سورہ نساء: آیت 24 - ۞ والمحصنات من النساء إلا... - اردو

آیت 24 کی تفسیر, سورہ نساء

۞ وَٱلْمُحْصَنَٰتُ مِنَ ٱلنِّسَآءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُمْ ۖ كِتَٰبَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا۟ بِأَمْوَٰلِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ ۚ فَمَا ٱسْتَمْتَعْتُم بِهِۦ مِنْهُنَّ فَـَٔاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَٰضَيْتُم بِهِۦ مِنۢ بَعْدِ ٱلْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

اردو ترجمہ

اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (محصنات) البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو (جنگ میں) تمہارے ہاتھ آئیں یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کر دی گئی ہے اِن کے ماسوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعہ سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے، بشر طیکہ حصار نکاح میں اُن کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مہر بطور فرض ادا کرو، البتہ مہر کی قرارداد ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اللہ علیم اور دانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalmuhsanatu mina alnnisai illa ma malakat aymanukum kitaba Allahi AAalaykum waohilla lakum ma waraa thalikum an tabtaghoo biamwalikum muhsineena ghayra musafiheena fama istamtaAAtum bihi minhunna faatoohunna ojoorahunna fareedatan wala junaha AAalaykum feema taradaytum bihi min baAAdi alfareedati inna Allaha kana AAaleeman hakeeman

آیت 24 کی تفسیر

پارہ نمبر 5 ایک نظر میں :

پارہ پنجم میں بھی ہم سورة نساء کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس پارے میں سورة نساء کے اہم موضوعا اور اہداف زیر بحث ہیں ‘ جن کی طرف اجمالی اشارہ پارہ چہارم کے آغاز میں کیا گیا تھا پارئہ پنجم میں بھی یہی اساسی مقاصد ہیں ۔ ان عقائد ومقاصد کے ضمن میں پھر متعدد موضوعات پر بحث چلی ہے ۔

اس پارے کے پہلے سبق میں خاندانی معاملات کی تنظیم کے باقی ماندہ امور لئے گئے ہیں اور ان تمام معاملات میں خاندان کی تنظیم ، نظام فطرت کے رجحانات اور تقاضوں کے مطابق کی گئی ہے ۔ خاندانی زندگی میں جو عارضی مشکلات ہوجایا کرتی ہیں ان میں خاندان اور عائلی زندگی کو بچانے کی تدابیر اختیار کی گئی ہیں ۔ اس طرح خاندانی نظام کو بچانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی انتظام کیا گیا ہے کہ معاشرے میں فحاشی اور بےحیائی نہ پھیلے اور خاندانی نظام کو اور عائلی تعلقات کے تقدس کو ہر مضر اثر سے بچایا جائے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سبق میں بعض اجتماعی اور اقتصادی امور کی ضابطہ بندی بھی کی گئی ہے ۔ مثلا بعض مالی اور تجارتی امور پر بحث اور نظام وراچت کی ضابطہ بندی جس میں حقوق کا تعلق ایک خاندان پر منحصر ہوتا ہے ۔ نیز مرد اور عورت کے لئے عائلی زندگی کے دوران میں اپنے اپنے حقوق ملکیت محفوظ کئے گئے ہیں۔

یہ تمام امور اور موضوعات ‘ جس طرح کہ ہم پہلے کہہ آئے ‘ وہ انتظامات ہیں ‘ جن کے ذریعے سے اسلامی معاشرے کو تجارتی اور اقتصادی میدان میں نظام جاہلیت سے نکال کر اسلامی نظام حیات کے اندر لانا مطلوب ہے ۔ نیز بتدریج جاہلی معاشرے کے رہے سہے نشانات کو مٹانا بھی مطلوب ہے ‘ جو ابھی تک باقی تھے اور ان کی جگہ اسلامی معاشرے کے خدوخال کو اجاگر کر کے جماعت مسلمہ کو عمومی طور پر اس مقام مرتفع تک پہنچانا مقصود ہے جس میں وہ پورے عالم میں ممتاز نظر آئے ۔ چناچہ اسلامی نظام اس امت کو جاہلیت کی سطح سے بلند کرتا ہے اور اسے مزید بلندیوں پر اٹھاتا چلا جاتا ہے ۔

دوسرے سبق میں دوبارہ اسلامی تصور حیات کے اصول طے کئے گئے ہیں ۔ ان میں ایمان کی تعریف اور ایمان کی شرائط بیان کی گئی ہیں اور ایمان کے ان اصول کو دوبارہ اس لئے بیان کیا گیا ہے تاکہ جماعت مسلمہ کے اندر ‘ اجتماعی کفالت کے بعض دوسرے ضابطے وضع کئے جائیں ۔ اجتماعی کفالت کا یہ نظام پہلے خاندان کے محدود دائرے سے شروع ہوتا ہے اور پھر اس کی حدود پوری جماعت مسلمہ تک وسیع ہوجاتی ہیں ۔ اس اجتماعی کفالت اور انفاق کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ بخل اور کنجوسی کی مذمت بھی کی گئی ہے ۔ نیز دولت پر گھمنڈ کرنے ‘ اللہ کی نعمت کو چھپانے اور انفاق فی سبیل اللہ کے مقابلے میں ریاکاری کی مذمت کی گئی ہے ۔ نیز اس سبق میں عبادت الہی کے ذریعے تہذیب نفس کا طریقہ بھی سکھایا گیا ہے ‘ عبادت گزاری کے وقت جسمانی پاکیزگی کے احکام اور اسی طرح یہ حکم کہ عبادت کے وقت مسکرات سے مکمل پرہیز کی ضرورت ہے اس لئے کہ شراب نوشی اور عبادت میں تضاد ہے ۔ شراب نوشی کے متعلق یہ ابتدائی حکم تھا ‘ بعد میں شراب نوشنی پر مکمل پابندی عائد کردی گئی اور یہ قرآن مجید کا خاص منہاج ہے جو وہ اصلاح کے لئے اختیار کرتا ہے یعنی تدریجی اصلاح کا طریقہ ۔

تیسرے سبق میں بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب کی نسبت تمہارا موقف کیا ہونا چاہئے ۔ یہ بھی اس سورة کے اہم موضوعات میں سے ایک ہے ‘ جس میں مسلمانوں کے حوالے سے ان کی نیت کے کھوٹ اور ان کے برے منصوبوں کو طشت ازبام کیا گیا ہے ۔ ان کے اس طرز عمل پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مکاری اور کینہ پروری کو واضح کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں اور انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ انجام کار وہ درد ناک عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں ۔

چوتھے سبق میں اسلام کی تعریف ‘ دین کا مفہوم اور ایمان کی شرائط کو بیان کیا گیا ہے اور یہ بات نہایت ہی فیصلہ کن اور حتمی الفاظ میں بیان کی گئی ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کا مزاج کیا ہے ‘ اس نظام میں کس طرح مسلمان صرف اللہ وحدہ کی اطاعت ‘ صرف اسی کی عبادت اور صرف اسی سے ہدایت اخذ کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے تمام تنازعات کے فیصلے بھی اللہ کی کتاب اور رسول خدا کے احکام کے مطابق کرتے ہیں ‘ نیز اس سبق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ امانت ‘ اس کے حقداروں تک پہنچائیں اور اگر انصاف کا مسئلہ درپیش ہو تو عدل کے ساتھ حکم دیں اور لوگوں کی زندگیوں میں اسلامی منہاج کو رائج کریں ‘ یہ مضامین اس انداز میں بیان کئے گئے ہیں کہ گویا یہ ایمان کی شرائط ہیں اور ساتھ ساتھ اس بات پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ایمان کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن وہ ایمان کی شرط اول بھی پوری نہیں کرتے یعنی اپنی پوری زندگی کے تنازعات کا فیصلہ مکمل تسلیم ورضا کے ساتھ خدا اور رسول کے احکام کے مطابق نہیں کراتے ۔ پھر بار بار تاکید سے بتایا جاتا ہے کہ اگر اس شرط کو پورا نہیں کیا جاتا تو ایمان نہیں ہے ‘ چاہے جس قدر دعوائے ایمان زبانی طور پر کیا جائے اس لئے کہ یہ صریح طور پر شرط ایمان کی خلاف ورزی ہے ۔

چناچہ درس پنجم میں اسلامی جماعت کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کی جماعت میں جہاد بالقتال کے لئے تیار ہوجائے اور ان لوگوں پر سخت تنقید کی گئی ہے جو منافق ہیں اور جہاد کے خلاف رکاوٹیں ڈالتے ہیں یا مومن ہیں اور جہاد سے سستی کرتے ہیں اور اس سبق میں جہاد و قتال کا اصل مقصد اور اس کی ضرورت کا بیان کرتے ہوئے قلوب اہل ایمان کو جوش دلایا جاتا ہے کہ جہاد اور قتال اس لئے ضروری ہے کہ ضعیف اہل اسلام اور ان کے بال بچوں کو دار الکفر سے نجات دلا کر دارالاسلام میں داخل کیا جائے اور اس ارفع واعلی اسلامی نظام زندگی کے زیر سایہ لا کر انہیں زندگی کی خوشیاں عطا کی جائیں ۔ اس سبق میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے لئے ایک دن مقرر ہے جس میں اس نے دنیا کو چھوڑنا ہے ‘ اس لئے اسے چاہئے کہ مشکل حالات ومعاملات میں خوف نہ کھائے ۔ سبق کے آخر میں حضور اکرم ﷺ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ جہاد شروع کردیں ‘ اگرچہ اکیلے ہوں اس لئے کہ اس دین کو غالب کرنے اور اسلامی نظام زندگی کو مستحکم اور متمکن کرنے کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے ۔

مضمون جہاد فی سبیل اللہ کی مناسبت سے پھر چھٹے سبق میں بیشمار بین الاقوامی ضوابط کا ذکر بھی کیا گیا ہے یعنی اک طرف اسلامی کیمپ ہے اور دوسری جانب اس کا دشمن کیمپ ہے ‘ تیسری طرف غیر جانبدار کیمپ ہے ‘ یا وہ لوگ ہیں جن سے اسلامی کیمپ کے معاہدے ہیں ۔ معاملہ صرف طاقت ‘ غلبے اور پکڑ دھکڑ کا ہی نہیں ہے بلکہ واقعیت پسندی کے ساتھ ‘ قانون واخلاق کی حدود کے اندر ‘ انسانی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور مختلف الخیال بین الاقوامی کیمپوں کے رجحانات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عمل جہاد کو جاری رکھنا ہے ۔

جہاد فی سبیل اللہ کے مضمون کے ساتھ ‘ جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی اقسام کو بھی بیان کیا گیا ہے ۔ یہ ساتواں سبق ہے اور اس میں ان لوگوں پر سخت تنقید کی گئی ہے جو دارالکفر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہجرت کرکے معرکہ حق و باطل میں شریک نہیں ہوتے حالانکہ دارالکفر میں ان کا دین محفوظ نہیں ہے ‘ جبکہ دارالاسلام قائم ہوگیا ہے اور اس میں اسلامی جھنڈے بڑی عزت اور عدل سے لہرا رہے ہیں ۔ اس سبق کے آخر میں مسلمانوں کو قتال فی سبیل اللہ پر ابھارا جاتا ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ دشمن کا پیچھا کرو اور دشمن کے تتبع اور تلاش میں ذرہ بھر سستی نہ کرو اور آخر میں واضح کردیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا موقف کیا ہے اور دشمنان اسلام کا موقف کیا ہے ؟ اہل ایمان کا انجام کیا ہونے والا ہے اور اہل کفر کس خوفناک انجام سے دو چار ہونے والے ہیں ۔

اٹھویں سبق میں ہم اسلامی نظام عدل کی معراج تک پہنچ جاتے ہیں ۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک یہودی پر ناجائز الزام لگایا جاتا ہے ‘ شہادت اس کے خلاف آجاتی ہے ‘ ملاء اعلی سے قرآن کریم نازل ہوتا ہے اور اس یہودی کو بری کردیا جاتا ہے ۔ یہ انصاف ایسے حالات میں کیا جاتا ہے جبکہ ہر طرف سے یہودی اہل اسلام کے خلاف رات اور دن سازشوں میں مصروف ہیں ۔ لیکن اسلامی نظام عدل میں انصاف نہ کسی کی دوستی سے متاثر ہوتا ہے اور نہ کسی کی دشمنی اسے انصاف سے محروم کرسکتی ہے ۔ یہ عدل و انصاف کا وہ معیار ہے جس پر انسانیت کبھی پوری نہیں اتر سکی ۔ ہاں انسانیت اس مقام تک صرف اسلام کے ارفع اور بےمثال نظام زندگی کے سایہ ہی میں پہنچ سکی ۔

اب نواں سبق آتا ہے جس میں شرک اور مشرکین کے ساتھ پنجہ آزمائی کی جاتی ہے ۔ شرکیہ خرافات اور ان کے اثرات ‘ گمراہ کن شعائر دینی اور کھوٹے اور اذکار رفتہ شرکیہ تصورات پر بحث ہوتی ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ کے نظام عدل کے بارے میں ‘ نفسانی خواہشات اور کھوٹے خیالات اور ادہام کی تصحیح کی جاتی ہے ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں جزا وسزا اعمال پر ہے ‘ ادہام اور اچھی خواہشات پر نہیں ہے ۔ اور آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اسلام واحد مقبول دین ہے اور یہی ملت ابراہیمی ہے ۔

نویں سبق میں پھر عورتوں کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ ان کے حقوق خصوصا یتامی اور ضعفاء کے حقوق سے بحث کی جاتی ہے بالخصوص بچوں کے بارے میں ۔ اس سورة کا آغاز بھی اسی مضمون سے ہوا تھا ۔ یہ بیان کیا گیا کہ خاوند کی طرف سے بیوی کے بائیکاٹ اور بیوی کی جانب سے نافرمانی کے موقعہ پر کیا انتظامات اور کارروائیاں ہوں گی ۔ عورتوں کے ساتھ عادلانہ معاشرت کے احکام ‘ جس کے بغیر عائلی نظام درست ہی نہیں ہو سکتا اور اگر اصلاح نہ ہو سکے تو بہتر یہ ہوتا ہے کہ فریقین کے درمیان جدائی ہوجائے ۔

خاندان کے متعلق جو احکام آئے ہیں ‘ ان کا اختتامیہ یوں آتا ہے کہ عائلی احکام اور معاشرے کے اندر عدل و انصاف کے قیام کے مقصد کو اللہ کی ذات سے مربوط کردیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ زمین اور آسمانوں کا مالک ہے ۔ وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ تمام موجود مخلوق کو ختم کر دے اور ان کی جگہ بالکل ایک نئی مخلوق پیدا کر دے ۔ لہذا اللہ کے احکام وہدایات پر عمل کا حکم کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ اور ان احکام کا تعلق ذات باری کے ساتھ ہے ‘ جو ایک عظیم ذات ہے ۔ چناچہ قدرتی طور پر دلوں میں خدا کا خوف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں ان کے لئے اپنے معاملات میں عدل و انصاف کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور اپنے پورے معاملات میں خدا کا خوف ان پر غالب ہوتا ہے ۔ جس طرح قرآن کریم کا انداز ہے کہ وہ ایک مخصوص و محدود موضوع کو بھی عام اور وسیع تر دائے کے اندر لا کر بیان کرتا ہے ۔

اب اس پارے کا آخری سبق آتا ہے جو تقریبا نفاق اور منافقین پر تنقید تک محدود ہے ۔ اہل ایمان کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ سچے مسلم ہوجائیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہوں ۔ انہیں اس بات پر متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ جماعت مسلمہ اور اس کی قیادت کے سوا کسی اور حلقے سے دوستانہ روابط قائم نہ کریں اور نہ منافقین اور دشمنان دین کی وجہ سے اور اجتماعی تعلقات اور ذاتی مصلحتوں کی خاطر دین کے معاملے میں سستی یا نرمی کریں ۔ کیونکہ ایسا کرنا بھی درحقیقت نفاق ہوگا ۔ اور منافقین قیامت میں جہنم کی نچلی تہوں میں ہوں گے اور منافقین درحققت کافروں کے دوست ہیں ۔ اس سبق کا خاتمہ صفات الہی کے بیان سے ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ کا اس کے بندوں کے ساتھ تعلق کیا ہے اور یہ کہ گمراہی اور انحراف کرنے والوں کو سزا دینے میں حکمت کیا ہے ؟ اگر وہ ایمان لے آئیں اور شکر گزار ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کو خواہ مخواہ عذاب دہی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔

(آیت) ” مایفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وامنتم وکان اللہ شاکرا علیما “۔ (4 : 147)

(آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے ‘ اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو ۔ اللہ بڑا قدر دان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے)

یہ عجیب انداز کلام ہے ۔ دل پر رحمت کی بارش ہوجاتی ہے ۔ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ سزا دے ۔ وہ تو غنی بادشاہ ہے بشرطیکہ لوگ سیدھی راہ پر آجائیں ۔ اللہ تو شاکر ہے یعنی قدر دان ہے ۔ وہ اپنے فضل اور احسان کی بارش کرتا ہے بشرطیکہ وہ شکر گزار بنیں ۔ لیکن غلطی خود ان کی ہے کہ وہ اللہ کا عذاب خود خریدتے ہیں ۔ اپنے کفر اور انکار کی وجہ سے اور اس فساد فی الارض کی وجہ سے جو زمین پر اور نفس انسانی اور حیات انسانی کے اندر ان کے اس کفر اور انکار کی وجہ سے برپا ہوتا ہے ۔

یوں اس پارے نے اپنے پر پھیلا کر بیشمار مقاصد اور موضوعات کو اپنے اندر چھپا رکھا ہے ۔ غرض بڑی طویل و عریض بحثیں ہیں ۔ یہاں اس تبصرے میں صرف مجمل اشارات مطلوب ہیں ۔ انشاء اللہ ان موضوعات کو ہم جلد ہی تفصیل کے ساتھ لیں گے ۔

درس نمبر 32 ایک نظر میں :

یہ سبق ان مضا میں کا تکملہ ہے ‘ جو عائلی زندگی کی تنظیم اور قواعد فطرت کے مطابق اس کی تشکیل کے سلسلے میں اس سورت میں بیان ہوے تھے ۔ اور اس سبق کے بعد اس اہم موضوع پر صرف دو جگہ تکمیلی بحث ہوگی ۔ یہ موضوع اسلام کی نظر میں اہم اس لئے ہے کہ اس کی درستی پر پوری انسانی زندگی کی درستی اور استواری موقوف ہے ۔ کسی معاشرے میں اگر یہ درست ہوجائے تو پوری انسانی زندگی بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ جاری رہتی ہے اور اس کی تعمیر صحت مند بنیادوں پر ہوتی ہے ۔ اور اگر عائلی زندگی تباہ ہوجائے اور صراط مستقیم سے ہٹ جائے تو اس سے اس کرہ ارض پر ایک عظیم اور ہمہ جہت فساد رونما ہوجاتا ہے ۔

اس سبق میں عورتوں کی وہ تکمیلی فہرست دی جارہی ہے ‘ جن سے نکاح حرام ہے ۔ اس کے بعد وہ منہاج وضع کیا جاتا ہے جس کی اساس پر ایک پاک خاندان کی صورت میں ‘ عورت اور مرد کا اجتماع جائز کیا گیا ہے ۔ اور یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس منہاج کی پابندی سے پاکیزگی اور طہارت کے علاوہ ‘ لوگوں کے لئے بڑی آسانیاں اور سہولتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر وہ تنظیمی قواعد وضع کئے جاتے ہیں جن کی اساس پر ادارئہ خاندان کی عمارت استوار ہوتی ہے ‘ اور اس ادارے میں زوجین کے کاندھوں پر جو ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں یا انہیں جو حقوق دیئے گئے ہیں ان کی توضیح ہے ۔ خاندان کی اس تنظیم کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں بعض مالی حقوق کے بارے میں احکام دیئے جاتے ہیں ‘ چاہے ان کا تعلق حقوق مکتبہ سے ہو یا حقوق موروثی سے ہو ۔ ان حقوق کا تعلق اجتماعی تعلقات سے بھی ہے اور ایک خاندان میں مرد اور عورتوں کے حقوق وراثت سے بھی ہے اسی طرح وہ مسائل بھی بیان ہوئے ہیں جن کا تعلق قرابت کے علاوہ بطور ولایت موروثی حقوق سے ہے ۔

یہ بات عمومی طور قابل لحاظ ہے کہ ان تمام ضابطہ بندیوں اور احکام کے درمیان ایک لطیف ربط پایا جاتا ہے ۔ اور یہ ربط دراصل وہ پہلا اصول ہے کہ یہ تمام احکام اور ضابطہ بندیاں اللہ جل شانہ ‘ کی طرف سے صادر ہوئی ہیں اور یہ اللہ کی الوہیت اور حاکمیت کا ذاتی مقتضاء ہیں کیونکہ اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ترین صفات میں سے ایک صفت اس کی حاکمیت ہے اور اس حاکمیت کا مظہر انسان کے لئے قانون سازی ہے ۔ اور وہ اجتماعی نظام ہے ‘ جس کی اساس پر وہ اپنی زندگی کو استوار کریں گے اور اپنے اجتماعی تعلقات قائم کریں گے ۔

اس لطیف ربط کا سیاق کلام میں بار بار ذکر کیا جاتا ہے اور بار بار اللہ کی اس ذاتی خصوصیت کا ذکر کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان تمام احکام کا نزول اور صدور ذات باری کی طرف سے ہو رہا ہے جو علیم و حکیم ہے ۔ یہ اشارہ ایک حکیمانہ اور معانی سے پر اشارہ ہے اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی میں ‘ جس ذات کی طرف سے اوامروانواہی صادر ہوتے ہیں ‘ وہ علم کامل اور علم شامل رکھنے والی ذات کی طرف سے ہوتے ہیں ‘ وہ ایسی ذات ہے جو حکمت و دانائی کی حامل ہے یہ وہ خدائی خصوصیات ہیں جو انسان میں نہیں پائی جاتیں ‘ اس لئے کہ انسان اس بات کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ انسانی زندگی کے لئے کوئی ضابطہ خود وضع کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی انسان علیم وخبیر خدا کے بنائے ہوئے ضابطے سے منحرف ہوا ‘ اس پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور وہ بےآب وگیاہ میدان میں گم گشتہ راہ ہوگیا اور بلا کسی مرشد وہادی کے سرگردان رہا ۔ لیکن اپنی جہالت اور اپنی ہٹ دھرمی اور اپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے یہی سمجھتا رہا کہ وہ اس دشت کو عبور کرلے گا اور اپنے لئے اور اپنی نجات کے لئے اس راہ سے اچھی راہ تلاش کرلے گا ‘ جس کی طرف سے اللہ بلا رہا ہے ۔

سیاق کلام سے جس دوسری حقیقت کی طرف بار بار اشارہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی منہاج حیات انسان کے لئے نہایت ہی سہل ‘ نہایت ہی حقیقت پسندانہ اور فطری رجحانات کے عین مطابق ہے ‘ بمقابلہ ان نظامہائے زندگی کے جو انسان خود اپنے لئے بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اس کے لئے آسان ہیں حالانکہ انسان کی ناتوانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی نظام اللہ کی عین رحمت اور مہربانی ہے کہ اس نے انسان کے لئے یہ نظام اور منہاج وضع کیا جو ایسا معتدل ہے کہ اس سے ذرہ بھر ادھر ادھر ہونے سے توازن اور اعتدال ختم ہوجاتا ہے اور انسان پر عذاب الہی نازل ہوتا ہے اور وہ ایسی مشقت اور سختی میں مبتلا ہوجاتا ہے جسے جھیلنے کی اس میں قوت ہی نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں اس خود ساختہ نظام کی وجہ سے انسان اپنے انسانی مقام کو کھو دیتا ہے اور گندگی کے گڑھے میں اوندھے منہ جا گرتا ہے ۔

جب ہم نصوص قرآن پر آئندہ صفحات میں تفصیلی بحث کریں گے تو موقعہ بموقعہ انسان کے تاریخی مراحل کی روشنی میں ‘ اس حقیقت کے مصداق کی طرف اشارہ کریں گے اس لئے کہ یہ ایک تاریخی سچائی ہے ۔ ہاں جب جاہلیت دلوں پر پڑدے ڈال دیتی ہے اور آنکھوں کو اندھا کردیتی ہے تو پھر آنکھوں کی روشنی ختم ہوجاتی ہے اور دل بےنور ہوجاتے ہیں اور انسان کسی بھی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا چاہے وہ بہت ہی روشن کیوں نہ ہو ۔

اس سے قبل پارہ چہارم کے آخر میں ان عورتوں کی فہرست دی گئی تھی جو ابدی اور ذاتی حرمت کی بنا پر حرام قرار دی گئی تھیں ۔ یہاں مناسب ہے کہ وہ فہرست دوبارہ پیش نظر رکھی جائے ۔

(آیت) ” ولا تنکحوا مانکح ابآؤکم من النسآء الا ما قد سلف ، انہ کان فاحشۃ ومقتا وسآء سبیلا “۔ (22) حرمت علیکم امھتکم وبنتکم واخوتکم وعمتکم وخلتکم وبنت الاخ وبنت الاخت وامھتکم التی ارضعنکم واخوتکم من الرضاعۃ وامھت نسآئکم وربآئبکم التی فی حجورکم من نسآئکم التی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم وحلآئل ابنائکم الذین من اصلابکم وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف ، ان اللہ کان غفورا رحیما (23) (4 : 22۔ 23)

اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں ان سے ہر گز نکاح نہ کرو ‘ مگر جو پہلے ہوچکا ہوچکا ‘ درحقیقت یہ ایک بےحیائی کا فعل ہے ۔ ناپسندیدہ ہے اور برا چلن ہے تم پر حرام کردی گئیں ہیں تمہاری مائیں ‘ بیٹیاں ‘ بہنیں ‘ پھوپھیاں ‘ خالائیں ‘ بھتجیاں ‘ بھنجیاں ‘ اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایاہو ‘ اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں ‘ اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پڑورش پائی ہے۔ ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن وشو قائم ہوچکا ہو ورنہ اگر تعلق زن وشو نہ ہوا تو (انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیاں سے نکاح کرلینے میں) تم پر کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہوں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو ‘ مگر جو پہلے ہوگیا سو ہوگیا ۔ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔

غرض پارہ پنجم کی یہ آیات پارہ چہارم کی آخری آیات کا تکملہ ہیں ۔ (والمحصنت من النسآئ) ” وہ عورتیں جو دوسروں کے نکاح میں ہوں “۔

ان کو محرمات میں اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ یہ دوسرے مردوں کے حصار نکاح میں ہیں ‘ اس لئے وہ اپنے خاوندوں کے علاوہ دوسروں پر حرام ہیں اور ان کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے ۔ اسلام کے اجتماع نظام کی اساس چونکہ خاندان پر رکھی گئی ہے ‘ اس لئے نکاح اور نکاح کی حرمت اسلامی نظام کی تعمیر میں خشت اول کا درجہ رکھتی ہے ۔ گویا اسلامی نظام میں خاندان پہلی اکائی ہے اور خاندان کو ہر قسم کے اختلاط خصوصا نسب کے اختلاط سے محفوظ رکھنا ضروری ہے ‘ جو عموما بےقید جنسی تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ‘ جس سے فحاشی پھیلتی ہے اور پورا معاشرہ اس میں ملوث ہوجاتا ہے ۔

اسلامی معاشرے کی اکائی سے جو خاندان بنتا ہے ‘ وہ اعلانیہ نکاح پر استوار ہوتا ہے ‘ جس میں ایک عورت ایک مرد کے لئے مخصوص ہوجاتی ہے ۔ اس طرح وہ اس مرد کے حصار میں آجاتی ہے اور محصن ہوجاتی ہے یعنی محفوظ اور مامون ۔ اور یہ نظام وہ مکمل ترین نظام ہے ‘ جو انسانی فطرت اور انسان کی حقیقی ضروریات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے ‘ وہ حاجات و ضروریات جو انسان کے لئے بحیثیت انسان ضروری ہیں ، یہ بات یہاں نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ انسانی زندگی کے بعض ایسے مقاصد ہیں جو اس کے حیوانی مقاصد سے زیادہ اہم بڑے اور واسیع ہیں ۔ اگرچہ ان کے ضمن میں حیوانی مقاصد بھی پورے ہوجاتے ہیں ۔ غرض اسلام کا معاشرتی نظام انسانی سوسائٹی کے مقاصد عالیہ کو بطور اتم پورا کرتا ہے اور وہ اس معاشرے کے لئے امن و اطمینان کے پورے اسباب فراہم کرتا ہے ۔ انسانی نفس اور ضمیر کا امن انسانی گھرانے اور ان کے ذریعے انسانی سوسائٹی کا امن و سکون ۔

یہ بات ایک کھلا مشاہدہ ہے کہ انسان کے بچے کو کسی بھی اور حیوان کے مقابلے میں زیادہ عرصے تک دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور طفولیت کے بعد اس کی علمی اور اخلاقی تربیت کے لئے پھر مزید طویل عرصہ درکار ہوتا ہے تاکہ وہ انسان کی اجتماعی زندگی کے مقتضیات کا ایسا ادراک کرسکے جس کی وجہ سے انسان اور حیوان کے درمیان امتیاز کیا جاسکے ۔

حیوانات کے درمیان جب جنسی اتصال ہوتا ہے اور توالد وتکاثر کا مقصد پورا ہوجاتا ہے تو ان کے جنسی مقاصد پورے ہوجاتے ہیں ‘ لیکن انسان کا کیس یہ ہے کہ اس کے مقاصد صرف ان امور کے پورہونے سے پورے نہیں ہوجاتے ‘ اس کے مقاصد اس سے آگے ہیں ۔ ان میں مرد اور عورت کا دائمی ہم سفر ہونے اور میاں بیوی کے درمیان ایک دائمی رشتے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ پیدا ہونے والے بچے کو حفظ ذات ‘ حفظ حیات انسانی ‘ اور اس کی ضروریات خوردونوش کی فراہمی کے لئے تربیت دی جائے اور تیار کیا جائے ۔ اس کے علاوہ سب سے اہم مقصدیہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک انسانیت نے اس دنیا میں علم اور ٹیکنا لوجی کے میدان میں جو تجربات کئے ہوتے ہیں ‘ انہیں بھی اس کی طرف منتقل کیا جائے تاکہ وہ انسانی معاشرے میں بھرپور حصہ لے سکے اور انسانی ترقی کے اس مسلسل عمل میں ‘ جو صدیوں سے جاری ہے خود اپنے دور میں جس میں یہ بچہ پیدا ہوا اپنا فریضہ ادا کرسکے ۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں تک جنس انسانی کا تعلق ہے ‘ اس کے معاملے میں جنسی لذت کا مقام ایک مرد اور عورت کے باہمی تعلقات میں بہت نیچے آتا ہے ۔ جنسی لذت قدرت الہی نے مرد اور عورت میں محض اس لئے ودیعت فرمائی ہے تاکہ وہ خوشی اور دلچسپی سے باہم ملیں اور اس طرح بقائے بنی نوع انسان کے فریضہ کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کریں ۔ مرد اور عورت کے باہمی میل کی تہہ میں صرف جنسی لذتیت عامل اول نہیں ہے بلکہ اس میں اصل فیکٹر فرائض نوع کی ادائیگی ہے ‘ یعنی اس ناتواں آنے والی نسل کی دیکھ بھال جو اس جنسی ملاپ کی وجہ سے وجود میں لائی جاتی ہے ۔ نیز اس سوسائٹی کے حقوق کی ادائیگی جس پر اس موجود نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہوتی ہے ‘ تاکہ یہ نسل اپنے انسانی اور اجتماعی فرائض ادا کرسکے اور یوں وہ انسانی وجود کے اصلی مقاصد پورے کرسکے ۔

یہ تمام مقاصد یوں پورے ہوتے ہیں کہ جنسی تعلق کو ایک خاندان کی صورت میں منظم کیا جائے اور یہی وہ طریق کار ہے جو انسانی تجربات کے نتیجے میں صحیح ثابت ہوا ہے ۔ اس طریق کار میں ایک عورت ایک مرد کے لئے مخصوص کردی جاتی ہے اور یوں یہ تعلق دائما مستحکم بنیادوں پر استوار ہوتا ہے ۔ خاندان کی تشکیل میں صرف جنسی لذت ہی اصل فیکٹر نہیں اور نہ صرف جنسی بےراہ روی ہی اصل اور فیصلہ کن عنصر ہوتا ہے ‘ نہ اس تعلق کے برقرار رہنے میں اس کے قیام اور دوام میں پیش آنے والی مشکلات کے حل میں صرف یہی عامل کام کرتا ہے اور نہ ہی خاندان کے توڑنے کے عمل کی پشت پر صرف یہی جنسی عمل کام کرتا ہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ خاندان کے مقدس نظام کی اس سے زیادہ اور کوئی توہین نہیں ہو سکتی کہ اسے ادائے فرض کے مقدس عامل کے بجائے صرف شہوت رانی عارضی جنسی خواہشات کی تسکین اور محض لذتیت کی اساس پر منظم کیا جائے ‘ جبکہ یہ سب عوامل بہت ہی عارضی ہوتے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ ایسا تصور پیش کرنا انسان اور انسانیت کے خلاف ایک مجرمانہ کوشش ہے ۔ اس لئے کہ اس طرح معاشرے میں فحاشی ‘ طوائف الملوکی ‘ معاشرتی بےراہ روی ‘ اور معاشرتی شتر بےمہاری جیسی خرابیاں طوفان کی طرح پھیل جاتی ہیں اور اس طرح پورا معاشرہ منہدم ہوجاتا ہے اور اس کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔

اس وقت دنیا میں بعض اہل قلم خاندانی نظام کے خلاف لکھ رہے ہیں ۔ ایک وسیع میڈیا اس کے خلاف لگا دیا گیا ہے ‘ جو نکاح اور خاندانی نظام کے خلاف مسلسل نشرواشاعت میں مصروف ہے اور ان تعلقات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو صرف جنسی لذتیت اور خوش وقتی پر مبنی ہوتے ہیں ‘ جبکہ مستقل خاندانی نظام کی تحقیر کی جاتی ہے ۔ اس بحث سے اچھی طرح معلوم ہوگا کہ ان خطوط پر کام کرنے والے اہل قلم انسانیت کے خلاف کس قدر عظیم جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ ان حضرات کی کوششوں سے خاندانی نظام کی شکل بگڑ گئی ہے اور اس کی اہمیت ختم ہوگئی ہے ۔

اس موضوع پر حضرت عمر ابن خطاب ؓ کے ایک قول میں بڑی گہرائی پائی جاتی ہے ۔ ایک شخص اپنی بیوی کو محض اس لئے طلاق دینا چاہتا تھا کہ اب اسے اس کے ساتھ کوئی محبت نہیں رہی ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ! ” کیا خاندان کی اساس صرف محبت پر ہے ؟ اگر یہی ہے تو پھر بچوں کی پرورش کا کیا بنے گا اور پھر ذمہ داریاں کون سنبھالے گا ۔ “ اور حضرت عمر ؓ نے یہ نظریہ زندگی قرآن کریم کی ہدایت اور تربیت سے اخذ کیا تھا ۔ قرآن کریم نے اللہ کے ان مختار بندوں کی تربیت یوں کی تھی ۔

(آیت) ” وعاشروھن بالمعروف ، فان کرھتموھن فعسی ان تکرھوا شیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا ۔ (4 : 19)

” ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۔ “

اور یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ ممکن حد تک ایک گھرانے کو قائم رکھ جائے ‘ اور قلبی جذبات اور میلانات کا مقابلہ کیا جائے اور ان کو کنٹرول میں رکھا جائے اور مرد وزن کے اس مقدس تعلق کو اس وقت تک نہ توڑا جائے جب تک اسے قائم رکھنے کی آخری کوششیں فیل نہ ہوجائیں ۔ یہ کوشش اسلامی نظام نے اس لئے کی ہے کہ اس خاندان میں پیدا ہونے والے چھوٹے بچوں کا مستقبل تباہ نہ ہوجائے ۔ وہ آنے والے طوفان کے تھپیڑوں اور سرکش جذبات کی رد ‘ اور خواہشات نفسانیہ کی آندھیوں کی زد میں نہ آجائیں ۔

اس بلند اور گہرے نقطہ نظر کی روشنی میں اس یا وہ گوئی کی سطحیت از خود ظاہر ہوجاتی ہے جو خاندانی نظام کے سلسلے میں آبرو باختہ لوگ کرتے ہیں ۔ یہ لوگ مرد وزن کے ہر اس تعلق کے خلاف ہیں جو زوجین پر کچھ فرائض اور حقوق عائد کرتا ہو ‘ جن کا تعلق انسانیت کی قیمتی جنس یعنی نوخیز نسل سے ہو یا اس نوخیز نسل کی ایسی تربیت سے ہو جس میں اس کو جدید ترقی یافتہ زندگی میں اپنے انسانی فرائض سرانجام دینے کے فطری وظیفہ سے ہو اور جس میں تمام نسلوں کے مفادات کو پیش نظر رکھا گیا ہو ‘ جبکہ یہ لوگ ہر اس تعلق کی تعریف اور تمجید کرتے ہیں جس کی اساس وقتی جذبات اور زائل ہونے والی لذتیت پر ہو اور جسے یہ لوگ ترقی کی علامت سمجھتے ہیں ۔

آج کے اس دور میں گندی اور سستی فلمیں اور گندے گم کردہ راہ میڈیا کے ذرائع ‘ ہر منکوحہ عورت کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ جب بھی اس کا دل خاوند سے اچاٹ ہوجائے وہ فورا اپنے لئے دوست تلاش کرلے اور یہ ذرائع ابلاغ ایسی عورت کے فعل کو ایک مقدس فعل تصور کرتے ہیں ‘ جبکہ اپنے حقیقی خاوند کے تعلق کو وہ ” معاہدہ بیع جسم “ کہتے ہیں ‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ بیان محرمات کے سلسلے میں فرماتے ہیں ۔ (والمحصنت من النسآئ) ” وہ عورتیں جو حصار نکاح میں بند ہیں “ اور انہیں حصار نکاح میں بند ہونے کی وجہ سے دوسرے مردوں کیلئے حرام قرار دیتے ہیں ۔ یہ تو ہے اللہ کا فرمان اور وہ ہے فرمان ان آبرو باختہ لوگوں کا جنہیں اس مقدس حصار کے توڑنے کے لئے دشمنان اسلام نے قابو کرلیا ہے اور وہ حصار نکاح کو توڑ کر اسلامی معاشرے میں فحاشی پھیلانا چاہتے ہیں ۔

(آیت) ” واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل “۔ ” اللہ ہی حق کہتا ہے اور صرف وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے “

اس دنیا میں نہایت ہی منظم کوششیں اس لئے صرف کی جارہی ہیں کہ اللہ جل شانہ کی مرضی کے خلاف اقدار حیات ‘ اخلاقی پیمانے اور تصورات ایجاد کئے جائیں اور انسانی زندگی میں ایسے اجتماعی روابط اور ایسی عمرانی بنیادیں رکھی جائیں جو ان روابط اور بنیادوں سے مختلف ہوں جنہیں اللہ نے رائج کیا ۔ اور جو حضرات ان مساعی نامشکور میں رات دن مصروف ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مقصد صرف اسلامی ممالک کے اندر اسلامی معاشرے کی بنیادیں منہدم کرنے تک محدود ہے تاکہ وہ اسلامی ممالک میں اجتماعی زندگی کے نظام کو درہم برہم کر کے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کردیں جو ان ممالک میں ان کے مخصوص مقاصد کی راہ میں حائل ہوں ان اہداف کے تحت وہ مسلمانوں کے عقائد انکے اخلاق اور ان کے اجتماعی نظام کو تباہ کر رہے ہیں لیکن وہ سوچتے نہیں کہ انکی ان غلط مساعی کے نقصانات خود ان کے حق میں کس قدر دور رس ہیں ۔ وہ فقط اسلامی نظام معاشرت ہی کو تباہ نہیں کر رہے بلکہ وہ دراصل پورے عالم انسانیت کی اقدار کو تباہ کر رہے ہیں ‘ وہ اقدار جن پر پوری انسانیت کی اعلی اجتماعی قدریں استادہ ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنی اس پالیسی کی وجہ سے پوری انسانیت کو ان عناصر سے محروم کردیا ہے جن کی وجہ سے انسانیت نے اپنے کاندھوں پر امانت کبری کا بوجھ اٹھا رکھا تھا ۔ یعنی اس کرہ ارض پر بہترین اور ترقی یافتہ نسل کو پروان چڑھانا ان لوگوں کی اس پالیسی کی وجہ سے انسانیت تربیت یافتہ بچوں کی دولت سے محروم ہوگئی ہے جنہوں نے ماں کی گود میں تربیت پائی ہو یاد رہے کہ بچے کے لئے ماں کی گود ہی نرم مطمئن اور پرامن گہوارہ ہوتی ہے اور اس تربیت میں بچہ بےلگام شہوانی جذبات سے مامون ہوتا ہے ۔ نیز وہ بدلتے ہوئے میلانات اور خواہشات کا شکار نہیں ہوتا اور نہ وہ ایسی خواہشات کا کھلونا بنتا ہے جو ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ رخ بدلتی رہتی ہیں ۔ ماں کی گود میں تربیت یافتہ بچہ میں بنی نوع انسان کی اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہو سکتا ہے اور یہ اہداف محض شہوت رانی کی خاطر دو افراد کے ملاپ اور محصوص نسل کشی کی کافر نرسریوں میں بچوں کی پرورش کے اہداف سے بالکل جدا اور مقدس ہیں اور یہ اہداف مستقل پرسکون اور دور رس انسانی فرائض پر مبنی ہیں ۔

اس صورت حال میں پوری انسانی نسل لعنت اور ملامت کی مستحق ہوجاتی ہے ‘ اس لئے انسانیت کا ایک عضو ‘ دوسرے اعضاء کو تباہ کر رہا ہے اور جس میں موجودہ نسل انسانی ‘ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تباہ وبرباد کر رہی ہے ‘ محض اس لئے کہ خود اس کی ذات کا بھلا ہوجائے ‘ اس کی ذاتی اور موجود خواہشات کما حقہ پوری کردی جائیں چاہے مستقبل میں آنے والی نسلوں کی قسمت میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ رہے ۔ اور اللہ کا عذاب ان نسلوں کے لئے قضائے مجرم بن جائے جو اللہ کے احکام کی نافرمان ہو رہی ہیں ‘ جو اس کی تخلیق کردہ فطرت کے خلاف روش رکھتی ہیں اور جو اس کی صریح ہدایت کے خلاف جا رہی ہیں ۔ اور جن کی وجہ سے پورا بنی نوع انسان ان مصائب میں گرفتار ہے ۔ ہاں اس وبال اور عذاب الہی سے وہ مٹھی بھر مومن ضرور محفوظ رہیں گے جو اللہ کے احکام کا اقرار کرتے ہیں ‘ جو اس زمین پر اللہ کی مملکت کے قیام کے لئے کوشاں ہیں اور لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اس کی دعوت دے رہے ہیں اور ان کو اس مٹا دینے والے فساد سے بچانا چاہتے ہیں ‘ جسے انسانیت خود اپنے لئے تیار کر رہی ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ سازش وہ صرف اسلامی ممالک کے خلاف کر رہی ہے تاکہ وہ رکاوٹیں دور ہوں جو ان کی راہ میں حائل ہیں ۔ اور جس کے لئے انہوں نے خود عالم اسلام کے اصحاب قلم اور میڈیا میں کام کرنے والوں کو لگا رکھا ہے اور وہ اپنی ان مساعی کو صرف عالم اسلام کے اندر محدود تصور کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔

(آیت) ” والمحصنت من النسآء الا ملکت ایمانکم “۔ اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام کردی گئیں ہیں جو دوسروں کے حصار نکاح میں ہوں ‘ البتہ ایسی عورتیں ایسی عورتیں اس سے مستثنی ہیں جو جنگ میں تمہارے ہاتھ آئیں ۔ “ اس فقرے میں استثناء ان قیدی عورتوں کے بارے میں ہے جو اسلامی جنگوں میں گرفتار ہو کر آتی تھیں ‘ لیکن وہ دارالحرب اور دارالکفر میں دوسرے لوگوں کے نکاح میں ہوتی تھیں ۔ اس صورت میں ان کا تعلق نکاح ‘ ان کے سابقہ خاوندوں کے ساتھ منقطع ہوجاتا تھا ‘ کیونکہ دارالکفر سے دارالاسلام میں آجانے کی وجہ سے ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے ‘ لہذا اس تبدیلی سے وہ محصنات نہیں رہتیں ۔ اور دارالاسلام میں ان کا کوئی خاوند ہوتا نہیں اور ایک حیض کے آنے ہی سے ان کا رحم سابقہ خاوند کے آثار سے پاک تصور ہوگا ۔ یعنی یہ نتیجہ اخذ کر لیاجائے گا کہ ان کا رحم حمل سے پاک ہے ۔ اگر اب وہ اسلام میں داخل ہوتی ہیں تو ان کے ساتھ نکاح جائز ہوگا ‘ یا جس شخص کے حصے میں وہ آجائیں ‘ اس کے لئے بھی ان کے ساتھ مباشرت جائز ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اس کی مملوکہ ہوجاتی ہیں ۔ اس صورت میں چاہے وہ اسلام لائیں یا نہ لائیں مباشرت جائز ہوگی ۔

ظلال القرآن کے پارہ دوئم میں ہم تفصیل کے ساتھ مسئلہ غلامی کے بارے میں اسلام کے موقف پر بحث کر آئے ہیں اس طرح اس سلسلے میں ایک تفصیلی بحث سورة محمد کی آیت ۔ ” (حتی اذا اثخنتموھم فشدوا الوثاق فاما منا بعد واما فدآء حتی تضع الحرب اوزارھا “۔ (47 : 4)

” یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو ‘ اس کے بعد تمہیں اختیار ہے ‘ احسان کردیا فدیے کا معاملہ کرو ‘ تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے ۔ “ کے تحت کی گئی ہے ۔ وہاں ملاحظہ ہو۔

یہاں اس قدر کافی ہے کہ اسلامی کیمپ اس وقت غلامی کے معاملے میں اپنے مخالف کیمپ کے ساتھ وہی معاملہ کر رہا تھا ‘ جو خود وہ کیمپ اس کے ساتھ کر رہا تھا ۔ جبکہ اسلامی کیمپ بمقابلہ مخالفین کے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کر رہا تھا ۔ اسلامی کیمپ کا سلوک انسانی اخلاق کریمانہ پر مبنی تھا ۔ اور اس کے سوا اسلامی کیمپ کے پاس کوئی چارہ کار بھی نہ تھا اس لئے کہ غلام سازی کا قانون ایک بین الاقوامی مروجہ قانون تھا ‘ اور اسلام کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ یکطرفہ طور پر اس قانون کو ختم کردینے کا اعلان کرتا ۔ اگر ایسا کیا جاتا تو مسلمانوں میں سے جو لوگ غلام ہوتے وہ ہمیشہ کے لئے غلام رہ جاتے اور اہل کفر میں سے جو غلام ہوتے وہ آزاد ہوجاتے ۔ یوں دشمن کے کیمپ کا پلڑا اسلامی کیمپ کے مقابلے میں بھاری ہوجاتا اور مخالف کیمپ کے حوصلے اسلامی کیمپ پر حملہ آور ہونے کے لئے بڑھ جاتے کیونکہ وہ ان حملوں کے نتائج سے ہر طرح مطمئن ہوجاتے بلکہ مخالف کیمپ کو ہر حال میں فائدہ ہوتا ۔

اب یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام کے لئے امر مجبور کافر غلام عورتوں کو اپنے معاشرے میں رکھنا ضروری ہوگیا تھا ‘ تو پھر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ۔ ان عورتوں کے لئے محض کھانے پینے کے انتظام پر اکتفاء نہ کیا جاسکتا تھا ‘ اس لئے کہ اس کے علاوہ ان کے ساتھ ایک دوسری فطری ضرورت بھی لگی ہوئی تھی ۔ اس ضرورت کا سامان کرنا بھی ضروری تھا ‘ اگر یہ سامان نہ کیا جاتا اور یہ گندگی پھیل جاتی ۔ پھر حالت شرک میں ہونے کی وجہ سے اہل اسلام کے لئے انکے ساتھ نکاح جائز نہ تھا ‘ نہ زبردستی انہیں اسلام میں داخل کرنا جائز تھا ‘ اس لئے یہی ایک صورت رہ جاتی تھی کہ وہ جن لوگوں کی مملوکہ ہوں ان کے لئے ان کے ساتھ حالت شرک میں بھی مجامعت کرنا جائز ہو ‘ جب تک ہو مشرکہ ہوں بشرطیکہ ان میں سے جو دارالحرب میں منکوحہ تھیں ان کے رحم کی پاکیزگی کی شرط کو پورا کیا جائے اور دارالکفر میں ان کے خاوندوں کے ساتھ ان کے تعلق کو ختم کردیا جائے ۔

ان محرمات کے بعد ‘ دوسری محرمات کے بیان سے پہلے اور باقی تمام عورتوں کی حالت کے اعلان سے پہلے یہاں یاد دہائی کرنا ضروری ہے کہ اسلامی نظام حیات میں حرام قرار دینے اور حلال قرار دینے کے اختیارات صرف اللہ کے لئے ہیں ۔ اللہ کے سوا یہ اختیارات اور کسی کے پاس نہیں ہیں ۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ انسانوں کے لئے ان کی زندگی کے امور کے بارے میں قانون سازی کرے ۔

(آیت) ” کتب اللہ علیکم “ ” یہ اللہ کا قانون ہے ‘ جس کی پابندی تم پر لازم کی گئی ہے ۔ “ یہ تمہارے ساتھ اللہ کا عہد اور میثاق ہے جو اس کے اور تمہارے درمیان پختہ طور پر طے ہوا ہے ‘ اور اس پر یہ اس کا فرمان ہے ۔ معاملہ محض کسی خواہش کا نہیں ہے کہ اس کے پیچھے دوڑیں ‘ نہ یہ کسی رسم و رواج کا معاملہ ہے جس کا اتباع کیا جاتا ہو اور نہ یہ خاندانی رواج کا معاملہ ہے جس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہو بلکہ یہ اللہ کے میثاق ‘ اس کے عہد اور اس کی کتاب کا تقاضا ہے اور یہی وہ سرچشمہ ہے جس سے اہل ایمان قوانین حلت اور حرمت اخذ کرتے ہیں ‘ اور جو کچھ وہ فرض کر دے اس پر عمل ضروری ہے ‘ وہ جو لکھ دے وہ حرف آخر ہے ‘ اور اس کے بعد یہ کہ اس نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر تم سے مواخذہ بھی ہوگا اور عمل پیرا ہونے کا مطالبہ بھی ہوگا ۔

یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم نے جن عورتوں کو محرمات کی فہرست میں داخل کیا ہے ‘ ان میں سے اکثریت ایام میں بھی حرام تھی ‘ اور ان میں سے ایام جاہلیت میں صرف باپ کی منکوحہ حرام نہ تھی ‘ نیز دو بہنوں کے درمیان بیک وقت نکاح جائز تھا ‘ البتہ ” منکوحہ اب “ کے ساتھ نکاح کو بھی ناپسند ہی کیا جاتا تھا۔ اس نکاح کو ان کے عرف میں نکاح ” مقیت “ کہتے تھے یعنی برا فعل ۔ اسلام نے تقریبا انہی محرمات کو حرام قرار دیا جو جاہلیت میں حرام تھیں ۔ اسلام نے علت تحریم یہ نہ بتائی کہ ایام جاہلیت میں بھی یہ حرام تھیں بلکہ قرآن کریم نے بصراحت یہ حکم دیا کہ ” یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر واجب ہے ۔ “

اس مقام پر ہمیں قدرے توقف کرکے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اسلام میں تصورات اور عقائد اور افکار ونظریات کی اساس کیا ہے ‘ نیز اسلام میں فقہ و قانون کے مصادر اور مآخذ کیا ہیں ؟ یہ غور وفکر کرتے ہوئے اللہ کا یہ بیان ہمارے لئے بہت سے امور میں مفید ہے ۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

آیت 24 وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ چونکہ وہ کسی اور کے نکاح میں ہیں اس لیے آپ پر حرام ہیں۔ ایک عورت کو اگر اس کا شوہر طلاق دے دے تو آپ اس سے نکاح کرسکتے ہیں۔ چناچہ یہ حرمت ابدی نوعیت کی نہیں ہے۔ مُحْصَنٰت“ ان عورتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی کی قید نکاح میں ہوں۔ حِصن قلعے کو کہتے ہیں اور احصان کے معنی کسی شے کو اپنی حفاظت میں لینے کے بھی اور کسی کی حفاظت میں ہونے کے بھی۔ چناچہ مُحْصَنٰت“ وہ عورتیں ہیں جو ایک خاندان کے قلعے کے اندر محفوظ ہیں اور شوہر والیاں ہیں۔ نیز یہ لفظ لونڈیوں کے مقابل آزاد خاندانی شریف زادیوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اِلاَّ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ج۔یعنی جنگ کے نتیجے میں تمہارے ہاں کنیزیں بن کر آجائیں۔ یہ عورتیں اگرچہ مشرکوں کی بیویاں ہیں لیکن وہ لونڈیوں کی حیثیت سے آپ کے لیے جائز ہوں گی۔کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ج ۔یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کردی گئی ہے۔وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ آپ نے دیکھا کہ کتنی تھوڑی سی تعداد میں محرمات ہیں ‘ جن سے نکاح حرام قرار دے دیا گیا ہے ‘ باقی کثیر تعداد حلال ہے۔ یعنی مباحات کا دائرہ بہت وسیع ہے جبکہ محرمات کا دائرہ بہت محدود ہے۔ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ یعنی ان کے مہر ادا کر کے ان کے ساتھ نکاح کرو۔مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ ط یعنی نیت گھر بسانے کی ہو ‘ صرف مستی نکالنے کی نہیں۔ اس کو محض ایک کھیل اور مشغلہ نہ بنا لو۔

میدان جنگ سے قبضہ میں آنے والی عورتیں اور۔۔ متعہ یعنی خاوندوں والی عورتیں بھی حرام ہیں، ہاں کفار عورتیں جو میدان جنگ میں قید ہو کر تمہارے قبضے میں آئیں تو ایک حیض گزارنے کے بعد وہ تم پر حلال ہیں، مسند احمد میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ جنگ اوطاس میں قید ہو کر ایسی عورتیں آئیں جو خاوندوں والیاں تھیں تو ہم نے نبی ﷺ سے ان کی بابت سوال کیا تب یہ آیت اتری ہم پر ان سے ملنا حلال کیا گیا ترمذی ابن ماجہ اور صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے، طبرانی کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ جنگ خیبر کا ہے، سلف کی ایک جماعت اس آیت کے عموم سے استدلال کرکے فرماتی ہے کہ لونڈی کو بیچ ڈالنا ہی اس کے خاوند کی طرف سے اسے طلاق کامل کے مترادف ہے، ابراہیم سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا جب کوئی خاوند والی لونڈی بیچی جائے تو اس کے جسم کا زیادہ حقدار اس کا مالک ہے، حضرت ابی بن کعب حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابن عباس کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ اس کا بکنا ہی اس کی طلاق ہے، ابن جریر میں ہے کہ لونڈی کی طلاقیں چھ ہیں، بیچنا بھی طلاق ہے آزاد کرنا بھی ہبہ کرنا بھی برات کرنا بھی اور اس کے خاوند کا طلاق دینا بھی (یہ پانچ صورتیں تو بیان ہوئیں چھٹی صورت نہ تفسیر ابن کثیر میں ہے نہ ابن جریر میں۔ مترجم) حضرت ابن المسیب فرماتے ہیں کہ خاوند والی عورتوں سے نکاح حرام ہے لیکن لونڈیاں ان کی طلاق ان کا بک جانا ہے، حضرت معمر اور حضرت حسن بھی یہی فرماتے ہیں ان بزرگوں کا تو یہ قول ہے لیکن جمہور ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ بیچنا طلاق نہیں اس لئے کہ خریدار بیچنے والے کا نائب ہے اور بیچنے والا اس نفع کو اپنی ملکیت سے نکال کر بیچ رہا ہے، ان کی دلیل حضرت بریرہ والی حدیث ہے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے جب انہیں خرید کر آزاد کردیا تو ان کا نکاح مغیث سے فسخ نہیں ہوا بلکہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فسخ کرنے اور باقی رکھنے کا اختیار دیا اور حضرت بریرہ نے فسخ کرنے کو پسند کیا یہ واقعہ مشہور ہے، پس اگر بک جانا ہی طلاق ہوتا جیسے ان بزرگوں کا قول ہے تو آنحضرت ﷺ حضرت بریرہ کو ان کے بک جانے کے بعد اپنے نکاح کے باقی رکھنے نہ رکھنے کا اختیار نہ دینے، اختیار دینا نکاح کے باقی رہنے کی دلیل ہے، تو آیت میں مراد صرف وہ عورتیں ہیں جو جہاد میں قبضہ میں آئیں واللہ اعلم۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ محصنات سے مراد پاک دامن عورتیں ہیں یعنی عفیفہ عورتیں جو تم پر حرام ہیں جب تک کہ تم نکاح اور گواہ اور مہر اور ولی سے ان کی عصمت کے مالک نہ بن جاؤ خواہ ایک ہو خواہ دو خواہ تین خواہ چار ابو العالیہ اور طاؤس یہی مطلب بیان فرماتے ہیں۔ عمر اور عبید فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ چار سے زائد عورتیں تم پر حرام ہیں ہاں کنیزوں میں یہ گنتی نہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ حرمت اللہ تعالیٰ نے تم پر لکھ دی ہے یعنی چار کی پس تم اس کی کتاب کو لازم پکڑو اور اس کی حد سے آگے نہ بڑھو، اس کی شریعت اور اس کے فرائض کے پابند رہو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حرام عورتیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ظاہر کردیں۔ پھر فرماتا ہے کہ جن عورتوں کا حرام ہونا بیان کردیا گیا ان کے علاوہ اور سب حلال ہیں، ایک مطلب یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان چار سے کم تم پر حلال ہیں، لیکن یہ قول دور کا قول ہے اور صحیح مطلب پہلا ہی ہے اور یہی حضرت عطا کا قول ہے، حضرت قتادہ اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد لونڈیاں ہیں، یہی آیت ان لوگوں کی دلیل ہے جو دو بہنوں کے جمع کرنے کی حلت کے قائل ہیں اور ان کی بھی جو کہتے ہیں کہ ایک آیت اسے حلال کرتی ہے اور دوسری حرام۔ پھر فرمایا تم ان حلال عورتوں کو اپنے مال سے حاصل کرو چار تک تو آزاد عورتیں اور لونڈیاں بغیر تعین کے لیکن ہو بہ طریق شرع۔ اسی لئے فرمایا زنا کاری سے بچنے کے لئے اور صرف شہوت رانی مقصود نہیں ہونا چاہئے۔ پھر فرمایا کہ جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاؤ ان کے اس فائدہ کے مقابلہ میں مہر دے دیا کرو، جیسے اور آیت میں ہے و کیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض یعنی تم مہر کو عورتوں سے کیسے لو گے حالانکہ ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور فرمایا و اتوا النساء صدقاتہن نحلتہ عورتوں کے مہر بخوشی دے دیا کرو اور جگہ فرمایا ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتمو ہن شیأا الخ، تم نے جو کچھ عورتوں کو دے دیا ہو اس میں سے واپس لینا تم پر حرام ہے، اس آیت سے نکاح متعہ پر استدلال کیا ہے بیشک متعہ ابتداء اسلام میں مشروع تھا لیکن پھر منسوخ ہوگیا، امام شافعی اور علمائے کرام کی ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ دو مرتبہ متعہ مباح ہوا پھر منسوخ ہوا۔ بعض کہتے ہیں اس سے بھی زیادہ بار مباح اور منسوخ ہوا، اور بعض کا قول ہے کہ صرف ایک بار مباح ہوا پھر منسوخ ہوگیا پھر مباح نہیں ہوا۔ حضرت ابن عباس اور چند دیگر صحابہ سے ضرورت کے وقت اس کی اباحت مروی ہے، حضرت امام احمد بن حنبل سے بھی ایک روایت ایسی ہی مروی ہے ابن عباس ابی بن کعب سعید بن جیبر اور سدی سے منہن کے بعد الی اجل مسمی کی قرأت مروی ہے، مجاہد فرماتے ہیں یہ آیت نکاح متعہ کی بابت نازل ہوئی ہے، لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں اور اس کا بہترین فیصلہ بخاری و مسلم کی حضرت علی والی روایت کردیتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر والے دن نکاح متعہ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمادیا، اس حدیث کے الفاظ کتب احکام میں مقرر ہیں، صحیح مسلم شریف میں حضرت سیرہ بن معبد جہنی ؓ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے غزوہ میں وہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے آپ نے ارشاد فرمایا اے لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی رخصت دی تھی یاد رکھو بیشک اب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے جس کے پاس اس قسم کی کوئی عورت ہو تو اسے چاہئے کہ اسے چھوڑ دے اور تم نے جو کچھ انہیں دے رکھا ہو اس میں سے ان سے کچھ نہ لو، صحیح مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع میں یہ فرمایا تھا، یہ حدیث کئی الفاظ سے مروی ہے، جن کی تفصیل کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں، پھر فرمایا کہ تقرر کے بعد بھی اگر تم بہ رضامندی کچھ طے کرلو تو کوئی حرج نہیں، اگلے جملے کو متعہ پر محمول کرنے والے تو اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب مدت مقررہ گزرجائے پھر مدت کو بڑھا لینے اور جو دیا ہو اس کے علاوہ اور کچھ دینے میں کوئی گناہ نہیں، سدی کہتے ہیں اگر چاہے تو پہلے کے مقرر مہر کے بعد جو دے چکا ہے وقت کے ختم ہونے سے پیشتر پھر کہہ دے کہ میں اتنی اتنی مدت کے لئے پھر متعہ کرتا ہوں پس اگر اس نے رحم کی پاکیزگی سے پہلے دن بڑھا لئے تو جب مدت پوری ہوجائے تو پھر اس کا کوئی دباؤ نہیں وہ عورت الگ ہوجائے گی اور حیض تک ٹھہر کر اپنے رحم کی صفائی کرلے گی ان دونوں میں میراث نہیں نہ یہ عورت اس مرد کی وارث نہ یہ مرد اس عورت کا، اور جن حضرات نے اس جملہ کو نکاح مسنون کے مہر کی کے مصداق کہا ہے ان کے نزدیک تو مطلب صاف ہے کہ اس مہر کی ادائیگی تاکیداً بیان ہو رہی ہے جیسے فرمایا مہر بہ آسانی اور بہ خوشی دے دیا کرو، اگر مہر کے مقرر ہوجانے کے بعد عورت اپنے پورے حق کو یا تھوڑے سے حق کو چھوڑ دے صاف کر دے اس سے دست بردار ہوجائے تو میاں بیوی میں سے کسی پر کوئی گناہ نہیں، حضرت حضرمی فرماتے ہیں کہ لوگ اقرار دیتے ہیں پھر ممکن ہے کہ تنگی ہوجائے تو اگر عورت اپنا حق چھوڑ دے تو جائز ہے، امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ مہر کی رقم پوری پوری اس کے حوالے کردے پھر اسے بسنے اور الگ ہونے کا پورا پورا اختیار دے، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ علیم و حکیم ہے ان کا احکام میں جو حلت و حرمت کے متعلق ہیں جو رحمتیں ہیں اور جو مصلحتیں ہیں انہیں وہی بخوبی جانتا ہے۔

آیت 24 - سورہ نساء: (۞ والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم ۖ كتاب الله عليكم ۚ وأحل لكم ما وراء ذلكم أن تبتغوا...) - اردو