سورہ نساء: آیت 174 - يا أيها الناس قد جاءكم... - اردو

آیت 174 کی تفسیر, سورہ نساء

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَكُم بُرْهَٰنٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا

اردو ترجمہ

لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu qad jaakum burhanun min rabbikum waanzalna ilaykum nooran mubeenan

آیت 174 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 174۔

(آیت) ” یایھا الناس قد جآء کم برھان من ربکم “۔ (4 : 174) (” لوگو ! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آگئی ہے “

قرآن کریم ایک ایسا کلام ہے جس کے اندر ایسے شواہد موجود ہیں کہ وہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے ۔ اس کے اندر ربانی کاریگری کے شواہد پائے جاتے ہیں اور اس کو یہ شواہد انسانوں کے کلام سے ممتاز کرتے ہیں۔ کلام الہی میں الفاظ کی نشست وبرخاست اور روانی قابل دید ہوتی ہے ۔ اور کلام اللہ کی فصاحت اور بلاغت ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس سے نہ صرف یہ کہ انکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ بعض واقعات ایسے بھی دیکھنے میں آئے ہیں جو ناقابل یقین نظر آتے ہیں مثلا وہ لوگ جو عربی زبان سے بالکل ناواقف ہیں وہ بھی جب قرآن مجید کی تلاوت سنتے ہیں تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ہم لوگ بحری جہاز پر سوار تھے ۔ بحراوقیانوس میں جانب امریکہ سفر کر رہے تھے ۔ ہم نے عرشہ پر جمعہ کی نماز کا اہتمام کیا ۔ ہم میں سے چھ آدمی مختلف عرب ممالک کے باشندے تھے اور کچھ دوسری قومیتوں اور نوبہ کے حبشی بھی تھے جو جہاز کے عملے میں شامل تھے ۔

میں نے خطبہ دیا اور خطبے میں قرآن کریم کی بعض آیات تلاوت کیں ۔ اس جہاز کے تمام باشندے ہمارے نماز کے اس اجتماع کو گھیرے ہوئے تھے ۔ یہ مختلف قومیتوں کے لوگ تھے ۔ غور سے دیکھ رہے تھے ۔

نماز کے بعد بہت سے لوگ ہمارے پاس آتے اور اپنے تاثرات بیان کرتے رہے ۔ لیکن ان میں یوگوسلاویہ کی ایک محترمہ بہت ہی متاثر تھی ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے وہ اپنی وہ اپنی کمزور انگریزی میں ہم سے یوں کہنے لگی کہ تمہاری عبادت کے اندر جو خشوع و خضوع ہے میں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔ مجھے تمہاری زبان کا ایک لفظ بھی نہیں آتا لیکن اس زبان کے اندر ایک ایسا صوتی ترنم ہے جو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ خطیب کے خطبہ میں بعض جملے نہایت ہی ممتاز ہیں اور ان کا مجھ پر بہت ہی اثر ہوا ہے ۔ میں سمجھ گیا کہ وہ خاص فقرے قرآنی آیات کے وہ حصے اور ٹکڑے تھے جو اپنی فصاحت وبلاغت کے اندر نہایت ہی ممتاز ہوتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ جو لوگ عربی نہیں جانتے ان کے ہاں یہ قاعدہ کلیہ ہے اور ہر قاری کی تلاوت قرآن کا سامعین پر ضرور ایسا ہی اثر ہوتا ہے لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ یہ قرآن کا بالکل ایک واضح وصف ہے کہ اس کی آواز ایسے لوگوں کو بھی مسحور کردیتی ہے جو بالکل عربی نہیں جانتے ۔

رہے وہ لوگ جو عربی کا خاص ذوق رکھتے ہیں اور جو عربی کے مختلف اسالیب سے واقف ہیں ‘ ان پر قرآن کے اثرات کی عجیب و غریب حکایات تاریخ کا حصہ ہیں ۔ جب حضور خود اہل کعبہ پر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تھے ۔ تو اخنس ابن شریق ‘ ابو سفیان ابن حرب ‘ اور ابو جہل کا قصہ بہت ہی مشہور ہے ۔ سیرت ابن ہشام میں اس کی تفصیلات مذکور ہیں۔

کہتے ہیں کہ ایک رات ابوسفیان ابن حرب ‘ ابوجہل اور اخنس ابن شریق ثقفی ‘ بنی زہرہ کے حلیف رات کے وقت اپنی اپنی جگہ سے چل پڑے تاکہ حضور کا کلام سنیں جبکہ آپ رات کے وقت اپنے گھر میں نماز کے وقت تلاوت فرماتے تھے ۔ ہر شخ ایک بیٹھ گیا اور قرآن کریم کی تلاوت سے لطف اندوز ہوتا رہا ۔ ان میں سے کسی کو بھی دوسرے کے بارے میں خبر نہ تھی ۔ وہ رات کے وقت کلام الہی سنتے رہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی ۔ جب واپس ہونے لگے تو یہ سب ایک دوسرے سے راستے میں مل گئے ۔ انہوں نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور یہ بات نوٹ کی گئی کہ اگر کسی عام شخص نے دیکھ لیا تو وہ اس تحریک کا شکار ہوجائے گا ‘ پھر وہ واپس چلے گئے ، جب دوسری رات ہوئی تو پھر تینوں نہ رہ سکے اور پھر اپنے اپنے خفیہ مقامات پر بیٹھ گئے ‘ رات کو قرآن کریم سنتے رہے ‘ جب صبح ہونے لگی تو اتفاقا پھر راستے میں تینوں کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے پہلے طرح ایکدوسرے کو ملامت کی ۔ جب تیسری رات ہوئی تو پھر یہ تینوں قرآن کریم کو سننے کیلئے پہنچ گئے ، رات گئے تک قرآن کریم سنتے رہے اور جب صبح کو لوٹنے لگے تو پھر راستے میں ایک دوسرے کو دیکھ لیا ۔ اب کے انہوں نے کہا کہ جب تک ہم حلف نہ اٹھالیں گے ہم رک نہ سکیں گے ۔ اس کے بعد انہوں نے حلف پر معاہدہ کیا اور گھروں کو چلے گئے ۔

یہ تو ایک قصہ تھا ‘ ان لوگوں کا جن کو زبان عربی اور قرآن کریم کے اندر ایک ذوق ہے ۔ وہ جس دور میں بھی ہوں وہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم بذات خود ایک سطان اور برہان ہے اور لفظی اور معنوی لحاظ سے معجزہ ہے ۔

جہاں تک معنوعی اعجاز کا تعلق ہے تو قرآن کریم نے جو فکر پیش کی ہے ‘ جو نظام زندگی اس نے پیش کیا ہے ‘ اور زندگی کا جو نقشہ اس نے تجویز کیا ہے اس جگہ ہم اس کی تفصیلات نہیں دے سکتے ۔ لیکن ان تمام پہلوؤں سے بھی قرآن کریم معجزہ ہے اور اس کے اندر برہان اور سلطان موجود ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا مصدر اور منبع کیا ہے اور یہ کہ وہ انسانی کلام نہیں ہے ۔ اس کا انداز اور طرز ادا ایسی ہے جو کسی انسانی کلام کے اندر نہیں ہوتی ۔ اس لئے (آیت) ” وانزلنا الیکم نورا “۔ (4 : 174) ” اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے ۔ “ ۔۔۔۔۔۔ ایسی روشنی جس کی شعاعوں میں اشیاء کی صحیح حقیقت نظر آتی ہے اور بہت ہی واضح نظر آتی ہے اور جس کی روشنی میں زندگی کے دو را ہے پر انسان کو حق و باطل کے راستوں میں سے حق کا راستہ صحیح نظر آتا ہے ۔ نفس کی داخلی راہوں کے اندر بھی اور زندگی کی خارجی شاہراہوں پر بھی ۔ جو نفس قرآن کی روشنی سے منور ہو اسے اپنا ماحول اچھی طرح نظر آتا ہے ۔

اس نور کے مقابلے میں دھند چھٹ جاتی ہے ‘ فضا کھل جاتی ہے اور پھر حقیقت واضح اور کھلی نظر آتی ہے ۔ جب یہ روشنی نفس انسانی کو حاصل ہوجاتی ہے تو انسان اپنے اوپر ہنسنے لگتا ہے کہ حقیقت تو بہت ہی کھلی تھی ‘ لیکن تعجب ہے کہ اسے نظر نہ آرہی تھی ۔

اور جب کوئی انسان اپنی روح کے ساتھ کچھ عرصہ قرآنی فضا کے اندر رہے اور قرآن سے اپنے تصورات ‘ حسن وقبح کے پیمانے اور اپنی اقدار اخذ کرلے تو وہ تمام معاملات کو نہایت ہی آسانی ‘ نہایت ہی سادگی اور نہایت ہی وضاحت کے ساتھ دیکھتا ہے اور پھر اسے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ کئی ایسے فیصلے جو اس نے کئے اور جو اس کے لئے خلجان کا باعث تھے ‘ اور وہ اسے سمجھ نہ آتے تھے ‘ اب بڑی آسانی سے اس کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ اب حقائق بڑی آسانی سے نکھر جاتے ہیں اور حقائق کے ساتھ جو مزید آلودگیاں تھیں ختم ہوجاتی ہیں اور تمام حقائق اس طرح ذہن میں اتر جاتے ہیں جس طرح ابھی اللہ کی جانب سے صاف و شفاف ہو کر سامنے آئے ہوں ۔

کس قدر کم الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ (آیت) ” (وانزلنا الیکم نورا مبینا) (4 : 174) ” اور ہم نے تم پر واضح کرنے والی روشنی اتاری ہے “۔ میں نے ان الفاظ کی تشریح اور ان پر تبصرہ صرف اس شخص کی خاطرہ کیا ہے جس نے اپنے اندر کتاب اللہ کی کچھ روشنی پائی ہو ‘ اس شخص کیلئے نہیں جس کے اندر اس روشنی کی کوئی چمک ہی نہ ہو ۔ یہ روحانی روشنی اس وقت حاصل کی جاسکتی ہے جب انسان اس کیلئے دلی کوشش کرے اور ذاتی ذوق پیدا کرے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ قرآنی علوم کے اندر تجربہ رکھتا ہوں اور براہ راست قرآن سے روشنی پانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

آیت 174 یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ یہ قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ دونوں کی طرف اشارہ ہے۔ قرآن اور محمد ﷺ مل کر برہان ہوں گے۔ تعارف قرآن کے دوران ذکر ہوچکا ہے کہ کتاب اور رسول ﷺ مل کر بیّنہ بنتے ہیں ‘ جیسا کہ سورة البیّنہ آیات 1 تا 3 میں ارشاد ہوا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں اسی بیّنہکو برہان کہا گیا ہے۔یہاں چونکہ نور کے ساتھ لفظ انزال آیا ہے اس لیے اس سے مراد لازماً قرآن مجید ہی ہے۔

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مکمل دلیل اور حجت تمام ہے اللہ تبارک و تعالیٰ تمام انسانوں کو فرماتا ہے کہ میری طرف سے کامل دلیل اور عذر معذرت کو توڑ دینے والی، شک و شبہ کو الگ کرنے والی برہان (دلیل) تمہاری طرف نازل ہوچکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف کھلا نور صاف روشنی پورا اجالا اتار دیا ہے، جس سے حق کی راہ صحیح طور پر واضح ہوجاتی ہے۔ ابن جریج وغیرہ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن کریم ہے۔ اب جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور توکل اور بھروسہ اسی پر کریں، اس سے مضبوط رابطہ کرلیں، اس کی سرکار میں ملازمت کرلیں، مقام عبودیت اور مقام توکل میں قائم ہوجائیں، تمام امور اسی کو سونپ دیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ پر ایمان لائیں اور مضبوطی کے ساتھ اللہ کی کتاب کو تھام لیں ان پر اللہ اپنا رحم کرے گا، اپنا فضل ان پر نازل فرمائے گا، نعمتوں اور سرور والی جنت میں انہیں لے جائے گا، ان کے ثواب بڑھا دے گا، ان کے درجے بلند کر دے گا اور انہیں اپنی طرف لے جانے والی سیدھی اور صاف راہ دکھائے گا، جو کہیں سے ٹیڑھی نہیں، کہیں سے تنگ نہیں۔ گویا وہ دنیا میں صراط مستقیم پر ہوتا ہے۔ راہ اسلام پر ہوتا ہے اور آخرت میں راہ جنت پر اور راہ سلامتی پر ہوتا ہے۔ شروع تفسیر میں ایک پوری حدیث گذر چکی ہے جس میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ اللہ کی سیدھی راہ اور اللہ کی مضبوط رسی قرآن کریم ہے۔

آیت 174 - سورہ نساء: (يا أيها الناس قد جاءكم برهان من ربكم وأنزلنا إليكم نورا مبينا...) - اردو