سورہ نمل: آیت 18 - حتى إذا أتوا على واد... - اردو

آیت 18 کی تفسیر, سورہ نمل

حَتَّىٰٓ إِذَآ أَتَوْا۟ عَلَىٰ وَادِ ٱلنَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّمْلُ ٱدْخُلُوا۟ مَسَٰكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَٰنُ وَجُنُودُهُۥ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

اردو ترجمہ

(ایک مرتبہ وہ ان کے ساتھ کوچ کر رہا تھا) یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا "“اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatta itha ataw AAala wadi alnnamli qalat namlatun ya ayyuha alnnamlu odkhuloo masakinakum la yahtimannakum sulaymanu wajunooduhu wahum la yashAAuroona

آیت 18 کی تفسیر

حتی ……عبادک الصلحین (91)

یہ لشکر جب نکلا ، جس میں انسان ، جن او طیور شامل تھے۔ نہایت تنظیم اور ترتیب کے ساتھ اس کا اول اس کے آخری حصہ سے مربوط تھا۔ اس کی صفیں منظم تھیں اور اس کی حرکت بھی منظم تھی۔ یہ لشکر ایک ایسی وادی میں پہنچا جہاں چیونٹیاں بڑی تعداد میں تھیں۔ اس کثرت سے کہ اس ودی کا نام ہی وادی نمل تھا۔ تو ایک ایسی چیونٹی نے جو ان کی سربراہ تھی ، چیونٹیوں سے کہا۔

ادخلوا مسکنکم (82 : 81) ” اپنے گھروں میں داخل ہو جائو۔ “ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ چیونٹیوں بھی شہد کی مکھیوں کی طرح بہت منظم ہوتی ہیں۔ ان کے اندر ڈیوٹیاں تقسیم ہوتی ہیں اور یہ ایک عجیب نظام کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہیں۔ ایسے نظام کے ساتھ کہ خود انسانوں کے لئے اس قدر منظم زندگی بسر کرنا مشکل ہے۔ ان کو بڑی ترقی یافتہ عقل اور بلند قوت مدر کہ دی گئی ہے تو اس چیونٹی نے اپنی زبان میں کہا۔

لا یحطمنکم سلیمن و جنودہ وھم لایشعرون (82 : 81) ” کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو “ ۔ حضرت سلیمان نے چیونٹی کی بات کو سمجھ لیا۔ ان کا دل بہت خوش ہوا کہ چیونٹی کیا احکام دے رہی ہے۔ انہوں نے اس پر تعجب کیا کہ ایک چیونٹی حضرت سلیمان کی شان کو جانتی ہے۔ خطرہ محسوس کرتی ہے ، جبکہ ان کے دل میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ان کو اذیت دیں جس طرح ایک چھوٹا بڑے کی اذیت سے ڈرتا ہے۔ حضرت سلیمان کو خوشی اس پر ہوئی کہ اس قدر چھوٹی مخلوق بھی ان کے بارے میں ادراک رکھتی ہے اور پھر تعجب بھی ہوا کہ ایک چیونٹی کی اطاعت اس کے ماتحت سمجھتے ہیں اور کرتے ہیں۔ ان کو اللہ کی مخلوقات اور عجائبات پر بڑا ، تعجب ہوا۔

جب حضرت سلیمان کو یہ سب باتیں معلوم ہوئیں تو

فتبسم ضاحکا من قولھا (82 : 91) ” سلمان اس کی بات پر مسکراتے ہئوے ہنس پڑا۔ “ لیکن اس مشاہدے نے ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کے دل کو رب تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیا۔ جس نے اسے یہ خارق عادت علم سے نوازا۔ یوں انسانوں اور دوسری مخلوقات کے درمیان راز کے جو پردے حائل تھے وہ ہٹا دیئے گئے۔ چناچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نہایت عاجزی کے ساتھ رب کی طرف متوجہ ہوئے۔

وقال رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی و علی

والدی (82 : 91) اور کہا اے میرے رب ، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اسا حسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے۔ “

اے رب یہ براہ راست ایک خدا رسیدہ شخص کی دعا ہے۔ اوزعنی یعنی مجھے جمع رکھ میرے شعور اور میرے اعضا جمع رکھ ، میرے دل اور میری زبان کو قابو میں رکھ۔ میرے خیالات اور خلجانات کو منضبط کر دے اور میرے کلمات اور میری عبادات کو مجتمع کر دے۔ میرے اعمال اور میری سرگرمیوں کو منضبط کر دے۔ میری تمام طاقتوں کو مجتع منضبط کر دے۔ میرے وجوہ کو اول سے آخر تک ایک کر دے۔ یہ سب مفہومات ” اوزعنی “ میں شامل ہیں۔ تاکہ میں پورے کا پورا مجسمہ شکر بن جائوں۔ ان انعامات کے عوض جو مجھ پر اور میرے والدین پر کئے گئے ۔

اس انداز تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قلب پر ان انعامات کا اثر تھا۔ ان پر جو اثر تھا اس کی نوعیت بھی اس سے ظاہر ہوتی ہے اور ان کا وجود اور ان کا وجدان اللہ کے فضل و کرم کی اس بارش سے سرشار تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان پر اور ان کے والدین پر اللہ کا دست شفقت ہر وقت نعمت ، رحمت اور فضل و کرم کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔

” اے میرے رب ، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا۔ “

وان اعمل صالحا ترضہ (82 : 91) ” اور میں ایسا عمل کرتا رہوں جو تجھے پسند آئے۔ “ عمل صالح بھی دراصل اللہ کا فضل وکرم ہوتا ہے اور یہ اس شخص پر ہوتا ہے۔ جو اللہ کا شکر گزار ہو اور سلیمان (علیہ السلام) ایسے شکر گزار ہیں کہ اس معاملے میں وہ اللہ کی استعانت طلب کرتے ہیں کہ شکر بھی اللہ کی امداد کے بغیر ممکن نہیں ہے اور توفیق عمل بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اس نکتے کا اچھا شعور تھا۔

وادخلنی برحمتک فی عبادک الصلحین (82 : 91) ” اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔ “ حضرت جانتے ہیں کہ اللہ کے بندوں میں داخل ہوجانا اور ان کے ساتھ ہو لینا بھی اللہ کی رحمت ہے۔ اس سے بھی انسان کی مدد ہوتی ہے۔ اور انسان کو اچھے کام کی توفیق ہوجاتی ہے۔ پھر وہ صالحین کے ساتھ چلتا ہے ، اللہ سے دعا کرتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں میں ہو جن پر تیرا رحم ہوتا ہے ، جو تیری راہ کے سالک ہیں اور اس گروہ میں ہیں۔ حضرت سلیمان اللہ کے سامنے عاجزی کرتے ہیں حالانکہ وہ نبی ہیں انس ، جن اور طیور ان کے لئے مسخر ہیں لیکن وہ پھر بھی اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کا محتاج تصور کرتے ہیں ، وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ان سے عمل صالح کی شکر نعمت میں کتواہی نہ ہوجائے۔ غرض تیز احساس ، ایسا ہی شعور ، اللہ کا خوف و خشیت ، اللہ کی رضا اور رحمت کی طلبگاری کے پختہ شعور کے لمحات ہی ہوتے جن میں اللہ کی نعمتیں اپنے خاص بندوں پر کھلی نازل ہوتی ہیں ، جس طرح حضرت سلیمان پر نازل ہوئیں۔

اب یہاں ہمارے سامنے ایک نہیں ، دو معجزات ہیں۔ ایک معجزہ یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو علم ہوگیا ہے اور دوسرا یہ کہ چیونٹی کو یہ علم ہوگیا ہے کہ یہ لشکر سلیمان (علیہ السلام) کا ہے۔ پہلا معجزہ تو یوں ہے کہ حضرت سلیمان کو اللہ نے تعلیم دی۔ وہ نبی تھے ، انسان تھے اور انسان کے بارے میں ایک انسان سہولت سمجھ سکتا ہے کہ اسے چیونٹی کے احکامات کا علم ہوگیا۔ لیکن دوسرا معجزہ جو چیونٹی کے قول میں ہے تو اس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ چیونٹیوں کو معلوم ہوگیا کہ انسان ایک بڑی مخلوق ہے اور یہ ان کو روند ڈالیں گے۔ ہر زندہ مخلوق کے اندر زندہ بچانے کا داعیہ ہوتا ہے۔ اسی طرح چیونٹیوں میں بھی یہ شعور ہوگا۔ رہی یہ بات کہ ایک چیونٹی کو یہ علم کیسے ہوگیا کہ بڑی مخلوق کا یہ لائو و لشکر سلیمان (علیہ السلام) کا ہے۔ یہ بہرحال ایک معجزہ ہے اور اسے معجزہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ نے اسے معجزانہ طور پر یہ بات سکھا دی تھی۔

اب آیئے سلیمان (علیہ السلام) اور ہد ہد کے واقعہ اور ملکہ سبا کے ساتھ معاملات کی طرف۔ اس قصے میں چھ اہم مناظر ہیں۔ ان مناظر کے درمیان خلا ہے۔ غیر ضروری واقعات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ درمیانی واقعات و مناظر دیکھنے کے بعد خود ذہن میں آجاتے ہیں۔ اس طرح قصے بیان کرنے میں ایک اعلیٰ فنی مظاہرہ ہوتا ہے اور ان مناظر کے درمیان بعض سبق آموز تبصرے بھی ہوتے ہیں جن میں انسانی شعور کو اس مقصد اور ہدف کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے۔ جس کے لئے یہ قصہ لایا گیا ہے۔ اس طرح قصہ لانے کا حقیقی مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ یوں قصے کا فنی اسلوب اظہار کی خوبصورتی اور اخلاقی سبق اور دینی تعلیم دونوں مقاصد پورے ہوجاتے ہیں۔

سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں بات شروع کرتے وقت ہی انس ، جن اور طیور کا ذکر ہوگیا تھا۔ جس میں سلیمان (علیہ السلام) پر اللہ کی نعمتوں میں سے نعمت علم کا اشارہ بھی تھا۔ لہٰذا اس قصے میں انسانوں ، جنوں اور طیور کا اہم رول ہر جگہ موجود ہے اور ان کے سب کردار کا تعلق پھر علم کے ساتھ ہے اور اس سورت کے مقدمہ میں بھی ان اہم کرداروں کی طرف اشارہ تھا اور یہ قرآنی قصوں کی اہم خصوصیت ہے۔

پھر اس قصے میں جو کردار ہیں ان کی شخصیت ان کی ممتاز صفات اور خصوصیات بھی قصے میں موجود ہیں۔ حضرت سلیمان کی شخصیت ، ملکہ سبا کی شخصیت ، ہد ہد کی شخصیت ، ملکہ سبا کی حاشیہ نشینوں کی شخصیات اور ان شخصیات اور کرداروں کی نفسیات ، سوچ اور میلانات سب کے سب قصے میں موجود ہیں۔

……

پہلا منظر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی لشکر کشی کا ہے یا یہ سامان حرب کی سالانہ پریڈ ہے۔ یہ لشکر نکلتا ہے جس میں جن ، انس اور طیور ہیں اور یہ وادی نملہ سے گزرتا ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) چیونٹی کی گفتگو سنتے ہیں اور اللہ کی طرف متوجہ ہو کر شکر بجا لاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللھم زدفزد

آیت 18 حَتّٰٓی اِذَآ اَتَوْا عَلٰی وَاد النَّمْلِلا ”حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے لشکروں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ایک ایسے علاقے سے گزرے جہاں چیونٹیاں کثرت سے پائی جاتی تھیں۔لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗلا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ”انہیں احساس بھی نہیں ہوگا کہ ان کے قدموں اور گھوڑوں کے سموں تلے کتنی ننھی جانیں مسلی جا رہی ہیں۔

آیت 18 - سورہ نمل: (حتى إذا أتوا على واد النمل قالت نملة يا أيها النمل ادخلوا مساكنكم لا يحطمنكم سليمان وجنوده وهم لا يشعرون...) - اردو