سورہ نساء: آیت 172 - لن يستنكف المسيح أن يكون... - اردو

آیت 172 کی تفسیر, سورہ نساء

لَّن يَسْتَنكِفَ ٱلْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ ٱلْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا

اردو ترجمہ

مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو، اور نہ مقرب ترین فرشتے اِس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lan yastankifa almaseehu an yakoona AAabdan lillahi wala almalaikatu almuqarraboona waman yastankif AAan AAibadatihi wayastakbir fasayahshuruhum ilayhi jameeAAan

آیت 172 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 172 تا 173۔

قرآن کریم نے عقیدہ توحید لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کی بڑی کوشش کی ہے ۔ ایسی وحدانیت جس کے اندر شرک کا کوئی شائبہ نہ ہو اور نہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کیلئے کسی قسم کا تشبہ لازم آتا ہو ۔ قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ اللہ جیسا کوئی بھی نہیں ہے اور نہ کوئی چیز اس جیسی ہے ۔ نہ اللہ کی ماہیت میں اس کا کوئی شریک ہے ۔ نہ صفت میں اس کے ساتھ کوئی شریک ہے ۔ نہ خاصیت میں اس کے ساتھ کوئی شریک ہے ۔ اور قرآن کریم نے خالق اللہ اور مخلوقات کے درمیان ایک ہی رابطہ جائز رکھا ہے ۔ اور وہی حقیقت ہے کہ اللہ کے سوا تمام اشیاء (جس میں زندہ مخلوق بھی ہے) اس کے بندے اور تابع فرمان ہیں ۔ جو شخص بھی قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ دیکھے گا کہ قرآن کریم نے اس حقیقت کو ذہن نشین کرانے کیلئے بہت ہی زور دیا ہے۔ اس حقیقت کے ہر پہلو کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ اس طرح کہ انسان کے دماغ میں کوئی شیڈ ‘ کوئی شک اور کوئی پیچیدگی نہ رہے ۔

پھر قرآن نے مزدی یہ دعوی بھی کیا ہے کہ یہ وہ حقیقت ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے اس لئے قرآن کریم نے ہر رسول کی سیرت کے واقعات بیان کرتے وقت اور ہر رسول کی دعوت کا خلاصہ پیش کرتے وقت یہ کہا ہے کہ تمام رسولوں کی دعوت عقیدہ توحید کی طرف رہی ہے ۔ نوح (علیہ السلام) کی رسالت کا یہی عقیدہ رہا ہے اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا محور بھی عقیدہ توحید رہا ہے ہر رسول کی دعوت میں یہ فقرہ بنیادی رہا ہے ۔ (یاقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ) ” اے قوم ! اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے ۔ “ لہذا یہ بات نہایت ہی تعجب انگیز تھی کہ ان سماوی ادیان کے پیروکاروں میں سے کوئی شخص یا قوم عقیدہ توحید کے اندر تحریف کرے ‘ حالانکہ ان ادیان میں عقیدہ توحید مرکزی نکتہ رہا ہے اور ان ادیان نے اسے نہایت ہی قطعی اور فیصلہ کن انداز میں پیش کیا ہے ۔ لہذا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی دین سماوی کے پیروکار اللہ کے لئے کسی کو بیٹے یا بیٹیاں قرار دیں ۔ یا یہ کہ ذات باری اقانیم کی صورت میں کسی مخلوق کے اندر امتزاج اختیار کرے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے عقائد صرف باہر کے بت پرستوں ہی سے اخذ کئے جاسکتے ہیں۔

اسلام میں تو الوہیت اور عبودیت باہم متقابل ہیں یہی اسلام کی اساس ہے ۔ اللہ اور بندے کے درمیان حاکم و محکوم اور معبود اور عابد کے سوا کوئی اور تعلق نہیں ہوسکتا تھا ۔ محکوم اور عابد مخلوق ہوگی اور حاکم اور معبود اللہ ہوگا ۔

جب تک لوگ اس سیدھے نظریے اور عقیدے کو قبول نہ کریں گے نہ ان کی زندگی درست ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کے تصورات درست ہو سکتے ہیں ورنہ ان کے خیالات میں خواہ مخواہ کوئی شیڈ کوئی ملاوٹ اور کوئی شبہ موجود رہے گا ۔

ہاں یہ درست ہے کہ لوگوں کی زندگی اس وقت تک درست نہیں ہوسکتی اور نہ ان کی سوچ میں ٹھہراؤ پیدا ہو سکتا ہے جب تک انہیں اپنے اور اپنے رب کے درمیان اس رابطے کا یقین نہ ہوجائے کہ رب ان کا حاکم ہے اور وہ اس کے محکوم ہیں۔ رب خالق ہے اور وہ مخلوق ہیں ۔ رب ان کا مالک ہے اور وہ اس کے مملوک ہیں ۔ یہ سب بندے اور مخلوقات اپنی اس حیثیت میں ایک جیسے ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی اللہ کا بیٹا نہیں ہے ۔ کسی کے ساتھ اللہ کا امتزاج نہیں ہے اس لئے اللہ کے ساتھ کسی کی کوئی قرابت نہیں ہے ۔ الا یہ کہ کسی کے پاس ایمان اور عمل کی کوئی پونجی ہو اور وہ اس پونجی کو اللہ کے سامنے قلبی رجحان کے ساتھ پیش کرے اور یہ تقرب وہ ہے جو اللہ کے ساتھ اس کی مخلوق میں ہر شخص حاصل کرسکتا ہے ۔ رہی یہ بات کہ کوئی اللہ کا بیٹا ہے یا یہ کہ کسی کے ساتھ اللہ نے امتزاج اختیار کرلیا ہے تو یہ کسی بشر کو بھی حاصل نہیں ہے ۔

جب تک لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں یہ حقیقت نہیں بیٹھ جاتی کہ وہ سب کے سب ایک ہی رب کے بندے اور غلام ہیں ‘ اس وقت تک ان کی زندگی درست ہو سکتی ہے ‘ نہ ان کے باہمی رابطے قائم ہو سکتے ہیں اور نہ وہ فرائض حیات کو اچھی طرح سرانجام دے سکتے ہیں ۔ اس تصور کا نتیجہ یہ ہے کہ احکم الحاکمین کے ساتھ سب کا موقف برابر فاصلے پر ہوگا اور اس کے ساتھ قرب حاصل کرنا سب کیلئے کھلا ہوگا ۔ یوں تمام بنی نوع انسان کے درمیان مرتبہ کے اعتبار سے مکمل مساوات ہوگی ۔ اس طرح کہ مالک الملک کے ساتھ ان کا فاصلہ برابر ہوگا اور یہاں پر وہ کھوٹا اور غلط دعوی بالکل باطل ہوجائے گا کہ یہاں اللہ اور بندے کے درمیان کوئی واسطہ بھی ہو سکتا ہے ۔ اس تصور کے مطابق کسی فرد یا کسی نسب یا کسی طبقہ حاکمہ کی جانب سے اپنے لئے حاصل کردہ وہ تمام حقوق بےاصل ہوجاتے ہیں کہ وہ دوسرے لوگوں سے رب کے ساتھ تعلق کے حوالے سے کسی طرح ممتاز ہیں۔ اس تصور کے سوا عوام الناس کے اندر حقیقی مساوات قائم نہیں ہوسکتی نہ انسانوں کا کوئی نظام حیات یا انکی کوئی سوسائٹی اصول مساوات پر قائم ہوسکتی ہے ۔

اس لئے عقیدہ توحید اس نقطہ نظر سے محض ایک ایسا مسئلہ ہی نہیں رہتا کہ وہ ویک وجدانی تصور ہے جو کسی شخص کے قبل میں مضبوطی سے بیٹھ جائے اور بس ‘ بلکہ عقیدہ توحید ایک نظام زندگی ‘ معاشرتی رابطہ اور بنی نوع انسان کی مختلف نسلوں اور اقوام کے درمیان روابط یعنی سوشیالوجی اور بین الاقوامی مسئلہ بھی بن جاتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے اسلام نے انسان کو عقیدہ توحید دیکر اسے ایک جدید زندگی اور نشاۃ ثانیہ عطا کی ہے ۔ اس کی رو سے انسان تمام انسانوں کی غلامی سے آزاد ہو کر صرف ایک رب ذوالجلال کا غلام بن جاتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اسلام کی تاریخ میں کوئی ایسا کنیسہ قائم نہیں ہوا جو لوگوں کو اپنا محکوم اس تصور حیات کی اساس پر بنائے کہ وہ ابن اللہ کا نمائدہ ہے ۔ یا وہ اس اقنوم کا نمائندہ ہے جو لوگوں کو اپنا محکوم اس تصور حیات کی اساس پر بنائے کہ وہ ابن اللہ کا نمائندہ ہے ۔ یا وہ اس اقنوم کا نمائندہ ہے جو اللہ کے اقانیم کیلئے متمم ہے ۔ اس وجہ سے اسلامی تاریخ میں مسلمانوں پر تھیاکریسی کا نظام کبھی قائم نہیں ہوا جس میں کوئی بادشاہ اپنے لئے ظل اللہ فی الارض کا لقب اختیار کرے اس طرح کہ اسے حکومت کا حق من جانب اللہ ہے یا یہ کہ وہ از جانب اللہ قانون سازی کرسکتا ہے اس لئے کہ وہ اللہ کا قرابت دار ہے یا اللہ نے اپنے اختیارات اسے تفویض کردیئے ہیں ۔

کنیسہ اور پوپ نے اپنے لئے یہ حق محفوظ کئے رکھا ۔ اسی طرح پیٹر کے پیرو بھی اپنے لئے اس حق کا دعوی کرتے تھے ۔ یہ حق یورپ میں ابنیت اور امتزاج اقانیم کے نظریات کے تحت لوگ اپنے لئے مخصوص کرتے رہے ۔ جب صلیبیوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگیں شروع کیں اور مسلمانوں سے لڑتے رہے ۔ تو وہ صلیبی جنگوں میں شکست کے ساتھ ساتھ اسلام کے نظریہ توحید سے بھی شکست کھا گئے ، ان جنگوں کے نتیجے میں یورپ کے اندر تحریک اصلاح مذہب شروع ہوگئی اور مارٹن لوتھر ‘ کالون اور زنجلی کی تحریکات شروع ہوئیں ۔ جنہوں نے کنیسہ کے باطل تصورات کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ یہ سب مصلحین اسلام کے سیدھے سادھے تصور حیات سے متاثر ہوئے ۔ انہوں نے انسان کے تقدس کے نظریے یا اس تصور کی نفی کی کہ اللہ نے اپنے اختیارات کسی کو تفویض کئے ہیں اس لئے کہ انہوں نے دیکھا کہ اسلام میں ایک الہ ہے اور مقابلے میں تمام لوگ بندے ہیں اور ان کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں قرآن کریم میں الوہیت مسیح کے نظریہ کی فیصلہ کن انداز میں تردید کردی گئی ۔ اسی طرح روح القدس کی خدائی کی بھی تردید کردی کہ وہ اقانیم ثلاثہ میں سے ایک ہیں ۔ غرض کسی شکل میں بھی کسی کیلئے نظریہ الوہیت کی تردید کردی گئی چاہئے کوئی یہ نظریہ کسی کیلئے بھی اختیار کرے ۔ قرآن کریم فیصلہ کن انداز میں یہ اعلان کرتا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کے بندے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی اللہ کا بندہ ہونے کو اپنے لئے عار نہیں سمجھا اسی طرح ملائکہ مقربین بھی اللہ کے بندے ہیں اور انہوں نے بھی اپنے لئے اپنی اس حیثیت کو کبھی عار نہیں سمجھا تمام مخلوقات اس کی بندگی میں ہے اور عنقریب انکو اللہ کے سامنے اجتماعی طور پر اٹھایا جائے گا ۔ جو لوگ اللہ کی بندگی کو اپنے لئے عار اور توہین سمجھتے ہیں وہ عذاب الیم کا انتظار کریں اور جو لوگ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ و غلام سمجھتے ہیں وہ انعام واکرام کے امیدوار ہوں۔

(آیت) ” لن یستنکف المسیح ان یکون عبداللہ ولا الملئکۃ المقربون ومن یستنکف عن عبادتہ ویستکبر فسیحشرھم الیہ جمیعا (172) فاما الذین امنوا وعملوا الصلحت فیوفیھم اجورھم ویزیدھم من فضلہ واما الذین استنکفوا واستکبروا فیعذبھم عذابا الیما ، ولا یجدون لھم من دون اللہ ولیا ولا نصیرا (173) (4 : 172۔ 173) ”

” مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرب ترین فرشتے اس کو اپنے لئے عار سمجھتے ہیں ، اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لئے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا ۔ اس وقت وہ لوگ جنہوں نے ایمان لا کر نیک طرز عمل اختیار کیا ہے اپنے اجر پورے پورے پائیں گے اور اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر عطا فرمائے گا ۔ اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے ان کو اللہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی ومددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ‘ ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے ۔ “

حضرت مسیح ابن مریم اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے مقام سے بلند نہیں سمجھتے ۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں ۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ مقام الوہیت اور مقام عبودیت سے واقف ہیں ۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الوہیت اور عبودیت الگ الگ حقائق ہیں اور ان کے درمیان امتزاج ممکن نہیں ہے ۔ وہ سب سے زیادہ جانتے تھے کہ وہ اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں اور اللہ کی درمیان امتزاج ممکن نہیں ہے ۔ وہ سب سے زیادہ جانتے تھے کہ وہ اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں ‘ اور اللہ کی مخلوق اللہ جیسی نہیں ہو سکتی ۔ نہ وہ اللہ کا جزو ہو سکتی ہے اور وہ سب سے زیادہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ بندگی کے فرائض صرف اللہ کے سامنے بجا لائے جانے چاہئیں ۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے اللہ کی بندگی بجا لانا ایک حقیقت ہے اور اس کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہو سکتی اس لئے کہ اللہ کی بندگی کا انکار صرف کافر کرسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور انشاء کو نہیں مانتے اور یہ کہ بندگی وہ مرتبہ ہے اور وہ اعزاز ہے جو اللہ اپنے رسولوں کو اس وقت دیتے ہیں جب وہ اعلی اور افضل مراتب پر فائز ہوتے ہیں ۔ یہی حال ملائکہ مقربین کا ہے جن میں روح القدس شامل ہیں ۔ ان کا حال بھی یہی ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور تمام دوسرے رسل کا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ۔ لہذا اب حضرت مسیح کے ان پیروکاروں کو کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح کے حوالے سے اس بات کی نفی کرتے ہیں جس کے وہ خود مقرر ہیں ۔

(آیت) ” ومن یستنکف عن عبادتہ ویستکبر فسیحشرھم الیہ جمیعا (4 : 172) (اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لئے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا) اس لئے اگر وہ خدا کی بندگی کو اپنے لئے عار سمجھتے ہیں اور اللہ کے مقابلے میں بڑائی کرتے ہیں تو ان فعل انہیں اللہ کے سامنے لا کھڑا ہونے سے ہر گز نہ بچاسکے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں پر حاکم مطلق ہے اور اللہ کی حاکمیت کے مقابلے میں مقرب بندے اور تمام لوگ ایک ہی جیسے ہیں۔

جن لوگوں نے حق کو پہچان لیا اور انہوں نے اللہ کی عبودیت کا اقرار کرلیا اور انہوں نے نیک کام کئے ‘ اس لئے کہ نیک کام کرنا اللہ کی عبودیت کے اقرار کا لازمی ثمرہ ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں ان کے صلہ پورا پورا دے گا اور اس صلے سے مزید ان پر اپنا فضل بھی کرے گا ۔

(آیت) ” واما الذین استنکفوا واستکبروا فیعذبھم عذابا الیما ، ولا یجدون لھم من دون اللہ ولیا ولا نصیرا (4 :۔ 173) ”(اور جن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے ان کو اللہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی ومددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ‘ ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے)

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی جانب سے بندگی کا اقرار اور اس کی بندگی و عبادت کا مطالبہ اس لئے نہیں کرتے کہ اللہ کو ان کے اقرار غلامی یا بندگی کی کوئی خاص ضرورت ہے ۔ وہ تو غنی بادشاہ ہے یا یہ کہ اگر یہ لوگ بندگی کریں گے تو اس کی حکومت اور سلطنت میں کوئی اضافہ ہوجائے گا یا یہ کہ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو اس کی مملکت میں کوئی کمی ہوجائے گی ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ لوگ اللہ کی ربوبیت اور حاکمیت کا مفہوم سمجھ لیں ۔ وہ اپنے تصورات و عقائد کی تصحیح کرلیں اور وہ اپنے جذبات اور اپنے شعور کے اندر اصلاح کرلیں جس کے نتیجے میں ان کی زندگی اور زندگی کے طور طریقوں کی اصلاح از خود ہوجائے گی ۔ اس لئے کہ کوئی نظام زندگی اس وقت تک پرسکون اور پرامن نہیں ہو سکتا اور کوئی تصور اور عقیدہ اس وقت تک مستحکم اور مستقر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی بنیاد میں مستحکم نہ ہو ۔ زندگی کا کوئی تصور اور کوئی نظام اللہ کی حاکمیت اور اللہ کی بندگی کے بغیر مستحکم نہیں ہو سکتا اور نہ اس کے بغیر زندگی میں اچھے آثار نمودار کرسکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ یہ حقیقت اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ جس کا بیان اوپر کردیا گیا ہے لوگوں کے ذہن نشین ہوجائے اور اس پر ان کی زندگی کا تفصیلی نقشہ مرتب ہوجائے تاکہ وہ انسانوں کی بندگی سے نکل کر صرف اللہ کی بندگی میں داخل ہوجائیں ۔ انہیں معلوم ہوجائے کہ اس پوری کائنات اور اس کرہ ارض پر اصل حاکم کون ہے ۔ وہ اس کے سوا کسی کے آئے نہ جھکیں ۔ وہ اسی کے نظام زندگی اور اسی کے منہاج کے پیرو ہوجائیں ۔ وہ اسی کی شریعت کی اطاعت کریں۔ صرف ان حکمرانوں کی اطاعت کریں جو اللہ تعالیٰ کا نظام زندگی نافذ کرنے والے ہوں ۔ اللہ کا ارادہ صرف یہ ہے کہ وہ یہ جان لیں کہ بندے سب کے سب اللہ کے بندے ہیں۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ اللہ کے بندے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں سراٹھا کے چلیں اور اگر وہ سر جھکاتے ہیں تو صرف اللہ کے سامنے سرجھکائیں ۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ لوگ جبار ‘ قہار اور اللہ کے باغی حکمرانوں کے مقابلے میں اپنی عزت نفس کا شعور حاصل کریں ۔ جب لوگ اللہ کے سامنے رکوع و سجود کریں تو ان کا فرض ہے کہ وہ صرف اللہ کو یاد کریں اور اللہ کے سوا کسی کو یاد نہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ کی منشاء یہ ہے کہ یہ لوگ اچھی طرح سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب رشتہ داری اور نسب کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا ۔ یہ قرب صرف تقوی اور عمل صالح کی وجہ سے نصیب ہوتا ہے ۔ اس زمین کی تعمیر اور نیک کام اللہ کی قرابت اور نزدیکی کا باعث ہیں۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو حقیقت ربوبیت اور حاکمیت کا ادراک ہو اور وہ اپنے مقام بندگی کو اچھی طرح پہچان لیں ۔ وہ اللہ کی حاکمیت کیلئے غیرت اور حمیت رکھتے ہوں اور جو شخص بھی اللہ کے حق حاکمیت میں شریک ہونا چاہتا ہے وہ اس کیلئے سد راہ بن جائیں اور تمام حقوق حاکمیت صرف اللہ کے ساتھ خاص کردیں ۔ اس طرح ان کی زندگی کی اصلاح ہوجائے گی ۔ وہ ترقی کریں گے ۔ اور اساس بندگی پر مکرم ہوں گے ۔

اس عظیم حقیقت کا ادراک ‘ تمام انسانوں کی جانب سے صرف اللہ کی طرف دیکھنا ‘ تمام لوگوں کے قلوب کا اللہ کے ساتھ مربوط ہوجانا ۔ تمام لوگوں کے اعمال کا خدا خوفی پر مبنی ہوجانا ‘ تمام لوگوں کے نظام زندگی کا سب کو چھوڑ چھاڑ کر اللہ کے اذن اور حکم پر مبنی ہوجانا وغیرہ یہ سب امور ہیں جو اس دنیا میں بھلائی آزادی ‘ عدل اور استقامت کا عظیم سرمایہ ہیں ۔ جس سے انسانیت کے سرمایہ میں اس دنیاوی زندگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ غرض یہ ایک ایسا سروسامان ہے جس سے اس دنیا میں حریت ‘ شرافت ‘ عدل اور استقامت کا دور دورہ ہوگا اور ایسے نیکو کار لوگوں کا انجام آخرت میں کیا ہوگا ‘ ان پر اللہ کا کرم ہوگا ان پر اس کا فضل خاص ہوگا ۔ اور وہ اللہ کے فیض خاص سے فیض یاب ہوں گے ۔

ہمارا فرض ہے کہ درج بالا نکات کی روشنی اسلام اور ایمان کے تقاضوں پر غور کریں ‘ اور یہ فیصلہ کریں کہ ایسا ایمان تمام رسولوں کی رسالتوں کی اساس رہا ہے ۔ بعد کے ادوار میں ایمان کی اس اصلی صورت میں تحریف اور تبدیلی ہوگئی ۔ ایمان کے اس حقیقی نقطہ نظر سے معلوم ہوگا کہ ایمان کے اس حقیقی نقطہ نظر سے معلوم ہوگا کہ ایمان لانے کی وجہ سے بشریت کو ایک نیا جنم نصیب ہوگا اور اس صورت میں ایمان مقام شرافت اور اعلان حریت ہوگا ۔ اس کے نتیجے میں عدل و انصاف کا قیام ہوگا اور انسان انسان کی بندگی اور غلامی سے نکل آئے گا ۔

جو لوگ اللہ کی بندگی کو اپنے آپ سے فرو تر سمجھتے ہیں اور پھر وہ اس کرہ ارض پر دوسری لا تعداد اور نہ ختم ہونے والی بندگیوں میں پھنس جاتے ہیں ‘ آخر کار وہ اپنی نفسانی خواہشات کے بندے بن جاتے ہیں ۔ پھر وہ ادہام اور خرافات کے غلام بن جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کے غلام بن جاتے ہیں اور پھر ان کی پیشانیاں ان انسانوں کے سامنے جھکتی ہیں پھر ان کی زندگی میں ان کے نظم ونسق میں ‘ ان کے قانون میں ‘ اور ان کے حسن وقبح کے پیمانوں پر بھی انہی جیسے انسان حاکم ہوجاتے ہیں حالانکہ حقیقت نفس الامری میں وہ دونوں برابر اور ایک جیسے انسان ہوتے ہیں لیکن اس طرح غیر اللہ کی اطاعت کرکے انہوں نے غیر اللہ کو اپنا الہ تسلیم کرلیا ۔ یہ تو ان کی پوزیشن ہوگی ہیں اس دنیا میں کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کے غلام ہوگئے اور آخر میں انکی پوزیشن یہ ہوگی ۔

(آیت) ” فیعذبھم عذابا الیما ، ولا یجدون لھم من دون اللہ ولیا ولا نصیرا (173) (4 : 173) ”(ان کو اللہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی ومددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ‘ ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے)

اسلامی نظریہ حیات میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے قرآن نے اس آیت میں پیش کیا ہے ۔ اس کے ذریعے اس وقت اہل کتاب یعنی یہود ونصاری کی تردید کی گئی ہے اور اب قیامت تک یہ ہمارے لئے سنگ میل ہے ۔

سابقہ سبق میں یہودیوں پر تنقید کرکے بتایا گیا تھا کہ لوگو ! حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر اللہ گواہ ہیں جس کی شہادت قطعی برہان ہے ۔ اسی طرح یہاں نصاری کی تردید کرکے پھر تمام لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ یہ رسالت اللہ کی جانب سے برہان ہے ۔ اور یہ ایک نئی روشنی ہے جس سے جہالت کی تاریکیاں چھٹ جائیں گی اور تمام شبہات دور ہوجائیں گے ۔ جس شخص نے اس سے ہدایت حاصل کی اور اسے پختگی سے پکڑا تو اس پر اللہ کی رحمت ہوگی اور اللہ کا فضل اس کے شامل حال ہوگا اور اس روشنی اور ہدایت میں وہ صراط مستقیم پائے گا ۔

آیت 172 لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَلاَ الْمَلآءِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ ط مسیح علیہ السلام کو تو اللہ کا بندہ ہونے میں اپنی شان محسوس ہوگی۔ جیسے ہم بھی حضور ﷺ کے بارے میں کہتے ہیں : وَنَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ تو عبدیت کی شان تو بہت بلند وبالا ہے ‘ رسالت سے بھی اعلیٰ اور ارفع۔ یہ ایک علیحدہ مضمون ہے ‘ جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔ چناچہ حضرت مسیح علیہ السلام کے لیے یہ کوئی عار کی بات نہیں ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں۔

اس کی گرفت سے فرار ناممکن ہے ! مطلب یہ ہے کہ مسیح ؑ اور اعلیٰ ترین فرشتے بھی اللہ کی بندگی سے انکار اور فرار نہیں کرسکتے، نہ یہ ان کی شان کے لائق ہے بلکہ جو جتنا مرتبے میں قریب ہوتا ہے، وہ اسی قدر اللہ کی عبادت میں زیادہ پابند ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ فرشتے انسانوں سے افضل ہیں۔ لیکن دراصل اس کا کوئی ثبوت اس آیت میں نہیں، اس لئے یہاں ملائکہ کا عطف مسیح پر ہے اور استنکاف کا معنی رکنے کے ہیں اور فرشتوں میں یہ قدرت بہ نسبت مسیح کے زیادہ ہے۔ اس لئے یہ فرمایا گیا ہے اور رک جانے پر زیادہ قادر ہونے سے فضیلت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح حضرت مسیح ؑ کو لوگ پوجتے تھے، اسی طرح فرشتوں کی بھی عبادت کرتے تھے۔ تو اس آیت میں مسیح ؑ کو اللہ کی عبادت سے رکنے والا بتا کر فرشتوں کی بھی یہی حالت بیان کردی، جس سے ثابت ہوگیا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ خود اللہ کو پوجتے ہیں، پھر ان کی پوجا کیسی ؟ جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ) 21۔ الانبیآء :26) اور اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ جو اس کی عبادت سے رکے، منہ موڑے اور بغاوت کرے، وہ ایک وقت اسی کے پاس لوٹنے والا ہے اور اپنے بارے میں اس کا فیصلہ سننے والا ہے اور جو ایمان لائیں، نیک اعمال کریں، انہیں ان کا پورا ثواب بھی دیا جائے گا، پھر رحمت ایزدی اپنی طرف سے بھی انعام عطا فرمائے گی۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ اجر تو یہ ہے کہ جنت میں پہنچا دیا اور زیادہ فضل یہ ہے کہ جو لوگ قابل دوزخ ہوں، انہیں بھی ان کی شفاعت نصیب ہوگی، جن سے انہوں نے بھلائی اور اچھائی کی تھی، لیکن اس کی سند ثابت شدہ نہیں، ہاں اگر ابن مسعود کے قول پر ہی اسے روایت کیا جائے تو ٹھیک ہے۔ پھر فرمایا جو لوگ اللہ کی عبادت و اطاعت سے رک جائیں اور اس سے تکبر کریں، انہیں پروردگار درد ناک عذاب کرے گا اور یہ اللہ کے سوا کسی کو دلی و مددگار نہ پائیں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ) 40۔ غافر :60) جو لوگ میری عبادت سے تکبر کریں، وہ ذلیل و حقیر ہو کر جہنم میں جائیں گے، یعنی ان کے انکار اور ان کے تکبر کا یہ بدلہ انہیں ملے گا کہ ذلیل و حقیر خوار و بےبس ہو کر جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔

آیت 172 - سورہ نساء: (لن يستنكف المسيح أن يكون عبدا لله ولا الملائكة المقربون ۚ ومن يستنكف عن عبادته ويستكبر فسيحشرهم إليه جميعا...) - اردو