال اور حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ ظاہر ہے مرد کا مال تو گھر میں ہی ہوتا ہے ‘ وہ کام پر چلا گیا تو اب وہ بیوی کی حفاظت میں ہے۔ اسی طرح بیوی کی عصمت درحقیقت مرد کی عزتّ ہے۔ وہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔ اسی طرح مرد کے راز ہوتے ہیں ‘ جن کی سب سے زیادہ بڑھ کر رازدان بیوی ہوتی ہے۔ تو یہ حفاظت تین اعتبارات سے ہے ‘ شوہر کے مال کی ‘ شوہر کی عزت و ناموس کی ‘ اور شوہر کے رازوں کی۔بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط۔اصل حفاظت و نگرانی تو اللہ کی ہے ‘ لیکن انسان کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی پڑتی ہے۔ جیسے رازق تو اللہ ہے ‘ لیکن انسان کو کام کر کے رزق کمانا پڑتا ہے۔ وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ rّاگر کسی عورت کے رویے سے ظاہر ہو رہا ہو کہ یہ سرکشی ‘ سرتابی ‘ ضد اور ہٹ دھرمی کی روش پر چل پڑی ہے ‘ شوہر کی بات نہیں مان رہی بلکہ ہر صورت میں اپنی بات منوانے پر مصر ہے اور اس طرح گھر کی فضا خراب کی ہوئی ہے تو یہ نشوز ہے۔ اگر عورت اپنی اس حیثیت کو ذہناً تسلیم نہ کرے کہ وہ شوہر کے تابع ہے تو ظاہر بات ہے کہ مزاحمت friction ہوگی اور اس کے نتیجے میں گھر کے اندر ایک فساد پیدا ہوگا۔ ایسی صورت حال میں مرد کو قوّام ہونے کی حیثیت سے بعض تادیبی اختیارات دیے گئے ہیں ‘ جن کے تین مراحل ہیں : ُ فَعِظُوْہُنَّ پہلا مرحلہ سمجھانے بجھانے کا ہے ‘ جس میں ڈانٹ ڈپٹ بھی شامل ہے۔وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْْمَضَاجِعِ اگر نصیحت و ملامت سے کام نہ چلے تو دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ان سے اپنے بستر علیحدہ کرلو اور اس کے ساتھ تعلق زن و شو کچھ عرصہ کے لیے منقطع کرلو۔ وَاضْرِبُوْہُنَّ ج۔اگر اب بھی وہ اپنی روش نہ بدلیں تو مرد کو جسمانی سزا دینے کا بھی اختیار ہے۔ اس ضمن میں آنحضور ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ چہرے پر نہ مارا جائے اور کوئی ایسی مار نہ ہو جس کا مستقل نشان جسم پر پڑے۔ مذکورہ بالا تادیبی ہدایات اللہ کے کلام کے اندر بیان فرمائی گئی ہیں اور انہیں بیان کرنے میں ہمارے لیے کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔ معاشرتی زندگی کو درست رکھنے کے لیے ان کی ضرورت پیش آئے تو انہیں اختیار کرنا ہوگا۔ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلاً ط۔اگر عورت سرکشی و سرتابی کی روش چھوڑ کر اطاعت کی راہ پر آجائے تو پچھلی کدورتیں بھلا دینی چاہئیں۔ اس سے انتقام لینے کے بہانے تلاش نہیں کرنے چاہئیں۔

مرد عورتوں سے افضل کیوں ؟ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ مرد عورت کا حاکم رئیس اور سردار ہے ہر طرح سے اس کا محافظ و معاون ہے اسی لئے کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبوۃ ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد ہی بن سکتا ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں وہ لوگ کبھی نجات نہیں پاسکتے جو اپنا والی کسی عورت کو بنائیں۔ (بخاری) اسی طرح ہر طرح کا منصب قضا وغیرہ بھی مردوں کے لائق ہی ہیں۔ دوسری وجہ فضیلت کی یہ ہے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو کتاب و سنت سے ان کے ذمہ ہے مثلاً مہر نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا۔ پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے اور بہ اعتبار نفع کے اور حاجت براری کے بھی اس کا درجہ بڑا ہے۔ اسی بنا پر مرد کو عورت پر سردار مقرر کیا گیا جیسے اور جگہ فرمان ہے (وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ) 2۔ البقرۃ :228) ابن عباس ؓ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے گی اس کے بال بچوں کی نگہداشت اس کے مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں ایک عورت نے نبی ﷺ کے سامنے اپنے خاوند کی شکایت کی کہ ایک انصاری ؓ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور ﷺ سے کہا یارسول اللہ ﷺ میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ پس آپ نے بدلہ لینے کا حکم دیا ہی تھا جو یہ آیت اتری اور بدلہ نہ دلوایا گیا ایک اور روایت کہ ایک انصار ؓ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور ﷺ سے کہا یارسول اللہ ﷺ میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا جس کا نشان اب تک میرے چہرے پر موجود ہے آپ نے فرمایا اسے حق نہ تھا وہیں یہ آیت اتری کہ ادب سکھانے کے لئے مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ تو آپ نے فرمایا میں نے اور چاہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اور چاہا۔ شعبہ ؒ فرماتے ہیں مال خرچ کرنے سے مراد مہر کا ادا کرنا ہے دیکھو اگر مرد عورت پر زنا کاری کی تہمت لگائے تو لعان کا حکم ہے اور اگر عورت اپنے مرد کی نسبت یہ بات کہے اور ثابت نہ کرسکے تو اسے کوڑے لگیں گے۔ پس عورتوں میں سے نیک نفس وہ ہیں جو اپنے خاوندوں کی اطاعت گزار ہوں اپنے نفس اور خاوند کے مال کی حفاظت والیاں ہوں جسے خود اللہ تعالیٰ سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بہتر عورت وہ ہے کہ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے بجا لائے اور جب کہیں باہر جائے تو اپنے نفس کو برائی سے محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کے مال کی محافظت کرے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب کوئی پانچوں وقت نماز ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے تو چاہے جنت میں چلی جا، پھر فرمایا جن عورتوں کی سرکشی سے ڈرو یعنی جو تم سے بلند ہونا چاہتی ہو نافرمانی کرتی ہو بےپرواہی برتتی ہو دشمنی رکھتی ہو تو پہلے تو اسے زبانی نصیحت کرو ہر طرح سمجھاؤ اتار چڑھاؤ بتاؤ اللہ کا خوف دلاؤ حقوق زوجیت یاد دلاؤ اس سے کہو کہ دیکھو خاوند کے اتنے حقوق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو حکم کرسکتا کہ وہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ سب سے بڑا حق اس پر اسی کا ہے بخاری شریف میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بسترے پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے۔ کہ جس رات کوئی عورت روٹھ کر اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑے رہے تو صبح تک اللہ کی رحمت کے فرشتے اس پر لعنتیں نازل کرتے رہتے ہیں، تو یہاں ارشاد فرماتا ہے کہ ایسی نافرمان عورتوں کو پہلے تو سمجھاؤ بجھاؤ پھر بستروں سے الگ کرو، ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یعنی سلائے تو بستر ہی پر مگر خود اس سے کروٹ موڑ لے اور مجامعت نہ کرے، بات چیت اور کلام بھی ترک کرسکتا ہے اور یہ عورت کی بڑی بھاری سزا ہے، بعض مفسرین فرماتے ہیں ساتھ سلانا ہی چھوڑ دے، حضور ﷺ سے سوال ہوتا ہے کہ عورت کا حق اس کے میاں پر کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ جب تو کھا تو اسے بھی کھلا جب تو پہن تو اسے بھی پہنا اس کے منہ پر نہ مار گالیاں نہ دے اور گھر سے الگ نہ کر غصہ میں اگر تو اس سے بطور سزا بات چیت ترک کرے تو بھی اسے گھر سے نہ نکال پھر فرمایا اس سے بھی اگر ٹھیک ٹھاک نہ ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ یونہی سی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بھی راہ راست پر لاؤ۔ صحیح مسلم میں نبی ﷺ کے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ہے کہ عورتوں کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو وہ تمہاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ جس کے آنے جانے سے تم خفا ہو اسے نہ آنے دیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں یونہی سے تنبیہہ بھی تم کرسکتے ہو لیکن سخت مار جو ظاہر ہو نہیں مار سکتے تم پر ان کا حق یہ ہے کہ انہیں کھلاتے پلاتے پہناتے اڑھاتے رہو۔ پس ایسی مار نہ مارنی چاہیے جس کا نشان باقی رہے جس سے کوئی عضو ٹوٹ جائے یا کوئی زخم آئے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو فدیہ لو اور طلاق دے دو۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ کی لونڈیوں کو مارو نہیں اس کے بعد ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ عورتیں آپ کے اس حکم کو سن کر بہت سی عورتیں شکایتیں لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایا سنو میرے پاس عورتوں کی فریاد پہنچی یاد رکھو تم میں سے جو اپنی عورتوں کو زدوکوب کرتے ہیں وہ اچھے آدمی نہیں (ابو داؤد وغیرہ) حضرت اشعث ؒ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں حضرت فاروق اعظم ؓ کا مہمان ہوا اتفاقاً اس روز میاں بیوی میں کچھ ناچاقی ہوگئی اور حضرت عمر ؓ نے اپنی بیوی صاحبہ کو مارا پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث تین باتیں یاد رکھ جو میں نے آنحضرت ﷺ سے سن کر یاد رکھی ہیں ایک تو یہ کہ مرد سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عورت کو کس بنا پر مارا ؟ دوسری یہ کہ وتر پڑھے بغیر سونا مت اور اور تیسری بات راوی کے ذہن سے نکل گئی (نسائی) پھر فرمایا اگر اب بھی عورتیں تمہاری فرمانبردار بن جائیں تو تم ان پر کسی قسم کی سختی نہ کرو نہ مارو پیٹو نہ بیزاری کا اظہار کرو۔ اللہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے۔ یعنی اگر عورتوں کی طرف سے قصور سرزد ہوئے بغیر یا قصور کے بعد ٹھیک ہوجانے کے باوجود بھی تم نے انہیں ستایا تو یاد رکھو ان کی مدد پر ان کا انتقام لینے کے لئے اللہ تعالیٰ ہے اور یقینا وہ بہت زرو اور زبردست ہے۔

آیت 34 - سورہ نساء: (الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم ۚ فالصالحات قانتات حافظات للغيب بما...) - اردو