سورہ نساء (4): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نساء کے بارے میں معلومات

Surah An-Nisaa
سُورَةُ النِّسَاءِ
صفحہ 84 (آیات 34 سے 37 تک)

ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَآ أَنفَقُوا۟ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ ۚ فَٱلصَّٰلِحَٰتُ قَٰنِتَٰتٌ حَٰفِظَٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَّهُ ۚ وَٱلَّٰتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهْجُرُوهُنَّ فِى ٱلْمَضَاجِعِ وَٱضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا۟ عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُوا۟ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِۦ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَآ إِن يُرِيدَآ إِصْلَٰحًا يُوَفِّقِ ٱللَّهُ بَيْنَهُمَآ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ۞ وَٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْـًٔا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَٰنًا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَٰمَىٰ وَٱلْمَسَٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَآ ءَاتَىٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ ۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَٰفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
84

سورہ نساء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نساء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر تم وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالا تر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alrrijalu qawwamoona AAala alnnisai bima faddala Allahu baAAdahum AAala baAAdin wabima anfaqoo min amwalihim faalssalihatu qanitatun hafithatun lilghaybi bima hafitha Allahu waallatee takhafoona nushoozahunna faAAithoohunna waohjuroohunna fee almadajiAAi waidriboohunna fain ataAAnakum fala tabghoo AAalayhinna sabeelan inna Allaha kana AAaliyyan kabeeran

ان قرآنی نصوص کی تفسیر اور تشریح شروع کرنے پہلے اور ان کی نفسیاتی اور اجتماعی اغراض کے بیان سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ خاندان کے بارے میں اسلام کا اجمالی نقطہ نظر بیان کردیا جائے اور یہ بتا دیا جائے کہ اسلام خاندان کی تعمیر کس منہاج پر کرتا ہے اور پھر اس کے بچاؤ کے لئے کیا تدابیر اختیار کرتا ہے ۔ اور پھر یہ کہ اس انتظام سے اسلام کے پیش نظر کیا اہداف اور مقاصد ہیں ۔ یہ بیان ہم حتی الوسع اجمالی طور پر کریں گے ‘ اس لئے کہ اس موضوع پر مفصل بحث کے لئے زیادہ صفحات درکار ہوں گے ۔

جس ذات نے انسان کو پیدا کیا اس نے اس کے اندر وہی ازدواجی فطرت ودیعت کی جو اس نے تمام چیزون کے اندر رکھی ہے جو اس نے پیدا کیں۔

(آیت) ” ومن کل شیء خلقلنا زوجین لعلکم تذکرون) (اور جو چیزیں ہم نے پیدا کیں ان کے ہم نے جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت پکڑو) انسان کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے جوڑا پیدا کیا لیکن اس جوڑے کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ۔

(آیت) ” یایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا “۔ (4 : 1) ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا “۔ اس جوڑے کے ملاب کے اندر اللہ تعالیٰ نے زندگی کے تمام راز رکھ دیئے ہیں ۔ اس ملاپ کے اندر نفسیاتی سکون ‘ اعصابی ٹھہراؤ ‘ روحانی اطمینان اور جسمانی راحت اور آرام کا انتظام کیا ۔ پھر اس ملاپ کے اندر دونوں کا پردہ ‘ عفت مابی اور گناہوں سے بچاؤ کا سامان رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ ملاپ نسل کے لئے کھیت کا کام بھی دیتا ہے ۔ اور اس کے ذریعے زندگی کے اندر تسلسل قائم ہوتا ہے اور اس کے بعد طریقہ ہائے زندگی کی ترقی کا راز بھی اسی میں ہے لیکن اسلام نے اس پورے نظام کو ایک تربیت گاہ ایک نرسری ‘ ایک باپردہ اور پرسکوں خاندان کی شکل میں بنایا جس کی ابتداء زوجین سے ہوتی ہے ۔

(آیت) ” ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ وراحمۃ ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون “۔ (30 : 31)

” اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تمہارے جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کی ۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور وفکر کرتے ہیں) (آیت) ” ھن لباس لکم وانتم لباس لھن “ (وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو)

(آیت) ” نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم وقدموا لانفسکم واتقوا اللہ) ” تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو ‘ جاؤ اور اپنے مستقبل کا بھی سروسامان کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو)

(آیت) ” یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ) ” اے لوگو ‘ جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ “

(آیت) ” والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم وما التنھم من عملھم من شیئ) (اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کرتی رہی ان کی اس اولاد کو بھی ہم ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ہم ان کے اعمال کے صلے میں سے کچھ کم نہ کریں گے)

نفس انسانی کے دونوں اطراف مرد وزن کا مقام اللہ کے ہاں کیا ہے ؟ انسانیت میں وہ دونوں برابر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نفس انسان کو مکرم بنایا جس میں عورت میں شامل ہے اور مرد بھی اللہ تعالیٰ مرد و عورت دونوں کا اپنے اپنے اعمال پر پوری جزاء دے گا ۔ اللہ کے قانون میں جس طرح مرد ملکیت رکھ سکتا ہے ‘ اسی طرح عورت بھی ملکیت رکھ سکتی ہے ۔

مرد حق میراث رکھتا ہے تو عورت بھی حق میراث رکھتی ہے ۔ مرد ایک قانونی شخصیت ہے تو عورت علیحدہ قانونی شخصیت ہے اور ان تمام نکات پر بحث ہم اس سبق میں اس سے پہلے کر آئے ہیں ۔

چونکہ ادارہ خاندان کو وجود میں لانے کے لئے نفس انسانی کے دونوں اجزاء کا باہم ملاپ ضروری تھا اور اس کے نتیجے میں فرائض اور واجبات پیدا ہوتے تھے ‘ اس لئے شریعت نے اس ادارے کے معاملات کے ہر جزء کے بارے میں تفصیلی ہدایات دیں ۔ مقصد یہ تھا کہ مرد وزن کو سکون ’ اطمینان ‘ پردہ پوشی اور برائی اور فحاشی سے بچنے کے لئے مواقع حاصل ہوں۔ دوسرے یہ کہ اس خاندانی نظام کے ذریعے زندگی کو تسلسل حاصل ہو اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو ۔ اس سورة کے بڑے حصے میں خاندان کی شیرازہ بندی کی گئی ہے جس کا ایک حصہ ہم نے اس پارے کی ابتداء میں دیا تھا اور پارہ چہارم میں بھی اس کے تکمیلی احکام دیئے گئے تھے ۔ اسی طرح سورة بقرہ میں بھی یہ احکام بیان ہوئے تھے جس کی تشریح ہم نے دوسرے پارے میں پیش کی تھی ۔ قرآن کریم کی کئی دوسری سورتوں میں بھی خاندانی نظام کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں ۔ مثلا اٹھارہویں پارے میں سورة نور اور سورة احزاب (پارہ 21۔ 22) سورة طلاق ‘ سورة تحریم (پارہ 28) اور بعض دوسری سورتوں کے متفرق مقامات پر ۔ ان تمام مقامات پر جو مباحث کئے گئے ہیں ان میں اسلام کے خاندانی نظام کا ایک مکمل دستور موجود ہے۔ اس طویل و عریض مباحث اور متنوع اور مفصل احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام انسانی زندگی کی تعمیر ایک خاندانی نظام کے مطابق کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے ان سورتوں میں خاندانی زندگی کے ایک ایک گوشے کو لیا گیا ہے ۔

A ہمیں امید ہے کہ اس صفحے کے پڑھنے والے ان تمام تفصیلات کو ذہن میں رکھیں گے جو ہم نے اس سلسلے میں پیش کی ہیں ۔ مثلا انسان کے بچوں کا طویل بچپن ‘ اس کے دوران بچوں کی طویل پرورش اور نگہداشت کی ضرورت ‘ اور پھر ان بچوں کے لئے ایک خاندان کی ضرورت تاکہ بچہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر ‘ زندگی کی معاشی جدوجہد میں داخل ہو سکے اس معاشی جدوجہد سے بھی زیادہ اہم بچے کی وہ تربیت ہے جو اسے اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے تیار کرتی ہے اور معاشرے کا ایک اچھا فرد بننے کے اہل بناتی ہے تاکہ وہ انسانی ترقی کی رفتار میں اپنے فرائض سرانجام دے سکے ۔ اور جب وہ اس معاشرے کو چھوڑے تو اس حالت سے بہتر کر کے چھوڑے جس میں اس نے اسے پایا تھا ۔ غرض خاندانی نظام کے صحیح فہم کے لئے مذکورہ بالانکات پر غور کرنا نہایت ہی ضروری ہے ۔ نیز خاندان کے مقاصد ‘ خاندان کے فرائض ‘ خاندان کے بچاؤ اور تباہی اور بربادی کے ہر اثر سے اسے محفوظ اور مامون رکھنے نیز خاندان کی نشوونما کے سلسلے میں اسلامی نظام زندگی کے موقف اور پالیسی کو سمجھنے کے لئے یہ امور نہایت ہی اہم ہیں ۔

اسلام کی نظر میں خاندان کی جو اہمیت ہے اور جس کے بارے میں ہم نے اوپر تفصیلی اشارات دیئے ہیں ان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک خاندانی نظام کے قیام ‘ اس کے استحکام اور اس کے اندر سکون اور ٹھہراؤ پیدا کرنیکے لئے اسلام نے جتنا زور دیا ہے اس کا تصور بھی دوسرے نظاموں میں نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ اسلام نے عورت کو بھی پہلی مرتبہ ایک باعزت مقام اور باعزت شخصیت عطا کی ۔ عورت کو جو حقوق اسلام نے دنیا میں پہلی بار عطا کئے ‘ یہ وہ حقوق نہیں جن کے ذریعے وہ صرف محبت اور لذت حاصل کرے بلکہ وہ حقوق ہیں جن کے ذریعے عورت حیات انسانی کے حوالے سے اپنے بلند ترین فرائض سرانجام دے ۔

ان تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اب اس سبق کی آخری آیت پر کلام کرتے ہیں جو اس سلسلے کی بہت سی اہم آیت ہے اور اسی وجہ سے اس کی تشریح سے پہلے ہم نے درج بالا تمہیدی اشارات دیئے ہیں ۔

یہ آیت زوجین کے درمیان قائم ادارے کی تنظیم اور اس ادارے کے افراد کے درمیان اختیارات کی وضاحت کرتی ہے اور افراد خاندان کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کو دور کرنے کی خاطر ان کو ہدایات دیتی ہے کہ تمام مسلمان خواہشات نفسانیہ اور ذاتی تاثرات ومیلانات کے تابع ہونے کے بجائے اللہ جل شانہ کے احکام کی اطاعت کریں اور اللہ کا حکم یہ ہے کہ خاندان کے اندر قوام اور سربراہ مرد ہوگا اور یہ کہ مرد کو سربراہ بنانے کے اسباب یہ ہیں کہ ایک تو مرد کو اللہ نے فضیلت دی ہے اور اس کے اندر وہ تنظیمی صلاحیتیں زیادہ رکھی گئی ہیں ‘ جن صلاحیتوں پر خاندانی نظام کا چلنا موقوف ہے ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد پر یہ ڈیوٹی عائد کی ہے کہ وہ خاندان کی معاشی ضروریات کا کفیل ہوگا ۔ چونکہ خاندان کا قیم مرد کو بنایا گیا ہے ‘ اس لئے مرد کو وہ خصوصی اختیارات بھی دیئے گئے ہیں جن سے وہ اس ادارے کو بچا سکے اور محض عارضی جذبات اور شہوات نفسانیہ اسے تباہ نہ کرسکیں اور یہ بھی بتایا گیا کہ ان وقتی شہوات سے بچاؤ کی تدابیر کیا ہوتی ہیں ۔ علاج کی حدود بھی متعین کردی گئی ہیں اور اگر داخلی علاج نہ ہو سکے تو پھر خارجی علاج بھی بتایا گیا ہے خصوصا ان حالات میں جبکہ اس ادارے کو شدید خطرات لاحق ہوں اور نہ صرف یہ خطرہ ہو کہ اس کے دو اہم اطراف اور فریق ایک دوسرے سے جدا ہورہے ہیں بلکہ ان کی جدائی کے نتیجے میں معصوم بچوں اور نوخیز نسل کی تربیت کو بھی خطرات درپیش ہوں بلکہ ان کے وجود تک کو خطرہ لاحق ہوگیا ہو۔ ذرا غور سے دیکھئے کہ ہر اقدام اور تدبیر کی پشت پر کس قدر گہری حکمت ہے ۔ اور اس کی کس قدر ضرورت ہے ۔

(آیت) ” الرجال قومون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض وبما انفقوا من اموالھم “۔ (4 : 34) (مرد عورتوں پر قوام ہیں ‘ اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک دو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں)

جیسا کہ ہم نے کہا خاندان انسانی زندگی کا ابتدائی ادارہ اس طرح کہ یہ ایک نکتہ آغاز ہے جو انسانی کی پوری زندگی پر اثرا نداز ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے بھی یہ نکتہ آغاز ہے کہ خاندان ہی سے آئندہ زندگی کے عناصر پیدا ہوتے ہیں اور اسلامی نقطہ نظر سے انسان اس کائنات کا اہم ترین عنصر ہے ۔

دنیا میں خاندان کے ادارے کے مقابلے میں کم اہم اداروں کی ادارت اور انتظام (MAnAgement) اہل ترین افراد کے سپرد کیا جاتا ہے مثلا مالی ادارے بینک وغیرہ ‘ صنعتی ادارے اور کارخانے اور دوسرے تجارتی ادارے اور کمپنیاں ۔ ان اداروں کا انتظام وانصرام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دیا جاتا ہے جو اپنے شعبے میں اچھی مہارت رکھتے ہوں اور انہوں نے اس شعبے میں وافر معلومات حاصل کر رکھی ہوں اور ان کے اندر تجربہ اور صلاحیت موجود ہو۔

یہ تو ہے رواج ان اداروں کے انتظام کا جن کا مقام و مرتبہ اور اہمیت انسانی ادارے سے بہت ہی کم تر ہے ۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ خاندان کا انتظام اور انصرام سپرد کرنے میں بھی اسی اصول کو مد نظر رکھا جائے اس لئے کہ خاندان کا ادارہ اس کائنات کی اہم ترین پیداوار یعنی نسل انسانی کی افزائش کا ذمہ دار ہے ۔ ظاہر ہے کہ انسان کے نقطہ نظر سے انسان اہم ترین پیداوار ہے ۔

اسلامی نظام حیات اس اصول کو مدنظر رکھتا ہے ۔ وہ انسان کی فطرت کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور پھر خاندان کے اجزاء یعنی مرد وزن دونوں کی صلاحیتوں کو بھی مدنظر رکھتا ہے ۔ وہ ان فرائض وواجبات پر بھی نظر رکھتا ہے جو مرد اور عورت پر از روئے فطرت عائد کئے گئے ہیں ۔ اسلامی نظام نے مرد وزن دونوں پر فرائض عائد کرتے وقت دونوں کے ساتھ عدل و انصاف کو بھی ملحوظ رکھا ہے اور یہ عدل یعنی تقسیم وظائف ‘ مرد وزن کی فطرت کو دیکھ کر کی گئی ہے ۔ یہ بات تو ناقابل انکار ہے کہ مرد اور عورت دونوں ہی اللہ کی مخلوق ہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ جبکہ وہ ہر ایک کو اس کی مخصوص فطری ڈیوٹی کے لئے تیار کرتا ہے اور اسے اس کی ڈیوٹی کے لائق استعداد بھی عطا کرتا ہے ۔ یہ امور نہایت ہی بدیہی اور مسلم ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا اور پھر ان کا جوڑا بنایا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کو جوڑے جوڑے بنایا ہے ۔ یعنی اس کائنات کے اندر جمادات تک میں جوڑے ہیں ۔ اب عورت کا فطری فریضہ یہ ہے کہ وہ حاملہ بنے ‘ پھر وضع حمل ہو ‘ پھر وہ بچے کو دودھ پلائے اور مرد اور عورت کے ملاپ کا جو ثمرہ نکلے اس کی پوری طرح وہ ذمہ دار ہو ۔ اس فطری نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو عورت پر یہ ایک عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ایک نہایت ہی اہم ذمہ داری ہے ۔ یہ کوئی معمولی اور آسان ذمہ داری نہیں ہے ۔ اور یہ ذمہ داری بغیر جسمانی ‘ نفسیاتی ‘ اور گہری عقلی تیاری اور استعداد کے ادا بھی نہیں کی جاسکتی ۔ یہ سب خوبیاں عورت کی ذات کے اندر پائی جانی ضروری ہیں۔ اس لئے یہ بات عین ترین انصاف تھی کہ اس شراکت کے دوسرے ساتھی کے ذمہ بھی ایک اہم ڈیوٹی لگائی جائے اور وہ یہ کہ خاندان کی تمام ضروریات کا کفیل وہی ہو اور اس طرح وہ والدہ اور بچے دونوں کی حمایت اور بچاؤ کا بھی ذمہ دار ہو تاکہ عورت اپنی نہایت ہی اہم اور قیمتی ڈیوٹی کے لئے من کل الوجوہ فارغ ہو ۔ اس پر یہ زیادتی نہ ہو کہ وہ حمل بھی برداشت کرے ‘ وضع حمل کی تکلیفات بھی برداشت کرے ‘ اور بچے کی رضاعت اور کفالت بھی کرے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مزدوری اور محنت بھی کرے اور اپنے بچے کے لئے اور اپنی ذاتی ضروریات کیلئے جاگتی بھی رہے ۔ بیک وقت دونوں ڈیوٹیاں اس پر عائد کردی جائیں ۔ اس لئے یہ نہایت ہی منصفانہ تقسیم کار تھی کہ عورت کے لئے اس کی جسمانی اور فطری صلاحیتوں کے مطابق میدان کار وضع کیا جائے اور مرد کے لئے اس کے جسمانی ‘ نفسیاتی اور فطری صلاحیتوں کے مطابق میدان کار تجویز کیا جائے اور اسلام نے عملا یہی کچھ کیا ، اس لئے کہ اسلام کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ رب ذوالجلال کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرتا ۔

یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو صلاحیتیں دی ہیں ان میں نرمی ‘ مہربانی ‘ جلدی متاثر ہوجانا ‘ جلدی جواب دینا ‘ اور بچوں کی فوری ضروریات کے لئے تمام ضروری صفات فطرت نے ماں میں ودیعت کردیں اور یہ ایسی صفات ہیں جو عورت کے اندر تعلیم وتربیت کے ذریعے پیدا نہیں کی گئیں بلکہ ان افعال کا ارتکاب عورت بےسوچے سمجھے کرتی ہے ۔ اس لئے کہ انسان کی اہم ضروریات یہاں تک کہ ایک فرد واحد کی اہم ضروریات کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس بات پر موقوف نہیں رکھا کہ کوئی سوچے ‘ غور کرے اور وقت گزارنے کے بعد فطری ضروریات کو پورا کرے ۔ جبکہ فطری ضروریات کا مطالبہ بھی غیر ارادی ہوتا ہے اور انہیں پورا بھی غیر ارادی طور پر کیا جاتا ہے تاکہ مطالبہ ہوتے ہی ان ضروریات کو پورا کر دیاجائے بلکہ بعض حالات میں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان فطری مطالبات کے پورا کرنے کا نظام کوئی جبری نظام ہے ۔ ہاں اگر اس میں جبر کا کوئی عنصر ہے تو وہ داخلی عنصر ہے ‘ خارج سے کوئی جبر نہیں ہے ۔ بعض اوقات تو یہ مطالبہ مستحب اور لذیذ ہوتا ہے تاکہ انسان جلدی اس مطالبہ فطرت کے پورا کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے ۔ وہ انسان کے لئے فرحت بخش ہو ‘ اگرچہ اس میں طویل مشقت اور بےبہا قربانی ہو ۔ یہ اللہ کی ساخت ہے جس نے ہر چیز کو بہت ہی اچھا کر کے بنایا ہے ۔

فطرت انسانی کے اندر ان خصوصیات کا پایا جانا کوئی سطحی چیز نہیں ہے ۔ فطرت کے یہ دواعی عورت کے عضویاتی ‘ اعصابی ‘ شعوری اور نفسیاتی ساخت کے اندر نہایت ہی عمق کے ساتھ ودیعت کیے گئے ہیں ۔ اس بارے میں ماہرین فن کا یہ کہنا ہے کہ یہ اوصاف اس خلیے کے اندر موجود ہوتے ہیں جن سے انسان پیدا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے خلیے کی گہرائیوں کے اندر ان خصوصیات کو پیدا کردیا تھا اور اس خلیے کی تقسیم اور بڑھوتری سے پھر بچہ نشوونما پاتا ہے اور اس کے اندر وہ تمام اساسی خصائص موجود ہوتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں مرد کو جو خصوصیات دی گئیں ان میں سے اہم ترین خصوصیت مرد کی سخت جاتی اور مضبوطی ہے ۔ مرد جلدی متاثر نہیں ہوتا اور کسی بھی صورت حال کو جلد قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ وہ ہر کام سوچ سمجھ کر کرتا ہے اور کوئی اقدام کرنے سے پہلے اس کے نتائج پر بھی غور کرتا ہے ۔ کیونکہ آغاز حیات میں اس کی زندگی کا فریضہ یہ تھا کہ وہ شکار کرکے لائے اور اپنے بچوں اور بیوی کے بچاؤ کے لئے مرنے مارنے پر اتر آئے بیوی بچوں کی معیشت کا انتظام کرے اور زندگی کے تمام فرائض سرانجام دے ۔ اس کے تمام فرائض اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہر اقدام سے پہلے اچھی طرح سوچا جائے ۔ غور وفکر سے کام لیاجائے اور اگر کوئی کسی بات کی دعوت دے تو اسے بہت سوچ سمجھ کر قبول کیا جائے ۔ یہ سب خصوصیات مرد کی شخصیت کی ساخت کے اندر پائی جاتی ہیں جس طرح عورت کی خصوصیات اس کی شخصیت کی ساخت کے اندر موجود ہوتی ہیں ۔

مرد کی یہ فطری خصوصیات اسے اس بات کا مستحق بنا دیتی ہیں کہ وہ گھرانے کا نگراں ہو اور مرتبے کے اعتبار سے خاندان میں سینئر ہو ۔ مزید یہ کہ چونکہ پورے خاندان کے اخراجات کا ذمہ دار بھی مرد ہی ہوتا ہے اس لئے اس کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ وہی ہے جو پورے خاندانی ادارے کی معاشی ضروریات کا کفیل ہے ۔ چونکہ وہی خرچ کرنے والا ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہی مدیرہو ۔ یہی دو خصوصیات ہیں جن کو قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے اور انہی کی بنا پر اسلامی معاشرے میں مرد کو قوام بنایا گیا ہے ۔

مرد کی نگرانی کے بعض اسباب تکوینی اسباب ہیں یعنی صلاحیت کے اعتبار سے اور بعض اسباب ذمہ داریوں کے حوالے سے ہیں ۔ نیز ذمہ داریوں کی تقسیم میں انصاف اور عدل کے حوالے سے بھی مرد نگران بن جاتا ہے اور پھر شریعت نے مرد اور عورت پر ذمہ داریاں ڈالتے وقت اس امر کو بھی ملحوظ رکھا ہے کہ کس کے لئے کیا ذمہ داری باعث سہولت ہے اور کس کی فطرت کیا ذمہ داری چاہتی ہے اور کس ذمہ داری کے لئے معاون ہے ۔

عورت کے مقابلے میں نگرانی کیلئے مرد کی افضلیت کے اپنے اسباب ہیں ‘ جو صلاحیت اور تجربے کے حوالے سے ہیں اور نگرانی کے ان تمام اسباب کو لے کر ذمہ داریاں ادا ہوں گی ۔ اس لئے کہ کوئی ادارہ بھی منیجر اور نگران کے بغیر نہیں چل سکتا یعنی وہ تمام ادارے جو خاندان کے ادارے کے مقابلے میں بہت کم اہم اور بہت کم قدر و قیمت کے حامل ہیں پھر مزید یہ کہ انسانیت کا ایک حصہ بعض خاص ڈیوٹیوں کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔ از روئے فطرت ان ڈیوٹیوں کی ادائیگی اس کے لئے سہل ہے اسی لئے یہ ڈیوٹیاں اس پر عائد کی گئی ہیں۔ اور انسانیت کا دوسرا حصہ از روئے فطرت ان کے لئے تیار نہیں کیا گیا ۔ ان ڈیوٹیوں کی ادائیگی اس کے لئے سہل نہیں ہے اور اگر اس پر وہ ڈیوٹیاں عائد کردی جائیں تو یہ اس پر صریح ظلم ہوگا ۔ لیکن اگر اسے ان فرائض کی ادائیگی کے لئے تیار بھی کیا جائے اسے ان کی ٹریننگ بھی دی جائے ‘ علمی اور عملی تربیت بھی دی جائے پھر وہ انہیں سرانجام بھی دے پائے تو اس سے اس کی وہ صلاحیت بری طرح متاثر ہوگی جسکے لئے اسے پیدا اور تیار کیا گیا ہے ۔ مثلا عورت کے حوالے اس کے مادرانہ ذمہ داریاں ۔ یعنی اگر عورت پر دوسری تمدنی ذمہ داریاں عائد کردی جائیں تو وہ مادرانہ فرائض کی ادائیگی کے قابل نہ رہے گی جو اس کی فطرت کا تقاضا ہیں اور جس کی اصل استعداد ہے سرعت انفعال اور سرعت قبولیت ۔ یہ عورت کی فطرت کے اندر مرکوز ہیں ۔ اس پر مزید یہ کہ عورت کی عضویاتی اور اعصابی ساخت کے اندر مادرانہ صلاحیتیں رکھی گئی ہیں اور ان کے اثرات عورت کے طرز عمل اور اس کی طرف سے بچے کی ضروریات کے لئے تڑپ رکھنے کا جذبہ وغیرہ ۔

یہ نہایت ہی اہم مسائل ہیں اس قدر اہم کہ ان کے بارے میں ٹھوس فیصلہ صرف انسانی خواہشات کے زوایے سے نہیں کیا جاسکتا اور یہ اس قدر خطرناک ہیں کہ ان کے جوابات محض تیر تکے چلانے سے نہیں دیئے جاسکتے ۔ جب قدیم اور جدید جاہلیتوں نے ان اہم مسائل کے فیصلے انسان کی گھٹیا خواہشات کے زاویے سے کئے تو انہوں نے انسان کے وجود تک کو خطرے میں ڈال دیا ۔ انسان کے اندر انسانی خصائص کا باقی رہنا مشکل ہوگیا ‘ جن انسانی خصائص پر انسان کی زندگی قائم ہے اور جن سے اسے امتیازی شان ملی ہے ۔

اس پر ایک دلیل تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ لوگ اس حقیقت کا انکار کردیں اسے ترک کردیں اور اسے بالکل انوکھا سمجھنے لگیں ‘ انسان کے وجود کے اندر ان قوانین فطرت کو مکمل کنڑول حاصل ہے اور انسانی فطرت اس کی طرف واضح اشارات کرتی ہے ۔

پھر یہ بھی ایک دلیل ہے کہ جب بھی انسانیت نے اس اصول کی خلاف ورزی کی ہے ‘ اس کی وجہ سے انسانی زندگی کے اندر بےچینی ‘ فساد اور اخلاقی گراوٹ پیدا ہوئی ہے اور انسانی زندگی سخت خلفشار سے دو چار ہوئی ہے ۔ خاندان کے اندر نظم ونسق تباہ ہوا ہے ۔ انسانی زندگی کے نشانات اور امتیازات ختم ہوگئے ہیں اور وہ اپنے فطری اور اصلی مقام سے ہٹ گئی ہے ۔

اس پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خود عورت کی یہ نفسیاتی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اوپر کوئی مرد قوام اور حکمران ہو اس لئے کہ خاندان کے اندر مرد کی حاکمیت اور برتری ایک فطری امر ہے ۔ اگر عورت کو مرد کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو محروم ‘ ناقص اور بدحال سمجھتی ہے ۔ یہ صورت حال اس وقت مشاہدے میں آتی ہے جب وہ کسی ایسے مرد کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہو جس کے اندر سرپرستی اور قوام ہونے کی صلاحیت نہ ہو اور وہ یہ حیثیت عورت کے سپرد کر دے ۔ دور جدید کی گم کردہ راہ اور بےراہ رو عورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ عورت کی فطرت میں ہے کہ اس کا کوئی سرپرست اور حاکم ہو ۔

مزید یہ دلیل بھی ہے کہ ایسا خاندانی ادارہ جس میں باپ کی قوامیت نہ ہو ‘ اس خاندان کے اندر بچوں کی پرورش صحیح نہیں ہوتی ۔ مثلا اس صورت میں کہ مرد کی شخصیت کمزور ہو اور بچوں پر والدہ کی شخصیت چھا جائے ۔ یا ایسی صورتوں میں جہاں باپ موجود ہی نہ ہو ‘ فوت ہوچکا ہو یا ایسے خاندان جن میں اولاد کا کوئی قانونی سرپرست اور باپ ہوتا ہی نہیں ۔ ایسے خاندانوں میں بچے بداخلاق اور ناقص شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ انحراف اور بےراہ روی سے بچ نکلیں ۔ نیز ایسے بچے اعصابی اور نفسیاتی اعتبار سے اور اخلاقی اور عملی اعتبار سے کامل شخصیت کے مالک ہر گز نہیں ہوتے ۔

مرد کی نگرانی اور سرپرستی کے جواز پر یہ بعض اہم دلائل ہیں جن کی طرف خود انسانی فطرت ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ مرد کی فطرت کے اندر یہ سرپرستی موجود ہوتی ہے اور انسان کے اندر اس کے اصول وقواعد پوری قوت کے ساتھ جاری ہیں ۔ اگرچہ لوگ انکار کریں ‘ اسے ترک کردیں اور اسے انوکھا سمجھیں ۔

اس سے زیادہ مرد کی قوامیت پر یہاں بحث ممکن نہیں ہے ۔ یہاں مرد کی سرپرستی ‘ نگرانی اس کے جواز اور اس کی معاشرتی ضرورت اور فطری تقاضوں پر اتنی ہی بحث کافی ہے ۔ لیکن یہاں ہمارے لئے اس قدر کہنا مناسب ہے کہ مرد کی اس قوامیت اور نگرانی کا معنی یہ نہیں ہیں کہ کسی خاندان یا معاشرے کے اندر عورت کی شخصیت کی نفی کردی جائے ۔ نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی شہری حیثیت کو ختم کیا جا رہا ہے جیسا کہ اس سے قبل ہم کہہ آئے ہیں بلکہ مرد کی یہ نگرانی خاندانی نظام کے اندر اس کی ایک ذمہ داری ہے ‘ جو اس اہم ادارے کے چلانے اس کی حفاظت اور اس کے بچاؤ کے لئے اس پر عائد کی گئی ہے ۔ یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ کسی ادارے کا نگران مقرر کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ اس ادارے کے وجود کو ختم نہ کرے گا ۔ اس کے کسی رکن کی شخصیت کو ختم نہ کرے گا ‘ نہ اس ادارے کے شرکاء کے حقوق تلف کرے گا اور نہ اس ادارے میں کام کرنے والوں کے فرائض کو ختم کرے گا ۔ دوسرے مقامات پر اسلام نے مرد کی نگرانی کی حدودوقیود کو اچھی طرح بیان کیا ہے ۔ اس پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ نہایت ہی نرمی اور نہایت ہی شفقت اور رحمت کے ساتھ اس فرض کر ادا کرے گا ۔ نیز دوسرے مقامات پر مرد کے مالی اور جانی فرائض بھی بیان کئے گئے ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بیوی اور بچوں کے ساتھ مرد کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے ؟ (اس موضوع پر مزید وضاحت کے لئے درج ذیل مراجع زیر نظر رہیں ۔ نحو مجتمع اسلامی کی فصل معاشرہ اور خاندان ۔۔۔۔۔ فصل ” عورت اور زوجین کے باہم تعلقات “ از کتاب اسلام اور مشکلات تہذیب ‘ کتاب پردہ از مولانا مودودی (رح) کتاب ” خاندان اور معاشرہ “ اور کتاب حق الانسان از عبد الواحد وافی ۔ انسان ‘ مادیت اور اسلام کے درمیان ۔ مصنفہ محمد قطب وغیرہ)

مرد کے حقوق اور فرائض کے بیان کے بعد اور اس عام نگرانی کے حوالے سے اس پر عائد شدہ پابندیوں اور اس کے فرائض کے بیان کے بعد ‘ اب صالح اور مومن عورت کی صفات کا بیان ہوتا ہے اور خاندان کے دائرے کے اندر اس کے طرز عمل خصوصا اس کے ایمانی طرز عمل کا بیان شروع ہوتا ہے ۔

(آیت) ” فالصلحت قنتت حفظت للغیب بما حفظ اللہ (4 : 34) (پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں ‘ ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں)

مومنہ اور صالحہ عورت کا فطری مزاج اور اس کی لازمی خصلت یہ ہونی چاہیے کہ وہ اطاعت شعار ہو ‘ مطیع فرمان ہو اور یہ اس کے صاحب ایمان اور اس کے صالح ہونے کا عین تقاضا ہوتا ہے ۔ القنوت کے معنی ہوتے ہیں توجہ ‘ ارادہ ‘ رغبت اور دلی چاہت سے اطاعت کرنا ، جس میں کوئی جبر نہ ہو ‘ کوئی دباؤ نہ ہو ‘ اور جس میں کمزوری اور سستی نہ ہو ۔ اس لئے قرآن کریم نے قانتات کہا اور طائعات نہیں کہا ۔ اس لئے کہ پہلے لفظ کا مفہوم نفسیاتی ہے اور اس کے اوپر نرمی اور تازگی کا پر تو موجود ہے ۔ یہ لفظ میاں بیوی کے محبت بھرے پرائیویٹ اور پرسکون تعلق کے عین مناسب ہے ۔ ایک ایسے گہوارے کیلئے جس میں بچوں نے پرورش پانی ہے اور جس کی فضا جس کے سائے ‘ جس کے سانس اور جس کی تمام حرکات بچے کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔

ایک صالح اور مومن عورت کا یہ بھی مزاج ہوتا ہے اور یہ بھی اس کی لازمی صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کی عزت اور اس کے حقوق کی محافظ ہوتی ہے ۔ خاوند کی عدم موجودگی میں اس کے مقدس گھرانے کی حفاظت کرتی ہے اور یہ صفات بھی اس کے ایمان اور اس کی ذاتی اصلاح کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ جب ایک مومنہ عورت صالحہ مرد کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی محافظ ہوتی ہے تو اس کی موجودگی میں وہ بطریق اولی اس کی عزت کی محافظ ہوگی ۔ اس طرح وہ اپنی ذات کو کسی کی نظروں کا شکار ہونے بھی نہیں دیتی اور نہ ہی وہ اپنی عصمت اور عزت کو مٹاتی ہے ‘ جو کچھ بھی شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے جائز نہ ہو اس لئے کہ مرد و عورت دونوں ہی ایک ذات ہیں اور ایک ہی نفس سے دونوں کو پیدا کیا گیا ہے ۔

اور جو چیزیں شوہر کے سوا دوسروں کے لئے حرام ہیں ‘ اس کا فیصلہ نہ عورت کرسکتی ہے اور نہ مرد کرسکتا ہے ‘ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ۔ (آیت) ” بما حفظ اللہ “ (4 : 34) (اس چیز کی جس کی اللہ نے حفاظت کی ہے) یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے کہ مرد عورت کو اس کی ذات کے بارے میں کسی فعل کے ارتکاب کی اجازت دیتا ہے یا نہیں اس کی موجودگی میں یا اس کی پس پشت ۔ ایسے افعال جس پر مرد برا نہیں مناتا یا کوئی معاشرہ ایسے افعال کے ارتکاب کے لئے اس مرد یا اس عورت کو آمادہ کرتا ہے ۔ ایسے حالات میں جب معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو اور اسلامی نظام سے دور ہوچکا ہو۔

اس حفظ کے میدان میں ایک ہی حکم ہے ‘ وہ یہ کہ عورت پر فرض ہے کہ وہ اللہ کے حفظ کی حدود میں اپنی حفاظت کرے ۔ یہاں عورت کے حفظ ذات کے لئے قرآن کریم نے امر کا صیغہ استعمال نہیں کیا بلکہ ایسا انداز بیان اختیار کیا ہے جو صیغہ امر سے بھی زیادہ موکد ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حفاظت ان ذرائع کے ساتھ ہے جنکے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور یہ انداز حفاظت صالحات کے مزاج اور صلاح وتقوی کا عین تقاضا ہے ۔

یہاں آکر ذہنی طور پر شکست خوردہ مسلمان مردوں اور خواتین کے تمام حیلے اور بہانے کافور ہوجاتے ہیں ‘ جنہوں نے جدید بےراہ معاشرے کے دباؤ کے مقابلے میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے ۔ اور معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صالحات کے لئے حفظ ذات کی کیا حدود وقیود مقرر کی ہیں یعنی یہ کہ وہ نہایت ہی اطاعت شعاری اور دلی آمادگی سے مطیع فرماں ہوتی ہیں ۔

رہیں وہ عورتیں جو صالحات نہیں ہیں تو وہ سرکش ہیں ۔ (ناشزات کے معنی یہ ہیں کہ کوئی ” نشز “ پر کھڑا ہو ‘ یعنی اونچے مقام پر جو ہر طرف سے نظر آتا ہو) اس لفظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے نفسیاتی صورت حال کی حسی تعبیر کی ہے ۔ ناشز دراصل اپنی نافرمانی کو جائز سمجھتا ہے ‘ علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے ‘ اور سرکشی اختیار کرتا ہے ۔

اسلامی نظام زندگی اس وقت تک انتظار نہیں کرتا کہ عملا سرکشی کا ارتکاب ہوجائے ‘ نافرمانی اور بغاوت کے علم بلند ہوجائیں ‘ مرد کی نگرانی کا رعب اور ڈر ختم ہوجائے اور خاندان دو کیمپوں میں تقسیم ہوجائے ‘ اس لئے کہ اگر حالات اس مقام تک آپہنچیں تو پھر علاج کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا ۔ لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ سرکشی کا خطرہ محسوس ہوتے ہی اور اس کے خطرناک حد تک بڑھ جانے سے پہلے ہی اس کا تدارک کیا جائے ‘ کیونکہ سرکشی کے انجام میں اس اہم ادارے کی ٹوٹ وپھوٹ ہوتی ہے جس کے بعد معاشرے کا امن اور سکون تباہ ہوتا ہے پھر اس ادارے کے ختم ہونے کے ساتھ ہی نئی نسل کی تربیت اور تیاری کا کام بھی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ خاندان ہی نئی نسل کے لئے ایک بہترین گہوارہ ہوتا ہے ۔ اس ادارے کے باہر اگر کسی نسل کی تربیت ہوگی تو وہ نسل نفسیاتی امراض ‘ اعصابی امراض اور دوسرے جسمانی امراض کا شکار ہوگی اور نتیجتا ایک اخلاق باختہ نسل تیار ہوگی ۔

چناچہ خاندان کے بچاؤ کا معاملہ چونکہ بہت ہی اہم معاملہ ہے ‘ لہذا اس سلسلے میں جلد از جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ سرکشی کے آثار نمودار ہوتے ہی ان پر حملہ کیا جائے اسی لئے اس ادارے کو شر و فساد سے بچانے کی خاطر یا اسے بالکل تباہ ہونے سے بچانے کی خاطر اس ادارے کے ڈائریکٹر کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ بعض تادیبی اقدامات کرسکے جو اکثر اوقات نہایت ہی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ یہ اقدامات محض انتقام ‘ توہین یا جسمانی اذیت کے لئے نہیں روا رکھے گئے بلکہ یہ اصلاح اقدامات ہیں اور ابتدائی مراحل میں اصلاح کے لئے اور سرکشی کو ختم کرنے کے لئے ہیں۔

(آیت) ” والتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلا ان اللہ کان علیا کبیرا “۔ (4 : 34)

” اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو ‘ پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لئے بہانے تلاش نہ کرو ‘ یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے ۔

جیسا کہ اس سے قبل ہم کہہ آئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم بنایا ہے اور اس میں مرد وزن دونوں شامل ہیں عورت کو وہی انسان حقوق دیئے جو اس کی صفت انسانیت کے حوالے سے تھے اور ایک مسلمان عورت کو وہ تمام شہری اور قانون حقوق دیئے جو مرد کو دیئے گئے تھے ۔ نیز اگرچہ مرد کو اس کا نگران بنایا گیا ہے لیکن مرد کی نگرانی عورت کو اپنے شوہر کے انتخاب کے حق سے محروم نہیں کرتی ۔ اس سلسلے میں وہ مکمل طور پر خود مختار ہے ۔ نیز وہ اپنے مال اور دولت میں بھی ہر قسم کا تصرف کرسکتی ہے ۔ وہ تمام دوسرے اختیارات جو اسلامی نظام زندگی میں بنیادی عناصر ہیں اور بنیادی حقوق ہیں ‘ اسے حاصل ہیں۔

اگر یہ سب امور ہمارے ذہن نشنین رہیں اور پھر وہ بحث بھی ذہن میں مستحضر رہے جو ہم نے ادارہ خاندان کی اہمیت کے سلسلے میں سابقہ صفحات میں کی ہے ‘ تو ہمارے لئے یہ سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ شریعت نے عورت کی تادیب اور خاندان کے بچاؤ کے لئے یہ اقدامات کیوں جائز رکھے ہیں اور وہ طریق کار کیوں تجویز کیا ہے جس کے مطابق یہ تادیب کی جائے گی ‘ بشرطیکہ ہمارے دل خواہشات نفسانیہ کی پیروی میں فاسد نہ ہوگئے ہوں اور ہمارے دماغ کبر و غرور سے پھر نہ گئے ہوں ۔

یہ حقیقت ہے کہ شریعت اسلامی نے یہ اقدامات محض انسدادی تدابیر کے طور پر کئے ہیں ۔ یہ اقدامات اس لئے گئے جاتے ہیں کہ اداراہ خاندان کے اندر انتظامیہ کو امن وامان کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے اور انتظامیہ پہلے ہی نفوس کی اصلاح کر کے حالات کو درست کردیتی ہے تاکہ دلوں کا یہ فساد خطرناک صورت اختیار نہ کرلے اور میاں بیوی کے درمیان بغض اور نفرت زیادہ نہ ہوجائے اور دل ہی دل میں میاں بیوی کا تعلق ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم نہ ہوجائے ۔

خاندان کے اندر صرف مرد اور عورت کے درمیان معرکہ ہی نہیں ہوتا اور ان اقدامات سے یہ مقصود نہیں ہے کہ مرد اٹھے اور عورت کو کچل کر رکھ دے ‘ جب بھی وہ عورت کی جانب سے نافرمانی کا خطرہ محسوس کرے اسے خوب پیٹے اور اسے بھی واپس لاکر ایک کتے کی طرح زنجیر سے جکڑ دے ۔

اسلام میں ایسے طرز عمل کی اجازت ہر گز نہیں دی گئی ۔ اگرچہ انسانوں میں بعض خاندانوں کے اندر ایسی عادات پائی جاتی ہیں لیکن مرد و زن کے مابین ایسا سلوک اور ایسا تعلق محض اس لئے پیدا ہوا کہ پوری انسانیت نے اپنے اصل مقام کو چھوڑ دیا ۔ یہ اس لئے نہ تھا کہ مرد زن میں سے کوئی ایک غلطی پر تھا ۔ لیکن جب اسلامی معاشرہ صحیح طرح قائم ہوگا تو اس میں صورت حال بالکل مختلف ہوگی اور اس میں تادیب کے اغراض ومقاصد بھی مختلف ہوں گے ۔

(آیت) ” والتی تخافون نشوزھن) (4 : 34) ” اور عورتیں جن سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ “ اسلام میں یہ پہلا اقدام ہے کہ ایسی عورت کو سمجھانے کی کوشش کی جائے گی ۔ کسی خاندان کے سربراہ اور ڈائریکٹر کا یہ پہلا فریضہ ہے کہ وہ سمجھائے ۔ ہر حالت میں اس سے توقع یہ ہے کہ وہ نہایت ہی مہذب انداز میں بیوی کو سمجھائے گا ۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

(آیت) ” یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ “ ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ “

اپنے بچوں اور اہل و عیال کو بچانا تو ہر حال میں مطلوب ہے لیکن ایسے حالات میں جہاں نشوز کا خطرہ ہو وہاں اہل و عیال کو ایک متعین بیماری یعنی سرکشی سے بچانا مطلوب ہوتا ہے ‘ قبل اس کے کہ وہ حد سے تجاوز کرجائے ۔

لیکن بعض اوقات صرف وعظ بھی مفید نہیں ہوتا کبھی عورت پر ہوائے نفس غالب ہوتی ہے اور وہ خود سرتاثرات کی زد میں ہوتی ہے کبھی یوں ہوتا ہے کہ اسے اپنی خوبصورتی پر نازل ہوتا ہے کبھی اپنی دولتمندی کا گھمنڈ ہوتا ہے کبھی اپنے خاندانی مرتبہ کی وجہ سے وہ خاوند کو خاطر میں نہیں لاتی یا بعض دوسری اقدار واوصاف کی وجہ سے وہ تعلی کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور وہ اس بات کو بھول جاتی ہے کہ وہ ایک ادارے میں مرد کے ساتھ برابر کی ذمہ دار ہے ۔ وہ مرد کے مقابلے میں اس کے مقابل قوت آزمائی کے لئے نہیں آئی ہے اور نہ یہاں کوئی موقعہ افتخار اور تعلی کا ہے اس لئے یہاں اس کے خلاف ایک دوسرا اقدام تجویز ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ مرد عورت کی جاذبیت ‘ اس کی خوبصورتی اور تمام دوسری چیزوں کو جن پر وہ تعلی کرتی ہے ‘ روندتا چلا جائے اور نفسیاتی طور پر ثابت کر دے کہ وہ اس عورت سے برتر ہے ۔ اور یہ کہ وہ اس ادارے کا مدیر اور ڈائریکٹر ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ (آیت) ” واھجروھن فی المضاجع “۔ (4 : 34) (خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو) خواب گاہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں عورت اپنی فطری کشش کی وجہ سے مرد کو دھوکہ دیتی ہے ‘ جہاں عورت انتہائی علو شان کے ساتھ اپنا حکم منواتی ہے ۔ جب ایک مرد اپنی خواہشات پر قابو پا کر عورت کی اس فطری کشش کا مقابلہ کرلے تو وہ عورت کے موثر ترین ہتھیار کو کند کردیتا ہے جو ہتھیار وہ مرد کے خلاف استعمال کرتی ہے ۔ جب مرد اپنے اس موقف میں ڈٹ جاتا ہے اور اپنی شخصیت کی قوت کا اظہار کرتا ہے تو اکثر اوقات عورت ہتھیار ڈال دیتی ہے ‘ البتہ عورتوں کو خواب گاہ سے علیحدہ کرنے کے اپنے مخصوص قواعد اور آداب ہیں ۔ وہ یہ کہ خوابگاہ کے علاوہ عورت کے ساتھ دوسرے تعلقات بحال رہیں ۔ مرد صرف خوابگاہ میں اس سے علیحدہ رہے ۔ نیز بچوں پر میاں بیوی کے درمیان ہونے والی یہ کشیدگی ظاہر نہ ہو تاکہ ان پر نفسیاتی طور پر برے اثرات نہ پڑیں ۔ نیز غیر لوگوں کے سامنے کوئی جدائی یا کشیدگی نہ ہو ‘ جس کے نتیجے میں عورت کی تذلیل ہو یا اس کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ زیادہ سرکشی اختیار کرے کیونکہ مقصد تو یہ ہے کہ وہ سرکشی سے باز آجائے ۔ اصل مقصد عورت کی تذلیل نہیں ہے اور نہ بچوں کو خلجان کا شکار کر کے انہیں خراب کرنا مطلوب ہے ۔ اس دوسرے اقدام میں ان دونوں امور کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔

لیکن بعض اوقات یہ دوسرا اقدام بھی کامیاب نہیں رہتا ۔ تو پھر کی اب ادارہ خاندان کی تحلیل کردی جائے ۔ نہیں ایک کوشش مزید بھی ہے ۔ اگرچہ یہ آخری تدبیر قدرے سخت ہے لیکن ایک خاندان کی تحلیل اور بربادی کے مقابلے میں وہ بہت ہی آسان اور معمولی ہے ۔

(آیت) ” واضربوھن “ ” اور انہیں مارو “ اس سے پہلے ہم نے جو مطالب بیان کئے ہیں اور ان اقدامات کے جو اہداف سامنے رکھے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مار سے مقصود عورت کو سزا دینا نہیں ہے اور نہ اس سے انتقام لینا مطلوب ہے ‘ نہ محض غصے کو ٹھنڈا کرنا مطلوب ہے ‘ اور نہ اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ یہ مار محض تذلیل ‘ توہین اور تحقیر کیلئے ہو ۔ اور نہ اس سے مقصود یہ ہے کہ عورت کو ایک ایسے خاندان میں زندہ رہنے پر مجبور کیا جائے جس پر وہ کسی صورت میں بھی راضی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ مار محض اصلاح کی خاطر ہو اور اس مار کے اندر بھی مرد کی جانب سے ہمدردی اور محبت ہو ۔ مثلا جس طرح باپ اپنی اولاد کو مارتا ہے ‘ یا جس طرح استاد اپنے شاگردوں کو سزا دیتا ہے ۔

اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اگر ادارہ خاندان کے دونوں فریقوں کے درمیان مکمل یک جہتی ہو تو پھر اس مار کی ضرورت ہی کیا ہو سکتی ہے ۔ البتہ ان اقدامات کی ضرورت اس وقت لاحق ہو سکتی ہے جب خاندان کے اندر فساد اور توڑ پھوڑ کا خطرہ ہو اور یہ تب ہی ہوتا ہے جب کسی نہ کسی خرابی کا آغاز ہوگیا ہو اور اسے ان اقدامات کے ذریعے دور کرنا مطلوب ہو ۔

جب وعظ ونصیحت بھی کام نہ دے اور خواب گاہوں کے اندر تفریق بھی مفید نہ رہے تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ انحراف اور فساد خطرناک نوعیت اختیار کر گیا ہے اور خطرناک سطح تک پہنچ گیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں وسیلہ ضرب تادیبی کامیاب ہوجائے ۔

بعض عملی واقعات اور بعض نفسیاتی کیسوں سے معلوم ہوتا ہے اور ماہرین نفسیات اس بات کو مانتے ہیں کہ بعض اوقات عورت کی سرکشی کے لئے اسے تادیبی مار دینا ہی اس کے لئے مفید ہوتا ہے ۔ اس سے عورت کا نفسیاتی علاج ہوتا ہے اور وہ فورا راہ راست پر آجاتی ہے ۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت کو سرکشی کی ایک نفسیاتی بیماری لاحق ہوتی ہے اور علمائے نفسیات اسے ایک نام بھی دیتے ہیں ۔ لیکن علم النفس نے جو نتائج اب تک پیش کئے ہیں وہ علمی اور سائنسی نتائج نہیں ہیں کہ انہیں علمی لحاظ سے ثابت شدہ حتمی نتائج کہا جاسکے ‘ جیسا کہ ڈاکٹر الیکنیس کہتے ہیں ۔ البتہ اکثر اوقات ایسا ضرور ہوتا ہے کہ بعض عورتیں مرد کی قوت کی محسوس نہیں کرتیں جبکہ ان کا نفس یہ چاہتا ہے کہ جو مردان کا نگران اور خاوند ہو وہ قوی تر ہو اور وہ اسے تب تسلیم کرتی ہیں جب مرد جسمانی طور پر ایسی عورت کو قابو میں رکھے ۔ لیکن ہر عورت کا نہ یہ مزاج ہوتا ہے اور نہ ہی نفسیاتی خواہش ہوتی ہے ۔ البتہ عورتوں میں سے بعض ایسی ضرور ہوتی ہیں جو خاوند کی طرف سے جبر اور قہر کی طالب ہوتی ہیں اور یہ ضرب کا اقدام ایسے ہی کیسوں کے لئے تجویز کیا گیا ہے تاکہ خاندان جیسا اہم ادارہ صحیح طرح استواری کے ساتھ کام کرسکے ‘ امن و سکون کے ساتھ ۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

اردو ترجمہ

اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain khiftum shiqaqa baynihima faibAAathoo hakaman min ahlihi wahakaman min ahliha in yureeda islahan yuwaffiqi Allahu baynahuma inna Allaha kana AAaleeman khabeeran

(آیت) ” نمبر 35

اسلام یہ مشورہ نہیں دیتا کہ عورت کی جانب سے سرکشی شروع ہوتے ہی تم اس سرکشی اور نفرت کے سامنے ہتھیار ڈال دو اور نہ اسلام یہ مشورہ دیتا ہے کہ بس فورا معاہدہ نکاح کو ختم کر دو اور خاندان کی ہنڈیا ان لوگوں کے سر پر لا کر پھوڑ دو جن کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں ہے ‘ اس لئے اسلام اس کی اہمیت کی خاطر اسے از سر نو جدید اینٹوں کی مدد سے تعمیر کرتا ہے تاکہ وہ دوبارہ نشوونما حاصل کرسکے ۔

اب اسلامی نظام ادارہ نکاح کے ٹوٹنے کا خطرہ لاحق ہوتے ہیں اپنی آخری کوشش شروع کردیتا ہے ۔ حکم دیا جاتا ہے کہ ایک ثالث مرد کی مرضی کا مقرر ہو اور ایک ثالث عورت کی مرضی کا مقرر ہو اور وہ دونوں ان کے درمیان مصالحت کرانے کی سعی کریں ۔ یہ لوگ نہایت ہی ٹھنڈے ماحول میں جمع ہوں ۔ وہ اپنے ذاتی میلانات کو سامنے نہ رکھیں ‘ اپنے شعور اور احساس کے بوجھ سے الگ ہوجائیں اور معاشی حالات ومفادات کو نظر انداز کردیں ‘ جن کی وجہ سے زوجین کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ۔ یہ حکم ان حالات سے ہٹ کر سوچیں جن کی وجہ سے زندگی کے ماحول میں کدورت پیدا ہوئی یا جن کی وجہ سے فریقین کے درمیان پیچیدگی پیدا ہوئی اور جن کی وجہ سے زوجین کے درمیان مشترکہ زندگی کے اچھے عوامل غیر موثر ہوگئے ۔ ان ثالثوں کو کوشش کرنا چائیے کہ وہ زوجین کے دونوں خاندانوں کی شہرت اور عزت کا بھی خیال رکھیں اور زوجین کے چھوٹے بچے ہوں تو ان کے مستقبل کا بھی خیال رکھیں اور وہ اپنے دل سے یہ خواہش نکال دیں کہ ان میں سے کوئی فریق کامیاب رہتا ہے یا ناکام ۔ کیونکہ ایسے حالات میں زوجین میں سے ہر ایک اپنی بات منوانا اپنے لئے باعث عزت سمجھتا ہے ۔ بلکہ ان ثالثوں کو زوجین کے مفادات ‘ ان کے بچوں کے مفادات اور اس ادارے کے مفادات کا خیال رکھنا چاہئے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ زوجین کے رازوں کے بھی امین ہوں گے کیونکہ یہ دونوں حکم ‘ دونوں خاندانوں اور زوجین کے نمائندے ہوں گے ۔ فریقین کو یہ خوف نہ ہوگا کہ ان سے ان کے راز افشا ہوں گے اور نہ ہونا چاہئیں کیونکہ رازوں کی تشہیر میں دونوں کی مصلحت نہیں ہوتی بلکہ دونوں کی مصلحت تو اس میں ہوتی ہے کہ ان کے راز پس پردہ ہی رہیں۔

ان ثالثوں کا اجتماع زوجین کے درمیان اصلاح کی خاطر ہوگا بشرطیکہ زوجین کے درمیان اصلاح احوال کی حقیقی خواہش ہو اور یہ خواہش اصلاح محض غصے کے نیچے دب گئی ہو ۔ اگر ثالثوں کے دلوں میں حقیقی خواہش ہو اور وہ مخلص ہوں تو اللہ تعالیٰ زوجین کو اصلاح احوال کی توفیق دے دے گا ۔

(آیت) ” ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما “ (4 : 35) ” اگر وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا “۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ وہ صدق دل سے اصلاح چاہتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبولیت بخشتا ہے اور اصلاح کی توفیق دیتا ہے ۔

یہ ہے لوگوں کی سعی اور انکے دلوں کا رابطہ اللہ کی تقدیر اور اس کی مشیت کے ساتھ ۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی قضا ہی لوگوں کی زندگیوں میں موثر ہوتی ہے ۔ لیکن اللہ کی تقدیر نے لوگوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ ہو کوشش کریں اور اصلاح احوال کی سعی کریں ۔ ان کی اس کوشش کے جو نتائج نکلیں گے وہ اللہ کی تقدیر کے مطابق ہی ہوں گے ۔

جو نتائج بھی نکلیں گے وہ گہرے علم اور دور اندیشانہ مصلحت پر مبنی ہوں گے ۔ (آیت) ” ان اللہ کان علیما خبیرا “ (4 : 35) ” (اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے)

غرض اس سبق میں یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ اسلام زوجین کے درمیان اس تعلق کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ادارہ خاندان کو بہت ہی اہمیت دیتا ہے ۔ ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام انسانی زندگی کے اس پہلو کی تنظیم پر کس قدر زور دیتا ہے ۔ پھر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ابتدائی دور کی تحریک اسلامی میں زندگی کے اس پہلو کو بہتر سے بہتر کرنے میں کس قدر کوششیں کیں اور تحریک اسلامی کا ہاتھ پکڑ کر اسے جاہلیت کی گندگیوں سے نکالا ۔ اسے راہ ترقی پر ڈال کر بتدریج بلند ترین مقام اور مرتبہ تک اللہ کی ہدایات کے مطابق پہنچایا اس لئے کہ اللہ کی ہدایت کے سوا کوئی اور ہدایت انسان کے مفید مطلب نہیں ہے ۔

درس 33 ایک نظر میں :

اس سبق کے ابتدائی حصے اور پوری سورت کے موضوع ومضامنین کے درمیان کئی ربط ہیں۔ نیز اس سبق اور سابق درس کے مضامین کے درمیان بھی ربط پایا جاتا ہے ۔

اس سبق کے ذریعے اس مہم کا آغاز ہوا جس کو پیش نظر رکھ کر ‘ اسلامی معاشرے کی اجتماعی زندگی کی تنظیم کی گئی تھی اور اسے جاہلیت کی تمام آلائشوں سے پاک کرکے اس کے اندر جدید اسلامی خدوخال کو واضح اور مستحکم کرنے کا بیڑا اٹھایا گیا تھا ۔ اس مہم کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کو ان اہل کتاب کی سازشوں سے خبردار رکھا جائے جو یہودیوں کی صورت میں مدینہ کے اردگرد اپنے پورے شر اور سازشوں کے ساتھ پھیلے ہوئے تھے ‘ اور وہ ہر وقت اسلامی معاشرے کے خلاف اپنی سرگرمیوں میں مصروف تھے ۔ وہ رات دن اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ اس معاشرے کی تشکیل وتکمیل کی راہ میں ممکن حد تک رکاوٹیں پیدا کریں ۔ خصوصا وہ مسلمانوں کی اخلاقی قدروں سے بہت ہی خائف تھے اور ان کی سعی تھی کہ وہ اخلاقی کمال حاصل نہ کریں ۔ نیز وہ مسلمانوں کے اتحاد واتفاق اور باہم تعاون وتکافل سے بھی خائف تھے ‘ اس لئے کہ اخلاقی اقدار اور معاشرتی اتحاد وتکافل ہی کی سوسائٹی کی اصل قوت ہوا کرتے ہیں۔

یہ نیا سبق ‘ دراصل ایک نہی مہم ہے اور اس کا آغاز اس اساسی اصول سے ہوا ہے جس کے اوپر اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی ہے ‘ اور جس سے اسلامی نظام زندگی تشکیل پاتا ہے ۔ وہ اصول ہے خالص نظریہ توحید ۔ اسی اصول پر اسلامی نظام زندگی مبنی ہے ۔ اسلامی زندگی کا ہر پہلو اور اس کا ہر رخ اسی اصول سے پھوٹنے والی شاخ ہے ۔

اس سبق سے پہلے عائلی زندگی کی تنظیم پر متعدد پہلوؤں سے بات ہوچکی ہے ۔ اور اسی طرح اجتماعی زندگی کے معاملات بھی زیر بحث آچکے ہیں ۔ اس سے پہلے گزرنے والے سبق میں خاندانی زندگی ‘ اس کی تنظیم اور اس کے بچاؤ کی تدابیر کو زیر بحث لایا گیا تھا ۔ اور ان روابط سے بحث کی گئی تھی جو خاندان کو مستحکم اور مضبوط بناتے ہیں ۔ اب اس سے ذرا آگے بڑھ کر اس سبق میں پورے انسانی تعلقات اور روابط سے بحث کی گئی ہے ۔ یعنی وہ تعلقات جو اسلامی معاشرے میں خاندان کے محدود دائرے سے ذرا آگے بڑھ کر انسانی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں ۔ لیکن ان کا خاندانی نظام سے بھی تعلق ہوتا ہے ۔ مثلا آغاز ہوتا ہے والدین کے متعلق ہدایات سے جس کا تعلق خاندان سے بھی ہے ۔ والدین کے علاوہ پھر مزید روابط کو بیان کیا گیا ہے اور یہ روابط اس پاکیزہ محبت کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں جو خاندان کے اندر پائی جاتی ہے اور جس کے اثرات دوسرے انسانی روابط تک وسیع ہوجاتے ہیں ان خوشگوار روابط کا لطف انسان کو سب سے پہلے خود اپنے خاندان کے اندر آتا ہے ۔ یہاں وہ اچھے تعلقات رکھنا سیکھتا ہے ۔ یوں اس کے لئے یہ تعلقات ایک محدود خاندان سے وسیع انسانی خاندان تک پھیل جاتے ہیں جبکہ پہلے ان خوشگوار تعلقات کو خاندان کے اندر بویا جاتا ہے ۔

زیر بحث سبق میں بعض ہدایات تو محدود عائلی خاندان کے بارے میں ہیں اور بعض ہدایات ایک وسیع تر انسانی خاندان کے بارے میں ہیں ۔ اس زاوے سے اقدار اور پیمانوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے ۔ یعنی خرچ کرنے والوں کے کیا مراتب ہیں اور کنجوسوں کے کیا مراتب ہیں ؟ درس کا آغاز اس اساسی قاعدے سے ہوا جس پر تمام اقدار اور پیامنے مبنی ہیں جس طرح زندگی کی تمام تفصیلی ہدایات بھی اسی اساسی اصولی پر مبنی ہیں ۔ یعنی عقیدہ توحید ۔ مسلمانوں کی ہر حرکت اور ہر سرگرمی ‘ ان کا ہر تصور اور ہر تاثر عقیدہ توحید پر مبنی ہوتا ہے اور یہی اللہ کی بندگی ہے ۔ اس کا مقصود اللہ کی پرستش ہے ۔ انسان کی تمام سرگرمیوں کا منتہائے مقصود اللہ کی اطاعت اور بندگی ہے اور یک مسلم اپنے عقیدے اور عمل کے اعتبار سے اللہ کا بندہ ہوتا ہے ۔

چونکہ ہم نے اپنی پوری زندگی میں اللہ کی بندگی اور عبادت کرنی ہے ‘ اس نسبت سے اللہ کی مخصوص پرستش اور عبادت یعنی نماز اور طہارت کے سلسلے میں بعض احکام بھی بیان کئے گئے ۔ اور نماز چونکہ ایک مرحلہ تھی جس میں شراب کو حرام قرار دیا گیا تھا ‘ اس سے قبل نماز کی حالت میں بھی یہ ممکن تھا کہ کوئی شراب پئے ہوئے ہو ۔ اس لحاظ سے حکم دیا گیا کہ مدہوشی کی حالت میں نماز میں شریک نہ ہوا کرو ۔ یہ اسلام کے ہمہ گیر تربیتی اقدامات میں سے ایک اقدام تھا جو نماز کی مناسبت سے دیا گیا ۔ غرض اس سبق کی تمام کڑیاں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں ۔ درس سابق سے بھی تمام مضامین مناسبت رکھتے ہیں اور پھر اس سورة کے پورے محور کے ساتھ بھی متناسب ہیں۔

اردو ترجمہ

اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کر ے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaoAAbudoo Allaha wala tushrikoo bihi shayan wabialwalidayni ihsanan wabithee alqurba waalyatama waalmasakeeni waaljari thee alqurba waaljari aljunubi waalssahibi bialjanbi waibni alssabeeli wama malakat aymanukum inna Allaha la yuhibbu man kana mukhtalan fakhooran

(آیت) ” نمبر 36 تا 43۔

یہ پیرا گراف اس حکم سے شروع ہوتا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور یہ حکم واؤ کے ساتھ شروع ہوتا ہے جو حرف عطف ہے ۔ حرف عطف اس امر اور نہی کو سابقہ احکام کے ساتھ مربوط کردیتا ہے جو ادارہ خاندان کی تنظیم اور شیرازہ بندی سے متعلق ہیں اور جن کا ذکر سابقہ سبق کے آخر تک ہوا ۔ واؤ عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دین کا ایک ہی کلیہ اور اصول ہے اور وہی تمام امور کے درمیان رابطہ ہے یعنی پوری زندگی میں بندگی صرف اللہ کی کی جانی چاہئے اور یہ کہ اسلام صرف عقیدے اور چند نظریات کا نام نہیں ہے جو کسی انسان کے ضمیر میں پختہ طور پر بیٹھے ہوں نہ اسلام چند مراسم عبودیت کا نام ہے جو مسجد میں سرانجام دیئے جاتے ہوں اور نہ اسلام صرف دنیوی کاروبار کا نام ہے جس کا تعلق عقیدے اور رسوم پرستش سے بالکل نہ ہو ‘ بلکہ وہ ایک ایسا نظام ہے جس کے اندر یہ سب چیزیں موجود ہیں پھر اس کے تمام اجزاء بھی ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں اور پھر یہ سب اجزاء اپنے اصل الاصول یعنی نظریہ توحید کے ساتھ مربوط ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں میں صرف اللہ سے ہدایت حاصل کرنا اور اس کے سوا کسی سے کوئی ہدایت نہ لینا یعنی مراسم عبادت میں اللہ کو الہ و معبود سمجھنا اور اسی طرح حاکمیت اور قانون سازی میں بھی اسے الہ وحاکم سمجھنا یہ دونوں چیزیں نظریہ توحید میں شامل ہیں ۔ ان دونوں میں توحید اسلام کا جزء ہے اور یہی خدا کا دین ہے ۔

توحید کے حکم اور شرک کی نفی کے ساتھ ہی حکم دیا جاتا ہے کہ احسان کرو اور یہ حکم ایک خاندان کو بھی دیا جاتا ہے ۔ اور پورے انسانی خاندان یعنی معاشرے کو بھی دیا جاتا ہے ۔ بخل فخر اور تکبر کی مذمت کی جاتی ہے ‘ نیز لوگوں کو بخل پر آمادہ کرنے کی بھی مذمت کی جاتی ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ کے فضل کو چھپانا بھی ایک مذموم حرکت ہے۔ اللہ کا فضل عام ہے ‘ چاہے مالی فضل ہو یا اخلاقی اور دینی فضل ہو ۔ پھر شیطان کی اطاعت سے ڈرایا جاتا ہے ۔ اب روئے سخن آخرت کی طرف پھرجاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ دن نہایت ہی شرمندہ کرنے والا اور توہین آمیز ہوگا ۔ ان سب امور کو عقیدہ توحید سے مربوط کردیا جاتا ہے اور وہ مصدر ومنبع متعین کردیا جاتا ہے جس سے ان لوگوں نے ہدایت لینی ہے جو اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور وہ مصدر ہے بھی یکتا اس میں تعدد ممکن نہیں ہے ۔ ہدایت لینے کا ذریعہ بھی وہ ہے اور قانون ساز بھی وہ ہے ۔ اس کی حاکمیت میں بھی کوئی شریک نہیں ہے اور اس کی بندگی اور عبادت میں بھی کوئی شریک نہیں ہے ۔

(آیت) ” واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا وبذی القربی والیتمی والمسکین والجار ذی القربی والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم (4 : 36)

” اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ‘ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ‘ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ‘ اور پڑوسی رشتہ دار سے ‘ اجنبی ہمسایہ سے ‘ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضے میں ہوں ‘۔

اسلامی نظام حیات میں پرستش کے بارے میں ہدایات اور قانون سازی کے بارے میں ہدایات ایک ہی مرجع Sonrce سے اخذ ہوتی ہیں اور وہ ایک ہی محور کے اردگرد گھومتی ہیں ۔ یہ سب چیزیں ایمان باللہ سے اخذ ہوتی ہیں اور ایمان باللہ کا ارتکاز نقطہ توحید پر ہے اس لئے اسلام میں تمام ہدایات اور تمام تشریعات Law Making باہم جڑی ہوئی اور ہم آہنگ ہیں۔ اسلامی نظام میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کے ایک جزء کو دوسرے سے علیحدہ کردیا جائے ۔ اور اگر کوئی شخص اسلام کے کسی جزء کو اس کے نقطہ ارتکاز یعنی عقیدہ توحید سے علیحدہ کرکے سمجھنے کی سعی کرے گا تو اس کی سمجھ ناقص ہوگی ۔ اسی طرح عملی میدان میں بھی اسلام کے ایک جزئیہ پر عمل کرنے اور دوسری جزئیات کو ترک کرنے سے بھی اسلام پوری طرح نافذ اور قائم نہیں ہو سکتا اور نہ انسانی زندگی میں اس طرح کے جزئی اسلام کے ثمرات نکل سکتے ہیں ۔

اس کائنات ‘ زندگی اور انسانی تعلقات کے اساسی تصورات صرف ایمان باللہ کے سرچشمے سے پھوٹتے ہیں اور ان تصورات کے اوپر پھر طریقہ ہائے کار ‘ اقتصادی نظام ‘ سیاسی نظام ‘ اخلاقی نظام ‘ قانونی نظام اور عالمی روابط پر بھی اثر ہوتا ہے اور یہ تصورات ایک فرد کے ضمیر اور ایک معاشرے کی واقعی صورت حال کی کیفیات کا تعین بھی کرتے ہیں ۔ یہ تصورات معاملات دنیا کو عبادت میں منتقل کردیتے ہیں ۔ اگر یہ معاملات خدا و رسول کی اطاعت کرتے ہوئے سرانجام دیئے جائیں تو یہ عبادات کو معاملات کی اساس قرار دیتے ہوئے ان میں ضمیر کی پاکیزگی اور عمل کی صفائی پیدا کرتے ہیں اور آخر کار یہ تصورات زندگی کو ایک اکائی بنا دیتے ہیں جو اسلامی نظام حیات سے پھوٹتی ہے۔ اس میں ہدایات صرف رب واحد سے لی جاتی ہیں اور پوری زندگی دنیا اور آخرت میں اللہ کی طرف ہی لوٹتی ہے ۔

اسلامی نظریہ حیات اسلامی نظام حیات اور اللہ کے صحیح دین کی یہ خصوصیت کس بات سے معلوم ہوتی ہے ؟ یہ اس اصول سے معلوم ہوتی ہے کہ اس آیت میں والدین کے ساتھ احسان ‘ رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور تمام لوگوں کے ساتھ احسان کرنے کے احکام سے پہلے یہ کہا گیا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو ۔ اس کے بعد والدین کی رشتہ داری اور دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات کو ایک ہی لڑی میں پرویا گیا ہے اور دونوں امور کو اللہ کی توحید اور بندگی کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے جبکہ اس سے ماقبل درس کے خاتمے پر نظریہ توحید اور اللہ کی بندگی کو خاندان کے اندر باہم تعلقات کے لئے دستور بنایا گیا تھا ۔ اس درس میں نظریہ توحید اور اللہ کی بندگی کو تمام انسانوں کے درمیان تعلقات کے لئے اساس بنایا گیا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے تاکہ ان تمام امور میں یہ نظریہ مستحکم ہو اور رابطہ بن جائے اور تمام معاشرتی روابط اور قانون سازی کا مصدر ایک ہوجائے ۔

(واعبدواللہ ولا تشرکوا بہ شیئا ) (4 : 36) ’ ؓ اجمعین اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو “۔۔۔۔ ۔۔ پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کرو اور دوسرا حکم یہ ہے کہ اللہ کی بندگی میں اللہ کے سوا کسی اور کو شریک نہ کرو ۔ یہ قطعی اور عمومی ممانعت ہے اور اس کا اطلاق ان تمام معبودوں پر ہوتا ہے جو انسانی تاریخ میں ریکارڈ ہیں ۔ (اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ) کسی بھی چیز کو ‘ چاہے وہ مادہ اور جمادات سے ہو ‘ حیوان ہو ‘ انسان ہو ‘ فرشتہ ہو اور یا شیطان ہو ۔ یہ تمام چیزیں (شئی) کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ جب اس کا استعمال اس طرز پر ہو ۔

اس کے بعد حکم دیا جاتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرو ۔ والدین کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے اور اقرباء کا ذکر عموما کیا گیا ہے ۔ زیادہ احکام اس بارے میں ہیں کہ اولاد اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ اگرچہ والدین کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ چھوٹے بچوں پر ہر حال میں ان کے ماں باپ سے بھی زیادہ رحم فرمانے والے ہیں ۔ اولاد اس بات کی زیادہ محتاج ہے کہ اسے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے ہدایت کی جائے ‘ اس لئے کہ والدین اس دنیا سے جانے والے ہیں۔ ایک ایسی نسل سے ان کا تعلق ہوتا ہے جو پس پشت اور پس کی منظر میں جارہی ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اولاد بالعموم اپنی شخصیت ‘ اپنے جذبات ‘ اپنے رجحانات اور اپنے اہتمامات کے اعتبار سے ان بچوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو ان کے بعد میں آنے والے ہوتے ہیں ۔ وہ اس نسل کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جو اس سے قبل گزر رہی ہے ۔ زندگی کی دوڑ میں ان لوگوں کا رخ آگے کی طرف ہوتا ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھنے میں وہ غفلت کرتے ہیں ۔ اس لئے اس اللہ رحمن ورحیم سے انہیں یہ ہدایات ملتی ہیں جو والدین کو بھی ہدایات دیتے ہیں اور بچوں کے لئے بھی ہدایات دیتے ہیں ۔ نہ اولاد کو بھلاتے ہیں اور نہ والدین کو بھلاتے ہیں اور جو اپنے بندوں کو یہ ہدایت دیتا ہیں کہ وہ آپس میں نہایت ہی مہربانی سے پیش آئیں خواہ والدین ہوں یا اولاد ہوں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے جیسا کہ دوسری متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نیکی کے سلسلے میں یوں ہدایات دیتا ہے کہ نیکی کا آغاز اپنے خاص اور عام رشتہ داروں سے کیا جائے اور اس کے بعد اس کا دائرہ بتدریج وسیع کیا جائے اور اسے ان تمام محتاجوں تک پھیلایا جائے جن کا تعلق وسیع تر انسانی خاندان کے ساتھ ہے ۔ یہ حکم انسانی فطرت کے مطابق اور انسانی فطرت کی سمت پرچلنے والا حکم ہے ۔ اس لئے کہ رحم ‘ دکھ اور درد میں شرکت کے جذبات سب سے پہلے گھر سے شروع ہوتے ہیں ‘ جو ایک چھوٹا خاندان ہوتا ہے ۔ جس شخص نے گھر کے اندر نیکی ‘ رحم اور محبت نہیں سیکھی یا اس کا تجربہ نہیں کیا اس سے ایسے جذبات کی توقع کسی غیر کے حق میں ہر گز نہیں کی جاسکتی ۔ طبیعت اور فطرت کے اعتبار سے بھی نفس انسانی اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ اس جذبے میں کوئی برائی اور حرج نہیں ہے بشرطیکہ یہ جذبہ خیر خاندان کے محدود دائرے اور متعین نقطے سے آگے بھی بڑھے اس کے بعد پھر یہ منہاج اسلام کی اجتماعی تنظیم کے ساتھ متفق ہے کہ باہم تعاون اور کفالت کا نظام گھر سے شروع کیا جائے اور پھر اسے جماعت اور سوسائٹی کے دائرے تک پھیلایا جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اپنے سوشل سیکورٹی کے نظام کو حکومت کے وسیع نظام کے ہاتھ میں دینا نہیں چاہتا ‘ الا یہ کہ گھر یا گاؤں کے لوگ ناکام ہوجائیں اس لئے کہ مقامی انتظام زیادہ موثر ہو سکتا ہے ۔ مقامی انجمن بہ نسبت حکومت کے غریبوں کے بارے میں سہولت کے ساتھ تحقیقات کرسکتی ہے اور بروقت امداد نہایت سہولت اور آسانی کے ساتھ مستحقین تک پہنچا سکتی ہے ۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے اندر محبت اور باہم رابطہ بھی پیدا ہوتا ہے جو ایک انسانی سوسائٹی کے لئے ضروری ہے ۔

یہاں بات کا آغاز اس طرح ہوا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرو ‘ اس کے بعد اسے رشتہ داروں تک وسعت دی گئی ہے ۔ اس کے بعد پھر یتیموں اور مسکینوں کا ذکر ہے چاہے یہ یتیم اور مساکین دور رہتے ہیں اس لئے کہ انکی ضرورت بھی زیادہ اہم ہوتی ہے اور ان کا خیال رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ اس کے بعد قریبی پڑوسی ‘ پھر اجنبی پڑوسی ‘ اس کے بعد پہلو میں رہنے والے ساتھی ‘ اس لئے کہ قرابت دار پڑوسی ہمیشہ ملتا ہے جبکہ پہلو میں رہنے والے ساتھی کبھی کبھار ملتے ہیں ۔ صاحب بالجنب کی تفسیر میں آیا ہے کہ اس سے مراد وہ دوست اور ہمنشین ہے جو ساتھ رہتا ہو۔ حضر اور سفر دونوں میں۔ پھر وہ مسافر جو اپنے اہل و عیال سے دور ہو اور پھر ان غلاموں کا حق ہے جنہیں حالات نے غلام بنا دیا ہے لیکن ہیں تو وہ بہرحال انسان ۔

احسان کے حکم کے بعد ‘ دوسرا حکم یہ آتا ہے ۔ فخر و غرور بری خصلت ہے ۔ بخل اور دعوت بخل اور اللہ کی نعمت اور فضل کو چھپانا یہ بری خصلتیں ہیں ۔ اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ میں ریاکاری کی بھی ممانعت کی گئی اور بتایا گیا کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں درحقیقت انکا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ۔ اور وہ شیطان کے مطیع اور ہمنشین ہیں ۔

(آیت) ” ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا (36) الذین یبخلون ویامرون بالبخل ویکتمون ما اتھم اللہ من فضلہ واعتدنا للکفرین عذابا مھینا (37) والذین ینفقون اموالھم رئاء الناس ولا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر ومن یکن الشیطن لہ قرینا فسآء قرینا (38) (4 : 36 تا 38)

” یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے ۔ ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ‘ ایسے کافر نعمت لوگوں کے لئے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔ اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخر پر ‘ سچ تو یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی ۔ “

یہاں آکر دوبارہ اسلامی نظام حیات کی یہ خصوصیت ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس میں تمام معاملات ‘ تمام طرز ہائے عمل ‘ عقل و شعور کے تمام رجحانات اور سوسائٹی کے اندر پائے جانے والے تمام تعلقات کا ربط عقیدے اور تصور حیات کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جب انسان صرف اللہ کا بندہ بن جاتا ہے اور تمام ہدایات اللہ سے لیتا ہے تو وہ لوگوں پر احسان کرنا خود بخود شروع کردیتا ہے ‘ اللہ کی رضا کے حصول اور آخرت کے اجر کی امیدواری کے لئے ۔ وہ یہ کام نہایت ہی عاجزی ‘ نہایت ہی نرمی کے ساتھ کرتا ہے اور یہ مانتے ہوئے کرتا ہے کہ وہ جو کچھ دے رہا ہے وہ اللہ ہی کے دیئے سے عاجزی ‘ نہایت ہی نرمی کے ساتھ کرتا ہے اور یہ مانتے ہوئے کرتا ہے کہ وہ جو کچھ دے رہا ہے وہ اللہ ہی کے دیئے سے دے رہا ہے وہ کود اپنے رزق اور مال و دولت کا خالق نہیں ہے ۔ اسے تو اللہ کے ہاں سے سب کچھ ملتا ہے ۔ اور اللہ کے انکار اور یوم آخرت سے انکار کے نتیجے میں فخر اور غرور پیدا ہوتا ہے اور بخل اور دعوت بخل پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اللہ کے فضل کو چھپایا جاتا ہے کہ اس کے آثار بصورت داد ودہش ظاہر نہ ہوں اور اگر انفاق ہو بھی تو وہ ریاکاری کے لئے ہوتا ہے اور اس کے بعد لوگوں کے سامنے فخر ومباہات کا اظہار ہوتا ہے اس لئے کہ ایسے شخص کے سامنے نہ رضائے الہی ہوتی ہے اور نہ جزائے آخر کی امیدواری پس لوگوں کے سامنے فخر اور غرور کا اظہار مطلوب ہوتا ہے ۔

اس طرح ایمانی اخلاقیات اور کفر کی اخلاقیات کے حدود کا تعین بسہولت ہوجاتا ہے ۔ مومنین کے نزدیک اچھے اعمال اور اچھے اخلاق کا باعث ایمان باللہ اور جزائے آخرت ہوتے ہی ۔ اور اللہ کی رضا مندی کے حصول پر آنکھیں لگی ہوتی ہیں اور یہ ایک ایسا بلند داعیہ ہوتا ہے کہ انفاق کرنے والا لوگوں سے کسی بدلے کا منتظر نہیں ہوتا ‘ اور نہ وہ عمل لوگوں کے عرف و رواج سے سیکھتا ہے ۔ اگر کسی کے دل میں ایک خدا کا یقین نہ ہو جس کی رضا مندی وہ چاہتا ہو اور اس رضا مندی کے حصول کے لئے وہ جدوجہد کر رہا ہو اور اسی طرح یوم آخرت کا عقیدہ اور جزائے آخرت کا کوئی لالچ نہ ہو ‘ تو ایسے لوگ اگر نیکی کا کوئی کام کرتے بھی ہیں تو وہ رسم و رواج کے مطابق دنیاوی اقدار کے لئے کرتے ہیں ۔ ایسے شخص کے لئے پھر کسی نسل میں بھی کوئی ایک ضابطہ نہیں ہوتا چہ جائیکہ اس کے لئے ہر زمان ومکان میں کوئی ناقابل تغیر ضابطہ ہو ‘ اس کے لئے پھر نیکی کرنے کا داعیہ وہی باتیں ہوں گی جن کا ذکر ہوا یعنی فخر ومباہات اور یہ داعیہ بھی ہمیشہ غیر مستقل اور غیر یقینی ہوگا اور لوگوں کی اقدار اور ان کی اغراض کے ساتھ ساتھ تغیر پذیر ہوگا اور ہمیشہ یہ مذموم صفات انفاق کے ساتھ پیوسہ رہیں گی ۔ فخر ‘ غرور ‘ بخل اور بخل کی دعوت لوگوں کو دکھاوا کبھی بھی انفاق فی سبیل اللہ اخلاص اور بےلوثی سے نہ ہوگا ۔

قرآن کریم کہتا ہے اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کراہیت اور محبت کے انفعالات سے پاک ہے اس لئے ان الفاظ سے مراد یہاں کراہیت اور محبت کے اثرات ہیں ۔ یعنی اللہ ان کو دھتکارے گا ‘ اذیت دے گا اور انہیں ان کاموں پر سزا دی جائے گی ۔ (آیت) ” واعتدنا للکفرین عذابا مھینا “۔ (4 : 38) (اور ایسے کافروں کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے) یہاں فخر و غرور پر ان کے لئے رسوا کن عذاب دیئے جانے کا ذکر ہے جو ان اوصاف بد کے مقابل ہے ۔ قرآن کریم کا انداز تعبیر ایسا ہے کہ وہ معنائے مقصود کے علاوہ بھی اپنا پر تو ڈالتا ہے۔ اور قرآن کے یہ اشارات بھی بذات خود مقصود ومطلوب ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے زیر بحث اوصاف بد اور افعال مکروہیہ کے خلاف کراہیت اور نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ان چیزوں کو حقیر سمجھ کر انسان ان سے دور رہتا ہے ۔ خصوصا اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس قسم کے لوگ شیطان کے ساتھی ہیں اور جن لوگوں کا ساتھی شیطان ہوجائے تو سمجھ لیں کہ وہ بہت ہی برا ساتھی ہے ۔ (آیت) ” ومن یکن الشیطن لہ قرینا فسآء قرینا “۔ (4 : 38) بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ آیات مدینہ کے بعض یہودیوں کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کیونکہ ان میں جو صفات مذکورہ ہیں وہ یہودیوں پر پوری طرح منطبق ہوتی ہیں ‘ جیسا کہ وہ منافقین پر منطبق ہوتی ہیں ۔ جس دور میں یہ آیات نازل ہوئیں اس دور میں اللہ نے ان پر جو فضل وکرم کیا تھا ‘ وہ اسے چھپاتے تھے ۔ نیز اس سے مراد یہ بھی ‘ ہو سکتا ہے کہ وہ سچائی ہو جو انہیں دی گئی تھی انہوں نے اسے چھپا لیا تھا ۔ یعنی حضور اکرم ﷺ کی رسالت اور دین اسلام کے بارے میں جو پیشن گوئیاں ان کے ہاں تھیں ۔ لیکن آیت کی عبارت عام ہے اور بات یہاں مال اور فعل کے ذریعے احسان کی ہو رہی ہے ‘ لہذا مناسب ہے کہ آیت کے مفہوم کو عام ہی رہنے دیا جائے کیونکہ سیاق کلام کے ساتھ اس آیت کا عام مفہوم ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔

جب ان لوگوں کے نفوس کا سرچاک ہوا ‘ جب ان لوگوں کے عمل کی فضیحت ظاہر ہوگئی اور ان کے اسباب یعنی انکار خدا ‘ انکار آخرت اور شیطان کی ہم نشینی اور اس کا اتباع بھی بیان کردیئے گئے اور اس کے بعد یہ بھی بتا دیا گیا کہ ان برائیوں کی سزا توہین آمیز عذاب ہے ‘ تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ استفہام انکاری کے انداز پوچھتے ہین۔

اردو ترجمہ

اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ایسے کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yabkhaloona wayamuroona alnnasa bialbukhli wayaktumoona ma atahumu Allahu min fadlihi waaAAtadna lilkafireena AAathaban muheenan
84