اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 171 یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لاَ تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلاَ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ الاَّ الْحَقَّ ط۔تم آپس کے معاملات میں تو جھوٹ بولتے ہی ہو ‘ مگر اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنا ‘ جھوٹ بول کر اللہ پر اسے تھوپنا کہ اللہ کا یہ حکم ہے ‘ اللہ نے یوں کہا ہے ‘ یہ تو وہی بات ہوئی : بازی بازی با ریش با با ہم بازی !اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ایک رسول علیہ السلام تھے اور بس ! اُلوہیّت میں ان کا کوئی حصّہ نہیں ہے ‘ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں۔وَکَلِمَتُہٗج اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ ز یعنی حضرت مریم علیہ السلام کے رحم میں جو حمل ہوا تھا وہ اللہ کے کلمۂ کُن کے طفیل ہوا۔ بچے کی پیدائش کے طبعی عمل میں ایک حصہ باپ کا ہوتا ہے اور ایک ماں کا۔ اب حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت میں ماں کا حصہ تو پورا موجود ہے۔ حضرت مریم علیہ السلام کو حمل ہوا ‘ نو مہینے آپ علیہ السلام رحم میں رہے ‘ لیکن یہاں باپ والا حصہ بالکل نہیں ہے اور باپ کے بغیر ہی آپ علیہ السلام کی پیدائش ممکن ہوئی۔ ایسے معاملات میں جہاں اللہ کی مشیّت سے ایک لگے بندھے طبعی عمل میں سے اگر کوئی کڑی اپنی جگہ سے ہٹائی جاتی ہے تو وہاں پر اللہ کا مخصوص امر کلمۂکُن کی صورت میں کفایت کرتا ہے۔ یہاں پر اللہ کے کلمہ کا یہی مفہوم ہے۔جہاں تک حضرت مسیح علیہ السلام کو رُوْحٌ مِّنْہُقرار دینے کا تعلق ہے تو اگرچہ سب انسانوں کی روح اللہ ہی کی طرف سے ہے ‘ لیکن تمام روحیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ بعض روحوں کے بڑے بڑے اونچے مراتب ہوتے ہیں۔ ذرا تصور کریں روح محمدی ﷺ کی شان اور عظمت کیا ہوگی ! روح محمدی ﷺ کو عام طور پر ہمارے علماء نور محمدی ﷺ کہتے ہیں۔ اس لیے کہ روح ایک نورانی شے ہے۔ ملائکہ بھی نور سے پیدا ہوئے ہیں اور انسانی ارواح بھی نور سے پیدا ہوئی ہیں۔ لیکن سب انسانوں کی ارواح برابر نہیں ہیں۔ حضور ﷺ کی روح کی اپنی ایک شان ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کی اپنی ایک شان ہے۔فَاٰمِنُوْا باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ قف ولا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ ط اِنْتَہُوْا خَیْرًا لَّکُمْ ط یہ مت کہو کہ الوہیت تین میں ہے۔ ایک میں تین اور تین میں ایک کا عقیدہ مت گھڑو۔
آیت 172 لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَلاَ الْمَلآءِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ ط مسیح علیہ السلام کو تو اللہ کا بندہ ہونے میں اپنی شان محسوس ہوگی۔ جیسے ہم بھی حضور ﷺ کے بارے میں کہتے ہیں : وَنَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ تو عبدیت کی شان تو بہت بلند وبالا ہے ‘ رسالت سے بھی اعلیٰ اور ارفع۔ یہ ایک علیحدہ مضمون ہے ‘ جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔ چناچہ حضرت مسیح علیہ السلام کے لیے یہ کوئی عار کی بات نہیں ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں۔
آیت 173 فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ وَیَزِیْدُہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ ج۔ایسے لوگوں کو ان کے اجر کے علاوہ بونس بھی ملے گا۔ جیسے آپ کسی کام کرنے والے کو اچھا کام کرنے پر اجرت کے علاوہ انعام tip بھی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے خزانۂ فضل سے انہیں ان کے مقررہ اجر سے بڑھ کر نوازے گا۔
آیت 174 یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ یہ قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ دونوں کی طرف اشارہ ہے۔ قرآن اور محمد ﷺ مل کر برہان ہوں گے۔ تعارف قرآن کے دوران ذکر ہوچکا ہے کہ کتاب اور رسول ﷺ مل کر بیّنہ بنتے ہیں ‘ جیسا کہ سورة البیّنہ آیات 1 تا 3 میں ارشاد ہوا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں اسی بیّنہکو برہان کہا گیا ہے۔یہاں چونکہ نور کے ساتھ لفظ انزال آیا ہے اس لیے اس سے مراد لازماً قرآن مجید ہی ہے۔
آیت 175 فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ یکسو ہوجائیں گے ‘ خالص اللہ والے بن جائیں گے ‘ مذبذب نہیں رہیں گے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر ‘ بلکہ پوری طرح سے یکسو ہو کر اللہ کے دامن سے وابستہ ہوجائیں گے۔فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍلاوَّیَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ۔یَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ یعنی اپنی طرف ہدایت دے گا۔ انہیں سیدھے راستے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے گا اور سہج سہج ‘ رفتہ رفتہ انہیں اپنے خاص فضل و کرم اور جوار رحمت میں لے آئے گا۔