سورہ نساء: آیت 137 - إن الذين آمنوا ثم كفروا... - اردو

آیت 137 کی تفسیر, سورہ نساء

إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ثُمَّ كَفَرُوا۟ ثُمَّ ءَامَنُوا۟ ثُمَّ كَفَرُوا۟ ثُمَّ ٱزْدَادُوا۟ كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ ٱللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًۢا

اردو ترجمہ

رہے وہ لوگ جو ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے، تو اللہ ہرگز ان کو معاف نہ کرے گا اور نہ کبھی اُن کو راہ راست دکھائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena amanoo thumma kafaroo thumma amanoo thumma kafaroo thumma izdadoo kufran lam yakuni Allahu liyaghfira lahum wala liyahdiyahum sabeelan

آیت 137 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 137۔

وہ کفر جو ایمان سے پہلے ہو ‘ اس کے آثار کو ایمان بالکل مٹا دیتا ہے جس شخص نے کبھی روشنی دیکھی ہی نہ ہو وہ اگر اندھیرے میں رہتا ہے تو وہ معذور ہے ۔ لیکن ایمان کے بعد کفر کا رویہ اختیار کرنا اور بار بار ایسا کرنا کبیرہ گناہ ہے ‘ اس قدر بڑا گناہ کہ اللہ تعالیٰ ہر گز اس کی مغفرت نہ کرے گا اور نہ اس حرکت کا کوئی عذر ہو سکتا ہے ۔ کفر تو ایک حجاب ہے ‘ جب پردہ ہٹ جائے تو فطرت اپنے خالق کے ساتھ مربوط ہوجاتی ہے اور گمراہ شخص پھر سے ساتھ مل جاتا ہے ۔ پودا اپنی نرسری میں آجاتا ہے اور روح ایمان کی مٹھاس کو چکھ لیتی ہے اس لئے جو لوگ ایمان کے بعد بار بار مرتد ہوتے ہیں گویا وہ فطرت سے بھاگتے ہیں ‘ علم سے بھاگتے ہیں اور عمدا جہالت میں گرتے ہیں اور وہ عمدا راہ ضلالت اور گم شدگی پر چل نکلتے ہیں ۔ اور پھر وہ اس راہ پر اس قدر دور نکل جاتے ہیں کہ آگے سے راہ ہی ختم ہوجاتی ہے ۔

یہ وجہ ہے کہ اللہ نے حکم دیا کہ اب وہ انہیں معاف نہ کرے گا اور اب وہ انہیں دوبارہ لوٹا کر راہ ہدایت پر نہ لائے گا اس لئے کہ انہوں نے قصدا راہ حق کو چھوڑا پہلے وہ اس راہ پر چل چکے تھے اور منزل پا چکے تھے ۔ انہوں نے قصدا اندھے پن اور برائی کو اختیار کیا جبکہ پہلے وہ صاحب نظر تھے اور صراط مستقیم کے راہ رو تھے ۔

جب تک نفس انسانی اللہ کے لئے خالص نہ ہوجائے ‘ اس وقت تک وہ اوضاع واقدار اور مصالح اور مفادات کے دباؤ سے آزاد نہیں ہو سکتا ۔ نہ وہ حرص اور لالچ سے پاک ہو سکتا ہے اور نہ وہ مصلحتوں اور امیدوں سے پاک ہو سکتا ہے ۔ اور یہ نفس کبھی بھی عزت نفس ‘ بلندی ‘ ہمت اور آزادی سے سرشار نہیں ہوسکتا جس طرح وہ نفس ہوتا ہے جو محبت الہی سے بھرا ہوا ہو ۔ جب کوئی دل محبت الہی سے بھر جائے تو وہ دنیاوی اقدار ‘ دنیاوی طور طریقوں ‘ دنیا کے واقعات ‘ دنیا کے لوگوں ‘ دنیا میں پائے جانے والی تمام قوتوں ‘ حکومتوں اور ان کے اہالی وموالی کے مقابلے میں برتر ہوتا ہے ۔

یہاں سے پھر نفاق کا پودا پھوٹتا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ نفاق کی حقیقت کیا ہے ؟ نفاق صرف یہ ہے کہ انسان سچائی پر بظاہر تو ثابت ہوجائے مگر اس کے لئے لڑنے اور باطل کے ساتھ مقابلہ کرنے میں ضعیف ہو ۔ یہ ضعف اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے دل میں خوف اور لالچ پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خوف اور لالچ دونوں اللہ سے نہیں ہوتے بلکہ غیر اللہ سے ہوتے ہیں ۔ انسان پھر زمین کے حالات اور زمین کی شخصیات کا قیدی بن جاتا ہے اور اسلامی نظام سے دور ہوجاتا ہے ۔

لہذا اس سبق میں ایمان کی بات بھی ہونی ہے ‘ قیام شہادت اور عدل کی بات بھی ہوئی اور نفاق کی بات بھی ہوئی اور تینوں کے درمیان گہرا ربط ہے ۔ عمومی مناسبت تو یہ ہے کہ یہی اس سورة کے اصل موضوعات ہیں یعنی جماعت مسلمہ کی اسلامی نظام حیات میں تربیت اور اس کی اجتماعی زندگی سے جاہلیت کے آثار کو مٹانا ‘ جماعت کے افراد کے نفوس کو بشری فطری کمزوریوں کے مقابلے میں تیار کرنا اور پھر اسے اردگرد پھیلے ہوئے مشرکین اور منافقین کے ساتھ ہونے والے معرکے کے اندر اتارنا ۔ اس پوری سورة کے اندر یہی مرکزی مضمون ہے جس کے اردگرد یہ سورة گھومتی ہے ’ اول سے آخر تک ۔

یہی وجہ ہے کہ اس سبق کے باقی ماندہ حصے میں بات منافقین تک محدود ہے اور اس پر یہ پارہ بھی ختم ہوتا ہے جبکہ اس سے قبل منافقین کی ایک خاص جماعت کا تذکرہ ہوا کہ وہ بار بار اعلان اسلام کرتے ہیں اور پھر کفر کرتے ہیں ۔ چناچہ اب یہاں سے منافقین پر تنقید شروع ہوتی ہے جن کے بارے میں قرآن نے تفصیلات بیان کردی ہیں اور مختلف انداز میں ان کی بیماری کا مطالعہ کیا ہے تاکہ اسلامی نظام کا مزاج اچھی طرح سامنے آجائے فطرت کے مطابق اس پر عمل ہو اور دلوں میں اور عمل میں اسلامی نظام واضح طور پر نظر آئے ۔

آیت 137 اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا یہاں کفر سے مراد کفر حقیقی ‘ کفر معنوی ‘ کفر باطنی یعنی نفاق ہے ‘ قانونی کفر نہیں۔ کیونکہ منافقین کے ہاں کفر و ایمان کے درمیان جو بھی کشمکش اور کھینچا تانی ہو رہی تھی ‘ وہ اندر ہی اندر ہورہی تھی ‘ لیکن ظاہری طور پر تو ان لوگوں نے اسلام کا انکار نہیں کیا تھا۔لَّمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَلاَ لِیَہْدِیَہُمْ سَبِیْلاً واضح رہے کہ منافقت کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ ایک ہی دن میں کوئی شخص منافق ہوگیا ہو۔ منافقین میں ایک تو شعوری منافق تھے ‘ جو باقاعدہ ایک فیصلہ کر کے اپنی حکمت عملی اختیار کرتے تھے ‘ جیسے ہم سورة آل عمران میں ان کی پالیسی کے بارے میں پڑھ آئے ہیں کہ صبح ایمان کا اعلان کریں گے ‘ شام کو پھر کافر ہوجائیں گے ‘ مرتد ہوجائیں گے۔ تو معلوم ہوا کہ ایمان انہیں نصیب ہوا ہی نہیں اور انہیں بھی معلوم تھا کہ وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ دل سے جانتے تھے کہ ہم ایمان لائے ہی نہیں ہیں ‘ ہم تو دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ شعوری منافقت ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ غیر شعوری منافق تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام قبول تو کیا تھا ‘ ان کے دل میں دھوکہ دینے کی نیت بھی نہیں تھی ‘ لیکن انہیں اصل صورت حال کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ پھولوں کی سیج ہے ‘ لیکن ان کی توقعات کے بالکل برعکس وہ نکلا کانٹوں والا بستر۔ اب انہیں قدم قدم پر رکاوٹ محسوس ہو رہی ہے ‘ ارادے میں پختگی نہیں ہے ‘ ایمان میں گہرائی نہیں ہے ‘ لہٰذا ان کا معاملہ ہرچہ بادا باد والا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا حال ہم سورة البقرۃ کے آغاز آیت 20 میں پڑھ آئے ہیں کہ کچھ روشنی ہوئی تو ذرا چل پڑے ‘ اندھیرا ہوا تو کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ کچھ ہمت کی ‘ دو چار قدم چلے ‘ پھر حالات نا موافق دیکھ کر ٹھٹک گئے ‘ رک گئے ‘ پیچھے ہٹ گئے۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ لوگ ان کو ملامت کرتے کہ یہ تم کیا کرتے ہو ؟ تو اب انہوں نے یہ کیا کہ جھوٹے بہانے بنانے لگے ‘ اور پھر اس سے بھی بڑھ کر جھوٹی قسمیں کھانی شروع کردیں ‘ کہ خدا کی قسم یہ مجبوری تھی ‘ اس لیے میں رک گیا تھا ‘ ایسا تو نہیں کہ میں جہاد میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ میری بیوی مر رہی تھی ‘ اسے چھوڑ کر میں کیسے جاسکتا تھا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی جھوٹی قسمیں کھانا ایسے منافقین کا آخری درجے کا حربہ ہوتا ہے۔ تو ایمان اور کفر کا یہ معاملہ ان کے ہاں یوں ہی چلتا رہتا ہے ‘ اگرچہ اوپر ایمان باللّسان کا پردہ موجود رہتا ہے۔ جب کوئی شخص ایمان لے آیا اور اس نے ارتداد کا اعلان بھی نہیں کیا تو قانونی طور پر تو وہ مسلمان ہی رہتا ہے ‘ لیکن جہاں تک ایمان بالقلب کا تعلق ہے تو وہ مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِککی کیفیت میں ہوتا ہے اور اس کے اندر ہر وقت تذبذب اور اہتزاز oscillation کی کیفیت رہتی ہے کہ ابھی ایمان کی طرف آیا ‘ پھر کفر کی طرف گیا ‘ پھر ایمان کی طرف آیا ‘ پھر کفر کی طرف گیا۔ اس کی مثال بعینہٖ اس شخص کی سی ہے جو دریا یا تالاب کے گہرے پانی میں ڈوبتے ہوئے کبھی نیچے جا رہا ہے ‘ پھر ہاتھ پاؤں مارتا ہے تو ایک لمحے کے لیے پھر اوپر آجاتا ہے مگر اوپر ٹھہر نہیں سکتا اور فوراً نیچے چلا جاتا ہے۔ بالآخر نیچے جا کر اوپر نہیں آتا اور ڈوب جاتا ہے۔ بالکل یہی نقشہ ہے جو اس آیت میں پیش کیا جارہا ہے۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان کردیا گیا ہے کہ یہ کن لوگوں کا تذکرہ ہے۔

صحبت بد سے بچو ارشاد ہو رہا ہے کہ جو ایمان لا کر پھر مرتد ہوجائے پھر وہ مومن ہو کر کافر بن جائے پھر اپنے کفر پر جم جائے اور اسی حالت میں مرجائے تو نہ اس کی توبہ قبول نہ اس کی بخشش کا امکان اس کا چھٹکارا، نہ فلاح، نہ اللہ اسے بخشے، نہ راہ راست پر لائے۔ حضرت علی ؓ اس آیت کی تلاوت فرما کر فرماتے تھے مرتد سے تین بار کہا جائے کہ توبہ کرلے۔ پھر فرمایا یہ منافقوں کا حال ہے کہ آخرش ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے پھر وہ مومنوں کو چھوڑ کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں، ادھر بظاہر مومنوں سے ملے جلے رہتے ہیں اور کافروں میں بیٹھ کر ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں دراصل ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، پس اللہ تعالیٰ ان کے مقصود اصلی کو ان کے سامنے پیش کر کے اس میں ان کی ناکامی کو بیان فرماتا ہے کہ تم چاہتے ہو ان کے پاس تمہاری عزت ہو مگر یہ تمہیں دھوکا ہوا ہے اور تم غلطی کر رہے ہو بگوش ہوش سنو عزتوں کا مالک تو اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور آیت میں ہے (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا) 35۔ فاطر :10) یعنی عزت اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول اور مومنوں کا حق ہے، لیکن منافق بےسمجھ لوگ ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ اگر حقیقی عزت چاہتے ہو تو اللہ کے نیک بندوں کے اعمال اختیار کرو اس کی عبادت کی طرف جھک جاؤ اور اس جناب باری سے عزت کے خواہاں بنو، دنیا اور آخرت میں وہ تمہیں وقار بنا دے گا، مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص فخر و غرور کے طور پر اپنی عزت ظاہر کرنے کے لئے اپنا نسب اپنے کفار باپ دادا سے جوڑے اور نو تک پہنچ جائے وہ بھی ان کے ساتھ دسواں جہنمی ہوگا۔ پھر فرمان ہے جب میں تمہیں منع کرچکا کہ جس مجلس میں اللہ کی آیتوں سے انکار کیا جا رہا ہو اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اس میں نہ بیٹھو، پھر بھی اگر تم ایسی مجلسوں میں شریک ہوتے رہو گے تو یاد رکھو میرے ہاں تم بھی ان کے شریک کار سمجھے جاؤ گے۔ ان کے گناہ میں تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے جیسے ایک حدیث میں ہے کہ جس دستر خوان پر شراب نوشی ہو رہی ہے اس پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنا چاہئے جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس آیت میں جس ممانعت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سورة انعام کی جو مکیہ ہے یہ (وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ) 6۔ الانعام :68) جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں میں غوطے لگانے بیٹھ جاتے ہیں تو تو ان سے منہ موڑ لے۔ حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں اس آیت کا یہ حکم (اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَهَنَّمَ جَمِيْعَۨا) 4۔ النسآء :140) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَّلٰكِنْ ذِكْرٰي لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ) 6۔ الانعام :69) سے منسوخ ہوگیا ہے یعنی متقیوں پر ان کے احسان کا کوئی بوجھ نہیں لیکن نصیحت ہے کیا عجب کہ وہ بچ جائیں۔ پھر فرمان باری ہے اللہ تعالیٰ تمام منافقوں کو اور سارے کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔ یعنی جس طرح یہ منافق ان کافروں کے کفر میں یہاں شریک ہیں قیامت کے دن جہنم میں بھی اور ہمیشہ رہنے والے وہاں کے سخت تر دل ہلا دینے والے عذابوں کے سہنے میں بھی ان کے شریک حال رہیں گے۔ وہاں کی سزاؤں میں وہاں کی قید و بند میں طوق و زنجیر میں گرم پانی کے کڑوے گھونٹ اتارنے میں اور پیپ کے لہو کے زہر مار کرنے میں بھی ان کیساتھ ہوں گے اور دائمی سزا کا اعلان سب کو ساتھ سنا دیا جائے گا۔

آیت 137 - سورہ نساء: (إن الذين آمنوا ثم كفروا ثم آمنوا ثم كفروا ثم ازدادوا كفرا لم يكن الله ليغفر لهم ولا ليهديهم سبيلا...) - اردو