سورہ نساء: آیت 160 - فبظلم من الذين هادوا حرمنا... - اردو

آیت 160 کی تفسیر, سورہ نساء

فَبِظُلْمٍ مِّنَ ٱلَّذِينَ هَادُوا۟ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَٰتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ كَثِيرًا

اردو ترجمہ

غرض اِن یہودی بن جانے والوں کے اِسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر، اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabithulmin mina allatheena hadoo harramna AAalayhim tayyibatin ohillat lahum wabisaddihim AAan sabeeli Allahi katheeran

آیت 160 کی تفسیر

(آیت) ” فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبت احلت لھم وبصدھم عن سبیل اللہ کثیرا ‘(160) واخذھم الربوا وقد نھو عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل واعتدنا للکفرین منھم عذابا الیما (161) (4 : 160۔ 161)

(۔ غرض ان یہودیوں کے اسی ظالمانہ رویے کی بناء پر اور اس بناء پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ‘ اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں ‘ ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کیلئے حلال تھیں ‘ اور وہ لوگ جو ان میں سے کافر ہیں ان کیلئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ )

چناچہ اس آیت کے ذریعے ان کے سابقہ منکرات میں کچھ مزید منکرات کا اضافہ کردیا گیا ۔ اور یہ بتا دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں سے لوگوں کو روکنے کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہیں ہے ۔ گویا وہ رات دن ایسی کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ نیز یہ رات دن سودی کاروبار میں لگے رہتے ہیں اور یہ کام وہ محض کم علمی کی وجہ سے نہیں کر رہے یا یہ کہ انہیں اس سلسلے میں متنبہ نہیں کیا گیا ‘ بلکہ انہیں صاف الفاظ میں اس سے روکا گیا تھا لیکن انہوں نے پھر بھی اس پر اصرار کیا اور لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھاتے رہے ۔ یہ ربا کے ذریعے بھی کھاتے رہے اور دوسرے ذرائع سے بھی ۔

ان منکرات اور اس سے پہلی سورتوں میں مذکورہ جرائم کی وجہ سے اللہ نے ان پر بعض حلال چیزوں کو حرام کردیا جوان کیلئے حلال تھیں اور یہ کہ اللہ نے کافروں کیلئے سخت دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

یہودیوں کے خلاف اس مہم میں یہودیوں کے چہرے سے نقاب اتار کر پھینک دیا گیا ‘ اور اس ان کے تاریخ سے بعض واقعات بھی پیش کئے گئے تاکہ معلوم ہو کہ ان کی تاریخ کیا ہے ۔ ان کی بہانہ سازیوں اور ان کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کیا کیا اور یہ بتایا گیا کہ وہ کسی طرح مان کردینے والے نہیں ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے قائد ‘ اپنے نجات دہندہ اور اپنے عظیم نبی کے ساتھ یہی رویہ اختیار کئے رکھا ان کی عادت یہ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ صالحین اور انبیاء کے ساتھ برے سلوک اور ان کے خلاف بدگوئی کرنے میں بہت ہی جری وسریع رہے ہیں ۔ وہ انبیاء کو بھی قتل کرتے رہے ہیں اور پھر ندامت کے بجائے اس قتل پر فخر کرتے رہے ہیں ۔ ان جملوں کے نتیجے میں ‘ یہودیوں کے مکروفریب کا جال تار تار ہوگیا جو انہوں نے اسلامی صفوں کے خلاف بچا رکھا تھا ۔ ان کی سازشیں ناکام ہوگئیں اور مسلمانوں کے ساتھ انکی خفیہ دوستیاں کٹ گئیں ۔ یوں اہل اسلام نے یہودیوں کے اصل مزاج کو اچھی طرح جان لیا۔ اسلام کے خلاف ان کی سازشوں اور ان میں استعمال ہونے والے وسائل وذرائع کو پہچان لیا ۔ اس بات کا انہیں علم ہوگیا کہ وہ کس طرح ہر سچائی کے مقابلے میں جتھہ بندی کرلیتے ہیں چاہے یہ سچائی خود ان کے اندر انکی اپنی صفوں سے اٹھے یا ان سے باہر دوسری اقوام کے اندر پائی جائے ۔ اس لئے کہ وہ ہمیشہ سچ اور اہل حق کے دشمن رہے ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہدایت اور ہادیوں کی بیخ کنی کرتے رہے ہیں ۔ ہر دور میں اور ہر زمانے میں وہ یہ کام کرتے رہے ہیں ۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ تو ان کا یہ رویہ بہرحال تھا ہی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں ‘ اس لئے ہر دور میں ہر اسلامی تحریک اور اسلامی سوسائٹی کا یہ فرض ہے کہ وہ یہودیوں سے چوکنا رہے اس لئے کہ ان کی جبلت ہی ایسی ہے کہ وہ ذاتی طور پر سچائی کے دشمن ہیں ۔ ان کے دل کے اندر حق کی دشمنی بھری ہوئی ہے ۔ ان کے کلیجے سخت ہوگئے ہیں ۔ وہ اپنے سر صرف اس شخص کیلئے جھکاتے ہیں جو ان پر ڈنڈے برسائے اور وہ سچائی کو تب تسلیم کرتے ہیں جب ان کے سروں پر تلوار لٹک رہی ہو ۔

اس قسم کے لوگوں کا یہ تعارف صرف اس جماعت اسلامی کیلئے نہ تھا جو مدینہ طیبہ میں کام کر رہی تھی اس لئے کہ قرآن اس امت کے لئے گائیڈ ہے جب تک کہ یہ امت موجود رہے گی ۔ اگر قرآن سے یہ امت اپنے دشمنوں کے بارے میں ہدایات لینا چاہے تو اس میں اسے ہدایات مل جائیں گی ، اس سے جب بھی یہ امت کوئی نصیحت لینا چاہے یہ کتاب اسے نصیحت دیتی ہے ۔ اس کتاب نے امت کو یہودیوں کے بارے میں ہدایت دی ۔ نصیحت کی اور فہم دیا تو اس کے نتیجے میں یہودیوں کی گردنیں مسلمانوں کے مقابلے میں جھک گئیں ۔ جب اس امت نے قرآن مجید کو چھوڑا تو یہ امت یہودیوں کی غلام بن گئی ، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ امت پوری طرح جمع ہوتی ہے اور یہودیوں کی ایک مختصر جمعیت اس پر غالب آجاتی ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اپنی کتاب اور گائیڈ بک سے غافل ہے ۔ وہ قرآن کی ہدایات سے دور بھاگ رہی ہے ۔ اس نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے ۔ اور یہ امت فلاں اور فلاں کے اقوال کی اطاعت کر رہی ہے ۔ یہ امت اسی طرح یہودی سازش کا شکار رہے گی اور اسی طرح وہ یہودیوں کے عتاب میں رہے گی جب تک وہ قرآن کی طرف نہیں لوٹتی ۔

یہ بیان اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک یہودیوں میں سے نکل کر آنے والے بعض اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کردی جاتی اور ان کی جرات راندانہ کہ تعریف کی جاتی ہے کہ چھلانگ لگا کر نکل آئے اور سچائی کو قبول کرلیا ۔ قرآن کریم ان لوگوں کے علم و ایمان کی تصدیق کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ اہل اسلام میں داخل ہوئے اور رسول اللہ ﷺ پر نازل شدہ دین کو قبول کیا ۔ یہ علم وہ تھا جو رسول اللہ ﷺ پر اترا اور جو آپ سے قبل انبیاء پر اترا تھا ۔ وہ اس علم میں زیادہ رسوخ رکھتے تھے جس کی وجہ سے ایمان لے آئے۔

آیت 160 فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ اللہ تعالیٰ کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ کوئی قوم اگر کسی معاملے میں حد سے گزرتی ہے تو سزا کے طور پر اسے حلال چیزوں سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ یہاں پر یہی اصول بیان ہو رہا ہے۔ مثلاً اگر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے تورات میں اس کی صراحت نہیں کی کہ یہ حرام نہیں ہے ‘ یہ تو محض تمہارے نبی علیہ السلام کا بالکل ذاتی قسم کا فیصلہ ہے ‘ بلکہ اللہ نے کہا کہ ٹھیک ہے ‘ ان کی یہی سزا ہے کہ ان پر تنگی رہے اور اس طرح ان کے کرتوتوں کی سزا کے طور پر حلال چیزیں بھی ان پر حرام کردیں۔وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا یہ لوگ اللہ کے راستے سے خود بھی رکتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی روکتے ہیں۔ تو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اور ان پر بعض حلال چیزیں بھی حرام کردیں۔

یہودیوں کے خود ساختہ حلال و حرام اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ حرام کام ان کا مقدر تھا یعنی اللہ کی طرف سے لکھا جا چکا تھا کہ یہ لوگ اپنی کتاب کو بدل دیں، اس میں تحریف کرلیں اور حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیں، صرف اپنے تشدد اور اپنی سخت گیری کی وجہ سے، دوسرا یہ کہ یہ حرمت شرعی ہے یعنی نزول تورات سے پہلے جو بعض چیزیں ان پر حلال تھیں، توراۃ کے اترنے کے وقت ان کی بعض بدکاریوں کی وجہ سے وہ حرام قرار دے دی گئیں جیسے فرمان ہے آیت (كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ) 3۔ آل عمران :93) یعنی اونٹ کا گوشت اور دودھ جو حضرت اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، اس کے سوا تمام طعام بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے پھر توراۃ میں ان پر بعض چیزیں حرام کی گئیں، جیسے سورة انعام میں فرمایا آیت (وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ) 16۔ النحل :118) یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن دار جانور حرام کردیا اور گائے بکری کی چربی بھی جو الگ تھلگ ہو، ہم نے ان پر حرام قرار دے دی، یہ اس لئے کہ یہ باغی، طاغی، مخالف رسول اور اختلاف کرنے والے لوگ تھے پہلے یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ان کے ظلم و زیادتی کے سبب وہ خود اللہ کے راستہ سے الگ ہو کر اور دوسروں کو بھی بہکانے کے باعث (جو ان کی پرانی عادت تھی) رسولوں کے دشمن بن جاتے تھے۔ انہیں قتل کر ڈالتے تھے، انہیں جھٹلاتے تھے، ان کا مقابلہ کرتے تھے اور طرح طرح کے حیلے کر کے سود خوری کرتے تھے جو محض حرام تھی اور بھی جس طرح بن پڑتا لوگوں کے مال غصب کرنے کی تاک میں لگے رہتے اور اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ نے یہ کام حرام کئے ہیں جرات سے انہیں کر گذرے تھے، اس وجہ سے ان پر بعض حلال چیزیں بھی ہم نے حرام کردیں، ان کفار کے لئے درد ناک عذاب تیار ہیں۔ ان میں جو سچے دین والے اور پختہ علم والے ہیں، اس جملے کی تفسیر سورة آل عمران میں گذر چکی ہے اور جو باایمان ہیں وہ تو قرآن کو اور تمام پہلی کتابوں کو مانتے ہیں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام، حضرت ثعلبہ بن سعید، زید بن سعید، حضرت اسید بن عبید ؓ ہیں، جو اسلام قبول کرچکے تھے اور حضور ﷺ کی نبوت کو مان چکے تھے آگے کا جملہ آیت (والمقیمین الصلوۃ) تمام ائمہ کے قرآن میں اور ابی بن کعب کے مصحف میں اسی طرح ہے لیکن بقول علامہ ابن جریر ابن مسعود کے صحیفہ میں آیت (والمقیمون الصلوۃ) ہے۔ صحیح قرأت اگلی ہے جن بعض لوگوں نے اسے کتابت کی غلطی بتایا ہے ان کا قول غلط ہے۔ بعض تو کہتے ہیں اس کی نصبی حالت مدح کی وجہ سے ہے، جیسے آیت (وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا) 2۔ البقرۃ :177) میں ہے اور کلام عرب میں اور شعروں میں برابر یہ قاعدہ موجود پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ عطف ہے اگلے جملے پر یعنی آیت (بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ) 2۔ البقرۃ :4) پر یعنی وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرنے پر بھی ان کا ایمان ہے یعنی اسے واجب و برحق مانتے ہیں، یا یہ مطلب ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں یعنی ان کا قرآن پر اور الہامی کتابوں پر اور فرشتوں پر ایمان ہے۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اس میں تامل کی ضرورت ہے واللہ اعلم، اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں یعنی مال کی یا جان کی اور دونوں بھی مراد ہوسکتے ہیں واللہ اعلم اور صرف اللہ ہی کو لائق عبادت جانتے ہیں اور موت کے بعد کی زندگانی پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ ہر بھلے برے عمل کی جزا سزا اس دن ملے گی، یہی لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم یعنی جنت دیں گے۔

آیت 160 - سورہ نساء: (فبظلم من الذين هادوا حرمنا عليهم طيبات أحلت لهم وبصدهم عن سبيل الله كثيرا...) - اردو