سورہ نساء: آیت 171 - يا أهل الكتاب لا تغلوا... - اردو

آیت 171 کی تفسیر, سورہ نساء

يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ لَا تَغْلُوا۟ فِى دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْحَقَّ ۚ إِنَّمَا ٱلْمَسِيحُ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ ٱللَّهِ وَكَلِمَتُهُۥٓ أَلْقَىٰهَآ إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَـَٔامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦ ۖ وَلَا تَقُولُوا۟ ثَلَٰثَةٌ ۚ ٱنتَهُوا۟ خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا ٱللَّهُ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ ۖ سُبْحَٰنَهُۥٓ أَن يَكُونَ لَهُۥ وَلَدٌ ۘ لَّهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلًا

اردو ترجمہ

اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو مسیح عیسیٰ ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اُ س کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ "تین" ہیں باز آ جاؤ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے وہ بالا تر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں اس کی مِلک ہیں، اور ان کی کفالت و خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ahla alkitabi la taghloo fee deenikum wala taqooloo AAala Allahi illa alhaqqa innama almaseehu AAeesa ibnu maryama rasoolu Allahi wakalimatuhu alqaha ila maryama waroohun minhu faaminoo biAllahi warusulihi wala taqooloo thalathatun intahoo khayran lakum innama Allahu ilahun wahidun subhanahu an yakoona lahu waladun lahu ma fee alssamawati wama fee alardi wakafa biAllahi wakeelan

آیت 171 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر : 171۔

نصرانیوں کا عقیدہ تثلیث غلو فی الدین ‘ حدود سے تجاوز اور حق سے روگردانی ہے اس لئے اہل کتاب کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں وہی کچھ کہیں جو حق ہو ‘ مثلا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہے یا یہ کہ وہ تین میں سے ایک ہے ۔

ان کے ہاں نظریہ تثلیث مختلف ادوار کے اندر ان کی فکری اتار چڑھاؤ کے مطابق بدلتا رہا ہے ۔ لیکن اللہ کی طرف بیٹے کی نسبت کرکے انسان کی فطری ناپسندیدگی کی وجہ سے اور دور جدید کی عقلیت پسندی کی وجہ سے وہ اس ابنیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ اس بیٹے کی ولادت اس طرح نہیں ہوئی جس طرح عام بشر کی ولادت ہوتی ہے بلکہ اس کی حقیقت اس طرح ہے جس طرح باپ کو بیٹے سے محبت ہوتی ہے اور تین میں سے ایک کی تشریح وہ اس طرح کرتے ہیں جس طرح ایک کی تین صفات ہوتی ہیں ۔ اگرچہ آج تک وہ ان ناقابل فہم اور متضاد تصورات کو انسانی فہم وادراک کے اندر داخل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ آخر کار انہوں نے یہ قرار دیا ہے کہ وہ غیبی معمے ہیں اور ان کی حقیقت کا ادراک اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے رازوں سے پردہ اٹھائیں گے ۔

اللہ کی ذات شرکت اور مشابہت سے پاک ہے اور یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کی ذات اپنی مخلوق سے علیحدہ ذات ہو۔ خالق اور مخلوق کے درمیان جدائی اور مالک اور مملوک کے درمیان علیحدگی ایک قابل فہم تصور ہے جس کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے ۔

(آیت) ” انما اللہ الہ واحد سبحنہ ان یکون لہ ولد لہ ما فی السموت والارض “۔ (4 : 171) (اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے ۔ وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ۔ زمین و آسمان کی ساری چیزین اس کی ملک ہیں)

اگر لوگوں کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بن باپ پیدا ہوجانا عجیب لگتا ہے اور وہ اس دنیا میں رات دن جو کچھ دیکھتے ہیں ‘ اس کے خلاف لگتا ہے تو یہ تعجب اس لئے ہوتا ہے کہ یہ واقعہ معروف اور متعاد طریقہ کار سے ذرا ہٹ کر ہے ۔ لیکن لوگ جس چیز کو روز دیکھتے ہیں وہ بھی پوری حقیقت نہیں ہے اور انکے سامنے یہ کائنات جن قوانین کے مطابق چل رہی ہے اللہ کی پوری سنت ان کے اندر محدود نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ تو ان سنتوں اور قوانین کا خالق ہے۔ وہ ان کو دہراتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف بھی کرسکتا ہے ۔ اس کی مشیت پر کوئی حد اور قید عائد نہیں ہے ۔

(آیت) ” انما المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وکلمتہ القھا الی مریم وروح منہ (4 : 171) (مسیح عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی)

مختصرا یہ کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور انکی پوزیشن اور دوسرے رسولوں کی پوزیشن میں کچھ فرق و امتیاز نہیں ہے ۔ وہ وہی حیثیت رکھتے ہیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ کی ہے اور وہ اسی برگزیدہ گروہ اور مختاران برائے منصب رسالت میں سے ایک ہیں جو انسانی تاریخ کے طویل ترین دور میں وقتا فوقتا مبعوث ہوتے رہے ۔

(آیت) ” وکلمتہ القھا الی مریم “۔ (4 : 171) (ایک فرمان تھا جو مریم کی طرف بھیجا “ قریب الفہم تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو براہ راست اپنے فرمان سے پیدا کیا ۔ اس تکوینی حکم اور فرمان کے لئے قرآن کن فیکون کے الفاظ استعمال کرتا ہے ۔ اللہ نے مریم کی طرف یہ حکم متوجہ کیا اور اس کے بطن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تخلیق ہوگئی اور یہ کسی باپ کے نطفے کے بغیر ہوئی ۔ یعنی اس طرح نہ ہوئی جس طرح انسان کی عمومی زندگی کی روٹین میں ہوتا ہے اور اللہ کا یہ فرمان اور یہ کلمہ وہ ہے جو ہر چیز کو عدم سے وجود میں لایا ہے ۔ اس لئے یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بطن مریم میں اپنے حکم اور نفخ روح سے پیدا کردیں ۔ (آیت) ” وروح منہ) ” وہ اللہ کی طرف سے ایک روح تھی۔ “

تمام کتب سماوی کے ماننے والے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ نے آدم کو مٹی سے بنایا اور بنانے کے بعد اس میں روح پھونکی ۔ اس طرح وہ انسان کی شکل اختیار کر گئے ۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔

(آیت) ” اذ قال ربک للملئکۃ انی خالق بشرا من طین (71) فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سجدین (72) (38 آیت 72۔ 72) (جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا : ” میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں ‘ پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ) اور یہی بات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمائی ۔

(آیت) ” والتی احصنت فرجھا فنفخنا فیھا من روحنا “۔ (21 : 91) ” اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی ۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح سے پھونکا “۔ اس لئے قرآن مجید کے مطابق مریم کے اندر جو روح پھونکی گئی اور اس کی جو تعبیر قرآن نے کی ویسی ہی تعبیر حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی کی ہے ۔ اور دونوں جگہ نفخ روح کا ذکر ہے اور اہل کتاب میں سے کوئی اس بات کا قائم نہیں ہے کہ حضرت آدم ابن اللہ ہیں حالانکہ وہ سب تخلیق آدم کی کہانی اور آدم میں نفخ روح کے قائل ہیں ۔ نہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ آدم اقانیم الہیہ میں سے کوئی اقنوم ہیں ۔ جس طرح وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قائل ہیں ۔ حالانکہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تخلیق اور نفخ روح کے لحاظ سے مکمل مشابہت پائی جاتی ہے ۔ بلکہ آدم (علیہ السلام) بغیر باپ اور بغیر ماں کے پیدا ہوئے تھے جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے کیس میں بالاتفاق ماں تو موجود تھی۔ یہی حقیقت قرآن کریم دوسری جگہ پیش کرتا ہے ۔

(آیت) ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون “ (3 : 58) ” اللہ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہوجاؤ اور وہ گیا “۔ انسان اس بات پر متعجب ہوتا ہے کہ ذاتی خواہشات اور بت پرستی کے غلط افکار نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے نہایت ہی سادہ اور قابل فہم مسئلے کو کس قدر چیستان بنا دیا ہے ۔ جس نے صدیوں تک کئی نسلوں کے ذہن کو پریشان کئے رکھا ۔ لیکن جب قرآن آتا ہے تو وہ بڑی سادگی کے ساتھ ایک چٹکی سے اس مسئلے کو حل کردیتا ہے ۔ اور اصل حقیقت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے ۔

جو ذات باری حضرت آدم (علیہ السلام) کو بغیر والدین کے پیدا کرکے اسے روح دے سکتی ہے اور اسے تمام مخلوقات میں سے ممتاز اور برتر بنا سکتی ہے تو وہی ذات ہے جس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بن باپ پیدا کردیا اور یہ تمہیں کیوں حیرت انگیز نظر آتا ہے ۔ یہ بھی زندگی ہے اور وہ بھی زندگی ہے ۔ اور اللہ کا یہ کلام نہایت ہی واضح اور سادہ اور قابل فہم ہے ۔ بہ نسبت ان چیستانوں کے جو عیسائیوں کے ہاں رائج ہوئے اور ان کی انتہا الوہیت مسیح کی قرار داد پر ہوئی ۔ اس نتیجے تک وہ محض اس لئے پہنچے کہ ان کا کوئی باپ نہ تھا ۔ اور اسی کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کے تین اقنوم کے قائل ہوئے حالانکہ وہ اس تصور سے پاک اور بلند تر ہے ۔

(آیت) ” فامنوا باللہ ورسلہ ولا تقولوا ثلثۃ انتھوا خیرالکم “۔ (4 : 171) ” پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ ” تین “ ہیں ۔ باز آجاؤ یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ “ اللہ اور رسولوں پر ایمان لانے کی اسی دعوت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بحیثیت رسول اور حضرت محمد ﷺ خاتم النبین شامل ہیں اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں تم جن اساطیر اور جھوٹے دعوؤں پر یقین رکھتے ہو ‘ ان سے باز آجاؤ ۔ اس کی تفصیلات بعد میں مناسب مقام پر آرہی ہیں ۔

(آیت) ” انما اللہ الہ واحد “ (4 : 171) (بےشک اللہ تو ایک ہی خدا ہے) اور اس کی وحدانیت پر اس کائنات کے اندر جاری وساری واحد ناموس گواہی دے رہا ہے ۔ اس پوری مخلوقات کی وحدت ‘ اس پوری کائنات کی فطرت کو ایک ہی نہج پر ڈال رہی ہیں ۔ اور یہ نہج یہ ہے کہ اللہ نے کن کہا اور پھر سب کچھ ہوگیا ۔ پھر انسانی عقل بھی واحد الہ پر گواہ ہے اس لئے کہ ایک واحد مدبر الہ کا وجود انسان کیلئے قابل فہم ہے ۔ عقل انسانی کسی ایسے خالق کا تصور نہیں کرسکتی جو مخلوقات جیسا ہو ‘ نہ وہ تین خالقیں کا تصور کرسکتی ہے اور یہ بات تو سمجھ میں آتی ہی نہیں کہ تین بھی ہوں اور ایک بھی ہو ۔

(آیت) ” سبحنہ ان یکون لہ ولد “ (4 : 171) (وہ اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو) بیٹا تو اس لئے ہوتا ہے کہ باپ فانی ہوتا ہے اور اس صورت میں نسل کا تسلسل مطلوب ہوتا ہے ۔ اللہ تو ابد الاباد تک باقی ہے ۔ اسے کیا ضرورت ہے کہ ایک فانی کو اپنا بیٹا بنائے جب تمام وہ چیزیں جو زمین میں ہیں یا آسمانوں میں ہیں وہ اللہ کی ملکیت میں ہیں ۔

(آیت) ” لہ ما فی السموت والارض “۔ (4 : 171) ” آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اس کی ملک ہیں “۔ اور بندوں کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ سب کے سب اللہ کے ساتھ رابطہ بندگی قائم کریں ۔ وہ تو سب کانگہبان اور محافظ ہے ۔ اور سب کا پالنے والا ہے ۔ اس لئے اللہ کے ساتھ رشتہ نکالنے کی کیا ضرورت ہے ۔ اللہ اور بندوں کے درمیان یہ تعلق قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کا کفیل اور وکیل ہے ، (آیت) ”(وکفی باللہ وکیلا “۔ (4 : 171) ” بندوں کی کفالت اور خبر گیری کیلئے وہی کافی ہے۔ “

یوں قرآن مجید اس حقیقت کو اس حد تک اجاگر کردیتا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے عقیدے کے بارے میں فیصلہ کردیتا ہے ۔ ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ احساس اور یہ شعور بھی دلایا جاتا ہے کہ اللہ ان کا کفیل اور نگہبان بھی ہے ۔ اللہ ہر وقت ان کی دیکھ بھال کر رہا ہے ۔ ان کی ضروریات کا بھی وہ کفیل ہے ۔ ان کے مفادات کا بھی وہ بندوبست کرنے والا ہے ۔ تاکہ وہ اپنے تمام امور اطمینان کے ساتھ اس کے حوالے کردیں ۔

اب سیاق کلام میں بات ذرا آگے بڑھتی ہے ۔ اب ہم نہایت ہی عظیم اور اہم نظریاتی مسئلے کی طرف آتے ہیں ۔ وہ اعتقاد اور نظریہ جو ایک انسان کے دل و دماغ میں عقیدہ توحید کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے یعنی یہ کہ اللہ خالق اور مالک ہے ۔ اور اس کے جوا اب میں انسان مملوک اور بندہ ہے ۔ اس لئے دو حقائق عقیدہ یا دو اجزاء عقیدہ توحید کے لازمی حصے ہیں یہ کہ اللہ حاکم ہے اور لوگ محکوم اللہ الہ ہے اور معبود ہے اور لوگ عابد اور غلام ‘ اور یہ کہ بندگی اور غلامی اس کرہ ارض کی تمام موجودات کیلئے ہے اور موجودات کی تمام اقسام و انواع اس کی بندگی میں ہیں ۔

یہاں قرآن کریم نصاری کے اس عقیدے کی تصحیح کرتا ہے جس کے مطابق وہ فرشتوں کو بھی اللہ کے بیٹے اور اولاد تصور کرتے تھے یا ان کو خدا کے ساتھ خدائی میں شریک کرتے تھے ۔ جس طرح وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو الوہیت میں شریک کرتے تھے ۔

آیت 171 یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لاَ تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلاَ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ الاَّ الْحَقَّ ط۔تم آپس کے معاملات میں تو جھوٹ بولتے ہی ہو ‘ مگر اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنا ‘ جھوٹ بول کر اللہ پر اسے تھوپنا کہ اللہ کا یہ حکم ہے ‘ اللہ نے یوں کہا ہے ‘ یہ تو وہی بات ہوئی : بازی بازی با ریش با با ہم بازی !اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ایک رسول علیہ السلام تھے اور بس ! اُلوہیّت میں ان کا کوئی حصّہ نہیں ہے ‘ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں۔وَکَلِمَتُہٗج اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ ز یعنی حضرت مریم علیہ السلام کے رحم میں جو حمل ہوا تھا وہ اللہ کے کلمۂ کُن کے طفیل ہوا۔ بچے کی پیدائش کے طبعی عمل میں ایک حصہ باپ کا ہوتا ہے اور ایک ماں کا۔ اب حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت میں ماں کا حصہ تو پورا موجود ہے۔ حضرت مریم علیہ السلام کو حمل ہوا ‘ نو مہینے آپ علیہ السلام رحم میں رہے ‘ لیکن یہاں باپ والا حصہ بالکل نہیں ہے اور باپ کے بغیر ہی آپ علیہ السلام کی پیدائش ممکن ہوئی۔ ایسے معاملات میں جہاں اللہ کی مشیّت سے ایک لگے بندھے طبعی عمل میں سے اگر کوئی کڑی اپنی جگہ سے ہٹائی جاتی ہے تو وہاں پر اللہ کا مخصوص امر کلمۂکُن کی صورت میں کفایت کرتا ہے۔ یہاں پر اللہ کے کلمہ کا یہی مفہوم ہے۔جہاں تک حضرت مسیح علیہ السلام کو رُوْحٌ مِّنْہُقرار دینے کا تعلق ہے تو اگرچہ سب انسانوں کی روح اللہ ہی کی طرف سے ہے ‘ لیکن تمام روحیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ بعض روحوں کے بڑے بڑے اونچے مراتب ہوتے ہیں۔ ذرا تصور کریں روح محمدی ﷺ کی شان اور عظمت کیا ہوگی ! روح محمدی ﷺ کو عام طور پر ہمارے علماء نور محمدی ﷺ کہتے ہیں۔ اس لیے کہ روح ایک نورانی شے ہے۔ ملائکہ بھی نور سے پیدا ہوئے ہیں اور انسانی ارواح بھی نور سے پیدا ہوئی ہیں۔ لیکن سب انسانوں کی ارواح برابر نہیں ہیں۔ حضور ﷺ کی روح کی اپنی ایک شان ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کی اپنی ایک شان ہے۔فَاٰمِنُوْا باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ قف ولا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ ط اِنْتَہُوْا خَیْرًا لَّکُمْ ط یہ مت کہو کہ الوہیت تین میں ہے۔ ایک میں تین اور تین میں ایک کا عقیدہ مت گھڑو۔

اپنی اوقات میں رہو حد سے تجاوز نہ کرو ! اہل کتاب کو زیادتی سے اور حد سے آگے بڑھ جانے سے اللہ تعالیٰ روک رہا ہے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کے بارے میں حد سے نکل گئے تھے اور نبوت سے بڑھا کر الوہیت تک پہنچا رہے تھے۔ بجائے ان کی اطاعت کے عبادت کرنے لگے تھے، بلکہ اور بزرگان دین کی نسبت بھی ان کا عقیدہ خراب ہوچکا تھا، وہ انہیں بھی جو عیسائی دین کے عالم اور عامل تھے معصوم محض جاننے لگ گئے تھے اور یہ خیال کرلیا تھا کہ جو کچھ یہ ائمہ دین کہہ دیں اس کا ماننا ہمارے لئے ضروری ہے، سچ و جھوٹ، حق و باطل، ہدایت و ضلالت کے پرکھنے کا کوئی حق ہمیں حاصل نہیں۔ جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے آیت (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ) 9۔ التوبہ :31) مسند احمد میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا " مجھے تم ایسا نہ بڑھانا جیسا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا، میں تو صرف ایک بندہ ہوں پس تم مجھے عبداللہ اور رسول اللہ کہنا۔ " یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے اسی کی سند ایک حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے آپ سے کہا اے محمد ﷺ ! اے ہمارے سردار اور سردار کے لڑکے، اے ہم سب سے بہتر اور بہتر کے لڑکے ! تو آپ نے فرمایا " لوگو اپنی بات کا خود خیال کرلیا کرو تمہیں شیطان بہکا نہ دے، میں محمد بن عبداللہ ہوں، میں اللہ کا غلام اور اس کا رسول ہوں، قسم اللہ کی میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے میرے مرتبے سے بڑھا دو " پھر فرماتا ہے اللہ پر افتراء نہ باندھو، اس سے بیوی اور اولاد کو منسوب نہ کرو، اللہ اس سے پاک ہے، اس سے دور ہے، اس سے بلند وبالا ہے، اس کی بڑائی اور عزت میں کوئی اس کا شریک نہیں، اس کے سوا نہ تو کوئی معبود اور نہ رب ہے۔ مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ ہیں، وہ اللہ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہیں اور اس کی مخلوق ہیں، وہ صرف کلمہ کن کے کہنے سے پیدا ہوئے ہیں، جس کلمہ کو لے کر حضرت جبرائیل حضرت مریم صدیقہ کے پاس گئے اور اللہ کی اجازت سے اسے ان میں پھونک دیا پس حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے۔ چونکہ محض اسی کلمہ سے بغیر باپ کے آپ پیدا ہوئے، اس لئے خصوصیت سے کلمتہ اللہ کہا گیا۔ قرآن کی ایک اور آیت میں ہے آیت (مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ) 5۔ المائدہ :75) یعنی مسیح بن مریم صرف رسول اللہ ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذر چکے ہیں، ان کی والدہ سچی ہیں، یہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے اور آیت میں ہے آیت (اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ) 3۔ آل عمران :59) عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے مٹی سے بنا کر فرمایا ہوجا پس وہ ہوگیا۔ قرآن کریم اور جگہ فرماتا ہے آیت (وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَآ اٰيَةً لِّـلْعٰلَمِيْنَ) 21۔ الانبیآء :91) جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور ہم نے اپنی روح پھونکی اور خود اسے اور اس کے بچے کو لوگوں کے لئے اپنی قدرت کی علامت بنایا اور جگہ فرمایا آیت (وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ) 66۔ التحریم :12) سے آخر سورت تک۔ حضرت عیسیٰ کی بابت ایک اور آیت میں ہے آیت (اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ) 43۔ الزخرف :59) ، وہ ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا۔ پس یہ مطلب نہیں کہ خود کلمتہ الٰہی عیسیٰ بن گیا بلکہ کلمہ الٰہی سے حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے۔ امام ابن جریر نے آیت (اِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ) 3۔ آل عمران :45) کی تفسیر میں جو کچھ کہا ہے اس سے یہ مراد ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ جو حضرت جبرائیل کی معرفت پھونکا گیا، اس سے حضرت عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے۔ صحیح بخاری میں ہے " جس نے بھی اللہ کے ایک اور لا شریک ہونے اور محمد ﷺ کے عبد و رسول ہونے کی عیسیٰ کے عبد و رسول ہونے اور یہ کہ آپ اللہ کے کلمہ سے تھے جو مریم کی طرف پھونکا گیا تھا اور الہ کی پھونکی ہوئی روح تھے اور جس نے جنت دوزخ کو برحق مانا وہ خواہ کیسے ہی اعمال پر ہو، اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں لے جائے۔ ایک روایت میں اتنی زیادہ بھی ہے کہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہوجائے " جیسے کہ جناب عیسیٰ کو آیت و حدیث میں (روح منہ) کہا ہے ایسے ہی قرآن کی ایک آیت میں ہے آیت (وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ) 45۔ الجاثیہ :13) اس نے مسخر کیا تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، تمام کا تمام اپنی طرف ہے۔ یعنی اپنی مخلوق اور اپنے پاس کی روح سے۔ پس لفظ من تبعیض (اس کا حصہ) کے لئے نہیں جیسے ملعون نصرانیوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ کا ایک جزو تھے بلکہ من ابتداء کے لئے ہے۔ جیسے کہ دوسری آیت میں ہے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں روح منہ سے مراد رسول منہ ہے اور لوگ کہتے ہیں آیت (محبتہ منہ) لیکن زیادہ قوی پہلا قول ہے یعنی آپ پیدا کئے گئے ہیں، روح سے جو خود اللہ کی مخلوق ہے۔ پس آپ کو روح اللہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے (ناقتہ اللہ) اور بت اللہ کہا گیا ہے یعنی صرف اس کی عظمت کے اظہار کے لئے اپنی طرف نسبت کی اور حدیث " میں بھی ہے کہ " میں اپنے رب کے پاس اس کے گھر میں جاؤں گا۔ " پھر فرماتا ہے تم اس کا یقین کرلو کہ اللہ واحد ہے بیوی بچوں سے پاک ہے اور یقین مان لو کہ جناب عیسیٰ اللہ کا کلام اللہ کی مخلوق اور اس کے برگزیدہ رسول ہیں۔ تم تین نہ کہو یعنی عیسیٰ اور مریم کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اللہ کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے۔ سورة مائدہ میں فرمایا آیت (لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ) 5۔ المائدہ :73) یعنی جو کہتے ہیں کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے وہ کافر ہوگئے، اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی اور لائق عبادت نہیں۔ سورة مائدہ کے آخر میں ہے کہ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ سے سوال ہوگا کہ اپنی اور اپنی والدہ کی عبادت کا حکم لوگوں کو تم نے دیا تھا، آپ صاف طور پر انکار کردیں گے۔ نصرانیوں کا اس بارے میں کوئی اصول ہی نہیں ہے، وہ بری طرح بھٹک رہے ہیں اور اپنے آپ کو برباد کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض تو حضرت عیسیٰ کو خود اللہ مانتے ہیں، بعض شریک الہیہ مانتے اور بعض اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر دس نصرانی جمع ہوں تو ان کے خیالات گیارہ ہوں گے۔ سعید بن بطریق اسکندری جو سن 400 ھ کے قریب گذرا ہے اس نے اور بعض ان کے اور بڑے علماء نے ذکر کیا ہے کہ قسطنطین بانی قسطنطنیہ کے زمانے میں اس وقت کے نصرانیوں کا اس بادشاہ کے حکم سے اجتماع ہوا، جس میں دو ہزار سے زیادہ ان کے مذہبی پیشوا شامل ہوتے تھے، باہم ان کے اختلاف کا یہ حال تھا کہ کسی بات پر ستر اسی آدمیوں کا اتفاق مفقود تھا، دس کا ایک عقیدہ ہے، بیس کا ایک خیال ہے، چالیس اور ہی کچھ کہتے ہیں، ساٹھ اور طرف جا رہے ہیں، غرض ہزار ہا کی تعداد میں سے بہ مشکل تمام تین سو اٹھارہ آدمی ایک قول پر جمع ہوئے، بادشاہ نے اسی عقیدہ کو لے لیا، باقی کو چھوڑ دیا اور اسی کی تائید و نصرت کی اور ان کے لئے کلیساء اور گرجے بنا دئے اور کتابیں لکھوا دیں، قوانین ضبط کر دئے، یہیں انہوں نے امانت کبریٰ کا مسئلہ گھڑا، جو دراصل بدترین خیانت ہے، ان لوگوں کو ملکانیہ کہتے ہیں۔ پھر دوبارہ ان کا اجتماع ہوا، اس وقت جو فرقہ بنا اس کا نام یعقوبیہ ہے۔ پھر تیسری مرتبہ کے اجتماع میں جو فرقہ بنا اس کا نام نسطوریہ ہے، یہ تینوں فرقے اقانیم ثلثہ کو حضرت عیسیٰ کے لئے ثابت کرتے ہیں، ان میں بھی باہم دیگر اختلاف ہے اور ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک تو تینوں کافر ہیں۔ اللہ فرماتا ہے اس شرک سے باز آؤ، باز رہنا ہی تمہارے لئے اچھا ہے، اللہ تو ایک ہی ہے، وہ توحید والا ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو۔ تمام چیزیں اس کی مخلوق ہیں اور اس کی ملکیت میں ہیں، سب اس کی غلامی میں ہیں اور سب اس کے قبضے میں ہیں، وہ ہر چیز پر وکیل ہے، پھر مخلوق میں سے کوئی اس کی بیوی اور کوئی اس کا بچہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ دوسری آیت میں ہے آیت (بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ) 6۔ الانعام :101) یعنی وہ تو آسمان و زمین کی ابتدائی آفرنیش کرنے والا ہے، اس کا لڑکا کیسے ہوسکتا ہے ؟ سورة مریم میں آیت (وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88؀ۭ لَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا 89؀ۙ تَكَاد السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا 90 ۙ اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا 91ۚ وَمَا يَنْۢبَغِيْ للرَّحْمٰنِ اَنْ يَّـتَّخِذَ وَلَدًا 92ۭ اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا 93؀ۭ لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا 94؀ۭ وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا 95؁) 19۔ مریم :88 تا 95) تک بھی اس کا مفصلاً انکار فرمایا ہے۔

آیت 171 - سورہ نساء: (يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم ولا تقولوا على الله إلا الحق ۚ إنما المسيح عيسى ابن مريم رسول...) - اردو