سورہ نساء: آیت 25 - ومن لم يستطع منكم طولا... - اردو

آیت 25 کی تفسیر, سورہ نساء

وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ ٱلْمُحْصَنَٰتِ ٱلْمُؤْمِنَٰتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُم مِّن فَتَيَٰتِكُمُ ٱلْمُؤْمِنَٰتِ ۚ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَٰنِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّنۢ بَعْضٍ ۚ فَٱنكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَءَاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ مُحْصَنَٰتٍ غَيْرَ مُسَٰفِحَٰتٍ وَلَا مُتَّخِذَٰتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَآ أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَٰحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى ٱلْمُحْصَنَٰتِ مِنَ ٱلْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِىَ ٱلْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا۟ خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

اردو ترجمہ

اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محصنات) سے نکاح کر سکے اسے چاہیے کہ تمہاری اُن لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو، لہٰذا اُن کے سرپرستوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور معروف طریقہ سے اُن کے مہر ادا کر دو، تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ (محصنات) ہو کر رہیں، آزاد شہوت رانی کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں پھر جب وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اُس سز ا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں (محصنات) کے لیے مقرر ہے یہ سہولت تم میں سے اُن لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بند تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman lam yastatiAA minkum tawlan an yankiha almuhsanati almuminati famin ma malakat aymanukum min fatayatikumu almuminati waAllahu aAAlamu bieemanikum baAAdukum min baAAdin fainkihoohunna biithni ahlihinna waatoohunna ojoorahunna bialmaAAroofi muhsanatin ghayra masafihatin wala muttakhithati akhdanin faitha ohsinna fain atayna bifahishatin faAAalayhinna nisfu ma AAala almuhsanati mina alAAathabi thalika liman khashiya alAAanata minkum waan tasbiroo khayrun lakum waAllahu ghafoorun raheemun

آیت 25 کی تفسیر

(آیت) ” ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنت المومنت فمن ما ملکت ایمانکم من فتیتکم المومنت واللہ اعلم بایمانکم بعضکم من بعض فانکحوھن باذن اھلھن واتوھن اجورھن بالمعروف محصنت غیر مسفحت ولا متخذت اخدان فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ما علی المحصنت من العذاب ذالک لم خشی العنت منکم وان تصبروا خیرلکم واللہ غفور رحیم “۔ (4 : 25)

” اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محصنات) سے نکاح کرسکے ‘ اسے چاہیے کہ تمہاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں ۔ اللہ تمہارے ایمان کا حال خوب جانتا ہے ‘ تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو ‘ لہذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرلو اور معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کر دو ‘ تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ (محصنات) ہو کر رہیں ‘ نہ آزاد شہوت رانی کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں ، پھر جب وہ حصار نکاح میں محفوظ ہوجائیں اور اس کے بعد کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو ان عورتوں (محصنات) کے لئے مقرر ہے ۔ یہ سہولت تم میں سے ان لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بند تقوی کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو ۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے “۔

اسلامی نظام زندگی ‘ انسان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا ہے ‘ جو اس کے فطری حدود کے اندر ہو ‘ اس کی وسعت اور طاقت کے مطابق ہو ‘ اس کی واقعی صورت حال کے متناسب ہو ‘ اور اس کی حقیقی ضروریات اور حاجات سے ہم آہنگ ہو ۔ اسلام کسی گمراہ انسان کو ہاتھ سے پکڑ کر گمراہی کے گڑھوں سے نکالتا ہے اور اسے اسلامی نظام حیات کی رفعت اور بلندی عطا کرتا ہے اور اس پورے عمل میں وہ اس کی فطرت اس کی قوت اس کے واقعی حالات ‘ اور اس کی حقیقی ضروریات کو ہر حال میں پیش نظر رکھتا ہے ۔ بلکہ وہ ان تمام دواعی کے تقاضے بھی پورے کرتا ہے اور اسے تدریج کے ساتھ ساتھ مقام بلند تک بھی لے جاتا ہے ۔ البتہ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ اسلام جاہلیت کی صورت کو کسی حالت میں بھی ایسی صورت حال تسلیم نہیں کرتا جس کے سوا چارہ کار ہی نہ ہو ‘ اس لئے کہ جاہلیت تو نام ہی گراوٹ کا ہے اور یہ انسان کو بھی گراتی ہے جبکہ اسلام کا مقصد وجود ہی یہ ہے کہ وہ اس گراوٹ سے انسانیت کو اٹھا کر مقام بلند تک لے جائے ۔ ہاں اسلام انسان کی فطرت اور حقیقت کا اعتبار کرتے ہوئے واقعیت پسند ضرور ہے ۔ اور حقیقت واقعہ یہ ہے کہ انسان بلندی اور برتری کے مقام تک چڑھنے کی قدرت بھی رکھتا ہے اور فطری داعیہ بھی ۔ واقعیت پسندی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر انسان جاہلیت کی گندگی کے اندر لت پت ہے تو اسے ایسا ہی رہنے دیا جائے ۔ (چاہے وہ کوئی جاہلیت بھی ہو) بلکہ واقعیت یہ ہے کہ انسان کی قدرت ووسعت میں یہ بات ہے کہ سربلندی حاصل کرے اور ترقی کرے اور اس کا فطری داعیہ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ انسان کے واقعات سے اچھی طرح باخبر ہے کیونکہ وہ انسان کا خالق ہے ‘ اور اس کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے ۔

اللہ ہی وہ ذات ہے جو ان تمام باتوں کو جانتا ہے جو انسانوں کے دلوں میں کھٹکتی ہیں ۔ (آیت) ” الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر “۔ (67 : 14) ” کیا وہ ذات نہیں جانتی جس نے پیدا کیا اور حال یہ ہے کہ وہ نہایت ہی باریک بین اور خبردار ہے ۔ “

اسلام کے ابتدائی معاشرے میں غلام موجود تھے ‘ یہ غلام مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتے تھے اور اس وقت تک غلام رہتے تھے جب تک ان کی غلامی کا معاملہ بین الاقوامی طور پر طے نہ ہوجائے یعنی یا ان جنگی قیدیوں کو بطور احسان مفت رہا کردیا جائے ‘ یا ان کا تبادلہ مسلمان قیدیوں کے ساتھ ہوجائے یا مالی تاوان حاصل کرکے جنگی قیدیوں کو رہا کر دیاجائے یعنی جس طرح کے حالات اہل اسلام اور ان کے مقابل دشمن قوت کے مابین پائے جائیں ۔ جب تک قیدیوں اور غلاموں کا مستقل فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک اسلام ان غلاموں کا مسئلہ یوں حل کرتا ہے کہ وہ قیدی اور غلام عورت کے ساتھ اس کے مالک کی مباشرت کو جائز قرار دیتا ہے ۔ جس کی تشریح ہم سابقہ آیت میں کر آئے ہیں تاکہ مملوکہ عورتوں کے فطری تقاضوں کو ایک ضابطے کے مطابق پورا کیا جائے ‘ اور دوسری صورت یہ ہے کہ ان غلام عورتوں کو کسی مومن کے نکاح میں دے دیا جائے بشرطیکہ وہ اسلام قبول کرچکی ہوں اور ان دونوں صورتوں میں ان کے ساتھ مجامعت دارالحرب سے دارالاسلام تک منتقل ہونے کے بعد ‘ ایک حیض آنے کے بعد ان کے رحم کی پاکی کی پوری تحقیق کے بعد ہو سکے گی ۔ لیکن ان لونڈیوں کے مالکان کے سوا دوسرے لوگوں کے لئے ان کے ساتھ مباشرت کی صرف ایک ہی صورت ہے ‘ وہ یہ کہ ان کے ساتھ نکاح کرلیا جائے ۔ اس کے علاوہ ان کے لئے اس بات کا جواز نہیں ہے کہ معاشرے میں جسم فروشی کریں اور اجرت لیں ۔ اور نہ ان کے لئے یہ جائز ہے کہ مالکان ان کو آزاد کردیں اور وہ ان مالکان کے لئے جسم فروشی کرتی پھریں ۔ اس آیت میں ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح کا یہ طریقہ وضع کیا گیا ہے ۔

ّ (آیت) ” ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنت المؤمنت فمن ماملکت ایمانکم من فتیتکم المؤمنت (4 : 25)

” اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محصنات) سے نکاح کرسکے اسے چاہئے کہ تمہاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرے جو تمہارے قبضے میں ہوں اور مومنہ ہوں “۔

اسلام اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ نکاح آزاد عورت کے ساتھ کیا جائے ‘ بشرطیکہ کسی شریف زادی سے نکاح کرنے کی استطاعت ہو ‘ اس آزاد عورت کو محصنہ اس لئے کہا گیا کہ وہ حصار آزادی میں محفوظ ہوتی ہے ۔ حیرت اور آزادی اسے یہ آداب سکھاتی ہے کہ وہ اپنی عفت اور پاکدامنی کی حفاظت کس طرح کرے گی ۔ نیز آزادی شرافت اسے یہ بھی سکھاتی ہے کہ خاوند کی عزت کی حفاظت کیسے کی جائے گی ۔ اس لئے یہاں شریف زادیوں اور آزاد عورتوں کے لئے محصنات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، یہاں محصنات سے مراد وہ عورتیں نہیں جو شادی شدہ ہوں اور کسی کے حصار نکاح میں ہوں ۔ اس سے قبل بتایا جا چکا ہے کہ دوسروں کی بیویاں یعنی محصنات سب مردوں پر حرام ہیں ۔ اور یہاں آزاد عورتوں کے لئے محصنات اس لئے استعمال کیا گیا کہ وہ حصار آزادی میں بند ہوتی ہے ۔ آزادی اور شرافت کی وجہ سے انسانی ضمیر اور شعور میں عزت نفس کا احساس ہوتا ہے اور زندگی میں آزاد عورتوں کو کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔ آزاد عورت کا ایک خاندان ہوتا ہے ایک فیملی ہوتی ہے ‘ اس کی شہرت ہوتی ہے ‘ اس کے محافظ ہوتے ہیں اور وہ بھی اپنے خاندان کی عزت کا خیال رکھتی ہے ۔ پھر اس کی عزت نفس بھی اسے گھٹیا حرکات سے روکتی ہے ۔ اس لئے وہ بدکاری اور زناکاری سے اجتناب کرتی ہے اور یہ موانع اور رکاوٹیں عام بازاری عورتوں یا غلام عورتوں کے لئے نہیں ہوتیں ‘ یہی وجہ ہے کہ وہ محصنہ نہیں ہوتیں ۔ اگر وہ نکاح بھی کریں تب بھی غلامی کے زمانے کے آثار ان کے اندر پائے جاتے ہیں ‘ لہذا ایک آزاد عورت کی طرح اس کے کردار میں عزت نفس ‘ عفت اور خود داری نہیں ہوتی ۔ اس کے علاوہ اس کے دل و دماغ پر خاندانی شرافت کا بھی کوئی احساس چھایا ہوا نہیں ہوتا ‘ جس کے داغدار ہونے کا اسے کوئی خوف ہو علاوہ ازیں اس میں آنے والی نسل کے جذبات کا بھی خیال رکھا گیا ہے اس لئے کہ غلام عورت کی اولاد کو ایک آزاد اور شریف زادی کی اولاد کے مقابلے میں فروتر سمجھا جاتا تھا ، اس طرح غلامی کا داغ ان کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں لگا رہتا تھا اور یہ تصورات عرب معاشرے میں بالعموم موجود تھے ‘ جس میں قرآن کریم نازل ہو رہا تھا ۔ یہ تھے وہ اسباب جن کی وجہ سے اسلام نے اس بات کو ترجیح دی کہ جہاں تک ہو سکے مسلمان آزاد اور شریف زادیوں کے ساتھ نکاح کریں ۔ اور غیر محصنہ عورتوں یعنی لونڈیوں سے شادی کی اجازت اس شرط پر دی کہ جب حرہ اور آزاد عورت سے نکاح ممکن نہ ہو یا اس کی طاقت نہ ہو یا اس کے لئے انتظار کی جانکاہ گھڑیاں گزارنا پڑ رہی ہوں اور مزید انتظار نہ کیا جاسکتا ہو۔

جب یہ مشکلات بھی ہوں اور ایک مرد کے لئے بےراہ روی کا بھی خطرہ ہو اور مرد کے لئے انتظار مشکل ہو تو اسلام اس کی راہ نہیں روکتا بلکہ اجازت دیتا ہے کہ آسانی ‘ اطمینان اور آرام سے لونڈیوں سے نکاح کرلے اور نکاح کی اجازت بہرحال ان غلام عورتوں سے ہے جو ایمان لا چکی ہوں اور جو کسی دوسرے کی ملکیت میں ہوں ۔ ایمان کی شکل کو یہاں بھی متعین طور پر ثبت کیا گیا ہے جس طرح اس سے قبل آزاد اور محصنہ عورتوں کے ساتھ نکاح میں ایمان کو شرط قرار دیا گیا تھا اسی طرح کسی کافرہ لونڈی سے بھی کسی طور نکاح جائز نہیں ہے ۔ اس لئے پہلے یہ لازمی شرط لگائی جاتی ہے کہ وہ مومنات ہوں ۔ (آیت) ” فمن ماملکت ایمانکم من فتیتکم المؤمنت “۔ (4 : 25) ” جو تمہارے قبضے میں ہوں اور مومنہ عورتیں ہوں “۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ انہیں ان کے مہر ادا کئے جائیں جو فرض ہیں اور ان کی وصولی کا حق ان کے مالکان کو نہیں ہے ۔ یہ ان کا اپنا خالص حق ہے ۔ (آیت) ” واتوھن اجورھن “۔ (4 : 25) ” پس دو انہیں ان کے مہر “ تیسری شرط یہ ہے کہ ان کا معاوضہ بطور مہر ہو ‘ اور ان سے لطف اندوزی بطور نکاح ہو نہ کہ بطور دوستی یا بطور زن بازاری ، مخادنہ کا مفہوم ہے ایک مرد یا عورت سے دوستی اور سفاح کے معنی ہیں زن بازاری کا پیشہ جو ہر کسی کے لئے کھلا ہوتا ہے ۔ (آیت) ” محصنت غیر مسفحت ولا متخذت اخدان “۔ (4 : 25) ” تاکہ وہ حصار نکاح میں محصور ہو کر رہیں اور آزادنہ شہوت رانی یاچوری چھپے آشنائیاں نہ کرتی پھریں “۔

جب اسلام آیا تو عرب معاشرے میں آزاد عورتوں کے اندر بھی اس قسم کی بےراہ روی متعارف تھی جیسا کہ اس سے پہلے بیان کردہ حدیث عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میں آپ پڑھ چکے ہیں ۔ نیز اس دور میں غلام عورتوں میں جسم فروشی کا رواج بھی عام تھا اس وقت کے رؤساء اپنی لونڈیوں کو بازاروں میں چھوڑ دیتے تھے اور وہ ان کے لئے روپیہ کما کر لاتی تھیں ۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول رئیس المنافقین نے مدینہ طیبہ میں اس مقصد کے لئے چار لونڈیاں رکھی ہوئی تھیں ‘ حالانکہ وہ اپنی قوم کا رئیس تھا ‘ اور وہ پیشہ کر کے اس کے لئے روپیہ کماتی تھیں ۔ جاہلیت کی گندگی کے یہ آثار مدینہ تک میں باقی تھے ۔ اسلام نے عربوں پر احسان کرکے اس رسم کی بیخ کنی کردی ‘ عربوں کا مقام بلند کردیا انہیں اس گندگی سے پاک وصاف کردیا اور عربوں کے بعد تمام انسانیت کو اس نجاست سے پاک کیا ۔

اسلام نے مردوں اور ان نوجوان مومنہ عورتوں کے درمیان مباشرت کا صرف ایک ہی طریقہ جائز قرار دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک عورت کے لئے ایک مرد مخصوص کیا جائے یعنی طریقہ نکاح اور اس طرح ایک خاندان پر مشتمل دو افراد زندگی بسر کریں ۔ اور یہ صورت نہ ہو کہ اس میں جانوروں کی طرح محض شہوت رانی ہو ۔ چونکہ دولت مردوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لئے عورت کے لئے مہر مقرر فرمایا ہے جو از روائے شریعت فرض ہے تاکہ مرد وزن کا یہ تعلق محض دوستی اور پیشہ ورانہ اجرت پر مبنی نہ ہو ۔ اسی طرح غلاموں کی دنیا میں بھی اسلام نے اس تعلق کو جاہلیت کی گندگیوں سے پاک کیا ۔ انسان نے جب بھی جاہلیت کو اپنایا وہ اس گندگی میں مبتلا ہوا۔ آج اس دور جدید میں انسان چونکہ جاہلیت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہے ‘ اور اس نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے اس لئے وہ اس گندگی میں پوری طرح لت پت ہے ۔

اس آیت کے تحت اس موضوع پر بحث ختم کرنے سے پہلے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے اس انداز تعبیر پر بھی ذرا غور کریں جس میں قرآن کریم نے غلاموں اور آزاد لوگوں کے درمیان ‘ اسلامی معاشرے میں انسانی تعلقات کے قیام کی نسبت سے بات کی ہے ۔ قرآن کریم غلام عورتوں کے لئے رفیقات ‘ جواری اور امہ کا لفظ استعمال نہیں کرتا جو اس وقت مروج تھے ‘ اسلام ان کے لئے ” فتیات “ کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ (آیت) ” فمن ماملکت ایمانکم من فتیتکم المؤمنت “۔ (4 : 25) ” جو تمہارے قبضے میں ہوں اور مومنہ جوان عورتیں ہوں “۔

اسلام آزاد عورتوں اور غلام عورتوں کے درمیان ایسا فرق نہیں کرتا جس سے وہ الگ الگ فرقے تصور ہوں حالانکہ اس وقت جو تصورات رائج تھے ‘ ان کے مطابق غلام لوگوں کی ایک الگ دنیا تھی اور وہ دوسرے درجے کے شہری تصور ہوتے تھے ۔ اسلام سب انسانوں کو ایک اصل ونسل کا حامل تصور کرتا ہے ۔ جن کے درمیان ایک رابطہ ہے یعنی انسانیت اور ایمان کا رابطہ جو اجتماعی تعلقات کے لئے اسلام میں اساس بنتا ہے ۔ (آیت) ” واللہ اعلم بایمانکم بعضکم من بعض (4 : 25) ” اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے ‘ تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو۔ “

اسی طرح اسلام ان کے مالکان کے لئے لفظ سید یا مالک استعمال نہیں کرتا بلکہ ان کے لئے ” اہل “ کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔

(آیت) ” فانکحوھن باذن اھلھن “۔ (4 : 25) ” لہذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرو “۔ اور اس کے بعد پھر اسلام مہر کا حقدار انکے مالکوں کو قرار نہیں دیتا بلکہ مہر صرف عورت کا حق ہوتا ہے لہذا مہر اس قاعدہ کلیہ سے خارج ہوجاتا ہے جس کے مطابق غلاموں کی ہر قسم کی کمائی ان کے مالکوں کی ملکیت ہوتی تھی ‘ اس لئے کہ مہر کی رقم کمائی کی تعریف میں نہیں آتی بلکہ مہر تو مرد وزن کے رابطے کا ایک مقدس فریضہ ہے ۔ (آیت) ” واتوھن اجورھن بالمعروف (4 : 25) ”” پس معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کرو ‘۔ “

اسلام غلام عورتوں کو یہ اعزاز دیتا ہے کہ وہ عام طور پر جسم فروشی نہ کرتی پھریں اور معروف طریقے کے مطابق نکاح کر کے جنسی تعلقات قائم کریں ۔ (آیت) ” محصنت غیر مسفحت ولا متخذت اخدان (4 : 25) ” تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں ‘ آزاد شہوات رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں ۔ “

یہ تمام خدوخال اور تمام پہلو ان غلام نوجوان عورتوں کے لئے شان اعزاز ارکرامت لئے ہوئے ہیں ‘ اور جس طرح وقت کا تقاضا تھا ‘ ان کے اصل مقام انسانیت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی گئی ۔

اس اعزاز اور عزت افزائی کا موازنہ اگر نزول قرآن کے وقت رائج اور مروج حالات کے ساتھ کیا جائے جن میں غلاموں کو بری نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور جس طرح انہیں اعلی انسانی شرف سے محروم کیا جاتا تھا اور اس انسانی شرف کی بنا پر ملنے والے تمام انسانی حقوق سے محروم کیا جاتا تھا ‘ تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے اس سلسلے میں کس قدر دور رس تبدیلی کی ۔ اسلام نے ان عورتوں کو انسانی شرافت سے مشرف کیا ‘ ہر حال میں ان کے مقام انسانیت کا لحاظ رکھا ‘ قطع نظر اس سے کہ یہ مخلوق عارضی طور پر قید غلامی میں مقید ہے جسے اسلام محض ایک عارضی اور عبوری صورت حال تصور کرتا تھا ۔

آج کے جدید اور مہذب دور میں بھی فاتح افواج مفتوح اقوام کی عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ہیں ‘ اگر اس کا مطالعہ کیا جائے اور اس کا تقابل اسلام کے اس پروقار سلوک کے ساتھ کیا جائے جو اس نے اس وقت کے حالات میں غلام عورتوں کے ساتھ کیا تو اس سے معلوم ہوگا کہ اس وقت اسلام نے غلامی کے عارضی طور پر موجود ادارے کے اندر کسی قدر دور رس اصلاحات کیں ۔ ہمیں جدید دور کی فاتح افواج کے ” جنسی ملاپ “ اور اس کے گندگی کے قصے اور رپورٹیں اچھی طرح معلوم ہیں جن میں جاہلیت جدیدہ کے یہ فرزند ہر اس جگہ ملوث ہوئے جہاں بھی انہوں نے فتح حاصل کی ۔ اور جب یہ مفتوحہ علاقوں کو چھوڑ کر گئے تو انہوں نے اپنے پیچھے اس قدر گندگی چھوڑی جس سے وہ علاقے سالہا سال تک عہد بر آنہ ہوسکے ۔

اس طرح ان نوجوان عورتوں کی جانب سے اس نکاح کے بعد اگر کسی فحاشی اور بدکاری کا ارتکاب ہو تو ان پر آزاد اور شریف زادیوں کے مقابلے میں خفیف سزا تجویز کی گئی ہے اس لئے کہ ان غلام عورتوں کے حالات اور واقعات ایسے ہوتے ہیں جن میں ان کے لئے فحاشی اور بدکاری کے ارتکاب کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں اور یہ عورتیں آزاد عورتوں کے مقابلے میں کم قوت دفاع رکھتی ہیں اس لئے کہ غلامی میں ایک شخص کا ضمیر بدل جاتا ہے اور اسے عزت نفس کا حکم احساس ہوتا ہے ۔ اسے کسی خاندان کی عزت وآبرو برباد ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا ‘ اس لئے کہ ذاتی عزت وآبرو اور خاندانی عزت وآبرو کا احساس ہی آزاد عورتوں کے اندر اپنے ناموس کی حفاطت کا جذبہ بیدار رکھتا ہے ۔ نیز ایک شخص کا معاشرتی مقام اور اس کی اقتصادی حالت بھی فحاشی وبدکاری میں مبتلا ہونے یا نہ ہونے کے معاملے میں ایک اہم فیکٹر ہوتا ہے اور آزاد عورت کے مقابلے میں غلام عورت کا سوشل سٹیٹس اور اقتصادی حالت بہرحال کم ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے غلام عورت اس معاملے میں بہرحال بڑی آسانی سے ورغلائی جاسکتی ہے ۔ یعنی مال اور نسب کی کمی کی وجہ سے ۔ ان وجوہات اور اسباب کی بنا پر اسلام نے غلام عورتوں کے لئے سزائے حد ‘ جبکہ وہ شادی شدہ ہوں ‘ ان آزاد عورتوں کی حد کے نصف کے برابر رکھی جبکہ ان کی شادی ابھی نہیں ہوئی ہوتی ہے ۔ فرماتے ہیں :

(آیت) ” فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ما علی المحصنت من العذاب (4 : 25) ” پھر اگر وہ حصار نکاح میں محفوظ ہوجائیں اور اس کی بعد کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی نسبت آدھی سزا ہے جو آزاد عورتوں کیلئے مقرر ہے ۔ “

اس کا مفہوم یہ ہے کہ آزاد عورتوں کی اس سزا کا نصف جو تقسیم ہو سکتی ہو ‘ اور وہ کوڑوں کی سزا ہے اور رجم کی سزا میں تقسیم ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے اس سزا سے مراد رجم کی سزا نہ ہوگی ‘ لہذا مطلب یہ ہوا کہ جب کوئی شادی شدہ لونڈی زنا کا ارتکاب کرے تو اس پر آزاد عورت ‘ (جوشادی شدہ نہ ہو) کی سزا کا نصف حصہ لازم ہوگا ۔ رہی اس لونڈی کی سزا جو شادی شدہ نہ ہو ‘ تو اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا اس پر یہی حد جاری ہوگی یعنی غیر شادی شدہ آزاد عورت کی نصف سزا یا اسے محض تادیبی سزا دی جائے گی اور یہ تادیب صرف اس کا مالک کرے گا اور نصف حد نہ ہوگی ۔ اس اختلاف کی تفصیلات کتب فقہ سے معلوم کی جاسکتی ہیں ۔

ہم یہاں فی ظلال القرآن میں ‘ صرف یہ نکتہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اسلامی نظام زندگی لوگوں کے حالات اور ظروف واحوال کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور اس طرح ان کے حقیقی حالات میں ترقی اور پاکیزگی کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ وہ لوگوں کو بےکسی کی اس گری ہوئی حالت میں یہ فرض کرکے نہیں چھوڑتا کہ ان کے جو ظروف واحوال ہیں یہ ان کی تقدیر ہے اور وہ اس میں ہمیشہ کے لئے گم گشتہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو خوب جانتا تھا کہ اسلام کے دور اول میں غلام لوگ کن برے حالات سے گزر رہے ہیں ‘ ان پر کیا کیا دباؤ ہیں اور ان حالات میں ایک لونڈی کو کس سہولت کے ساتھ بدکاری اور فحاشی کے لئے آمادہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس لئے اسلام نے ان ظروف واحوال کو نظر انداز نہ کیا اور ان لونڈیوں کے لئے وہ سزا تجویز نہ کی جو اس نے آزاد عورتوں کے لئے تجویز کی تھی ‘ اور نہ ہی اسلام نے اس حقیقی اور واقعی صورت حال کو تسلیم کیا بایں معنی کہ ان حالات میں غلام عورتوں کے لئے سرے سے کوئی تادیبی سزا ہی نہ مقرر کی جائے غرض اسلام نے نصف سزا رکھ کر ان حالات کا لحاظ بھی رکھا جو اس وقت اہم فیکٹر تھے ۔ سزا بھی تجویز کی اور یوں ایک عادلانہ طریق اختیار کیا۔

ہاں یہ بات بھی ملاحظہ ہو کہ اسلام نے غلاموں کو کم درجہ سمجھ کر ان کی سزا میں سختی بھی روا نہیں رکھی ۔ جس طرح اسلام سے قبل دور جاہلیت میں مروجہ قوانین ان طبقات کے لئے بہت سخت ہوتے تھے جو مرتبہ ومقام کے اعتبار سے گڑے پڑے ہوں ‘ اور جو طبقات ترقی یافتہ ہوں ‘ ان کے لئے یہ جاہلی قوانین نہایت ہی نرم ہوتے تھے جبکہ اسلامی قوانین ضعفاء اور کمزوروں کے لئے نرم اور شرفائے لئے سخت ہوتے ہیں ۔

روم کے قوانین میں یہ رویہ اختیار کیا گیا تھا کہ جس قدر ملزم گرے ہوئے اور کم تر درجے کے طبقات سے ہوتا ‘ اسی قدر سزا میں شدت کی جاتی ۔ یہقانون کہتا ہے : ” اگر کوئی شخص کسی پاک دامن بیوہ یا کسی کنواری کی ساتھ بدکاری کا ارتکاب کرے گا ‘ اگر وہ شخص کسی معزز خاندان کا فرد ہے تو اس کی نصف جائیداد ضبط ہوگی اور اگر وہ گھٹیا خاندان سے تعلق رکھتا ہو تو اس کی سزا کوڑے اور جلاوطنی ہوگی ۔ (دیکھے مدونہ جتینائن ترجمہ عبدالعزیز فہمی) منونے جو قانون ہند میں پاس کیا تھا ‘ جسے منو شاستر کہا جاتا ہے اس میں یہ درج ہے کہ اگر کوئی برہمن واجب القتل ہوجائے تو اسے قتل نہ کیا جائے گا ‘ حاکم صرف اس قدر سزا دے سکے گا کہ اس کا سر منڈوا دے ۔ ہاں اگر واجب القتل شخص برہمنوں کے علاوہ کوئی ہو ‘ تو اسے قتل کیا جائے گا ۔ معمولی اور گرے ہوئے طبقات میں سے کوئی اگر برہمن پر ہاتھ اٹھائے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ۔ “ (ماذا احر العالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ندوی) اور یہودیوں کا قانون یہ تھا کہ ان میں سے کوئی شریف چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کم درجے کا انسان چوری کرتا تو وہ اس پر حد جاری کرتے ۔

ان حالات میں اسلامی نظام نازل ہوا ‘ اس نے سچائی کو اپنی جگہ پر کھڑا کیا ۔ اس نے مجرم پر سزا نافذ کی لیکن نفاذ سزا میں اس نے حالات جرم کو مد نظر رکھا ۔ اس نے شادی شدہ لونڈی کی سزا اس شریف زادی کی سزا کے نصف کے برابر رکھی جس کی ابھی تک شادی نہ ہوئی ہو ۔ اس نے اسے بالکل معاف بھی نہیں کیا کہ اس کے ارادہ گناہ کا کوئی لحاظ ہی نہ رکھا جائے اور اسے حالات سے مجبور تصور کیا جائے اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ بالکل خلاف واقعہ اور خلاف حقیقت ہوتا ۔ اور نہ اس کے حالات جرم کو نظر انداز کرتے ہوئے ‘ اس کے لئے آزاد اور شریف زادی عورتوں کے مساوی سزا تجویز کی ۔ جبکہ اس کے حالات جرم شریف زادی کے حالات جرم سے بالکل مختلف تھے ۔ اور نہ اسلام نے وہ جاہلانہ قوانین جاری رکھے جن میں اشراف کو تو معاف کردیا جتا تھا اور کم تردرجے کے لوگوں پر سزائے حد جاری ہوتی تھی ۔

امریکہ ‘ جنوبی افریقہ اور ان جیسے دوسرے ممالک میں آج تک یہ طبقاتی امتیاز مجرمین کے ساتھ ‘ اس ترقی یافتہ دور میں بھی روا رکھا جاتا ہے جہاں سفید فام اشراف کو معاف کردیا جتا ہے جبکہ رنگ دار ضعیف اور ناتواں لوگوں کے لئے کوئی معافی نہیں ہوتی ۔ یہ ہے جاہلیت اور جاہلیت جہاں بھی ہو اور جب بھی ہو اور جیسے بھی ہو وہ جاہلیت ہی ہے ۔

لونڈیوں کے ساتھ آزاد لوگوں کا نکاح محض رخصت ہے ‘ اس شخص کے لئے جو فتنے میں پڑنے سے ڈرتا ہو ‘ یا جسے بہت زیادہ مشقت اٹھانی پڑ رہی ہو ۔ جو شخص بغیر کسی مشقت یا بغیر کسی بدکاری میں پڑنے کے احتمال کے صبر کرسکتا ہو تو اس کے لئے یہ بہتر ہے اس لئے کہ غلام عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے بہرحال خاندان کا ماحول خراب ہو سکتا ہے ۔

(آیت) ” لمن خشی العنت منکم وان تصبروا خیرلکم واللہ غفور رحیم “۔ (4 : 25) ” یہ سہولت ان لوگوں کے لئے پیدا کیا گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بند تقوی ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو ‘ لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ “ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر حد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ‘ نہ انہیں مشقت میں ڈالتا ہے ‘ اور نہ انہیں فتنے میں ڈالتا ہے ۔ بیشک اللہ کا وہ نظام زندگی جو اس نے ان لوگوں کے لئے پسند کیا ہے ، ان لوگوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ترقی کریں ‘ بلند ہوں اور عالی شان ہوں ‘ مگر وہ سب تقاضے انسان کے فطری حدود وقیود کے اندر کرتا ہے ۔ یہ تقاضے ان کی حدود استطاعت کے اندر ہوتے ہیں اور ان کی حقیقی ضروریات کے دائرے کے اندر ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام زندگی ایک سہل نظام زندگی ہے ۔ وہ انسانی فطرت کو پیش نظر رکھتا ہے ‘ وہ انسان کی حقیقی ضروریات سے بھی باخبر ہے ‘ اور وہ انسانی ضرورت کی مقدار سے بھی اچھی طرح واقف ہے ۔ ہاں اسلام یہ طرز عمل بہرحال اختیار نہیں کرتا کہ وہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے اور وہ گندگیوں میں گرتے چلے جائیں اور یہ بھی وہ برداشت نہیں کرتا کہ اس کے سامنے لوگ گندگی میں لت پت پڑے ہوں اور وہ اس گندگی پر ان کی تعریف کرے یا مبارکباد دے اور حوصلہ افزائی کرے ۔ بلکہ وہ ان پر یہ فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ اس گندگی سے نکلنے کی سعی کریں اور سربلند ہونے کی کوشش کریں ‘ یا وہ ان نتائج سے بری الزمہ ہوں جن تک وہ اس گراوٹ اور دھوکے خوری کا مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے پہنچے ہوں ۔

یہاں مسلمانوں کو یہ تلقین بھی کی جارہی ہے کہ وہ صبر کریں یہاں تک کہ انہیں آزاد عورتوں کے ساتھ نکاح پر قدرت حاصل ہوجائے ۔ اس لئے کہ حصن نکاح میں آزاد عورتوں کو لانا ان کا پہلا حق ہے ۔ وہ اس بات کی حقدار ہیں کہ خاندان کی تعمیر شریف زادیوں پر ہو ‘ اور وہ شریف زادوں کو جنم دیں اور نوخیز نسلوں کے ساتھ یہ شریف زادیاں احسان کریں ‘ اور اپنے خاوندوں کی عزت محفوظ رکھیں ۔ ہاں اگر کسی کو یہ خطرہ ہو کہ وہ بدکاری میں مبتلا ہوجائے گا اور مقابلہ نہ کرسکے گا اور یہ کہ وہ صبر وانتظار کی مشقت برداشت نہیں کرسکتا تو اس کے لئے رخصت ہے کہ وہ لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرے اور اس رخصت میں بھی یہ کوشش کی گئی ہے کہ لونڈیوں کی حیثیت کو اونچا کیا جائے ۔ اور ان کو پھر یہ اعزاز بخشا گیا ہے کہ وہ تمہاری جوان عورتیں ہیں اور تم ہی ان کے اہل ہو اور تم ایک ہی گروہ ہو ‘ اور تمہارے درمینا ایمان کا مضبوط رشتہ موجود ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان کی ایمانی حالت کا اچھی طرح علم ہے ‘ اور یہ کہ ان لونڈیوں کے لئے پھر مہر لازم اور فرض ہے اور لونڈیوں کے ساتھ بھی تمہیں نکاح ہی کرنا ہوگا ‘ نہ آزاد شہوت رانی ہوگی اور نہ ہی خفیہ دوستی اور اگر نکاح کے بعد یہ لونڈیاں بدکاری کا ارتکاب کریں تو وہ بھی مسئول ہوں گی ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انکی سزا ان کے ظروف واحوال کے لحاظ سے ذرا ہلکی ہوگی اس لئے کہ (آیت) ” واللہ غفور رحیم “ (4 : 25) ” اللہ بخشنے والا اور رحم والا ہے ۔ “ یعنی وہ غفور ورحیم ہے کہ اس نے تمہیں مجبوری کی حالت میں غلام عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت دے دی اور پھر وہ رحیم ہے کہ اس نے لونڈیوں کی سزا میں ان کے ظروف واحوال کی وجہ سے تخفیف کی جہاد بھی کسی غلطی کے ارتکاب کا ذکر ہو ‘ جہاں بھی انسان کی ذاتی کمزوری اور مجبوری کے کسی امر کا تذکرہ ہو وہاں آخر میں غفور ورحیم کی تعقیب آتی ہے ۔

اس کے بعد ان تمام مباحث اور احکام پر ایک جامع اختتامیہ آتا ہے یعنی وہ تمام احکام جو اللہ تعالیٰ نے اسلامی حیات میں ایک خاندان کی تنظیم سے متعلق صادر کئے تاکہ وہ اس نوخیز اسلامی سوسائٹی کو جاہلیت کے نشیب سے نکال کر بلند کردے ‘ اس کی نفسیاتی اخلاقی اور اجتماعی سطح کو بلند کرکے ایک روشن پاک اور ممتاز مقام تک پہنچا دے ۔ تو اب یہ جامع اختتامیہ آتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کے لئے اسلامی نظام زندگی میں ان احکام کے ذریعے کیا چاہتے ہیں ‘ وہ اس کی تنظیم اور ضابطہ بندی کیوں کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں جو لوگ آزاد شہوات رانی (Free Sex) کے داعی ہیں ان کے مقاصد کیا ہیں ؟

آیت 25 وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ط یہاں محصَنٰت“ دوسرے معنی میں آیا ہے ‘ یعنی شریف زادیاں ‘ آزاد مسلمان عورتیں۔ اور ظاہر ہے آزاد مسلمان عورتوں کا تو مہر ادا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے اگر کوئی بےچارہ مفلس ہے ‘ ایک خاندانی عورت کا مہر ادا نہیں کرسکتا تو وہ کیا کرے ؟ ایسے لوگوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ معاشرے میں موجود مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرلیں۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ ط۔یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون مؤمن ہے اور کون نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ جو بھی قانونی اعتبار سے مسلمان ہے دنیا میں وہ مؤمن سمجھا جائے گا۔ بَعْضُکُمْ مِّنْم بَعْضٍ ج فَانْکِحُوْہُنَّ بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّ کسی لونڈی کا مالک اس سے جنسی تعلق قائم کرسکتا ہے۔ لیکن جب ایک شخص اس کی اجازت سے اس کی لونڈی سے نکاح کرلے تو اب لونڈی کے مالک کا یہ تعلق منقطع ہوجائے گا۔ اب وہ لونڈی اس اعتبار سے اس کے کام میں نہیں آسکتی ‘ بلکہ اب وہ ایک مسلمان کی منکوحہ ہوجائے گی۔ اسی لیے اس نکاح کے لیے بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّکی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت کے معاشرے میں بالفعل یہ شکلیں موجود تھیں۔ یہ نہیں کہا جا رہا کہ یہ شکلیں پیدا کرو۔ غلام اور لونڈیوں کا معاملہ اس وقت کے بین الاقوامی حالات اور اسیران جنگ کے مسئلے کے ایک حل کے طور پر پہلے سے موجود تھا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جس معاشرے میں قرآن نے اصلاح کا عمل شروع کیا اس میں فی الواقع کیا صورت حال تھی اور اس میں کس کس اعتبار سے تدریجاً بہتری پیدا کی گئی۔ وَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ بالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ ان سے نکاح کا تعلق ہوگا ‘ جس میں نیت گھر میں بسانے کی ہونی چاہیے ‘ محض مستی نکالنے کی اور شہوت رانی کی نیت نہ ہو۔ یہ حصار نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں ‘ آزاد شہوت رانی نہ کرتی ‘ پھریں۔ ّ وَّلاَ مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ ج کسی کی لونڈی سے کسی کا نکاح ہو تو کھلم کھلا ہو۔ معلوم ہو کہ فلاں کی لونڈی اب فلاں کے نکاح میں ہے۔ جیسے حضرت سمیہ رض سے حضرت یاسر رض نے نکاح کیا تھا۔ حضرت سمیہ رض ‘ ابوجہل کے چچا کی لونڈی تھیں ‘ جو ایک شریف انسان تھا۔ حضرت یاسر رض جب یمن سے آکر مکہ میں آباد ہوئے تو انہوں نے ابوجہل کے چچا سے اجازت لے کر ان کی لونڈی سمیہ رض سے شادی کرلی۔ ان سے حضرت عمار رض پیدا ہوئے۔ یہ تین افراد کا ایک کنبہ تھا۔ یاسر ‘ عمار بن یاسر اور عمار کی والدہ سمیہ رض۔ ابوجہل کا شریف النفس چچا جب فوت ہوگیا تو ابوجہل کو اس کنبے پر اختیار حاصل ہوگیا اور اس نے اس خاندان کو بدترین ایذائیں دی۔ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ط لونڈیاں اگر قید نکاح میں آنے کے بعد بدچلنی کی مرتکب ہوں تو بدکاری کی جو سزا آزاد عورتوں کو دی جائے گی انہیں اس کی نصف سزا دی جائے گی۔ واضح رہے کہ یہ ابتدائی احکامات ہیں۔ ابھی تک نہ تو سو کوڑوں کی سزا کا حکم آیا تھا اور نہ رجم کا۔ چناچہ اٰذُوْھُمَا“ کے حکم کی تعمیل میں بدکاری کی جو سزا بھی آزاد خاندانی عورتوں کو دی جاتی تھی ایک منکوحہ لونڈی کو اس سے نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا۔ اس لیے کہ ایک شریف خاندان کی عورت جسے ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو اس کا معاملہ اور ہے اور ایک بےچاری غریب لونڈی کا معاملہ اور ہے۔ ّ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ ط۔مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرلینے کی اجازت تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی شہوت اور جنسی جذبے کو روک نہ سکتے ہوں اور انہیں فتنے میں مبتلا ہوجانے اور گناہ میں ملوث ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ ّ وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ ط۔چونکہ عام طور پر اس معاشرے میں جو باندیاں تھیں وہ بلند کردار نہیں تھیں ‘ لہٰذا فرمایا کہ بہتر یہ ہے کہ تم ان سے نکاح کرنے سے بچو اور تعفف اختیار کرو۔

آزاد عورتوں سے نکاح اور کنیزوں سے متعلق ہدایات ارشاد ہوتا ہے کہ جسے آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی وسعت قدرت نہ ہو، ربیعہ فرماتے ہیں طول سے مراد قصد و خواہش یعنی لونڈی سے نکاح کی خواہش، ابن جریر نے اس قول کو وارد کرکے پھر اسے خود ہی توڑ دیا ہے، مطلب یہ کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کی ملکیت میں جو لونڈیاں ہیں ان سے وہ نکاح کرلیں، تمام کاموں کی حقیقت اللہ تعالیٰ پر واضح ہے، تم حقائق کو صرف سطحی نگاہ سے دیکھتے ہو، تم سب آزاد اور غلام ایمانی رشتے میں ایک ہو، لونڈی کا ولی اس کا سردار ہے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح منعقد نہیں ہوسکتا، اسی طرح غلام بھی اپنے سردار کی رضامندی حاصل کئے بغیر اپنا نکاح نہیں کرسکتا۔ حدیث میں ہے جو غلام بغیر اپنے آقا کی اجازت کے اپنا نکاح کرلے وہ زانی ہے، ہاں اگر کسی لونڈی کی مالکہ کوئی عورت ہو تو اس کی اجازت سے اس لونڈی کا نکاح وہ کرائے جو عورت کا نکاح کراسکتا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے عورت عورت کا نکاح نہ کرائے نہ عورت اپنا نکاح کرائے، وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کرتی ہیں۔ پھر فرمایا عورتوں کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو، گھٹا کر کم کرکے تکلیف پہنچا کر لونڈی سمجھ کر کمی کرکے نہ دو ، پھر فرماتا ہے کہ دیکھ لیا کرو یہ عورتیں بدکاری کی طرف از خود مائل نہ ہوں، نہ ایسی ہوں اگر کوئی ان کی طرف مائل ہو تو یہ جھک جائیں، یعنی نہ تو علانیہ زنا کار ہوں نہ خفیہ بدکردار ہوں کہ ادھر ادھر آشنائیاں کرتی پھریں اور چپ چاپ دوست آشنا بناتی پھریں، جو ایسی بد اطوار ہوں ان سے نکاح کرنے کو اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے احصن کی دوسری قرأت احصن بھی ہے، کہا گیا ہے کہ دونوں کا معنی ایک ہی ہے، یہاں احصان سے مراد اسلام ہے یا نکاح والی ہوجانا ہے، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ان کا احصان اسلام اور عفت ہے لیکن یہ حدیث منکر ہے اس میں ضعف بھی ہے اور ایک راوی کا نام نہیں، ایسی حدیث حجت کے لائق نہیں ہوتی، دوسرا قول یعنی احصان سے مراد نکاح ہے حضرت ابن عباس مجاہد عکرمہ طاؤس سعید بن جبیر حسن قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے، امام شافعی ؒ سے بھی ابو علی طبری نے اپنی کتاب ایضاح میں یہی نقل کیا ہے، مجاہد فرماتے ہیں لونڈی کا محصن ہونا یہ ہے کہ وہ کسی آزاد کے نکاح میں چلی جائے، اسی طرح غلام کا احصان یہ ہے کہ وہ کسی آزاد مسلمہ سے نکاح کرلے، ابن عباس سے بھی یہ منقول ہے، شعبی اور نخعی بھی یہی کہتے ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں قرآتوں کے اعتبار سے معنی بھی بدل جاتے ہیں، احصن سے مراد تو نکاح ہے اور احصن سے مراد اسلام ہے، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں، لیکن بظاہر مراد یہاں نکاح کرنا ہے واللہ اعلم، اسی لئے کہ سیاق آیات کی دلالت اسی پر ہے، ایمان کا ذکر تو لفظوں میں موجود ہے بہر دو صورت جمہور کے مذہب کے مطابق آیت کے معنی میں بھی اشکال باقی ہے اس لئے کہ جمہور کا قول ہے کہ لونڈی کو زنا کی وجہ سے پچاس کوڑے لگائے جائیں گے خواہ وہ مسلمہ ہو یا کافرہ ہو شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہو باوجود یہ کہ آیت کے مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ غیر محصنہ لونڈی پر حد ہی نہ ہو، پس اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں، جمہور کا قول ہے کہ بیشک " جو بولا گیا " مفہوم پر مقدم ہے اس لئے ہم نے ان عام احادیث کو جن میں لونڈیوں کو حد مارنے کا بیان ہے اس آیت کے مفہوم پر مقدم کیا، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت علی نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگو اپنی لونڈیوں پر حدیں قائم رکھو خواہ وہ محصنہ ہوں یا نہ ہوں رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی لونڈی کے زنا پر حد مارنے کو فرمایا چونکہ وہ نفاس میں تھی اس لئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں حد کے کوڑے لگنے سے یہ مرنہ جائے چناچہ میں نے اس وقت اسے حد نہ لگائی اور حضور ﷺ کی خدمت میں واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم نے اچھا کیا جب تک وہ ٹھیک ٹھاک نہ ہوجائے حد نہ مارنا، مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب یہ نفاس سے فارغ ہو تو اسے پچاس کوڑے لگانا۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں میں نے حضور ﷺ سے سنا فرماتے تھے جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور زنا ظاہر ہوجائے تو اسے وہ حد مارے اور برا بھلا نہ کہے پھر اگر دوبارہ زنا کرے تو بھی حد لگائے اور ڈانٹ جھڑک نہ کرے، پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور ظاہر ہو تو اسے بیچ ڈالے اگرچہ ایک رسی کے ٹکڑے کے بدلے ہی ہو، اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب تین بار یہ فعل اس سے سرزد ہو تو چوتھی دفعہ فروخت کر ڈالے، عبداللہ بن عیاش بن ابو ربیعہ فحرومی فرماتے ہیں کہ ہم چند قریش نوجوانوں کو حضرت عمر فاروق ؓ نے امارت کی لونڈیوں سے کئی ایک پر حد جاری کرنے کو فرمایا ہم نے انہیں زنا کی حد میں پچاس پچاس کوڑے لگائے دوسرا جواب ان کا ہے جو اس بات کی طرف گئے ہیں کہ لونڈی پر احصان بغیر حد نہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ مارنا صرف بطور ادب سکھانے اور باز رکھنے کے ہے، ابن عباس اسی طرف گئے ہیں طاؤس سعید ابو عبید داؤد ظاہری کا مذہب بھی یہی ہے ان کی بڑی دلیل مفہوم آیت ہے اور یہ شرط ہے مفہوموں میں سے ہے اور اکثر کے نزدیک یہ محض حجت ہے اس لئے ان کے نزدیک ایک عموم پر مقدم ہوسکتا ہے اور ابوہریرہ اور زید بن خالد کی حدیث جس میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ جب لونڈی زنا کرے اور وہ محصنہ نہ ہو یعنی اس کا نکاح نہ ہوا ہو تو کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا اگر وہ زنا کرے تو اسے حد لگاؤ پھر زنا کرے تو پھر کوڑے لگاؤ پھر بیچ ڈالو گو ایک رسی کے ٹکڑے کے قیمت پر ہی کیوں نہ بیچنا پڑے، راوی حدیث ابن شہاب فرماتے ہیں نہیں جانتا کہ تیسری مرتبہ کے بعد یہ فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد۔ پس اس حدیث کے مطابق وہ جواب دیتے ہیں کہ دیکھو یہاں کی حد کی مقدار اور کوڑوں کی تعداد بیان نہیں فرمائی جیسے کہ محصنہ کے بارے میں صاف فرما دیا ہے اور جیسے کہ قرآن میں مقرر طور پر فرمایا گیا کہ محصنات کی نسبت نصف حد ان پر ہے، پس آیت و حدیث میں اس طرح تطبیق دینا واجب ہوگئی واللہ اعلم۔ اس سے بھی زیادہ صراحت والی وہ روایت ہے جو سعید بن منصور نے بروایت ابن عباس نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی لونڈی پر حد نہیں جب تک کہ وہ احصان والی نہ ہوجائے یعنی جب تک نکاح والی نہ ہوجائے پس جب خاوند والی بن جائے تو اس پر آدھی حد ہے بہ نسبت اس حد کے جو آزاد نکاح والیوں پر ہے، یہ حدیث ابن خزیمہ میں بھی ہے لیکن وہ فرماتے ہیں اسے مرفوع کہنا خطا ہے یہ موقوف ہے یعنی حضرت ابن عباس کا قول ہے، بیہقی میں بھی یہ روایت ہے اور آپ کا بھی یہی فیصلہ ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت عمر والی حدیثیں ایک واقعہ کا فیصلہ ہیں، اور حضرت ابوہریرہ والی حدیث دوسرے واقعہ کا فیصلہ ہیں اور حضرت ابوہریرہ والی حدیث کے بھی کئی جوابات ہیں ایک تو یہ کہ یہ محمول ہے اس لونڈی پر جو شادی شدہ ہو اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق اور جمع ہوجاتی ہے دوسرے یہ کہ اس حدیث میں لفظ حد کسی راوی کا داخل کیا ہوا ہے اور اس کی دلیل جواب کا فقرہ ہے، تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث دو صحابیوں کی ہے اور وہ حدیث صرف ایک صحابی کی ہے اور ایک والی پر دو والی مقدم ہے، اور اسی طرح یہ حدیث نسائی میں بھی مروی ہے اور مسلم کی شرط پر اس کی سند ہے کہ حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے جو بدری صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ پھر جب زنا کرے تو کوڑے مارو پھر جب زنا کرے تو کوڑے لگاؤ پھر جب زنا کرے تو بیچ دو اگرچہ ایک رسی کے ٹکڑے کے بدلے ہی بیچنا پڑے۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ یہ بھی بعید نہیں کہ کسی راوی نے جلد کو حد خیال کرلیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق کردیا ہو اور اس نے جلد کو حد خیال کرلیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق تادیب کے طور پر سزا دینے پر کردیا ہو جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس سزا پر بھی کیا گیا ہے جو بیمار زانی کو کھجور کا ایک خوشہ مارا گیا تھا جس میں ایک سو چھوٹی چھوٹی شاخیں تھیں، اور جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس شخص پر بھی کیا گیا ہے جس نے اپنی بیوی کو اس لونڈی کے ساتھ زنا کیا جسی بیوی نے اس کے لئے حلال کردیا تھا حالانکہ اسے سو کوڑوں کا لگنا تعزیر کے طور پر صرف ایک سزا ہے جیسے کہ امام احمد وغیرہ سلف کا خیال ہے۔ حد حقیقی صرف یہ ہے کہ کنوارے کو سو کوڑے اور شادی شدہ ہوئے کو رجم واللہ اعلم۔ ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت ٰسعید بن جبیر کا فرمان ہے کہ لونڈی نے جب تک نکاح نہیں کیا اسے زنا پر مارا نہ جائے، اس کی اسناد تو صحیح ہے لیکن معنی دو ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ بالکل مارا ہی نہ جائے نہ حد نہ اور کچھ تو یہ قول بالکل غریب ہے، ممکن ہے آیت کے الفاظ پر نظر کرکے یہ فتویٰ دے دیا ہو اور حدیث نہ پہنچی ہو، دوسرے معنی یہ ہیں کہ حد کے طور پر نہ مارا جائے اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو اس کے خلاف نہیں کہ اور کوئی سزا کی جائے، پس یہ قیاس حضرت ابن عباس وغیرہ کے فتوے کے مطابق ہوجائے گا واللہ اعلم۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ آیت میں دلالت ہے کہ محصنہ لونڈی پر بہ نسبت آزاد عورت کے آدھی حد ہے، لیکن محصنہ ہونے سے پہلے کتاب و سنت کے عموم میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے بھی سو کوڑے مارے جائیں جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے (اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَ) 24۔ النور :2) یعنی زنا کار عورت زنا کار مرد کو ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو اور جیسے حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں میری بات لے لو میری بات سمجھ لو اللہ نے ان کے لئے راستہ نکال لیا اگر دونوں جانب غیر شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور اگر دونوں طرف شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور پتھروں سے رجم کردینا۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف کی ہے اور اسی طرح کی اور حدیثیں بھی ہیں، حضرت داؤد بن علی ظاہری کا یہی قول ہے لیکن یہ سخت ضعیف ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے محصنہ لونڈیوں کو بہ نسبت آزاد کے آدھے کوڑے مارنے کا عذاب بیان فرمایا یعنی پچاس کوڑے تو پھر جب تک وہ محصنہ نہ ہوں اس سے بھی زیادہ سزا کی سزا وار وہ کیسے ہوسکتی ہیں ؟ حالانکہ قاعدہ شریعت یہ ہے کہ احصان سے پہلے کم سزا ہے اور احصان کے بعد زیادہ سزا ہے پھر اس کے برعکس کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟ دیکھئے شارع ؑ سے آپ کے صحابہ غیر شادی شدہ لونڈی کے زنا کی سزا پوچھتے ہیں اور آپ انہیں جواب دیتے ہیں کہ اسے کوڑے مارو لیکن یہ نہیں فرماتے کہ ایک سو کوڑے لگاؤ پس اگر اس کا حکم وہی ہوتا جو داؤد سمجھتے ہیں تو اسے بیان کردینا حضور ﷺ پر واجب تھا اس لئے کہ ان کا یہ سوال تو صرف اسی وجہ سے تھا کہ لونڈی کے شادی شدہ ہوجانے کے بعد اسے کوڑے مارنے کا بیان نہیں ورنہ اس قید کے لگانے کی کیا ضرورت تھی کہ سوال میں کہتے وہ غیر شادی شدہ ہے کیونکہ پھر تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کوئی فرق ہی نہ رہا اگر یہ آیت اتری ہوئی نہ ہوتی لیکن چونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ایک کا علم تو انہیں ہوچکا تھا اس لئے دوسری کی بابت سوال کیا اور حضور ﷺ سے آپ پر درود پڑھنے کی نسبت پوچھا تو آپ نے اسے بیان فرمایا اور فرمایا سلام تو اسی طرح ہے جس طرح تم خود جانتے ہو، اور ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا) 33۔ الاحزاب :56) نازل ہوا اور صلوۃ وسلام آپ پر بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو صحابہ نے کہا کہ سلام کا طریقہ اور اس کے الفاظ تو ہمیں معلوم ہیں صلوۃ کی کیفیت بیان فرمائے۔ پس ٹھیک اسی طرح یہ سوال ہے مفہوم آیت کا چوتھا جواب ابو ثور کا ہے جو داؤد کے جواب سے زیادہ بودا ہے، وہ فرماتے ہیں جب لونڈیاں شادی شدہ ہوجائیں تو ان کی زنا کاری کی حد ان پر آدھی ہے اس حد کی جو شادی شدہ آزاد عورتوں کی زنا کاری کی حد تو ظاہر ہے کہ آزاد عورتوں کی حد اس صورت میں رجم ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ رجم آدھا نہیں ہوسکتا تو لونڈی کو اس صورت میں رجم کرنا پڑے گا اور شادی سے پہلے اسے پچاس کوڑے لگیں گے، کیونکہ اس حالت میں آزاد عورت پر سو کوڑے ہیں۔ پس دراصل آیت کا مطلب سمجھنے میں اس سے خطا ہوئی اور اس میں جمہور کا بھی خلاف ہے بلکہ امام شافعی ؒ تو فرماتے ہیں کسی مسلمان کا اس میں اختلاف ہی نہیں کہ مملوک پر زنا کی سزا میں رجم ہے ہی نہیں، اس لئے کہ آیت کی دلالت کرنی ہے کہ ان پر محصنات کا نصف عذاب ہے اور محصنات کے لفظ میں جو الف لام ہے وہ عہد کا ہے یعنی وہ محصنات جن کا بیان آیت کے شروع میں ہے (وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ) 4۔ النسآء :25) میں گزرچکا ہے اور مراد صرف آزاد عورتیں ہیں۔ اس وقت یہاں آزاد عورتوں کا نکاح کے مسئلہ کی بحث نہیں بحث یہ ہے کہ پھر آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زنا کاری کی جو سزا تھی اس سے آدھی سزا ان لونڈیوں پر ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اس سزا کا ذکر ہے جو آدھی ہوسکتی ہو اور وہ کوڑے ہیں کہ سو سے آدھے پچاس رہ جائیں گے رجم یعنی سنگسار کرنا ایسی سزا ہے جس کے حصے نہیں ہوسکتے واللہ اعلم، پھر مسند احمد میں ہے ایک واقعہ ہے جو ابو ثور کے مذہب کی پوری تردید کرتا ہے اس میں ہے کہ صفیہ لونڈی نے ایک غلام سے زناکاری کی اور اسی زنا سے بچہ ہوا جس کا دعویٰ زانی نے کیا مقدمہ حضرت عثمان کے پاس پہنچا آپ نے حضرت علی کو اس کا تصفیہ سونپا، حضرت علی ؓ نے فرمایا اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ کا ہے بچہ تو اس کا سمجھا جائے گا جس کی یہ لونڈی ہے اور زانی کو پتھر مارے جائیں گے پھر ان دونوں کو پچاس پچاس کوڑے لگائے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد مفہوم سے تنبیہہ ہے اعلیٰ کے ساتھ ادنیٰ پر یعنی جب کہ وہ شادی شدہ ہوں تو ان پر بہ نسبت آزاد عورتوں کے آدھی حد ہے پس ان پر رجم تو سرے سے کسی صورت میں ہے ہی نہیں نہ قبل از نکاح نہ بعد نکاح، دونوں حالتوں میں صرف کوڑے ہیں جس کی دلیل حدیث ہے، صاحب مصباح یہی فرماتے ہیں اور حضرت امام شافعی سے بھی اسی کو ذکر کرتے ہیں، امام بیہقی اپنی کتاب سنن و آثار میں بھی اسے لائے ہیں لیکن یہ قول لفظ آیت سے بہت دور ہے اس طرح کہ آدھی حد کی دلیل صرف آیت ہے اس کے سوا کچھ نہیں پس اس کے علاوہ میں آدھا ہونا کس طرح سمجھا جائے گا ؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ شادی شدہ ہونے کی حالت میں صرف امام ہی حد قائم کرسکتا ہے اس لونڈی کا مالک اس حال میں اس پر حد جاری نہیں کرسکتا امام احمد ؒ کے مذہب میں ایک قول یہی ہے ہاں شادی سے پہلے اس کے مالک کو حد جاری کرنے کا اختیار ہے بلکہ حکم ہے لیکن دونوں صورتوں میں حد آدھی ہی آدھی رہے گی اور یہ بھی دور کی بات ہے اس لئے کہ آیت میں اس کی دلالت بھی نہیں، اگر اگر یہ آیت نہ ہوتی تو ہم نہیں جان سکتے تھے کہ لونڈیوں کے بارے میں آدھی حد ہے اور اس صورت میں انہیں بھی عموم میں داخل کرکے پوری حد یعنی سو کوڑے اور رجم ان پر بھی جاری کرنا واجب ہوجاتا جیسے کہ عام روایتوں سے ثابت ہے، حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ لوگو اپنے ماتحتوں پر حدیں جاری کرو شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ اور وہ عام حدیثیں جو پہلے گزرچکی ہیں جن میں خاوندوں والی اور خاوندوں کے بغیر کوئی تفصیل نہیں، حضرت ابوہریرہ کی روایت والی حدیث جس سے جمہور نے دلیل ] پکڑی ہے یہ ہے کہ جب تم میں سے کسی کوئی زنا کرے اور پھر اس کا زنا ظاہر ہوجائے تو اسے چاہئے کہ اس پر حد جاری کرے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے (ملخص) الغرض لونڈی کی زنا کاری کی حد میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ جب تک اس کا نکاح نہیں ہوا اسے پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور نکاح ہوجانے کے بعد بھی یہی حد رہے گی اور اسے جلاوطن بھی کیا جائے گا یا نہیں ؟ اس میں تین قول ہیں ایک یہ کہ جلا وطنی ہوگی دوسرے یہ کہ نہ ہوگی تیسرے یہ کہ جلا وطنی میں آدھے سال کو ملحوظ رکھا جائے گا یعنی چھ مہینے کا دیس نکالا دیا جائے گا پورے سال کا نہیں، پورا سال آزاد عورتوں کے لئے ہے، یہ تینوں قول امام شافعی کے مذہب میں ہیں، لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک جلا وطنی تعزیر کے طور پر ہے وہ حد میں سے نہیں امام کی رائے پر موقوف ہے اگر چاہے جلا وطنی دے یا نہ دے مرد و عورت سب اسی حکم میں داخل ہیں ہاں امام مالک کے مذہب میں ہے کہ جلا وطنی صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں پر نہیں اس لئے کہ جلا وطنی صرف اس کی حفاظت کے لئے ہے اور اگر عورت کو جلا وطن کیا گیا تو حفاظت میں سے نکل جائے گی اور مردوں یا عورتوں کے بارے میں دیس نکالے کی حدیث صرف حضرت عبادہ اور حضرت ابوہریرہ سے ہی مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس زانی کے بارے میں جس کی شادی نہیں ہوئی تھی حد مارنے اور ایک سال دیس نکالا دینے کا حکم فرمایا تھا (بخاری) اس سے معنی مراد یہی ہے کہ اس کی حفاظت رہے اور عورت کو وطن سے نکالے جانے میں یہ حفاظت بالکل ہی نہیں ہوسکتی واللہ اعلم۔ دوسرا قول یہ ہے کہ لونڈی کو اس کی زنا کاری پر شادی کے بعد پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور ادب دکھانے کے طور پر اسے کچھ مار پیٹ کی جائے گی لیکن اس کی کوئی مقرر گنتی نہیں پہلے گزرچکا ہے کہ شادی سے پہلے اسے مارا نہ جائے گا جیسے حضرت سعید بن مسیب کا قول ہے لیکن اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ سرے سے کچھ مارنا ہی نہ چاہئے تو یہ محض تاویل ہی ہوگی ورنہ قول ثانی میں اسے داخل کیا جاسکتا ہے جو یہ ہے کہ شادی سے پہلے سو کوڑے اور شادی کے بعد پچاس جیسے کے داؤد کا قول ہے اور یہ تمام اقوال سے بودا قول ہے اور یہ کہ شادی سے پہلے پچاس کوڑے اور شادی کے بعد رجم جیسے کہ ابو ثور کا قول ہے لیکن یہ قول بھی بودا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب۔ پھر فرمان ہے کہ لونڈیوں سے نکاح کرنا ان شرائط کی موجودگی میں جو بیان ہوئیں ان کے لئے جنہیں زنا میں واقع ہونے کا خطرہ ہو اور تجرد اس پر بہت شاق گزر رہا ہو اور اس کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہو تو بیشک اسے پاکدامن لونڈیوں سے نکاح کرلینا جائز ہے گو اس حالت میں بھی اپنے نفس کو روکے رکھنا اور ان سے نکاح نہ کرنا بہت بہتر ہے اس لئے کہ اس سے جو اولاد ہوگی وہ اس کے مالک کے لونڈی غلام ہوگی ہاں اگر خاوند غریب ہو تو اس کی یہ اولاد اس کے آقا کی ملکیت امام شافعی کے قول قدیم کے مطابق نہ ہوگی۔ پھر فرمایا اگر تم صبر کرو تو تمہارے لئے افضل ہے اور اللہ غفور و رحیم ہے، جمہور علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے نکاح جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو اور نہ ہی رکے رہنے کی طاقت ہو، بلکہ زنا واقع ہوجانے کا خوف ہو۔ کیونکہ اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ اولاد غلامی میں جاتی ہے دوسرے ایک طرح ہے کہ آزاد عورت کو چھوڑ کر لونڈیوں کی طرف متوجہ ہونا۔ ہاں جمہور کے مخالف امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں یہ دونوں باتیں شرط نہیں بلکہ جس کے نکاح میں کوئی آزاد عورت نہ ہو اسے لونڈی سے نکاح جائز ہے وہ لونڈی خواہ مومنہ ہو خواہ اہل کتاب میں سے ہو۔ چاہے اسے آزاد عورت سے نکاح کرنے کی طاقت بھی ہو اور اسے بدکاری کا خوف بھی نہ ہو، اس کی بڑی دلیل یہ آیت والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم یعنی آزاد عورتیں ان میں سے جو تم سے پہلے کتاب اللہ دئے گئے۔ پس وہ کہتے ہیں یہ آیت عام ہے جس میں آزاد اور غیر آزاد سب ہی شامل ہیں اور محصنات سے مراد پاکدامن باعصمت عورتیں ہیں لیکن اس کی ظاہری دلالت بھی اسی مسئلہ پر ہے جو جمہور کا مذہب ہے۔ واللہ اعلم۔

آیت 25 - سورہ نساء: (ومن لم يستطع منكم طولا أن ينكح المحصنات المؤمنات فمن ما ملكت أيمانكم من فتياتكم المؤمنات ۚ والله أعلم بإيمانكم...) - اردو