سورہ نمل (27): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Naml کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النمل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نمل کے بارے میں معلومات

Surah An-Naml
سُورَةُ النَّمۡلِ
صفحہ 378 (آیات 14 سے 22 تک)

وَجَحَدُوا۟ بِهَا وَٱسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُفْسِدِينَ وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا دَاوُۥدَ وَسُلَيْمَٰنَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَوَرِثَ سُلَيْمَٰنُ دَاوُۥدَ ۖ وَقَالَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ ٱلطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَىْءٍ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْمُبِينُ وَحُشِرَ لِسُلَيْمَٰنَ جُنُودُهُۥ مِنَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِ وَٱلطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَتَوْا۟ عَلَىٰ وَادِ ٱلنَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّمْلُ ٱدْخُلُوا۟ مَسَٰكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَٰنُ وَجُنُودُهُۥ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِىٓ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ ٱلَّتِىٓ أَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلَىٰ وَٰلِدَىَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَٰلِحًا تَرْضَىٰهُ وَأَدْخِلْنِى بِرَحْمَتِكَ فِى عِبَادِكَ ٱلصَّٰلِحِينَ وَتَفَقَّدَ ٱلطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِىَ لَآ أَرَى ٱلْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ ٱلْغَآئِبِينَ لَأُعَذِّبَنَّهُۥ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَا۟ذْبَحَنَّهُۥٓ أَوْ لَيَأْتِيَنِّى بِسُلْطَٰنٍ مُّبِينٍ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِۦ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍۭ بِنَبَإٍ يَقِينٍ
378

سورہ نمل کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نمل کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajahadoo biha waistayqanatha anfusuhum thulman waAAuluwwan faonthur kayfa kana AAaqibatu almufsideena

اردو ترجمہ

(دوسری طرف) ہم نے داؤدؑ و سلیمانؑ کو علم عطا کیا اور انہوں نے کہا کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad atayna dawooda wasulaymana AAilman waqala alhamdu lillahi allathee faddalana AAala katheerin min AAibadihi almumineena

درس نمبر 271 ایک نظر میں

” یہاں حضرت دائود کی طرف صرف ایک اشارہ ہے لیکن پورا قصہ صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ہے اور اس سے قبل حضرت مسویٰ (علیہ السلام) کے قصے کی ایک مختصر کڑی دی گئی ہے۔ یہ سب حضرات انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے اور اس سورت کے آغاز ہی میں قرآن کریم پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا۔

ان ھذا ……یختلفون (82 : 68) اس سورت میں حضرت سلیمان علیہالسلام کے قصے کی سب سورتوں کے مقابلے میں زیادہ تفصیلات دی گئی ہیں ، یعنی جہاں جہاں حضرت سلیمان کا تذکرہ ہوا ہے۔ اگرچہ یہاں ان کے حالات زندگی میں سے قصہ ہد ہد اور ملکہ سبا کی تفصیلات ہیں۔ اس کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علہی السلام یہ اعلان فرماتے ہیں کہ اللہ نے ان کو خصوصی طور پر پرندوں کی باتیں سکھانی ہیں اور ہر چیز عطا کی ہے اور اللہ نے ان پر جو فضل و کرم کیا ہے وہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک منظر آتا ہے جس میں حضرت سلیمان اپنے لائو لشکر سمیت چلتے نظر آتے ہیں۔ اس عظیم لشکر میں جن ، انس اور پرندے سب شامل ہیں۔ جب یہ لشکر چلتا ہے تو ایک چھوٹی سی چیونٹی اپنی قوم کو خبردار کرتی ہے کہ ایک عظیم لشکر جرار اس علاقے کا رخ کر رہا ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو بچائو۔ حضرت سلیمان یہ الفاظ سنتے ہیں اور اس پر بھی رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس بات کو پاتے ہیں کہ نعمت تو باتلا ہے ۔ اس لئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تو اس ابتلا میں مجھے شکر اور کامیابی کی توفیق عطا فرما۔

یہ قصہ اس سورت میں کیوں لایا گیا ہے۔ سورت کے آغاز میں بیان کردیا گیا ہے کہ یہ کتاب ہدایت ہے اور پھر اسی سورت میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم بنی اسرائیل کے سامنے ان بیشتر موضوعات پر کلام رتا ہے جن کے بارے میں ان کے اندر اختلاف رائے ہے جیسا کہ اس سے قبل ہم کہہ آئے ہیں اور حضرت موسیٰ ، حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہم السلام) کے قصص تاریخ بنی اسرائیل کی اہم کڑیاں ہیں۔

یہاں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قصے کی جو کڑی پیش کی گئی ہے اس کی اس سورت کے مضمون سے مناسبت کیا ہے۔ یہ کڑی کئی پہلوئوں کے اعتبار سے مناسبت رکھتی ہے۔

اس سورت کا مرکزی مضمون علم ہے جیسا کہ ہم نے اس سورت پر تبصرے میں کہا ہے۔ اور حضرت دائود و سلیمان کے قصے میں سب سے پہلا اشارہ ہی اسطرف ہے۔

” یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے ان بیشتر باتوں کی تفصیلات بیان کرتا ہے جس میں وہ مختلف الرائے ہیں۔ “

وقد اتینا دائود و سلیمان علماً (82 : 51) ” ہم نے دائود اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ “ اور پھر سلیمان (علیہ السلام) نے اس کڑی میں منطق الطیر کے علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ کی نعمت کا اعتراف کیا ہے۔

وقال یایھا الناس علمنا منطق اطیر (82 : 61) ” لوگو ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں ۔ “ اور اس قصے کے درمیان ہد ہد اپنی غیر حاضری کا عذر بیان کرتے ہوئے یہ کہتا ہے۔

احطت بمالم تحظ ……یقین (82 : 22) ” میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو تیرے علم میں نہیں ہیں۔ میں سبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں۔ “ اور پھر اس قصے میں ہے کہ جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا ، اس نے کہا کہ میں ملکہ سبا کا تخت پلک جھپکتے لاتا ہوں۔

سورت کے افتتاح میں تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے ایک کتاب مبین ہے اور اس کو مشرکین مکہ کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے۔ لیکن وہ اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ پھر اس میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ایک خط کا ذکر ہے جو ملکہ سبا کے نام لکھا گیا۔ لیکن وہ جبم علوم کرلیتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سچائی کی دعوت دیتے ہیں تو وہ اور اس کی قوم اسے جلد ہی قبول کر کے مطیع فرمان ہوجاتے ہیں۔ خصوصاً جبکہ وہ دیکھتے ہیں کہ جان و انس اور پرندوں کی قوتیں بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کر دیگئی ہیں اور یہ اللہ ہی ہے جس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہ قوتیں عطا کی ہیں۔ وہی ہے اقتدار اعلیٰ کا مالک ۔

پھر اس سورت میں انسانوں پر اللہ کے انعامات کا بھی ذکر ہے۔ اس کائنات میں اس کے جو نشانات ہیں ان کا بھی ذکر ہے۔ لیکن لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ پھر بھی اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور شکر نعمت بجا نہیں لاتے۔ اس قصے میں بھی ایک بندہ شکر گزار کا ذکر ہے ، جو اللہ کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں کہ اے اللہ مجھے یہ توفیق دے کہ میں تیری انعامات کا شکر بجا لائوں۔ جو اللہ کی آیات پر غور کرتے ہیں اور ان سے کسی وقت بھی غافل نہیں ہوتے اور نہ وہ اللہ کے انعامات کی وجہ سے سرکشی اختیار کرتے ہیں۔ نہ قوت کی وجہ سے وہ گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس قصے کی مضمون سورت کے ساتھ کئی ربط اور مناسبتیں ہیں اور سورت کے موضوع اور قصے کے اندر جا بجا واضح اشارات موجود ہیں۔

حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کی کہانی کو جس طرح قرآن مجید نے بیان کیا ہے وہ اس بات کا نمونہ ہے کہ قرآن مجید قصص کو کس طرح لاتا ہے اور اس کا قصص کا فنی انداز بیان کیسا ہوتا ہے۔ اس قصے میں تگ و دو ، جذبات و تاثرات ، مختلف مناظر اور مشاہد پائے جاتے ہیں۔ پھر مختلف مناظر کے درمیان گیپ جن میں غیر ضروری حصوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ اور اس کے دوسرے فنی کمالات ہیں۔

اب ذرا آیات کی تفصیلات

درس نمبر 271 تشریح آیات

51……تا……44

ولقد اتینا دائود ……المومنین (51)

”(یہ اشارہ ہے کہ اب قصے کا آغاز ہونے والا ہے اور یہ افتتاحی کلمات ہیں۔ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس قصے کے بڑے کرداروں کو ہم نے بڑے بڑے انعامات سے نوازا تھا اور سب سے بڑا اعزاز تو علم ہوتا ہے جو حضرت دائود اور سلیمان (علیہم السلام) کو دیا گیا ۔ حضرت دائود کو جو علوم دیئے گئے تھے قرآن کریم کی دوسری سورتوں میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ یہ کہ زبور کی آیات کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا فن ان کو دیا گیا تھا ، وہ اس فن میں اس قدر ماہر تھے کہ جب وہ زبور کی آیات پڑھتے تھے تو یہ پوری کائنات انکے ساتھ گنگناتی تھی۔ پہاڑ کی گونج اور پرندوں کی چہچہاہٹ ان کے ساتھ زبور کو گاتے کیونکہ آپ کی آواز بےحد میٹھی تھی۔ وہ سوز دل سے پڑھتے تھے اور اپنے رب کے ساتھ مناجات میں وہ غرق ہوجاتے تھے۔ پھر ان کو اللہ نے جنگی ساز و سامان کی بنیادی ٹیکنالوجی دی تھی۔ وہ اچھی زر ہیں بناتے تھے ، دھاتوں کو پھگلانے میں مہارت رکھتے تھے اور ان سے ہر قسم کی چیزیں بناتے تھے اور وہ ایک بہترین جج تھے اور اس کام میں حضرت سلیمان ان کے مشیر خاص تھے۔

رہے سلیمان (علیہ السلام) تو اس سورت میں وہ پوری تفصیلات دی گئی ہیں جو اللہ نے انکو سکھائیں یعنی پرندوں کی بولیاں اور جس طرح دوسری سورتوں میں ذکر ہے کہ وہ ایک بہترین جج تھے اور ان کے لئے ہوائوں کو بھی مسخر کردیا گیا تھا اور اس قصے کا آغاز بھی اسی اشاریے سے ہوتا ہے۔

ولقد اتینا دائودو سلیمان علماً (82 : 51) ” یہ واقعہ ہے کہ ہم نے دائود اور سلیمان کو علم دیا تھا۔ “ لیکن آیت ختم ہونے سے پ ہے حضرت سلیمان اور حضرت دائود (علیہم السلام) کی جان سے یہ بات آجاتی ہے کہ وہ رب تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں اور علم کی نعمت کی ان کے ہاں بڑی قدر و قیمت ہے۔ وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ نے اس معاملے میں ان کو اپنے مومن بندوں کی ایک بڑی تعداد کے مقابلے میں ترجیح دی ہے۔ یوں وہ علم کی قدر و قیمت اور پھر اس عظیم احسان کا اعتراف کرتے ہیں۔

یہاں اس علم کی نوعیت اور تفصیلات نہیں دی گئیں کیونکہ اللہ کے ہاں مطلق علم ایک فضل الٰہی ہے۔ عام علم کو اللہ کی نعمت بتانا مقصود ہے۔ ہر قسم کا اور ہر نوع علم مطلوب مومن ہے۔ پھر ہر عالم کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے اس فضل کا شکر ادا کرے۔ اور اللہ کا شکر اور اس کی حمد بیان کرتا رہے اور یہ دعا کرتا رہے کہ اے اللہ یہ علم میرے لئے نافع ہو۔ یہ نہ ہو کہ علم انسان کو اللہ سے دور کر دے ، اللہ کو بھلانے کا سبب بنے حالانکہ علم دینے الا اللہ ہے۔

وہ علم جو قلب انسانی کو اللہ سے دور کرے ، وہ فاسد علم ہے۔ وہ اپنے مقصد اور اپنے ہدف سے دور اور ایک طرف ہوگیا ہوتا ہے۔ ایسا علم صاحب علم کے لئے فلاح و نجات اور سعادت مندی کا باعث نہیں ہوتا اور نہ ایسا علم انسانوں کے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ ایسا علم انسانوں کے لئے مصیبت ، بدبختی ، خوف ، قلق ، بےچینی اور بالاخر ہلاکت کا سبب بنتا ہے ۔ کیونکہ یہ علم اپنے مصدر و منبع سے کٹ گیا ہے ، اس کی سمت غلط ہے اور اس نے اللہ تک پہنچنے کی راہ گم کردی ہے۔

اس وقت انسانیت علم کے ایک اعلیٰ مرتبے تک پہنچ چکی ہے۔ خصوصاً ایٹم کے توڑنے کے بعد۔ اور پھر اسے مختلف مفید کاموں میں استعمال کرنے کے بعد۔ لیکن جن لوگوں کے ہاتھ یہ ایٹمی علم آیا اور جن کے دلوں میں خدا کا خوف نہ تھا۔ ان کے ہاتھوں انسانیت نے کس قدر کڑوا پھل چنا اور کھایا۔ یہ اس لئے کہ ان لوگوں کے دل میں خدا کا خوف خدا کی تعریف اور خدا کی طرف توجہ نہ تھی۔ چناچہ اس علم نے اور ایسے علماء نے ہیرو شیما کا رنامہ سر انجام دیا۔ ناگاسا کی کی تباہی مچائی اور ان واقعات کے بعد اب شرق و غرب کے تمام انسان رات دن اس کرہ ارض اور تمام انسانیت کی تباہی کا انتظار کر رہے ہیں۔

اس تمہید کے بعد کہ حضرت دائود سلیمان دونوں کو ہم نے علم سے نوازا اور انہوں نے اللہ کو حمد اور تعریف کی کہ اللہ نے ان پر احسان کیا اور علم کی قدر و قیمت کو محسوس کیا۔ اب صرف حضرت سلیان (علیہ السلام) کی زندگی کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا اور اس نے کہا "“لوگو، ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں، بیشک یہ (اللہ کا) نمایاں فضل ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wawaritha sulaymanu dawooda waqala ya ayyuha alnnasu AAullimna mantiqa alttayri waooteena min kulli shayin inna hatha lahuwa alfadlu almubeenu

وورث ……المبین (61)

حضرت دائود کو نبوت اور علم کے ساتھ ساتھ حکومت بھی دی گئی تھی لیکن ان دونوں پر اللہ کے فضل و کرم کے بیان میں ان کے اقتدار کا ذکر نہیں کیا گیا۔ صرف علم و حکمت کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ علم و حکمت کے مقابلے میں اقتدار ایک حقیر چیز ہے۔

وورث سلیمان دائود (82 : 61) ” او سلیمان نے دائود کی وراثت پانی۔ “ یہاں وراثت سے مراد بھی علم کی وراثت ہے کیونکہ علم و حکمت ہی اس قابل ہے کہ اس میں کوئی پیغمبر دوسرے کا وارث بنے اور اس بات کی تاکید اس سے بیھہوتی ہے کہ حضرت سلیمان لوگوں میں یہ اعلان کرتے ہیں۔

وقال یایھا الناس ……من کل شیء (82 : 61) ” اے لوگو ، ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں۔ “ تو علم کا ذکر کردیا گیا اور باقی نعمتوں کا ذکر اس کے ضمن میں کردیا گیا۔ گویا دائود نے یہ چیزیں نہیں دی ہیں بلکہ دینے والا اللہ ہے جہاں سے علم آیا۔

وقال ……کل شیء (82 : 61) ” لوگو ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں۔ “ ان باتوں کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) لوگوں میں اعلان کرتے ہیں۔ یہ اعلان وہ بطور تحدیث نعمت کرتے ہیں اور اللہ کے ہاں اپنے مقام فضیلت کے لئے کرتے ہیں ، بطور فخر و مباہات نہیں کرتے۔ یہ کہ آپ لوگوں پر رعب جماتے تھے اور ایسی باتوں کا ذکر کرتے تھے جو ان میں نہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ذکرہوا۔

ان ھذا لھو الفضل المبین (82 : 61) ” بیشک یہ اللہ کا نمایاں فضل ہے۔ “ یعنی اللہ کا فضل ہے اپنے بندے پر کیونکہ پرندوں کی بولیوں کی تعلیم پر صرف اللہ ہی قادر ہے اور اس طرح حضرت دائود سلیمان کو علی العلوم تمام انعامات دیئے گئے تھے۔ یہ بھی اللہ ہی دے سکتا ہے۔

پرندوں ، حیوانات اور حشرارت الارض کو اللہ نے ایک دور سے کو سمجھانے کے لئے وسائل دیئے تھے اور یہ ان کی زبان اور منطق ہے ۔ اللہ ان تمام جہانوں کے خالق ہیں۔ فرماتے ہیں۔

وما من دآبۃ فی الارض ولا طئر یطریر بجناحیہ الا امم امثالکم (الانعام : 83) ” زمین پر چلنے الے جتنے جانور ہیں اور اڑنے والے پرندے جو اپنے دوپروں کے ساتھ اڑتے ہیں وہ تمہیں طرح امتیں ہیں۔ “ یہ چزیں امت تب ہو سکتی ہیں جب ان کے درمیان اجتماعی روابط ہوں۔ جن کے مطابق وہ رہتے ہوں اور ایسے وسائل اور ذرائع ہوں ، جن کے ذریعے وہ ایک دور سے کو سمجھتے ہیں۔ بیشمار حشرات حیوانات اور پرندوں کے اندر یہ چیزیں نظر آتی ہے۔ حشرارت الارض کی اقسام کے ماہرین نے اپنے اندازوں اور مشاہدوں کے ذریعے ان انواع کے ذرائع تفاہم کی بعض علامات دریافت بھی کی ہیں جو اگر چہ ظنی ہیں۔ رہا وہ علم جو حضرت سیمان (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا وہ ان کے ساتھ خاص تھا اور وہ معجزانہ انداز میں ان کو دیا گیا تھا وہ عام انسانوں کا عام مشاہدہ نہ تھا۔ نہ وہ ایسا علم تھا جس طرح ہمارے دور میں مشاہدہ اور تتبع سے بعض لوگوں نے بعض انواع کے بارے میں معلوم کی ہیں۔ یہ انسانی علوم ظن وتخمین ہیں۔ ان کی نوعیت اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علم کی نوعیت مختلف ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ بطور تاکید مزید اس بات کی وضاحت کر دوں کیونکہ بعض جدید مفسرین کو سائنس کی علمی کامیابیوں نے اس قدر متاثر کردیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر جدید علمی انکشافات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ان مفسرین نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علم منطق الطیر کی ایسی ہی تشریح کی ہے کہ یہ ایسا ہی علم تھا جیسا کہ دور جدید کے بعض ماہرین نے حشرارت الارض اور حیوانات کی بعض انواع و اجناس کے بارے میں معلوم کیا ہے۔ ایسی کوششیں دراصل قرآنی معجزات کو اپنی حقیقی ماہیت سے نکال دیتی ہیں۔ یہ دراصل ایک شکست خوردہ انداز فکر ہے اور جدید سائنس کے سامنے غیر ضروری طور پر بچھ جاتا ہے۔ حالانکہ سائنس کی انکشافات بہت ہی حقیر و قلیل ہیں جبکہ اللہ کے لئے یہ بات کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو حیوانات ، حشرارت اور طیور و حوش کے وہ تمام طریقہ اظہار اور مکالمہ سمجھا دے اور معجزانہ انداز میں سمجھا دے۔ بغیر سائنس ریسرچ اور جہد کے اللہ کے لئے یہ اس طرح آسان ہے کہ اس نے انسانوں اور حیوانوں کے درمیان جو پردہ حائل کردیا ہے بس صرف اسے ہٹانا ہے وہ تو تمام انواع کا خالق ہے۔

پھر یہ بات اس عظیم معجزے کا ایک پہلو تھا جو سلیمان (علیہ السلام) کا دیا گیا تھا۔ اس کے دوسرا مصدر یہ تھا کہ حضرت کے لئے جنوں اور پرندوں کی ایک بڑی تعداد کو مسخر کردیا گیا تھا تاکہ وہ آپ کی حکومت کے ماتحت ہوں اور آپ کے لئے پوری طرح مطیع فرمان ہوں ، جس طرح انسانوں کی جو افواج آپ نے بھرتی کر رکھی تھیں اور پرندوں میں سے جو گروہ آپ کے زیر نگیں کردیا گیا تھا اسے اللہ نے ایک خاص قوت مدد کہ دی تھی اور وہ قوت ان جیسے عام پرندوں میں نہ تھی۔

یہ بات ہد ہد کے قصے سے معلوم ہوتی ہے جس نے ملکہ سبا کی مملکت کے حالات معلوم کئے اور اس نے ان کے حالات کو اس طرح سمجھا جس طرح کہ اعلیٰ درجے کا عقلمند اور متقی شخص سمجھ سکتا ہے اور یہ بھی اس معجزے کا ایک حصہ تھا جو حضرت سلیمان کو دیا گیا تھا۔

اللہ کی یہ سنت ہے کہ اللہ کی مخلوق میں جو حیوانات پائے جاتے ہیں ان کے درمیان عقلمندی کی سطح اونچی اور نیچی تو ہو سکتی ہے لیکن کسی حیوان کو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا ہے کہ اس کی قوت مدر کہ انسان سے بڑھ جائے یا اس کے برابر ہوجائے۔ یہ حیوانات اور طیور کی خلقت میں سنت الہیہ نہیں ہے۔ اور نہ یہ سنت اس پوری کائنات کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور سنت الہیہ کے تابع ہے۔ یہ سنت اول روز سے ایسی ہی چل رہی ہے۔

آج ہمارے ہاں جو ہد ہد پایا جاتا ہے ، ہزار باملین سال پہلے بھی ہد ہد اسی نہج پر پیدا ہو رہا تھا۔ جب سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ کیونکہ اللہ نے ہر حیوان کی اندر ایسے جینز پیدا کئے ہیں کہ آج کا ہد ہد ہزار ہا ملین سال پہلے پیدا کئے جانے والے ہد ہد کی پوری کاپی ہے۔ اس کے اندر جو اور جس قدر تبدیلی بھی ہو وہ اپنی نوعیت کے دائرے سے نہیں نکل سکتا۔ یہ بھی سنت الہیہ کا ایک پہلو ہے اور اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

لیکن ان دونوں حقائق کے باوجود یہ نوامیس فطرت اور یہ سنت الہیہ اس بات سے مانع نہیں ہیں کہ اللہ اپنی قدرت کے اصولوں کے اندر استنائی صورت پیدا کر دے۔ بعض اوقات یہ استثنائی حالت بھی دراصل ناموس عام اور سنت جاریہ ہی کا ایک حصہ ہوتی ہے لیکن ہم اس مخصوص پہلو سے خبردار نہیں ہوتے۔ اس جزئی ناموس اور استثنائی حالت کا علم دراصل صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بظاہر چلتے ہوئے اصول کو روک دیتا ہے۔ اس طرح سنت الہیہ میں بظاہر جو تبدیلی ہوتی ہے وہ بھی ایک برتر سنت ہوتی ہے۔ یہی تھی کہ کہانی ہد ہد اور سلیمان کی اور اللہ نے ان قوتوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیا تھا۔

اب ہم اس نکتے سے سلیمان (علیہ السلام) کے قصے کی طرف آتے ہیں کہ حضرت دائود کی وراثت پا کر انہوں نے اللہ کی طرف سے کیا کیا انعامات پائے۔

اردو ترجمہ

سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahushira lisulaymana junooduhu mina aljinni waalinsi waalttayri fahum yoozaAAoona

وحشر ……یوزعون (71)

یہ تھا حضرت سلیمان کا لشکر۔ بہت بڑی تعداد میں ہر طرف سے اٹھایا ہوا۔ جن انس اور پرندوں پر مشتمل۔ انسان تو معلوم ہیں ، جن وہ مخلوق ہے جس کے بارے میں خود قرآن نے معلومات دی ہیں اور ان کی حقیقت کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ وہ آگ کے شعلے سے پیدا شدہ ہیں۔ یعنی ایسے شعلے جو موجوں کی شکل میں اٹھتے ہیں۔ بشر ان کو نہیں دیکھ سکتے مگر وہ بشر کو دیکھ سکتے ہیں۔

انہ یراکم و قبیلہ من حیث لاترونھم ” وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں دیکھتا ہے مگر تم اسے نہیں دیکھتے۔ “ یہ آیت اگرچہ ابلیس کے بارے میں ہے لیکن وہ جنوں میں سے تھا۔ پھر ان جنوں کے اندر یہ قوت ہے کہ یہ انسانوں کے دلوں میں برائی کے وسوسے ڈالتے ہیں اور پھر یہ انسانوں کو اللہ کی معصیت پر آمادہ کرتے ہیں ۔ لیکن اس کی تفصیلی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے اور جنوں کا ایک طائفہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان بھی لایا تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں نہیں دیکھا۔ نہ آپ نے ان کے ایمان کو سنایا دیکھا۔ البتہ اللہ نے اس بات کی اطلاع حضرت نبی ﷺ کو دی ۔

قل اوحی ……احداً (2) (28 : 1-2) ” اے پیغمبر کہہ دے ، میری طرف یہ وحی کی گئی ہے۔ ایک گروہ جس نے کان لگا کر سنا اور پھر کہا ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے ، جو راہنمائی کرتا ہے عقلمندی کی راہ کی طرف تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے والے نہیں ہیں۔ “ ہمیں اس کا علم ہے کہ جنوں کا ایک گروہ بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زیرنگیں تھا۔ جو آپ کے لئے محرابی عمارات ، تصویریں اور بڑے بڑے حوضوں جیسے کھانے کے لگن بناتا تھا اور یہ جن آپ کے لئے سمندر میں غوطے بھی لگاتے تھے اور آپ کے دوسرے احکام بجالاتے تھے اور یہ سب آپ کے لشکر میں انسانوں اور پرندوں کے ساتھ موجود تھے۔

اور یہ جو ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنوں اور انسانوں کا ایک گروہ مسخر کردیا تھا تو اس لئے کہ تمام روئے زمین کے جن و انس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر میں شامل نہ تھے کیونکہ حضرت سیمان کی حکومت کی حدود فلسطین ، شام ، عراق تک محدود تھیں۔ اسی طرح تمام جن اور تمام پرندے بھی آپ کے لئے مسخر نہ تھے۔ ان میں سے ایک گروہ آپ کے لئے مسخر کردیا گیا تھا۔

جن سب کے سب مسخر نہ تھے۔ اس لئے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا ، اس کی ذریت بھی جن تھی جس طرح قرآن مجید میں ہے۔

کان من الجن اور سورت الناس میں ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور حضرت سلیمان کے زمانے میں بھی شیطان جنات لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے تھے ، لوگوں کو گمراہ کرتے تھے اور تمام شر کے کاموں پر آمادہ کرتے تھے۔ لہٰذا تمام جن حضرت سلیمان کے لئے مسخر نہ تھے ورنہ ان کی تسخیر میں ہوتے ہوئے وہ کس طرح فسادی کام کرتے۔ کیونکہ حضرت سلیمان ایک نبی تھے اور لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتے تھے لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ جنات کا ایک گروہ ان کے تابع تھا۔

پرندوں کے سلسلے میں بھی یہی استدلال ہے کہ جب پرندہ حاضر نہ پایا گیا ، تو معلوم ہوا کہ تمام پرندے مسخر نہ تھے ورنہ ہزار ہا پرندوں میں سے ایک کا ہونا نہ ہونا محسوس نہ ہونا۔ جب ہد ہد نہ پایا گیا تو آپ نے فرمایا۔

مالی لا اری الھدھد (82 : 2) ” یہ ہد ہد کہاں گیا میں اسے نہیں دیکھ رہا ہوں۔ “ معلوم ہوا کہ یہ ایک مخصوص ہد ہد تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ہی ہد ہد ہو۔ یا یہ کہ جو ہد ہد ڈیوٹی پر تھا وہ موجود نہ تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس ہد ہد یا مسخر ہدہدوں کو اللہ نے ادراک کی ذرا زیادہ قوت دے رکھی تھی جو اور ہدہدوں میں نہ تھی۔ اور یہ قوت مدر کہ صرف ان کے پرندوں کے لئے تھی جو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کئے گئے تھے۔ کیونکہ ان آیات سے ہد ہد کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ذہین اور نیک پرندہ تھا۔

غرض حضرت سلیمان کے لئے جن و انس اور وحوش و طیور کی ایک عظیم فوج اٹھائی گئی تھی۔ یہ ایک عظیم فوج تھی اور یہ سب کے سب بےحد منظم تھے۔ یہ غیر منظم بھیڑ کی شکل میں نہ تھی۔ اس لئے ان کو افواج کہا گیا ہے اور جنود کے لفظ سے دونوں مفہوم ظاہر ہوتے ہیں یعنی کثرت تعداد اور تنظیم ۔

اردو ترجمہ

(ایک مرتبہ وہ ان کے ساتھ کوچ کر رہا تھا) یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا "“اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatta itha ataw AAala wadi alnnamli qalat namlatun ya ayyuha alnnamlu odkhuloo masakinakum la yahtimannakum sulaymanu wajunooduhu wahum la yashAAuroona

حتی ……عبادک الصلحین (91)

یہ لشکر جب نکلا ، جس میں انسان ، جن او طیور شامل تھے۔ نہایت تنظیم اور ترتیب کے ساتھ اس کا اول اس کے آخری حصہ سے مربوط تھا۔ اس کی صفیں منظم تھیں اور اس کی حرکت بھی منظم تھی۔ یہ لشکر ایک ایسی وادی میں پہنچا جہاں چیونٹیاں بڑی تعداد میں تھیں۔ اس کثرت سے کہ اس ودی کا نام ہی وادی نمل تھا۔ تو ایک ایسی چیونٹی نے جو ان کی سربراہ تھی ، چیونٹیوں سے کہا۔

ادخلوا مسکنکم (82 : 81) ” اپنے گھروں میں داخل ہو جائو۔ “ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ چیونٹیوں بھی شہد کی مکھیوں کی طرح بہت منظم ہوتی ہیں۔ ان کے اندر ڈیوٹیاں تقسیم ہوتی ہیں اور یہ ایک عجیب نظام کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہیں۔ ایسے نظام کے ساتھ کہ خود انسانوں کے لئے اس قدر منظم زندگی بسر کرنا مشکل ہے۔ ان کو بڑی ترقی یافتہ عقل اور بلند قوت مدر کہ دی گئی ہے تو اس چیونٹی نے اپنی زبان میں کہا۔

لا یحطمنکم سلیمن و جنودہ وھم لایشعرون (82 : 81) ” کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو “ ۔ حضرت سلیمان نے چیونٹی کی بات کو سمجھ لیا۔ ان کا دل بہت خوش ہوا کہ چیونٹی کیا احکام دے رہی ہے۔ انہوں نے اس پر تعجب کیا کہ ایک چیونٹی حضرت سلیمان کی شان کو جانتی ہے۔ خطرہ محسوس کرتی ہے ، جبکہ ان کے دل میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ان کو اذیت دیں جس طرح ایک چھوٹا بڑے کی اذیت سے ڈرتا ہے۔ حضرت سلیمان کو خوشی اس پر ہوئی کہ اس قدر چھوٹی مخلوق بھی ان کے بارے میں ادراک رکھتی ہے اور پھر تعجب بھی ہوا کہ ایک چیونٹی کی اطاعت اس کے ماتحت سمجھتے ہیں اور کرتے ہیں۔ ان کو اللہ کی مخلوقات اور عجائبات پر بڑا ، تعجب ہوا۔

جب حضرت سلیمان کو یہ سب باتیں معلوم ہوئیں تو

فتبسم ضاحکا من قولھا (82 : 91) ” سلمان اس کی بات پر مسکراتے ہئوے ہنس پڑا۔ “ لیکن اس مشاہدے نے ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کے دل کو رب تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیا۔ جس نے اسے یہ خارق عادت علم سے نوازا۔ یوں انسانوں اور دوسری مخلوقات کے درمیان راز کے جو پردے حائل تھے وہ ہٹا دیئے گئے۔ چناچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نہایت عاجزی کے ساتھ رب کی طرف متوجہ ہوئے۔

وقال رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی و علی

والدی (82 : 91) اور کہا اے میرے رب ، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اسا حسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے۔ “

اے رب یہ براہ راست ایک خدا رسیدہ شخص کی دعا ہے۔ اوزعنی یعنی مجھے جمع رکھ میرے شعور اور میرے اعضا جمع رکھ ، میرے دل اور میری زبان کو قابو میں رکھ۔ میرے خیالات اور خلجانات کو منضبط کر دے اور میرے کلمات اور میری عبادات کو مجتمع کر دے۔ میرے اعمال اور میری سرگرمیوں کو منضبط کر دے۔ میری تمام طاقتوں کو مجتع منضبط کر دے۔ میرے وجوہ کو اول سے آخر تک ایک کر دے۔ یہ سب مفہومات ” اوزعنی “ میں شامل ہیں۔ تاکہ میں پورے کا پورا مجسمہ شکر بن جائوں۔ ان انعامات کے عوض جو مجھ پر اور میرے والدین پر کئے گئے ۔

اس انداز تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قلب پر ان انعامات کا اثر تھا۔ ان پر جو اثر تھا اس کی نوعیت بھی اس سے ظاہر ہوتی ہے اور ان کا وجود اور ان کا وجدان اللہ کے فضل و کرم کی اس بارش سے سرشار تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان پر اور ان کے والدین پر اللہ کا دست شفقت ہر وقت نعمت ، رحمت اور فضل و کرم کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔

” اے میرے رب ، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا۔ “

وان اعمل صالحا ترضہ (82 : 91) ” اور میں ایسا عمل کرتا رہوں جو تجھے پسند آئے۔ “ عمل صالح بھی دراصل اللہ کا فضل وکرم ہوتا ہے اور یہ اس شخص پر ہوتا ہے۔ جو اللہ کا شکر گزار ہو اور سلیمان (علیہ السلام) ایسے شکر گزار ہیں کہ اس معاملے میں وہ اللہ کی استعانت طلب کرتے ہیں کہ شکر بھی اللہ کی امداد کے بغیر ممکن نہیں ہے اور توفیق عمل بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اس نکتے کا اچھا شعور تھا۔

وادخلنی برحمتک فی عبادک الصلحین (82 : 91) ” اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔ “ حضرت جانتے ہیں کہ اللہ کے بندوں میں داخل ہوجانا اور ان کے ساتھ ہو لینا بھی اللہ کی رحمت ہے۔ اس سے بھی انسان کی مدد ہوتی ہے۔ اور انسان کو اچھے کام کی توفیق ہوجاتی ہے۔ پھر وہ صالحین کے ساتھ چلتا ہے ، اللہ سے دعا کرتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں میں ہو جن پر تیرا رحم ہوتا ہے ، جو تیری راہ کے سالک ہیں اور اس گروہ میں ہیں۔ حضرت سلیمان اللہ کے سامنے عاجزی کرتے ہیں حالانکہ وہ نبی ہیں انس ، جن اور طیور ان کے لئے مسخر ہیں لیکن وہ پھر بھی اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کا محتاج تصور کرتے ہیں ، وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ان سے عمل صالح کی شکر نعمت میں کتواہی نہ ہوجائے۔ غرض تیز احساس ، ایسا ہی شعور ، اللہ کا خوف و خشیت ، اللہ کی رضا اور رحمت کی طلبگاری کے پختہ شعور کے لمحات ہی ہوتے جن میں اللہ کی نعمتیں اپنے خاص بندوں پر کھلی نازل ہوتی ہیں ، جس طرح حضرت سلیمان پر نازل ہوئیں۔

اب یہاں ہمارے سامنے ایک نہیں ، دو معجزات ہیں۔ ایک معجزہ یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو علم ہوگیا ہے اور دوسرا یہ کہ چیونٹی کو یہ علم ہوگیا ہے کہ یہ لشکر سلیمان (علیہ السلام) کا ہے۔ پہلا معجزہ تو یوں ہے کہ حضرت سلیمان کو اللہ نے تعلیم دی۔ وہ نبی تھے ، انسان تھے اور انسان کے بارے میں ایک انسان سہولت سمجھ سکتا ہے کہ اسے چیونٹی کے احکامات کا علم ہوگیا۔ لیکن دوسرا معجزہ جو چیونٹی کے قول میں ہے تو اس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ چیونٹیوں کو معلوم ہوگیا کہ انسان ایک بڑی مخلوق ہے اور یہ ان کو روند ڈالیں گے۔ ہر زندہ مخلوق کے اندر زندہ بچانے کا داعیہ ہوتا ہے۔ اسی طرح چیونٹیوں میں بھی یہ شعور ہوگا۔ رہی یہ بات کہ ایک چیونٹی کو یہ علم کیسے ہوگیا کہ بڑی مخلوق کا یہ لائو و لشکر سلیمان (علیہ السلام) کا ہے۔ یہ بہرحال ایک معجزہ ہے اور اسے معجزہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ نے اسے معجزانہ طور پر یہ بات سکھا دی تھی۔

اب آیئے سلیمان (علیہ السلام) اور ہد ہد کے واقعہ اور ملکہ سبا کے ساتھ معاملات کی طرف۔ اس قصے میں چھ اہم مناظر ہیں۔ ان مناظر کے درمیان خلا ہے۔ غیر ضروری واقعات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ درمیانی واقعات و مناظر دیکھنے کے بعد خود ذہن میں آجاتے ہیں۔ اس طرح قصے بیان کرنے میں ایک اعلیٰ فنی مظاہرہ ہوتا ہے اور ان مناظر کے درمیان بعض سبق آموز تبصرے بھی ہوتے ہیں جن میں انسانی شعور کو اس مقصد اور ہدف کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے۔ جس کے لئے یہ قصہ لایا گیا ہے۔ اس طرح قصہ لانے کا حقیقی مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ یوں قصے کا فنی اسلوب اظہار کی خوبصورتی اور اخلاقی سبق اور دینی تعلیم دونوں مقاصد پورے ہوجاتے ہیں۔

سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں بات شروع کرتے وقت ہی انس ، جن اور طیور کا ذکر ہوگیا تھا۔ جس میں سلیمان (علیہ السلام) پر اللہ کی نعمتوں میں سے نعمت علم کا اشارہ بھی تھا۔ لہٰذا اس قصے میں انسانوں ، جنوں اور طیور کا اہم رول ہر جگہ موجود ہے اور ان کے سب کردار کا تعلق پھر علم کے ساتھ ہے اور اس سورت کے مقدمہ میں بھی ان اہم کرداروں کی طرف اشارہ تھا اور یہ قرآنی قصوں کی اہم خصوصیت ہے۔

پھر اس قصے میں جو کردار ہیں ان کی شخصیت ان کی ممتاز صفات اور خصوصیات بھی قصے میں موجود ہیں۔ حضرت سلیمان کی شخصیت ، ملکہ سبا کی شخصیت ، ہد ہد کی شخصیت ، ملکہ سبا کی حاشیہ نشینوں کی شخصیات اور ان شخصیات اور کرداروں کی نفسیات ، سوچ اور میلانات سب کے سب قصے میں موجود ہیں۔

……

پہلا منظر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی لشکر کشی کا ہے یا یہ سامان حرب کی سالانہ پریڈ ہے۔ یہ لشکر نکلتا ہے جس میں جن ، انس اور طیور ہیں اور یہ وادی نملہ سے گزرتا ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) چیونٹی کی گفتگو سنتے ہیں اور اللہ کی طرف متوجہ ہو کر شکر بجا لاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللھم زدفزد

اردو ترجمہ

سلیمانؑ اس کی بات پر مُسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور بولا "اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fatabassama dahikan min qawliha waqala rabbi awziAAnee an ashkura niAAmataka allatee anAAamta AAalayya waAAala walidayya waan aAAmala salihan tardahu waadkhilnee birahmatika fee AAibadika alssaliheena

اردو ترجمہ

(ایک اور موقع پر) سلیمانؑ نے پرندوں کا جائزہ لیا اور کہا “کیا بات ہے کہ میں فلاں ہُد ہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں کیا وہ کہیں غائب ہو گیا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watafaqqada alttayra faqala ma liya la ara alhudhuda am kana mina alghaibeena

وتفقد……مبین (13)

اس منظر میں حضرت سلیمان ایک نبی اپنے ایک عظیم و کثیر لشکر میں نظر آتے ہیں۔ جب وہ پرندوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہد ہد کو غائب پاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص ہد ہد تھا جسے اس لشکر میں ہونا چاہئے تھا۔ یہ کوئی عام ہد ہد نہ تھا کہ جس طرح لاکھوں میں سے ایک غائب ہو ۔ یا کرہ ارض کے تمام ہد ہدوں میں سے صرف ایک کم تھا۔ نیز اس سے یہ بھی معلمو ہوتا ہے کہ یہ مخصوص ہد ہد ایک خاص کردار رکھتا تھا اور مخصوص خصوصیات رکھتا تھا۔ یہ نہایت ہی بیدار مغز ، باریک بیں اور عقلمند ہد ہد تھا۔ اور سلیمان (علیہ السلام) کی شخصیت بھی معلوم ہوتی ہے کہ آپ اپنی اس عظیم الشان فوج پر بھی پوری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ فوج کو اول و آخر تک جانتے ہیں۔

وہ اسکیبارے میں ایک اعلیٰ کمانڈر انچیف کے جچے تلے جامع الفاظ میں وپچھتے ہیں۔

مالی لا اری الھدھد ام کان من الغآئبین (82 : 02) ” کیا بات ہے میں ہد ہد کو نہیں دیکھ رہا۔ کیا وہ غائب ہوگیا ہے۔ “ معلوم ہوتا ہے کہ ہد ہد غائب ہے اور سب کو معلوم ہوتا ہے کہ جب بادشاہ اس کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ بغیر اجازت کے غائب ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو اب سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ تاکہ فوج کے اندر افراتفری نہ ہو اور دوسری لوگ بھی ادھر ادھر کھسکنا شروع نہ کردیں۔ کیونکہ بادشاہ کی جانب سے اس انکوائری کے بعد بات تو راز نہ رہی تھی۔ اگر اس پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو یہ دوسرے فوجیوں کے لئے ایک بری مثال ہوگی۔ چناچہ حضرت سلیمان اپنی فوج کے اس سپاہی کی غیر حاضری کو بڑی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

لا عذبنہ عذاباً شدیداً اولا اذبحنہ (82 : 12) ” میں اسے سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر دوں گا۔ “ لیکن بہرحال آپ نبی تھے ……جبار نہ تھے ۔ ابھی تو آپ نے ہد ہد کے عذرات نہیں سنے ، اسے نوٹس نہیں دیا گیا ، لہٰذا فیصلہ عذرات سننے کے بعد ہوگا۔ بغیر سنے فیصلہ اسلامی اصول عدل کے خلاف ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے۔

ولیاتینی بسلطن مبین (82 : 12) ” یا اسے مرے سامنے معقول وجہ پیش کرنی ہوگی۔ “ یعنی ایسی دلیل اور ایسا عذر جس کی وج ہ سے وہ مواخذے سے بچ جائے اور عذر معقول ہو۔

اب پردہ گرتا ہے اس قصے کا یہ پہلا منظر ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) دوسرے کاموں میں مشغول ہیں یا ہد ہدی ہی کی تلاش میں ہیں۔ بہرحال ہد ہد آجاتا ہے۔ اس کے پاس ایک چونکا دینے والی خبر ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے بھی حیران کن اور ہمارے لئے بھی حیرن کن جو ہم آج اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

میں اسے سخت سزا دوں گا، یا ذبح کر دوں گا، ورنہ اسے میرے سامنے معقول وجہ پیش کرنی ہو گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

LaoAAaththibannahu AAathaban shadeedan aw laathbahannahu aw layatiyannee bisultanin mubeenin

اردو ترجمہ

کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اُس نے آ کر کہا "“میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں میں سَبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Famakatha ghayra baAAeedin faqala ahattu bima lam tuhit bihi wajituka min sabain binabain yaqeenin

فمکث ……العظیم (63)

یہ ہد ہد بادشاہ کی دانشمندی اور بہترین تنظیمی صلاحیتوں سے باخبر تھا۔ اس لئے ہد ہد نے پہلے ہی فقرے میں چونکا دینے والی خبر سے اپنی بات کا آغاز کیا تاکہ اس خبر کے بعد اس سے جواب طلبی کا موقع ہنہ رہے اور بادشاہ اس کی بات کو غور سے سنیں۔

احطت بمالم تحط بہ وجئتک من سبابنیا یقین (82 : 22) ” میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں۔ میں سبا کے بارے میں یقینی معلومات لے کر آیا ہوں۔ “ کون بادشاہ ایسا ہوگا اپنے کسی ملازم سے وہ باتیں نہ سنے جن کے بارے میں اسے علم نہیں۔

جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے سننا شروع کیا تو اس نے تفصیلات بتانا شروع کردیں۔ مملکت سبا جنوب یمن میں واقعہ تھی۔ ہد ہد کہتا ہے ہے کہ اس قوم پر عورت حکمرانی کرتی ہے۔

واوتبت من کل شی (82 : 32) ” اسے ہر طرح کا سروسامان بخشا گیا ہے۔ “ یعنی اس کی مملکت عظیم اور مالدار ہے اور اس کے اندر خوشحالی اور تہذیب کے تماماسباب موجود ہیں۔ قوت اور پیداوار

ولھا عرش عظیم (82 : 32) ” اس کا تحت بڑا عظیم الشان ہے۔ “ یعنی جہاں ملکہ جلوس فرماتی ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی مملکت بڑی ہے ، مالدار ہے ، خوشحال ہے اور اس کے اندر صنعت و حرفت کی ترقیات ہیں اور ان لوگوں کی نظریاتی حالت یہ ہے کہ

وجدتھا و قومھا یسجدون للشمس من دون اللہ (82 : 32) ” میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے۔ “ یہاں ہد ہد یہ تفصیل بھی بتاتا ہے کہ شیطان نے ان کے لئے ان کے ان برے اعمال کو مزید کردیا ہے۔ لہٰذا ان کو گمراہ کردیا ہے اور یہ لوگ اللہ وحدہ کی عبادت اور راہ ہدایت نہیں پاتے۔

الذی یخرج الخبء فی السموت والارض (82 : 52) ” وہ اللہ جو آسمان اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے “ خب کا مفہوم وہ چیز ہے جو چھپی ہوئی ہو۔ یہ پوشیدہ چیز خواہ آسمانوں کی بارش ہو ، زمین کے اندر سے نباتات ہوں یا زمین و آسمان کے دوسرے اسرار و رموز ہوں۔ یعنی پردہ غیب کے پیچھے پائے جانے والے عجائب وغرائب جو اللہ نے پیدا کیا ، نفس انسانی کے اندر پائے جانے والے عجائب غرض وہ سب چیزیں جو ظاہر ہیں یا باطن ہیں۔

یہاں تک تو ہد ہد ایک ملزم کی حیثیت میں کھڑا ہے۔ ابھی تک شاہ سلیمان (علیہ السلام) نے ان کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا۔ چناچہ انتظامی لحاظ سے سخت گیر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے وہ اپنی بات کے آخر میں ایک اشارہ کرتا ہے۔ کہ اللہ جو جبار وقہار ہے اور سب کا رب ہے ، صاحب عرش عظیم ہے۔ اس کیا قتدار اور انسانوں کے اقتدار کے درمیان کوئی مماثلت نہیں ہے تاکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ کی اس برتری کے سامنے انسان کی بادشاہت کی کم مائیگی کے بارے میں سوچ لیں۔

اللہ لا الہ الا ھو رب العرش العظیم (82 : 62) ” السجدۃ ” اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے اہل نہیں ہے اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ “ یوں ہد ہد ملکہ سبا کی قوم پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ اشارہ کرتا ہے کہ اسے معاف کردیا جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ہد ہد بھی بڑا عجیب پرندہ ہے۔ یہ نہایت ذہین سمجھدار اور مومن پرندہ ہے۔ اور اس نے نہایت ہی خوبصورت ، جامع اور مانع رپورٹ بھی پیش کردی ہے۔ یہ حالات کو خوب جانتا ہے اور حالات پر ماہرانہ رائے بھی دیتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ یہ ملکہ ہے ، یہ اس کی رعایا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ یہ سورج پرست قوم ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے سجدہ ریزہ ناجائز نہیں ہے۔ وہ اللہ جس نے زمین و آسمان کی تمام ظاہری اور خفیہ چیزوں کو پیدا کیا ۔ وہ رب عرش عظیم ہے۔ ہر ہد ہد تو ایسا علم نہیں رکھتا لہٰذا یہ کوئی مخصوص معجزاتی ہد ہد ہے۔ عام ہد ہد سے علیحدہ۔

اب حضرت سلیمان یوں نہیں کرتے کہ ہد ہد کی رپورٹ کو آنکھیں بند کر کے قوبل کرلیں۔ وہ اس عظیم خبر پر اچھل نہیں پڑتے۔ چناچہ وہ ایک تجربہ کار حکمران کی طرح اس کو تصدیق کے لئے لیتے ہیں۔ بادشاہ کے ساتھ ساتھ ایک عادل نبی اور رسول بھی ہیں۔

378