سورہ نساء (4): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نساء کے بارے میں معلومات

Surah An-Nisaa
سُورَةُ النِّسَاءِ
صفحہ 100 (آیات 135 سے 140 تک)

۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُونُوا۟ قَوَّٰمِينَ بِٱلْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ أَوِ ٱلْوَٰلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَٱللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا۟ ٱلْهَوَىٰٓ أَن تَعْدِلُوا۟ ۚ وَإِن تَلْوُۥٓا۟ أَوْ تُعْرِضُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ ءَامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَٱلْكِتَٰبِ ٱلَّذِى نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ وَٱلْكِتَٰبِ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِٱللَّهِ وَمَلَٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَٰلًۢا بَعِيدًا إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ثُمَّ كَفَرُوا۟ ثُمَّ ءَامَنُوا۟ ثُمَّ كَفَرُوا۟ ثُمَّ ٱزْدَادُوا۟ كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ ٱللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًۢا بَشِّرِ ٱلْمُنَٰفِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ٱلَّذِينَ يَتَّخِذُونَ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ ٱلْعِزَّةَ فَإِنَّ ٱلْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلْكِتَٰبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ ءَايَٰتِ ٱللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا۟ مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا۟ فِى حَدِيثٍ غَيْرِهِۦٓ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ جَامِعُ ٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱلْكَٰفِرِينَ فِى جَهَنَّمَ جَمِيعًا
100

سورہ نساء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نساء کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo koonoo qawwameena bialqisti shuhadaa lillahi walaw AAala anfusikum awi alwalidayni waalaqrabeena in yakun ghaniyyan aw faqeeran faAllahu awla bihima fala tattabiAAoo alhawa an taAAdiloo wain talwoo aw tuAAridoo fainna Allaha kana bima taAAmaloona khabeeran

آیت 135 یٰٓایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ یہ آیت قرآن کریم کی عظیم ترین آیات میں سے ہے۔ سورة آل عمران آیت 18 میں ہم پڑھ آئے ہیں : شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَلا والْمَلآءِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآءِمًا م بالْقِسْطِ ط اللہ گواہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ اور سارے فرشتے اور اہل علم بھی اس پر گواہ ہیں ‘ وہ عدل کا قائم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس زمین پر عدل قائم کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے لیے وہ اپنے دین کا غلبہ چاہتا ہے ‘ اور اس عظیم کام کے لیے اس کے کارندے اور سپاہی اہل ایمان ہی ہیں۔ انہی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں عدل قائم کرے گا۔ لیکن اہل ایمان کو اس عظیم مقصد کے لیے کوشش کرنی ہوگی ‘ جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا ‘ ایثار کرنا ہوگا ‘ قربانیاں دینی ہوں گی ‘ تب جا کر کہیں دین غالب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے۔ معاشرے میں عدل و قسط کے قیام کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو اللہ کے گواہ کہا گیا ہے۔ عدل اجتماعی Social Justice پر اسلام نے جتنا زور دیا ہے بدقسمتی سے آج ہمارا مذہبی طبقہ اتنا ہی اس سے بےبہرہ ہے۔ آج کے مسلم معاشروں میں سرے سے شعور ہی نہیں کہ عدل اجتماعی کی بھی کوئی اہمیت اسلام میں ہے۔ اسلامی قوانین اور حدود و تعزیرات کے نفاذ کی اہمیت تو سب جانتے ہیں ‘ لیکن باطل نظام کی نا انصافیاں ‘ یہ جاگیر دارانہ ظلم و ستم اور غریبوں کا استحاصل exploitation کس طرح ختم ہوگا ؟ سرمایہ دار غریبوں کا خون چوس چوس کر روز بروز موٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ نظام ایک ایسی چکی ہے جو آٹا پیس پیس کر ایک ہی طرف ڈالتی جا رہی ہے ‘ جبکہ دوسری طرف محرومی ہی محرومی ہے۔ یہاں دولت کی تقسیم کا نظام ہی غلط ہے ‘ ایک طرف وسائل کی ریل پیل ہے تو دوسری طرف بھوک ہی بھوک۔ ایک طرف امیر امیر تر ہو رہے ہیں تو دوسری طرف غریب غریب تر ‘ اور غربت تو ایسی لعنت ہے جو انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے ‘ ازروئے حدیث نبوی ﷺ : کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَکُوْنَ کُفْرًا 1 لہٰذا سب سے پہلے وہ نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جس میں عدل ہو ‘ انصاف ہو ‘ جس میں ضمانت دی گئی ہو کہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت ہوگی۔ کفالت عامہ کی یہ ضمانت نظام خلافت میں دی جاتی ہے۔ جب نظام درست ہوجائے تو پھر حدود و تعزیرات کا نفاذ ہو۔ پھر جو کوئی چوری کرے اس کا ہاتھ کاٹاجائے۔ لیکن موجودہ حالات میں اگر اسلامی قوانین نافذ ہوں گے تو ان کا فائدہ الٹا لٹیروں اور حرام خوروں کو ہوگا ‘ بلیک مارکیٹنگ کرنے والے ان سے مستفید ہوں گے۔ جنہوں نے حرام خوری سے دولت جمع کر رکھی ہے ‘ وہ خوب پاؤں پھیلا کر سوئیں گے۔ چور کا ہاتھ کٹے گا تو انہیں چوری کا ڈر رہے گا نہ ڈاکے کا۔ تو اصل کام نظام کا بدلنا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ شریعت نافذ نہ کی جائے ‘ بلکہ مقصد یہ ہے کہ شریعت نافذ کرنے سے پہلے نظام system کو بدلا جائے ‘ دین کا نظام قائم کیا جائے اور پھر اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے ‘ اس کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لیے ‘ اسے مستقل طور پر چلانے کے لیے قانون نافذ کیا جائے۔ کیونکہ قانون ہی کسی نظام کے استحکام کا ذریعہ بنتا ہے ‘ قانون کے صحیح نفاذ سے ہی کوئی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ یہی مضمون آگے چل کر سورة المائدہ آیت 8 میں بھی آئے گا ‘ لیکن وہاں اس کی ترتیب بدل گئی ہے۔ وہاں ترتیب اس طرح ہے : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِز۔ اس ترتیب کے بدلنے میں ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ اللہ اور عدل و قسط گویا مترادف الفاظ ہیں۔ ایک جگہ حکم ہے گواہ بن جاؤ اللہ کے اور دوسری جگہ فرمایا : گواہ بن جاؤ قِسط کے۔ ایک جگہ فرمایا : کھڑے ہوجاؤ قسط عدل و انصاف کے لیے جبکہ دوسری جگہ ارشاد ہوا کہ کھڑے ہوجاؤ اللہ کے لیے۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور قسط کے الفاظ جو ایک دوسرے کی جگہ آئے ہیں ‘ آپس میں مترادف ہیں۔وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج۔ایک مؤمن کا تعلق عدل و انصاف اور قسط کے ساتھ ہونا چاہیے ‘ رشتہ داری کے ساتھ نہیں۔ یہاں پر حرف جار کے بدلنے سے معانی میں ہونے والی تبدیلی مدّ نظر رہے۔ شہادۃ علٰیکا مطلب ہے لوگوں پر گواہی ‘ ان کے خلاف گواہی ‘ جبکہ شہادۃ لِلّٰہ کا مطلب ہے اللہ کے لیے گواہی ‘ لہٰذا شُہَدَآءَ لِلّٰہ کے معنی ہیں اللہ کے گواہ۔ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا ق ۔اللہ ہر کسی کا کفیل ہے ‘ تم کسی کے کفیل نہیں ہو۔ تمہیں تو فیصلہ کرنا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہونا چاہیے ‘ تمہیں کسی کی جانب داری نہیں کرنی ‘ نہ ماں باپ کی ‘ نہ بھائی کی اور نہ خود اپنی۔ ایک چور دروازہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کا حق تو نہیں بنتا ‘ لیکن یہ غریب ہے ‘ لہٰذا اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے۔ فرمایا کہ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ‘ تمہیں اس کی جانب داری نہیں کرنی۔ یہ حکم ہمیں واضح طور پر ہمارا فرض یاد دلاتا ہے کہ ہم سب اللہ کے گواہ بن کر کھڑے ہوجائیں۔ ہر حق بات جو اللہ کی طرف سے ہو اس کے علمبردار بن جائیں اور اس حق کو قائم کرنے کے لیے تن ‘ من اور دھن کی قربانی دینے کے لیے اپنی کمر کس لیں۔فَلاَ تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْاج وَاِنْ تَلْوٗآ اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا یعنی اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا حق گوئی سے پہلوتہی کی تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کو اس کی پوری پوری خبر ہے۔ تَلوٗا کا صحیح مفہوم آج کی زبان میں ہوگا chewing your words۔ یعنی اس طریقے سے زبان کو حرکت دینا کہ بات کہنا بھی چاہتے ہیں لیکن کہہ بھی نہیں پا رہے ہیں ‘ حق بات زبان سے نکالنا نہیں چاہتے ‘ غلط بات نکل نہیں رہی ہے۔ یا پھر ویسے ہی حق بات کہنے والی صورت حال کا سامنا کرنے سے کنی کترا رہے ہیں ‘ موقع سے ہی بچ نکلنا چاہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ ایسی کسی کوشش سے انسانوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے مگر اللہ تو تمہاری ہر سوچ ‘ ہر نیت اور ہر حرکت سے باخبر ہے۔اس کے بعد جو مضمون آ رہا ہے وہ شاید اس سورة مبارکہ کا اہم ترین مضمون ہے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo aminoo biAllahi warasoolihi waalkitabi allathee nazzala AAala rasoolihi waalkitabi allathee anzala min qablu waman yakfur biAllahi wamalaikatihi wakutubihi warusulihi waalyawmi alakhiri faqad dalla dalalan baAAeedan

آیت 136 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اٰمِنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط ایمان والوں سے یہ کہنا کہ ایمان لاؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے۔ اے ایمان والو ‘ ایمان لاؤ ! چہ معنی دارد ؟ اس کا مطلب ہے کہ اقرار باللّسان والا ایمان تو تمہیں موروثی طور پر حاصل ہوچکا ہے۔ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوگئے تو وراثت میں ایمان بھی مل گیا ‘ یا یہ کہ جب پورا قبیلہ اسلام لے آیا تو اس میں پکے مسلمانوں کے ساتھ کچھ کچے مسلمان بھی شامل ہوگئے۔ انہوں نے بھی کہا : اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ اس طرح ایمان ایک درجے اقرار با للّسان میں تو حاصل ہوگیا۔ یہ ایمان کا قانونی درجہ ہے۔ پیچھے اسی سورة آیت 94 میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ اگر کوئی شخص راستے میں ملے اور وہ اپنا اسلام ظاہر کرے تو تم اس کو یہ نہیں کہہ سکتے ہو کہ تم مؤمن نہیں ہو ‘ کیونکہ جس نے زبان سے کلمۂ شہادت ادا کرلیا تو قانونی طور پر وہ مؤمن ہے۔ لیکن کیا حقیقی ایمان یہی ہے ؟ نہیں ‘ بلکہ حقیقی ایمان ہے یقین قلبی۔ اس لیے فرمایا : اے ایمان والو ! ایمان لاؤ اللہ پر۔۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے ہم اس آیت کا ترجمہ اس طرح کریں گے کہ اے اہل ایمان ! ایمان لاؤ اللہ پر جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے ‘ مانو رسول ﷺ کو جیسا کہ ماننے کا حق ہے۔۔ اور یہ حق اسی وقت ادا ہوگا جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان دل میں گھر کر گیا ہو۔ جیسے صحابہ کرام رض کے بارے میں سورة الحجرات آیت 7 میں فرمایا گیا : وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ اللہ نے ایمان کو تمہارے نزدیک محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزینّ کردیا ہے۔ آگے چل کر اسی سورة آیت 14 میں کچھ لوگوں کے بارے میں یوں فرمایا : قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط یہ بدّ و لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اے نبی ﷺ ان سے کہہ دیجیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ ہاں یوں کہہ سکتے ہو کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں ‘ لیکن ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ چناچہ اصل ایمان وہ ہے جو دل میں داخل ہوجائے۔ یہ درجہ تصدیق بالقلب کا ہے۔ یاد رہے کہ آیت زیر مطالعہ میں دراصل روئے سخن منافقین کی طرف ہے۔ وہ زبانی ایمان تو لائے تھے لیکن وہ ایمان اصل ایمان نہیں تھا ‘ اس میں دل کی تصدیق شامل نہیں تھی۔ عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے حضرات یہ نکتہ بھی نوٹ کریں کہ قرآن کے لیے اس آیت میں لفظ نَزَّلَاور تورات کے لیے اَنْزَلَ استعمال ہوا ہے۔ وَمَنْ یَّکْفُرْ باللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا یہ تمام آیات بہت اہم ہیں اور مفہوم کے لحاظ سے ان میں بڑی گہرائی ہے۔

اردو ترجمہ

رہے وہ لوگ جو ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے، تو اللہ ہرگز ان کو معاف نہ کرے گا اور نہ کبھی اُن کو راہ راست دکھائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena amanoo thumma kafaroo thumma amanoo thumma kafaroo thumma izdadoo kufran lam yakuni Allahu liyaghfira lahum wala liyahdiyahum sabeelan

آیت 137 اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا یہاں کفر سے مراد کفر حقیقی ‘ کفر معنوی ‘ کفر باطنی یعنی نفاق ہے ‘ قانونی کفر نہیں۔ کیونکہ منافقین کے ہاں کفر و ایمان کے درمیان جو بھی کشمکش اور کھینچا تانی ہو رہی تھی ‘ وہ اندر ہی اندر ہورہی تھی ‘ لیکن ظاہری طور پر تو ان لوگوں نے اسلام کا انکار نہیں کیا تھا۔لَّمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَلاَ لِیَہْدِیَہُمْ سَبِیْلاً واضح رہے کہ منافقت کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ ایک ہی دن میں کوئی شخص منافق ہوگیا ہو۔ منافقین میں ایک تو شعوری منافق تھے ‘ جو باقاعدہ ایک فیصلہ کر کے اپنی حکمت عملی اختیار کرتے تھے ‘ جیسے ہم سورة آل عمران میں ان کی پالیسی کے بارے میں پڑھ آئے ہیں کہ صبح ایمان کا اعلان کریں گے ‘ شام کو پھر کافر ہوجائیں گے ‘ مرتد ہوجائیں گے۔ تو معلوم ہوا کہ ایمان انہیں نصیب ہوا ہی نہیں اور انہیں بھی معلوم تھا کہ وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ دل سے جانتے تھے کہ ہم ایمان لائے ہی نہیں ہیں ‘ ہم تو دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ شعوری منافقت ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ غیر شعوری منافق تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام قبول تو کیا تھا ‘ ان کے دل میں دھوکہ دینے کی نیت بھی نہیں تھی ‘ لیکن انہیں اصل صورت حال کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ پھولوں کی سیج ہے ‘ لیکن ان کی توقعات کے بالکل برعکس وہ نکلا کانٹوں والا بستر۔ اب انہیں قدم قدم پر رکاوٹ محسوس ہو رہی ہے ‘ ارادے میں پختگی نہیں ہے ‘ ایمان میں گہرائی نہیں ہے ‘ لہٰذا ان کا معاملہ ہرچہ بادا باد والا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا حال ہم سورة البقرۃ کے آغاز آیت 20 میں پڑھ آئے ہیں کہ کچھ روشنی ہوئی تو ذرا چل پڑے ‘ اندھیرا ہوا تو کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ کچھ ہمت کی ‘ دو چار قدم چلے ‘ پھر حالات نا موافق دیکھ کر ٹھٹک گئے ‘ رک گئے ‘ پیچھے ہٹ گئے۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ لوگ ان کو ملامت کرتے کہ یہ تم کیا کرتے ہو ؟ تو اب انہوں نے یہ کیا کہ جھوٹے بہانے بنانے لگے ‘ اور پھر اس سے بھی بڑھ کر جھوٹی قسمیں کھانی شروع کردیں ‘ کہ خدا کی قسم یہ مجبوری تھی ‘ اس لیے میں رک گیا تھا ‘ ایسا تو نہیں کہ میں جہاد میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ میری بیوی مر رہی تھی ‘ اسے چھوڑ کر میں کیسے جاسکتا تھا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی جھوٹی قسمیں کھانا ایسے منافقین کا آخری درجے کا حربہ ہوتا ہے۔ تو ایمان اور کفر کا یہ معاملہ ان کے ہاں یوں ہی چلتا رہتا ہے ‘ اگرچہ اوپر ایمان باللّسان کا پردہ موجود رہتا ہے۔ جب کوئی شخص ایمان لے آیا اور اس نے ارتداد کا اعلان بھی نہیں کیا تو قانونی طور پر تو وہ مسلمان ہی رہتا ہے ‘ لیکن جہاں تک ایمان بالقلب کا تعلق ہے تو وہ مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِککی کیفیت میں ہوتا ہے اور اس کے اندر ہر وقت تذبذب اور اہتزاز oscillation کی کیفیت رہتی ہے کہ ابھی ایمان کی طرف آیا ‘ پھر کفر کی طرف گیا ‘ پھر ایمان کی طرف آیا ‘ پھر کفر کی طرف گیا۔ اس کی مثال بعینہٖ اس شخص کی سی ہے جو دریا یا تالاب کے گہرے پانی میں ڈوبتے ہوئے کبھی نیچے جا رہا ہے ‘ پھر ہاتھ پاؤں مارتا ہے تو ایک لمحے کے لیے پھر اوپر آجاتا ہے مگر اوپر ٹھہر نہیں سکتا اور فوراً نیچے چلا جاتا ہے۔ بالآخر نیچے جا کر اوپر نہیں آتا اور ڈوب جاتا ہے۔ بالکل یہی نقشہ ہے جو اس آیت میں پیش کیا جارہا ہے۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان کردیا گیا ہے کہ یہ کن لوگوں کا تذکرہ ہے۔

اردو ترجمہ

اور جو منافق اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق بناتے ہیں انہیں یہ مثردہ سنا دو کہ اُن کے لیے دردناک سزا تیار ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bashshiri almunafiqeena bianna lahum AAathaban aleeman

آیت 138 بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا یعنی واضح طور پر فرما دیا گیا کہ یہ لوگ منافق ہیں اور ان کو عذاب کی بشارت بھی دے دی گئی۔ یہ عذاب کی بشارت دینا طنزیہ انداز ہے۔یہاں پر قبول حق کے دعویداروں کو یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوتے ہیں ‘ اللہ کو اپنا رب مانتے ہیں ‘ ان کے لیے یہاں پھولوں کی سیج نہیں ہے ‘ اس لیے جو شخص اس گروہ میں شامل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ یکسو ہو کر آئے ‘ دل میں تحفظات reservations رکھ کر نہ آئے۔ یہاں تو قدم قدم پر آزمائشیں آئیں گی ‘ یہ اللہ کا اٹل فیصلہ ہے : وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط البقرۃ : 155۔ یہاں تو علی الاعلان بتایا جا رہا ہے : لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا ط آل عمران : 186۔ یہاں تو مال و جان کا نقصان اٹھانا پڑے گا ‘ ہر قسم کی تلح ونازیبا باتیں سننی پڑیں گی ‘ کڑوے گھونٹ بھی حلق سے اتارنے پڑیں گے ‘ قدم قدم پر خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا ؂در رہ منزل لیلیٰ کہ خطر ہاست بسے شرطِ اوّل قدم ایں است کہ مجنوں باشی !

اردو ترجمہ

کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں اُن کے پاس جاتے ہیں؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yattakhithoona alkafireena awliyaa min dooni almumineena ayabtaghoona AAindahumu alAAizzata fainna alAAizzata lillahi jameeAAan

آیت 139 الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط۔ ان منافقین کا وطیرہ یہ بھی تھا کہ وہ کفار کے ساتھ بھی دوستی رکھتے تھے اور اپنی عقل سے اس پالیسی پر عمل پیرا تھے کہ : Dont keep all your eggs in one basket۔ ان کا خیال تھا کہ آج اگر ہم سب تعلق ‘ دوستیاں چھوڑ کر ‘ یکسو ہو کر مسلمانوں کے ساتھ ہوگئے تو کل کا کیا پتا ؟ کیا معلوم کل حالات بدل جائیں ‘ حالات کا پلڑا کفار کی طرف جھک جائے۔ تو ایسے مشکل وقت میں پھر یہی لوگ کام آئیں گے ‘ اس لیے وہ ان سے دوستیاں رکھتے تھے۔اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَہُمُ الْعِزَّۃَ کیا وہ ان کے قرب سے عزت چاہتے ہیں ؟کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں ان کے پاس جاتے ہیں ؟ کیا ان کی محفلوں میں جگہ پا کر وہ معزز بننا چاہتے ہیں ؟ جیسے آج امریکہ جانا اور صدر امریکہ سے ملنا گویا بہت بڑا اعزاز ہے ‘ جسے پانے کے لیے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ چند منٹ کی ایسی ملاقات کے لیے کس کس انداز سے lobbying ہوتی ہے ‘ خواہ اس سے کچھ بھی حاصل نہ ہو اور ان کی پالیسیاں جوں کی توں چلتی رہیں۔ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا لیکن وہ اللہ کو چھوڑ کر کہاں عزت ڈھونڈ رہے ہیں ؟

اردو ترجمہ

اللہ اِس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ا ن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqad nazzala AAalaykum fee alkitabi an itha samiAAtum ayati Allahi yukfaru biha wayustahzao biha fala taqAAudoo maAAahum hatta yakhoodoo fee hadeethin ghayrihi innakum ithan mithluhum inna Allaha jamiAAu almunafiqeena waalkafireena fee jahannama jameeAAan

آیت 140 وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَاُ بِہَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ ز یہ سورة الانعام کی آیت 68 کا حوالہ ہے جس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ جب تمہارے سامنے کافر لوگ اللہ کی آیات کا استہزاء کر رہے ہوں ‘ قرآن کا مذاق اڑا رہے ہوں تو تم وہاں بیٹھو نہیں ‘ وہاں سے اٹھ جاؤ۔ یہ مکیّ آیت ہے۔ چونکہ اس وقت مسلمانوں میں اتنا زور نہیں تھا کہ کفار کو ایسی حرکتوں سے زبردستی منع کرسکتے اس لیے ان کو بتایا گیا کہ ایسی محفلوں میں تم لوگ مت بیٹھو۔ اگر کسی محفل میں ایسی کوئی بات ہوجائے تو احتجاجاً وہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ ایسی باتوں سے تمہاری غیرت ایمانی میں بھی کچھ کمی آجائے یا تمہاری ایمانیِ حس کند پڑجائے۔ ہاں جب وہ لوگ دوسری باتوں میں مشغول ہوجائیں تو پھر دوبارہ ان کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں۔ دراصل یہاں غیر مسلموں سے تعلق منقطع کرنا مقصود نہیں کیونکہ ان کو تبلیغ کرنے کے لیے ان کے پاس جانا بھی ضروری ہے۔ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ ط اگر اس حالت میں تم بھی ان کے ساتھ بیٹھے رہوگے تو پھر تم بھی ان جیسے ہوجاؤ گے۔

100