اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 24 وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ چونکہ وہ کسی اور کے نکاح میں ہیں اس لیے آپ پر حرام ہیں۔ ایک عورت کو اگر اس کا شوہر طلاق دے دے تو آپ اس سے نکاح کرسکتے ہیں۔ چناچہ یہ حرمت ابدی نوعیت کی نہیں ہے۔ مُحْصَنٰت“ ان عورتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی کی قید نکاح میں ہوں۔ حِصن قلعے کو کہتے ہیں اور احصان کے معنی کسی شے کو اپنی حفاظت میں لینے کے بھی اور کسی کی حفاظت میں ہونے کے بھی۔ چناچہ مُحْصَنٰت“ وہ عورتیں ہیں جو ایک خاندان کے قلعے کے اندر محفوظ ہیں اور شوہر والیاں ہیں۔ نیز یہ لفظ لونڈیوں کے مقابل آزاد خاندانی شریف زادیوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اِلاَّ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ج۔یعنی جنگ کے نتیجے میں تمہارے ہاں کنیزیں بن کر آجائیں۔ یہ عورتیں اگرچہ مشرکوں کی بیویاں ہیں لیکن وہ لونڈیوں کی حیثیت سے آپ کے لیے جائز ہوں گی۔کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ج ۔یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کردی گئی ہے۔وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ آپ نے دیکھا کہ کتنی تھوڑی سی تعداد میں محرمات ہیں ‘ جن سے نکاح حرام قرار دے دیا گیا ہے ‘ باقی کثیر تعداد حلال ہے۔ یعنی مباحات کا دائرہ بہت وسیع ہے جبکہ محرمات کا دائرہ بہت محدود ہے۔ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ یعنی ان کے مہر ادا کر کے ان کے ساتھ نکاح کرو۔مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ ط یعنی نیت گھر بسانے کی ہو ‘ صرف مستی نکالنے کی نہیں۔ اس کو محض ایک کھیل اور مشغلہ نہ بنا لو۔
آیت 25 وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ط یہاں محصَنٰت“ دوسرے معنی میں آیا ہے ‘ یعنی شریف زادیاں ‘ آزاد مسلمان عورتیں۔ اور ظاہر ہے آزاد مسلمان عورتوں کا تو مہر ادا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے اگر کوئی بےچارہ مفلس ہے ‘ ایک خاندانی عورت کا مہر ادا نہیں کرسکتا تو وہ کیا کرے ؟ ایسے لوگوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ معاشرے میں موجود مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرلیں۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ ط۔یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون مؤمن ہے اور کون نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ جو بھی قانونی اعتبار سے مسلمان ہے دنیا میں وہ مؤمن سمجھا جائے گا۔ بَعْضُکُمْ مِّنْم بَعْضٍ ج فَانْکِحُوْہُنَّ بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّ کسی لونڈی کا مالک اس سے جنسی تعلق قائم کرسکتا ہے۔ لیکن جب ایک شخص اس کی اجازت سے اس کی لونڈی سے نکاح کرلے تو اب لونڈی کے مالک کا یہ تعلق منقطع ہوجائے گا۔ اب وہ لونڈی اس اعتبار سے اس کے کام میں نہیں آسکتی ‘ بلکہ اب وہ ایک مسلمان کی منکوحہ ہوجائے گی۔ اسی لیے اس نکاح کے لیے بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّکی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت کے معاشرے میں بالفعل یہ شکلیں موجود تھیں۔ یہ نہیں کہا جا رہا کہ یہ شکلیں پیدا کرو۔ غلام اور لونڈیوں کا معاملہ اس وقت کے بین الاقوامی حالات اور اسیران جنگ کے مسئلے کے ایک حل کے طور پر پہلے سے موجود تھا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جس معاشرے میں قرآن نے اصلاح کا عمل شروع کیا اس میں فی الواقع کیا صورت حال تھی اور اس میں کس کس اعتبار سے تدریجاً بہتری پیدا کی گئی۔ وَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ بالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ ان سے نکاح کا تعلق ہوگا ‘ جس میں نیت گھر میں بسانے کی ہونی چاہیے ‘ محض مستی نکالنے کی اور شہوت رانی کی نیت نہ ہو۔ یہ حصار نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں ‘ آزاد شہوت رانی نہ کرتی ‘ پھریں۔ ّ وَّلاَ مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ ج کسی کی لونڈی سے کسی کا نکاح ہو تو کھلم کھلا ہو۔ معلوم ہو کہ فلاں کی لونڈی اب فلاں کے نکاح میں ہے۔ جیسے حضرت سمیہ رض سے حضرت یاسر رض نے نکاح کیا تھا۔ حضرت سمیہ رض ‘ ابوجہل کے چچا کی لونڈی تھیں ‘ جو ایک شریف انسان تھا۔ حضرت یاسر رض جب یمن سے آکر مکہ میں آباد ہوئے تو انہوں نے ابوجہل کے چچا سے اجازت لے کر ان کی لونڈی سمیہ رض سے شادی کرلی۔ ان سے حضرت عمار رض پیدا ہوئے۔ یہ تین افراد کا ایک کنبہ تھا۔ یاسر ‘ عمار بن یاسر اور عمار کی والدہ سمیہ رض۔ ابوجہل کا شریف النفس چچا جب فوت ہوگیا تو ابوجہل کو اس کنبے پر اختیار حاصل ہوگیا اور اس نے اس خاندان کو بدترین ایذائیں دی۔ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ط لونڈیاں اگر قید نکاح میں آنے کے بعد بدچلنی کی مرتکب ہوں تو بدکاری کی جو سزا آزاد عورتوں کو دی جائے گی انہیں اس کی نصف سزا دی جائے گی۔ واضح رہے کہ یہ ابتدائی احکامات ہیں۔ ابھی تک نہ تو سو کوڑوں کی سزا کا حکم آیا تھا اور نہ رجم کا۔ چناچہ اٰذُوْھُمَا“ کے حکم کی تعمیل میں بدکاری کی جو سزا بھی آزاد خاندانی عورتوں کو دی جاتی تھی ایک منکوحہ لونڈی کو اس سے نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا۔ اس لیے کہ ایک شریف خاندان کی عورت جسے ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو اس کا معاملہ اور ہے اور ایک بےچاری غریب لونڈی کا معاملہ اور ہے۔ ّ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ ط۔مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرلینے کی اجازت تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی شہوت اور جنسی جذبے کو روک نہ سکتے ہوں اور انہیں فتنے میں مبتلا ہوجانے اور گناہ میں ملوث ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ ّ وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ ط۔چونکہ عام طور پر اس معاشرے میں جو باندیاں تھیں وہ بلند کردار نہیں تھیں ‘ لہٰذا فرمایا کہ بہتر یہ ہے کہ تم ان سے نکاح کرنے سے بچو اور تعفف اختیار کرو۔
ان تین آیات میں احکام شریعت کے ضمن میں فلسفہ و حکمت کا بیان ہو رہا ہے۔ احکام شریعت کو انسان اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ اسے جب حکم دیا جاتا ہے کہ یہ کرو اور یہ مت کرو تو آدمی کی طبیعت ناگواری محسوس کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں نے شریعت کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکا ہے۔ 1970 ء میں کرسمس کے موقع پر میں لندن میں تھا۔ وہاں میں نے ایک عیسائی دانشور کی تقریر سنی تھی ‘ جس نے کہا تھا کہ شریعت لعنت ہے۔ خواہ مخواہ ایک انسان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ حلال ہے ‘ یہ حرام ہے۔ جب وہ حرام سے رک نہیں سکتا تو اس کا دل میلا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو خطاکار سمجھنے لگتا ہے اور مجرم ضمیر guilty conscience ہوجاتا ہے۔ اس احساس کے تحت وہ منفی نفسیات کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان کے نزدیک اس ساری خرابی کا سبب یہ ہے کہ آپ نے حرام اور حلال کا فلسفہ چھیڑا۔ اگر سب کام حلال سمجھ لیے جائیں تو کوئی حرام کام کرتے ہوئے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا۔ دنیا میں ایسے ایسے فلسفے بھی موجود ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک فلسفۂ احکام یہ ہے :آیت 26 یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَیَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں نیکوکار بھی تھے اور بدکار بھی۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم انبیاء و صلحاء اور نیکوکاروں کا راستہ اختیار کرو صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اور تم دوسرے راستوں سے بچ سکو۔