سورہ نساء (4): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نساء کے بارے میں معلومات

Surah An-Nisaa
سُورَةُ النِّسَاءِ
صفحہ 103 (آیات 155 سے 162 تک)

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَٰقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ وَقَتْلِهِمُ ٱلْأَنۢبِيَآءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌۢ ۚ بَلْ طَبَعَ ٱللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَىٰ مَرْيَمَ بُهْتَٰنًا عَظِيمًا وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا ٱلْمَسِيحَ عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ ٱللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ لَفِى شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِۦ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا ٱتِّبَاعَ ٱلظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًۢا بَل رَّفَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا وَإِن مِّنْ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِۦ قَبْلَ مَوْتِهِۦ ۖ وَيَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا فَبِظُلْمٍ مِّنَ ٱلَّذِينَ هَادُوا۟ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَٰتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ كَثِيرًا وَأَخْذِهِمُ ٱلرِّبَوٰا۟ وَقَدْ نُهُوا۟ عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَٰلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَٰطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَٰفِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا لَّٰكِنِ ٱلرَّٰسِخُونَ فِى ٱلْعِلْمِ مِنْهُمْ وَٱلْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ۚ وَٱلْمُقِيمِينَ ٱلصَّلَوٰةَ ۚ وَٱلْمُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلْمُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ أُو۟لَٰٓئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا
103

سورہ نساء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نساء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

آخر کا ر اِن کی عہد شکنی کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، اور متعدد پیغمبروں کو نا حق قتل کیا، اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں حالانکہ در حقیقت اِن کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے اِن کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabima naqdihim meethaqahum wakufrihim biayati Allahi waqatlihimu alanbiyaa bighayri haqqin waqawlihim quloobuna ghulfun bal tabaAAa Allahu AAalayha bikufrihim fala yuminoona illa qaleelan

(آیت) ” فبمانقضھم میثاقھم وکفرھم بایت اللہ وقتلھم الانبیآء بغیر حق وقولھم قلوبنا غلف “۔ (4 : 155) (آخر کار ان کی عہد شکنی کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا ‘ اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں) ۔۔۔۔۔۔ ان کی اس بات پر کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں ۔ (قلوبنا غلف (4 : 155) ان پر تنقید ختم ہوتی ہے اور اگلی آیت میں ان کی اس بات کا جواب دیا جاتا ہے ۔ وہ یہ بات اس وقت کہتے تھے جب حضور ﷺ ان پر دعوت اسلامی پیش کرتے ۔ یہ لوگ یہ جواب یا تو اس لئے دیتے تھے کہ حضور ﷺ ان سے مایوس ہوجائیں اور آئندہ ان پر دعوت پیش نہ کریں اور یا وہ حضور ﷺ کی جانب سے تبلیغ پر آپ کے ساتھ بطور مزاح یہ بات کرتے تھے اور آپ کی دعوت کو رد کر کے گویا وہ بڑے لوگ بننے کی کوشش کرتے تھے کہ ہم تو ان باتوں پر کان ہی نہیں دھرتے ۔ یہ دونوں باتیں ہی ان کے پیش نظر ہو سکتی ہیں ‘ بہرحال اللہ کا جواب یوں آتا ہے ۔

(آیت) ” بل طبع اللہ علیھا بکفرھم فلا یومنون الا قلیلا “۔ (4 : 155) (حالانکہ درحقیقت انکی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں۔۔۔۔۔ ) مطلب یہ ہے کہ ان کے دل ملفوف نہیں ہیں ‘ بلکہ وہ دعوت اسلامی کا انکار اس لئے کر رہے ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے ۔ یہ ٹھپہ بھی ان کے دلوں پر اس لئے لگایا گیا ہے کہ انہوں نے کفر کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے اس لئے ان کے دل سخت ہوگئے ہیں ‘ وہ جمادات کی طرح ہوگئے ہیں ‘ اور کفر کے نیچے دب گئے ہیں ۔ انہوں ایمان کی تروتازگی کا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا ‘ ان کے اندر ایمان کی مٹھاس کی حس ہی نہیں رہی ہے ۔ اس لئے شاذونادر رہی یہ ایمان قبول کرتے ہیں ۔ یہ شاذ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مذکورہ بالاافعال بد کا ارتکاب نہ کیا تھا ‘ اسی لئے ان کے دلوں پر مہر نہیں لگائی گئی تھی ۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے دلوں کے دروازوں کو قبول حق کیلئے کھلا رکھا اور حق کو قبول کرکے عزت دار بن گئے ۔ انکو اللہ نے ہدایت دی اور ایمان نصیب کیا۔ یہودیوں میں سے ایسے لوگ بہت ہی کم تھے بلکہ کم سے کم ‘ مثلا عبداللہ بن سلام ‘ ثعلبہ ابن معیہ ‘ اسد ابن محیہ اور اسد ابن عبید اللہ ؓ اجمعین ۔

اس تنقید اور استدراک کے بعد ‘ اللہ تعالیٰ ان اسباب کو گنواتے ہیں جن کی وجہ سے یہ یہودی اس سلوک کے مستحق ہوئے جو انکے ساتھ کیا گیا ۔ دنیا میں ان پر بعض نہایت ہی پاک چیزوں کو حرام حرام قرار دے دیا گیا ‘ آخرت میں ان کیلئے آگ کا عذاب تیار کیا گیا تاکہ وہ آخرت اور قیامت آنے سے پہلے ہی اس کا انتظار کریں۔

اردو ترجمہ

پھر اپنے کفر میں اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wabikufrihim waqawlihim AAala maryama buhtanan AAatheeman

(آیت) ” وبکفرھم وقولھم علی مریم بھتانا عظیما (156) وقولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ “۔ (157) (4 : 156۔ 157) (پھر اپنے کفر میں یہ اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا ‘ اور خود کہا کہ ہم نے مسیح ‘ عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم ‘ رسول اللہ کو قتل کردیا ہے) ۔۔۔۔ جب بھی ان کے برے افعال میں سے کسی بات کا ذکر کیا جاتا ہے قرآن کریم ان کی صفت کفر کو ضرور ساتھ لاتا ہے ۔ قتل انبیاء ذکر کے وقت بھی یہ صفت دہرائی گئی کہ انہوں نے انبیاء کو ناحق قتل کیا ‘ انبیاء کا قتل جب بھی ہوا ناحق ہی ہوا ۔ ناحق کا لفظ بطور حقیقت واقعہ لایا گیا ہے ۔ اسی طرح جہاں اس بات کا ذکر ہوا کہ انہوں نے حضرت مریم (علیہ السلام) پر عظیم بہتان باندھا وہاں بھی اس صفت کا ذکر ہوا ۔ مریم پر انہوں نے جو بہتان باندھا اس کے قائل صرف یہودی تھے ۔ انہوں نے مریم پر یوسف نجار کے ساتھ زنا کرنے کا الزام باندھا (ان پر خدا کا غضب ہو ! ) اس کے بعد انہوں نے یہ ڈینگ ماری کہ انہوں نے حضرت مسیح کو سولی پر چڑھایا اور طنز ! یہ کہا کہ ” انہوں نے مسیح ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا ہے ۔ “

یہاں تک آکر سیاق کلام ایک بار پھر رک جاتا ہے اور ان کے اس دعوے کی لگے ہاتھوں تردید کردی جاتی ہے ۔ اور سچائی کو ثابت اور مستحکم کردیا جاتا ہے ۔

اردو ترجمہ

اور خود کہا کہ ہم نے مسیح، عیسیٰ ابن مریم، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqawlihim inna qatalna almaseeha AAeesa ibna maryama rasoola Allahi wama qataloohu wama salaboohu walakin shubbiha lahum wainna allatheena ikhtalafoo feehi lafee shakkin minhu ma lahum bihi min AAilmin illa ittibaAAa alththanni wama qataloohu yaqeenan

(آیت) ” وقولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم ، وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ، مالھم بہ من علم الا اتباع الظن ، وما قتلوہ یقینا “۔ (157) بل رفعہ اللہ الیہ ، وکان اللہ عزیزا حکیما (158) (4 : 157۔ 158) (حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پرچڑھایا بلکہ معاملہ ان کیلئے مشتبہ کردیا گیا اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ۔ ان کے پاس اس معاملے میں کوئی علم نہیں ہے ۔ محض گمان ہی کی پیروی ہے ۔ انہوں نے مسیح کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا ‘ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے) ۔۔۔۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے معاملے میں اہل یہود سخت خبط میں پڑے ہوئے تھے اور خود عیسائیوں کو بھی اس بارے میں سخت غلط فہمی لاحق تھی ۔ یہودی یہ کہتے تھے ” ہم نے عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ “ کو قتل کردیا ہے ۔ لفظ رسول اللہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے بطور مزاح استعمال کرتے تھے ۔ اور عیسائیوں کا کہنا یہ تھا “ انہیں سولی پر چڑھایا گیا اور دفن کردیا گیا لیکن تین دونوں کے بعد آپ دوبارہ اٹھ گئے ۔ “ اور ان کی تاریخ حضرت مسیح کی ولادت اور وفات سے اس طرح خاموش ہے کہ شاید اس واقعہ کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی ۔ ان دونوں فریقوں نے اس عظیم واقعہ کے بارے میں وثوق کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی تھی ۔ اس لئے کہ یہ واقعات بہت ہی تیزی سے وقوع پذیر ہوتے رہے اور نظروں سے اوجھل ہوتے رہے ۔ مختلف روایات پھیلتی رہیں اور سچ اور جھوٹ ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ ہوگئے ۔ کوئی بات یقین کے ساتھ کوئی نہ کہہ سکتا تھا ‘ نہ کسی نے کہی ‘ لہذا صرف وہی بات یقینی ہے جو اللہ رب العالمین نے فرمائی ۔

جن چار مروجہ اناجیل کے اندر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی گرفتاری کا قصہ بیان ہوا ہے ‘ آپ کی موت اور سولی پر چڑھانے کا جو قصہ اور پھر دفن کرنے اور پھر اٹھنے کا جو قصہ بیان ہوا ہے ‘ یہ تمام واقعات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے کے بہت ہی بعد کے ادوار میں لکھے گئے ہیں ۔ اس دور میں حضرت مسیح کے شاگردوں پر مظالم ہوتے رہے اور دین مسیح کو دبایا جاتا رہا ۔ اس خوف ‘ رازداری اور تشدد اور جلاوطنی کی فضا میں یہ بات نہایت ہی مشکل تھی کہ کوئی صحیح اور تحقیقی بات لکھی جاسکے ۔ اس دور میں بیشمار انجیلیں لکھی گئیں ۔ جبکہ 200 ء کے آخر میں جا کر ان میں سے ان مروجہ چار کو منتخب کیا گیا ۔ ان کو سرکاری اناجیل قرار دیا گیا۔ اور ان کو سرکاری اناجیل قرار دینے کے بھی بعض خاص مقاصد تھے اور شک وشبہ سے بالاتر نہ تھے ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جو اناجیل تحریر ہوئیں ان میں سے ایک انجیل برناباس بھی تھی ۔ یہ انجیل ان چار منتخب اور تسلیم شدہ اناجیل سے مختلف تھی ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے کے واقعہ کے بارے میں یہ انجیل کہتی ہے ۔

” جب سپاہی یہوداہ کے ساتھ اس جگہ پہنچے ‘ جہاں یسوع تھا ‘ تو مسیح نے جم غفیر کو پاس آتے سنا اور وہ گھر کے ایک گوشے میں ڈر کر سمٹ گیا ‘ گیارہ شاگرد (بدستور) سو رہے تھے ‘ جب خدائے تعالیٰ نے دیکھا کہ اس کا بندہ (یسوع) خطرے میں ہے تو اس نے اپنے فرشتوں ‘ جبرئیل ‘ میخائیل ‘ رفائیل اور اور یل کو حکم دیا کہ وہ یسوع کو دنیا سے نکال لائیں ‘ پاکیزہ فرشتے آئے اور وہ یسوع کو اس کھڑکی سے ‘ جس کا رخ جنوب کی طرف تھا ‘ نکال کر اور اٹھا کرلے گئے اور اسے تیسرے آسمان میں ان فرشتوں کی صحبت میں لے جا کر رکھ دیا ‘ جو تا ابد اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ‘ یہوداہ وقت کے ساتھ اسی کھڑی سے گھر میں داخل ہوا ‘ جس سے یسوع کو اٹھا لیا گیا تھا مسیح کے شاگرد سب کے سب (اب بھی) سو رہے تھے ‘ اب عجیب و غریب خدا نے ایک عجیب و غریب کام کیا اور وہ یہ کہ یہوداہ کی بولی اور اس کا چہرہ دونوں بدل گئے اور وہ یسوع کی طرح ہوگیا یہاں تک کہ ہمیں یقین ہوگیا کہ وہی یسوع ہے ۔ یہوداہ ہمیں جگانے کے بعد ڈھونڈنے لگا تاکہ معلوم کرے کہ ” استاد “ (یسوع) کہاں ہے ‘ ہمیں اس پر حیرت ہوئی اور ہم نے اس سے کہا : اے ہمارے آقا ! تو ہی تو ہمارا استاد ہے ‘ کیا تو نے ہمیں اس وقت بھلا دیا ہے ۔ ؛۔۔ ‘

غرض عیسائیوں کے پاس موجودہ ریکارڈ سے کوئی ایسا شخص جو اس معاملے میں تحقیق کرنا چاہے کوئی قابل یقین اور پختہ بات نہیں پاتا اس لئے کہ یہ واقعہ صبح صادق سے پہلے رات کی تاریکی میں پیش آیا تھا ۔ بعد میں آنے والے لوگوں نے جو دلائل پیش کئے وہ روایت در روایت پر مبنی تھے ۔ قرآن کریم اس بارے میں کہتا ہے ۔

(آیت) ” وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ، مالھم بہ من علم الا اتباع الظن ، وما قتلوہ یقینا (157) بل رفعہ اللہ الیہ ، وکان اللہ عززا حکیما (158) (4 : 157۔ 158) (اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ۔ ان کے پاس اس معاملے میں کوئی علم نہیں ہے ۔ محض گمان ہی کی پیروی ہے ۔ انہوں نے مسیح کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا ‘ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے)

اور اس سے قبل قرآن کریم نے فیصلہ کن انداز میں فرمایا : (آیت) ” وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم “۔ (4 : 157) (حالانکہ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کیلئے مشتبہ کردیا گیا۔ )

قرآن کریم یہاں رفع عیسیٰ (علیہ السلام) کی تفصیلات نہیں دیتا کہ آیا یہ رفع جسمانی تھا یا روحانی تھا ۔ بحالت حیات تھا ‘ یا فقط روحانی بعد الوفات تھا اور یہ کہ یہ تو فی کب واقعہ ہوئی اور کہاں ہوئی لیکن قرآن یہ کہتا ہے کہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ ہی اسے سولی پر چڑھایا ۔ یہ قتل اور سولی پر چڑھانے کا فعل اس شخص کے ساتھ ہوا جس کے بارے میں انہیں اشتباہ میں ڈالدیا گیا تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں ۔ اس کے سوا قرآن کریم یہاں مزید کچھ تفصیل نہیں بتاتا ۔ البتہ دوسری سورة ( سورة آل عمران) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” (یاعیسی انی متوفیک ورافعک الی) (اے عیسیٰ میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا) اس آیت میں بھی اٹھائے جانے اور واپس لے لینے (وفات) کی تفصیلات نہیں دی گئیں نہ اس توفی کا وقت دیا گیا ہے اور نہ ہی ” توفی “ کی نوعیت بتائی گئی ہے ۔ ظلال القرآن میں ہم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے ہم بھی اس میں قرآن کریم کے سائے میں رہتے ہوئے تفصیلات میں نہیں جاتے اس لئے کیفیت توفی پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ نہ اب تفصیلات کیلئے کوئی سبیل ہے ۔ محض اقاویل واساطیر نقل کرنے کا فائدہ ہی کیا ہوگا ۔

اب ہم واپس اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور قرآن کریم نے اہل کتاب پر جو استدراک کیا ہے اس کی طرف لوٹتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal rafaAAahu Allahu ilayhi wakana Allahu AAazeezan hakeeman

اردو ترجمہ

اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو اُس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain min ahli alkitabi illa layuminanna bihi qabla mawtihi wayawma alqiyamati yakoonu AAalayhim shaheedan

(آیت) ” وان من اھل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ ، ویوم القیمۃ یکون علیھم شیھدا ، (4 : 159) (اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا ۔۔۔۔۔ ) اس آیت کے مفہوم میں سلف صالحین کے اندر اختلاف رائے رہا ہے ۔ اس اختلاف کے پیدا ہونے کی وجہ یہ رہی ہے کہ ” موتہ “ میں جو ضمیر ہے اس کے مرجع میں اختلاف ہوا ہے اگر اس کا مرجع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوں تو مفہوم یہ ہوگا کہ اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے قبل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایمان نہ لائے گا ۔ اس صورت میں یہ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا ۔۔۔۔ دوسری تعبیر کے مطابق ” موتہ “ کی ضمیر کا مرجع اہل کتاب ہیں ۔ یعنی یہ کہ اہل کتاب میں سے ہر شخص اپنی موت سے قبل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے گا ۔ وہ یوں کہ موت سے قبل سکرات الموت کے اندر ہی میت پر حق واضح ہوجاتا ہے لیکن اس وقت اگر کوئی ایمان لے آئے تو اس کے لئے وہ ایمان مفید نہیں ہوتا ۔

میرے خیال میں یہ دوسرا قول زیادہ قابل ترجیح ہے اور اس کی طرف حضرت ابی ؓ کی قرات میں بھی اشارہ کر رہی ہے ۔ (آیت) ” (الا لیومنن بہ قبل موتہ) (4 : 159) (اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو ان کی موت سے قبل اس پر ایمان نہ لائے) اس قرات کے مطابق اس ضمیر کا مرجع صرف اہل کتاب ہی ہو سکتے ہیں ۔ اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ جو یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کرتے ہیں اور اب تک وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے انکو قتل کردیا ہے اور سولی پر چڑھایا ہے ان میں سے جو بھی موت پائے گا اسی وقت اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی (یعنی بوقت نزع) کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تو حق پر ہیں ان کی رسالت برحق ہے ۔ تو وہ حالت نزع میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے گا لیکن اس وقت تو ایمان لانا مفید نہیں ہوتا ۔ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان پر خود گواہ ہوں گے ۔

یہاں آکر قصہ صلیب ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد یہودیوں کے دیگر منکرات کا ذکر شروع ہوتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے ان منکرات پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کو کیا سزا دی اور آخرت میں ان کیلئے کیا کچھ تیار ہے ۔

اردو ترجمہ

غرض اِن یہودی بن جانے والوں کے اِسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر، اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabithulmin mina allatheena hadoo harramna AAalayhim tayyibatin ohillat lahum wabisaddihim AAan sabeeli Allahi katheeran

(آیت) ” فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبت احلت لھم وبصدھم عن سبیل اللہ کثیرا ‘(160) واخذھم الربوا وقد نھو عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل واعتدنا للکفرین منھم عذابا الیما (161) (4 : 160۔ 161)

(۔ غرض ان یہودیوں کے اسی ظالمانہ رویے کی بناء پر اور اس بناء پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ‘ اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں ‘ ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کیلئے حلال تھیں ‘ اور وہ لوگ جو ان میں سے کافر ہیں ان کیلئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ )

چناچہ اس آیت کے ذریعے ان کے سابقہ منکرات میں کچھ مزید منکرات کا اضافہ کردیا گیا ۔ اور یہ بتا دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں سے لوگوں کو روکنے کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہیں ہے ۔ گویا وہ رات دن ایسی کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ نیز یہ رات دن سودی کاروبار میں لگے رہتے ہیں اور یہ کام وہ محض کم علمی کی وجہ سے نہیں کر رہے یا یہ کہ انہیں اس سلسلے میں متنبہ نہیں کیا گیا ‘ بلکہ انہیں صاف الفاظ میں اس سے روکا گیا تھا لیکن انہوں نے پھر بھی اس پر اصرار کیا اور لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھاتے رہے ۔ یہ ربا کے ذریعے بھی کھاتے رہے اور دوسرے ذرائع سے بھی ۔

ان منکرات اور اس سے پہلی سورتوں میں مذکورہ جرائم کی وجہ سے اللہ نے ان پر بعض حلال چیزوں کو حرام کردیا جوان کیلئے حلال تھیں اور یہ کہ اللہ نے کافروں کیلئے سخت دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

یہودیوں کے خلاف اس مہم میں یہودیوں کے چہرے سے نقاب اتار کر پھینک دیا گیا ‘ اور اس ان کے تاریخ سے بعض واقعات بھی پیش کئے گئے تاکہ معلوم ہو کہ ان کی تاریخ کیا ہے ۔ ان کی بہانہ سازیوں اور ان کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کیا کیا اور یہ بتایا گیا کہ وہ کسی طرح مان کردینے والے نہیں ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے قائد ‘ اپنے نجات دہندہ اور اپنے عظیم نبی کے ساتھ یہی رویہ اختیار کئے رکھا ان کی عادت یہ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ صالحین اور انبیاء کے ساتھ برے سلوک اور ان کے خلاف بدگوئی کرنے میں بہت ہی جری وسریع رہے ہیں ۔ وہ انبیاء کو بھی قتل کرتے رہے ہیں اور پھر ندامت کے بجائے اس قتل پر فخر کرتے رہے ہیں ۔ ان جملوں کے نتیجے میں ‘ یہودیوں کے مکروفریب کا جال تار تار ہوگیا جو انہوں نے اسلامی صفوں کے خلاف بچا رکھا تھا ۔ ان کی سازشیں ناکام ہوگئیں اور مسلمانوں کے ساتھ انکی خفیہ دوستیاں کٹ گئیں ۔ یوں اہل اسلام نے یہودیوں کے اصل مزاج کو اچھی طرح جان لیا۔ اسلام کے خلاف ان کی سازشوں اور ان میں استعمال ہونے والے وسائل وذرائع کو پہچان لیا ۔ اس بات کا انہیں علم ہوگیا کہ وہ کس طرح ہر سچائی کے مقابلے میں جتھہ بندی کرلیتے ہیں چاہے یہ سچائی خود ان کے اندر انکی اپنی صفوں سے اٹھے یا ان سے باہر دوسری اقوام کے اندر پائی جائے ۔ اس لئے کہ وہ ہمیشہ سچ اور اہل حق کے دشمن رہے ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہدایت اور ہادیوں کی بیخ کنی کرتے رہے ہیں ۔ ہر دور میں اور ہر زمانے میں وہ یہ کام کرتے رہے ہیں ۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ تو ان کا یہ رویہ بہرحال تھا ہی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں ‘ اس لئے ہر دور میں ہر اسلامی تحریک اور اسلامی سوسائٹی کا یہ فرض ہے کہ وہ یہودیوں سے چوکنا رہے اس لئے کہ ان کی جبلت ہی ایسی ہے کہ وہ ذاتی طور پر سچائی کے دشمن ہیں ۔ ان کے دل کے اندر حق کی دشمنی بھری ہوئی ہے ۔ ان کے کلیجے سخت ہوگئے ہیں ۔ وہ اپنے سر صرف اس شخص کیلئے جھکاتے ہیں جو ان پر ڈنڈے برسائے اور وہ سچائی کو تب تسلیم کرتے ہیں جب ان کے سروں پر تلوار لٹک رہی ہو ۔

اس قسم کے لوگوں کا یہ تعارف صرف اس جماعت اسلامی کیلئے نہ تھا جو مدینہ طیبہ میں کام کر رہی تھی اس لئے کہ قرآن اس امت کے لئے گائیڈ ہے جب تک کہ یہ امت موجود رہے گی ۔ اگر قرآن سے یہ امت اپنے دشمنوں کے بارے میں ہدایات لینا چاہے تو اس میں اسے ہدایات مل جائیں گی ، اس سے جب بھی یہ امت کوئی نصیحت لینا چاہے یہ کتاب اسے نصیحت دیتی ہے ۔ اس کتاب نے امت کو یہودیوں کے بارے میں ہدایت دی ۔ نصیحت کی اور فہم دیا تو اس کے نتیجے میں یہودیوں کی گردنیں مسلمانوں کے مقابلے میں جھک گئیں ۔ جب اس امت نے قرآن مجید کو چھوڑا تو یہ امت یہودیوں کی غلام بن گئی ، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ امت پوری طرح جمع ہوتی ہے اور یہودیوں کی ایک مختصر جمعیت اس پر غالب آجاتی ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اپنی کتاب اور گائیڈ بک سے غافل ہے ۔ وہ قرآن کی ہدایات سے دور بھاگ رہی ہے ۔ اس نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے ۔ اور یہ امت فلاں اور فلاں کے اقوال کی اطاعت کر رہی ہے ۔ یہ امت اسی طرح یہودی سازش کا شکار رہے گی اور اسی طرح وہ یہودیوں کے عتاب میں رہے گی جب تک وہ قرآن کی طرف نہیں لوٹتی ۔

یہ بیان اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک یہودیوں میں سے نکل کر آنے والے بعض اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کردی جاتی اور ان کی جرات راندانہ کہ تعریف کی جاتی ہے کہ چھلانگ لگا کر نکل آئے اور سچائی کو قبول کرلیا ۔ قرآن کریم ان لوگوں کے علم و ایمان کی تصدیق کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ اہل اسلام میں داخل ہوئے اور رسول اللہ ﷺ پر نازل شدہ دین کو قبول کیا ۔ یہ علم وہ تھا جو رسول اللہ ﷺ پر اترا اور جو آپ سے قبل انبیاء پر اترا تھا ۔ وہ اس علم میں زیادہ رسوخ رکھتے تھے جس کی وجہ سے ایمان لے آئے۔

اردو ترجمہ

اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا، اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں، ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، اور جو لوگ اِن میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waakhthihimu alrriba waqad nuhoo AAanhu waaklihim amwala alnnasi bialbatili waaAAtadna lilkafireena minhum AAathaban aleeman

اردو ترجمہ

مگر ان میں جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اور ایماندار ہیں وہ سب اُس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی اِس طرح کے ایمان لانے والے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرنے والے اور اللہ اور روز آخر پر سچا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lakini alrrasikhoona fee alAAilmi minhum waalmuminoona yuminoona bima onzila ilayka wama onzila min qablika waalmuqeemeena alssalata waalmutoona alzzakata waalmuminoona biAllahi waalyawmi alakhiri olaika sanuteehim ajran AAatheeman

(آیت) ” نمبر 162۔

غرض پختہ علم اور اس پر روشن ایمان انسان کو اس طرح ہدایت دیتے ہیں کہ انسان پورے دین پر ایمان لانے والا بن جاتا ہے ۔ انسان اپنے علم کی پختگی اور صاف ایمان کی وجہ سے اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ دین اللہ وحدہ کی طرف سے آیا ہے اور یہ کہ اپنے مزاج کے اعتبار سے دین ایک ہی ہے ۔

قرآن کریم کی جانب سے یہ اشارہ دینا کہ علم کی گہرائی کے نتیجے میں صحیح معرفت حاصل ہوتی ہے اور دل کے دروازے نور ایمان کے لئے کھل جاتے ہیں ‘ نزول قرآن کے دور میں نہایت ہی معنی خیز ہے یہ قرآن کریم کے اشارات میں سے ایک اہم اشارہ ہے اور اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے زمانے میں صورت حال کیا تھی ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں نفس انسانی کی صورت حال کیا ہوتی تھی ۔ سطحی علم کی مثال اس طرح ہوتی ہے جس طرح کفر اور انکار ۔ یہ کفر اور انکار ان کے دل کے اندر صحیح معرفت کے اترنے میں حائل ہوجاتے ہیں۔ ہر دور میں یوں ہوتا ہے کہ سطحی علم کی وجہ سے حقیقت کی معرفت حاصل نہیں ہوتی ۔ جو لوگ علم میں گہرائی تک چلے جاتے ہیں اور انہیں حقیقی علم حاصل ہوجاتا ہے تو ان کی آنکھوں کے سامنے شواہد آجاتے ہیں جو اس کائنات کے اندر پنہاں ہیں ۔ اگر انکے سامنے شواہد نہیں آتے تو کم ازکم ایسے سوالات آجاتے ہیں جن کا جواب ان کے پاس نہیں ہوتا اور محض کسی سماوی نظریہ حیات کو قبول کرکے ہی وہ ان سوالات کے جواب سے جان چھڑا سکتے ہیں ۔ مثلا یہ کہ اس کائنات کا ایک الہ ہے ۔ وہ اس پر حاوی ہے ‘ اس کا مدیر ہے ‘ اور اس پر پوری طرح متصرف ہے ۔ اس کا ایک ہی ارادہ ہے ۔ اس نے اس کائنات کے اندر یہ ناموس اعظم جاری کیا ہے ۔ اسی طرح وہ لوگ جن کے دل ہدایت کیلئے بےتاب ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان پر راز کھول دیتے ہیں اور انکی روح ہدایت کو پالیتی ہے ۔ وہ لوگ جو ادھر ادھر سے کچھ معلومات چن لیتے ہیں اور اپنے آپ کو علماء سمجھنے لگتے ہیں ‘ ان کے اس سطحی علم کا پردہ ان کے اور ان دلائل ایمان کے درمیان حائل ہوجاتا ہے جو اس کائنات میں پوشیدہ ہوتے ہیں ‘ اس لئے وہ ایمان تک نہیں پہنچ پاتے ۔ ان پر ایمان ظاہر ہی نہیں ہوتا ‘ اس لئے کہ ان کا علم ناقص اور سطحی ہوتا ہے اور یہ سطحی علم اس کائنات کے سوالات کا ادراک نہیں کرسکتا ۔ ان کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ ان کے دل مائل بہ ایمان وہدایت نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اس کے شائق ہوتے ہیں ۔ یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ جب دل میں ہوں وہ ایمان کا ذوق نہیں رکھتا اور نہ اسے نور ایمان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر وہ ایمان رکھتا ہے تو اس دین پر رکھتا ہے جو اسے بطور عصبیت جاہلیہ وراثت میں ملا ہوتا ہے ۔ چناچہ وہ اس دین سے دور ہوجاتا ہے جو خدائے متعال کی جانب سے نازل ہوا ہے اور جسے سلسلہ رسل کے ذریعے بھیجا گیا ہے ۔ جس کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں صلی اللہ علیہم وسلم اجمعین ۔

تفسیر ماثور میں یہ روایات آئی ہیں ‘ کہ یہ اشارہ سب سے پہلے ان لوگوں کی طرف ہے جو لوگ یہودیوں میں سے اپنے رسوخ فی العلم کی وجہ سے ہدایت پاگئے تھے ۔ جنہوں نے رسول کی دعوت پر لبیک کہا اور جن کے نام ہم نے گذشتہ سطور میں دے دیئے ہیں لیکن آیت عام ہے اور اس کے مفہوم میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو کبھی بھی اپنے رسوخ فی العلم کی وجہ سے اس دین میں شامل ہوں گے یا وہ اپنی ایمانی بصیرت کی وجہ سے دین اسلام کو قبول کرلیں گے ہیں خواہ تاریخ کے کسی بھی دور میں ہوں۔ (مثلا ڈاکٹر محمد اسد ‘ حقیقت حال اللہ ہی جانتا ہے)

(آیت) ” لکن الرسخون فی العلم منھم والمومنون یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک والمقیمین الصلوۃ والموتون الزکوۃ والمومنون باللہ والیوم الاخر اولئک سنوتیھم اجراعظیما “۔ (4 : 162)

” مگر ان میں جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اور ایماندار ہیں وہ سب اس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو اے نبی ‘ تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی ۔ اس طرح کے ایمان لانے والے اور نماز و زکوۃ کی پابندی کرنے والے اور اللہ اور روز آخرت پر سچا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے ۔

(آیت) ” (الرسخون فی العلم) جو اگلی پچھلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور ایمان لانے والے اور اقامت صلوۃ کرنے والے ‘ یہ صفات اہل ایمان مسلمانوں کی ہیں اس لئے کہ مسلمانوں کی صفت عظیمہ اقامت صلوۃ ‘ ایتائے زکوۃ ‘ ایمان باللہ اور ایمان بالاخرت ہے ۔ ان دونوں کیلئے اجر کا اعلان ہوتا ہے کہ ان کو ہم اجر عظیم عطا کریں گے ۔

یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ والمقیمین میں عطف المومنوں پر ہے جبکہ المومنوں کا اعراب رفعی ہے ۔ اس لحاظ سے ” والمقیمون “ ہونا چاہئے لیکن اسے اعراب حالت نصبی کا دیا گیا یعنی اخص المقیمین۔

(میں نماز قائم کرنیوالوں کا ذکر خصوصیت سے کرتا ہوں) یہ اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اقامت صلوۃ کی اہمیت دین میں کس قدر عظیم ہے ۔ اس طرز ادا کے نظائر کلام عرب اور قرآن مجید میں بالعموم پائے جاتے ہیں اور اس سے سیاق کلام میں کسی بات کی تائید مطلوب ہوتی ہے ۔ عام قرات تو یہی ہے ۔ البتہ ایک قرات والمقیمون بھی آتی ہے اور یہ عبداللہ ابن مسعود ؓ کے مصحف میں وارد ہے ۔

سیاق کلام کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مکالمہ جاری ہے اور اس جگہ یہ بات بالخصوص یہودیوں کے ساتھ ہو رہی ہے ۔ یہ بات حضرت محمد ﷺ کی رسالت کے بارے میں ہو رہی ہے جس کی وہ تکذیب کرتے تھے ۔ اسی طرح وہ اللہ کے درمیان تفریق کرتے تھے اور اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ سے نشانات ومعجزات کا مطالبہ کرتے تھے ۔ مثلا یہ کہ آپ آسمان سے ایک کتاب اتار کر لائیں ۔۔۔۔۔ چناچہ یہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ پر وحی کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہے نہ یہ کوئی اعجوبہ ہے ۔ رسول بھیجنا تو اللہ کی سنت ہے اور اس سنت پر اللہ تعالیٰ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر حضرت محمد ﷺ کے دور تک عمل پیرا رہے ہیں ۔ یہ سب رسول ‘ اللہ نے خوشخبری دینے اور ڈرانے کیلئے بھیجے ہیں ۔ یہ اپنے بندوں کے ساتھ اللہ کی شفقت اور رحمت کا تقاضا تھا ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے رسول اس لئے بھی بھیجے کہ وہ اپنے بندوں پر حجت تمام کرنا چاہتا تھا اور یوم الحساب آنے سے پہلے انہیں خبردار اور متنبہ کرنا چاہتا تھا ۔ یہ سب حضرات ایک ہی وحی لیکر آئے ۔ ان کا مقصد ایک تھا ‘ اس لئے ان کے درمیان تفریق کرنا محض ضد اور ہٹ دھرمی ہے اور اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اگر وہ ضد اور ہٹ دھرمی کرکے انکار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود اس پیغمبر کی وحی پر شاہد عادل ہے ۔ اس کی شہادت کے بعد اب کسی اور کی شہادت اور تصدیق کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ اور اس اللہ کی گواہی پر پھر فرشتے بھی گواہ ہیں ۔ فرماتے ہیں ۔

103