سورہ نساء: آیت 163 - ۞ إنا أوحينا إليك كما... - اردو

آیت 163 کی تفسیر, سورہ نساء

۞ إِنَّآ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ كَمَآ أَوْحَيْنَآ إِلَىٰ نُوحٍ وَٱلنَّبِيِّۦنَ مِنۢ بَعْدِهِۦ ۚ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْمَٰعِيلَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ وَٱلْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَٰرُونَ وَسُلَيْمَٰنَ ۚ وَءَاتَيْنَا دَاوُۥدَ زَبُورًا

اردو ترجمہ

اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف اُسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی ہم نے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ، عیسیٰؑ، ایوبؑ، یونسؑ، ہارونؑ اور سلیمانؑ کی طرف وحی بھیجی ہم نے داؤدؑ کو زبور دی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna awhayna ilayka kama awhayna ila noohin waalnnabiyyeena min baAAdihi waawhayna ila ibraheema waismaAAeela waishaqa wayaAAqooba waalasbati waAAeesa waayyooba wayoonusa waharoona wasulaymana waatayna dawooda zabooran

آیت 163 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 163 تا 165۔

غرض یہ ایک قافلہ ہے جو شاہراہ تاریخ پر چلتا ہوا نظر آتا ہے اور اس سلسلے کی کڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں ۔ یہ ایک ہی رسالت ہے اور اس کا ایک ہی نصب العین ہے کہ انسان کو قبل از وقت خبردار کردیا جائے اور اچھے لوگوں کو قبل از وقت ہی اچھے انجام کی خوشخبری دیدی جائے ، اس قافلے میں آگے پیچھے مختار ان درگاہ الہی اور انسانوں میں سے چیدہ لوگ آگے پیچھے چلے آرہے ہیں ۔ یہ رہے حضرت نوح (علیہ السلام) یہ رہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ آئی سواری حضرت اسماعیل کی ۔ انکے بعد یہ چلے آرہے ہیں حضرت اسحاق (علیہ السلام) ان کے بعد متصلا حضرت یعقوب آرہے ہیں ۔ اب کچھ مختلف گروہ نمودار ہوئے حضرت ایوب (علیہ السلام) یونس (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) ‘ سلیمان (علیہ السلام) ‘ داؤد (علیہ السلام) ‘ موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے اپنی اپنی باری پر اور بعض ایسے لوگ بھی چلے آئے ہیں جن کے نام سے ہم واقف نہیں ہیں۔ آخر میں حضرت محمد ﷺ خاتم النبین تشریف لا رہے ہیں اور اب اس قافلے کا آخری سرا اختتام کو پہنچا ۔ اس قافلے میں بعض لوگ ایسے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے پیش کیا ۔ اس قافلے میں مختلف رنگوں اور مختلف نسلوں کے نبی ہیں اور کرہ ارض کے مختلف علاقوں میں یہ قافلہ نظر آتا ہے ۔ اور مختلف ادوار اور مختلف زمانوں میں ، مختلف معاشروں اور مختلف خاندانوں میں یہ رسول کام کرتے رہے ۔ یہ سب ایک ہی مصدر اور منبع سے پیغام لاتے رہے ۔ یہ سب راہ دکھانے والی ایک ہی روشنی کے حامل رہے ۔ سب کے سب متنبہ اور خبردار کرتے رہے اور خوشخبری دیتے رہے ۔ یہ سب کے سب قافلہ انسانیت کی زمام اپنے ہاتھ میں لیکر اسے نور ہدایت میں داخل کرتے رہے ۔ چاہے کوئی کسی ایک خاندان کیلئے آیا ہو ‘ چاہے کوئی کسی ایک قوم کیلئے آیا ہو ‘ چاہے کوئی ایک شہر ار ایک علاقے کیلئے آیا ہو ‘ چاہے کوئی تمام انسانوں کیلئے آیا ہو اور خاتم النبین کا لقب پایا ہو۔

یہ سب کے سب وحدہ سے وحی پاتے رہے ۔ ان میں سے کسی نے کوئی بات اپنی طرف سے پیش نہیں کی ۔ ان میں سے اگر اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست بات کی تو وہ بھی وحی کا ایک رنگ تھا ۔ اس کیفیت سے ہم آگاہ نہیں ہیں نہ اس کا ادراک کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ قرآن کریم آخری وحی کا ریکارڈ ہے اور یہ اس قدر درست ریکارڈ ہے جو ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہے اور قرآن نے اس ہم کلامی کی کوئی تفصیل یاکیفیت بیان نہیں کی ہے ۔ اس کی کیفیت کیا تھی ؟ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے کن خواص اور کس قوت ادراک سے اسے پا رہے تھے ۔ یہ سب باتیں غیب سے تعلق رکھتی ہیں۔ قرآن کریم نے ان کے بارے میں کوئی بات بیان نہیں کی ہے ۔ اور قرآن کریم کے علاوہ اس موضوع پر جو کوئی بھی اپنے دہن سے بات کرے گا وہ بےسند ‘ فلسفہ یا قصہ کہانی ہوگی ۔

یہ رسول ‘ جن میں سے بعض کے نام ذکر ہوئے اور بعض کے نام نہیں لئے گئے کیوں بھیجے گئے ؟ اللہ کی شفقت اور رحمت اور عدالت کا تقاضا یہی تھا کہ وہ رسول بھیجے ۔ تاکہ وہ اللہ کے بندوں میں سے مومنین اور اطاعت کندگان کو خوشخبری دیدیں کہ اللہ نے ان کیلئے کیا کیا نعمتیں تیار کی ہوئی ہیں ۔ بیشمار نعمتیں اور اللہ کی رضا مندی ان کے انتظار میں ہے ۔ اور کافروں اور نافرمانوں کو ڈرائیں کہ اللہ کا غضب اور ایک دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے ۔ اور یہ سب کچھ کیوں کیا گیا ۔ (آیت) ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل “۔ (4 : 165) (تاکہ ان کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے ۔ “ اور یہ رسول لوگوں کو بتا دیں کہ ان کے نفس اور ان کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے اندر کیا کیا دلائل ہیں ۔ انہیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ جنس بشر کو متاع عقل سے نوازا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنے نفسوں اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے اندر دلائل تلاش کریں۔ عقل کے ہوتے ہوئے بھی ان کے پاس رسول بھیجے گئے ، یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں پر خاص شفقت اور رحمت تھی کہ اس نے رسول بھیجے کیونکہ اسے معلوم تھا کہ انسان کی ذاتی خواہشات اور اس کے میلانات اس کی عقل پر غالب آجائیں گے اور ان کے نتیجے یہ عظیم قوت دب کر رہ جائے گی ۔ اسی لئے اللہ نے اپنی رحمت خاصہ کے تحت ان کے پاس رسول بھیجے جو مبشرین اور منذرین تھے ۔ وہ ان کے سامنے یاد دہانی کراتے رہے ۔ انہیں بصارت اور بصیرت دیتے رہے ۔ وہ ان کی فطرت اور ان کی قوت عقلیہ کو شہوات نفسانیہ کے ڈھیروں کے نیچے سے نکال کر آزاد کراتے رہے ۔ جن ڈھیروں کے نیچے رہتے ہوئے اس کی عقل اور فطرت کیلئے دلائل ہدایت اور ایمان کے تقاضوں کو پانا مشکل ہوگیا تھا چاہے یہ دلائل خود نفس انسانی کے اندر ہوں یا اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی اس کائنات کے اندر ہوں ۔

(آیت) ” وکان اللہ عزیزا حکیما “۔ (3 : 165) (اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم ودانا ہے ۔ “ وہ غالب اس طرح ہے کہ اس کے بندے جب جرائم کا ارتکاب کریں ان پر وہ گرفت کرسکتا ہے ۔ حکیم ودانا اس طرح ہے کہ وہ اس کائنات کے تمام امور کو اپنی حکمت کے مطابق چلاتا ہے ۔ ہر معاملے کو اپنی جگہ پر طے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کیلئے جو تقدیرات اور جو اندازے طے کئے ہیں وہ سب حکمت اور اپنی مشیت کے مطابق کئے ہیں ۔

اب ذرا منظر کے سامنے رکئے ! (لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل (4 : 165) ” تاکہ ان رسولوں کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے “۔ اس منظر میں تو ہدایات واشارات کا ایک ذخیرہ پنہاں ہے ۔ گہرے اشارے اور واضح ہدایات ۔ ہم ان میں سے دو تین کا ذکر کرتے ہیں اور وہ بھی ضلال القرآن کی مناسبت سے نہایت ہی مختصر۔

اس آیت سے پہلی بات جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ نظام دین میں انسانی عقل کا مقام کیا ہے ؟ اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ اور انسان کے اہم ترین مسائل مثلا مسئلہ ایمان کے سلسلے میں عقل کی اہمیت کیا ہے ؟ اس لئے کہ ایمان کی بنیادوں پر لوگوں کی زندگی کا نظام استوار ہونا تھا ۔ اور زندگی کے تمام عناصر ‘ اس کے تمام رجحانات ‘ اس کی پوری عملی شکل اور اس کی کائنات میں اس کے تمام تصرفات کو ایمانی نظریے پر استوار ہونا تھا ‘ جس طرح عالم آخرت میں اس کا انجام تمام کا تمام اس ایمان پر موقوف تھا ۔

اگر اپنی قوتوں کے بل پر (اور اللہ انسان اور اس کی قوتوں کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے ‘ اور ان قوتوں کو انسان کے اندر خود اللہ نے ودیعت کیا ہے ) یہ انسان صرف اپنی اس عقل کے ذریعہ ہدایت پاسکتا اور اپنی ذات اور اپنی حیات کیلئے راہ مصلحت تلاش کرسکتا ‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے لئے خیر ڈھونڈ سکتا تو اللہ تعالیٰ پوری انسانی تاریخ میں اس طویل سلسلہ رسل کو ہر گز نہ جاری فرماتا اور لوگوں پر بذریعہ رسل حجت تمام نہ کرتا اور انسان اپنی اس عقل کے بل بوتے پر اپنے لئے دلائل ہدایت اور ایمان ویقین کے اشارات تلاش کرلیتا ۔ یہ دلائل وہ اپنے نفس سے بھی معلوم کرلیتا اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے آفاق کے اندر سے بھی وہ انکو دھونڈ لاتا ۔ وہ اپنے لئے ایک ایسا نظام زندگی بھی گھڑلیتا جس سے اس کی زندگی کے تمام مسائل ہوجاتے ۔ وہ راہ حق اور صراط مستقیم پر سیدھا چلتا ۔ سلسلہ رسل کی سرے سے ضرورت نہ رہتی ‘ ان کی تبلیغی سرگرمیوں کی ضرورت نہ رہتی ‘ اور اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتے کہ اگر رسول نہ ہوتے تو لوگوں کے پاس حجت ہوتی ۔ جیسا کہ کہا گیا۔

(آیت) ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل (4 : 165) ” تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف کوئی حجت نہ ہو۔ “

لیکن اللہ تعالیٰ کو خوب علم تھا کہ اس کو عقل کا جو ذریعہ ادراک اور الہ فہم دیا ہے وہ بذات خود ان امور کے ادراک سے قاصر ہے اور محض عقل انبیاء کی راہنمائی کے بغیر ‘ رسولوں کی تنظیم اور معاونت کے بغیر ہدایت تک نہیں پہنچ سکتی ۔ نیز رسولوں کی راہنمائی کے بغیر اس کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ پوری انسانی زندگی کیلئے کوئی اور منہاج حیات وضع کرلیں جس میں ان کی پوری پوری مصلحت ہو اور وہ ان کیلئے دنیا اور آخرت دونوں میں اچھے انجام کا ضامن ہو ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو عقل انسانی کی کوتاہ دامنی کا اچھی طرح علم تھا ‘ اسی لئے اللہ کی حکمت اور اس کی شفقت کا تقاضا یہ ہوا کہ وہ لوگوں کیلئے رسول بھیجے اور یہ کہ رسالت اور تبلیغ ہدایت کے بغیر لوگوں سے کوئی مواخذہ نہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا) ” ہم اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک ہم رسول نہ بھیج دیں “ اور یہ بات اس قدر بدیہی ہے کہ آیت سے قطعا ثابت ہوتی ہے اور اگر قطعا ثابت نہیں ہوتی تو اس آیت کا لازمی تقاضا ضرور ہے

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان وہدایت کے میدان میں اور ایمان وہدایت کی اساس پر تفصیلی نظام زندہ قیام کے معاملے میں پھر عقل کا کردار ہی کیا رہ جاتا ہے ۔ ؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عقل انسانی کا کردار یہ ہے کہ وہ رسولوں سے ہدایت اخذ کرنے کے سلسلے میں اپنے فرائض ادا کرے ۔ عقل کا فرض ہے کہ رسولوں کی دعوت پر غور وفکر کرے ۔ رسولوں کے فرائض صرف اس حد تک ہیں کہ وہ پہنچا دیں اور سمجھا دیں اور انسانی فطرت کے اوپر جو غلط افکار کے تہہ بہ تہہ ڈھیر ہیں انہیں صاف کرکے فطرت کو ان کے نیچے سے نکال دیں ‘ اور انسان کو اس طرف متوجہ کردیں کہ اس کے نفس اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے اندر معرفت کرد گار (خالق) کے واضح دلائل موجود ہیں ۔ اس کیلئے یہ رسول صحیح نظام تربیت اور صحیح منہاج مطاعلہ کائنات وضع کردیں اور انسانوں کیلئے نظام زندگی تجویز کردیں جس پر انکی زندگی کا قافلہ رواں اور دواں ہوجائے اور جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی خیر ہو ۔

عقل کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ دین اور الہیات کے معاملے میں ‘ ان موضوعات کی صحت اور بطلان کے بارے میں مفتی اور جج بن جائے ۔ اسے اختیار ہو کہ جو چاہے وہ قبول کرے اور جس چیز کو چاہے اسے رد کر دے جبکہ وہ بات قرآن وسنت سے یقینی طور پر ثابت شدہ ہو یہ بعد کہ اس بات کا مفہوم واضح طور پر سمجھ میں آگیا ہو ۔ یعنی نصوص قرآنی کے لغوی اور اصطلاحی مدلولات کی روشنی میں ۔ اگر عقل انسانی کو رد و قبول کا یہ اختیار ہوتا یعنی صحیح مفہوم ومدلول کے ادراک کے بعد ‘ بایں طور کہ ہماری عقل اس مدلول کو قبول نہیں کرتی ‘ یا اسے قبول کرنا نہین چاہتی تو پھر خدا اور رسول کے بیان کے بعد انسان مستحق عذاب قرار نہ پاتا ۔ لہذا عقل اس بات کی پابند ہے کہ وہ ضروریات دین کو قبول کرے ۔ اگر یہ عقائد اس تک صحیح طرح پہنچ جائیں اور جب عقل صحیح طور پر ان نصوص کے مفہوم و مراد کو سمجھ بھی جائے ۔

حضور اکرم ﷺ کی رسالت عقل کو مخاطب کرتی ہے ۔ وہ عقل کو جگاتی ہے ‘ اس کیلئے فکر ونظر کا ایک درست منہاج وضع کرتی ہے اور اسے صحیح راہ پر ڈالتی ہے ۔ لیکن یہ خطاب اس مفہوم میں نہیں ہے کہ عقل کو اس رسالت کے صحیح ہونے یا اسکے باطل ہونے کا فیصلہ صادر کرنے کا اختیار ہے یا وہ ایسا کرسکتی ہے ۔ یا امور رسالت میں اسے رد و قبول کر اختیار حاصل ہے ‘ بلکہ بہ خطاب اس مفہوم میں ہے کہ جب نص سے کوئی امر ثابت ہوجائے تو وہی اللہ کا حکم ہوگا اور عقل انسانی کا فرض ہے کہ اسے قبول کرے ۔

اس کی اطاعت کرے اور اسے اس کرہ ارض پر نافذ کرے ۔ چاہے نص کا یہ مفہوم اس کے ذہن کیلئے مالوف ومقبول ہو یا اس کیلئے عجیب و غریب ہو ۔

عقل انسانی کا کردار اس بات میں صرف اس قدر ہے کہ وہنصوص کو سمجھنے کی صحیح کوشش کرے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ لغت عربی اور اصطلاحات شریعت کے مطابق اس نص کا مفہوم کیا بنتا ہے ۔ یہاں آکر عقل کا کام ختم ہوجاتا ہے اور نص شریعت سے جو صحیح مفہوم اخذ ہوتا ہے اسے کسی عقلی دلیل اور قیاس سے رد نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ جہاں تک نص کا تعلق ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے ۔ محض عقلی توجیہہ نص سے برتر نہیں ہو سکتی اس لئے کہ عقل الہ کا درجہ نہیں رکھتی نہ وہ اللہ کی نصوص کے اور ردوقبول کا درجہ رکھتی ہے۔

اس اہم نکتے پر خیالات کے اندر ایک عظیم التباس پیدا ہوجاتا ہے ۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو عقل انسانی کو الہ کا درجہ دیدیتے ہیں ۔ اپنے معاملات پر بھی اسے حکم قرار دیتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایمان وہدایت کے میدانوں میں عقل کو دخل اندازی کی ذرہ بھر اجازت نہیں دیتے ، صحیح منہاج وہی ہے جو اوپر ہم نے بیان کردیا ہے ۔ وہ یہ کہ رسالت نے عقل کو مخاطب کیا ہے تاکہ وہ رسالت کے فیصلوں کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ رسالت اپنے عملی اور نظریاتی فیصلوں کے بارے میں عقل کیلئے بھی ایک منہاج بناتی ہے تاکہ وہ بھی اپنے دائرے کے اندر کام کرے ۔ پوری زندگی میں رسالت کے فیصلوں کا ادراک کرے ۔ جب عقل نے رسالت کے فیصلوں کو سمجھ لیا کہ نصوص شریعت و رسالت کا مفہوم کیا ہے تو پھر عقل کیلئے تصدیق ‘ اطاعت اور انکے نفاذ کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں رہتا شریعت یہ لازم نہیں کرتی کہ وہ مفاہیم نصوص سمجھے بغیر ان پر عمل کرے بلکہ شریعت کا مدعا یہ ہے کہ نصوص شریعت پر سمجھ کر عمل کیا جائے ۔ لیکن جب عقل ان کا ادراک کرلے تو اس پر فرض ہوجاتا ہے کہ پھر ان پر عمل پیرا ہو اور کوئی چون وچرا نہ کرے ۔ نصوص کے مفاہیم کے مطابق بات کو قبول کرے ۔ اور نصوص کا مقابلہ اور چون وچرا یہ ہوگا کہ ان میں سے بعض کو قبول کرے اور بعض کو رد کرے ۔ بعض کو صحیح قرار دے اور بعض کو غلط قرار دے ‘ باوجود اس علم کے کہ یہ نصوص وہدایت اللہ کی جانب سے آئی ہوئی ہیں ۔ اللہ وہی بات کرتا ہے جو حق ہوتی ہے اور وہ جو حکم بھی دیتا ہے اس میں بھلائی ہوتی ہے ۔

اسلامی منہاج حیات میں اللہ سے ہدایت پانے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ نصوص قرآن وسنت کا صحیح مفہوم پالینے کے بعد اس میں عقلی گھوڑے نہ دوڑائے جائیں یہ فہم اصول فہم کے مطابق ہو۔ انسان قرآن وسنت کا مطالعہ اپنے ذہن میں بعض فیصلے پہلے سے طے کرکے نہ کرے اس طرح کہ اپنے دین میں بعض منطقی نتائج طے کرلے یا اپنے محدود ملاحظے سے کچھ باتیں طے کرلے یا پنے ناقص تجربات کے مطابق بعض چیزوں کو حقائق سمجھ لے اور اس کے مطابق قرآن وسنت کو ڈھالنے کی سعی کرے ۔ صحیح منہاج مطالعہ یہ ہے کہ وہ نصوص کو اس طرح لے جس طرح کہ وہ ہیں اور نصوص نے جو فیصلے کر لئے ہیں وہ بہرحال فیصلے ہیں اور وہ اس کی ذاتی سوچ سے بہتر ہیں اور ان کا نظام اور ان کا منہاج اس کے ذاتی منہاج سے زیادہ مضبوط ہے اس لئے عقل دین کے فیصلوں پر کوئی محاکمہ نہیں کرسکتی ۔ جب عقل کے نزدیک یہ بات ثابت ہوجائے کہ یہ فیصلہ دین کا ہے ۔ لوگوں کے بتائے ہوئے فیصلے اصول دین پر برتری حاصل نہیں کرسکتے ہیں ۔ عقل بہرحال ان دینی ضوابط کی تابع ہوگی ۔ بشرطیکہ دین کے ضوابط اور پیمانے اچھی طرح ثابت ہو کو سامنے آجائیں ۔

عقل لو الہ کا درجہ حاصل نہیں ہے کہ وہ یہ قرار دے کہ اس نے جو نتائج اخذ کر لئے ہیں وہ اللہ کے فیصلے ہیں ہاں عقل انسانی کو یہ حق ضرور حاصل ہے کہ وہ کسی نص کا کوئی مفہوم انسانی عقل کے مطابق کسی دوسرے مفہوم کے مقابلے میں پیش کرے جو بذات خود بھی عقلی مفہوم ہو ۔ یہ تو عقل انسانی کا دائرہ کار ہے اور اس میں عقل پر کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ اس میں کوئی حرج ہے بشرطیکہ نصوص کا یہ مفہوم وادراک صحیح اور اصولوں کے دائرے کے اندر ہو مقصود تاویل نصوص اور افہام و تفہیم ہو اور نصوص کے اندر تاویل کی گنجائش موجود ہو ۔ یہ تاویل اور تفہیم بھی ان قواعد اور ضوابط کے اندر ہو ‘ جو اس مقصد کیلئے خود دین نے وضع کئے ہیں ۔ یہ قواعد ایسے ہیں جو انسانوں کی حریت فکر کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور انسان کے فہم وادراک کیلئے ایک وسیع میدان فراہم کرتے ہیں ۔ اسلامی نظام میں کوئی ایا اداراہ کوئی ایسی اجتماعی پابندی اور کوئی ایسا عہدیدار نہیں ہے جسے ذہنوں پر تالے لگانے کا اختیار ہو کہ لوگ نصوص شرعیہ کے اندر غوروفکر نہیں کرسکتے ۔ ان کے انطباق کیلئے کوئی اچھی رائے نہیں دے سکتے یا کوئی معقول وجوہ پیش نہیں کرسکتے ۔ بشرطیکہ کوئی شرعی نص ان آراء ‘ ان تاویلات اور وجوہات کی متحمل ہو اور یہ تاویلات بھی اسلامی نظام کے حدود کے اندر ہوں اور اصول دین پر مبنی ہوں ۔ یہ ہے مفہوم اس بات کا کہ رسالت محمدیہ عقل کو مخاطب کرتی ہے ۔

بیشک اسلام ایک عقلی دین ہے ۔ وہ اپنے مسائل ‘ عقائد اور فیصلے عقل کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اور اسلام یہ فیصلے اور عقائد انسانوں سے فوق الفطری انداز میں نہیں منواتا کہ ماننے کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ رہے بلکہ وہ عقلی دین اس مفہوم میں ہے کہ وہ عقل سے مخاطب ہوتا ہے اور اسے غوروفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ وہ اس کے سامنے ہدایت اور صراط مستقیم پر آنے دلائل پیش کرتا ہے کہ وہ اپنے نفس اور اپنے آفاق کے اندر پائے جانے والے ان نشانات راہ پر غور کرے راہ پر غور کرے اور انسان کی اصلی فطرت کو ان عادات وتقالید کے تہ بہ تہ جمے ہوئے پردوں اور ڈھیرون کے نیچے سے نکالے ۔ نیز یہ کہ عقل اپنے آپ کو گمرہ کن خواہشات اور عقل و فطرت پر چھا جانے والے موثرات سے نکال لے ۔ قرآن کریم عقل کو اس لئے خطاب کرتا ہے کہ قرآن نے اپنے نصوص کے اندر جو امور طے کردیئے ہیں وہ ان پر غور وفکر کرکے انکو تسلیم کرے ، اور قرآن کریم کا یہ انداز نہیں ہے کہ وہ بغیر سمجھانے کے لوگوں کو بات تسلیم کرنے پر مجبور کرے ۔ ہاں جب عقل کو کام میں لا کر انسان کسی نص کا مفہوم ومدلول پالے اور حقائق کا ادراک کرے تو پھر اس کیلئے سرتسلیم خم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں ہے ۔ سمجھنے کے بعد اگر وہ تسلیم کرلیں تو مومن ہیں اور اگر تسلیم نہ کریں تو کافر ہیں۔ رہے قرآنی اور اسلامی فیصلے تو وہ عقل کے سامنے پیش کئے جانے سے پہلے ہوچکے ہیں ۔ عقل کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ وہ درست ہیں یا غلط ہیں ۔ نہ عقل کو اختیار ہے کہفہم ودارک کے بعد اسلامی فیصلوں کو رد کرسکے ۔ آج کل بعض لوگ عقل کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اسلامی فیصلوں کو رد کرے ۔ ایسے لوگوں کے نزدیک ان کی عقل ان کا الہ بن جاتی ہے ۔ اب ان کا یہ الہ شریعت کے جن فیصلوں کو چاہے قبول کرلے اور جن کو چاہین انہیں رد کردے ۔ جن امورکو چاہے چن لے اور جن کو چاہے چھوڑ دے ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔

(آیت) ” افتومنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض “۔ کیا تم کتاب کے بعض حصے پر ایمان لاتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو ۔ “ یہ طرز عمل کافرانہ ہے اور ایسے لوگوں کو آخرت میں سخت سزا دی جائے گی ۔

اب اللہ تعالیٰ نے چاہے اس کائنات کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ‘ یا انسان کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ‘ یا کسی بھی دوسری مخلوق کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا یا اللہ تعالیٰ نے قانون میراث کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا یا فرائض ونواہی کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا تو اللہ کے یہ تمام فیصلے واجب القبول ہیں اور جن تک یہ فیصلے پہنچیں اور وہ ان فیصلوں کے مدلولات کا ادراک کرلیں تو ان کیلئے ان فیصلوں کو قبول کرنا فرض ہے ۔ مثلا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔

(آیت) ” اللہ الذی خلق سبع سموت ومن الارض مثلھن “ (65 : 12) (اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی انہیں کے مانند ۔۔۔۔۔ “ (آیت) ” (واللہ خلق کل دآبۃ من مآئ) (24 : 45) ” اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا۔ “ (آیت) ” (خلق الانسان من صلصال کالفخار) (14) (وخلق الجان من مارج من نار (15) (55 : 14۔ 15) (انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے گارے سے بنایا اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا) یہ اور اس قسم کی بیشمار آیات ہیں جن کا تعلق اس کائنات کی نوعیت اور زندہ اور مردہ اشیاء کی ماہیت سے ہے ۔ پس اللہ نے جو کچھ کہہ دیا وہ حق ہے ۔ اب عقل کیلئے یہ مجال نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ یہ باتیں تو میرے فیصلوں کے اندر اس طرح نہیں ہیں یا میرے فہم وادراک میں یہ بات نہیں سماتی یا یہ بات ابھی میرے تجربے کے اندر نہیں آئی ۔ اس لئے کہ ان معاملات میں عقل نے جو فیصلے کئے ہیں وہ درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی ہوسکتے ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کہہ دیا ہے وہ درست ہی ہو سکتا ہے اور اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ البتہ ہماری فہم نصوص کے صحیح مفہوم کا ادراک کرنے میں غلطی کرسکتی ہے اور یہ بات اس صورت میں ہے کہ نصوص کے صحیح مفہوم کا ہم ادراک کرلیں ۔ اسی طرح دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” (ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون) (5 : 44) (جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں۔

(آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا ان کنتم مومنین (278) فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ وان تبتم فلکم رء وس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون “۔ (279) (2 : 278۔ 279)

” اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ‘ خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ‘ اگر واقعی تم ایمان لائے ہو ۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ‘ تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سودچھوڑ دو ) تو اپنا اصل سرمایہ تم لینے کے حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے ۔

(آیت) ” وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی) (33 : 33) ” اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کیسی سج دھج نہ دکھاتی پھرو “۔ (آیت) ” ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن “۔ (24 : 31) ” اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں “۔

یہ اور انسانی زندگی کے بارے میں دوسری آیات وہدایات ایسی ہیں کہ ان میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہی سچ ہے اور ان کے بارے میں عقل کو یہ کہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ عقل کے مطابق فلاں اور فلاں باتوں میں مصلحت زیادہ ہے ‘ جو اللہ کے فیصلوں کے خلاف ہوں یا وہ ایسی باتیں ہوں جن کی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہ دی ہو اور اسے لوگوں کیلئے قانون قرار نہ دیا ہو ۔ جس امر میں عقل کو مصلحت نظر آتی ہے اس میں خطا اور صواب دونوں کا امکان ہے اور وقتی جذبات اور خواہشات نفسانیہ کا دخل اس میں عین ممکن ہے اس لئے اللہ تعالیٰ جو فیصلہ فرماتے ہیں وہ درست ہی ہو سکتا ہے اور اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ نے جن عقائد اور تصورات کی تلقین کی ہے ‘ یا زندگی کا جو منہاج اور طریق کار تجویز کیا ہے ان کے بارے میں عقل کا موقف جو ہو سو ہو ‘ جب تک نص صحیح ہے ‘ قطعی الدلالت ہے اور کسی وقت کے ساتھ موقت نہیں ہے ۔ اس بارے میں ہم عقل کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ یہ کہے کہ جہاں تک عقائد ونظریات کا تعلق ہے وہ تو ہم نصوص کے مطابق لیتے ہیں ۔ رہا زندگی کا تفصیلی نظام تو اس بارے میں بات یہ ہے کہ اب زمانہ بہت ہی بدل گیا ہے اور نہایت ہی ترقی یافتہ ہے ۔ اس لئے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا کہ نصوص شرعیہ کسی خاص وقت تک ہی موثر ہوں تو اللہ تعالیٰ اسی طرح کرسکتا تھا ۔ جب تک کوئی نص مطلق ہے تو وہ جس طرح زمانہ نزول کے وقت موثر تھی اسی طرح وہ آخری زمانے میں بھی موثر ہوگی ورنہ یہ بات لازم آئے گی کہ ہم اللہ میاں کو قصور وار ٹھہرانے کی جسارت کریں جوہر قسم کے نقائص سے پاک وصاف ہے ۔

سوال یہ ہوگا کہ کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا ہے ؟ نہیں اجتہاد اس مین ہوگا کہ ہم کسی جزئی صورت حال پر کسی نص کی تطبیق کریں ۔ یہ اجتہاد نہیں ہے کہ ہم ایک عام اصول میں یا حکم میں کوئی تبدیلی کریں یا اسے رد کردیں ‘ کسی دور میں یا کسی نسل میں اصول عقل میں سے کسی اصول کے تحت کوئی بات کریں ۔

درج بالا جو معروضات ہم نے پیش کی ہیں ‘ ان میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو حیات انسانی کے اندر عقل وخرد کی اہمیت کو کم کر رہی ہو اس لئے کہ اسلامی نصوص اور اصولوں کو جدید سے جدید تر حالات پر منطبق کرنے کا ایک وسیع میدان کار عقل کیلئے کھلا ہے ۔ جبکہ عقل اسلامی نقطہ نظر اور اسلامی پیمانوں کا اچھی طرح ادراک کرے جو صحیح خطوط پر فہم دین سے مستفاد ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ وسیع میدان اس کائنات کے اصول طبیعی ‘ اس کی قوتوں اور اس کے اندر پوشیدہ ذخائر کا ہے ۔ اس کائنات کا مزاج ‘ اس کے اندر رہنے والی مخلوقات کا علم ‘ ان قوتوں کے استفادے کے ذرائع اور اس میں زندہ مخلوقات کیلئے زندگی آسان بنانے کے ذرائع واسباب عقل کیلئے وسیع تر میدان ہیں جن میں صرف عقل ہی کام کرسکتی ہے ۔ یہاں انسان کو ترقی دی جاسکتی ہے اور حدود اللہ میں رہتے ہوئے اس کی زندگی کے شب وروز بدل سکتے ہیں ۔ بہرحال عقل کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ انسانیت کی لگام ہوا وہوس اور لذت وشہوت کے ہاتھ میں دیدے جہاں عقل ٹھوکر کھاتی ہے اور فطرت خواہشات کے دبیز مادے کے نیچے دب جاتی ہے ۔

ذرا پھر رکئے اور اس آیت پر دوبارہ نظر ڈالئے (آیت) ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل (4 : 165) ” تاکہ رسولوں کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔ “ اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کے کاندھوں پر کس قدر عظیم ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں اور اس کے بعد جو لوگ انبیاء (علیہم السلام) کی رسالت پر ایمان لانے والے ہیں ان پر تمام انسانوں کے حوالے سے کس قدر عظیم ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں ۔ فی الواقعہ یہ عظیم اور بھاری ذمہ داریاں ہیں۔

تمام لوگ جو اس دنیا میں آباد ہیں ان کے انجام ‘ دنیا اور آخرت دونوں میں ‘ رسولوں اور رسولوں کے متبعین کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ مثلا رسول اور ان کے متبیعن اللہ کے پیغام کو ان تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اور اس تبلیغ کے نتیجے ہی میں لوگوں کی خوش بختی اور بدبختی کا فیصلہ ہوگا ‘ اس تبلیغ اور دعوت ہی کے نتیجے میں ثواب اور عتاب کے وہ مستحق ہوں گے ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔

بیشک یہ ایک ہولناک اور خوفناک اور عظیم ذمہ داری ہے لیکن اس کے سوا اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام رسل (علیہم السلام) اپنی اس عظیم ذمہ داری کا شدید احساس رکھتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ بھی ان کو اس بوجھ سے اچھی طرح آگاہ فرما دیتے تھے جو ان پر ڈالدیا گیا تھا ۔ یہی وہ بات ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہتے ہیں ۔ (آیت) ” انا سنلقی علیک قولا ثقیلا “۔ (73 : 5) ” ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنیوالے ہیں ۔ “ اور اس کیلئے تیاری یوں ہوگی ۔

(آیت) ” یایھا المزمل “ (1) قم الیل الا قلیلا (2) نصفہ اوانقص منہ قلیلا (3) اوزد علیہ ورتل القران ترتیلا (4) (انا سنلقی علیک قولا ثقیلا (5) (73 : 1۔ 5) ” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے ‘ رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم ‘ آدھی رات ‘ یا اس سے کچھ کم کرلو ‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو ‘ اور قرآن کو خوب ٹھہرٹھہر کر پڑھو ۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنیوالے ہیں ۔ “

(آیت) ” انا نحن نزلنا علیک القرآن تنزیلا (23) فاصبر لحکم ربک ولا تطع منھم اثما اوکفورا (24) واذکراسم ربک بکرۃ واصیلا (25) ومن الیل فاسجد لہ وسبحہ لیلا طویلا “۔ (26) (76 : 23 تا 26)

” اے نبی ! ہم نے تم پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے لہذا تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو ‘ اور ان میں سے کسی بدعمل ‘ یا منکر حق کی بات نہ مانو۔ اپنے رب کا نام صبح اور شام یاد کرو۔ رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو ‘ اور رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو “۔ یہ ہے وہ بات جس کا احساس اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو دلاتے ہیں اور اسے حکم دیتے کہ وہ یہ بات کریں اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس کی حقیقت اور اہمیت کیا ہے ۔

(آیت) ” قل انی لن یجیرنی من اللہ احد ولن اجد من دونہ ملتحدا “۔ (72 : 22) ” کہو مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہیں سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکتا ہوں ۔ میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں ۔ “

(آیت) ” علم الغیب فلایظھر علی غیبہ احدا (26) الا من ارتضی من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصدا (27) لعلم ان قد ابلغوا رسلت ربھم واحاط بما لدیھم واحصی کل شیء عددا (28) (72 : 26 تا 28)

” وہ عالم الغیب ہے ۔ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ‘ سوائے اس رسول کے جسے اس نے پسند کرلیا ہو ‘ تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے ‘ اور وہ انکے پورے ماحول کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے ۔ “

بیشک یہ ایک خوفناک اور عظیم فریضہ ہے ۔ لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ان کی خوش بختی اور بدبختی کا معاملہ ہے ۔ ان کے ثواب اور عذاب کا مسئلہ ۔ یہ پوری انسانیت کے انجام کا معاملہ ہے ۔ اس فریضے کا خلاصہ یہ ہے کہ اس پیغام کو یا تو لوگوں تک پہنچایا جائے گا تاکہ وہ اسے قبول کریں ‘ اس کی پیروی کریں جس کے نتیجے میں وہ دنیا وآخرت میں فلاح پائیں گے یا ان تک یہ پیغام پہنچے گا تو وہ اسے دور پھینک دیں گے اور دنیا وآخرت دونوں میں بدبختی کا شکار ہوں گے اور یا یہ پیغام ان تک نہ پہنچے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگوں کے ہاتھ ان کے رب کے خلاف ایک حجت ہاتھ آجائے گی اور ان لوگوں کی اس دنیاوی بدبختی کی ذمہ داری اور ان کی گمراہی کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوگی جو اس دنیا میں ان تک خدا کا پیغام پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اور وہ یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتے ۔

رہے اللہ کے رسول تو انہوں نے تو اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کردی ۔ انہوں نے اللہ کا پیغام اور امانت لوگوں تک پہنچا دی۔ وہ اپنے رب کے پاس اس حال میں گئے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کردی تھیں ۔ انہوں نے یہ ذمہ داریاں صرف زبانی تبلیغ کی حد تک ہی پوری نہ کی تھیں بلکہ انہوں نے اللہ کے پیغام کو اپنی زندگیوں میں عملی شکل دیکر لوگوں کو دکھایا اور وہ رات اور دن اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے ان مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرتے رہے جو اس پیغام کی راہ میں حائل تھیں ۔ یہ مشکلات چاہے شبہات کی شکل میں تھیں جو لوگوں کے ذہنوں میں کھٹک رہے تھے یا گمراہی کی شکل میں تھیں جو لوگوں پر مسلط تھیں یا ایسی قوتوں کی شکل میں تھیں جو طاغوتی قوتیں تھیں اور جو لوگوں کو اس دعوت پر کان دھرنے سے روکتی تھیں اور ان کے دین کیلئے فتنہ بنی ہوئی تھیں ۔ خاتم النبین ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں اسلام کو پوری طرح نافذ کر کے دکھایا اس لئے کہ آپ آخری مبلغ تھے ۔ آپ کی رسالت تمام رسالتوں کا اختتامیہ تھی ‘ تو آپ نے محض زبانی تبلیغ پر اکتفاء نہ کیا ۔ آپ نے تلوار اور قوت کے زور سے بھی ان مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کیا ۔ (آیت) ” حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ “ (2 : 193) ” تاکہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین صرف اللہ کے لئے ہوجائے ،۔ “ اب یہ بھاری ذمہ داری آپ کے بعد ان لوگوں پر آپڑتی ہے جو آپ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ زمانے گزر گئے ‘ نسلوں کی نسلیں گزر گئیں اور گزرتی رہیں گی ۔ حضور ﷺ کے بعد تبلیغ کا سلسلہ آپ کی متبعین کی ذمہ داری میں آگیا ہے اور ان کے لئے اس مشکل اور بھاری ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کی کوئی سبیل نہیں ہے ۔ انہوں نے لوگوں پر حجت قائم کرنی ہے ۔ انہوں نے لوگوں کو دنیا کی بدبختی اور آخرت کی ناکامی سے بچانا ہے ۔ یہ فریضہ اور یہ ذمہ داری صرف تبلیغ کرنے سے ہی ادا کی جاسکتی ہے ۔ اور یہ اسی منہاج پر ادا ہو سکتی ہے جس پر اسے رسول خدا ﷺ نے ادا فرمایا ۔ اس لئے کہ رسالت وہی ہے اور اہل ایمان پر وہی ہیں۔ گمراہیاں ‘ خواہشات نفسانیہ اور شبہات اور اعتراضات بھی وہی ہیں وہ طاغوتی قوتیں بھی اسی طرح موجود ہیں جو لوگوں تک دعوت اسلامی کے پہنچنے کی راہ میں حائل ہیں ۔ یہ قوتیں مسلمانوں کو ان کے دین کے بارے میں فتنے میں ڈال رہی ہیں اور قوت کے بل بوتے پر انکو گمراہی کر رہی ہیں ۔ وہی موقف ہے جو تھا ‘ وہی مشکلات ہیں جو تھیں ۔ لوگ بھی وہی ہیں جو تھے ۔

دعوت اسلامی وہ فریضہ ہے جس سے ہم روگردانی اور انکار نہیں کرسکتے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم تبلیغ کریں ‘ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم یہ فریضہ ادا کریں ۔ تحریر وتقریر سے تبلیغ کریں ۔ اپنے عمل سے تبلیغ کریں تاکہ مبلغین اپنے عمل اور کردار کی وجہ سے چلتی پھرتی تبلیغ ہوں اور تبلیغ اور دعوت کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہوں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں کہ یہ بھی تبلیغ ہی کی ایک صورت ہوگی جو لوگ فتنے میں پھنسے ہوئے ہوں انہیں رہائی دلائیں ۔ اگر یہ کام نہ کیا گیا تو کوئی تبلیغ نہ ہوگی اور نہ ادائیگی فرض ہوگی اور نہ لوگوں پر اللہ کی حجت تمام ہوگی ۔

یہ ذمہ داریاں اٹھانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے ورنہ اس کے بھاری نتائج برآمد ہوں گے ۔ تمام دنیا گمراہی میں مبتلا ہوگی وہ اس دنیا میں بدبختی کا شکار ہوگی اور آخرت میں اس کے خلاف اللہ کے ہاں حجت نہ ہوگی اور ان کے ہاتھ حجت آجائے گی ۔ اگر امت یہ ذمہ داری ادا نہ کرے گی تو اس کی وجہ سے لوگ نجات نہ پائیں گے ۔

کون ہے جو اس بوجھ کو ہلکا سمجھے گا ؟ یہ کمر توڑ بوجھ ہے ‘ اس سے جسم کا ہر جوڑ اور ہر عضو کانپ رہا ہے جو شخص بھی یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ ” مسلم “ ہے یا تو وہ اس فریضے کو ادا کرے گا اور دعوت دین کا کام کرے گا ورنہ خود اس دنیا اور آخرت میں اس کیلئے فلاح ممکن نہیں ہے ۔ جب وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ مسلم ہے اور پھر دعوت دین کا کام نہیں کرتا اور اپنا فرض ادا نہیں کرتا ‘ ان تمام طریقوں کے مطابق جو دعوت دیں اور ادائیگی فرض کیلئے مسنون ہیں تو وہ گویا اس اسلام کے خلاف شہادت دے رہا ہے جس کا اس نے دعوی کیا ہے ۔ اس کی شہادت اسلام کے حق میں نہیں ہے بلکہ اسلام کے خلاف ہے حالانکہ اسے اس لئے اٹھایا گیا ہے کہ وہ اسلام کے حق شہادت دے ۔

(آیت) ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا التکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا “ (2 : 142) اور اسی طرح ہم نے تم مسلمانوں کو امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو (تفصیلات کیلئے دیکھئے مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی کتاب شھادت حق (سیدقطب)

شہادت حق اور اسلام کے حق میں شہادت کا آغاز یوں ہوگا کہ ایک مسلمان بذاتہ پھر اس کا گھر اور خاندان ‘ پھر اس کی قوم اور اس کے رشتہ دار اس دین کا عملی نمونہ ہوں جس کی وہ دنیا کی دعوت دے رہا ہے ۔ اس کے بعد اس کی یہ شہادت ایک قدم اور آگے بڑھے اور ایک ایسی امت پیدا ہو جسے امت دعوت کہا جاسکے ۔ وہ اپنے گھر ‘ خاندان ‘ اور رشتہ داری کے حدود میں اسلام اور دعوت اسلامی کو عملی شکل میں پیش کرنے کے بعد شخصی معاملات اور ملک کے سیاسی معاملات کے اندر بھی اس دعوت کے قیام کی ذمہ داری لے ۔ اس کے بعد وہ ایسی شہادت دے کہ ان رکاوٹوں کو دور کردے جو اسلام کی راہ میں حائل ہیں ‘ جو لوگوں کو گمراہ کر رہی ہیں اور اس دعوت کے حوالے سے ان کو فتنے میں ڈال رہی ہیں ۔ چاہے یہ رکاوٹیں جس قسم کی بھی ہوں ۔ اگر کسی مسلمان نے اس مفہوم میں شہادت دی تو پھر وہ صحیح معنوں میں شاہد بھی ہوگا اور شہید بھی ہوگا ۔ وہ گواہی دیکر اپنے رب کے پاس پہنچ جائے گا ۔ یہ ہے وہ حقیقی شہید۔

سب سے آخر میں ہم دست بستہ اللہ کے حضور اس کی درگاہ عظمت و جلالت میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہ درگاہ درگاہ عدل ہے اور گہرے علم پر مبنی ہے ۔ اس درگاہ میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت سایہ فگن ہوتے ہیں اور اس میں ہر کسی کے ساتھ رعایت اور احسان ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اس حضرت انسان کے ساتھ ہوتا ہے جو کبھی منکر حق کے روپ میں آتا ہے اور کبھی سخت نافرمانی کرتا ہے ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت انسان کو اللہ تعالیٰ نے زیور علم سے آراستہ کیا ہے اور اس کی ذات کے اندر بےپناہ قوتیں ودیعت کی ہیں۔ اس کی ذات میں ہدایت اور ضلالت دونوں کی استعداد پیدا کی ہے ۔ اگر اس علم کو عقل کے تابع نہ کیا جائے تو اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم کا ایک عظیم ہتھیار دیا ہے اور یہ کہ انسان کے انفس اور اس کے آفاق میں ہدایت اور قبول ایمان کے بیشمار دلائل موجود ہیں ۔ اللہ کو علم تھا کہ انسان کے پاس علم کا جو عظیم ہتھیا رہے اس کے مقابلے میں انسان کے اندر قوت شہوانیہ اور حیوانیہ بھی موجود ہے ۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ انفس وآفاق کے اندر جو کثیر التعداد دلائل و شواہد پائے جاتے ہیں انہیں انسان کی خواہشات نفسانیہ دبالیں اور اس کی کو تاہیاں اور اس کی جہالت انہیں اس کی نظروں سے اوجھل کردیں ۔ انسان کیلئے ان دلائل پر تب ہی غور وفکر کرنا ممکن ہوگا جب اس کے پاس رسول بھیجے جائیں اور اسے بار بار یاددہانی کرائی جائے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے بیان کے بعد بھی انسان کے ذمے یہ بات نہیں ڈالی کہ وہ اپنے لئے کوئی نظام زندگی بنائے بلکہ اسے نظام زندگی بنا کردیا اور اس کا فرض یہ قرار دیا کہ وہ اس نظام کو دنیا میں نافذ کرے ۔ اس کے بعد اسے پھر اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیا ۔ ان حدود وقیود کے بعد بھی اس کیلئے اس عظیم مملکت میں ایک وسیع دائرہ کار رہ گیا ۔ اسے اجازت دی گئی کہ وہ اس میں جو چاہے نئی نئی ایجادات کرے ۔ جو تغیرات چاہے کرے اور جو ترکیبات چاہے کرے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے جس طرح اس پوری کائنات کو مسخر کیا ہے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائے اس میں یہ انسان کبھی درست فیصلے کرے گا اور کبھی غلط کبھی وہ پھسلے گا اور کبھی صراط مستقیم پر رواہ دواں ہوگا ۔

یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اللہ کے ہاں انصاف کی کیا اہمیت ہے جسے اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ۔ اگر رسول نہ بھیجے جاتے تو لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے خلاف ایک حجت ہوتی ۔ لیکن اللہ نے رسول بھیجے جو لوگوں کو خوشخبری دیتے تھے اور انجام بد سے ڈراتے تھے ۔ حالانکہ اس کائنات میں اللہ کی ذات پر ایمان لانے کے تکوینی دلائل موجود تھے اور یہ کائنات سب کے سامنے کتاب مفتوح تھی ۔ نیز نفس انسنای بھی ایک کھلی کتاب کے طور پر انسان کے سامنے موجود تھا ۔ جس کے اندر کرد گار کے وجود پر بیشمار دلائل تھے ۔

جن سے اللہ کی وحدانیت کو اچھی طرح معلوم کیا جاسکتا تھا ۔ جن سے اللہ کی تقدیر ‘ اللہ کی تدبیر ‘ اللہ کی قدرت اور اس کے علم کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہو سکتا تھا ۔ نیز فطرت انسانی کے اندر بھی ایک قوی اور حقیقی داعیہ موجود ہوتا ہے جس سے انسان کو اس کائنات کے خالق تک رسائی کا ایک نہایت پختہ شوق ملتا ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ضرور ہے پھر اس فطرت اور دلائل کونیہ کے درمیان ایک قسم کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق اور مدیر موجود ہے پھر اللہ تعالیٰ نیانسان کو عقل عطا فرمائی تھی جو مشاہدات کے ذریعے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ انسان کی ان تمام قوتوں پر ضعف طاری ہوجاتا ہے ۔ کبھی کبھی یہ قوتیں معطل ہوجاتی ہیں ‘ کبھی یوں ہوتا ہے کہ بعض اثرات ان قوتوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔ کبھی تو ان عقلی قوتوں کو مٹا دیا جاتا ہے ۔ کبھی عقل کے فیصلوں میں غلطی واقعہ ہوتی ہے اور عقل پریشان ہوجاتی ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس ڈیوٹی سے معاف کردیا کہ وہ اس کائنات کے دلائل و شواہد ہی سے راہ ہدایت حاصل کریں یا محض فطری دلائل سے اپنی عقل کے بل بوتے پر راہ حق پائیں ‘ جب تک ان کے پاس کوئی رسول نہیں آجاتا تاکہ یہ رسالت انسان کی ان تمام خوبیوں اور قوتوں کو ان تمام آلودگیوں سے پاک کر دے اور ان عقلی قوتوں کو ان ضوابط کے اندر لے آئے جو اللہ رسالت نے بھیجے ۔ انسان کی یہ تمام فطری قوتیں جب اسلامی منہاج فکر کے اندر منضبط ہوجاتی ہیں تو ان قوتوں کے ذمے اب صرف یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اس رسالت کا اقرار کریں اور اللہ کی بندگی کریں اور رسول کا اتباع کریں ۔ یا اگر وہ انکار کردیں تو پھر ان پر حجت تمام ہوجائے اور قیامت کے دن سزا کی مستوجب ہوجائیں ۔

پھر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے ۔ وہ ان کی کس قدر دیکھ بھال کرتا ہے اور ان کو اپنے فضل وکرم سے نوازتا ہے ان کو کس قدر مکرم اور مختار بناتا ہے ۔ اس کے باوجود کہ اسے علم سے کہ انسان خطا اور نقص کا پتلا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ پرھ بھی اس جہان کو اس کے حوالے کردیتا ہے ۔ اسے خلیفہ فی الارض بناتا ہے ۔ حالانکہ یہ کائنات اس کی نسبت سے بہت ہی بڑی ہے ۔ اور اللہ تو بےنیاز ہے کہ اگر ایک ذرہ بھی اس کی اس عظیم کائنات میں ہے تو وہ ضائع نہیں ہو سکتا ۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

اس رکوع کے شروع میں انبیاء اور رسولوں کے ناموں کا ایک خوبصورت گلدستہ نظر آتا ہے۔ قرآن پاک میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں ایسے گلدستے خوبصورتی سے سجائے گئے ہیں۔ یہاں آپ کو پے بہ پے انبیاء اور رسولوں کے نام ملیں گے اور پھر ان میں سے بعض کی اضافی شانوں کا ذکر بھی ملے گا۔ اس کے بعد فلسفۂ قرآن کے اعتبار سے ایک بہت اہم آیت بھی آئے گی ‘ جس میں نبوت کا بنیادی مقصد اور اساسی فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔

نزول انبیاء، تعداد انبیاء، صحائف اور ان کے مرکزی مضامین حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سکین اور عدی بن زید نے کہا " اے محمد ﷺ ہم نہیں‏ مانتے کہ حضرت موسیٰ کے بعد اللہ نے کسی انسان پر کچھ اتارا ہو۔ " اس پر یہ آیتیں اتریں، محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں جب آیت (يَسْــَٔــلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ ۚ وَاٰتَيْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِيْنًا01503 وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ بِمِيْثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِي السَّبْتِ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا01504 فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَقَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۭ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا01505۠ وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيْمًا01506ۙ) 4۔ النسآء :153 سے 156) تک اتری اور یہودیوں کے برے اعمال کا آئینہ ان کے سامنے رکھ دیا گیا تو انہوں نے صاف کردیا کہ کسی انسان پر اللہ نے اپنا کوئی کلام نازل ہی نہیں فرمایا، نہ موسیٰ پر، نہ عیسیٰ پر، نہ کسی اور نبی پر، آپ اس وقت گوٹ لگائے بیٹھے تھے، اسے آپ نے کھول دیا اور فرمایا کسی پر بھی نہیں ؟ پس اللہ تعالیٰ نے آیت (وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ) 6۔ الانعام :91) نازل فرمائی، لیکن یہ قول غور طلب ہے اس لئے کہ یہ آیت سورة انعام میں ہے جو مکیہ ہے اور سورة نساء کی مندرجہ بالا آیت مدنیہ ہے جو ان کی تردید میں ہے، جب انہوں نے کہا تھا کہ آسمان سے کوئی کتاب آپ اتار لائیں، جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ سے انہوں نے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا۔ پھر ان کے عیوب بیان فرمائے ان کی پہلی اور موجودہ سیاہ کاریاں واضح کردیں پھر فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد ﷺ کی طرف اسی طرح وحی نازل فرمائی ہے جس طرح اور انبیاء کی طرف وحی کی۔ زبور اس کتاب کا نام ہے جو حضرت داؤد ؑ پر اتری تھی، ان انبیاء (علیہم السلام) کے قصے سورة قصص کی تفسیر میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ پھر فرمایا ہے تعداد اختیار اور اس آیت یعنی مکی سورت کی آیت سے پہلے بہت سے انبیاء کا ذکر ہوچکا ہے اور بہت سے انبیاء کا ذکر نہیں بھی ہوا۔ جن انبیاء کرام کے نام قرآن کے الفاظ میں آگئے ہیں وہ یہ ہیں، آدم، ادریس، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ ، ہارون، یونس، داؤد، سلیمان، یوشع، زکریا، عیسیٰ ، یحییٰ ، اور بقول اکثر مفسرین ذوالکفل اور ایوب اور الیاس) اور ان سب کے سردار محمد مصطفیٰ ﷺ اور بہت سے ایسے رسول بھی ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں کیا گیا، اسی وجہ سے انبیاء اور مرسلین کی تعداد میں اختلاف ہے، اس بارے میں مشہور حدیث حضرت ابوذر ؓ کی ہے جو تفسیر ابن مردویہ میں یوں ہے کہ آپ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ انبیاء کتنے ہیں ؟ فرمایا تین سو تیرہ، بہت بڑی جماعت۔ میں نے پھر دریافت کیا، " سب سے پہلے کون سے ہیں ؟ " فرمایا " آدم " میں نے کہا " کیا وہ بھی رسول تھے ؟ " فرمایا " ہاں اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، پھر ان میں اپنی روح پھونکی، پھر درست اور ٹھیک ٹھاک کیا " پھر فرمایا اے ابوذر چار سریانی ہیں، آدم، شیت، نوح، خضوخ جن کا مشہور نام ادریس ہے، انہی نے پہلے قلم سے خط لکھا، چار عربی ہیں، ہود، صالح، شعیب اور تمہارے نبی ﷺ ، اے ابوذر بنو اسرائیل کے پہلے نبی حضرت موسیٰ ہیں اور آخری حضرت عیسیٰ ہیں۔ تمام نبیوں میں سب سے پہلے نبی حضرت آدم ہیں اور سب سے آخری نبی تمہارے نبی ہیں۔ " اس پوری حدیث کو جو بہت طویل ہے۔ حافظ ابو حاتم نے اپنی کتاب الانواع و التقاسیم میں روایت کیا ہے جس پر صحت کا نشان دیا ہے، لیکن ان کے برخلاف امام ابو الفرج بن جوزی رحمتہ ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے بہت سے لوگوں نے ان پر اس حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے واللہ اعلم، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے حضرت ابو امامہ سے بھی مروی ہے، لیکن اس میں معان بن رفاعہ سلامی ضعیف ہیں اور علی بن یزید بھی ضعیف ہیں اور قاسم بن عبدالرحمٰن بھی ضعیف ہیں، ایک اور حدیث ابو یعلی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آٹھ ہزار نبی بھیجے ہیں، چار ہزار بنو اسرائیل کی طرف اور چار ہزار باقی اور لوگوں کی طرف، یہ حدیث بھی ضعیف ہے اس میں زیدی اور ان کے استاد رقاشی دونوں ضعیف ہیں، واللہ اعلم، ابو یعلی کی اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا آٹھ ہزار انبیاء میرے بھائی گذر چکے ہیں ان کے بعد حضرت عیسیٰ آئے اور ان کے بعد میں آیا ہوں اور حدیث میں ہے میں آٹھ ہزار نبیوں کے بعد آیا ہوں جن میں سے چار ہزار نبی بنی اسرائیل میں سے تھے۔ یہ حدیث اس سند سے غریب تو ضرور ہے لیکن اس کے تمام راوی معروف ہیں اور سند میں کوئی کمی یا اختلاف نہیں بجز احمد بن طارق کے کہ ان کے بارے میں مجھے کوئی علالت یا جرح نہیں ملی، واللہ اعلم۔ ابوذر غفاری والی طویل حدیث جو انبیاء کی گنتی کے بارے میں ہے، اسے بھی سن لیجئے، آپ فرماتے ہیں میں مسجد میں آیا اور اس وقت حضور ﷺ تنہا تشریف فرماتے، میں بھی آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا آپ نے نماز کا حکم دیا ہے آپ نے فرمایا " ہاں وہ بہتر چیز ہے، چاہے کوئی زیادتی کرے چاہے کمی " میں نے کہا " حضور ﷺ کون سے اعمال افضل ہیں ؟ " فرمایا " اللہ پر ایمان لانا، اس کی راہ میں جہاد کرنا " میں نے کہا " حضور ﷺ کونسا مسلمان اعلیٰ ہے ؟ " فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں " میں نے پوچھا " کونسی ہجرت افضل ہے ؟ " فرمایا " برائیوں کو چھوڑ دینا " میں نے پوچھا کونسی نماز افضل ہے ؟ فرمایا " لمبے قنوت والی " میں نے کہا کونسا روزہ افضل ہے ؟ فرمایا " فرض کفایت کرنے والا ہے اور اللہ کے پاس بہت بڑھا چڑھا ثواب ہے " میں نے پوچھا کونسا جہاد افضل ہے ؟ " فرمایا جس کا گھوڑا بھی کاٹ دیا جائے اور خود اس کا بھی خون بہا دیا جائے۔ " میں نے کہا غلام کو آزاد کرنے کے عمل میں افضل کیا ہے ؟ " فرمایا جس قدر گراں قیمت ہو اور مالک کو زیادہ پسند ہو۔ " میں نے پوچھا صدقہ کونسا افضل ہے ؟ فرمایا " کم مال والے کا کوشش کرنا اور چپکے سے محتاج کو دے دینا۔ " میں نے کہا قرآن میں سب سے بڑی آیت کونسی ہے ؟ فرمایا " آیت الکرسی " پھر آپ نے فرمایا " اے ابوذر ساتوں آسمان کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے کوئی حلقہ کسی چٹیل میدان کے مقابلے میں اور عرش کی فضیلت کرسی پر، بھی ایسی ہے جیسے وسیع میدان کی حلقے پر " میں نے عرض کیا حضور ﷺ انبیاء کتنے ہیں ؟ فرمایا " ایک لاکھ چوبیس ہزار " میں نے کہا ان میں سے رسول کتنے ہیں ؟ فرمایا " تین سو تیرہ کی بہت بڑی پاک جماعت " میں نے پوچھا سب سے پہلے کون ہیں ؟ فرمایا " آدم " میں نے کہا کیا وہ بھی نبی رسول تھے ؟ فرمایا " ہاں انہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور انہیں صحیح تر بنایا۔ " پھر آپ نے فرمایا سنو چار تو سریانی ہیں، آدم، شیث، خنوخ اور یہی ادریس ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھا اور نوح اور چار عربی ہیں ہود، شعیب، صالح اور تمہارے نبی، سب سے پہلے رسول حضرت آدم ہیں اور سب سے آخری رسول حضرت محمد ہیں ﷺ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے کتابیں کس قدر نازل فرمائی ہیں ؟ فرمایا ایک سو چار، حضرت شیث ؑ پر پچاس صحیفے، حضرت خنوخ ؑ پر تیس صحیفے، حضرت ابراہیم ؑ پر دس صحیفے اور حضرت موسیٰ پر توراۃ سے پہلے دس صحیفے اور توراۃ انجیل زبور اور فرقان، میں نے کہا یا رسول اللہ حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا اس کی مرکزی تعلیم جبر سے مسلط بادشاہ کو اس کے اقتدار کا مقصد سمجھانا تھا اور اسے مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا احساس دلانا تھا۔ جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ لازماً قبول فرماتے ہیں۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو !" دنیا کا مال جمع کرنے سے روکنا تھا اور ان میں نصائح تھیں مثلاً یہ کہ عقل مند کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا نظام الاوقات بنائے وقت کے ایک حصہ میں وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے، دوسرے حصہ میں اپنے خالق کی صفات پہ غور و فکر کرے، بقیہ حصہ میں تدبیر معاش میں مشغول ہو۔ عقل مند کو تین چیزوں کے سوا کسی اور چیز میں دلچسپی نہ لینا چاہئے، ایک تو آخرت کے زاد راہ کی فکر، دوسرے سامان زیست اور تیسرے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونا یا فکر معاش یا غیر حرام چیزوں سے سرور و لذت، عقل مند کو اپنے وقت کو غنیمت سمجھ کر سرگرم عمل رہنا چاہئے، اپنی زبان پر قابو اور قول و فعل میں یکسانیت برقرار رکھنا چاہئے، وہ بہت کم گو ہوگا، بات وہی کہو جو تمہیں نفع دے، میں نے پوچھا موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا وہ عبرت دلانے والی تحریروں کا مجموعہ تھے، مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو موت کا یقین رکھتا ہے پھر بھی غافل ہے، تقدیر کا یقین رکھتا ہے پھر بھی مال دولت کے لئے پاگل ہو رہا ہے، ہائے وائے میں پڑا ہوا ہے، دنیا کی بےثباتی دیکھ کر بھی اسی کو سب کچھ سمجھتا رہے، قیامت کے دن حساب کو جانتا ہے پھر بےعمل ہے، میں نے عرض کیا حضور ﷺ اگلے انبیاء کی کتابوں میں جو تھا اس میں سے بھی کچھ ہماری کتاب میں ہمارے ہاتھوں میں ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں پڑھو آیت (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى) 87۔ الاعلی :14) آخر سورت تک، میں نے کہا حضور ﷺ مجھے وصیت کیجئے۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، یہی تیرے اعمال کی روح ہے، میں نے کہا حضور ﷺ مجھے وصیت کیجئے۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، یہی تیرے اعمال کی روح ہے، میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کچھ اور بھی، آپ نے فرمایا قرآن کی تلاوت اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہ وہ تیرے لئے آسمانوں میں ذکر اور زمین میں نور کے حصول کا سبب ہوگا، میں نے پھر کہا حضور ﷺ کچھ مزید فرمایئے، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کردیتی ہے، میں نے کہا پھر کہا حضور ﷺ کچھ مزید فرمایئے، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کردیتی ہے، میں نے کہا اور زیادہ فرمایا جہاد میں مشغول رہو، میری امت کی رہبانیت یعنی درویشی یہی ہے، میں نے کہا اور وصیت کیجئے فرمایا بھلی بات کہنے کے سوا زبان بند رکھو، اس سے شیطان بھاگ جائے گا اور دینی کاموں میں بڑی تائید ہوگی۔ میں نے کہا کچھ اور بھی فرما دیجئے فرمایا اپنے سے نیچے درجے کے لوگوں کو دیکھا کر اور اپنے سے اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر نظریں نہ ڈالو، اس سے تمہارے دل میں اللہ کی نعمتوں کی عظمت پیدا ہوگی، میں نے کہا مجھے اور زیادہ نصیحت کیجئے فرمایا مسکینوں سے محبت رکھو اور ان کے ساتھ بیٹھو، اس سے اللہ کی رحمتیں تمہیں گراں قدر معلوم ہوں گی، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا " قرابت داروں سے ملتے رہو، چاہے وہ تجھ سے نہ ملیں " میں نے کہا اور ؟ فرمایا سچ بات کہو چاہے وہ کسی کو کڑوی لگے، میں نے اور بھی نصیحت طلب کی فرمایا اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کر، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا اپنے عیبوں پر نظر رکھا کر، دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہو، پھر میرے سینے پر آپ نے اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا اے ابوذر تدبیر کے مانند کوئی عقل مندی نہیں اور حرام سے رک جانے سے بڑھ کر کوئی پرہیزگاری نہیں اور اچھے اخلاق سے بہتر کوئی حسب نسب نہیں۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث کچھ اسی مفہوم کی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری پوچھتے ہیں کیا خارجی بھی دجال کے قائل ہیں، لوگوں نے کہا نہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے میں ایک ہزار بلکہ زیادہ نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے لیکن مجھ سے اللہ نے اس کی وہ علامت بیان فرمائی ہے جو کسی اور کو نہیں فرمائی " سنو وہ بھینگا ہوگا اور رب ایسا ہو نہیں سکتا اس کی داہنی آنکھ کافی بھینگی ہوگی، آنکھ کا ڈھیلا اتنا اٹھا ہوا جیسے چونے کی صاف دیوار پر کسی کا کھنکار پڑا ہو اور اسکی بائیں آنھ ایک جگمگاتے ستارے جیسی ہے، وہ تمام زبانیں بولے گا، اس کے ساتھ سرسبز و شاداب جنت سیاہ دھواں دھار دوزخ نظر آئے گا " ایک حدیث میں ہے ایک لاکھ نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں بلکہ زیادہ کا۔ پھر فرمایا ہے موسیٰ سے خود اللہ نے صاف طور پر کلام کیا۔ یہ ان کی خاص صفت ہے کہ وہ کلیم اللہ تھے، ایک شخص حضرت ابوبکر بن عیاش ؒ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک شخص اس جملہ کو یوں پڑھتا ہے آیت (وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا) 4۔ النسآء :164) یعنی موسیٰ نے اللہ سے بات کی ہے، اس پر آپ بہت بگڑے اور فرمایا یہ کسی کافر نے پڑھا ہوگا۔ میں نے اعمش سے اعمش نے یحییٰ نے عبدالرحمٰن سے، عبدالرحمٰن سے علی سے، علی نے رسول اللہ ﷺ سے پڑھا ہے کہ آیت (وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا) 4۔ النسآء :164) غرض اس شخص کی معنوی اور لفظی تحریف پر آپ بہت زیادہ ناراض ہوئے مگر عجب نہیں کہ یہ کوئی معتزلی ہو، اس لئے کہ معتزلہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا نہ کسی اور سے۔ کسی معتزلی نے ایک بزرگ کے سامنے اسی آیت کو اسی طرح پڑھا تو انہوں نے اسے ڈانٹ کر فرمایا پھر اس آیت میں یہ بددیانتی کیسے کرو گے ؟ جہاں فرمایا ہے آیت (وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ) 7۔ الاعراف :143) یعنی موسیٰ ہمارے وعدے پر آیا اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا، مطلب یہ ہے کہ یہاں تو یہ تاویل و تحریف نہیں چلے گی۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا " جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو وہ اندھیری رات میں سیاہ چیونٹی کا کسی صاف پتھر پر چلنا بھی دیکھ لیتے تھے۔ " یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد صحیح نہیں اور جب موقوفاً بقول ابی ہریرہ ثابت ہوجائے تو بہت ٹھیک ہے۔ مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے۔ کہ کلیم اللہ سے جب اللہ نے کلام کیا وہ صوفی کی چادر اور صوف کی سردول اور غیر مذبوح گدھے کی کھال کی جوتیاں پہنے ہوئے تھے، ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چالیس ہزار باتیں حضرت موسیٰ سے کیں جو سب کی سب وصیتیں تھیں، نتیجہ یہ کہ لوگوں کی باتیں حضرت موسیٰ سے سنی نہیں جاتی تھیں کیونکہ کانوں میں کلام الٰہی کی گونج رہتی تھی، اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں۔ پھر اس میں انقطاع بھی ہے۔ ایک اثر ابن مردویہ میں ہے حضرت جابر فرماتے ہیں جو کلام اللہ تعالیٰ نے طور والے دن حضرت موسیٰ سے کیا تھا یہ تو میرے اندازے کے مطابق اس کی صفت جس دن پکارا تھا اس انداز کلام کی صفت سے الگ تھی۔ موسیٰ ؑ نے اس کا راز معلوم کرنا چاہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ابھی تو میں نے دس ہزار زبانوں کی قوت سے کلام کیا ہے حالانکہ مجھے تمام زبانوں کی قوت حاصل ہے بلکہ ان سب سے بھی بہت زیادہ۔ بنو اسرائیل نے آپ سے جب کلام زبانی کی صفت پوچھی آپ نے فرمایا " میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا " انہوں نے کہا کچھ تشبیہ تو بیان کرو، آپ نے فرمایا تم نے کڑاکے کی آواز سنی ہوگی، وہ اس کے مشابہ تھی لیکن ویسی نہ تھی، اس کے ایک راوی فضل رقاشی ضعیف ہیں اور بہت ہی ضعیف ہیں۔ حضرت کعب فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو یہ تمام زبانوں پہ محیط تھا۔ حضرت کلیم اللہ نے پوچھا " باری تعالیٰ یہ تیرا کلام ہے ؟ فرمایا نہیں اور نہ تو میرے کلام کی استقامت کرسکتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے دریافت کیا کہ اسے رب تیری مخلوق میں سے کسی کا کلام تیرے کلام سے مشابہ ہے ؟ فرمایا نہیں سوائے سخت تر کڑاکے کے، یہ روایت بھی موقوف ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت کعب اگلی کتابوں سے روایت کیا کرتے تھے جن میں بنو اسرائیل کی حکایتیں ہر طرح صحیح اور غیر صحیح ہوتی ہیں۔ یہ رسول ہی ہیں جو اللہ کی اطاعت کرنے والوں اور اس کی رضامندی کے متلاشیوں کو جنتوں کی خوشخبریاں دیتے ہیں اور اس کے اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کو عذاب اور سزا سے ڈراتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو اپنی کتابیں نازل فرمائی ہیں اور اپنے رسول بھیجے ہیں اور ان کے ذریعہ اپنے اوامرو نواہی کی تعلیم دلوائی یہ اس لئے کہ کسی کو کوئی حجت یا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَلَوْ اَنَّآ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى) 20۔ طہ :134) یعنی اگر ہم انہیں اس سے پہلے ہی اپنے عذاب سے ہلاک کردیتے تو وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجے جو ہم ان کی باتیں مانتے اور اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتے، اسی جیسی یہ آیت بھی ہے آیت (وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ) 28۔ القصص :47) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام برائیوں کو حرام کیا ہے خواہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور ایسا بھی کوئی نہیں جسے بہ نسبت اللہ کے مدح زیادہ پسند ہو یہی وجہ ہے کہ اس نے خود اپنی مدح آپ کی ہے اور کوئی ایسا نہیں جسے اللہ سے زیادہ ڈر پسند ہو، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوش خبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اسی وجہ سے اس نے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں۔

آیت 163 - سورہ نساء: (۞ إنا أوحينا إليك كما أوحينا إلى نوح والنبيين من بعده ۚ وأوحينا إلى إبراهيم وإسماعيل وإسحاق ويعقوب والأسباط وعيسى...) - اردو